\id ECC اردو جیو ورژن \ide UTF-8 \h واعظ \toc1 واعظ \toc2 واعظ \toc3 واعظ \mt1 واعظ \c 1 \s1 ہر دنیاوی چیز باطل ہے \p \v 1 ذیل میں واعظ کے الفاظ قلم بند ہیں، اُس کے جو داؤد کا بیٹا اور یروشلم میں بادشاہ ہے، \p \v 2 واعظ فرماتا ہے، ”باطل ہی باطل، باطل ہی باطل، سب کچھ باطل ہی باطل ہے!“ \v 3 سورج تلے جو محنت مشقت انسان کرے اُس کا کیا فائدہ ہے؟ کچھ نہیں! \v 4 ایک پشت آتی اور دوسری جاتی ہے، لیکن زمین ہمیشہ تک قائم رہتی ہے۔ \v 5 سورج طلوع اور غروب ہو جاتا ہے، پھر سُرعت سے اُسی جگہ واپس چلا جاتا ہے جہاں سے دوبارہ طلوع ہوتا ہے۔ \v 6 ہَوا جنوب کی طرف چلتی، پھر مُڑ کر شمال کی طرف چلنے لگتی ہے۔ یوں چکر کاٹ کاٹ کر وہ بار بار نقطۂ آغاز پر واپس آتی ہے۔ \v 7 تمام دریا سمندر میں جا ملتے ہیں، توبھی سمندر کی سطح وہی رہتی ہے، کیونکہ دریاؤں کا پانی مسلسل اُن سرچشموں کے پاس واپس آتا ہے جہاں سے بہہ نکلا ہے۔ \v 8 انسان باتیں کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور صحیح طور سے کچھ بیان نہیں کر سکتا۔ آنکھ کبھی اِتنا نہیں دیکھتی کہ کہے، ”اب بس کرو، کافی ہے۔“ کان کبھی اِتنا نہیں سنتا کہ اَور نہ سننا چاہے۔ \v 9 جو کچھ پیش آیا وہی دوبارہ پیش آئے گا، جو کچھ کیا گیا وہی دوبارہ کیا جائے گا۔ سورج تلے کوئی بھی بات نئی نہیں۔ \v 10 کیا کوئی بات ہے جس کے بارے میں کہا جا سکے، ”دیکھو، یہ نئی ہے“؟ ہرگز نہیں، یہ بھی ہم سے بہت دیر پہلے ہی موجود تھی۔ \v 11 جو پہلے زندہ تھے اُنہیں کوئی یاد نہیں کرتا، اور جو آنے والے ہیں اُنہیں بھی وہ یاد نہیں کریں گے جو اُن کے بعد آئیں گے۔ \s1 حکمت حاصل کرنا باطل ہے \p \v 12 مَیں جو واعظ ہوں یروشلم میں اسرائیل کا بادشاہ تھا۔ \v 13 مَیں نے اپنی پوری ذہنی طاقت اِس پر لگائی کہ جو کچھ آسمان تلے کیا جاتا ہے اُس کی حکمت کے ذریعے تفتیش و تحقیق کروں۔ یہ کام ناگوار ہے گو اللہ نے خود انسان کو اِس میں محنت مشقت کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ \p \v 14 مَیں نے تمام کاموں کا ملاحظہ کیا جو سورج تلے ہوتے ہیں، تو نتیجہ یہ نکلا کہ سب کچھ باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ \v 15 جو پیچ دار ہے وہ سیدھا نہیں ہو سکتا، جس کی کمی ہے اُسے گنا نہیں جا سکتا۔ \p \v 16 مَیں نے دل میں کہا، ”حکمت میں مَیں نے اِتنا اضافہ کیا اور اِتنی ترقی کی کہ اُن سب سے سبقت لے گیا جو مجھ سے پہلے یروشلم پر حکومت کرتے تھے۔ میرے دل نے بہت حکمت اور علم اپنا لیا ہے۔“ \v 17 مَیں نے اپنی پوری ذہنی طاقت اِس پر لگائی کہ حکمت سمجھوں، نیز کہ مجھے دیوانگی اور حماقت کی سمجھ بھی آئے۔ لیکن مجھے معلوم ہوا کہ یہ بھی ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ \v 18 کیونکہ جہاں حکمت بہت ہے وہاں رنجیدگی بھی بہت ہے۔ جو علم و عرفان میں اضافہ کرے، وہ دُکھ میں اضافہ کرتا ہے۔ \c 2 \s1 دنیا کی خوشیاں باطل ہیں \p \v 1 مَیں نے اپنے آپ سے کہا، ”آ، خوشی کو آزما کر اچھی چیزوں کا تجربہ کر!“ لیکن یہ بھی باطل ہی نکلا۔ \v 2 مَیں بولا، ”ہنسنا بےہودہ ہے، اور خوشی سے کیا حاصل ہوتا ہے؟“ \v 3 مَیں نے دل میں اپنا جسم مَے سے تر و تازہ کرنے اور حماقت اپنانے کے طریقے ڈھونڈ نکالے۔ اِس کے پیچھے بھی میری حکمت معلوم کرنے کی کوشش تھی، کیونکہ مَیں دیکھنا چاہتا تھا کہ جب تک انسان آسمان تلے جیتا رہے اُس کے لئے کیا کچھ کرنا مفید ہے۔ \p \v 4 مَیں نے بڑے بڑے کام انجام دیئے، اپنے لئے مکان تعمیر کئے، تاکستان لگائے، \v 5 متعدد باغ اور پارک لگا کر اُن میں مختلف قسم کے پھل دار درخت لگائے۔ \v 6 پھلنے پھولنے والے جنگل کی آب پاشی کے لئے مَیں نے تالاب بنوائے۔ \v 7 مَیں نے غلام اور لونڈیاں خرید لیں۔ ایسے غلام بھی بہت تھے جو گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ مجھے اُتنے گائےبَیل اور بھیڑبکریاں ملیں جتنی مجھ سے پہلے یروشلم میں کسی کو حاصل نہ تھیں۔ \v 8 مَیں نے اپنے لئے سونا چاندی اور بادشاہوں اور صوبوں کے خزانے جمع کئے۔ مَیں نے گلوکار مرد و خواتین حاصل کئے، ساتھ ساتھ کثرت کی ایسی چیزیں جن سے انسان اپنا دل بہلاتا ہے۔ \p \v 9 یوں مَیں نے بہت ترقی کر کے اُن سب پر سبقت حاصل کی جو مجھ سے پہلے یروشلم میں تھے۔ اور ہر کام میں میری حکمت میرے دل میں قائم رہی۔ \v 10 جو کچھ بھی میری آنکھیں چاہتی تھیں وہ مَیں نے اُن کے لئے مہیا کیا، مَیں نے اپنے دل سے کسی بھی خوشی کا انکار نہ کیا۔ میرے دل نے میرے ہر کام سے لطف اُٹھایا، اور یہ میری تمام محنت مشقت کا اجر رہا۔ \p \v 11 لیکن جب مَیں نے اپنے ہاتھوں کے تمام کاموں کا جائزہ لیا، اُس محنت مشقت کا جو مَیں نے کی تھی تو نتیجہ یہی نکلا کہ سب کچھ باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ سورج تلے کسی بھی کام کا فائدہ نہیں ہوتا۔ \s1 سب کا ایک ہی انجام ہے \p \v 12 پھر مَیں حکمت، بےہودگی اور حماقت پر غور کرنے لگا۔ مَیں نے سوچا، جو آدمی بادشاہ کی وفات پر تخت نشین ہو گا وہ کیا کرے گا؟ وہی کچھ جو پہلے بھی کیا جا چکا ہے! \p \v 13 مَیں نے دیکھا کہ جس طرح روشنی اندھیرے سے بہتر ہے اُسی طرح حکمت حماقت سے بہتر ہے۔ \v 14 دانش مند کے سر میں آنکھیں ہیں جبکہ احمق اندھیرے ہی میں چلتا ہے۔ لیکن مَیں نے یہ بھی جان لیا کہ دونوں کا ایک ہی انجام ہے۔ \v 15 مَیں نے دل میں کہا، ”احمق کا سا انجام میرا بھی ہو گا۔ تو پھر اِتنی زیادہ حکمت حاصل کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ بھی باطل ہے۔“ \v 16 کیونکہ احمق کی طرح دانش مند کی یاد بھی ہمیشہ تک نہیں رہے گی۔ آنے والے دنوں میں سب کی یاد مٹ جائے گی۔ احمق کی طرح دانش مند کو بھی مرنا ہی ہے! \p \v 17 یوں سوچتے سوچتے مَیں زندگی سے نفرت کرنے لگا۔ جو بھی کام سورج تلے کیا جاتا ہے وہ مجھے بُرا لگا، کیونکہ سب کچھ باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ \v 18 سورج تلے مَیں نے جو کچھ بھی محنت مشقت سے حاصل کیا تھا اُس سے مجھے نفرت ہو گئی، کیونکہ مجھے یہ سب کچھ اُس کے لئے چھوڑنا ہے جو میرے بعد میری جگہ آئے گا۔ \v 19 اور کیا معلوم کہ وہ دانش مند یا احمق ہو گا؟ لیکن جو بھی ہو، وہ اُن تمام چیزوں کا مالک ہو گا جو حاصل کرنے کے لئے مَیں نے سورج تلے اپنی پوری طاقت اور حکمت صَرف کی ہے۔ یہ بھی باطل ہے۔ \p \v 20 تب میرا دل مایوس ہو کر ہمت ہارنے لگا، کیونکہ جو بھی محنت مشقت مَیں نے سورج تلے کی تھی وہ بےکار سی لگی۔ \v 21 کیونکہ خواہ انسان اپنا کام حکمت، علم اور مہارت سے کیوں نہ کرے، آخرکار اُسے سب کچھ کسی کے لئے چھوڑنا ہے جس نے اُس کے لئے ایک اُنگلی بھی نہیں ہلائی۔ یہ بھی باطل اور بڑی مصیبت ہے۔ \v 22 کیونکہ آخر میں انسان کے لئے کیا کچھ قائم رہتا ہے، جبکہ اُس نے سورج تلے اِتنی محنت مشقت اور کوششوں کے ساتھ سب کچھ حاصل کر لیا ہے؟ \v 23 اُس کے تمام دن دُکھ اور رنجیدگی سے بھرے رہتے ہیں، رات کو بھی اُس کا دل آرام نہیں پاتا۔ یہ بھی باطل ہی ہے۔ \p \v 24 انسان کے لئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ کھائے پیئے اور اپنی محنت مشقت کے پھل سے لطف اندوز ہو۔ لیکن مَیں نے یہ بھی جان لیا کہ اللہ ہی یہ سب کچھ مہیا کرتا ہے۔ \v 25 کیونکہ اُس کے بغیر کون کھا کر خوش ہو سکتا ہے؟ کوئی نہیں! \v 26 جو انسان اللہ کو منظور ہو اُسے وہ حکمت، علم و عرفان اور خوشی عطا کرتا ہے، لیکن گناہ گار کو وہ جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کی ذمہ داری دیتا ہے تاکہ بعد میں یہ دولت اللہ کو منظور شخص کے حوالے کی جائے۔ یہ بھی باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ \c 3 \s1 ہر بات کا اپنا وقت ہے \p \v 1 ہر چیز کی اپنی گھڑی ہوتی، آسمان تلے ہر معاملے کا اپنا وقت ہوتا ہے، \p \v 2 جنم لینے اور مرنے کا، \p پودا لگانے اور اُکھاڑنے کا، \p \v 3 مار دینے اور شفا دینے کا، \p ڈھا دینے اور تعمیر کرنے کا، \p \v 4 رونے اور ہنسنے کا، \p آہیں بھرنے اور رقص کرنے کا، \p \v 5 پتھر پھینکنے اور پتھر جمع کرنے کا، \p گلے ملنے اور اِس سے باز رہنے کا، \p \v 6 تلاش کرنے اور کھو دینے کا، \p محفوظ رکھنے اور پھینکنے کا، \p \v 7 پھاڑنے اور سی کر جوڑنے کا، \p خاموش رہنے اور بولنے کا، \p \v 8 پیار کرنے اور نفرت کرنے کا، \p جنگ لڑنے اور سلامتی سے زندگی گزارنے کا، \b \p \v 9 چنانچہ کیا فائدہ ہے کہ کام کرنے والا محنت مشقت کرے؟ \p \v 10 مَیں نے وہ تکلیف دہ کام کاج دیکھا جو اللہ نے انسان کے سپرد کیا تاکہ وہ اُس میں اُلجھا رہے۔ \v 11 اُس نے ہر چیز کو یوں بنایا ہے کہ وہ اپنے وقت کے لئے خوب صورت اور مناسب ہو۔ اُس نے انسان کے دل میں جاودانی بھی ڈالی ہے، گو وہ شروع سے لے کر آخر تک اُس کام کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا جو اللہ نے کیا ہے۔ \v 12 مَیں نے جان لیا کہ انسان کے لئے اِس سے بہتر کچھ نہیں ہے کہ وہ خوش رہے اور جیتے جی زندگی کا مزہ لے۔ \v 13 کیونکہ اگر کوئی کھائے پیئے اور تمام محنت مشقت کے ساتھ ساتھ خوش حال بھی ہو تو یہ اللہ کی بخشش ہے۔ \p \v 14 مجھے سمجھ آئی کہ جو کچھ اللہ کرے وہ ابد تک قائم رہے گا۔ اُس میں نہ اضافہ ہو سکتا ہے نہ کمی۔ اللہ یہ سب کچھ اِس لئے کرتا ہے کہ انسان اُس کا خوف مانے۔ \v 15 جو حال میں پیش آ رہا ہے وہ ماضی میں پیش آ چکا ہے، اور جو مستقبل میں پیش آئے گا وہ بھی پیش آ چکا ہے۔ ہاں، جو کچھ گزر چکا ہے اُسے اللہ دوبارہ واپس لاتا ہے۔ \s1 انسان فانی ہے \p \v 16 مَیں نے سورج تلے مزید دیکھا، جہاں عدالت کرنی ہے وہاں ناانصافی ہے، جہاں انصاف کرنا ہے وہاں بےدینی ہے۔ \v 17 لیکن مَیں دل میں بولا، ”اللہ راست باز اور بےدین دونوں کی عدالت کرے گا، کیونکہ ہر معاملے اور کام کا اپنا وقت ہوتا ہے۔“ \p \v 18 مَیں نے یہ بھی سوچا، ”جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے اللہ اُن کی جانچ پڑتال کرتا ہے تاکہ اُنہیں پتا چلے کہ وہ جانوروں کی مانند ہیں۔ \v 19 کیونکہ انسان و حیوان کا ایک ہی انجام ہے۔ دونوں دم چھوڑتے، دونوں میں ایک سا دم ہے، اِس لئے انسان کو حیوان کی نسبت زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ سب کچھ باطل ہی ہے۔ \v 20 سب کچھ ایک ہی جگہ چلا جاتا ہے، سب کچھ خاک سے بنا ہے اور سب کچھ دوبارہ خاک میں مل جائے گا۔ \v 21 کون یقین سے کہہ سکتا ہے کہ انسان کی روح اوپر کی طرف جاتی اور حیوان کی روح نیچے زمین میں اُترتی ہے؟“ \p \v 22 غرض مَیں نے جان لیا کہ انسان کے لئے اِس سے بہتر کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنے کاموں میں خوش رہے، یہی اُس کے نصیب میں ہے۔ کیونکہ کون اُسے وہ دیکھنے کے قابل بنائے گا جو اُس کے بعد پیش آئے گا؟ کوئی نہیں! \c 4 \s1 مُردوں کا حال بہتر ہے \p \v 1 مَیں نے ایک بار پھر نظر ڈالی تو مجھے وہ تمام ظلم نظر آیا جو سورج تلے ہوتا ہے۔ مظلوموں کے آنسو بہتے ہیں، اور تسلی دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ظالم اُن سے زیادتی کرتے ہیں، اور تسلی دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ \v 2 یہ دیکھ کر مَیں نے مُردوں کو مبارک کہا، حالانکہ وہ عرصے سے وفات پا چکے تھے۔ مَیں نے کہا، ”وہ حال کے زندہ لوگوں سے کہیں مبارک ہیں۔ \v 3 لیکن اِن سے زیادہ مبارک وہ ہے جو اب تک وجود میں نہیں آیا، جس نے وہ تمام بُرائیاں نہیں دیکھیں جو سورج تلے ہوتی ہیں۔“ \s1 غربت میں سکون بہتر ہے \p \v 4 مَیں نے یہ بھی دیکھا کہ سب لوگ اِس لئے محنت مشقت اور مہارت سے کام کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں۔ یہ بھی باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ \v 5 ایک طرف تو احمق ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے باعث اپنے آپ کو تباہی تک پہنچاتا ہے۔ \v 6 لیکن دوسری طرف اگر کوئی مٹھی بھر روزی کما کر سکون کے ساتھ زندگی گزار سکے تو یہ اِس سے بہتر ہے کہ دونوں مٹھیاں سرتوڑ محنت اور ہَوا کو پکڑنے کی کوششوں کے بعد ہی بھریں۔ \s1 تنہائی کی نسبت مل کر رہنا بہتر ہے \p \v 7 مَیں نے سورج تلے مزید کچھ دیکھا جو باطل ہے۔ \v 8 ایک آدمی اکیلا ہی تھا۔ نہ اُس کے بیٹا تھا، نہ بھائی۔ وہ بےحد محنت مشقت کرتا رہا، لیکن اُس کی آنکھیں کبھی اپنی دولت سے مطمئن نہ تھیں۔ سوال یہ رہا، ”مَیں اِتنی سرتوڑ کوشش کس کے لئے کر رہا ہوں؟ مَیں اپنی جان کو زندگی کے مزے لینے سے کیوں محروم رکھ رہا ہوں؟“ یہ بھی باطل اور ناگوار معاملہ ہے۔ \p \v 9 دو ایک سے بہتر ہیں، کیونکہ اُنہیں اپنے کام کاج کا اچھا اجر ملے گا۔ \v 10 اگر ایک گر جائے تو اُس کا ساتھی اُسے دوبارہ کھڑا کرے گا۔ لیکن اُس پر افسوس جو گر جائے اور کوئی ساتھی نہ ہو جو اُسے دوبارہ کھڑا کرے۔ \v 11 نیز، جب دو سردیوں کے موسم میں مل کر بستر پر لیٹ جائیں تو وہ گرم رہتے ہیں۔ جو تنہا ہے وہ کس طرح گرم ہو جائے گا؟ \v 12 ایک شخص پر قابو پایا جا سکتا ہے جبکہ دو مل کر اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ تین لڑیوں والی رسّی جلدی سے نہیں ٹوٹتی۔ \s1 قوم کی قبولیت فضول ہے \p \v 13 جو لڑکا غریب لیکن دانش مند ہے وہ اُس بزرگ لیکن احمق بادشاہ سے کہیں بہتر ہے جو تنبیہ ماننے سے انکار کرے۔ \v 14 کیونکہ گو وہ بوڑھے بادشاہ کی حکومت کے دوران غربت میں پیدا ہوا تھا توبھی وہ جیل سے نکل کر بادشاہ بن گیا۔ \v 15 لیکن پھر مَیں نے دیکھا کہ سورج تلے تمام لوگ ایک اَور لڑکے کے پیچھے ہو لئے جسے پہلے کی جگہ تخت نشین ہونا تھا۔ \v 16 اُن تمام لوگوں کی انتہا نہیں تھی جن کی قیادت وہ کرتا تھا۔ توبھی جو بعد میں آئیں گے وہ اُس سے خوش نہیں ہوں گے۔ یہ بھی باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ \c 5 \s1 اللہ کا خوف ماننا \p \v 1 اللہ کے گھر میں جاتے وقت اپنے قدموں کا خیال رکھ اور سننے کے لئے تیار رہ۔ یہ احمقوں کی قربانیوں سے کہیں بہتر ہے، کیونکہ وہ جانتے ہی نہیں کہ غلط کام کر رہے ہیں۔ \p \v 2 بولنے میں جلدبازی نہ کر، تیرا دل اللہ کے حضور کچھ بیان کرنے میں جلدی نہ کرے۔ اللہ آسمان پر ہے جبکہ تُو زمین پر ہی ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ تُو کم باتیں کرے۔ \v 3 کیونکہ جس طرح حد سے زیادہ محنت مشقت سے خواب آنے لگتے ہیں اُسی طرح بہت باتیں کرنے سے آدمی کی حماقت ظاہر ہوتی ہے۔ \p \v 4 اگر تُو اللہ کے حضور مَنت مانے تو اُسے پورا کرنے میں دیر مت کر۔ وہ احمقوں سے خوش نہیں ہوتا، چنانچہ اپنی مَنت پوری کر۔ \v 5 مَنت نہ ماننا مَنت مان کر اُسے پورا نہ کرنے سے بہتر ہے۔ \p \v 6 اپنے منہ کو اجازت نہ دے کہ وہ تجھے گناہ میں پھنسائے، اور اللہ کے پیغمبر کے سامنے نہ کہہ، ”مجھ سے غیرارادی غلطی ہوئی ہے۔“ کیا ضرورت ہے کہ اللہ تیری بات سے ناراض ہو کر تیری محنت کا کام تباہ کرے؟ \p \v 7 جہاں بہت خواب دیکھے جاتے ہیں وہاں فضول باتیں اور بےشمار الفاظ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ کا خوف مان! \s1 ظالموں کا ظلم \p \v 8 کیا تجھے صوبے میں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو غریبوں پر ظلم کرتے، اُن کا حق مارتے اور اُنہیں انصاف سے محروم رکھتے ہیں؟ تعجب نہ کر، کیونکہ ایک سرکاری ملازم دوسرے کی نگہبانی کرتا ہے، اور اُن پر مزید ملازم مقرر ہوتے ہیں۔ \v 9 چنانچہ ملک کے لئے ہر لحاظ سے فائدہ اِس میں ہے کہ ایسا بادشاہ اُس پر حکومت کرے جو کاشت کاری کی فکر کرتا ہے۔ \s1 دولت خوش حالی کی ضمانت نہیں دے سکتی \p \v 10 جسے پیسے پیارے ہوں وہ کبھی مطمئن نہیں ہو گا، خواہ اُس کے پاس کتنے ہی پیسے کیوں نہ ہوں۔ جو زردوست ہو وہ کبھی آسودہ نہیں ہو گا، خواہ اُس کے پاس کتنی ہی دولت کیوں نہ ہو۔ یہ بھی باطل ہی ہے۔ \v 11 جتنا مال میں اضافہ ہو اُتنا ہی اُن کی تعداد بڑھتی ہے جو اُسے کھا جاتے ہیں۔ اُس کے مالک کو اُس کا کیا فائدہ ہے سوائے اِس کے کہ وہ اُسے دیکھ دیکھ کر مزہ لے؟ \v 12 کام کاج کرنے والے کی نیند میٹھی ہوتی ہے، خواہ اُس نے کم یا زیادہ کھانا کھایا ہو، لیکن امیر کی دولت اُسے سونے نہیں دیتی۔ \p \v 13 مجھے سورج تلے ایک نہایت بُری بات نظر آئی۔ جو دولت کسی نے اپنے لئے محفوظ رکھی وہ اُس کے لئے نقصان کا باعث بن گئی۔ \v 14 کیونکہ جب یہ دولت کسی مصیبت کے باعث تباہ ہو گئی اور آدمی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اُس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ \v 15 ماں کے پیٹ سے نکلتے وقت وہ ننگا تھا، اور اِسی طرح کوچ کر کے چلا بھی جائے گا۔ اُس کی محنت کا کوئی پھل نہیں ہو گا جسے وہ اپنے ساتھ لے جا سکے۔ \p \v 16 یہ بھی بہت بُری بات ہے کہ جس طرح انسان آیا اُسی طرح کوچ کر کے چلا بھی جاتا ہے۔ اُسے کیا فائدہ ہوا ہے کہ اُس نے ہَوا کے لئے محنت مشقت کی ہو؟ \v 17 جیتے جی وہ ہر دن تاریکی میں کھانا کھاتے ہوئے گزارتا، زندگی بھر وہ بڑی رنجیدگی، بیماری اور غصے میں مبتلا رہتا ہے۔ \p \v 18 تب مَیں نے جان لیا کہ انسان کے لئے اچھا اور مناسب ہے کہ وہ جتنے دن اللہ نے اُسے دیئے ہیں کھائے پیئے اور سورج تلے اپنی محنت مشقت کے پھل کا مزہ لے، کیونکہ یہی اُس کے نصیب میں ہے۔ \v 19 کیونکہ جب اللہ کسی شخص کو مال و متاع عطا کر کے اُسے اِس قابل بنائے کہ اُس کا مزہ لے سکے، اپنا نصیب قبول کر سکے اور محنت مشقت کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہو سکے تو یہ اللہ کی بخشش ہے۔ \v 20 ایسے شخص کو زندگی کے دنوں پر غور و خوض کرنے کا کم ہی وقت ملتا ہے، کیونکہ اللہ اُسے دل میں خوشی دلا کر مصروف رکھتا ہے۔ \c 6 \p \v 1 مجھے سورج تلے ایک اَور بُری بات نظر آئی جو انسان کو اپنے بوجھ تلے دبائے رکھتی ہے۔ \p \v 2 اللہ کسی آدمی کو مال و متاع اور عزت عطا کرتا ہے۔ غرض اُس کے پاس سب کچھ ہے جو اُس کا دل چاہے۔ لیکن اللہ اُسے اِن چیزوں سے لطف اُٹھانے نہیں دیتا بلکہ کوئی اجنبی اُس کا مزہ لیتا ہے۔ یہ باطل اور ایک بڑی مصیبت ہے۔ \v 3 ہو سکتا ہے کہ کسی آدمی کے سَو بچے پیدا ہوں اور وہ عمر رسیدہ بھی ہو جائے، لیکن خواہ وہ کتنا بوڑھا کیوں نہ ہو جائے، اگر اپنی خوش حالی کا مزہ نہ لے سکے اور آخرکار صحیح رسومات کے ساتھ دفنایا نہ جائے تو اِس کا کیا فائدہ؟ مَیں کہتا ہوں کہ اُس کی نسبت ماں کے پیٹ میں ضائع ہو گئے بچے کا حال بہتر ہے۔ \v 4 بےشک ایسے بچے کا آنا بےمعنی ہے، اور وہ اندھیرے میں ہی کوچ کر کے چلا جاتا بلکہ اُس کا نام تک اندھیرے میں چھپا رہتا ہے۔ \v 5 لیکن گو اُس نے نہ کبھی سورج دیکھا، نہ اُسے کبھی معلوم ہوا کہ ایسی چیز ہے تاہم اُسے مذکورہ آدمی سے کہیں زیادہ آرام و سکون حاصل ہے۔ \v 6 اور اگر وہ دو ہزار سال تک جیتا رہے، لیکن اپنی خوش حالی سے لطف اندوز نہ ہو سکے تو کیا فائدہ ہے؟ سب کو تو ایک ہی جگہ جانا ہے۔ \p \v 7 انسان کی تمام محنت مشقت کا یہ مقصد ہے کہ پیٹ بھر جائے، توبھی اُس کی بھوک کبھی نہیں مٹتی۔ \v 8 دانش مند کو کیا حاصل ہے جس کے باعث وہ احمق سے برتر ہے؟ اِس کا کیا فائدہ ہے کہ غریب آدمی زندوں کے ساتھ مناسب سلوک کرنے کا فن سیکھ لے؟ \v 9 دُوردراز چیزوں کے آرزومند رہنے کی نسبت بہتر یہ ہے کہ انسان اُن چیزوں سے لطف اُٹھائے جو آنکھوں کے سامنے ہی ہیں۔ یہ بھی باطل اور ہَوا کو پکڑنے کے برابر ہے۔ \s1 اللہ کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا \p \v 10 جو کچھ بھی پیش آتا ہے اُس کا نام پہلے ہی رکھا گیا ہے، جو بھی انسان وجود میں آتا ہے وہ پہلے ہی معلوم تھا۔ کوئی بھی انسان اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو اُس سے طاقت ور ہے۔ \v 11 کیونکہ جتنی بھی باتیں انسان کرے اُتنا ہی زیادہ معلوم ہو گا کہ باطل ہیں۔ انسان کے لئے اِس کا کیا فائدہ؟ \p \v 12 کس کو معلوم ہے کہ اُن تھوڑے اور بےکار دنوں کے دوران جو سائے کی طرح گزر جاتے ہیں انسان کے لئے کیا کچھ فائدہ مند ہے؟ کون اُسے بتا سکتا ہے کہ اُس کے چلے جانے پر سورج تلے کیا کچھ پیش آئے گا؟ \c 7 \s1 اچھا کیا ہے؟ \p \v 1 اچھا نام خوشبودار تیل سے اور موت کا دن پیدائش کے دن سے بہتر ہے۔ \p \v 2 ضیافت کرنے والوں کے گھر میں جانے کی نسبت ماتم کرنے والوں کے گھر میں جانا بہتر ہے، کیونکہ ہر انسان کا انجام موت ہی ہے۔ جو زندہ ہیں وہ اِس بات پر خوب دھیان دیں۔ \v 3 دُکھ ہنسی سے بہتر ہے، اُترا ہوا چہرہ دل کی بہتری کا باعث ہے۔ \v 4 دانش مند کا دل ماتم کرنے والوں کے گھر میں ٹھہرتا جبکہ احمق کا دل عیش و عشرت کرنے والوں کے گھر میں ٹک جاتا ہے۔ \p \v 5 احمقوں کے گیت سننے کی نسبت دانش مند کی جھڑکیوں پر دھیان دینا بہتر ہے۔ \v 6 احمق کے قہقہے دیگچی تلے چٹخنے والے کانٹوں کی آگ کی مانند ہیں۔ یہ بھی باطل ہی ہے۔ \p \v 7 ناروا نفع دانش مند کو احمق بنا دیتا، رشوت دل کو بگاڑ دیتی ہے۔ \p \v 8 کسی معاملے کا انجام اُس کی ابتدا سے بہتر ہے، صبر کرنا مغرور ہونے سے بہتر ہے۔ \p \v 9 غصہ کرنے میں جلدی نہ کر، کیونکہ غصہ احمقوں کی گود میں ہی آرام کرتا ہے۔ \p \v 10 یہ نہ پوچھ کہ آج کی نسبت پرانا زمانہ بہتر کیوں تھا، کیونکہ یہ حکمت کی بات نہیں۔ \p \v 11 اگر حکمت کے علاوہ میراث میں ملکیت بھی مل جائے تو یہ اچھی بات ہے، یہ اُن کے لئے سودمند ہے جو سورج دیکھتے ہیں۔ \v 12 کیونکہ حکمت پیسوں کی طرح پناہ دیتی ہے، لیکن حکمت کا خاص فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کی جان بچائے رکھتی ہے۔ \p \v 13 اللہ کے کام کا ملاحظہ کر۔ جو کچھ اُس نے پیچ دار بنایا کون اُسے سلجھا سکتا ہے؟ \p \v 14 خوشی کے دن خوش ہو، لیکن مصیبت کے دن خیال رکھ کہ اللہ نے یہ دن بھی بنایا اور وہ بھی اِس لئے کہ انسان اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ معلوم نہ کر سکے۔ \s1 انتہاپسندوں سے دریغ کر \p \v 15 اپنی عبث زندگی کے دوران مَیں نے دو باتیں دیکھی ہیں۔ ایک طرف راست باز اپنی راست بازی کے باوجود تباہ ہو جاتا جبکہ دوسری طرف بےدین اپنی بےدینی کے باوجود عمر رسیدہ ہو جاتا ہے۔ \v 16 نہ حد سے زیادہ راست بازی دکھا، نہ حد سے زیادہ دانش مندی۔ اپنے آپ کو تباہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ \v 17 نہ حد سے زیادہ بےدینی، نہ حد سے زیادہ حماقت دکھا۔ مقررہ وقت سے پہلے مرنے کی کیا ضرورت ہے؟ \v 18 اچھا ہے کہ تُو یہ بات تھامے رکھے اور دوسری بھی نہ چھوڑے۔ جو اللہ کا خوف مانے وہ دونوں خطروں سے بچ نکلے گا۔ \p \v 19 حکمت دانش مند کو شہر کے دس حکمرانوں سے زیادہ طاقت ور بنا دیتی ہے۔ \v 20 دنیا میں کوئی بھی انسان اِتنا راست باز نہیں کہ ہمیشہ اچھا کام کرے اور کبھی گناہ نہ کرے۔ \p \v 21 لوگوں کی ہر بات پر دھیان نہ دے، ایسا نہ ہو کہ تُو نوکر کی لعنت بھی سن لے جو وہ تجھ پر کرتا ہے۔ \v 22 کیونکہ دل میں تُو جانتا ہے کہ تُو نے خود متعدد بار دوسروں پر لعنت بھیجی ہے۔ \s1 کون دانش مند ہے؟ \p \v 23 حکمت کے ذریعے مَیں نے اِن تمام باتوں کی جانچ پڑتال کی۔ مَیں بولا، ”مَیں دانش مند بننا چاہتا ہوں،“ لیکن حکمت مجھ سے دُور رہی۔ \v 24 جو کچھ موجود ہے وہ دُور اور نہایت گہرا ہے۔ کون اُس کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے؟ \v 25 چنانچہ مَیں رُخ بدل کر پورے دھیان سے اِس کی تحقیق و تفتیش کرنے لگا کہ حکمت اور مختلف باتوں کے صحیح نتائج کیا ہیں۔ نیز، مَیں بےدینی کی حماقت اور بےہودگی کی دیوانگی معلوم کرنا چاہتا تھا۔ \p \v 26 مجھے معلوم ہوا کہ موت سے کہیں تلخ وہ عورت ہے جو پھندا ہے، جس کا دل جال اور ہاتھ زنجیریں ہیں۔ جو آدمی اللہ کو منظور ہو وہ بچ نکلے گا، لیکن گناہ گار اُس کے جال میں اُلجھ جائے گا۔ \p \v 27 واعظ فرماتا ہے، ”یہ سب کچھ مجھے معلوم ہوا جب مَیں نے مختلف باتیں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کیں تاکہ صحیح نتائج تک پہنچوں۔ \v 28 لیکن جسے مَیں ڈھونڈتا رہا وہ نہ ملا۔ ہزار افراد میں سے مجھے صرف ایک ہی دیانت دار مرد ملا، لیکن ایک بھی دیانت دار\f + \fr 7‏:28 \fk دیانت دار: \ft ’دیانت دار‘ اضافہ ہے تاکہ آیت کا جو غالباً مطلب ہے وہ صاف ہو جائے۔ \f*عورت نہیں۔ \p \v 29 مجھے صرف اِتنا ہی معلوم ہوا کہ گو اللہ نے انسانوں کو دیانت دار بنایا، لیکن وہ کئی قسم کی چالاکیاں ڈھونڈ نکالتے ہیں۔