\id JHN اردو جیو ورژن \ide UTF-8 \h یوحنا \toc1 یوحنا \toc2 یوحنا \toc3 یوح \mt1 یوحنا \c 1 \s1 زندگی کا کلام \p \v 1 ابتدا میں کلام تھا۔ کلام اللہ کے ساتھ تھا اور کلام اللہ تھا۔ \v 2 یہی ابتدا میں اللہ کے ساتھ تھا۔ \v 3 سب کچھ کلام کے وسیلے سے پیدا ہوا۔ مخلوقات کی ایک بھی چیز اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔ \v 4 اُس میں زندگی تھی، اور یہ زندگی انسانوں کا نور تھی۔ \v 5 یہ نور تاریکی میں چمکتا ہے، اور تاریکی نے اُس پر قابو نہ پایا۔ \p \v 6 ایک دن اللہ نے اپنا پیغمبر بھیج دیا، ایک آدمی جس کا نام یحییٰ تھا۔ \v 7 وہ نور کی گواہی دینے کے لئے آیا۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ اُس کی گواہی کی بنا پر ایمان لائیں۔ \v 8 وہ خود تو نور نہ تھا بلکہ اُسے صرف نور کی گواہی دینی تھی۔ \v 9 حقیقی نور جو ہر شخص کو روشن کرتا ہے دنیا میں آنے کو تھا۔ \p \v 10 گو کلام دنیا میں تھا اور دنیا اُس کے وسیلے سے پیدا ہوئی توبھی دنیا نے اُسے نہ پہچانا۔ \v 11 وہ اُس میں آیا جو اُس کا اپنا تھا، لیکن اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا۔ \v 12 توبھی کچھ اُسے قبول کر کے اُس کے نام پر ایمان لائے۔ اُنہیں اُس نے اللہ کے فرزند بننے کا حق بخش دیا، \v 13 ایسے فرزند جو نہ فطری طور پر، نہ کسی انسان یا مرد کے منصوبے سے پیدا ہوئے بلکہ اللہ سے۔ \p \v 14 کلام انسان بن کر ہمارے درمیان رہائش پذیر ہوا اور ہم نے اُس کے جلال کا مشاہدہ کیا۔ وہ فضل اور سچائی سے معمور تھا اور اُس کا جلال باپ کے اکلوتے فرزند کا سا تھا۔ \p \v 15 یحییٰ اُس کے بارے میں گواہی دے کر پکار اُٹھا، ”یہ وہی ہے جس کے بارے میں مَیں نے کہا، ’ایک میرے بعد آنے والا ہے جو مجھ سے بڑا ہے، کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا‘۔“ \p \v 16 اُس کی کثرت سے ہم سب نے فضل پر فضل پایا۔ \v 17 کیونکہ شریعت موسیٰ کی معرفت دی گئی، لیکن اللہ کا فضل اور سچائی عیسیٰ مسیح کے وسیلے سے قائم ہوئی۔ \v 18 کسی نے کبھی بھی اللہ کو نہیں دیکھا۔ لیکن اکلوتا فرزند جو اللہ کی گود میں ہے اُسی نے اللہ کو ہم پر ظاہر کیا ہے۔ \s1 یحییٰ بپتسمہ دینے والے کا پیغام \p \v 19 یہ یحییٰ کی گواہی ہے جب یروشلم کے یہودیوں نے اماموں اور لاویوں کو اُس کے پاس بھیج کر پوچھا، ”آپ کون ہیں؟“ \p \v 20 اُس نے انکار نہ کیا بلکہ صاف تسلیم کیا، ”مَیں مسیح نہیں ہوں۔“ \p \v 21 اُنہوں نے پوچھا، ”تو پھر آپ کون ہیں؟ کیا آپ الیاس ہیں؟“ \p اُس نے جواب دیا، ”نہیں، مَیں وہ نہیں ہوں۔“ \p اُنہوں نے سوال کیا، ”کیا آپ آنے والا نبی ہیں؟“ \p اُس نے کہا، ”نہیں۔“ \p \v 22 ”تو پھر ہمیں بتائیں کہ آپ کون ہیں؟ جنہوں نے ہمیں بھیجا ہے اُنہیں ہمیں کوئی نہ کوئی جواب دینا ہے۔ آپ خود اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں؟“ \p \v 23 یحییٰ نے یسعیاہ نبی کا حوالہ دے کر جواب دیا، ”مَیں ریگستان میں وہ آواز ہوں جو پکار رہی ہے، رب کا راستہ سیدھا بناؤ۔“ \p \v 24 بھیجے گئے لوگ فریسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ \v 25 اُنہوں نے پوچھا، ”اگر آپ نہ مسیح ہیں، نہ الیاس یا آنے والا نبی تو پھر آپ بپتسمہ کیوں دے رہے ہیں؟“ \p \v 26 یحییٰ نے جواب دیا، ”مَیں تو پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں، لیکن تمہارے درمیان ہی ایک کھڑا ہے جس کو تم نہیں جانتے۔ \v 27 وہی میرے بعد آنے والا ہے اور مَیں اُس کے جوتوں کے تسمے بھی کھولنے کے لائق نہیں۔“ \p \v 28 یہ یردن کے پار بیت عنیاہ میں ہوا جہاں یحییٰ بپتسمہ دے رہا تھا۔ \s1 اللہ کا لیلا \p \v 29 اگلے دن یحییٰ نے عیسیٰ کو اپنے پاس آتے دیکھا۔ اُس نے کہا، ”دیکھو، یہ اللہ کا لیلا ہے جو دنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ \v 30 یہ وہی ہے جس کے بارے میں مَیں نے کہا، ’ایک میرے بعد آنے والا ہے جو مجھ سے بڑا ہے، کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔‘ \v 31 مَیں تو اُسے نہیں جانتا تھا، لیکن مَیں اِس لئے آ کر پانی سے بپتسمہ دینے لگا تاکہ وہ اسرائیل پر ظاہر ہو جائے۔“ \p \v 32 اور یحییٰ نے یہ گواہی دی، ”مَیں نے دیکھا کہ روح القدس کبوتر کی طرح آسمان پر سے اُتر کر اُس پر ٹھہر گیا۔ \v 33 مَیں تو اُسے نہیں جانتا تھا، لیکن جب اللہ نے مجھے بپتسمہ دینے کے لئے بھیجا تو اُس نے مجھے بتایا، ’تُو دیکھے گا کہ روح القدس اُتر کر کسی پر ٹھہر جائے گا۔ یہ وہی ہو گا جو روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔‘ \v 34 اب مَیں نے دیکھا ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کا فرزند ہے۔“ \s1 عیسیٰ کے پہلے شاگرد \p \v 35 اگلے دن یحییٰ دوبارہ وہیں کھڑا تھا۔ اُس کے دو شاگرد ساتھ تھے۔ \v 36 اُس نے عیسیٰ کو وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا تو کہا، ”دیکھو، یہ اللہ کا لیلا ہے!“ \p \v 37 اُس کی یہ بات سن کر اُس کے دو شاگرد عیسیٰ کے پیچھے ہو لئے۔ \v 38 عیسیٰ نے مُڑ کر دیکھا کہ یہ میرے پیچھے چل رہے ہیں تو اُس نے پوچھا، ”تم کیا چاہتے ہو؟“ \p اُنہوں نے کہا، ”اُستاد، آپ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟“ \p \v 39 اُس نے جواب دیا، ”آؤ، خود دیکھ لو۔“ چنانچہ وہ اُس کے ساتھ گئے۔ اُنہوں نے وہ جگہ دیکھی جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا اور دن کے باقی وقت اُس کے پاس رہے۔ شام کے تقریباً چار بج گئے تھے۔ \p \v 40 شمعون پطرس کا بھائی اندریاس اُن دو شاگردوں میں سے ایک تھا جو یحییٰ کی بات سن کر عیسیٰ کے پیچھے ہو لئے تھے۔ \v 41 اب اُس کی پہلی ملاقات اُس کے اپنے بھائی شمعون سے ہوئی۔ اُس نے اُسے بتایا، ”ہمیں مسیح مل گیا ہے۔“ (مسیح کا مطلب ’مسح کیا ہوا شخص‘ ہے۔) \v 42 پھر وہ اُسے عیسیٰ کے پاس لے گیا۔ \p اُسے دیکھ کر عیسیٰ نے کہا، ”تُو یوحنا کا بیٹا شمعون ہے۔ تُو کیفا کہلائے گا۔“ (اِس کا یونانی ترجمہ پطرس یعنی پتھر ہے۔) \s1 عیسیٰ فلپّس اور نتن ایل کو بُلاتا ہے \p \v 43 اگلے دن عیسیٰ نے گلیل جانے کا ارادہ کیا۔ فلپّس سے ملا تو اُس سے کہا، ”میرے پیچھے ہو لے۔“ \v 44 اندریاس اور پطرس کی طرح فلپّس کا وطنی شہر بیت صیدا تھا۔ \v 45 فلپّس نتن ایل سے ملا، اور اُس نے اُس سے کہا، ”ہمیں وہی شخص مل گیا جس کا ذکر موسیٰ نے توریت اور نبیوں نے اپنے صحیفوں میں کیا ہے۔ اُس کا نام عیسیٰ بن یوسف ہے اور وہ ناصرت کا رہنے والا ہے۔“ \p \v 46 نتن ایل نے کہا، ”ناصرت؟ کیا ناصرت سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟“ \p فلپّس نے جواب دیا، ”آ اور خود دیکھ لے۔“ \p \v 47 جب عیسیٰ نے نتن ایل کو آتے دیکھا تو اُس نے کہا، ”لو، یہ سچا اسرائیلی ہے جس میں مکر نہیں۔“ \p \v 48 نتن ایل نے پوچھا، ”آپ مجھے کہاں سے جانتے ہیں؟“ \p عیسیٰ نے جواب دیا، ”اِس سے پہلے کہ فلپّس نے تجھے بُلایا مَیں نے تجھے دیکھا۔ تُو انجیر کے درخت کے سائے میں تھا۔“ \p \v 49 نتن ایل نے کہا، ”اُستاد، آپ اللہ کے فرزند ہیں، آپ اسرائیل کے بادشاہ ہیں۔“ \p \v 50 عیسیٰ نے اُس سے پوچھا، ”اچھا، میری یہ بات سن کر کہ مَیں نے تجھے انجیر کے درخت کے سائے میں دیکھا تُو ایمان لایا ہے؟ تُو اِس سے کہیں بڑی باتیں دیکھے گا۔“ \v 51 اُس نے بات جاری رکھی، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ تم آسمان کو کھلا اور اللہ کے فرشتوں کو اوپر چڑھتے اور ابنِ آدم پر اُترتے دیکھو گے۔“ \c 2 \s1 قانا میں شادی \p \v 1 تیسرے دن گلیل کے گاؤں قانا میں ایک شادی ہوئی۔ عیسیٰ کی ماں وہاں تھی \v 2 اور عیسیٰ اور اُس کے شاگردوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ \v 3 مَے ختم ہو گئی تو عیسیٰ کی ماں نے اُس سے کہا، ”اُن کے پاس مَے نہیں رہی۔“ \p \v 4 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اے خاتون، میرا آپ سے کیا واسطہ؟ میرا وقت ابھی نہیں آیا۔“ \p \v 5 لیکن اُس کی ماں نے نوکروں کو بتایا، ”جو کچھ وہ تم کو بتائے وہ کرو۔“ \v 6 وہاں پتھر کے چھ مٹکے پڑے تھے جنہیں یہودی دینی غسل کے لئے استعمال کرتے تھے۔ ہر ایک میں تقریباً 100 لٹر کی گنجائش تھی۔ \v 7 عیسیٰ نے نوکروں سے کہا، ”مٹکوں کو پانی سے بھر دو۔“ چنانچہ اُنہوں نے اُنہیں لبالب بھر دیا۔ \v 8 پھر اُس نے کہا، ”اب کچھ نکال کر ضیافت کا انتظام چلانے والے کے پاس لے جاؤ۔“ اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔ \v 9 جوں ہی ضیافت کا انتظام چلانے والے نے وہ پانی چکھا جو مَے میں بدل گیا تھا تو اُس نے دُولھے کو بُلایا۔ (اُسے معلوم نہ تھا کہ یہ کہاں سے آئی ہے، اگرچہ اُن نوکروں کو پتا تھا جو اُسے نکال کر لائے تھے۔) \v 10 اُس نے کہا، ”ہر میزبان پہلے اچھی قسم کی مَے پینے کے لئے پیش کرتا ہے۔ پھر جب لوگوں کو نشہ چڑھنے لگے تو وہ نسبتاً گھٹیا قسم کی مَے پلانے لگتا ہے۔ لیکن آپ نے اچھی مَے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔“ \p \v 11 یوں عیسیٰ نے گلیل کے قانا میں یہ پہلا الٰہی نشان دکھا کر اپنے جلال کا اظہار کیا۔ یہ دیکھ کر اُس کے شاگرد اُس پر ایمان لائے۔ \p \v 12 اِس کے بعد وہ اپنی ماں، اپنے بھائیوں اور اپنے شاگردوں کے ساتھ کفرنحوم کو چلا گیا۔ وہاں وہ تھوڑے دن رہے۔ \s1 عیسیٰ بیت المُقدّس میں جاتا ہے \p \v 13 جب یہودی عیدِ فسح قریب آ گئی تو عیسیٰ یروشلم چلا گیا۔ \v 14 بیت المُقدّس میں جا کر اُس نے دیکھا کہ کئی لوگ اُس میں گائےبَیل، بھیڑیں اور کبوتر بیچ رہے ہیں۔ دوسرے میز پر بیٹھے غیرملکی سِکے بیت المُقدّس کے سِکوں میں بدل رہے ہیں۔ \v 15 پھر عیسیٰ نے رسّیوں کا کوڑا بنا کر سب کو بیت المُقدّس سے نکال دیا۔ اُس نے بھیڑوں اور گائےبَیلوں کو باہر ہانک دیا، پیسے بدلنے والوں کے سِکے بکھیر دیئے اور اُن کی میزیں اُلٹ دیں۔ \v 16 کبوتر بیچنے والوں کو اُس نے کہا، ”اِسے لے جاؤ۔ میرے باپ کے گھر کو منڈی میں مت بدلو۔“ \v 17 یہ دیکھ کر عیسیٰ کے شاگردوں کو کلامِ مُقدّس کا یہ حوالہ یاد آیا کہ ”تیرے گھر کی غیرت مجھے کھا جائے گی۔“ \p \v 18 یہودیوں نے جواب میں پوچھا، ”آپ ہمیں کیا الٰہی نشان دکھا سکتے ہیں تاکہ ہمیں یقین آئے کہ آپ کو یہ کرنے کا اختیار ہے؟“ \p \v 19 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اِس مقدِس کو ڈھا دو تو مَیں اِسے تین دن کے اندر دوبارہ تعمیر کر دوں گا۔“ \p \v 20 یہودیوں نے کہا، ”بیت المُقدّس کو تعمیر کرنے میں 46 سال لگ گئے تھے اور آپ اِسے تین دن میں تعمیر کرنا چاہتے ہیں؟“ \p \v 21 لیکن جب عیسیٰ نے ”اِس مقدِس“ کے الفاظ استعمال کئے تو اِس کا مطلب اُس کا اپنا بدن تھا۔ \v 22 اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُس کے شاگردوں کو اُس کی یہ بات یاد آئی۔ پھر وہ کلامِ مُقدّس اور اُن باتوں پر ایمان لائے جو عیسیٰ نے کی تھیں۔ \s1 عیسیٰ انسانی فطرت سے واقف ہے \p \v 23 جب عیسیٰ فسح کی عید کے لئے یروشلم میں تھا تو بہت سے لوگ اُس کے پیش کردہ الٰہی نشانوں کو دیکھ کر اُس کے نام پر ایمان لانے لگے۔ \v 24 لیکن اُس کو اُن پر اعتماد نہیں تھا، کیونکہ وہ سب کو جانتا تھا۔ \v 25 اور اُسے انسان کے بارے میں کسی کی گواہی کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ انسان کے اندر کیا کچھ ہے۔ \c 3 \s1 نیکدیمس کے ساتھ ملاقات \p \v 1 فریسی فرقے کا ایک آدمی بنام نیکدیمس تھا جو یہودی عدالتِ عالیہ کا رُکن تھا۔ \v 2 وہ رات کے وقت عیسیٰ کے پاس آیا اور کہا، ”اُستاد، ہم جانتے ہیں کہ آپ ایسے اُستاد ہیں جو اللہ کی طرف سے آئے ہیں، کیونکہ جو الٰہی نشان آپ دکھاتے ہیں وہ صرف ایسا شخص ہی دکھا سکتا ہے جس کے ساتھ اللہ ہو۔“ \p \v 3 عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تجھے سچ بتاتا ہوں، صرف وہ شخص اللہ کی بادشاہی کو دیکھ سکتا ہے جو نئے سرے سے پیدا ہوا ہو۔“ \p \v 4 نیکدیمس نے اعتراض کیا، ”کیا مطلب؟ بوڑھا آدمی کس طرح نئے سرے سے پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ماں کے پیٹ میں جا کر پیدا ہو سکتا ہے؟“ \p \v 5 عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تجھے سچ بتاتا ہوں، صرف وہ شخص اللہ کی بادشاہی میں داخل ہو سکتا ہے جو پانی اور روح سے پیدا ہوا ہو۔ \v 6 جو کچھ جسم سے پیدا ہوتا ہے وہ جسمانی ہے، لیکن جو روح سے پیدا ہوتا ہے وہ روحانی ہے۔ \v 7 اِس لئے تُو تعجب نہ کر کہ مَیں کہتا ہوں، ’تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔‘ \v 8 ہَوا جہاں چاہے چلتی ہے۔ تُو اُس کی آواز تو سنتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ کہاں سے آتی اور کہاں کو جاتی ہے۔ یہی حالت ہر اُس شخص کی ہے جو روح سے پیدا ہوا ہے۔“ \p \v 9 نیکدیمس نے پوچھا، ”یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟“ \p \v 10 عیسیٰ نے جواب دیا، ”تُو تو اسرائیل کا اُستاد ہے۔ کیا اِس کے باوجود بھی یہ باتیں نہیں سمجھتا؟ \v 11 مَیں تجھ کو سچ بتاتا ہوں، ہم وہ کچھ بیان کرتے ہیں جو ہم جانتے ہیں اور اُس کی گواہی دیتے ہیں جو ہم نے خود دیکھا ہے۔ توبھی تم لوگ ہماری گواہی قبول نہیں کرتے۔ \v 12 مَیں نے تم کو دنیاوی باتیں سنائی ہیں اور تم اُن پر ایمان نہیں رکھتے۔ تو پھر تم کیونکر ایمان لاؤ گے اگر تمہیں آسمانی باتوں کے بارے میں بتاؤں؟ \v 13 آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوائے ابنِ آدم کے، جو آسمان سے اُترا ہے۔ \p \v 14 اور جس طرح موسیٰ نے ریگستان میں سانپ کو لکڑی پر لٹکا کر اونچا کر دیا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابنِ آدم کو بھی اونچے پر چڑھایا جائے، \v 15 تاکہ ہر ایک کو جو اُس پر ایمان لائے گا ابدی زندگی مل جائے۔ \v 16 کیونکہ اللہ نے دنیا سے اِتنی محبت رکھی کہ اُس نے اپنے اکلوتے فرزند کو بخش دیا، تاکہ جو بھی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ابدی زندگی پائے۔ \v 17 کیونکہ اللہ نے اپنے فرزند کو اِس لئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ وہ دنیا کو مجرم ٹھہرائے بلکہ اِس لئے کہ وہ اُسے نجات دے۔ \p \v 18 جو بھی اُس پر ایمان لایا ہے اُسے مجرم نہیں قرار دیا جائے گا، لیکن جو ایمان نہیں رکھتا اُسے مجرم ٹھہرایا جا چکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے اکلوتے فرزند کے نام پر ایمان نہیں لایا۔ \v 19 اور لوگوں کو مجرم ٹھہرانے کا سبب یہ ہے کہ گو اللہ کا نور اِس دنیا میں آیا، لیکن لوگوں نے نور کی نسبت اندھیرے کو زیادہ پیار کیا، کیونکہ اُن کے کام بُرے تھے۔ \v 20 جو بھی غلط کام کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور اُس کے قریب نہیں آتا تاکہ اُس کے بُرے کاموں کا پول نہ کھل جائے۔ \v 21 لیکن جو سچا کام کرتا ہے وہ نور کے پاس آتا ہے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اُس کے کام اللہ کے وسیلے سے ہوئے ہیں۔“ \s1 عیسیٰ اور یحییٰ \p \v 22 اِس کے بعد عیسیٰ اپنے شاگردوں کے ساتھ یہودیہ کے علاقے میں گیا۔ وہاں وہ کچھ دیر کے لئے اُن کے ساتھ ٹھہرا اور لوگوں کو بپتسمہ دینے لگا۔ \v 23 اُس وقت یحییٰ بھی شالیم کے قریب واقع مقام عینون میں بپتسمہ دے رہا تھا، کیونکہ وہاں پانی بہت تھا۔ اُس جگہ پر لوگ بپتسمہ لینے کے لئے آتے رہے۔ \v 24 (یحییٰ کو اب تک جیل میں نہیں ڈالا گیا تھا۔) \p \v 25 ایک دن یحییٰ کے شاگردوں کا کسی یہودی کے ساتھ مباحثہ چھڑ گیا۔ زیرِ غور مضمون دینی غسل تھا۔ \v 26 وہ یحییٰ کے پاس آئے اور کہنے لگے، ”اُستاد، جس آدمی سے آپ کی دریائے یردن کے پار ملاقات ہوئی اور جس کے بارے میں آپ نے گواہی دی کہ وہ مسیح ہے، وہ بھی لوگوں کو بپتسمہ دے رہا ہے۔ اب سب لوگ اُسی کے پاس جا رہے ہیں۔“ \p \v 27 یحییٰ نے جواب دیا، ”ہر ایک کو صرف وہ کچھ ملتا ہے جو اُسے آسمان سے دیا جاتا ہے۔ \v 28 تم خود اِس کے گواہ ہو کہ مَیں نے کہا، ’مَیں مسیح نہیں ہوں بلکہ مجھے اُس کے آگے آگے بھیجا گیا ہے۔‘ \v 29 دُولھا ہی دُلھن سے شادی کرتا ہے، اور دُلھن اُسی کی ہے۔ اُس کا دوست صرف ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور دُولھے کی آواز سن سن کر دوست کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی۔ مَیں بھی ایسا ہی دوست ہوں جس کی خوشی پوری ہو گئی ہے۔ \v 30 لازم ہے کہ وہ بڑھتا جائے جبکہ مَیں گھٹتا جاؤں۔ \s1 آسمان سے آنے والا \p \v 31 جو آسمان پر سے آیا ہے اُس کا اختیار سب پر ہے۔ جو دنیا سے ہے اُس کا تعلق دنیا سے ہی ہے اور وہ دنیاوی باتیں کرتا ہے۔ لیکن جو آسمان پر سے آیا ہے اُس کا اختیار سب پر ہے۔ \v 32 جو کچھ اُس نے خود دیکھا اور سنا ہے اُسی کی گواہی دیتا ہے۔ توبھی کوئی اُس کی گواہی کو قبول نہیں کرتا۔ \v 33 لیکن جس نے اُسے قبول کیا اُس نے اِس کی تصدیق کی ہے کہ اللہ سچا ہے۔ \v 34 جسے اللہ نے بھیجا ہے وہ اللہ کی باتیں سناتا ہے، کیونکہ اللہ اپنا روح ناپ تول کر نہیں دیتا۔ \v 35 باپ اپنے فرزند کو پیار کرتا ہے، اور اُس نے سب کچھ اُس کے سپرد کر دیا ہے۔ \v 36 چنانچہ جو اللہ کے فرزند پر ایمان لاتا ہے ابدی زندگی اُس کی ہے۔ لیکن جو فرزند کو رد کرے وہ اِس زندگی کو نہیں دیکھے گا بلکہ اللہ کا غضب اُس پر ٹھہرا رہے گا۔“ \c 4 \s1 عیسیٰ اور سامری عورت \p \v 1 فریسیوں کو اطلاع ملی کہ عیسیٰ یحییٰ کی نسبت زیادہ شاگرد بنا رہا اور لوگوں کو بپتسمہ دے رہا ہے، \v 2 حالانکہ وہ خود بپتسمہ نہیں دیتا تھا بلکہ اُس کے شاگرد۔ \v 3 جب خداوند عیسیٰ کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ یہودیہ کو چھوڑ کر گلیل کو واپس چلا گیا۔ \v 4 وہاں پہنچنے کے لئے اُسے سامریہ میں سے گزرنا تھا۔ \p \v 5 چلتے چلتے وہ ایک شہر کے پاس پہنچ گیا جس کا نام سوخار تھا۔ یہ اُس زمین کے قریب تھا جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دی تھی۔ \v 6 وہاں یعقوب کا کنواں تھا۔ عیسیٰ سفر سے تھک گیا تھا، اِس لئے وہ کنوئیں پر بیٹھ گیا۔ دوپہر کے تقریباً بارہ بج گئے تھے۔ \p \v 7 ایک سامری عورت پانی بھرنے آئی۔ عیسیٰ نے اُس سے کہا، ”مجھے ذرا پانی پلا۔“ \v 8 (اُس کے شاگرد کھانا خریدنے کے لئے شہر گئے ہوئے تھے۔) \p \v 9 سامری عورت نے تعجب کیا، کیونکہ یہودی سامریوں کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کرتے ہیں۔ اُس نے کہا، ”آپ تو یہودی ہیں، اور مَیں سامری عورت ہوں۔ آپ کس طرح مجھ سے پانی پلانے کی درخواست کر سکتے ہیں؟“ \p \v 10 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر تُو اُس بخشش سے واقف ہوتی جو اللہ تجھ کو دینا چاہتا ہے اور تُو اُسے جانتی جو تجھ سے پانی مانگ رہا ہے تو تُو اُس سے مانگتی اور وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔“ \p \v 11 خاتون نے کہا، ”خداوند، آپ کے پاس تو بالٹی نہیں ہے اور یہ کنواں گہرا ہے۔ آپ کو زندگی کا یہ پانی کہاں سے ملا؟ \v 12 کیا آپ ہمارے باپ یعقوب سے بڑے ہیں جس نے ہمیں یہ کنواں دیا اور جو خود بھی اپنے بیٹوں اور ریوڑوں سمیت اُس کے پانی سے لطف اندوز ہوا؟“ \p \v 13 عیسیٰ نے جواب دیا، ”جو بھی اِس پانی میں سے پیئے اُسے دوبارہ پیاس لگے گی۔ \v 14 لیکن جسے مَیں پانی پلا دوں اُسے بعد میں کبھی بھی پیاس نہیں لگے گی۔ بلکہ جو پانی مَیں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جس سے پانی پھوٹ کر ابدی زندگی مہیا کرے گا۔“ \p \v 15 عورت نے اُس سے کہا، ”خداوند، مجھے یہ پانی پلا دیں۔ پھر مجھے کبھی بھی پیاس نہیں لگے گی اور مجھے بار بار یہاں آ کر پانی بھرنا نہیں پڑے گا۔“ \p \v 16 عیسیٰ نے کہا، ”جا، اپنے خاوند کو بُلا لا۔“ \p \v 17 عورت نے جواب دیا، ”میرا کوئی خاوند نہیں ہے۔“ \p عیسیٰ نے کہا، ”تُو نے صحیح کہا کہ میرا خاوند نہیں ہے، \v 18 کیونکہ تیری شادی پانچ مردوں سے ہو چکی ہے اور جس آدمی کے ساتھ تُو اب رہ رہی ہے وہ تیرا شوہر نہیں ہے۔ تیری بات بالکل درست ہے۔“ \p \v 19 عورت نے کہا، ”خداوند، مَیں دیکھتی ہوں کہ آپ نبی ہیں۔ \v 20 ہمارے باپ دادا تو اِسی پہاڑ پر عبادت کرتے تھے جبکہ آپ یہودی لوگ اصرار کرتے ہیں کہ یروشلم وہ مرکز ہے جہاں ہمیں عبادت کرنی ہے۔“ \p \v 21 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اے خاتون، یقین جان کہ وہ وقت آئے گا جب تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی عبادت کرو گے، نہ یروشلم میں۔ \v 22 تم سامری اُس کی پرستش کرتے ہو جسے نہیں جانتے۔ اِس کے مقابلے میں ہم اُس کی پرستش کرتے ہیں جسے جانتے ہیں، کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ \v 23 لیکن وہ وقت آ رہا ہے بلکہ پہنچ چکا ہے جب حقیقی پرستار روح اور سچائی سے باپ کی پرستش کریں گے، کیونکہ باپ ایسے ہی پرستار چاہتا ہے۔ \v 24 اللہ روح ہے، اِس لئے لازم ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائی سے اُس کی پرستش کریں۔“ \p \v 25 عورت نے اُس سے کہا، ”مجھے معلوم ہے کہ مسیح یعنی مسح کیا ہوا شخص آ رہا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب کچھ بتا دے گا۔“ \p \v 26 اِس پر عیسیٰ نے اُسے بتایا، ”مَیں ہی مسیح ہوں جو تیرے ساتھ بات کر رہا ہوں۔“ \p \v 27 اُسی لمحے شاگرد پہنچ گئے۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ عیسیٰ ایک عورت سے بات کر رہا ہے تو تعجب کیا۔ لیکن کسی نے پوچھنے کی جرأت نہ کی کہ ”آپ کیا چاہتے ہیں؟“ یا ”آپ اِس عورت سے کیوں باتیں کر رہے ہیں؟“ \p \v 28 عورت اپنا گھڑا چھوڑ کر شہر میں چلی گئی اور وہاں لوگوں سے کہنے لگی، \v 29 ”آؤ، ایک آدمی کو دیکھو جس نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے جو مَیں نے کیا ہے۔ وہ مسیح تو نہیں ہے؟“ \v 30 چنانچہ وہ شہر سے نکل کر عیسیٰ کے پاس آئے۔ \p \v 31 اِتنے میں شاگرد زور دے کر عیسیٰ سے کہنے لگے، ”اُستاد، کچھ کھانا کھا لیں۔“ \p \v 32 لیکن اُس نے جواب دیا، ”میرے پاس کھانے کی ایسی چیز ہے جس سے تم واقف نہیں ہو۔“ \p \v 33 شاگرد آپس میں کہنے لگے، ”کیا کوئی اُس کے پاس کھانا لے کر آیا؟“ \p \v 34 لیکن عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”میرا کھانا یہ ہے کہ اُس کی مرضی پوری کروں جس نے مجھے بھیجا ہے اور اُس کا کام تکمیل تک پہنچاؤں۔ \v 35 تم تو خود کہتے ہو، ’مزید چار مہینے تک فصل پک جائے گی۔‘ لیکن مَیں تم کو بتاتا ہوں، اپنی نظر اُٹھا کر کھیتوں پر غور کرو۔ فصل پک گئی ہے اور کٹائی کے لئے تیار ہے۔ \v 36 فصل کی کٹائی شروع ہو چکی ہے۔ کٹائی کرنے والے کو مزدوری مل رہی ہے اور وہ فصل کو ابدی زندگی کے لئے جمع کر رہا ہے تاکہ بیج بونے والا اور کٹائی کرنے والا دونوں مل کر خوشی منا سکیں۔ \v 37 یوں یہ کہاوت درست ثابت ہو جاتی ہے کہ ’ایک بیج بوتا اور دوسرا فصل کاٹتا ہے۔‘ \v 38 مَیں نے تم کو اُس فصل کی کٹائی کرنے کے لئے بھیج دیا ہے جسے تیار کرنے کے لئے تم نے محنت نہیں کی۔ اَوروں نے خوب محنت کی ہے اور تم اِس سے فائدہ اُٹھا کر فصل جمع کر سکتے ہو۔“ \p \v 39 اُس شہر کے بہت سے سامری عیسیٰ پر ایمان لائے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس عورت نے اُس کے بارے میں یہ گواہی دی تھی، ”اُس نے مجھے سب کچھ بتا دیا جو مَیں نے کیا ہے۔“ \v 40 جب وہ اُس کے پاس آئے تو اُنہوں نے منت کی، ”ہمارے پاس ٹھہریں۔“ چنانچہ وہ دو دن وہاں رہا۔ \p \v 41 اور اُس کی باتیں سن کر مزید بہت سے لوگ ایمان لائے۔ \v 42 اُنہوں نے عورت سے کہا، ”اب ہم تیری باتوں کی بنا پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ اِس لئے کہ ہم نے خود سن اور جان لیا ہے کہ واقعی دنیا کا نجات دہندہ یہی ہے۔“ \s1 افسر کے بیٹے کی شفا \p \v 43 وہاں دو دن گزارنے کے بعد عیسیٰ گلیل کو چلا گیا۔ \v 44 اُس نے خود گواہی دے کر کہا تھا کہ نبی کی اُس کے اپنے وطن میں عزت نہیں ہوتی۔ \v 45 اب جب وہ گلیل پہنچا تو مقامی لوگوں نے اُسے خوش آمدید کہا، کیونکہ وہ فسح کی عید منانے کے لئے یروشلم آئے تھے اور اُنہوں نے سب کچھ دیکھا جو عیسیٰ نے وہاں کیا تھا۔ \p \v 46 پھر وہ دوبارہ قانا میں آیا جہاں اُس نے پانی کو مَے میں بدل دیا تھا۔ اُس علاقے میں ایک شاہی افسر تھا جس کا بیٹا کفرنحوم میں بیمار پڑا تھا۔ \v 47 جب اُسے اطلاع ملی کہ عیسیٰ یہودیہ سے گلیل پہنچ گیا ہے تو وہ اُس کے پاس گیا اور گزارش کی، ”قانا سے میرے پاس اُتر آئیں اور میرے بیٹے کو شفا دیں۔ کیونکہ وہ مرنے کو ہے۔“ \v 48 عیسیٰ نے اُس سے کہا، ”جب تک تم لوگ الٰہی نشان اور معجزے نہیں دیکھتے ایمان نہیں لاتے۔“ \p \v 49 شاہی افسر نے کہا، ”خداوند آئیں، اِس سے پہلے کہ میرا لڑکا مر جائے۔“ \p \v 50 عیسیٰ نے جواب دیا، ”جا، تیرا بیٹا زندہ رہے گا۔“ \p آدمی عیسیٰ کی بات پر ایمان لایا اور اپنے گھر چلا گیا۔ \v 51 وہ ابھی اُتر رہا تھا کہ اُس کے نوکر اُس سے ملے۔ اُنہوں نے اُسے اطلاع دی کہ بیٹا زندہ ہے۔ \p \v 52 اُس نے اُن سے پوچھ گچھ کی کہ اُس کی طبیعت کس وقت سے بہتر ہونے لگی تھی۔ اُنہوں نے جواب دیا، ”بخار کل دوپہر ایک بجے اُتر گیا۔“ \v 53 پھر باپ نے جان لیا کہ اُسی وقت عیسیٰ نے اُسے بتایا تھا، ”تمہارا بیٹا زندہ رہے گا۔“ اور وہ اپنے پورے گھرانے سمیت اُس پر ایمان لایا۔ \p \v 54 یوں عیسیٰ نے اپنا دوسرا الٰہی نشان اُس وقت دکھایا جب وہ یہودیہ سے گلیل میں آیا تھا۔ \c 5 \s1 بیت المُقدّس کے حوض پر شفا \p \v 1 کچھ دیر کے بعد عیسیٰ کسی یہودی عید کے موقع پر یروشلم گیا۔ \v 2 شہر میں ایک حوض تھا جس کا نام اَرامی زبان میں بیت حسدا تھا۔ اُس کے پانچ بڑے برآمدے تھے اور وہ شہر کے اُس دروازے کے قریب تھا جس کا نام ’بھیڑوں کا دروازہ‘ ہے۔ \v 3 اِن برآمدوں میں بےشمار معذور لوگ پڑے رہتے تھے۔ یہ اندھے، لنگڑے اور مفلوج پانی کے ہلنے کے انتظار میں رہتے تھے۔ \v 4 [کیونکہ گاہے بگاہے رب کا فرشتہ اُتر کر پانی کو ہلا دیتا تھا۔ جو بھی اُس وقت اُس میں پہلے داخل ہو جاتا اُسے شفا مل جاتی تھی خواہ اُس کی بیماری کوئی بھی کیوں نہ ہوتی۔] \v 5 مریضوں میں سے ایک آدمی 38 سال سے معذور تھا۔ \v 6 جب عیسیٰ نے اُسے وہاں پڑا دیکھا اور اُسے معلوم ہوا کہ یہ اِتنی دیر سے اِس حالت میں ہے تو اُس نے پوچھا، ”کیا تُو تندرست ہونا چاہتا ہے؟“ \p \v 7 اُس نے جواب دیا، ”خداوند، یہ مشکل ہے۔ میرا کوئی ساتھی نہیں جو مجھے اُٹھا کر پانی میں جب اُسے ہلایا جاتا ہے لے جائے۔ اِس لئے میرے وہاں پہنچنے میں اِتنی دیر لگ جاتی ہے کہ کوئی اَور مجھ سے پہلے پانی میں اُتر جاتا ہے۔“ \p \v 8 عیسیٰ نے کہا، ”اُٹھ، اپنا بستر اُٹھا کر چل پھر!“ \v 9 وہ آدمی فوراً بحال ہو گیا۔ اُس نے اپنا بستر اُٹھایا اور چلنے پھرنے لگا۔ \p یہ واقعہ سبت کے دن ہوا۔ \v 10 اِس لئے یہودیوں نے شفایاب آدمی کو بتایا، ”آج سبت کا دن ہے۔ آج بستر اُٹھانا منع ہے۔“ \p \v 11 لیکن اُس نے جواب دیا، ”جس آدمی نے مجھے شفا دی اُس نے مجھے بتایا، ’اپنا بستر اُٹھا کر چل پھر‘۔“ \p \v 12 اُنہوں نے سوال کیا، ”وہ کون ہے جس نے تجھے یہ کچھ بتایا؟“ \v 13 لیکن شفایاب آدمی کو معلوم نہ تھا، کیونکہ عیسیٰ ہجوم کے سبب سے چپکے سے وہاں سے چلا گیا تھا۔ \p \v 14 بعد میں عیسیٰ اُسے بیت المُقدّس میں ملا۔ اُس نے کہا، ”اب تُو بحال ہو گیا ہے۔ پھر گناہ نہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ تیرا حال پہلے سے بھی بدتر ہو جائے۔“ \p \v 15 اُس آدمی نے اُسے چھوڑ کر یہودیوں کو اطلاع دی، ”عیسیٰ نے مجھے شفا دی۔“ \v 16 اِس پر یہودی اُس کو ستانے لگے، کیونکہ اُس نے اُس آدمی کو سبت کے دن بحال کیا تھا۔ \v 17 لیکن عیسیٰ نے اُنہیں جواب دیا، ”میرا باپ آج تک کام کرتا آیا ہے، اور مَیں بھی ایسا کرتا ہوں۔“ \p \v 18 یہ سن کر یہودی اُسے قتل کرنے کی مزید کوشش کرنے لگے، کیونکہ اُس نے نہ صرف سبت کے دن کو منسوخ قرار دیا تھا بلکہ اللہ کو اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو اللہ کے برابر ٹھہرایا تھا۔ \s1 فرزند کا اختیار \p \v 19 عیسیٰ نے اُنہیں جواب دیا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ فرزند اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ صرف وہ کچھ کرتا ہے جو وہ باپ کو کرتے دیکھتا ہے۔ جو کچھ باپ کرتا ہے وہی فرزند بھی کرتا ہے، \v 20 کیونکہ باپ فرزند کو پیار کرتا اور اُسے سب کچھ دکھاتا ہے جو وہ خود کرتا ہے۔ ہاں، وہ فرزند کو اِن سے بھی عظیم کام دکھائے گا۔ پھر تم اَور بھی زیادہ حیرت زدہ ہو گے۔ \v 21 کیونکہ جس طرح باپ مُردوں کو زندہ کرتا ہے اُسی طرح فرزند بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کر دیتا ہے۔ \v 22 اور باپ کسی کی بھی عدالت نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا پورا انتظام فرزند کے سپرد کر دیا ہے \v 23 تاکہ سب اُسی طرح فرزند کی عزت کریں جس طرح وہ باپ کی عزت کرتے ہیں۔ جو فرزند کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی بھی عزت نہیں کرتا جس نے اُسے بھیجا ہے۔ \p \v 24 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں، جو بھی میری بات سن کر اُس پر ایمان لاتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے ابدی زندگی اُس کی ہے۔ اُسے مجرم نہیں ٹھہرایا جائے گا بلکہ وہ موت کی گرفت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔ \v 25 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ ایک وقت آنے والا ہے بلکہ آ چکا ہے جب مُردے اللہ کے فرزند کی آواز سنیں گے۔ اور جتنے سنیں گے وہ زندہ ہو جائیں گے۔ \v 26 کیونکہ جس طرح باپ زندگی کا منبع ہے اُسی طرح اُس نے اپنے فرزند کو زندگی کا منبع بنا دیا ہے۔ \v 27 ساتھ ساتھ اُس نے اُسے عدالت کرنے کا اختیار بھی دے دیا ہے، کیونکہ وہ ابنِ آدم ہے۔ \v 28 یہ سن کر تعجب نہ کرو کیونکہ ایک وقت آ رہا ہے جب تمام مُردے اُس کی آواز سن کر \v 29 قبروں میں سے نکل آئیں گے۔ جنہوں نے نیک کام کیا وہ جی اُٹھ کر زندگی پائیں گے جبکہ جنہوں نے بُرا کام کیا وہ جی تو اُٹھیں گے لیکن اُن کی عدالت کی جائے گی۔ \s1 عیسیٰ کے گواہ \p \v 30 مَیں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا بلکہ جو کچھ باپ سے سنتا ہوں اُس کے مطابق عدالت کرتا ہوں۔ اور میری عدالت راست ہے کیونکہ مَیں اپنی مرضی کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اُسی کی جس نے مجھے بھیجا ہے۔ \p \v 31 اگر مَیں خود اپنے بارے میں گواہی دیتا تو میری گواہی معتبر نہ ہوتی۔ \v 32 لیکن ایک اَور ہے جو میرے بارے میں گواہی دے رہا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ میرے بارے میں اُس کی گواہی سچی اور معتبر ہے۔ \v 33 تم نے پتا کرنے کے لئے اپنے لوگوں کو یحییٰ کے پاس بھیجا ہے اور اُس نے حقیقت کی تصدیق کی ہے۔ \v 34 بےشک مجھے کسی انسانی گواہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن مَیں یہ اِس لئے بتا رہا ہوں تاکہ تم کو نجات مل جائے۔ \v 35 یحییٰ ایک جلتا ہوا چراغ تھا جو روشنی دیتا تھا، اور کچھ دیر کے لئے تم نے اُس کی روشنی میں خوشی منانا پسند کیا۔ \v 36 لیکن میرے پاس ایک اَور گواہ ہے جو یحییٰ کی نسبت زیادہ اہم ہے—وہ کام جو باپ نے مجھے مکمل کرنے کے لئے دے دیا۔ یہی کام جو مَیں کر رہا ہوں میرے بارے میں گواہی دیتا ہے کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔ \v 37 اِس کے علاوہ باپ نے خود جس نے مجھے بھیجا ہے میرے بارے میں گواہی دی ہے۔ افسوس، تم نے کبھی اُس کی آواز نہیں سنی، نہ اُس کی شکل و صورت دیکھی، \v 38 اور اُس کا کلام تمہارے اندر نہیں رہتا، کیونکہ تم اُس پر ایمان نہیں رکھتے جسے اُس نے بھیجا ہے۔ \v 39 تم اپنے صحیفوں میں ڈھونڈتے رہتے ہو کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُن سے تمہیں ابدی زندگی حاصل ہے۔ لیکن یہی میرے بارے میں گواہی دیتے ہیں! \v 40 توبھی تم زندگی پانے کے لئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے۔ \p \v 41 مَیں انسانوں سے عزت نہیں چاہتا، \v 42 لیکن مَیں تم کو جانتا ہوں کہ تم میں اللہ کی محبت نہیں۔ \v 43 اگرچہ مَیں اپنے باپ کے نام میں آیا ہوں توبھی تم مجھے قبول نہیں کرتے۔ اِس کے مقابلے میں اگر کوئی اپنے نام میں آئے گا تو تم اُسے قبول کرو گے۔ \v 44 کوئی عجب نہیں کہ تم ایمان نہیں لا سکتے۔ کیونکہ تم ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو جبکہ تم وہ عزت پانے کی کوشش ہی نہیں کرتے جو واحد خدا سے ملتی ہے۔ \v 45 لیکن یہ نہ سمجھو کہ مَیں باپ کے سامنے تم پر الزام لگاؤں گا۔ ایک اَور ہے جو تم پر الزام لگا رہا ہے—موسیٰ، جس سے تم اُمید رکھتے ہو۔ \v 46 اگر تم واقعی موسیٰ پر ایمان رکھتے تو ضرور مجھ پر بھی ایمان رکھتے، کیونکہ اُس نے میرے ہی بارے میں لکھا۔ \v 47 لیکن چونکہ تم وہ کچھ نہیں مانتے جو اُس نے لکھا ہے تو میری باتیں کیونکر مان سکتے ہو!“ \c 6 \s1 عیسیٰ بڑے ہجوم کو کھانا کھلاتا ہے \p \v 1 اِس کے بعد عیسیٰ نے گلیل کی جھیل کو پار کیا۔ (جھیل کا دوسرا نام تبریاس تھا۔) \v 2 ایک بڑا ہجوم اُس کے پیچھے لگ گیا تھا، کیونکہ اُس نے الٰہی نشان دکھا کر مریضوں کو شفا دی تھی اور لوگوں نے اِس کا مشاہدہ کیا تھا۔ \v 3 پھر عیسیٰ پہاڑ پر چڑھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ \v 4 (یہودی عیدِ فسح قریب آ گئی تھی۔) \v 5 وہاں بیٹھے عیسیٰ نے اپنی نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم پہنچ رہا ہے۔ اُس نے فلپّس سے پوچھا، ”ہم کہاں سے کھانا خریدیں تاکہ اُنہیں کھلائیں؟“ \v 6 (یہ اُس نے فلپّس کو آزمانے کے لئے کہا۔ خود تو وہ جانتا تھا کہ کیا کرے گا۔) \p \v 7 فلپّس نے جواب دیا، ”اگر ہر ایک کو صرف تھوڑا سا ملے توبھی چاندی کے 200 سِکے کافی نہیں ہوں گے۔“ \p \v 8 پھر شمعون پطرس کا بھائی اندریاس بول اُٹھا، \v 9 ”یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس جَو کی پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں۔ مگر اِتنے لوگوں میں یہ کیا ہیں!“ \p \v 10 عیسیٰ نے کہا، ”لوگوں کو بٹھا دو۔“ اُس جگہ بہت گھاس تھی۔ چنانچہ سب بیٹھ گئے۔ (صرف مردوں کی تعداد 5,000 تھی۔) \v 11 عیسیٰ نے روٹیاں لے کر شکرگزاری کی دعا کی اور اُنہیں بیٹھے ہوئے لوگوں میں تقسیم کروایا۔ یہی کچھ اُس نے مچھلیوں کے ساتھ بھی کیا۔ اور سب نے جی بھر کر روٹی کھائی۔ \v 12 جب سب سیر ہو گئے تو عیسیٰ نے شاگردوں کو بتایا، ”اب بچے ہوئے ٹکڑے جمع کرو تاکہ کچھ ضائع نہ ہو جائے۔“ \v 13 جب اُنہوں نے بچا ہوا کھانا اکٹھا کیا تو جَو کی پانچ روٹیوں کے ٹکڑوں سے بارہ ٹوکرے بھر گئے۔ \p \v 14 جب لوگوں نے عیسیٰ کو یہ الٰہی نشان دکھاتے دیکھا تو اُنہوں نے کہا، ”یقیناً یہ وہی نبی ہے جسے دنیا میں آنا تھا۔“ \v 15 عیسیٰ کو معلوم ہوا کہ وہ آ کر اُسے زبردستی بادشاہ بنانا چاہتے ہیں، اِس لئے وہ دوبارہ اُن سے الگ ہو کر اکیلا ہی کسی پہاڑ پر چڑھ گیا۔ \s1 عیسیٰ پانی پر چلتا ہے \p \v 16 شام کو شاگرد جھیل کے پاس گئے \v 17 اور کشتی پر سوار ہو کر جھیل کے پار شہر کفرنحوم کے لئے روانہ ہوئے۔ اندھیرا ہو چکا تھا اور عیسیٰ اب تک اُن کے پاس واپس نہیں آیا تھا۔ \v 18 تیز ہَوا کے باعث جھیل میں لہریں اُٹھنے لگیں۔ \v 19 کشتی کو کھیتے کھیتے شاگرد چار یا پانچ کلو میٹر کا سفر طے کر چکے تھے کہ اچانک عیسیٰ نظر آیا۔ وہ پانی پر چلتا ہوا کشتی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ شاگرد دہشت زدہ ہو گئے۔ \v 20 لیکن اُس نے اُن سے کہا، ”مَیں ہی ہوں۔ خوف نہ کرو۔“ \v 21 وہ اُسے کشتی میں بٹھانے پر آمادہ ہوئے۔ اور کشتی اُسی لمحے اُس جگہ پہنچ گئی جہاں وہ جانا چاہتے تھے۔ \s1 لوگ عیسیٰ کو ڈھونڈتے ہیں \p \v 22 ہجوم تو جھیل کے پار رہ گیا تھا۔ اگلے دن لوگوں کو پتا چلا کہ شاگرد ایک ہی کشتی لے کر چلے گئے ہیں اور کہ اُس وقت عیسیٰ کشتی میں نہیں تھا۔ \v 23 پھر کچھ کشتیاں تبریاس سے اُس مقام کے قریب پہنچیں جہاں خداوند عیسیٰ نے روٹی کے لئے شکرگزاری کی دعا کر کے اُسے لوگوں کو کھلایا تھا۔ \v 24 جب لوگوں نے دیکھا کہ نہ عیسیٰ اور نہ اُس کے شاگرد وہاں ہیں تو وہ کشتیوں پر سوار ہو کر عیسیٰ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کفرنحوم پہنچے۔ \s1 عیسیٰ زندگی کی روٹی ہے \p \v 25 جب اُنہوں نے اُسے جھیل کے پار پایا تو پوچھا، ”اُستاد، آپ کس طرح یہاں پہنچ گئے؟“ \p \v 26 عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں، تم مجھے اِس لئے نہیں ڈھونڈ رہے کہ الٰہی نشان دیکھے ہیں بلکہ اِس لئے کہ تم نے جی بھر کر روٹی کھائی ہے۔ \v 27 ایسی خوراک کے لئے جد و جہد نہ کرو جو گل سڑ جاتی ہے، بلکہ ایسی کے لئے جو ابدی زندگی تک قائم رہتی ہے اور جو ابنِ آدم تم کو دے گا، کیونکہ خدا باپ نے اُس پر اپنی تصدیق کی مُہر لگائی ہے۔“ \p \v 28 اِس پر اُنہوں نے پوچھا، ”ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ اللہ کا مطلوبہ کام کریں؟“ \p \v 29 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اللہ کا کام یہ ہے کہ تم اُس پر ایمان لاؤ جسے اُس نے بھیجا ہے۔“ \p \v 30 اُنہوں نے کہا، ”تو پھر آپ کیا الٰہی نشان دکھائیں گے جسے دیکھ کر ہم آپ پر ایمان لائیں؟ آپ کیا کام سرانجام دیں گے؟ \v 31 ہمارے باپ دادا نے تو ریگستان میں مَن کھایا۔ چنانچہ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے کہ موسیٰ نے اُنہیں آسمان سے روٹی کھلائی۔“ \p \v 32 عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ خود موسیٰ نے تم کو آسمان سے روٹی نہیں کھلائی بلکہ میرے باپ نے۔ وہی تم کو آسمان سے حقیقی روٹی دیتا ہے۔ \v 33 کیونکہ اللہ کی روٹی وہ شخص ہے جو آسمان پر سے اُتر کر دنیا کو زندگی بخشتا ہے۔“ \p \v 34 اُنہوں نے کہا، ”خداوند، ہمیں یہ روٹی ہر وقت دیا کریں۔“ \p \v 35 جواب میں عیسیٰ نے کہا، ”مَیں ہی زندگی کی روٹی ہوں۔ جو میرے پاس آئے اُسے پھر کبھی بھوک نہیں لگے گی۔ اور جو مجھ پر ایمان لائے اُسے پھر کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ \v 36 لیکن جس طرح مَیں تم کو بتا چکا ہوں، تم نے مجھے دیکھا اور پھر بھی ایمان نہیں لائے۔ \v 37 جتنے بھی باپ نے مجھے دیئے ہیں وہ میرے پاس آئیں گے اور جو بھی میرے پاس آئے گا اُسے مَیں ہرگز نکال نہ دوں گا۔ \v 38 کیونکہ مَیں اپنی مرضی پوری کرنے کے لئے آسمان سے نہیں اُترا بلکہ اُس کی جس نے مجھے بھیجا ہے۔ \v 39 اور جس نے مجھے بھیجا اُس کی مرضی یہ ہے کہ جتنے بھی اُس نے مجھے دیئے ہیں اُن میں سے مَیں ایک کو بھی کھو نہ دوں بلکہ سب کو قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں۔ \v 40 کیونکہ میرے باپ کی مرضی یہی ہے کہ جو بھی فرزند کو دیکھ کر اُس پر ایمان لائے اُسے ابدی زندگی حاصل ہو۔ ایسے شخص کو مَیں قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں گا۔“ \p \v 41 یہ سن کر یہودی اِس لئے بڑبڑانے لگے کہ اُس نے کہا تھا، ”مَیں ہی وہ روٹی ہوں جو آسمان پر سے اُتر آئی ہے۔“ \v 42 اُنہوں نے اعتراض کیا، ”کیا یہ عیسیٰ بن یوسف نہیں، جس کے باپ اور ماں سے ہم واقف ہیں؟ وہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ ’مَیں آسمان سے اُترا ہوں‘؟“ \p \v 43 عیسیٰ نے جواب میں کہا، ”آپس میں مت بڑبڑاؤ۔ \v 44 صرف وہ شخص میرے پاس آ سکتا ہے جسے باپ جس نے مجھے بھیجا ہے میرے پاس کھینچ لایا ہے۔ ایسے شخص کو مَیں قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں گا۔ \v 45 نبیوں کے صحیفوں میں لکھا ہے، ’سب اللہ سے تعلیم پائیں گے۔‘ جو بھی اللہ کی سن کر اُس سے سیکھتا ہے وہ میرے پاس آ جاتا ہے۔ \v 46 اِس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی نے کبھی باپ کو دیکھا۔ صرف ایک ہی نے باپ کو دیکھا ہے، وہی جو اللہ کی طرف سے ہے۔ \v 47 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو ایمان رکھتا ہے اُسے ابدی زندگی حاصل ہے۔ \v 48 زندگی کی روٹی مَیں ہوں۔ \v 49 تمہارے باپ دادا ریگستان میں مَن کھاتے رہے، توبھی وہ مر گئے۔ \v 50 لیکن یہاں آسمان سے اُترنے والی ایسی روٹی ہے جسے کھا کر انسان نہیں مرتا۔ \v 51 مَیں ہی زندگی کی وہ روٹی ہوں جو آسمان سے اُتر آئی ہے۔ جو اِس روٹی سے کھائے وہ ابد تک زندہ رہے گا۔ اور یہ روٹی میرا گوشت ہے جو مَیں دنیا کو زندگی مہیا کرنے کی خاطر پیش کروں گا۔“ \p \v 52 یہودی بڑی سرگرمی سے ایک دوسرے سے بحث کرنے لگے، ”یہ آدمی ہمیں کس طرح اپنا گوشت کھلا سکتا ہے؟“ \p \v 53 عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ صرف ابنِ آدم کا گوشت کھانے اور اُس کا خون پینے ہی سے تم میں زندگی ہو گی۔ \v 54 جو میرا گوشت کھائے اور میرا خون پیئے ابدی زندگی اُس کی ہے اور مَیں اُسے قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں گا۔ \v 55 کیونکہ میرا گوشت حقیقی خوراک اور میرا خون حقیقی پینے کی چیز ہے۔ \v 56 جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے وہ مجھ میں قائم رہتا ہے اور مَیں اُس میں۔ \v 57 مَیں اُس زندہ باپ کی وجہ سے زندہ ہوں جس نے مجھے بھیجا۔ اِسی طرح جو مجھے کھاتا ہے وہ میری ہی وجہ سے زندہ رہے گا۔ \v 58 یہی وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُتری ہے۔ تمہارے باپ دادا مَن کھانے کے باوجود مر گئے، لیکن جو یہ روٹی کھائے گا وہ ابد تک زندہ رہے گا۔“ \p \v 59 عیسیٰ نے یہ باتیں اُس وقت کیں جب وہ کفرنحوم میں یہودی عبادت خانے میں تعلیم دے رہا تھا۔ \s1 ابدی زندگی کی باتیں \p \v 60 یہ سن کر اُس کے بہت سے شاگردوں نے کہا، ”یہ باتیں ناگوار ہیں۔ کون اِنہیں سن سکتا ہے!“ \p \v 61 عیسیٰ کو معلوم تھا کہ میرے شاگرد میرے بارے میں بڑبڑا رہے ہیں، اِس لئے اُس نے کہا، ”کیا تم کو اِن باتوں سے ٹھیس لگی ہے؟ \v 62 تو پھر تم کیا سوچو گے جب ابنِ آدم کو اوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا؟ \v 63 اللہ کا روح ہی زندہ کرتا ہے جبکہ جسمانی طاقت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جو باتیں مَیں نے تم کو بتائی ہیں وہ روح اور زندگی ہیں۔ \v 64 لیکن تم میں سے کچھ ہیں جو ایمان نہیں رکھتے۔“ (عیسیٰ تو شروع سے ہی جانتا تھا کہ کون کون ایمان نہیں رکھتے اور کون مجھے دشمن کے حوالے کرے گا۔) \v 65 پھر اُس نے کہا، ”اِس لئے مَیں نے تم کو بتایا کہ صرف وہ شخص میرے پاس آ سکتا ہے جسے باپ کی طرف سے یہ توفیق ملے۔“ \p \v 66 اُس وقت سے اُس کے بہت سے شاگرد اُلٹے پاؤں پھر گئے اور آئندہ کو اُس کے ساتھ نہ چلے۔ \v 67 تب عیسیٰ نے بارہ شاگردوں سے پوچھا، ”کیا تم بھی چلے جانا چاہتے ہو؟“ \p \v 68 شمعون پطرس نے جواب دیا، ”خداوند، ہم کس کے پاس جائیں؟ ابدی زندگی کی باتیں تو آپ ہی کے پاس ہیں۔ \v 69 اور ہم نے ایمان لا کر جان لیا ہے کہ آپ اللہ کے قدوس ہیں۔“ \p \v 70 جواب میں عیسیٰ نے کہا، ”کیا مَیں نے تم بارہ کو نہیں چنا؟ توبھی تم میں سے ایک شخص شیطان ہے۔“ \v 71 (وہ شمعون اسکریوتی کے بیٹے یہوداہ کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا اور جس نے بعد میں اُسے دشمن کے حوالے کر دیا۔) \c 7 \s1 عیسیٰ اور اُس کے بھائی \p \v 1 اِس کے بعد عیسیٰ نے گلیل کے علاقے میں اِدھر اُدھر سفر کیا۔ وہ یہودیہ میں پھرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہاں کے یہودی اُسے قتل کرنے کا موقع ڈھونڈ رہے تھے۔ \v 2 لیکن جب یہودی عید بنام جھونپڑیوں کی عید قریب آئی \v 3 تو اُس کے بھائیوں نے اُس سے کہا، ”یہ جگہ چھوڑ کر یہودیہ چلا جا تاکہ تیرے پیروکار بھی وہ معجزے دیکھ لیں جو تُو کرتا ہے۔ \v 4 جو شخص چاہتا ہے کہ عوام اُسے جانے وہ پوشیدگی میں کام نہیں کرتا۔ اگر تُو اِس قسم کا معجزانہ کام کرتا ہے تو اپنے آپ کو دنیا پر ظاہر کر۔“ \v 5 (اصل میں عیسیٰ کے بھائی بھی اُس پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔) \p \v 6 عیسیٰ نے اُنہیں بتایا، ”ابھی وہ وقت نہیں آیا جو میرے لئے موزوں ہے۔ لیکن تم جا سکتے ہو، تمہارے لئے ہر وقت موزوں ہے۔ \v 7 دنیا تم سے دشمنی نہیں رکھ سکتی۔ لیکن مجھ سے وہ دشمنی رکھتی ہے، کیونکہ مَیں اُس کے بارے میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اُس کے کام بُرے ہیں۔ \v 8 تم خود عید پر جاؤ۔ مَیں نہیں جاؤں گا، کیونکہ ابھی وہ وقت نہیں آیا جو میرے لئے موزوں ہے۔“ \v 9 یہ کہہ کر وہ گلیل میں ٹھہرا رہا۔ \s1 عیسیٰ جھونپڑیوں کی عید پر \p \v 10 لیکن بعد میں، جب اُس کے بھائی عید پر جا چکے تھے تو وہ بھی گیا، اگرچہ علانیہ نہیں بلکہ خفیہ طور پر۔ \v 11 یہودی عید کے موقع پر اُسے تلاش کر رہے تھے۔ وہ پوچھتے رہے، ”وہ آدمی کہاں ہے؟“ \p \v 12 ہجوم میں سے کئی لوگ عیسیٰ کے بارے میں بڑبڑا رہے تھے۔ بعض نے کہا، ”وہ اچھا بندہ ہے۔“ لیکن دوسروں نے اعتراض کیا، ”نہیں، وہ عوام کو بہکاتا ہے۔“ \v 13 لیکن کسی نے بھی اُس کے بارے میں کھل کر بات نہ کی، کیونکہ وہ یہودیوں سے ڈرتے تھے۔ \p \v 14 عید کا آدھا حصہ گزر چکا تھا جب عیسیٰ بیت المُقدّس میں جا کر تعلیم دینے لگا۔ \v 15 اُسے سن کر یہودی حیرت زدہ ہوئے اور کہا، ”یہ آدمی کس طرح اِتنا علم رکھتا ہے حالانکہ اِس نے کہیں سے بھی تعلیم حاصل نہیں کی!“ \p \v 16 عیسیٰ نے جواب دیا، ”جو تعلیم مَیں دیتا ہوں وہ میری اپنی نہیں بلکہ اُس کی ہے جس نے مجھے بھیجا۔ \v 17 جو اُس کی مرضی پوری کرنے کے لئے تیار ہے وہ جان لے گا کہ میری تعلیم اللہ کی طرف سے ہے یا کہ میری اپنی طرف سے۔ \v 18 جو اپنی طرف سے بولتا ہے وہ اپنی ہی عزت چاہتا ہے۔ لیکن جو اپنے بھیجنے والے کی عزت و جلال بڑھانے کی کوشش کرتا ہے وہ سچا ہے اور اُس میں ناراستی نہیں ہے۔ \v 19 کیا موسیٰ نے تم کو شریعت نہیں دی؟ تو پھر تم مجھے قتل کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہو؟“ \p \v 20 ہجوم نے جواب دیا، ”تم کسی بدروح کی گرفت میں ہو۔ کون تمہیں قتل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟“ \p \v 21 عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”مَیں نے سبت کے دن ایک ہی معجزہ کیا اور تم سب حیرت زدہ ہوئے۔ \v 22 لیکن تم بھی سبت کے دن کام کرتے ہو۔ تم اُس دن اپنے بچوں کا ختنہ کرواتے ہو۔ اور یہ رسم موسیٰ کی شریعت کے مطابق ہی ہے، اگرچہ یہ موسیٰ سے نہیں بلکہ ہمارے باپ دادا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب سے شروع ہوئی۔ \v 23 کیونکہ شریعت کے مطابق لازم ہے کہ بچے کا ختنہ آٹھویں دن کروایا جائے، اور اگر یہ دن سبت ہو تو تم پھر بھی اپنے بچے کا ختنہ کرواتے ہو تاکہ شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو جائے۔ تو پھر تم مجھ سے کیوں ناراض ہو کہ مَیں نے سبت کے دن ایک آدمی کے پورے جسم کو شفا دی؟ \v 24 ظاہری صورت کی بنا پر فیصلہ نہ کرو بلکہ باطنی حالت پہچان کر منصفانہ فیصلہ کرو۔“ \s1 کیا عیسیٰ ہی مسیح ہے؟ \p \v 25 اُس وقت یروشلم کے کچھ رہنے والے کہنے لگے، ”کیا یہ وہ آدمی نہیں ہے جسے لوگ قتل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ \v 26 تاہم وہ یہاں کھل کر بات کر رہا ہے اور کوئی بھی اُسے روکنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ کیا ہمارے راہنماؤں نے حقیقت میں جان لیا ہے کہ یہ مسیح ہے؟ \v 27 لیکن جب مسیح آئے گا تو کسی کو بھی معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کہاں سے ہے۔ یہ آدمی فرق ہے۔ ہم تو جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے ہے۔“ \p \v 28 عیسیٰ بیت المُقدّس میں تعلیم دے رہا تھا۔ اب وہ پکار اُٹھا، ”تم مجھے جانتے ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ مَیں کہاں سے ہوں۔ لیکن مَیں اپنی طرف سے نہیں آیا۔ جس نے مجھے بھیجا ہے وہ سچا ہے اور اُسے تم نہیں جانتے۔ \v 29 لیکن مَیں اُسے جانتا ہوں، کیونکہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں اور اُس نے مجھے بھیجا ہے۔“ \p \v 30 تب اُنہوں نے اُسے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کوئی بھی اُس کو ہاتھ نہ لگا سکا، کیونکہ ابھی اُس کا وقت نہیں آیا تھا۔ \v 31 توبھی ہجوم کے کئی لوگ اُس پر ایمان لائے، کیونکہ اُنہوں نے کہا، ”جب مسیح آئے گا تو کیا وہ اِس آدمی سے زیادہ الٰہی نشان دکھائے گا؟“ \s1 پہرے دار اُسے گرفتار کرنے آتے ہیں \p \v 32 فریسیوں نے دیکھا کہ ہجوم میں اِس قسم کی باتیں دھیمی دھیمی آواز کے ساتھ پھیل رہی ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے راہنما اماموں کے ساتھ مل کر بیت المُقدّس کے پہرے دار عیسیٰ کو گرفتار کرنے کے لئے بھیجے۔ \v 33 لیکن عیسیٰ نے کہا، ”مَیں صرف تھوڑی دیر اَور تمہارے ساتھ رہوں گا، پھر مَیں اُس کے پاس واپس چلا جاؤں گا جس نے مجھے بھیجا ہے۔ \v 34 اُس وقت تم مجھے ڈھونڈو گے، مگر نہیں پاؤ گے، کیونکہ جہاں مَیں ہوں وہاں تم نہیں آ سکتے۔“ \p \v 35 یہودی آپس میں کہنے لگے، ”یہ کہاں جانا چاہتا ہے جہاں ہم اُسے نہیں پا سکیں گے؟ کیا وہ بیرونِ ملک جانا چاہتا ہے، وہاں جہاں ہمارے لوگ یونانیوں میں بکھری حالت میں رہتے ہیں؟ کیا وہ یونانیوں کو تعلیم دینا چاہتا ہے؟ \v 36 مطلب کیا ہے جب وہ کہتا ہے، ’تم مجھے ڈھونڈو گے مگر نہیں پاؤ گے‘ اور ’جہاں مَیں ہوں وہاں تم نہیں آ سکتے‘۔“ \s1 زندگی کے پانی کی نہریں \p \v 37 عید کے آخری دن جو سب سے اہم ہے عیسیٰ کھڑا ہوا اور اونچی آواز سے پکار اُٹھا، ”جو پیاسا ہو وہ میرے پاس آئے، \v 38 اور جو مجھ پر ایمان لائے وہ پیئے۔ کلامِ مُقدّس کے مطابق ’اُس کے اندر سے زندگی کے پانی کی نہریں بہہ نکلیں گی‘۔“ \v 39 (’زندگی کے پانی‘ سے وہ روح القدس کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو اُن کو حاصل ہوتا ہے جو عیسیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ لیکن وہ اُس وقت تک نازل نہیں ہوا تھا، کیونکہ عیسیٰ اب تک اپنے جلال کو نہ پہنچا تھا۔) \s1 سننے والوں میں نااتفاقی \p \v 40 عیسیٰ کی یہ باتیں سن کر ہجوم کے کچھ لوگوں نے کہا، ”یہ آدمی واقعی وہ نبی ہے جس کے انتظار میں ہم ہیں۔“ \p \v 41 دوسروں نے کہا، ”یہ مسیح ہے۔“ \p لیکن بعض نے اعتراض کیا، ”مسیح گلیل سے کس طرح آ سکتا ہے! \v 42 پاک کلام تو بیان کرتا ہے کہ مسیح داؤد کے خاندان اور بیت لحم سے آئے گا، اُس گاؤں سے جہاں داؤد بادشاہ پیدا ہوا۔“ \v 43 یوں عیسیٰ کی وجہ سے لوگوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ \v 44 کچھ تو اُسے گرفتار کرنا چاہتے تھے، لیکن کوئی بھی اُس کو ہاتھ نہ لگا سکا۔ \s1 یہودی راہنما عیسیٰ پر ایمان نہیں رکھتے \p \v 45 اِتنے میں بیت المُقدّس کے پہرے دار راہنما اماموں اور فریسیوں کے پاس واپس آئے۔ وہ عیسیٰ کو لے کر نہیں آئے تھے، اِس لئے راہنماؤں نے پوچھا، ”تم اُسے کیوں نہیں لائے؟“ \p \v 46 پہرے داروں نے جواب دیا، ”کسی نے کبھی اِس آدمی کی طرح بات نہیں کی۔“ \p \v 47 فریسیوں نے طنزاً کہا، ”کیا تم کو بھی بہکا دیا گیا ہے؟ \v 48 کیا راہنماؤں یا فریسیوں میں کوئی ہے جو اُس پر ایمان لایا ہو؟ کوئی بھی نہیں! \v 49 لیکن شریعت سے ناواقف یہ ہجوم لعنتی ہے!“ \p \v 50 اِن راہنماؤں میں نیکدیمس بھی شامل تھا جو کچھ دیر پہلے عیسیٰ کے پاس گیا تھا۔ اب وہ بول اُٹھا، \v 51 ”کیا ہماری شریعت کسی پر یوں فیصلہ دینے کی اجازت دیتی ہے؟ نہیں، لازم ہے کہ اُسے پہلے عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ معلوم ہو جائے کہ اُس سے کیا کچھ سرزد ہوا ہے۔“ \p \v 52 دوسروں نے اعتراض کیا، ”کیا تم بھی گلیل کے رہنے والے ہو؟ کلامِ مُقدّس میں تفتیش کر کے خود دیکھ لو کہ گلیل سے کوئی نبی نہیں آئے گا۔“ \v 53 یہ کہہ کر ہر ایک اپنے اپنے گھر چلا گیا۔ \c 8 \s1 زناکار عورت پر پہلا پتھر \p \v 1 عیسیٰ خود زیتون کے پہاڑ پر چلا گیا۔ \v 2 اگلے دن پَو پھٹتے وقت وہ دوبارہ بیت المُقدّس میں آیا۔ وہاں سب لوگ اُس کے گرد جمع ہوئے اور وہ بیٹھ کر اُنہیں تعلیم دینے لگا۔ \v 3 اِس دوران شریعت کے علما اور فریسی ایک عورت کو لے کر آئے جسے زنا کرتے وقت پکڑا گیا تھا۔ اُسے بیچ میں کھڑا کر کے \v 4 اُنہوں نے عیسیٰ سے کہا، ”اُستاد، اِس عورت کو زنا کرتے وقت پکڑا گیا ہے۔ \v 5 موسیٰ نے شریعت میں ہمیں حکم دیا ہے کہ ایسے لوگوں کو سنگسار کرنا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟“ \v 6 اِس سوال سے وہ اُسے پھنسانا چاہتے تھے تاکہ اُس پر الزام لگانے کا کوئی بہانہ اُن کے ہاتھ آ جائے۔ لیکن عیسیٰ جھک گیا اور اپنی اُنگلی سے زمین پر لکھنے لگا۔ \p \v 7 جب وہ اُس سے جواب کا تقاضا کرتے رہے تو وہ کھڑا ہو کر اُن سے مخاطب ہوا، ”تم میں سے جس نے کبھی گناہ نہیں کیا، وہ پہلا پتھر مارے۔“ \v 8 پھر وہ دوبارہ جھک کر زمین پر لکھنے لگا۔ \v 9 یہ جواب سن کر الزام لگانے والے یکے بعد دیگرے وہاں سے کھسک گئے، پہلے بزرگ، پھر باقی سب۔ آخرکار عیسیٰ اور درمیان میں کھڑی وہ عورت اکیلے رہ گئے۔ \v 10 پھر اُس نے کھڑے ہو کر کہا، ”اے عورت، وہ سب کہاں گئے؟ کیا کسی نے تجھ پر فتویٰ نہیں لگایا؟“ \p \v 11 عورت نے جواب دیا، ”نہیں خداوند۔“ \p عیسیٰ نے کہا، ”مَیں بھی تجھ پر فتویٰ نہیں لگاتا۔ جا، آئندہ گناہ نہ کرنا۔