“ \c 8 \p \v 1 کون دانش مند کی مانند ہے؟ کون باتوں کی صحیح تشریح کرنے کا علم رکھتا ہے؟ حکمت انسان کا چہرہ روشن اور اُس کے منہ کا سخت انداز نرم کر دیتی ہے۔ \s1 حکمران کا اختیار \p \v 2 مَیں کہتا ہوں، بادشاہ کے حکم پر چل، کیونکہ تُو نے اللہ کے سامنے حلف اُٹھایا ہے۔ \v 3 بادشاہ کے حضور سے دُور ہونے میں جلدبازی نہ کر۔ کسی بُرے معاملے میں مبتلا نہ ہو جا، کیونکہ اُسی کی مرضی چلتی ہے۔ \v 4 بادشاہ کے فرمان کے پیچھے اُس کا اختیار ہے، اِس لئے کون اُس سے پوچھے، ”تُو کیا کر رہا ہے؟“ \v 5 جو اُس کے حکم پر چلے اُس کا کسی بُرے معاملے سے واسطہ نہیں پڑے گا، کیونکہ دانش مند دل مناسب وقت اور انصاف کی راہ جانتا ہے۔ \p \v 6 کیونکہ ہر معاملے کے لئے مناسب وقت اور انصاف کی راہ ہوتی ہے۔ لیکن مصیبت انسان کو دبائے رکھتی ہے، \v 7 کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ مستقبل کیسا ہو گا۔ کوئی اُسے یہ نہیں بتا سکتا ہے۔ \v 8 کوئی بھی انسان ہَوا کو بند رکھنے کے قابل نہیں۔\f + \fr 8‏:8 \fq کوئی بھی انسان ہَوا کو بند رکھنے کے قابل نہیں: \ft ایک اَور ممکنہ ترجمہ: \fqa کوئی بھی انسان اپنی جان کو نکلنے سے نہیں روک سکتا۔ \f* اِسی طرح کسی کو بھی اپنی موت کا دن مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔ یہ اُتنا یقینی ہے جتنا یہ کہ فوجیوں کو جنگ کے دوران فارغ نہیں کیا جاتا اور بےدینی بےدین کو نہیں بچاتی۔ \p \v 9 مَیں نے یہ سب کچھ دیکھا جب پورے دل سے اُن تمام باتوں پر دھیان دیا جو سورج تلے ہوتی ہیں، جہاں اِس وقت ایک آدمی دوسرے کو نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے۔ \s1 دنیا میں ناانصافی \p \v 10 پھر مَیں نے دیکھا کہ بےدینوں کو عزت کے ساتھ دفنایا گیا۔ یہ لوگ مقدِس کے پاس آتے جاتے تھے! لیکن جو راست باز تھے اُن کی یاد شہر میں مٹ گئی۔ یہ بھی باطل ہی ہے۔ \p \v 11 مجرموں کو جلدی سے سزا نہیں دی جاتی، اِس لئے لوگوں کے دل بُرے کام کرنے کے منصوبوں سے بھر جاتے ہیں۔ \v 12 گناہ گار سے سَو گناہ سرزد ہوتے ہیں، توبھی عمر رسیدہ ہو جاتا ہے۔ \p بےشک مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ خدا ترس لوگوں کی خیر ہو گی، اُن کی جو اللہ کے چہرے سے ڈرتے ہیں۔ \v 13 بےدین کی خیر نہیں ہو گی، کیونکہ وہ اللہ کا خوف نہیں مانتا۔ اُس کی زندگی کے دن زیادہ نہیں بلکہ سائے جیسے عارضی ہوں گے۔ \v 14 توبھی ایک اَور بات دنیا میں پیش آتی ہے جو باطل ہے، راست بازوں کو وہ سزا ملتی ہے جو بےدینوں کو ملنی چاہئے، اور بےدینوں کو وہ اجر ملتا ہے جو راست بازوں کو ملنا چاہئے۔ یہ دیکھ کر مَیں بولا، ”یہ بھی باطل ہی ہے۔“ \p \v 15 چنانچہ مَیں نے خوشی کی تعریف کی، کیونکہ سورج تلے انسان کے لئے اِس سے بہتر کچھ نہیں ہے کہ وہ کھائے پیئے اور خوش رہے۔ پھر محنت مشقت کرتے وقت خوشی اُتنے ہی دن اُس کے ساتھ رہے گی جتنے اللہ نے سورج تلے اُس کے لئے مقرر کئے ہیں۔ \s1 جو کچھ اللہ کرتا ہے وہ ناقابلِ فہم ہے \p \v 16 مَیں نے اپنی پوری ذہنی طاقت اِس پر لگائی کہ حکمت جان لوں اور زمین پر انسان کی محنتوں کا معائنہ کر لوں، ایسی محنتیں کہ اُسے دن رات نیند نہیں آتی۔ \v 17 تب مَیں نے اللہ کا سارا کام دیکھ کر جان لیا کہ انسان اُس تمام کام کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا جو سورج تلے ہوتا ہے۔ خواہ وہ اُس کی کتنی تحقیق کیوں نہ کرے توبھی وہ تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہو سکتا ہے کوئی دانش مند دعویٰ کرے، ”مجھے اِس کی پوری سمجھ آئی ہے،“ لیکن ایسا نہیں ہے، وہ تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ \c 9 \p \v 1 اِن تمام باتوں پر مَیں نے دل سے غور کیا۔ اِن کے معائنے کے بعد مَیں نے نتیجہ نکالا کہ راست باز اور دانش مند اور جو کچھ وہ کریں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ خواہ محبت ہو خواہ نفرت، اِس کی بھی سمجھ انسان کو نہیں آتی، دونوں کی جڑیں اُس سے پہلے ماضی میں ہیں۔ \v 2 سب کے نصیب میں ایک ہی انجام ہے، راست باز اور بےدین کے، نیک اور بد کے، پاک اور ناپاک کے، قربانیاں پیش کرنے والے کے اور اُس کے جو کچھ نہیں پیش کرتا۔ اچھے شخص اور گناہ گار کا ایک ہی انجام ہے، حلف اُٹھانے والے اور اِس سے ڈر کر گریز کرنے والے کی ایک ہی منزل ہے۔ \p \v 3 سورج تلے ہر کام کی یہی مصیبت ہے کہ ہر ایک کے نصیب میں ایک ہی انجام ہے۔ انسان کا ملاحظہ کر۔ اُس کا دل بُرائی سے بھرا رہتا بلکہ عمر بھر اُس کے دل میں بےہودگی رہتی ہے۔ لیکن آخرکار اُسے مُردوں میں ہی جا ملنا ہے۔ \p \v 4 جو اب تک زندوں میں شریک ہے اُسے اُمید ہے۔ کیونکہ زندہ کُتے کا حال مُردہ شیر سے بہتر ہے۔ \v 5 کم از کم جو زندہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہم مریں گے۔ لیکن مُردے کچھ نہیں جانتے، اُنہیں مزید کوئی اجر نہیں ملنا ہے۔ اُن کی یادیں بھی مٹ جاتی ہیں۔ \v 6 اُن کی محبت، نفرت اور غیرت سب کچھ بڑی دیر سے جاتی رہی ہے۔ اب وہ کبھی بھی اُن کاموں میں حصہ نہیں لیں گے جو سورج تلے ہوتے ہیں۔ \s1 زندگی کے مزے لے! \p \v 7 چنانچہ جا کر اپنا کھانا خوشی کے ساتھ کھا، اپنی مَے زندہ دلی سے پی، کیونکہ اللہ کافی دیر سے تیرے کاموں سے خوش ہے۔ \v 8 تیرے کپڑے ہر وقت سفید\f + \fr 9‏:8 \fk سفید: \ft یعنی خوشی منانے کے کپڑے۔ \f* ہوں، تیرا سر تیل سے محروم نہ رہے۔ \v 9 اپنے جیون ساتھی کے ساتھ جو تجھے پیارا ہے زندگی کے مزے لیتا رہ۔ سورج تلے کی باطل زندگی کے جتنے دن اللہ نے تجھے بخش دیئے ہیں اُنہیں اِسی طرح گزار! کیونکہ زندگی میں اور سورج تلے تیری محنت مشقت میں یہی کچھ تیرے نصیب میں ہے۔ \v 10 جس کام کو بھی ہاتھ لگائے اُسے پورے جوش و خروش سے کر، کیونکہ پاتال میں جہاں تُو جا رہا ہے نہ کوئی کام ہے، نہ منصوبہ، نہ علم اور نہ حکمت۔ \s1 دنیا میں حکمت کی قدر نہیں کی جاتی \p \v 11 مَیں نے سورج تلے مزید کچھ دیکھا۔ یقینی بات نہیں کہ مقابلے میں سب سے تیز دوڑنے والا جیت جائے، کہ جنگ میں پہلوان فتح پائے، کہ دانش مند کو خوراک حاصل ہو، کہ سمجھ دار کو دولت ملے یا کہ عالِم منظوری پائے۔ نہیں، سب کچھ موقع اور اتفاق پر منحصر ہوتا ہے۔ \v 12 نیز، کوئی بھی انسان نہیں جانتا کہ مصیبت کا وقت کب اُس پر آئے گا۔ جس طرح مچھلیاں ظالم جال میں اُلجھ جاتی یا پرندے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اُسی طرح انسان مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ مصیبت اچانک ہی اُس پر آ جاتی ہے۔ \p \v 13 سورج تلے مَیں نے حکمت کی ایک اَور مثال دیکھی جو مجھے اہم لگی۔ \p \v 14 کہیں کوئی چھوٹا شہر تھا جس میں تھوڑے سے افراد بستے تھے۔ ایک دن ایک طاقت ور بادشاہ اُس سے لڑنے آیا۔ اُس نے اُس کا محاصرہ کیا اور اِس مقصد سے اُس کے ارد گرد بڑے بڑے بُرج کھڑے کئے۔ \v 15 شہر میں ایک آدمی رہتا تھا جو دانش مند البتہ غریب تھا۔ اِس شخص نے اپنی حکمت سے شہر کو بچا لیا۔ لیکن بعد میں کسی نے بھی غریب کو یاد نہ کیا۔ \v 16 یہ دیکھ کر مَیں بولا، ”حکمت طاقت سے بہتر ہے،“ لیکن غریب کی حکمت حقیر جانی جاتی ہے۔ کوئی بھی اُس کی باتوں پر دھیان نہیں دیتا۔ \v 17 دانش مند کی جو باتیں آرام سے سنی جائیں وہ احمقوں کے درمیان رہنے والے حکمران کے زوردار اعلانات سے کہیں بہتر ہیں۔ \v 18 حکمت جنگ کے ہتھیاروں سے بہتر ہے، لیکن ایک ہی گناہ گار بہت کچھ جو اچھا ہے تباہ کرتا ہے۔ \c 10 \s1 مختلف ہدایات \p \v 1 مری ہوئی مکھیاں خوشبودار تیل خراب کرتی ہیں، اور حکمت اور عزت کی نسبت تھوڑی سی حماقت کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔ \p \v 2 دانش مند کا دل صحیح راہ چن لیتا ہے جبکہ احمق کا دل غلط راہ پر آ جاتا ہے۔ \v 3 راستے پر چلتے وقت بھی احمق سمجھ سے خالی ہے، جس سے بھی ملے اُسے بتاتا ہے کہ وہ بےوقوف ہے۔\f + \fr 10‏:3 \fq وہ بےوقوف ہے: \ft عبرانی ذومعنی ہے۔ دوسرا مطلب \fqa مَیں بےوقوف ہوں \ft ہو سکتا ہے۔ \f* \p \v 4 اگر حکمران تجھ سے ناراض ہو جائے تو اپنی جگہ مت چھوڑ، کیونکہ پُرسکون رویہ بڑی بڑی غلطیاں دُور کر دیتا ہے۔ \p \v 5 مجھے سورج تلے ایک ایسی بُری بات نظر آئی جو اکثر حکمرانوں سے سرزد ہوتی ہے۔ \v 6 احمق کو بڑے عُہدوں پر فائز کیا جاتا ہے جبکہ امیر چھوٹے عُہدوں پر ہی رہتے ہیں۔ \v 7 مَیں نے غلاموں کو گھوڑے پر سوار اور حکمرانوں کو غلاموں کی طرح پیدل چلتے دیکھا ہے۔ \p \v 8 جو گڑھا کھودے وہ خود اُس میں گر سکتا ہے، جو دیوار گرا دے ہو سکتا ہے کہ سانپ اُسے ڈسے۔ \v 9 جو کان سے پتھر نکالے اُسے چوٹ لگ سکتی ہے، جو لکڑی چیر ڈالے وہ زخمی ہو جانے کے خطرے میں ہے۔ \p \v 10 اگر کلہاڑی کُند ہو اور کوئی اُسے تیز نہ کرے تو زیادہ طاقت درکار ہے۔ لہٰذا حکمت کو صحیح طور سے عمل میں لا، تب ہی کامیابی حاصل ہو گی۔ \p \v 11 اگر اِس سے پہلے کہ سپیرا سانپ پر قابو پائے وہ اُسے ڈسے تو پھر سپیرا ہونے کا کیا فائدہ؟ \p \v 12 دانش مند اپنے منہ کی باتوں سے دوسروں کی مہربانی حاصل کرتا ہے، لیکن احمق کے اپنے ہی ہونٹ اُسے ہڑپ کر لیتے ہیں۔ \v 13 اُس کا بیان احمقانہ باتوں سے شروع اور خطرناک بےوقوفیوں سے ختم ہوتا ہے۔ \v 14 ایسا شخص باتیں کرنے سے باز نہیں آتا، گو انسان مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ کون اُسے بتا سکتا ہے کہ اُس کے بعد کیا کچھ ہو گا؟ \v 15 احمق کا کام اُسے تھکا دیتا ہے، اور وہ شہر کا راستہ بھی نہیں جانتا۔ \p \v 16 اُس ملک پر افسوس جس کا بادشاہ بچہ ہے اور جس کے بزرگ صبح ہی ضیافت کرنے لگتے ہیں۔ \v 17 مبارک ہے وہ ملک جس کا بادشاہ شریف ہے اور جس کے بزرگ نشے میں دُھت نہیں رہتے بلکہ مناسب وقت پر اور نظم و ضبط کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ \p \v 18 جو سُست ہے اُس کے گھر کے شہتیر جھکنے لگتے ہیں، جس کے ہاتھ ڈھیلے ہیں اُس کی چھت سے پانی ٹپکنے لگتا ہے۔ \p \v 19 ضیافت کرنے سے ہنسی خوشی اور مَے پینے سے زندہ دلی پیدا ہوتی ہے، لیکن پیسہ ہی سب کچھ مہیا کرتا ہے۔ \p \v 20 خیالوں میں بھی بادشاہ پر لعنت نہ کر، اپنے سونے کے کمرے میں بھی امیر پر لعنت نہ بھیج، ایسا نہ ہو کہ کوئی پرندہ تیرے الفاظ لے کر اُس تک پہنچائے۔ \c 11 \s1 محبت کا فائدہ \p \v 1 اپنی روٹی پانی پر پھینک کر جانے دے تو متعدد دنوں کے بعد وہ تجھے پھر مل جائے گی۔ \v 2 اپنی ملکیت سات بلکہ آٹھ مختلف کاموں میں لگا دے، کیونکہ تجھے کیا معلوم کہ ملک کس کس مصیبت سے دوچار ہو گا۔ \p \v 3 اگر بادل پانی سے بھرے ہوں تو زمین پر بارش ضرور ہو گی۔ درخت جنوب یا شمال کی طرف گر جائے تو اُسی طرف پڑا رہے گا۔ \p \v 4 جو ہر وقت ہَوا کا رُخ دیکھتا رہے وہ کبھی بیج نہیں بوئے گا۔ جو بادلوں کو تکتا رہے وہ کبھی فصل کی کٹائی نہیں کرے گا۔ \p \v 5 جس طرح نہ تجھے ہَوا کے چکر معلوم ہیں، نہ یہ کہ ماں کے پیٹ میں بچہ کس طرح تشکیل پاتا ہے اُسی طرح تُو اللہ کا کام نہیں سمجھ سکتا، جو سب کچھ عمل میں لاتا ہے۔ \p \v 6 صبح کے وقت اپنا بیج بو اور شام کو بھی کام میں لگا رہ، کیونکہ کیا معلوم کہ کس کام میں کامیابی ہو گی، اِس میں، اُس میں یا دونوں میں۔ \s1 اپنی جوانی سے لطف اندوز ہو \p \v 7 روشنی کتنی بھلی ہے، اور سورج آنکھوں کے لئے کتنا خوش گوار ہے۔ \v 8 جتنے بھی سال انسان زندہ رہے اُتنے سال وہ خوش باش رہے۔ ساتھ ساتھ اُسے یاد رہے کہ تاریک دن بھی آنے والے ہیں، اور کہ اُن کی بڑی تعداد ہو گی۔ جو کچھ آنے والا ہے وہ باطل ہی ہے۔ \p \v 9 اے نوجوان، جب تک تُو جوان ہے خوش رہ اور جوانی کے مزے لیتا رہ۔ جو کچھ تیرا دل چاہے اور تیری آنکھوں کو پسند آئے وہ کر، لیکن یاد رہے کہ جو کچھ بھی تُو کرے اُس کا جواب اللہ تجھ سے طلب کرے گا۔ \v 10 چنانچہ اپنے دل سے رنجیدگی اور اپنے جسم سے دُکھ درد دُور رکھ، کیونکہ جوانی اور کالے بال دم بھر کے ہی ہیں۔ \c 12 \p \v 1 جوانی میں ہی اپنے خالق کو یاد رکھ، اِس سے پہلے کہ مصیبت کے دن آئیں، وہ سال قریب آئیں جن کے بارے میں تُو کہے گا، ”یہ مجھے پسند نہیں۔“ \v 2 اُسے یاد رکھ اِس سے پہلے کہ روشنی تیرے لئے ختم ہو جائے، سورج، چاند اور ستارے اندھیرے ہو جائیں اور بارش کے بعد بادل لوٹ آئیں۔ \v 3 اُسے یاد رکھ، اِس سے پہلے کہ گھر کے پہرے دار تھرتھرانے لگیں، طاقت ور آدمی کُبڑے ہو جائیں، گندم پیسنے والی نوکرانیاں کم ہونے کے باعث کام کرنا چھوڑ دیں اور کھڑکیوں میں سے دیکھنے والی خواتین دُھندلا جائیں۔ \v 4 اُسے یاد رکھ، اِس سے پہلے کہ گلی میں پہنچانے والا دروازہ بند ہو جائے اور چکّی کی آواز آہستہ ہو جائے۔ جب چڑیاں چہچہانے لگیں گی تو تُو جاگ اُٹھے گا، لیکن تمام گیتوں کی آواز دبی سی سنائی دے گی۔ \v 5 اُسے یاد رکھ، اِس سے پہلے کہ تُو اونچی جگہوں اور گلیوں کے خطروں سے ڈرنے لگے۔ گو بادام کا پھول کھل جائے، ٹڈی بوجھ تلے دب جائے اور کریر کا پھول پھوٹ نکلے، لیکن تُو کوچ کر کے اپنے ابدی گھر میں چلا جائے گا، اور ماتم کرنے والے گلیوں میں گھومتے پھریں گے۔ \p \v 6 اللہ کو یاد رکھ، اِس سے پہلے کہ چاندی کا رسّا ٹوٹ جائے، سونے کا برتن ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے، چشمے کے پاس گھڑا پاش پاش ہو جائے اور کنوئیں کا پانی نکالنے والا پہیہ ٹوٹ کر اُس میں گر جائے۔ \v 7 تب تیری خاک دوبارہ اُس خاک میں مل جائے گی جس سے نکل آئی اور تیری روح اُس خدا کے پاس لوٹ جائے گی جس نے اُسے بخشا تھا۔ \p \v 8 واعظ فرماتا ہے، ”باطل ہی باطل! سب کچھ باطل ہی باطل ہے!“ \s1 خاتمہ \p \v 9 دانش مند ہونے کے علاوہ واعظ قوم کو علم و عرفان کی تعلیم دیتا رہا۔ اُس نے متعدد امثال کو صحیح وزن دے کر اُن کی جانچ پڑتال کی اور اُنہیں ترتیب وار جمع کیا۔ \v 10 واعظ کی کوشش تھی کہ مناسب الفاظ استعمال کرے اور دیانت داری سے سچی باتیں لکھے۔ \p \v 11 دانش مندوں کے الفاظ آنکس کی مانند ہیں، ترتیب سے جمع شدہ امثال لکڑی میں مضبوطی سے ٹھونکی گئی کیلوں جیسی ہیں۔ یہ ایک ہی گلہ بان کی دی ہوئی ہیں۔ \p \v 12 میرے بیٹے، اِس کے علاوہ خبردار رہ۔ کتابیں لکھنے کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو جائے گا، اور حد سے زیادہ کتب بینی سے جسم تھک جاتا ہے۔ \p \v 13 آؤ، اختتام پر ہم تمام تعلیم کے خلاصے پر دھیان دیں۔ رب کا خوف مان اور اُس کے احکام کی پیروی کر۔ یہ ہر انسان کا فرض ہے۔ \v 14 کیونکہ اللہ ہر کام کو خواہ وہ چھپا ہی ہو، خواہ بُرا یا بھلا ہو عدالت میں لائے گا۔