“ \s1 عیسیٰ دنیا کا نور ہے \p \v 12 پھر عیسیٰ دوبارہ لوگوں سے مخاطب ہوا، ”دنیا کا نور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کرے وہ تاریکی میں نہیں چلے گا، کیونکہ اُسے زندگی کا نور حاصل ہو گا۔“ \p \v 13 فریسیوں نے اعتراض کیا، ”آپ تو اپنے بارے میں گواہی دے رہے ہیں۔ ایسی گواہی معتبر نہیں ہوتی۔“ \p \v 14 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگرچہ مَیں اپنے بارے میں ہی گواہی دے رہا ہوں توبھی وہ معتبر ہے۔ کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں کو جا رہا ہوں۔ لیکن تم کو تو معلوم نہیں کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں۔ \v 15 تم انسانی سوچ کے مطابق لوگوں کا فیصلہ کرتے ہو، لیکن مَیں کسی کا بھی فیصلہ نہیں کرتا۔ \v 16 اور اگر فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ درست ہے، کیونکہ مَیں اکیلا نہیں ہوں۔ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے میرے ساتھ ہے۔ \v 17 تمہاری شریعت میں لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی معتبر ہے۔ \v 18 مَیں خود اپنے بارے میں گواہی دیتا ہوں جبکہ دوسرا گواہ باپ ہے جس نے مجھے بھیجا۔“ \p \v 19 اُنہوں نے پوچھا، ”آپ کا باپ کہاں ہے؟“ عیسیٰ نے جواب دیا، ”تم نہ مجھے جانتے ہو، نہ میرے باپ کو۔ اگر تم مجھے جانتے تو پھر میرے باپ کو بھی جانتے۔“ \p \v 20 عیسیٰ نے یہ باتیں اُس وقت کیں جب وہ اُس جگہ کے قریب تعلیم دے رہا تھا جہاں لوگ اپنا ہدیہ ڈالتے تھے۔ لیکن کسی نے اُسے گرفتار نہ کیا کیونکہ ابھی اُس کا وقت نہیں آیا تھا۔ \s1 جہاں مَیں جا رہا ہوں تم وہاں نہیں جا سکتے \p \v 21 ایک اَور بار عیسیٰ اُن سے مخاطب ہوا، ”مَیں جا رہا ہوں اور تم مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے گناہ میں مر جاؤ گے۔ جہاں مَیں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں پہنچ سکتے۔“ \p \v 22 یہودیوں نے پوچھا، ”کیا وہ خود کشی کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ اِسی وجہ سے کہتا ہے، ’جہاں مَیں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں پہنچ سکتے‘؟“ \p \v 23 عیسیٰ نے اپنی بات جاری رکھی، ”تم نیچے سے ہو جبکہ مَیں اوپر سے ہوں۔ تم اِس دنیا کے ہو جبکہ مَیں اِس دنیا کا نہیں ہوں۔ \v 24 مَیں تم کو بتا چکا ہوں کہ تم اپنے گناہوں میں مر جاؤ گے۔ کیونکہ اگر تم ایمان نہیں لاتے کہ مَیں وہی ہوں تو تم یقیناً اپنے گناہوں میں مر جاؤ گے۔“ \p \v 25 اُنہوں نے سوال کیا، ”آپ کون ہیں؟“ \p عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں وہی ہوں جو مَیں شروع سے ہی بتاتا آیا ہوں۔ \v 26 مَیں تمہارے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کی بنا پر مَیں تم کو مجرم ٹھہرا سکتا ہوں۔ لیکن جس نے مجھے بھیجا ہے وہی سچا اور معتبر ہے اور مَیں دنیا کو صرف وہ کچھ سناتا ہوں جو مَیں نے اُس سے سنا ہے۔“ \p \v 27 سننے والے نہ سمجھے کہ عیسیٰ باپ کا ذکر کر رہا ہے۔ \v 28 چنانچہ اُس نے کہا، ”جب تم ابنِ آدم کو اونچے پر چڑھاؤ گے تب ہی تم جان لو گے کہ مَیں وہی ہوں، کہ مَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا بلکہ صرف وہی سناتا ہوں جو باپ نے مجھے سکھایا ہے۔ \v 29 اور جس نے مجھے بھیجا ہے وہ میرے ساتھ ہے۔ اُس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا، کیونکہ مَیں ہر وقت وہی کچھ کرتا ہوں جو اُسے پسند آتا ہے۔“ \p \v 30 یہ باتیں سن کر بہت سے لوگ اُس پر ایمان لائے۔ \s1 سچائی تم کو آزاد کرے گی \p \v 31 جو یہودی اُس کا یقین کرتے تھے عیسیٰ اب اُن سے ہم کلام ہوا، ”اگر تم میری تعلیم کے تابع رہو گے تب ہی تم میرے سچے شاگرد ہو گے۔ \v 32 پھر تم سچائی کو جان لو گے اور سچائی تم کو آزاد کر دے گی۔“ \p \v 33 اُنہوں نے اعتراض کیا، ”ہم تو ابراہیم کی اولاد ہیں، ہم کبھی بھی کسی کے غلام نہیں رہے۔ پھر آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں گے؟“ \p \v 34 عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو بھی گناہ کرتا ہے وہ گناہ کا غلام ہے۔ \v 35 غلام تو عارضی طور پر گھر میں رہتا ہے، لیکن مالک کا بیٹا ہمیشہ تک۔ \v 36 اِس لئے اگر فرزند تم کو آزاد کرے تو تم حقیقتاً آزاد ہو گے۔ \v 37 مجھے معلوم ہے کہ تم ابراہیم کی اولاد ہو۔ لیکن تم مجھے قتل کرنے کے درپَے ہو، کیونکہ تمہارے اندر میرے پیغام کے لئے گنجائش نہیں ہے۔ \v 38 مَیں تم کو وہی کچھ بتاتا ہوں جو مَیں نے باپ کے ہاں دیکھا ہے، جبکہ تم وہی کچھ سناتے ہو جو تم نے اپنے باپ سے سنا ہے۔“ \p \v 39 اُنہوں نے کہا، ”ہمارا باپ ابراہیم ہے۔“ عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر تم ابراہیم کی اولاد ہوتے تو تم اُس کے نمونے پر چلتے۔ \v 40 اِس کے بجائے تم مجھے قتل کرنے کی تلاش میں ہو، اِس لئے کہ مَیں نے تم کو وہی سچائی سنائی ہے جو مَیں نے اللہ کے حضور سنی ہے۔ ابراہیم نے کبھی بھی اِس قسم کا کام نہ کیا۔ \v 41 نہیں، تم اپنے باپ کا کام کر رہے ہو۔“ \p اُنہوں نے اعتراض کیا، ”ہم حرام زادے نہیں ہیں۔ اللہ ہی ہمارا واحد باپ ہے۔“ \p \v 42 عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”اگر اللہ تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے، کیونکہ مَیں اللہ میں سے نکل آیا ہوں۔ مَیں اپنی طرف سے نہیں آیا بلکہ اُسی نے مجھے بھیجا ہے۔ \v 43 تم میری زبان کیوں نہیں سمجھتے؟ اِس لئے کہ تم میری بات سن نہیں سکتے۔ \v 44 تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں پر عمل کرنے کے خواہاں رہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے قاتل ہے اور سچائی پر قائم نہ رہا، کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو یہ فطری بات ہے، کیونکہ وہ جھوٹ بولنے والا اور جھوٹ کا باپ ہے۔ \v 45 لیکن مَیں سچی باتیں سناتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ تم کو مجھ پر یقین نہیں آتا۔ \v 46 کیا تم میں سے کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے؟ مَیں تو تم کو حقیقت بتا رہا ہوں۔ پھر تم کو مجھ پر یقین کیوں نہیں آتا؟ \v 47 جو اللہ سے ہے وہ اللہ کی باتیں سنتا ہے۔ تم یہ اِس لئے نہیں سنتے کہ تم اللہ سے نہیں ہو۔“ \s1 عیسیٰ اور ابراہیم \p \v 48 یہودیوں نے جواب دیا، ”کیا ہم نے ٹھیک نہیں کہا کہ تم سامری ہو اور کسی بدروح کے قبضے میں ہو؟“ \p \v 49 عیسیٰ نے کہا، ”مَیں بدروح کے قبضے میں نہیں ہوں بلکہ اپنے باپ کی عزت کرتا ہوں جبکہ تم میری بےعزتی کرتے ہو۔ \v 50 مَیں خود اپنی عزت کا خواہاں نہیں ہوں۔ لیکن ایک ہے جو میری عزت اور جلال کا خیال رکھتا اور انصاف کرتا ہے۔ \v 51 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو بھی میرے کلام پر عمل کرتا رہے وہ موت کو کبھی نہیں دیکھے گا۔“ \p \v 52 یہ سن کر لوگوں نے کہا، ”اب ہمیں پتا چل گیا ہے کہ تم کسی بدروح کے قبضے میں ہو۔ ابراہیم اور نبی سب انتقال کر گئے جبکہ تم دعویٰ کرتے ہو، ’جو بھی میرے کلام پر عمل کرتا رہے وہ موت کا مزہ کبھی نہیں چکھے گا۔‘ \v 53 کیا تم ہمارے باپ ابراہیم سے بڑے ہو؟ وہ مر گیا، اور نبی بھی مر گئے۔ تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟“ \p \v 54 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر مَیں اپنی عزت اور جلال بڑھاتا تو میرا جلال باطل ہوتا۔ لیکن میرا باپ ہی میری عزت و جلال بڑھاتا ہے، وہی جس کے بارے میں تم دعویٰ کرتے ہو کہ ’وہ ہمارا خدا ہے۔‘ \v 55 لیکن حقیقت میں تم نے اُسے نہیں جانا جبکہ مَیں اُسے جانتا ہوں۔ اگر مَیں کہتا کہ مَیں اُسے نہیں جانتا تو مَیں تمہاری طرح جھوٹا ہوتا۔ لیکن مَیں اُسے جانتا اور اُس کے کلام پر عمل کرتا ہوں۔ \v 56 تمہارے باپ ابراہیم نے خوشی منائی جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ میری آمد کا دن دیکھے گا، اور وہ اُسے دیکھ کر مسرور ہوا۔“ \p \v 57 یہودیوں نے اعتراض کیا، ”تمہاری عمر تو ابھی پچاس سال بھی نہیں، تو پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ تم نے ابراہیم کو دیکھا ہے؟“ \p \v 58 عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں، ابراہیم کی پیدائش سے پیشتر ’مَیں ہوں‘۔“ \p \v 59 اِس پر لوگ اُسے سنگسار کرنے کے لئے پتھر اُٹھانے لگے۔ لیکن عیسیٰ غائب ہو کر بیت المُقدّس سے نکل گیا۔ \c 9 \s1 اندھے کی شفا \p \v 1 چلتے چلتے عیسیٰ نے ایک آدمی کو دیکھا جو پیدائش کا اندھا تھا۔ \v 2 اُس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا، ”اُستاد، یہ آدمی اندھا کیوں پیدا ہوا؟ کیا اِس کا کوئی گناہ ہے یا اِس کے والدین کا؟“ \p \v 3 عیسیٰ نے جواب دیا، ”نہ اِس کا کوئی گناہ ہے اور نہ اِس کے والدین کا۔ یہ اِس لئے ہوا کہ اِس کی زندگی میں اللہ کا کام ظاہر ہو جائے۔ \v 4 ابھی دن ہے۔ لازم ہے کہ ہم جتنی دیر تک دن ہے اُس کا کام کرتے رہیں جس نے مجھے بھیجا ہے۔ کیونکہ رات آنے والی ہے، اُس وقت کوئی کام نہیں کر سکے گا۔ \v 5 لیکن جتنی دیر تک مَیں دنیا میں ہوں اُتنی دیر تک مَیں دنیا کا نور ہوں۔“ \p \v 6 یہ کہہ کر اُس نے زمین پر تھوک کر مٹی سانی اور اُس کی آنکھوں پر لگا دی۔ \v 7 اُس نے اُس سے کہا، ”جا، شِلوخ کے حوض میں نہا لے۔“ (شِلوخ کا مطلب ’بھیجا ہوا‘ ہے۔) اندھے نے جا کر نہا لیا۔ جب واپس آیا تو وہ دیکھ سکتا تھا۔ \p \v 8 اُس کے ہم سائے اور وہ جنہوں نے پہلے اُسے بھیک مانگتے دیکھا تھا پوچھنے لگے، ”کیا یہ وہی نہیں جو بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا؟“ \p \v 9 بعض نے کہا، ”ہاں، وہی ہے۔“ \p اَوروں نے انکار کیا، ”نہیں، یہ صرف اُس کا ہم شکل ہے۔“ \p لیکن آدمی نے خود اصرار کیا، ”مَیں وہی ہوں۔“ \p \v 10 اُنہوں نے اُس سے سوال کیا، ”تیری آنکھیں کس طرح بحال ہوئیں؟“ \p \v 11 اُس نے جواب دیا، ”وہ آدمی جو عیسیٰ کہلاتا ہے اُس نے مٹی سان کر میری آنکھوں پر لگا دی۔ پھر اُس نے مجھے کہا، ’شِلوخ کے حوض پر جا اور نہا لے۔‘ مَیں وہاں گیا اور نہاتے ہی میری آنکھیں بحال ہو گئیں۔“ \p \v 12 اُنہوں نے پوچھا، ”وہ کہاں ہے؟“ \p اُس نے جواب دیا، ”مجھے نہیں معلوم۔“ \s1 فریسی شفا کی تفتیش کرتے ہیں \p \v 13 تب وہ شفایاب اندھے کو فریسیوں کے پاس لے گئے۔ \v 14 جس دن عیسیٰ نے مٹی سان کر اُس کی آنکھوں کو بحال کیا تھا وہ سبت کا دن تھا۔ \v 15 اِس لئے فریسیوں نے بھی اُس سے پوچھ گچھ کی کہ اُسے کس طرح بصارت مل گئی۔ آدمی نے جواب دیا، ”اُس نے میری آنکھوں پر مٹی لگا دی، پھر مَیں نے نہا لیا اور اب دیکھ سکتا ہوں۔“ \p \v 16 فریسیوں میں سے بعض نے کہا، ”یہ شخص اللہ کی طرف سے نہیں ہے، کیونکہ سبت کے دن کام کرتا ہے۔“ \p دوسروں نے اعتراض کیا، ”گناہ گار اِس قسم کے الٰہی نشان کس طرح دکھا سکتا ہے؟“ یوں اُن میں پھوٹ پڑ گئی۔ \p \v 17 پھر وہ دوبارہ اُس آدمی سے مخاطب ہوئے جو پہلے اندھا تھا، ”تُو خود اِس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ اُس نے تو تیری ہی آنکھوں کو بحال کیا ہے۔“ \p اُس نے جواب دیا، ”وہ نبی ہے۔“ \p \v 18 یہودیوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ واقعی اندھا تھا اور پھر بحال ہو گیا ہے۔ اِس لئے اُنہوں نے اُس کے والدین کو بُلایا۔ \v 19 اُنہوں نے اُن سے پوچھا، ”کیا یہ تمہارا بیٹا ہے، وہی جس کے بارے میں تم کہتے ہو کہ وہ اندھا پیدا ہوا تھا؟ اب یہ کس طرح دیکھ سکتا ہے؟“ \p \v 20 اُس کے والدین نے جواب دیا، ”ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمارا بیٹا ہے اور کہ یہ پیدا ہوتے وقت اندھا تھا۔ \v 21 لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ اب یہ کس طرح دیکھ سکتا ہے یا کہ کس نے اِس کی آنکھوں کو بحال کیا ہے۔ اِس سے خود پتا کریں، یہ بالغ ہے۔ یہ خود اپنے بارے میں بتا سکتا ہے۔“ \v 22 اُس کے والدین نے یہ اِس لئے کہا کہ وہ یہودیوں سے ڈرتے تھے۔ کیونکہ وہ فیصلہ کر چکے تھے کہ جو بھی عیسیٰ کو مسیح قرار دے اُسے یہودی جماعت سے نکال دیا جائے۔ \v 23 یہی وجہ تھی کہ اُس کے والدین نے کہا تھا، ”یہ بالغ ہے، اِس سے خود پوچھ لیں۔“ \p \v 24 ایک بار پھر اُنہوں نے شفایاب اندھے کو بُلایا، ”اللہ کو جلال دے، ہم تو جانتے ہیں کہ یہ آدمی گناہ گار ہے۔“ \p \v 25 آدمی نے جواب دیا، ”مجھے کیا پتا ہے کہ وہ گناہ گار ہے یا نہیں، لیکن ایک بات مَیں جانتا ہوں، پہلے مَیں اندھا تھا، اور اب مَیں دیکھ سکتا ہوں!“ \p \v 26 پھر اُنہوں نے اُس سے سوال کیا، ”اُس نے تیرے ساتھ کیا کِیا؟ اُس نے کس طرح تیری آنکھوں کو بحال کر دیا؟“ \p \v 27 اُس نے جواب دیا، ”مَیں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں اور آپ نے سنا نہیں۔ کیا آپ بھی اُس کے شاگرد بننا چاہتے ہیں؟“ \p \v 28 اِس پر اُنہوں نے اُسے بُرا بھلا کہا، ”تُو ہی اُس کا شاگرد ہے، ہم تو موسیٰ کے شاگرد ہیں۔ \v 29 ہم تو جانتے ہیں کہ اللہ نے موسیٰ سے بات کی ہے، لیکن اِس کے بارے میں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔“ \p \v 30 آدمی نے جواب دیا، ”عجیب بات ہے، اُس نے میری آنکھوں کو شفا دی ہے اور پھر بھی آپ نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے ہے۔ \v 31 ہم جانتے ہیں کہ اللہ گناہ گاروں کی نہیں سنتا۔ وہ تو اُس کی سنتا ہے جو اُس کا خوف مانتا اور اُس کی مرضی کے مطابق چلتا ہے۔ \v 32 ابتدا ہی سے یہ بات سننے میں نہیں آئی کہ کسی نے پیدائشی اندھے کی آنکھوں کو بحال کر دیا ہو۔ \v 33 اگر یہ آدمی اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو کچھ نہ کر سکتا۔“ \p \v 34 جواب میں اُنہوں نے اُسے بتایا، ”تُو جو گناہ آلودہ حالت میں پیدا ہوا ہے کیا تُو ہمارا اُستاد بننا چاہتا ہے؟“ یہ کہہ کر اُنہوں نے اُسے جماعت میں سے نکال دیا۔ \s1 روحانی اندھا پن \p \v 35 جب عیسیٰ کو پتا چلا کہ اُسے نکال دیا گیا ہے تو وہ اُس کو ملا اور پوچھا، ”کیا تُو ابنِ آدم پر ایمان رکھتا ہے؟“ \p \v 36 اُس نے کہا، ”خداوند، وہ کون ہے؟ مجھے بتائیں تاکہ مَیں اُس پر ایمان لاؤں۔“ \p \v 37 عیسیٰ نے جواب دیا، ”تُو نے اُسے دیکھ لیا ہے بلکہ وہ تجھ سے بات کر رہا ہے۔“ \p \v 38 اُس نے کہا، ”خداوند، مَیں ایمان رکھتا ہوں“ اور اُسے سجدہ کیا۔ \p \v 39 عیسیٰ نے کہا، ”مَیں عدالت کرنے کے لئے اِس دنیا میں آیا ہوں، اِس لئے کہ اندھے دیکھیں اور دیکھنے والے اندھے ہو جائیں۔“ \p \v 40 کچھ فریسی جو ساتھ کھڑے تھے یہ کچھ سن کر پوچھنے لگے، ”اچھا، ہم بھی اندھے ہیں؟“ \p \v 41 عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”اگر تم اندھے ہوتے تو تم قصوروار نہ ٹھہرتے۔ لیکن اب چونکہ تم دعویٰ کرتے ہو کہ ہم دیکھ سکتے ہیں اِس لئے تمہارا گناہ قائم رہتا ہے۔ \c 10 \s1 چرواہے کی تمثیل \p \v 1 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو دروازے سے بھیڑوں کے باڑے میں داخل نہیں ہوتا بلکہ پھلانگ کر اندر گھس آتا ہے وہ چور اور ڈاکو ہے۔ \v 2 لیکن جو دروازے سے داخل ہوتا ہے وہ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ \v 3 چوکیدار اُس کے لئے دروازہ کھول دیتا ہے اور بھیڑیں اُس کی آواز سنتی ہیں۔ وہ اپنی ہر ایک بھیڑ کا نام لے کر اُنہیں بُلاتا اور باہر لے جاتا ہے۔ \v 4 اپنے پورے گلے کو باہر نکالنے کے بعد وہ اُن کے آگے آگے چلنے لگتا ہے اور بھیڑیں اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑتی ہیں، کیونکہ وہ اُس کی آواز پہچانتی ہیں۔ \v 5 لیکن وہ کسی اجنبی کے پیچھے نہیں چلیں گی بلکہ اُس سے بھاگ جائیں گی، کیونکہ وہ اُس کی آواز نہیں پہچانتیں۔“ \p \v 6 عیسیٰ نے اُنہیں یہ تمثیل پیش کی، لیکن وہ نہ سمجھے کہ وہ اُنہیں کیا بتانا چاہتا ہے۔ \s1 اچھا چرواہا \p \v 7 اِس لئے عیسیٰ دوبارہ اِس پر بات کرنے لگا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ بھیڑوں کے لئے دروازہ مَیں ہوں۔ \v 8 جتنے بھی مجھ سے پہلے آئے وہ چور اور ڈاکو ہیں۔ لیکن بھیڑوں نے اُن کی نہ سنی۔ \v 9 مَیں ہی دروازہ ہوں۔ جو بھی میرے ذریعے اندر آئے اُسے نجات ملے گی۔ وہ آتا جاتا اور ہری چراگاہیں پاتا رہے گا۔ \v 10 چور تو صرف چوری کرنے، ذبح کرنے اور تباہ کرنے آتا ہے۔ لیکن مَیں اِس لئے آیا ہوں کہ وہ زندگی پائیں، بلکہ کثرت کی زندگی پائیں۔ \p \v 11 اچھا چرواہا مَیں ہوں۔ اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے۔ \v 12 مزدور چرواہے کا کردار ادا نہیں کرتا، کیونکہ بھیڑیں اُس کی اپنی نہیں ہوتیں۔ اِس لئے جوں ہی کوئی بھیڑیا آتا ہے تو مزدور اُسے دیکھتے ہی بھیڑوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ نتیجے میں بھیڑیا کچھ بھیڑیں پکڑ لیتا اور باقیوں کو منتشر کر دیتا ہے۔ \v 13 وجہ یہ ہے کہ وہ مزدور ہی ہے اور بھیڑوں کی فکر نہیں کرتا۔ \v 14 اچھا چرواہا مَیں ہوں۔ مَیں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور وہ مجھے جانتی ہیں، \v 15 بالکل اُسی طرح جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور مَیں باپ کو جانتا ہوں۔ اور مَیں بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں۔ \v 16 میری اَور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس باڑے میں نہیں ہیں۔ لازم ہے کہ اُنہیں بھی لے آؤں۔ وہ بھی میری آواز سنیں گی۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی گلہ بان ہو گا۔ \p \v 17 میرا باپ مجھے اِس لئے پیار کرتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتا ہوں تاکہ اُسے پھر لے لوں۔ \v 18 کوئی میری جان مجھ سے چھین نہیں سکتا بلکہ مَیں اُسے اپنی مرضی سے دے دیتا ہوں۔ مجھے اُسے دینے کا اختیار ہے اور اُسے واپس لینے کا بھی۔ یہ حکم مجھے اپنے باپ کی طرف سے ملا ہے۔“ \p \v 19 اِن باتوں پر یہودیوں میں دوبارہ پھوٹ پڑ گئی۔ \v 20 بہتوں نے کہا، ”یہ بدروح کی گرفت میں ہے، یہ دیوانہ ہے۔ اِس کی کیوں سنیں!“ \p \v 21 لیکن اَوروں نے کہا، ”یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جو بدروح گرفتہ شخص کر سکے۔ کیا بدروحیں اندھوں کی آنکھیں بحال کر سکتی ہیں؟“ \s1 عیسیٰ کو رد کیا جاتا ہے \p \v 22 سردیوں کا موسم تھا اور عیسیٰ بیت المُقدّس کی مخصوصیت کی عید بنام حنوکا کے دوران یروشلم میں تھا۔ \v 23 وہ بیت المُقدّس کے اُس برآمدے میں پھر رہا تھا جس کا نام سلیمان کا برآمدہ تھا۔ \v 24 یہودی اُسے گھیر کر کہنے لگے، ”آپ ہمیں کب تک اُلجھن میں رکھیں گے؟ اگر آپ مسیح ہیں تو ہمیں صاف صاف بتا دیں۔“ \p \v 25 عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تم کو بتا چکا ہوں، لیکن تم کو یقین نہیں آیا۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہ میرے گواہ ہیں۔ \v 26 لیکن تم ایمان نہیں رکھتے کیونکہ تم میری بھیڑیں نہیں ہو۔ \v 27 میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں۔ مَیں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے چلتی ہیں۔ \v 28 مَیں اُنہیں ابدی زندگی دیتا ہوں، اِس لئے وہ کبھی ہلاک نہیں ہوں گی۔ کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا، \v 29 کیونکہ میرے باپ نے اُنہیں میرے سپرد کیا ہے اور وہی سب سے بڑا ہے۔ کوئی اُنہیں باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔ \v 30 مَیں اور باپ ایک ہیں۔“ \p \v 31 یہ سن کر یہودی دوبارہ پتھر اُٹھانے لگے تاکہ عیسیٰ کو سنگسار کریں۔ \v 32 اُس نے اُن سے کہا، ”مَیں نے تمہیں باپ کی طرف سے کئی الٰہی نشان دکھائے ہیں۔ تم مجھے اِن میں سے کس نشان کی وجہ سے سنگسار کر رہے ہو؟“ \p \v 33 یہودیوں نے جواب دیا، ”ہم تم کو کسی اچھے کام کی وجہ سے سنگسار نہیں کر رہے بلکہ کفر بکنے کی وجہ سے۔ تم جو صرف انسان ہو اللہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہو۔“ \p \v 34 عیسیٰ نے کہا، ”کیا یہ تمہاری شریعت میں نہیں لکھا ہے کہ اللہ نے فرمایا، ’تم خدا ہو‘؟ \v 35 اُنہیں ’خدا‘ کہا گیا جن تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا گیا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ کلامِ مُقدّس کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ \v 36 تو پھر تم کفر بکنے کی بات کیوں کرتے ہو جب مَیں کہتا ہوں کہ مَیں اللہ کا فرزند ہوں؟ آخر باپ نے خود مجھے مخصوص کر کے دنیا میں بھیجا ہے۔ \v 37 اگر مَیں اپنے باپ کے کام نہ کروں تو میری بات نہ مانو۔ \v 38 لیکن اگر اُس کے کام کروں تو بےشک میری بات نہ مانو، لیکن کم از کم اُن کاموں کی گواہی تو مانو۔ پھر تم جان لو گے اور سمجھ جاؤ گے کہ باپ مجھ میں ہے اور مَیں باپ میں ہوں۔“ \p \v 39 ایک بار پھر اُنہوں نے اُسے گرفتار کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اُن کے ہاتھ سے نکل گیا۔ \p \v 40 پھر عیسیٰ دوبارہ دریائے یردن کے پار اُس جگہ چلا گیا جہاں یحییٰ شروع میں بپتسمہ دیا کرتا تھا۔ وہاں وہ کچھ دیر ٹھہرا۔ \v 41 بہت سے لوگ اُس کے پاس آتے رہے۔ اُنہوں نے کہا، ”یحییٰ نے کبھی کوئی الٰہی نشان نہ دکھایا، لیکن جو کچھ اُس نے اِس کے بارے میں بیان کیا، وہ بالکل صحیح نکلا۔“ \v 42 اور وہاں بہت سے لوگ عیسیٰ پر ایمان لائے۔ \c 11 \s1 لعزر کی موت \p \v 1 اُن دنوں میں ایک آدمی بیمار پڑ گیا جس کا نام لعزر تھا۔ وہ اپنی بہنوں مریم اور مرتھا کے ساتھ بیت عنیاہ میں رہتا تھا۔ \v 2 یہ وہی مریم تھی جس نے بعد میں خداوند پر خوشبو اُنڈیل کر اُس کے پاؤں اپنے بالوں سے خشک کئے تھے۔ اُسی کا بھائی لعزر بیمار تھا۔ \v 3 چنانچہ بہنوں نے عیسیٰ کو اطلاع دی، ”خداوند، جسے آپ پیار کرتے ہیں وہ بیمار ہے۔“ \p \v 4 جب عیسیٰ کو یہ خبر ملی تو اُس نے کہا، ”اِس بیماری کا انجام موت نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کے جلال کے واسطے ہوا ہے، تاکہ اِس سے اللہ کے فرزند کو جلال ملے۔“ \p \v 5 عیسیٰ مرتھا، مریم اور لعزر سے محبت رکھتا تھا۔ \v 6 توبھی وہ لعزر کے بارے میں اطلاع ملنے کے بعد دو دن اَور وہیں ٹھہرا۔ \v 7 پھر اُس نے اپنے شاگردوں سے بات کی، ”آؤ، ہم دوبارہ یہودیہ چلے جائیں۔“ \p \v 8 شاگردوں نے اعتراض کیا، ”اُستاد، ابھی ابھی وہاں کے یہودی آپ کو سنگسار کرنے کی کوشش کر رہے تھے، پھر بھی آپ واپس جانا چاہتے ہیں؟“ \p \v 9 عیسیٰ نے جواب دیا، ”کیا دن میں روشنی کے بارہ گھنٹے نہیں ہوتے؟ جو شخص دن کے وقت چلتا پھرتا ہے وہ کسی بھی چیز سے نہیں ٹکرائے گا، کیونکہ وہ اِس دنیا کی روشنی کے ذریعے دیکھ سکتا ہے۔ \v 10 لیکن جو رات کے وقت چلتا ہے وہ چیزوں سے ٹکرا جاتا ہے، کیونکہ اُس کے پاس روشنی نہیں ہے۔“ \v 11 پھر اُس نے کہا، ”ہمارا دوست لعزر سو گیا ہے۔ لیکن مَیں جا کر اُسے جگا دوں گا۔“ \p \v 12 شاگردوں نے کہا، ”خداوند، اگر وہ سو رہا ہے تو وہ بچ جائے گا۔“ \p \v 13 اُن کا خیال تھا کہ عیسیٰ لعزر کی فطری نیند کا ذکر کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اُس کی موت کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ \v 14 اِس لئے اُس نے اُنہیں صاف بتا دیا، ”لعزر وفات پا گیا ہے۔ \v 15 اور تمہاری خاطر مَیں خوش ہوں کہ مَیں اُس کے مرتے وقت وہاں نہیں تھا، کیونکہ اب تم ایمان لاؤ گے۔ آؤ، ہم اُس کے پاس جائیں۔“ \p \v 16 توما نے جس کا لقب جُڑواں تھا اپنے ساتھی شاگردوں سے کہا، ”چلو، ہم بھی وہاں جا کر اُس کے ساتھ مر جائیں۔“ \s1 عیسیٰ قیامت اور زندگی ہے \p \v 17 وہاں پہنچ کر عیسیٰ کو معلوم ہوا کہ لعزر کو قبر میں رکھے چار دن ہو گئے ہیں۔ \v 18 بیت عنیاہ کا یروشلم سے فاصلہ تین کلو میٹر سے کم تھا، \v 19 اور بہت سے یہودی مرتھا اور مریم کو اُن کے بھائی کے بارے میں تسلی دینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ \p \v 20 یہ سن کر کہ عیسیٰ آ رہا ہے مرتھا اُسے ملنے گئی۔ لیکن مریم گھر میں بیٹھی رہی۔ \v 21 مرتھا نے کہا، ”خداوند، اگر آپ یہاں ہوتے تو میرا بھائی نہ مرتا۔ \v 22 لیکن مَیں جانتی ہوں کہ اب بھی اللہ آپ کو جو بھی مانگیں گے دے گا۔“ \p \v 23 عیسیٰ نے اُسے بتایا، ”تیرا بھائی جی اُٹھے گا۔“ \p \v 24 مرتھا نے جواب دیا، ”جی، مجھے معلوم ہے کہ وہ قیامت کے دن جی اُٹھے گا، جب سب جی اُٹھیں گے۔“ \p \v 25 عیسیٰ نے اُسے بتایا، ”قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان رکھے وہ زندہ رہے گا، چاہے وہ مر بھی جائے۔ \v 26 اور جو زندہ ہے اور مجھ پر ایمان رکھتا ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ مرتھا، کیا تجھے اِس بات کا یقین ہے؟“ \p \v 27 مرتھا نے جواب دیا، ”جی خداوند، مَیں ایمان رکھتی ہوں کہ آپ خدا کے فرزند مسیح ہیں، جسے دنیا میں آنا تھا۔“ \s1 عیسیٰ روتا ہے \p \v 28 یہ کہہ کر مرتھا واپس چلی گئی اور چپکے سے مریم کو بُلایا، ”اُستاد آ گئے ہیں، وہ تجھے بُلا رہے ہیں۔“ \v 29 یہ سنتے ہی مریم اُٹھ کر عیسیٰ کے پاس گئی۔ \v 30 وہ ابھی گاؤں کے باہر اُسی جگہ ٹھہرا تھا جہاں اُس کی ملاقات مرتھا سے ہوئی تھی۔ \v 31 جو یہودی گھر میں مریم کے ساتھ بیٹھے اُسے تسلی دے رہے تھے، جب اُنہوں نے دیکھا کہ وہ جلدی سے اُٹھ کر نکل گئی ہے تو وہ اُس کے پیچھے ہو لئے۔ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ماتم کرنے کے لئے اپنے بھائی کی قبر پر جا رہی ہے۔ \p \v 32 مریم عیسیٰ کے پاس پہنچ گئی۔ اُسے دیکھتے ہی وہ اُس کے پاؤں میں گر گئی اور کہنے لگی، ”خداوند، اگر آپ یہاں ہوتے تو میرا بھائی نہ مرتا۔“ \p \v 33 جب عیسیٰ نے مریم اور اُس کے ساتھیوں کو روتے دیکھا تو اُسے بڑی رنجش ہوئی۔ مضطرب حالت میں \v 34 اُس نے پوچھا، ”تم نے اُسے کہاں رکھا ہے؟“ \p اُنہوں نے جواب دیا، ”آئیں خداوند، اور دیکھ لیں۔“ \p \v 35 عیسیٰ رو پڑا۔ \v 36 یہودیوں نے کہا، ”دیکھو، وہ اُسے کتنا عزیز تھا۔“ \p \v 37 لیکن اُن میں سے بعض نے کہا، ”اِس آدمی نے اندھے کو شفا دی۔ کیا یہ لعزر کو مرنے سے نہیں بچا سکتا تھا؟“ \s1 لعزر کو زندہ کر دیا جاتا ہے \p \v 38 پھر عیسیٰ دوبارہ نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر آیا۔ قبر ایک غار تھی جس کے منہ پر پتھر رکھا گیا تھا۔ \v 39 عیسیٰ نے کہا، ”پتھر کو ہٹا دو۔“ \p لیکن مرحوم کی بہن مرتھا نے اعتراض کیا، ”خداوند، بدبو آئے گی، کیونکہ اُسے یہاں پڑے چار دن ہو گئے ہیں۔“ \p \v 40 عیسیٰ نے اُس سے کہا، ”کیا مَیں نے تجھے نہیں بتایا کہ اگر تُو ایمان رکھے تو اللہ کا جلال دیکھے گی؟“ \v 41 چنانچہ اُنہوں نے پتھر کو ہٹا دیا۔ پھر عیسیٰ نے اپنی نظر اُٹھا کر کہا، ”اے باپ، مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تُو نے میری سن لی ہے۔ \v 42 مَیں تو جانتا ہوں کہ تُو ہمیشہ میری سنتا ہے۔ لیکن مَیں نے یہ بات پاس کھڑے لوگوں کی خاطر کی، تاکہ وہ ایمان لائیں کہ تُو نے مجھے بھیجا ہے۔“ \v 43 پھر عیسیٰ زور سے پکار اُٹھا، ”لعزر، نکل آ!“ \v 44 اور مُردہ نکل آیا۔ ابھی تک اُس کے ہاتھ اور پاؤں پٹیوں سے بندھے ہوئے تھے جبکہ اُس کا چہرہ کپڑے میں لپٹا ہوا تھا۔ عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”اِس کے کفن کو کھول کر اِسے جانے دو۔“ \s1 عیسیٰ کے خلاف منصوبہ بندی \p \v 45 اُن یہودیوں میں سے جو مریم کے پاس آئے تھے بہت سے عیسیٰ پر ایمان لائے جب اُنہوں نے وہ دیکھا جو اُس نے کیا۔ \v 46 لیکن بعض فریسیوں کے پاس گئے اور اُنہیں بتایا کہ عیسیٰ نے کیا کِیا ہے۔ \v 47 تب راہنما اماموں اور فریسیوں نے یہودی عدالتِ عالیہ کا اجلاس منعقد کیا۔ اُنہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا، ”ہم کیا کر رہے ہیں؟ یہ آدمی بہت سے الٰہی نشان دکھا رہا ہے۔ \v 48 اگر ہم اُسے کھلا چھوڑیں تو آخرکار سب اُس پر ایمان لے آئیں گے۔ پھر رومی آ کر ہمارے بیت المُقدّس اور ہمارے ملک کو تباہ کر دیں گے۔“ \p \v 49 اُن میں سے ایک کائفا تھا جو اُس سال امامِ اعظم تھا۔ اُس نے کہا، ”آپ کچھ نہیں سمجھتے \v 50 اور اِس کا خیال بھی نہیں کرتے کہ اِس سے پہلے کہ پوری قوم ہلاک ہو جائے بہتر یہ ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے لئے مر جائے۔“ \v 51 اُس نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں کی تھی۔ اُس سال کے امامِ اعظم کی حیثیت سے ہی اُس نے یہ پیش گوئی کی کہ عیسیٰ یہودی قوم کے لئے مرے گا۔ \v 52 اور نہ صرف اِس کے لئے بلکہ اللہ کے بکھرے ہوئے فرزندوں کو جمع کر کے ایک کرنے کے لئے بھی۔ \p \v 53 اُس دن سے اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ \v 54 اِس لئے اُس نے اب سے علانیہ یہودیوں کے درمیان وقت نہ گزارا، بلکہ اُس جگہ کو چھوڑ کر ریگستان کے قریب ایک علاقے میں گیا۔ وہاں وہ اپنے شاگردوں سمیت ایک گاؤں بنام افرائیم میں رہنے لگا۔ \p \v 55 پھر یہودیوں کی عیدِ فسح قریب آ گئی۔ دیہات سے بہت سے لوگ اپنے آپ کو پاک کروانے کے لئے عید سے پہلے پہلے یروشلم پہنچے۔ \v 56 وہاں وہ عیسیٰ کا پتا کرتے اور بیت المُقدّس میں کھڑے آپس میں بات کرتے رہے، ”کیا خیال ہے؟ کیا وہ تہوار پر نہیں آئے گا؟“ \v 57 لیکن راہنما اماموں اور فریسیوں نے حکم دیا تھا، ”اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ عیسیٰ کہاں ہے تو وہ اطلاع دے تاکہ ہم اُسے گرفتار کر لیں۔“ \c 12 \s1 عیسیٰ کو بیت عنیاہ میں مسح کیا جاتا ہے \p \v 1 فسح کی عید میں ابھی چھ دن باقی تھے کہ عیسیٰ بیت عنیاہ پہنچا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں اُس لعزر کا گھر تھا جسے عیسیٰ نے مُردوں میں سے زندہ کیا تھا۔ \v 2 وہاں اُس کے لئے ایک خاص کھانا بنایا گیا۔ مرتھا کھانے والوں کی خدمت کر رہی تھی جبکہ لعزر عیسیٰ اور باقی مہمانوں کے ساتھ کھانے میں شریک تھا۔ \v 3 پھر مریم نے آدھا لٹر خالص جٹاماسی کا نہایت قیمتی عطر لے کر عیسیٰ کے پاؤں پر اُنڈیل دیا اور اُنہیں اپنے بالوں سے پونچھ کر خشک کیا۔ خوشبو پورے گھر میں پھیل گئی۔ \v 4 لیکن عیسیٰ کے شاگرد یہوداہ اسکریوتی نے اعتراض کیا (بعد میں اُسی نے عیسیٰ کو دشمن کے حوالے کر دیا)۔ اُس نے کہا، \v 5 ”اِس عطر کی قیمت چاندی کے 300 سِکے تھی۔ اِسے کیوں نہیں بیچا گیا تاکہ اِس کے پیسے غریبوں کو دیئے جاتے؟“ \v 6 اُس نے یہ بات اِس لئے نہیں کی کہ اُسے غریبوں کی فکر تھی۔ اصل میں وہ چور تھا۔ وہ شاگردوں کا خزانچی تھا اور جمع شدہ پیسوں میں سے بددیانتی کرتا رہتا تھا۔ \p \v 7 لیکن عیسیٰ نے کہا، ”اُسے چھوڑ دے! اُس نے میری تدفین کی تیاری کے لئے یہ کیا ہے۔ \v 8 غریب تو ہمیشہ تمہارے پاس رہیں گے، لیکن مَیں ہمیشہ تمہارے پاس نہیں رہوں گا۔“ \s1 لعزر کے خلاف منصوبہ بندی \p \v 9 اِتنے میں یہودیوں کی بڑی تعداد کو معلوم ہوا کہ عیسیٰ وہاں ہے۔ وہ نہ صرف عیسیٰ سے ملنے کے لئے آئے بلکہ لعزر سے بھی جسے اُس نے مُردوں میں سے زندہ کیا تھا۔ \v 10 اِس لئے راہنما اماموں نے لعزر کو بھی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ \v 11 کیونکہ اُس کی وجہ سے بہت سے یہودی اُن میں سے چلے گئے اور عیسیٰ پر ایمان لے آئے تھے۔ \s1 یروشلم میں عیسیٰ کا پُرجوش استقبال \p \v 12 اگلے دن عید کے لئے آئے ہوئے لوگوں کو پتا چلا کہ عیسیٰ یروشلم آ رہا ہے۔ ایک بڑا ہجوم \v 13 کھجور کی ڈالیاں پکڑے شہر سے نکل کر اُس سے ملنے آیا۔ چلتے چلتے وہ چلّا کر نعرے لگا رہے تھے، \p ”ہوشعنا!\f + \fr 12‏:13 \fk ہوشعنا: \ft ہوشعنا (عبرانی: مہربانی کر کے ہمیں بچا)۔ یہاں اِس میں حمد و ثنا کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ \f* \p مبارک ہے وہ جو رب کے نام سے آتا ہے! \p اسرائیل کا بادشاہ مبارک ہے!“ \p \v 14 عیسیٰ کو کہیں سے ایک جوان گدھا مل گیا اور وہ اُس پر بیٹھ گیا، جس طرح کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، \p \v 15 ”اے صیون بیٹی، مت ڈر! \p دیکھ، تیرا بادشاہ گدھے کے بچے پر سوار آ رہا ہے۔“ \p \v 16 اُس وقت اُس کے شاگردوں کو اِس بات کی سمجھ نہ آئی۔ لیکن بعد میں جب عیسیٰ اپنے جلال کو پہنچا تو اُنہیں یاد آیا کہ لوگوں نے اُس کے ساتھ یہ کچھ کیا تھا اور وہ سمجھ گئے کہ کلامِ مُقدّس میں اِس کا ذکر بھی ہے۔ \p \v 17 جو ہجوم اُس وقت عیسیٰ کے ساتھ تھا جب اُس نے لعزر کو مُردوں میں سے زندہ کیا تھا، وہ دوسروں کو اِس کے بارے میں بتاتا رہا تھا۔ \v 18 اِسی وجہ سے اِتنے لوگ عیسیٰ سے ملنے کے لئے آئے تھے، اُنہوں نے اُس کے اِس الٰہی نشان کے بارے میں سنا تھا۔ \v 19 یہ دیکھ کر فریسی آپس میں کہنے لگے، ”آپ دیکھ رہے ہیں کہ بات نہیں بن رہی۔ دیکھو، تمام دنیا اُس کے پیچھے ہو لی ہے۔“ \s1 کچھ یونانی عیسیٰ کو تلاش کرتے ہیں \p \v 20 کچھ یونانی بھی اُن میں تھے جو فسح کی عید کے موقع پر پرستش کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ \v 21 اب وہ فلپّس سے ملنے آئے جو گلیل کے بیت صیدا سے تھا۔ اُنہوں نے کہا، ”جناب، ہم عیسیٰ سے ملنا چاہتے ہیں۔“ \p \v 22 فلپّس نے اندریاس کو یہ بات بتائی اور پھر وہ مل کر عیسیٰ کے پاس گئے اور اُسے یہ خبر پہنچائی۔ \v 23 لیکن عیسیٰ نے جواب دیا، ”اب وقت آ گیا ہے کہ ابنِ آدم کو جلال ملے۔ \v 24 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جب تک گندم کا دانہ زمین میں گر کر مر نہ جائے وہ اکیلا ہی رہتا ہے۔ لیکن جب وہ مر جاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے۔ \v 25 جو اپنی جان کو پیار کرتا ہے وہ اُسے کھو دے گا، اور جو اِس دنیا میں اپنی جان سے دشمنی رکھتا ہے وہ اُسے ابد تک محفوظ رکھے گا۔ \v 26 اگر کوئی میری خدمت کرنا چاہے تو وہ میرے پیچھے ہو لے، کیونکہ جہاں مَیں ہوں وہاں میرا خادم بھی ہو گا۔ اور جو میری خدمت کرے میرا باپ اُس کی عزت کرے گا۔ \s1 عیسیٰ اپنی موت کا ذکر کرتا ہے \p \v 27 اب میرا دل مضطرب ہے۔ مَیں کیا کہوں؟ کیا مَیں کہوں، ’اے باپ، مجھے اِس وقت سے بچائے رکھ‘؟ نہیں، مَیں تو اِسی لئے آیا ہوں۔ \v 28 اے باپ، اپنے نام کو جلال دے۔“ \p تب آسمان سے ایک آواز سنائی دی، ”مَیں اُسے جلال دے چکا ہوں اور دوبارہ بھی جلال دوں گا۔“ \p \v 29 ہجوم کے جو لوگ وہاں کھڑے تھے اُنہوں نے یہ سن کر کہا، ”بادل گرج رہے ہیں۔“ اَوروں نے خیال پیش کیا، ”کوئی فرشتہ اُس سے ہم کلام ہوا ہے۔“ \p \v 30 عیسیٰ نے اُنہیں بتایا، ”یہ آواز میرے واسطے نہیں بلکہ تمہارے واسطے تھی۔ \v 31 اب دنیا کی عدالت کرنے کا وقت آ گیا ہے، اب دنیا کے حکمران کو نکال دیا جائے گا۔ \v 32 اور مَیں خود زمین سے اونچے پر چڑھائے جانے کے بعد سب کو اپنے پاس کھینچ لوں گا۔“ \v 33 اِن الفاظ سے اُس نے اِس طرف اشارہ کیا کہ وہ کس طرح کی موت مرے گا۔ \p \v 34 ہجوم بول اُٹھا، ”کلامِ مُقدّس سے ہم نے سنا ہے کہ مسیح ابد تک قائم رہے گا۔ تو پھر آپ کی یہ کیسی بات ہے کہ ابنِ آدم کو اونچے پر چڑھایا جانا ہے؟ آخر ابنِ آدم ہے کون؟“ \p \v 35 عیسیٰ نے جواب دیا، ”نور تھوڑی دیر اَور تمہارے پاس رہے گا۔ جتنی دیر وہ موجود ہے اِس نور میں چلتے رہو تاکہ تاریکی تم پر چھا نہ جائے۔ جو اندھیرے میں چلتا ہے اُسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ \v 36 نور کے تمہارے پاس سے چلے جانے سے پہلے پہلے اُس پر ایمان لاؤ تاکہ تم نور کے فرزند بن جاؤ۔“ \s1 لوگ ایمان نہیں رکھتے \p یہ کہنے کے بعد عیسیٰ چلا گیا اور غائب ہو گیا۔ \v 37 اگرچہ عیسیٰ نے یہ تمام الٰہی نشان اُن کے سامنے ہی دکھائے توبھی وہ اُس پر ایمان نہ لائے۔ \v 38 یوں یسعیاہ نبی کی پیش گوئی پوری ہوئی، \p ”اے رب، کون ہمارے پیغام پر ایمان لایا؟ \p اور رب کی قدرت کس پر ظاہر ہوئی؟“ \p \v 39 چنانچہ وہ ایمان نہ لا سکے، جس طرح یسعیاہ نبی نے کہیں اَور فرمایا ہے، \p \v 40 ”اللہ نے اُن کی آنکھوں کو اندھا \p اور اُن کے دل کو بےحس کر دیا ہے، \p ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں، \p اپنے دل سے سمجھیں، \p میری طرف رجوع کریں \p اور مَیں اُنہیں شفا دوں۔“ \p \v 41 یسعیاہ نے یہ اِس لئے فرمایا کیونکہ اُس نے عیسیٰ کا جلال دیکھ کر اُس کے بارے میں بات کی۔ \p \v 42 توبھی بہت سے لوگ عیسیٰ پر ایمان رکھتے تھے۔ اُن میں کچھ راہنما بھی شامل تھے۔ لیکن وہ اِس کا علانیہ اقرار نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ فریسی ہمیں یہودی جماعت سے خارج کر دیں گے۔ \v 43 اصل میں وہ اللہ کی عزت کی نسبت انسان کی عزت کو زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ \s1 عیسیٰ کا کلام لوگوں کی عدالت کرے گا \p \v 44 پھر عیسیٰ پکار اُٹھا، ”جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے وہ نہ صرف مجھ پر بلکہ اُس پر ایمان رکھتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ \v 45 اور جو مجھے دیکھتا ہے وہ اُسے دیکھتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ \v 46 مَیں نور کی حیثیت سے اِس دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو بھی مجھ پر ایمان لائے وہ تاریکی میں نہ رہے۔ \v 47 جو میری باتیں سن کر اُن پر عمل نہیں کرتا مَیں اُس کی عدالت نہیں کروں گا، کیونکہ مَیں دنیا کی عدالت کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ اُسے نجات دینے کے لئے۔ \v 48 توبھی ایک ہے جو اُس کی عدالت کرتا ہے۔ جو مجھے رد کر کے میری باتیں قبول نہیں کرتا میرا پیش کیا گیا کلام ہی قیامت کے دن اُس کی عدالت کرے گا۔ \v 49 کیونکہ جو کچھ مَیں نے بیان کیا ہے وہ میری طرف سے نہیں ہے۔ میرے بھیجنے والے باپ ہی نے مجھے حکم دیا کہ کیا کہنا اور کیا سنانا ہے۔ \v 50 اور مَیں جانتا ہوں کہ اُس کا حکم ابدی زندگی تک پہنچاتا ہے۔ چنانچہ جو کچھ مَیں سناتا ہوں وہی کچھ ہے جو باپ نے مجھے بتایا ہے۔“ \c 13 \s1 عیسیٰ اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوتا ہے \p \v 1 فسح کی عید اب شروع ہونے والی تھی۔ عیسیٰ جانتا تھا کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ مجھے اِس دنیا کو چھوڑ کر باپ کے پاس جانا ہے۔ گو اُس نے ہمیشہ دنیا میں اپنے لوگوں سے محبت رکھی تھی، لیکن اب اُس نے آخری حد تک اُن پر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ \p \v 2 پھر شام کا کھانا تیار ہوا۔ اُس وقت ابلیس شمعون اسکریوتی کے بیٹے یہوداہ کے دل میں عیسیٰ کو دشمن کے حوالے کرنے کا ارادہ ڈال چکا تھا۔ \v 3 عیسیٰ جانتا تھا کہ باپ نے سب کچھ میرے سپرد کر دیا ہے اور کہ مَیں اللہ میں سے نکل آیا اور اب اُس کے پاس واپس جا رہا ہوں۔ \v 4 چنانچہ اُس نے دسترخوان سے اُٹھ کر اپنا لباس اُتار دیا اور کمر پر تولیہ باندھ لیا۔ \v 5 پھر وہ باسن میں پانی ڈال کر شاگردوں کے پاؤں دھونے اور بندھے ہوئے تولیہ سے پونچھ کر خشک کرنے لگا۔ \v 6 جب پطرس کی باری آئی تو اُس نے کہا، ”خداوند، آپ میرے پاؤں دھونا چاہتے ہیں؟“ \p \v 7 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اِس وقت تُو نہیں سمجھتا کہ مَیں کیا کر رہا ہوں، لیکن بعد میں یہ تیری سمجھ میں آ جائے گا۔“ \p \v 8 پطرس نے اعتراض کیا، ”مَیں کبھی بھی آپ کو میرے پاؤں دھونے نہیں دوں گا!“ \p عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر مَیں تجھے نہ دھوؤں تو میرے ساتھ تیرا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔“ \p \v 9 یہ سن کر پطرس نے کہا، ”تو پھر خداوند، نہ صرف میرے پاؤں بلکہ میرے ہاتھوں اور سر کو بھی دھوئیں!“ \p \v 10 عیسیٰ نے جواب دیا، ”جس شخص نے نہا لیا ہے اُسے صرف اپنے پاؤں کو دھونے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ وہ پورے طور پر پاک صاف ہے۔ تم پاک صاف ہو، لیکن سب کے سب نہیں۔“ \v 11 (عیسیٰ کو معلوم تھا کہ کون اُسے دشمن کے حوالے کرے گا۔ اِس لئے اُس نے کہا کہ سب کے سب پاک صاف نہیں ہیں۔) \p \v 12 اُن سب کے پاؤں دھونے کے بعد عیسیٰ دوبارہ اپنا لباس پہن کر بیٹھ گیا۔ اُس نے سوال کیا، ”کیا تم سمجھتے ہو کہ مَیں نے تمہارے لئے کیا کِیا ہے؟ \v 13 تم مجھے ’اُستاد‘ اور ’خداوند‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہو اور یہ صحیح ہے، کیونکہ مَیں یہی کچھ ہوں۔ \v 14 مَیں، تمہارے خداوند اور اُستاد نے تمہارے پاؤں دھوئے۔ اِس لئے اب تمہارا فرض بھی ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔ \v 15 مَیں نے تم کو ایک نمونہ دیا ہے تاکہ تم بھی وہی کرو جو مَیں نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔ \v 16 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ غلام اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا، نہ پیغمبر اپنے بھیجنے والے سے۔ \v 17 اگر تم یہ جانتے ہو تو اِس پر عمل بھی کرو، پھر ہی تم مبارک ہو گے۔ \p \v 18 مَیں تم سب کی بات نہیں کر رہا۔ جنہیں مَیں نے چن لیا ہے اُنہیں مَیں جانتا ہوں۔ لیکن کلامِ مُقدّس کی اِس بات کا پورا ہونا ضرور ہے، ’جو میری روٹی کھاتا ہے اُس نے مجھ پر لات اُٹھائی ہے۔‘ \v 19 مَیں تم کو اِس سے پہلے کہ وہ پیش آئے یہ ابھی بتا رہا ہوں، تاکہ جب وہ پیش آئے تو تم ایمان لاؤ کہ مَیں وہی ہوں۔ \v 20 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو شخص اُسے قبول کرتا ہے جسے مَیں نے بھیجا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے۔ اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ اُسے قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔“ \s1 عیسیٰ کو دشمن کے حوالے کیا جاتا ہے \p \v 21 اِن الفاظ کے بعد عیسیٰ نہایت مضطرب ہوا اور کہا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ تم میں سے ایک مجھے دشمن کے حوالے کر دے گا۔“ \p \v 22 شاگرد اُلجھن میں ایک دوسرے کو دیکھ کر سوچنے لگے کہ عیسیٰ کس کی بات کر رہا ہے۔ \v 23 ایک شاگرد جسے عیسیٰ پیار کرتا تھا اُس کے قریب ترین بیٹھا تھا۔ \v 24 پطرس نے اُسے اشارہ کیا کہ وہ اُس سے دریافت کرے کہ وہ کس کی بات کر رہا ہے۔ \p \v 25 اُس شاگرد نے عیسیٰ کی طرف سر جھکا کر پوچھا، ”خداوند، یہ کون ہے؟“ \p \v 26 عیسیٰ نے جواب دیا، ”جسے مَیں روٹی کا لقمہ شوربے میں ڈبو کر دوں، وہی ہے۔“ پھر لقمے کو ڈبو کر اُس نے شمعون اسکریوتی کے بیٹے یہوداہ کو دے دیا۔ \v 27 جوں ہی یہوداہ نے یہ لقمہ لے لیا ابلیس اُس میں سما گیا۔ عیسیٰ نے اُسے بتایا، ”جو کچھ کرنا ہے وہ جلدی سے کر لے۔“ \v 28 لیکن میز پر بیٹھے لوگوں میں سے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ عیسیٰ نے یہ کیوں کہا۔ \v 29 بعض کا خیال تھا کہ چونکہ یہوداہ خزانچی تھا اِس لئے وہ اُسے بتا رہا ہے کہ عید کے لئے درکار چیزیں خرید لے یا غریبوں میں کچھ تقسیم کر دے۔ \p \v 30 چنانچہ عیسیٰ سے یہ لقمہ لیتے ہی یہوداہ باہر نکل گیا۔ رات کا وقت تھا۔ \s1 عیسیٰ کا نیا حکم \p \v 31 یہوداہ کے چلے جانے کے بعد عیسیٰ نے کہا، ”اب ابنِ آدم نے جلال پایا اور اللہ نے اُس میں جلال پایا ہے۔ \v 32 ہاں، چونکہ اللہ کو اُس میں جلال مل گیا ہے اِس لئے اللہ اپنے میں فرزند کو جلال دے گا۔ اور وہ یہ جلال فوراً دے گا۔ \v 33 میرے بچو، مَیں تھوڑی دیر اَور تمہارے پاس ٹھہروں گا۔ تم مجھے تلاش کرو گے، اور جو کچھ مَیں یہودیوں کو بتا چکا ہوں وہ اب تم کو بھی بتاتا ہوں، جہاں مَیں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں آ سکتے۔ \v 34 مَیں تم کو ایک نیا حکم دیتا ہوں، یہ کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ جس طرح مَیں نے تم سے محبت رکھی اُسی طرح تم بھی ایک دوسرے سے محبت کرو۔ \v 35 اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھو گے تو سب جان لیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“ \s1 پطرس کے انکار کی پیش گوئی \p \v 36 پطرس نے پوچھا، ”خداوند، آپ کہاں جا رہے ہیں؟“ \p عیسیٰ نے جواب دیا، ”جہاں مَیں جا رہا ہوں وہاں تُو میرے پیچھے نہیں آ سکتا۔ لیکن بعد میں تُو میرے پیچھے آ جائے گا۔“ \p \v 37 پطرس نے سوال کیا، ”خداوند، مَیں آپ کے پیچھے ابھی کیوں نہیں جا سکتا؟ مَیں آپ کے لئے اپنی جان تک دینے کو تیار ہوں۔“ \p \v 38 لیکن عیسیٰ نے جواب دیا، ”تُو میرے لئے اپنی جان دینا چاہتا ہے؟ مَیں تجھے سچ بتاتا ہوں کہ مرغ کے بانگ دینے سے پہلے پہلے تُو تین مرتبہ مجھے جاننے سے انکار کر چکا ہو گا۔ \c 14 \s1 عیسیٰ باپ کے پاس جانے کی راہ ہے \p \v 1 تمہارا دل نہ گھبرائے۔ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، مجھ پر بھی ایمان رکھو۔ \v 2 میرے باپ کے گھر میں بےشمار مکان ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا مَیں تم کو بتاتا کہ مَیں تمہارے لئے جگہ تیار کرنے کے لئے وہاں جا رہا ہوں؟ \v 3 اور اگر مَیں جا کر تمہارے لئے جگہ تیار کروں تو واپس آ کر تم کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا تاکہ جہاں مَیں ہوں وہاں تم بھی ہو۔ \v 4 اور جہاں مَیں جا رہا ہوں اُس کی راہ تم جانتے ہو۔“ \p \v 5 توما بول اُٹھا، ”خداوند، ہمیں معلوم نہیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔ تو پھر ہم اُس کی راہ کس طرح جانیں؟“ \p \v 6 عیسیٰ نے جواب دیا، ”راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آ سکتا۔ \v 7 اگر تم نے مجھے جان لیا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ تم میرے باپ کو بھی جان لو گے۔ اور اب سے ایسا ہے بھی۔ تم اُسے جانتے ہو اور تم نے اُس کو دیکھ لیا ہے۔“ \p \v 8 فلپّس نے کہا، ”اے خداوند، باپ کو ہمیں دکھائیں۔ بس یہی ہمارے لئے کافی ہے۔“ \p \v 9 عیسیٰ نے جواب دیا، ”فلپّس، مَیں اِتنی دیر سے تمہارے ساتھ ہوں، کیا اِس کے باوجود تُو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا ہے۔ تو پھر تُو کیونکر کہتا ہے، ’باپ کو ہمیں دکھائیں‘؟ \v 10 کیا تُو ایمان نہیں رکھتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ جو باتیں مَیں تم کو بتاتا ہوں وہ میری نہیں بلکہ مجھ میں رہنے والے باپ کی طرف سے ہیں۔ وہی اپنا کام کر رہا ہے۔ \v 11 میری بات کا یقین کرو کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے۔ یا کم از کم اُن کاموں کی بنا پر یقین کرو جو مَیں نے کئے ہیں۔ \v 12 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھے وہ وہی کچھ کرے گا جو مَیں کرتا ہوں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا، کیونکہ مَیں باپ کے پاس جا رہا ہوں۔ \v 13 اور جو کچھ تم میرے نام میں مانگو مَیں دوں گا تاکہ باپ کو فرزند میں جلال مل جائے۔ \v 14 جو کچھ تم میرے نام میں مجھ سے چاہو وہ مَیں کروں گا۔ \s1 روح القدس دینے کا وعدہ \p \v 15 اگر تم مجھے پیار کرتے ہو تو میرے احکام کے مطابق زندگی گزارو گے۔ \v 16 اور مَیں باپ سے گزارش کروں گا تو وہ تم کو ایک اَور مددگار دے گا جو ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا \v 17 یعنی سچائی کا روح، جسے دنیا پا نہیں سکتی، کیونکہ وہ نہ تو اُسے دیکھتی نہ جانتی ہے۔ لیکن تم اُسے جانتے ہو، کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور آئندہ تمہارے اندر رہے گا۔ \p \v 18 مَیں تم کو یتیم چھوڑ کر نہیں جاؤں گا بلکہ تمہارے پاس واپس آؤں گا۔ \v 19 تھوڑی دیر کے بعد دنیا مجھے نہیں دیکھے گی، لیکن تم مجھے دیکھتے رہو گے۔ چونکہ مَیں زندہ ہوں اِس لئے تم بھی زندہ رہو گے۔ \v 20 جب وہ دن آئے گا تو تم جان لو گے کہ مَیں اپنے باپ میں ہوں، تم مجھ میں ہو اور مَیں تم میں۔ \p \v 21 جس کے پاس میرے احکام ہیں اور جو اُن کے مطابق زندگی گزارتا ہے، وہی مجھے پیار کرتا ہے۔ اور جو مجھے پیار کرتا ہے اُسے میرا باپ پیار کرے گا۔ مَیں بھی اُسے پیار کروں گا اور اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کروں گا۔“ \p \v 22 یہوداہ (یہوداہ اسکریوتی نہیں) نے پوچھا، ”خداوند، کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو صرف ہم پر ظاہر کریں گے اور دنیا پر نہیں؟“ \p \v 23 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر کوئی مجھے پیار کرے تو وہ میرے کلام کے مطابق زندگی گزارے گا۔ میرا باپ ایسے شخص کو پیار کرے گا اور ہم اُس کے پاس آ کر اُس کے ساتھ سکونت کریں گے۔ \v 24 جو مجھ سے محبت نہیں کرتا وہ میری باتوں کے مطابق زندگی نہیں گزارتا۔ اور جو کلام تم مجھ سے سنتے ہو وہ میرا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ باپ کا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ \p \v 25 یہ سب کچھ مَیں نے تمہارے ساتھ رہتے ہوئے تم کو بتایا ہے۔ \v 26 لیکن بعد میں روح القدس، جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا تم کو سب کچھ سکھائے گا۔ یہ مددگار تم کو ہر بات کی یاد دلائے گا جو مَیں نے تم کو بتائی ہے۔ \p \v 27 مَیں تمہارے پاس سلامتی چھوڑے جاتا ہوں، اپنی ہی سلامتی تم کو دے دیتا ہوں۔ اور مَیں اِسے یوں نہیں دیتا جس طرح دنیا دیتی ہے۔ تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے۔ \v 28 تم نے مجھ سے سن لیا ہے کہ ’مَیں جا رہا ہوں اور تمہارے پاس واپس آؤں گا۔‘ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے تو تم اِس بات پر خوش ہوتے کہ مَیں باپ کے پاس جا رہا ہوں، کیونکہ باپ مجھ سے بڑا ہے۔ \v 29 مَیں نے تم کو پہلے سے بتا دیا ہے، اِس سے پیشتر کہ یہ ہو، تاکہ جب پیش آئے تو تم ایمان لاؤ۔ \v 30 اب سے مَیں تم سے زیادہ باتیں نہیں کروں گا، کیونکہ اِس دنیا کا حکمران آ رہا ہے۔ اُسے مجھ پر کوئی قابو نہیں ہے، \v 31 لیکن دنیا یہ جان لے کہ مَیں باپ کو پیار کرتا ہوں اور وہی کچھ کرتا ہوں جس کا حکم وہ مجھے دیتا ہے۔ \p اب اُٹھو، ہم یہاں سے چلیں۔ \c 15 \s1 عیسیٰ انگور کی حقیقی بیل ہے \p \v 1 مَیں انگور کی حقیقی بیل ہوں اور میرا باپ مالی ہے۔ \v 2 وہ میری ہر شاخ کو جو پھل نہیں لاتی کاٹ کر پھینک دیتا ہے۔ لیکن جو شاخ پھل لاتی ہے اُس کی وہ کانٹ چھانٹ کرتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائے۔ \v 3 اُس کلام کے ذریعے جو مَیں نے تم کو سنایا ہے تم تو پاک صاف ہو چکے ہو۔ \v 4 مجھ میں قائم رہو تو مَیں بھی تم میں قائم رہوں گا۔ جو شاخ بیل سے کٹ گئی ہے وہ پھل نہیں لا سکتی۔ بالکل اِسی طرح تم بھی اگر تم مجھ میں قائم نہیں رہتے پھل نہیں لا سکتے۔ \p \v 5 مَیں ہی انگور کی بیل ہوں، اور تم اُس کی شاخیں ہو۔ جو مجھ میں قائم رہتا ہے اور مَیں اُس میں وہ بہت سا پھل لاتا ہے، کیونکہ مجھ سے الگ ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے۔ \v 6 جو مجھ میں قائم نہیں رہتا اور نہ مَیں اُس میں اُسے بےفائدہ شاخ کی طرح باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ ایسی شاخیں سوکھ جاتی ہیں اور لوگ اُن کا ڈھیر لگا کر اُنہیں آگ میں جھونک دیتے ہیں جہاں وہ جل جاتی ہیں۔ \v 7 اگر تم مجھ میں قائم رہو اور مَیں تم میں تو جو جی چاہے مانگو، وہ تم کو دیا جائے گا۔ \v 8 جب تم بہت سا پھل لاتے اور یوں میرے شاگرد ثابت ہوتے ہو تو اِس سے میرے باپ کو جلال ملتا ہے۔ \v 9 جس طرح باپ نے مجھ سے محبت رکھی ہے اُسی طرح مَیں نے تم سے بھی محبت رکھی ہے۔ اب میری محبت میں قائم رہو۔ \v 10 جب تم میرے احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہو تو تم میری محبت میں قائم رہتے ہو۔ مَیں بھی اِسی طرح اپنے باپ کے احکام کے مطابق چلتا ہوں اور یوں اُس کی محبت میں قائم رہتا ہوں۔ \p \v 11 مَیں نے تم کو یہ اِس لئے بتایا ہے تاکہ میری خوشی تم میں ہو بلکہ تمہارا دل خوشی سے بھر کر چھلک اُٹھے۔ \v 12 میرا حکم یہ ہے کہ ایک دوسرے کو ویسے پیار کرو جیسے مَیں نے تم کو پیار کیا ہے۔ \v 13 اِس سے بڑی محبت ہے نہیں کہ کوئی اپنے دوستوں کے لئے اپنی جان دے دے۔ \v 14 تم میرے دوست ہو اگر تم وہ کچھ کرو جو مَیں تم کو بتاتا ہوں۔ \v 15 اب سے مَیں نہیں کہتا کہ تم غلام ہو، کیونکہ غلام نہیں جانتا کہ اُس کا مالک کیا کرتا ہے۔ اِس کے بجائے مَیں نے کہا ہے کہ تم دوست ہو، کیونکہ مَیں نے تم کو سب کچھ بتایا ہے جو مَیں نے اپنے باپ سے سنا ہے۔ \v 16 تم نے مجھے نہیں چنا بلکہ مَیں نے تم کو چن لیا ہے۔ مَیں نے تم کو مقرر کیا کہ جا کر پھل لاؤ، ایسا پھل جو قائم رہے۔ پھر باپ تم کو وہ کچھ دے گا جو تم میرے نام میں مانگو گے۔ \v 17 میرا حکم یہی ہے کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ \s1 دنیا کی دشمنی \p \v 18 اگر دنیا تم سے دشمنی رکھے تو یہ بات ذہن میں رکھو کہ اُس نے تم سے پہلے مجھ سے دشمنی رکھی ہے۔ \v 19 اگر تم دنیا کے ہوتے تو دنیا تم کو اپنا سمجھ کر پیار کرتی۔ لیکن تم دنیا کے نہیں ہو۔ مَیں نے تم کو دنیا سے الگ کر کے چن لیا ہے۔ اِس لئے دنیا تم سے دشمنی رکھتی ہے۔ \v 20 وہ بات یاد کرو جو مَیں نے تم کو بتائی کہ غلام اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔ اگر اُنہوں نے مجھے ستایا ہے تو تمہیں بھی ستائیں گے۔ اور اگر اُنہوں نے میرے کلام کے مطابق زندگی گزاری تو وہ تمہاری باتوں پر بھی عمل کریں گے۔ \v 21 لیکن تمہارے ساتھ جو کچھ بھی کریں گے، میرے نام کی وجہ سے کریں گے، کیونکہ وہ اُسے نہیں جانتے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ \v 22 اگر مَیں آیا نہ ہوتا اور اُن سے بات نہ کی ہوتی تو وہ قصوروار نہ ٹھہرتے۔ لیکن اب اُن کے گناہ کا کوئی بھی عذر باقی نہیں رہا۔ \v 23 جو مجھ سے دشمنی رکھتا ہے وہ میرے باپ سے بھی دشمنی رکھتا ہے۔ \v 24 اگر مَیں نے اُن کے درمیان ایسا کام نہ کیا ہوتا جو کسی اَور نے نہیں کیا تو وہ قصوروار نہ ٹھہرتے۔ لیکن اب اُنہوں نے سب کچھ دیکھا ہے اور پھر بھی مجھ سے اور میرے باپ سے دشمنی رکھی ہے۔ \v 25 اور ایسا ہونا بھی تھا تاکہ کلامِ مُقدّس کی یہ پیش گوئی پوری ہو جائے کہ ’اُنہوں نے بلاوجہ مجھ سے کینہ رکھا ہے۔‘ \p \v 26 جب وہ مددگار آئے گا جسے مَیں باپ کی طرف سے تمہارے پاس بھیجوں گا تو وہ میرے بارے میں گواہی دے گا۔ وہ سچائی کا روح ہے جو باپ میں سے نکلتا ہے۔ \v 27 تم کو بھی میرے بارے میں گواہی دینا ہے، کیونکہ تم ابتدا سے میرے ساتھ رہے ہو۔ \c 16 \p \v 1 مَیں نے تم کو یہ اِس لئے بتایا ہے تاکہ تم گم راہ نہ ہو جاؤ۔ \v 2 وہ تم کو یہودی جماعتوں سے نکال دیں گے، بلکہ وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ جو بھی تم کو مار ڈالے گا وہ سمجھے گا، ’مَیں نے اللہ کی خدمت کی ہے۔‘ \v 3 وہ اِس قسم کی حرکتیں اِس لئے کریں گے کہ اُنہوں نے نہ باپ کو جانا ہے، نہ مجھے۔ \v 4 مَیں نے تم کو یہ باتیں اِس لئے بتائی ہیں کہ جب اُن کا وقت آ جائے تو تم کو یاد آئے کہ مَیں نے تمہیں آگاہ کر دیا تھا۔ \s1 روح القدس کی خدمت \p مَیں نے اب تک تم کو یہ نہیں بتایا کیونکہ مَیں تمہارے ساتھ تھا۔ \v 5 لیکن اب مَیں اُس کے پاس جا رہا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے۔ توبھی تم میں سے کوئی مجھ سے نہیں پوچھتا، ’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘ \v 6 اِس کے بجائے تمہارے دل غم زدہ ہیں کہ مَیں نے تم کو ایسی باتیں بتائی ہیں۔ \v 7 لیکن مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ تمہارے لئے فائدہ مند ہے کہ مَیں جا رہا ہوں۔ اگر مَیں نہ جاؤں تو مددگار تمہارے پاس نہیں آئے گا۔ لیکن اگر مَیں جاؤں تو مَیں اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ \v 8 اور جب وہ آئے گا تو گناہ، راست بازی اور عدالت کے بارے میں دنیا کی غلطی کو بےنقاب کر کے یہ ظاہر کرے گا: \v 9 گناہ کے بارے میں یہ کہ لوگ مجھ پر ایمان نہیں رکھتے، \v 10 راست بازی کے بارے میں یہ کہ مَیں باپ کے پاس جا رہا ہوں اور تم مجھے اب سے نہیں دیکھو گے، \v 11 اور عدالت کے بارے میں یہ کہ اِس دنیا کے حکمران کی عدالت ہو چکی ہے۔ \p \v 12 مجھے تم کو مزید بہت کچھ بتانا ہے، لیکن اِس وقت تم اُسے برداشت نہیں کر سکتے۔ \v 13 جب سچائی کا روح آئے گا تو وہ پوری سچائی کی طرف تمہاری راہنمائی کرے گا۔ وہ اپنی مرضی سے بات نہیں کرے گا بلکہ صرف وہی کچھ کہے گا جو وہ خود سنے گا۔ وہی تم کو مستقبل کے بارے میں بھی بتائے گا۔ \v 14 اور وہ اِس میں مجھے جلال دے گا کہ وہ تم کو وہی کچھ سنائے گا جو اُسے مجھ سے ملا ہو گا۔ \v 15 جو کچھ بھی باپ کا ہے وہ میرا ہے۔ اِس لئے مَیں نے کہا، ’روح تم کو وہی کچھ سنائے گا جو اُسے مجھ سے ملا ہو گا۔‘ \s1 اب دُکھ پھر سُکھ \p \v 16 تھوڑی دیر کے بعد تم مجھے نہیں دیکھو گے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد تم مجھے دوبارہ دیکھ لو گے۔“ \p \v 17 اُس کے کچھ شاگرد آپس میں بات کرنے لگے، ”عیسیٰ کے یہ کہنے سے کیا مراد ہے کہ ’تھوڑی دیر کے بعد تم مجھے نہیں دیکھو گے، پھر تھوڑی دیر کے بعد مجھے دوبارہ دیکھ لو گے‘؟ اور اِس کا کیا مطلب ہے، ’مَیں باپ کے پاس جا رہا ہوں‘؟“ \v 18 اور وہ سوچتے رہے، ”یہ کس قسم کی ’تھوڑی دیر‘ ہے جس کا ذکر وہ کر رہے ہیں؟ ہم اُن کی بات نہیں سمجھتے۔“ \p \v 19 عیسیٰ نے جان لیا کہ وہ مجھ سے اِس کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہیں۔ اِس لئے اُس نے کہا، ”کیا تم ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہو کہ میری اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ ’تھوڑی دیر کے بعد تم مجھے نہیں دیکھو گے، پھر تھوڑی دیر کے بعد مجھے دوبارہ دیکھ لو گے‘؟ \v 20 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ تم رو رو کر ماتم کرو گے جبکہ دنیا خوش ہو گی۔ تم غم کرو گے، لیکن تمہارا غم خوشی میں بدل جائے گا۔ \v 21 جب کسی عورت کے بچہ پیدا ہونے والا ہوتا ہے تو اُسے غم اور تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اُس کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن جوں ہی بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو ماں خوشی کے مارے کہ ایک انسان دنیا میں آ گیا ہے اپنی تمام مصیبت بھول جاتی ہے۔ \v 22 یہی تمہاری حالت ہے۔ کیونکہ اب تم غمزدہ ہو، لیکن مَیں تم سے دوبارہ ملوں گا۔ اُس وقت تم کو خوشی ہو گی، ایسی خوشی جو تم سے کوئی چھین نہ لے گا۔ \p \v 23 اُس دن تم مجھ سے کچھ نہیں پوچھو گے۔ مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو کچھ تم میرے نام میں باپ سے مانگو گے وہ تم کو دے گا۔ \v 24 اب تک تم نے میرے نام میں کچھ نہیں مانگا۔ مانگو تو تم کو ملے گا۔ پھر تمہاری خوشی پوری ہو جائے گی۔ \s1 دنیا پر فتح \p \v 25 مَیں نے تم کو یہ تمثیلوں میں بتایا ہے۔ لیکن ایک دن آئے گا جب مَیں ایسا نہیں کروں گا۔ اُس وقت مَیں تمثیلوں میں بات نہیں کروں گا بلکہ تم کو باپ کے بارے میں صاف صاف بتا دوں گا۔ \v 26 اُس دن تم میرا نام لے کر مانگو گے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ مَیں ہی تمہاری خاطر باپ سے درخواست کروں گا۔ \v 27 کیونکہ باپ خود تم کو پیار کرتا ہے، اِس لئے کہ تم نے مجھے پیار کیا ہے اور ایمان لائے ہو کہ مَیں اللہ میں سے نکل آیا ہوں۔ \v 28 مَیں باپ میں سے نکل کر دنیا میں آیا ہوں۔ اور اب مَیں دنیا کو چھوڑ کر باپ کے پاس واپس جاتا ہوں۔“ \p \v 29 اِس پر اُس کے شاگردوں نے کہا، ”اب آپ تمثیلوں میں نہیں بلکہ صاف صاف بات کر رہے ہیں۔ \v 30 اب ہمیں سمجھ آئی ہے کہ آپ سب کچھ جانتے ہیں اور کہ اِس کی ضرورت نہیں کہ کوئی آپ کی پوچھ گچھ کرے۔ اِس لئے ہم ایمان رکھتے ہیں کہ آپ اللہ میں سے نکل کر آئے ہیں۔“ \p \v 31 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اب تم ایمان رکھتے ہو؟ \v 32 دیکھو، وہ وقت آ رہا ہے بلکہ آ چکا ہے جب تم تتر بتر ہو جاؤ گے۔ مجھے اکیلا چھوڑ کر ہر ایک اپنے گھر چلا جائے گا۔ توبھی مَیں اکیلا نہیں ہوں گا کیونکہ باپ میرے ساتھ ہے۔ \v 33 مَیں نے تم کو اِس لئے یہ بات بتائی تاکہ تم مجھ میں سلامتی پاؤ۔ دنیا میں تم مصیبت میں پھنسے رہتے ہو۔ لیکن حوصلہ رکھو، مَیں دنیا پر غالب آیا ہوں۔“ \c 17 \s1 عیسیٰ اپنے شاگردوں کے لئے دعا کرتا ہے \p \v 1 یہ کہہ کر عیسیٰ نے اپنی نظر آسمان کی طرف اُٹھائی اور دعا کی، ”اے باپ، وقت آ گیا ہے۔ اپنے فرزند کو جلال دے تاکہ فرزند تجھے جلال دے۔ \v 2 کیونکہ تُو نے اُسے تمام انسانوں پر اختیار دیا ہے تاکہ وہ اُن سب کو ابدی زندگی دے جو تُو نے اُسے دیئے ہیں۔ \v 3 اور ابدی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے جان لیں جو واحد اور سچا خدا ہے اور عیسیٰ مسیح کو بھی جان لیں جسے تُو نے بھیجا ہے۔ \v 4 مَیں نے تجھے زمین پر جلال دیا اور اُس کام کی تکمیل کی جس کی ذمہ داری تُو نے مجھے دی تھی۔ \v 5 اور اب مجھے اپنے حضور جلال دے، اے باپ، وہی جلال جو مَیں دنیا کی تخلیق سے پیشتر تیرے حضور رکھتا تھا۔ \p \v 6 مَیں نے تیرا نام اُن لوگوں پر ظاہر کیا جنہیں تُو نے دنیا سے الگ کر کے مجھے دیا ہے۔ وہ تیرے ہی تھے۔ تُو نے اُنہیں مجھے دیا اور اُنہوں نے تیرے کلام کے مطابق زندگی گزاری ہے۔ \v 7 اب اُنہوں نے جان لیا ہے کہ جو کچھ بھی تُو نے مجھے دیا ہے وہ تیری طرف سے ہے۔ \v 8 کیونکہ جو باتیں تُو نے مجھے دیں مَیں نے اُنہیں دی ہیں۔ نتیجے میں اُنہوں نے یہ باتیں قبول کر کے حقیقی طور پر جان لیا کہ مَیں تجھ میں سے نکل کر آیا ہوں۔ ساتھ ساتھ وہ ایمان بھی لائے کہ تُو نے مجھے بھیجا ہے۔ \p \v 9 مَیں اُن کے لئے دعا کرتا ہوں، دنیا کے لئے نہیں بلکہ اُن کے لئے جنہیں تُو نے مجھے دیا ہے، کیونکہ وہ تیرے ہی ہیں۔ \v 10 جو بھی میرا ہے وہ تیرا ہے اور جو تیرا ہے وہ میرا ہے۔ چنانچہ مجھے اُن میں جلال ملا ہے۔ \v 11 اب سے مَیں دنیا میں نہیں ہوں گا۔ لیکن یہ دنیا میں رہ گئے ہیں جبکہ مَیں تیرے پاس آ رہا ہوں۔ قدوس باپ، اپنے نام میں اُنہیں محفوظ رکھ، اُس نام میں جو تُو نے مجھے دیا ہے، تاکہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔ \v 12 جتنی دیر مَیں اُن کے ساتھ رہا مَیں نے اُنہیں تیرے نام میں محفوظ رکھا، اُسی نام میں جو تُو نے مجھے دیا تھا۔ مَیں نے یوں اُن کی نگہبانی کی کہ اُن میں سے ایک بھی ہلاک نہیں ہوا سوائے ہلاکت کے فرزند کے۔ یوں کلام کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ \v 13 اب تو مَیں تیرے پاس آ رہا ہوں۔ لیکن مَیں دنیا میں ہوتے ہوئے یہ بیان کر رہا ہوں تاکہ اُن کے دل میری خوشی سے بھر کر چھلک اُٹھیں۔ \v 14 مَیں نے اُنہیں تیرا کلام دیا ہے اور دنیا نے اُن سے دشمنی رکھی، کیونکہ یہ دنیا کے نہیں ہیں، جس طرح مَیں بھی دنیا کا نہیں ہوں۔ \v 15 میری دعا یہ نہیں ہے کہ تُو اُنہیں دنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُنہیں ابلیس سے محفوظ رکھے۔ \v 16 وہ دنیا کے نہیں ہیں جس طرح مَیں بھی دنیا کا نہیں ہوں۔ \v 17 اُنہیں سچائی کے وسیلے سے مخصوص و مُقدّس کر۔ تیرا کلام ہی سچائی ہے۔ \v 18 جس طرح تُو نے مجھے دنیا میں بھیجا ہے اُسی طرح مَیں نے بھی اُنہیں دنیا میں بھیجا ہے۔ \v 19 اُن کی خاطر مَیں اپنے آپ کو مخصوص کرتا ہوں، تاکہ اُنہیں بھی سچائی کے وسیلے سے مخصوص و مُقدّس کیا جائے۔ \p \v 20 میری دعا نہ صرف اِن ہی کے لئے ہے، بلکہ اُن سب کے لئے بھی جو اِن کا پیغام سن کر مجھ پر ایمان لائیں گے \v 21 تاکہ سب ایک ہوں۔ جس طرح تُو اے باپ، مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہوں اُسی طرح وہ بھی ہم میں ہوں تاکہ دنیا یقین کرے کہ تُو نے مجھے بھیجا ہے۔ \v 22 مَیں نے اُنہیں وہ جلال دیا ہے جو تُو نے مجھے دیا ہے تاکہ وہ ایک ہوں جس طرح ہم ایک ہیں، \v 23 مَیں اُن میں اور تُو مجھ میں۔ وہ کامل طور پر ایک ہوں تاکہ دنیا جان لے کہ تُو نے مجھے بھیجا اور کہ تُو نے اُن سے محبت رکھی ہے جس طرح مجھ سے رکھی ہے۔ \p \v 24 اے باپ، مَیں چاہتا ہوں کہ جو تُو نے مجھے دیئے ہیں وہ بھی میرے ساتھ ہوں، وہاں جہاں مَیں ہوں، کہ وہ میرے جلال کو دیکھیں، وہ جلال جو تُو نے اِس لئے مجھے دیا ہے کہ تُو نے مجھے دنیا کی تخلیق سے پیشتر پیار کیا ہے۔ \v 25 اے راست باپ، دنیا تجھے نہیں جانتی، لیکن مَیں تجھے جانتا ہوں۔ اور یہ شاگرد جانتے ہیں کہ تُو نے مجھے بھیجا ہے۔ \v 26 مَیں نے تیرا نام اُن پر ظاہر کیا اور اِسے ظاہر کرتا رہوں گا تاکہ تیری مجھ سے محبت اُن میں ہو اور مَیں اُن میں ہوں۔“ \c 18 \s1 عیسیٰ کی گرفتاری \p \v 1 یہ کہہ کر عیسیٰ اپنے شاگردوں کے ساتھ نکلا اور وادیٔ قدرون کو پار کر کے ایک باغ میں داخل ہوا۔ \v 2 یہوداہ جو اُسے دشمن کے حوالے کرنے والا تھا وہ بھی اِس جگہ سے واقف تھا، کیونکہ عیسیٰ وہاں اپنے شاگردوں کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ \v 3 راہنما اماموں اور فریسیوں نے یہوداہ کو رومی فوجیوں کا دستہ اور بیت المُقدّس کے کچھ پہرے دار دیئے تھے۔ اب یہ مشعلیں، لالٹین اور ہتھیار لئے باغ میں پہنچے۔ \v 4 عیسیٰ کو معلوم تھا کہ اُسے کیا پیش آئے گا۔ چنانچہ اُس نے نکل کر اُن سے پوچھا، ”تم کس کو ڈھونڈ رہے ہو؟“ \p \v 5 اُنہوں نے جواب دیا، ”عیسیٰ ناصری کو۔“ \p عیسیٰ نے اُنہیں بتایا، ”مَیں ہی ہوں۔“ \p یہوداہ جو اُسے دشمن کے حوالے کرنا چاہتا تھا، وہ بھی اُن کے ساتھ کھڑا تھا۔ \v 6 جب عیسیٰ نے اعلان کیا، ”مَیں ہی ہوں،“ تو سب پیچھے ہٹ کر زمین پر گر پڑے۔ \v 7 ایک اَور بار عیسیٰ نے اُن سے سوال کیا، ”تم کس کو ڈھونڈ رہے ہو؟“ \p اُنہوں نے جواب دیا، ”عیسیٰ ناصری کو۔“ \p \v 8 اُس نے کہا، ”مَیں تم کو بتا چکا ہوں کہ مَیں ہی ہوں۔ اگر تم مجھے ڈھونڈ رہے ہو تو اِن کو جانے دو۔“ \v 9 یوں اُس کی یہ بات پوری ہوئی، ”مَیں نے اُن میں سے جو تُو نے مجھے دیئے ہیں ایک کو بھی نہیں کھویا۔“ \p \v 10 شمعون پطرس کے پاس تلوار تھی۔ اب اُس نے اُسے میان سے نکال کر امامِ اعظم کے غلام کا دہنا کان اُڑا دیا (غلام کا نام ملخُس تھا)۔ \v 11 لیکن عیسیٰ نے پطرس سے کہا، ”تلوار کو میان میں رکھ۔ کیا مَیں وہ پیالہ نہ پیوں جو باپ نے مجھے دیا ہے؟“ \s1 عیسیٰ حنّا کے سامنے \p \v 12 پھر فوجی دستے، اُن کے افسر اور بیت المُقدّس کے یہودی پہرے داروں نے عیسیٰ کو گرفتار کر کے باندھ لیا۔ \v 13 پہلے وہ اُسے حنّا کے پاس لے گئے۔ حنّا اُس سال کے امامِ اعظم کائفا کا سُسر تھا۔ \v 14 کائفا ہی نے یہودیوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ بہتر یہ ہے کہ ایک ہی آدمی اُمّت کے لئے مر جائے۔ \s1 پطرس عیسیٰ کو جاننے سے انکار کرتا ہے \p \v 15 شمعون پطرس کسی اَور شاگرد کے ساتھ عیسیٰ کے پیچھے ہو لیا تھا۔ یہ دوسرا شاگرد امامِ اعظم کا جاننے والا تھا، اِس لئے وہ عیسیٰ کے ساتھ امامِ اعظم کے صحن میں داخل ہوا۔ \v 16 پطرس باہر دروازے پر کھڑا رہا۔ پھر امامِ اعظم کا جاننے والا شاگرد دوبارہ نکل آیا۔ اُس نے گیٹ کی نگرانی کرنے والی عورت سے بات کی تو اُسے پطرس کو اپنے ساتھ اندر لے جانے کی اجازت ملی۔ \v 17 اُس عورت نے پطرس سے پوچھا، ”تم بھی اِس آدمی کے شاگرد ہو کہ نہیں؟“ \p اُس نے جواب دیا، ”نہیں، مَیں نہیں ہوں۔“ \p \v 18 ٹھنڈ تھی، اِس لئے غلاموں اور پہرے داروں نے لکڑی کے کوئلوں سے آگ جلائی۔ اب وہ اُس کے پاس کھڑے تاپ رہے تھے۔ پطرس بھی اُن کے ساتھ کھڑا تاپ رہا تھا۔ \s1 امامِ اعظم عیسیٰ کی پوچھ گچھ کرتا ہے \p \v 19 اِتنے میں امامِ اعظم عیسیٰ کی پوچھ گچھ کر کے اُس کے شاگردوں اور تعلیم کے بارے میں تفتیش کرنے لگا۔ \v 20 عیسیٰ نے جواب میں کہا، ”مَیں نے دنیا میں کھل کر بات کی ہے۔ مَیں ہمیشہ یہودی عبادت خانوں اور بیت المُقدّس میں تعلیم دیتا رہا، وہاں جہاں تمام یہودی جمع ہوا کرتے ہیں۔ پوشیدگی میں تو مَیں نے کچھ نہیں کہا۔ \v 21 آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اُن سے دریافت کریں جنہوں نے میری باتیں سنی ہیں۔ اُن کو معلوم ہے کہ مَیں نے کیا کچھ کہا ہے۔“ \p \v 22 اِس پر ساتھ کھڑے بیت المُقدّس کے پہرے داروں میں سے ایک نے عیسیٰ کے منہ پر تھپڑ مار کر کہا، ”کیا یہ امامِ اعظم سے بات کرنے کا طریقہ ہے جب وہ تم سے کچھ پوچھے؟“ \p \v 23 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر مَیں نے بُری بات کی ہے تو ثابت کر۔ لیکن اگر سچ کہا، تو تُو نے مجھے کیوں مارا؟“ \p \v 24 پھر حنّا نے عیسیٰ کو بندھی ہوئی حالت میں امامِ اعظم کائفا کے پاس بھیج دیا۔ \s1 پطرس دوبارہ عیسیٰ کو جاننے سے انکار کرتا ہے \p \v 25 شمعون پطرس اب تک آگ کے پاس کھڑا تاپ رہا تھا۔ اِتنے میں دوسرے اُس سے پوچھنے لگے، ”تم بھی اُس کے شاگرد ہو کہ نہیں؟“ \p لیکن پطرس نے انکار کیا، ”نہیں، مَیں نہیں ہوں۔“ \p \v 26 پھر امامِ اعظم کا ایک غلام بول اُٹھا جو اُس آدمی کا رشتے دار تھا جس کا کان پطرس نے اُڑا دیا تھا، ”کیا مَیں نے تم کو باغ میں اُس کے ساتھ نہیں دیکھا تھا؟“ \p \v 27 پطرس نے ایک بار پھر انکار کیا، اور انکار کرتے ہی مرغ کی بانگ سنائی دی۔ \s1 عیسیٰ کو پیلاطس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے \p \v 28 پھر یہودی عیسیٰ کو کائفا سے لے کر رومی گورنر کے محل بنام پریٹوریُم کے پاس پہنچ گئے۔ اب صبح ہو چکی تھی اور چونکہ یہودی فسح کی عید کے کھانے میں شریک ہونا چاہتے تھے، اِس لئے وہ محل میں داخل نہ ہوئے، ورنہ وہ ناپاک ہو جاتے۔ \v 29 چنانچہ پیلاطس نکل کر اُن کے پاس آیا اور پوچھا، ”تم اِس آدمی پر کیا الزام لگا رہے ہو؟“ \p \v 30 اُنہوں نے جواب دیا، ”اگر یہ مجرم نہ ہوتا تو ہم اِسے آپ کے حوالے نہ کرتے۔“ \p \v 31 پیلاطس نے کہا، ”پھر اِسے لے جاؤ اور اپنی شرعی عدالتوں میں پیش کرو۔“ \p لیکن یہودیوں نے اعتراض کیا، ”ہمیں کسی کو سزائے موت دینے کی اجازت نہیں۔“ \v 32 عیسیٰ نے اِس طرف اشارہ کیا تھا کہ وہ کس طرح مرے گا اور اب اُس کی یہ بات پوری ہوئی۔ \p \v 33 تب پیلاطس پھر اپنے محل میں گیا۔ وہاں سے اُس نے عیسیٰ کو بُلایا اور اُس سے پوچھا، ”کیا تم یہودیوں کے بادشاہ ہو؟“ \p \v 34 عیسیٰ نے پوچھا، ”کیا آپ اپنی طرف سے یہ سوال کر رہے ہیں، یا اَوروں نے آپ کو میرے بارے میں بتایا ہے؟“ \p \v 35 پیلاطس نے جواب دیا، ”کیا مَیں یہودی ہوں؟ تمہاری اپنی قوم اور راہنما اماموں ہی نے تمہیں میرے حوالے کیا ہے۔ تم سے کیا کچھ سرزد ہوا ہے؟“ \p \v 36 عیسیٰ نے کہا، ”میری بادشاہی اِس دنیا کی نہیں ہے۔ اگر وہ اِس دنیا کی ہوتی تو میرے خادم سخت جد و جہد کرتے تاکہ مجھے یہودیوں کے حوالے نہ کیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں ہے۔“ \p \v 37 پیلاطس نے کہا، ”تو پھر تم واقعی بادشاہ ہو؟“ \p عیسیٰ نے جواب دیا، ”آپ صحیح کہتے ہیں، مَیں بادشاہ ہوں۔ مَیں اِسی مقصد کے لئے پیدا ہو کر دنیا میں آیا کہ سچائی کی گواہی دوں۔ جو بھی سچائی کی طرف سے ہے وہ میری سنتا ہے۔“ \p \v 38 پیلاطس نے پوچھا، ”سچائی کیا ہے؟“ \s1 عیسیٰ کو سزائے موت سنائی جاتی ہے \p پھر وہ دوبارہ نکل کر یہودیوں کے پاس گیا۔ اُس نے اعلان کیا، ”مجھے اُسے مجرم ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔ \v 39 لیکن تمہاری ایک رسم ہے جس کے مطابق مجھے عیدِ فسح کے موقع پر تمہارے لئے ایک قیدی کو رِہا کرنا ہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ مَیں ’یہودیوں کے بادشاہ‘ کو رِہا کر دوں؟“ \p \v 40 لیکن جواب میں لوگ چلّانے لگے، ”نہیں، اِس کو نہیں بلکہ برابا کو۔“ (برابا ڈاکو تھا۔) \c 19 \p \v 1 پھر پیلاطس نے عیسیٰ کو کوڑے لگوائے۔ \v 2 فوجیوں نے کانٹےدار ٹہنیوں کا ایک تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھ دیا۔ اُنہوں نے اُسے ارغوانی رنگ کا لباس بھی پہنایا۔ \v 3 پھر اُس کے سامنے آ کر وہ کہتے، ”اے یہودیوں کے بادشاہ، آداب!“ اور اُسے تھپڑ مارتے تھے۔ \p \v 4 ایک بار پھر پیلاطس نکل آیا اور یہودیوں سے بات کرنے لگا، ”دیکھو، مَیں اِسے تمہارے پاس باہر لا رہا ہوں تاکہ تم جان لو کہ مجھے اِسے مجرم ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔“ \v 5 پھر عیسیٰ کانٹےدار تاج اور ارغوانی رنگ کا لباس پہنے باہر آیا۔ پیلاطس نے اُن سے کہا، ”لو یہ ہے وہ آدمی۔“ \p \v 6 اُسے دیکھتے ہی راہنما امام اور اُن کے ملازم چیخنے لگے، ”اِسے مصلوب کریں، اِسے مصلوب کریں!“ \p پیلاطس نے اُن سے کہا، ”تم ہی اِسے لے جا کر مصلوب کرو۔ کیونکہ مجھے اِسے مجرم ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔“ \p \v 7 یہودیوں نے اصرار کیا، ”ہمارے پاس شریعت ہے اور اِس شریعت کے مطابق لازم ہے کہ وہ مارا جائے۔ کیونکہ اِس نے اپنے آپ کو اللہ کا فرزند قرار دیا ہے۔“ \p \v 8 یہ سن کر پیلاطس مزید ڈر گیا۔ \v 9 دوبارہ محل میں جا کر عیسیٰ سے پوچھا، ”تم کہاں سے آئے ہو؟“ \p لیکن عیسیٰ خاموش رہا۔ \v 10 پیلاطس نے اُس سے کہا، ”اچھا، تم میرے ساتھ بات نہیں کرتے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مجھے تمہیں رِہا کرنے اور مصلوب کرنے کا اختیار ہے؟“ \p \v 11 عیسیٰ نے جواب دیا، ”آپ کو مجھ پر اختیار نہ ہوتا اگر وہ آپ کو اوپر سے نہ دیا گیا ہوتا۔ اِس وجہ سے اُس شخص سے زیادہ سنگین گناہ ہوا ہے جس نے مجھے دشمن کے حوالے کر دیا ہے۔“ \p \v 12 اِس کے بعد پیلاطس نے اُسے آزاد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہودی چیخ چیخ کر کہنے لگے، ”اگر آپ اِسے رِہا کریں تو آپ رومی شہنشاہ قیصر کے دوست ثابت نہیں ہوں گے۔ جو بھی بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرے وہ شہنشاہ کی مخالفت کرتا ہے۔“ \p \v 13 اِس طرح کی باتیں سن کر پیلاطس عیسیٰ کو باہر لے آیا۔ پھر وہ جج کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اُس جگہ کا نام ”پچی کاری“ تھا۔ (اَرامی زبان میں وہ گبتا کہلاتی تھی۔) \v 14 اب دوپہر کے تقریباً بارہ بج گئے تھے۔ اُس دن عید کے لئے تیاریاں کی جاتی تھیں، کیونکہ اگلے دن عید کا آغاز تھا۔ پیلاطس بول اُٹھا، ”لو، تمہارا بادشاہ!“ \p \v 15 لیکن وہ چلّاتے رہے، ”لے جائیں اِسے، لے جائیں! اِسے مصلوب کریں!“ \p پیلاطس نے سوال کیا، ”کیا مَیں تمہارے بادشاہ کو صلیب پر چڑھاؤں؟“ \p راہنما اماموں نے جواب دیا، ”سوائے شہنشاہ کے ہمارا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔“ \p \v 16 پھر پیلاطس نے عیسیٰ کو اُن کے حوالے کر دیا تاکہ اُسے مصلوب کیا جائے۔ \s1 عیسیٰ کو مصلوب کیا جاتا ہے \p چنانچہ وہ عیسیٰ کو لے کر چلے گئے۔ \v 17 وہ اپنی صلیب اُٹھائے شہر سے نکلا اور اُس جگہ پہنچا جس کا نام کھوپڑی (اَرامی زبان میں گلگتا) تھا۔ \v 18 وہاں اُنہوں نے اُسے صلیب پر چڑھا دیا۔ ساتھ ساتھ اُنہوں نے اُس کے بائیں اور دائیں ہاتھ دو اَور آدمیوں کو مصلوب کیا۔ \v 19 پیلاطس نے ایک تختی بنوا کر اُسے عیسیٰ کی صلیب پر لگوا دیا۔ تختی پر لکھا تھا، ’عیسیٰ ناصری، یہودیوں کا بادشاہ۔‘ \v 20 بہت سے یہودیوں نے یہ پڑھ لیا، کیونکہ مصلوبیت کا مقام شہر کے قریب تھا اور یہ جملہ اَرامی، لاطینی اور یونانی زبانوں میں لکھا تھا۔ \v 21 یہ دیکھ کر یہودیوں کے راہنما اماموں نے اعتراض کیا، ”’یہودیوں کا بادشاہ‘ نہ لکھیں بلکہ یہ کہ ’اِس آدمی نے یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیا‘۔“ \p \v 22 پیلاطس نے جواب دیا، ”جو کچھ مَیں نے لکھ دیا سو لکھ دیا۔“ \p \v 23 عیسیٰ کو صلیب پر چڑھانے کے بعد فوجیوں نے اُس کے کپڑے لے کر چار حصوں میں بانٹ لئے، ہر فوجی کے لئے ایک حصہ۔ لیکن چوغہ بےجوڑ تھا۔ وہ اوپر سے لے کر نیچے تک بُنا ہوا ایک ہی ٹکڑے کا تھا۔ \v 24 اِس لئے فوجیوں نے کہا، ”آؤ، اِسے پھاڑ کر تقسیم نہ کریں بلکہ اِس پر قرعہ ڈالیں۔“ یوں کلامِ مُقدّس کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی، ”اُنہوں نے آپس میں میرے کپڑے بانٹ لئے اور میرے لباس پر قرعہ ڈالا۔“ فوجیوں نے یہی کچھ کیا۔ \p \v 25 کچھ خواتین بھی عیسیٰ کی صلیب کے قریب کھڑی تھیں: اُس کی ماں، اُس کی خالہ، کلوپاس کی بیوی مریم اور مریم مگدلینی۔ \v 26 جب عیسیٰ نے اپنی ماں کو اُس شاگرد کے ساتھ کھڑے دیکھا جو اُسے پیارا تھا تو اُس نے کہا، ”اے خاتون، دیکھیں آپ کا بیٹا یہ ہے۔“ \p \v 27 اور اُس شاگرد سے اُس نے کہا، ”دیکھ، تیری ماں یہ ہے۔“ اُس وقت سے اُس شاگرد نے عیسیٰ کی ماں کو اپنے گھر رکھا۔ \s1 عیسیٰ کی موت \p \v 28 اِس کے بعد جب عیسیٰ نے جان لیا کہ میرا مشن تکمیل تک پہنچ چکا ہے تو اُس نے کہا، ”مجھے پیاس لگی ہے۔“ (اِس سے بھی کلامِ مُقدّس کی ایک پیش گوئی پوری ہوئی۔) \p \v 29 قریب مَے کے سرکے سے بھرا برتن پڑا تھا۔ اُنہوں نے ایک اسپنج سرکے میں ڈبو کر اُسے زوفے کی شاخ پر لگا دیا اور اُٹھا کر عیسیٰ کے منہ تک پہنچایا۔ \v 30 یہ سرکہ پینے کے بعد عیسیٰ بول اُٹھا، ”کام مکمل ہو گیا ہے۔“ اور سر جھکا کر اُس نے اپنی جان اللہ کے سپرد کر دی۔ \s1 عیسیٰ کا پہلو چھیدا جاتا ہے \p \v 31 فسح کی تیاری کا دن تھا اور اگلے دن عید کا آغاز اور ایک خاص سبت تھا۔ اِس لئے یہودی نہیں چاہتے تھے کہ مصلوب ہوئی لاشیں اگلے دن تک صلیبوں پر لٹکی رہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے پیلاطس سے گزارش کی کہ وہ اُن کی ٹانگیں تڑوا کر اُنہیں صلیبوں سے اُتارنے دے۔ \v 32 تب فوجیوں نے آ کر عیسیٰ کے ساتھ مصلوب کئے جانے والے آدمیوں کی ٹانگیں توڑ دیں، پہلے ایک کی پھر دوسرے کی۔ \v 33 جب وہ عیسیٰ کے پاس آئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ فوت ہو چکا ہے، اِس لئے اُنہوں نے اُس کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ \v 34 اِس کے بجائے ایک نے نیزے سے عیسیٰ کا پہلو چھید دیا۔ زخم سے فوراً خون اور پانی بہہ نکلا۔ \v 35 (جس نے یہ دیکھا ہے اُس نے گواہی دی ہے اور اُس کی گواہی سچی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ حقیقت بیان کر رہا ہے اور اُس کی گواہی کا مقصد یہ ہے کہ آپ بھی ایمان لائیں۔) \v 36 یہ یوں ہوا تاکہ کلامِ مُقدّس کی یہ پیش گوئی پوری ہو جائے، ”اُس کی ایک ہڈی بھی توڑی نہیں جائے گی۔“ \v 37 کلامِ مُقدّس میں یہ بھی لکھا ہے، ”وہ اُس پر نظر ڈالیں گے جسے اُنہوں نے چھیدا ہے۔“ \s1 عیسیٰ کو دفنایا جاتا ہے \p \v 38 بعد میں ارمتیہ کے رہنے والے یوسف نے پیلاطس سے عیسیٰ کی لاش اُتارنے کی اجازت مانگی۔ (یوسف عیسیٰ کا خفیہ شاگرد تھا، کیونکہ وہ یہودیوں سے ڈرتا تھا۔) اِس کی اجازت ملنے پر وہ آیا اور لاش کو اُتار لیا۔ \v 39 نیکدیمس بھی ساتھ تھا، وہ آدمی جو گزرے دنوں میں رات کے وقت عیسیٰ سے ملنے آیا تھا۔ نیکدیمس اپنے ساتھ مُر اور عود کی تقریباً 34 کلو گرام خوشبو لے کر آیا تھا۔ \v 40 یہودی جنازے کی رسومات کے مطابق اُنہوں نے لاش پر خوشبو لگا کر اُسے پٹیوں سے لپیٹ دیا۔ \v 41 صلیبوں کے قریب ایک باغ تھا اور باغ میں ایک نئی قبر تھی جو اب تک استعمال نہیں کی گئی تھی۔ \v 42 اُس کے قریب ہونے کے سبب سے اُنہوں نے عیسیٰ کو اُس میں رکھ دیا، کیونکہ فسح کی تیاری کا دن تھا اور اگلے دن عید کا آغاز تھا۔ \c 20 \s1 خالی قبر \p \v 1 ہفتے کا دن گزر گیا تو اتوار کو مریم مگدلینی صبح سویرے قبر کے پاس آئی۔ ابھی اندھیرا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ قبر کے منہ پر کا پتھر ایک طرف ہٹایا گیا ہے۔ \v 2 مریم دوڑ کر شمعون پطرس اور عیسیٰ کو پیارے شاگرد کے پاس آئی۔ اُس نے اطلاع دی، ”وہ خداوند کو قبر سے لے گئے ہیں، اور ہمیں معلوم نہیں کہ اُنہوں نے اُسے کہاں رکھ دیا ہے۔“ \p \v 3 تب پطرس دوسرے شاگرد سمیت قبر کی طرف چل پڑا۔ \v 4 دونوں دوڑ رہے تھے، لیکن دوسرا شاگرد زیادہ تیز رفتار تھا۔ وہ پہلے قبر پر پہنچ گیا۔ \v 5 اُس نے جھک کر اندر جھانکا تو کفن کی پٹیاں وہاں پڑی نظر آئیں۔ لیکن وہ اندر نہ گیا۔ \v 6 پھر شمعون پطرس اُس کے پیچھے پہنچ کر قبر میں داخل ہوا۔ اُس نے بھی دیکھا کہ کفن کی پٹیاں وہاں پڑی ہیں \v 7 اور ساتھ وہ کپڑا بھی جس میں عیسیٰ کا سر لپٹا ہوا تھا۔ یہ کپڑا تہہ کیا گیا تھا اور پٹیوں سے الگ پڑا تھا۔ \v 8 پھر دوسرا شاگرد جو پہلے پہنچ گیا تھا، وہ بھی داخل ہوا۔ جب اُس نے یہ دیکھا تو وہ ایمان لایا۔ \v 9 (لیکن اب بھی وہ کلامِ مُقدّس کی یہ پیش گوئی نہیں سمجھتے تھے کہ اُسے مُردوں میں سے جی اُٹھنا ہے۔) \v 10 پھر دونوں شاگرد گھر واپس چلے گئے۔ \s1 عیسیٰ مریم مگدلینی پر ظاہر ہوتا ہے \p \v 11 لیکن مریم رو رو کر قبر کے سامنے کھڑی رہی۔ اور روتے ہوئے اُس نے جھک کر قبر میں جھانکا \v 12 تو کیا دیکھتی ہے کہ دو فرشتے سفید لباس پہنے ہوئے وہاں بیٹھے ہیں جہاں پہلے عیسیٰ کی لاش پڑی تھی، ایک اُس کے سرہانے اور دوسرا وہاں جہاں پہلے اُس کے پاؤں تھے۔ \v 13 اُنہوں نے مریم سے پوچھا، ”اے خاتون، تُو کیوں رو رہی ہے؟“ \p اُس نے کہا، ”وہ میرے خداوند کو لے گئے ہیں، اور معلوم نہیں کہ اُنہوں نے اُسے کہاں رکھ دیا ہے۔“ \p \v 14 پھر اُس نے پیچھے مُڑ کر عیسیٰ کو وہاں کھڑے دیکھا، لیکن اُس نے اُسے نہ پہچانا۔ \v 15 عیسیٰ نے پوچھا، ”اے خاتون، تُو کیوں رو رہی ہے، کس کو ڈھونڈ رہی ہے؟“ \p یہ سوچ کر کہ وہ مالی ہے اُس نے کہا، ”جناب، اگر آپ اُسے لے گئے ہیں تو مجھے بتا دیں کہ اُسے کہاں رکھ دیا ہے تاکہ اُسے لے جاؤں۔“ \p \v 16 عیسیٰ نے اُس سے کہا، ”مریم!“ \p وہ اُس کی طرف مُڑی اور بول اُٹھی، ”ربونی!“ (اِس کا مطلب اَرامی زبان میں اُستاد ہے۔) \p \v 17 عیسیٰ نے کہا، ”میرے ساتھ چمٹی نہ رہ، کیونکہ ابھی مَیں اوپر، باپ کے پاس نہیں گیا۔ لیکن بھائیوں کے پاس جا اور اُنہیں بتا، ’مَیں اپنے باپ اور تمہارے باپ کے پاس واپس جا رہا ہوں، اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس‘۔“ \p \v 18 چنانچہ مریم مگدلینی شاگردوں کے پاس گئی اور اُنہیں اطلاع دی، ”مَیں نے خداوند کو دیکھا ہے اور اُس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں۔“ \s1 عیسیٰ اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوتا ہے \p \v 19 اُس اتوار کی شام کو شاگرد جمع تھے۔ اُنہوں نے دروازوں پر تالے لگا دیئے تھے کیونکہ وہ یہودیوں سے ڈرتے تھے۔ اچانک عیسیٰ اُن کے درمیان آ کھڑا ہوا اور کہا، ”تمہاری سلامتی ہو،“ \v 20 اور اُنہیں اپنے ہاتھوں اور پہلو کو دکھایا۔ خداوند کو دیکھ کر وہ نہایت خوش ہوئے۔ \v 21 عیسیٰ نے دوبارہ کہا، ”تمہاری سلامتی ہو! جس طرح باپ نے مجھے بھیجا اُسی طرح مَیں تم کو بھیج رہا ہوں۔“ \v 22 پھر اُن پر پھونک کر اُس نے فرمایا، ”روح القدس کو پا لو۔ \v 23 اگر تم کسی کے گناہوں کو معاف کرو تو وہ معاف کئے جائیں گے۔ اور اگر تم اُنہیں معاف نہ کرو تو وہ معاف نہیں کئے جائیں گے۔“ \s1 توما شک کرتا ہے \p \v 24 بارہ شاگردوں میں سے توما جس کا لقب جُڑواں تھا عیسیٰ کے آنے پر موجود نہ تھا۔ \v 25 چنانچہ دوسرے شاگردوں نے اُسے بتایا، ”ہم نے خداوند کو دیکھا ہے!“ لیکن توما نے کہا، ”مجھے یقین نہیں آتا۔ پہلے مجھے اُس کے ہاتھوں میں کیلوں کے نشان نظر آئیں اور مَیں اُن میں اپنی اُنگلی ڈالوں، پہلے مَیں اپنے ہاتھ کو اُس کے پہلو کے زخم میں ڈالوں۔ پھر ہی مجھے یقین آئے گا۔“ \p \v 26 ایک ہفتہ گزر گیا۔ شاگرد دوبارہ مکان میں جمع تھے۔ اِس مرتبہ توما بھی ساتھ تھا۔ اگرچہ دروازوں پر تالے لگے تھے پھر بھی عیسیٰ اُن کے درمیان آ کر کھڑا ہوا۔ اُس نے کہا، ”تمہاری سلامتی ہو!“ \v 27 پھر وہ توما سے مخاطب ہوا، ”اپنی اُنگلی کو میرے ہاتھوں اور اپنے ہاتھ کو میرے پہلو کے زخم میں ڈال اور بےاعتقاد نہ ہو بلکہ ایمان رکھ۔“ \p \v 28 توما نے جواب میں اُس سے کہا، ”اے میرے خداوند! اے میرے خدا!“ \p \v 29 پھر عیسیٰ نے اُسے بتایا، ”کیا تُو اِس لئے ایمان لایا ہے کہ تُو نے مجھے دیکھا ہے؟ مبارک ہیں وہ جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لاتے ہیں۔“ \s1 اِس کتاب کا مقصد \p \v 30 عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کی موجودگی میں مزید بہت سے ایسے الٰہی نشان دکھائے جو اِس کتاب میں درج نہیں ہیں۔ \v 31 لیکن جتنے درج ہیں اُن کا مقصد یہ ہے کہ آپ ایمان لائیں کہ عیسیٰ ہی مسیح یعنی اللہ کا فرزند ہے اور آپ کو اِس ایمان کے وسیلے سے اُس کے نام سے زندگی حاصل ہو۔ \c 21 \s1 عیسیٰ جھیل پر شاگردوں پر ظاہر ہوتا ہے \p \v 1 اِس کے بعد عیسیٰ ایک بار پھر اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا جب وہ تبریاس یعنی گلیل کی جھیل پر تھے۔ یہ یوں ہوا۔ \v 2 کچھ شاگرد شمعون پطرس کے ساتھ جمع تھے، توما جو جُڑواں کہلاتا تھا، نتن ایل جو گلیل کے قانا سے تھا، زبدی کے دو بیٹے اور مزید دو شاگرد۔ \p \v 3 شمعون پطرس نے کہا، ”مَیں مچھلی پکڑنے جا رہا ہوں۔“ \p دوسروں نے کہا، ”ہم بھی ساتھ جائیں گے۔“ چنانچہ وہ نکل کر کشتی پر سوار ہوئے۔ لیکن اُس پوری رات ایک بھی مچھلی ہاتھ نہ آئی۔ \v 4 صبح سویرے عیسیٰ جھیل کے کنارے پر آ کھڑا ہوا۔ لیکن شاگردوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ عیسیٰ ہی ہے۔ \v 5 اُس نے اُن سے پوچھا، ”بچو، کیا تمہیں کھانے کے لئے کچھ مل گیا؟“ \p اُنہوں نے جواب دیا، ”نہیں۔“ \p \v 6 اُس نے کہا، ”اپنا جال کشتی کے دائیں ہاتھ ڈالو، پھر تم کو کچھ ملے گا۔“ اُنہوں نے ایسا کیا تو مچھلیوں کی اِتنی بڑی تعداد تھی کہ وہ جال کشتی تک نہ لا سکے۔ \p \v 7 اِس پر خداوند کے پیارے شاگرد نے پطرس سے کہا، ”یہ تو خداوند ہے۔“ یہ سنتے ہی کہ خداوند ہے شمعون پطرس اپنی چادر اوڑھ کر پانی میں کود پڑا (اُس نے چادر کو کام کرنے کے لئے اُتار لیا تھا۔) \v 8 دوسرے شاگرد کشتی پر سوار اُس کے پیچھے آئے۔ وہ کنارے سے زیادہ دُور نہیں تھے، تقریباً سَو میٹر کے فاصلے پر تھے۔ اِس لئے وہ مچھلیوں سے بھرے جال کو پانی میں کھینچ کھینچ کر خشکی تک لائے۔ \v 9 جب وہ کشتی سے اُترے تو دیکھا کہ لکڑی کے کوئلوں کی آگ پر مچھلیاں بُھنی جا رہی ہیں اور ساتھ روٹی بھی ہے۔ \v 10 عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”اُن مچھلیوں میں سے کچھ لے آؤ جو تم نے ابھی پکڑی ہیں۔“ \p \v 11 شمعون پطرس کشتی پر گیا اور جال کو خشکی پر گھسیٹ لایا۔ یہ جال 153 بڑی مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا، توبھی وہ نہ پھٹا۔ \v 12 عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”آؤ، ناشتہ کر لو۔“ کسی بھی شاگرد نے سوال کرنے کی جرأت نہ کی کہ ”آپ کون ہیں؟“ کیونکہ وہ تو جانتے تھے کہ یہ خداوند ہی ہے۔ \v 13 پھر عیسیٰ آیا اور روٹی لے کر اُنہیں دی اور اِسی طرح مچھلی بھی اُنہیں کھلائی۔ \p \v 14 عیسیٰ کے جی اُٹھنے کے بعد یہ تیسری بار تھی کہ وہ اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا۔ \s1 عیسیٰ کا پطرس سے سوال \p \v 15 ناشتے کے بعد عیسیٰ شمعون پطرس سے مخاطب ہوا، ”یوحنا کے بیٹے شمعون، کیا تُو اِن کی نسبت مجھ سے زیادہ محبت کرتا ہے؟“ \p اُس نے جواب دیا، ”جی خداوند، آپ تو جانتے ہیں کہ مَیں آپ کو پیار کرتا ہوں۔“ \p عیسیٰ بولا، ”پھر میرے لیلوں کو چَرا۔“ \v 16 تب عیسیٰ نے ایک اَور مرتبہ پوچھا، ”شمعون یوحنا کے بیٹے، کیا تُو مجھ سے محبت کرتا ہے؟“ \p اُس نے جواب دیا، ”جی خداوند، آپ تو جانتے ہیں کہ مَیں آپ کو پیار کرتا ہوں۔“ \p عیسیٰ بولا، ”پھر میری بھیڑوں کی گلہ بانی کر۔“ \v 17 تیسری بار عیسیٰ نے اُس سے پوچھا، ”شمعون یوحنا کے بیٹے، کیا تُو مجھے پیار کرتا ہے؟“ \p تیسری دفعہ یہ سوال سننے سے پطرس کو بڑا دُکھ ہوا۔ اُس نے کہا، ”خداوند، آپ کو سب کچھ معلوم ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ مَیں آپ کو پیار کرتا ہوں۔“ \p عیسیٰ نے اُس سے کہا، ”میری بھیڑوں کو چَرا۔ \p \v 18 مَیں تجھے سچ بتاتا ہوں کہ جب تُو جوان تھا تو تُو خود اپنی کمر باندھ کر جہاں جی چاہتا گھومتا پھرتا تھا۔ لیکن جب تُو بوڑھا ہو گا تو تُو اپنے ہاتھوں کو آگے بڑھائے گا اور کوئی اَور تیری کمر باندھ کر تجھے لے جائے گا جہاں تیرا دل نہیں کرے گا۔“ \v 19 (عیسیٰ کی یہ بات اِس طرف اشارہ تھی کہ پطرس کس قسم کی موت سے اللہ کو جلال دے گا۔) پھر اُس نے اُسے بتایا، ”میرے پیچھے چل۔“ \s1 عیسیٰ اور دوسرا شاگرد \p \v 20 پطرس نے مُڑ کر دیکھا کہ جو شاگرد عیسیٰ کو پیارا تھا وہ اُن کے پیچھے چل رہا ہے۔ یہ وہی شاگرد تھا جس نے شام کے کھانے کے دوران عیسیٰ کی طرف سر جھکا کر پوچھا تھا، ”خداوند، کون آپ کو دشمن کے حوالے کرے گا؟“ \v 21 اب اُسے دیکھ کر پطرس نے سوال کیا، ”خداوند، اِس کے ساتھ کیا ہو گا؟“ \p \v 22 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر مَیں چاہوں کہ یہ میرے واپس آنے تک زندہ رہے تو تجھے کیا؟ بس تُو میرے پیچھے چلتا رہ۔“ \p \v 23 نتیجے میں بھائیوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ یہ شاگرد نہیں مرے گا۔ لیکن عیسیٰ نے یہ بات نہیں کی تھی۔ اُس نے صرف یہ کہا تھا، ”اگر مَیں چاہوں کہ یہ میرے واپس آنے تک زندہ رہے تو تجھے کیا؟“ \p \v 24 یہ وہ شاگرد ہے جس نے اِن باتوں کی گواہی دے کر اِنہیں قلم بند کر دیا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اُس کی گواہی سچی ہے۔ \s1 خلاصہ \p \v 25 عیسیٰ نے اِس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا۔ اگر اُس کا ہر کام قلم بند کیا جاتا تو میرے خیال میں پوری دنیا میں یہ کتابیں رکھنے کی گنجائش نہ ہوتی۔