\id 2SA اردو جیو ورژن \ide UTF-8 \h ۲-سموئیل \toc1 ۲-سموئیل \toc2 ۲-سموئیل \toc3 ٢۔سمو \mt1 ۲-سموئیل \c 1 \s1 داؤد کو ساؤل اور یونتن کی موت کی خبر ملتی ہے \p \v 1 جب داؤد عمالیقیوں کو شکست دینے سے واپس آیا تو ساؤل بادشاہ مر چکا تھا۔ وہ ابھی دو ہی دن صِقلاج میں ٹھہرا تھا \v 2 کہ ایک آدمی ساؤل کی لشکرگاہ سے پہنچا۔ دُکھ کے اظہار کے لئے اُس نے اپنے کپڑوں کو پھاڑ کر اپنے سر پر خاک ڈال رکھی تھی۔ داؤد کے پاس آ کر وہ بڑے احترام کے ساتھ اُس کے سامنے جھک گیا۔ \v 3 داؤد نے پوچھا، ”آپ کہاں سے آئے ہیں؟“ آدمی نے جواب دیا، ”مَیں بال بال بچ کر اسرائیلی لشکرگاہ سے آیا ہوں۔“ \v 4 داؤد نے پوچھا، ”بتائیں، حالات کیسے ہیں؟“ اُس نے بتایا، ”ہمارے بہت سے آدمی میدانِ جنگ میں کام آئے۔ باقی بھاگ گئے ہیں۔ ساؤل اور اُس کا بیٹا یونتن بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔“ \p \v 5 داؤد نے سوال کیا، ”آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ساؤل اور یونتن مر گئے ہیں؟“ \v 6 جوان نے جواب دیا، ”اتفاق سے مَیں جِلبوعہ کے پہاڑی سلسلے پر سے گزر رہا تھا۔ وہاں مجھے ساؤل نظر آیا۔ وہ نیزے کا سہارا لے کر کھڑا تھا۔ دشمن کے رتھ اور گھڑسوار تقریباً اُسے پکڑنے ہی والے تھے \v 7 کہ اُس نے مُڑ کر مجھے دیکھا اور اپنے پاس بُلایا۔ مَیں نے کہا، ’جی، مَیں حاضر ہوں۔‘ \v 8 اُس نے پوچھا، ’تم کون ہو؟‘ مَیں نے جواب دیا، ’مَیں عمالیقی ہوں۔‘ \v 9 پھر اُس نے مجھے حکم دیا، ’آؤ اور مجھے مار ڈالو! کیونکہ گو مَیں زندہ ہوں میری جان نکل رہی ہے۔‘ \v 10 چنانچہ مَیں نے اُسے مار دیا، کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ بچنے کا کوئی امکان نہیں رہا تھا۔ پھر مَیں اُس کا تاج اور بازوبند لے کر اپنے مالک کے پاس یہاں لے آیا ہوں۔“ \p \v 11 یہ سب کچھ سن کر داؤد اور اُس کے تمام لوگوں نے غم کے مارے اپنے کپڑے پھاڑ لئے۔ \v 12 شام تک اُنہوں نے رو رو کر اور روزہ رکھ کر ساؤل، اُس کے بیٹے یونتن اور رب کے اُن باقی لوگوں کا ماتم کیا جو مارے گئے تھے۔ \p \v 13 داؤد نے اُس جوان سے جو اُن کی موت کی خبر لایا تھا پوچھا، ”آپ کہاں کے ہیں؟“ اُس نے جواب دیا، ”مَیں عمالیقی ہوں جو اجنبی کے طور پر آپ کے ملک میں رہتا ہوں۔“ \v 14 داؤد بولا، ”آپ نے رب کے مسح کئے ہوئے بادشاہ کو قتل کرنے کی جرأت کیسے کی؟“ \v 15 اُس نے اپنے کسی جوان کو بُلا کر حکم دیا، ”اِسے مار ڈالو!“ اُسی وقت جوان نے عمالیقی کو مار ڈالا۔ \v 16 داؤد نے کہا، ”آپ نے اپنے آپ کو خود مجرم ٹھہرایا ہے، کیونکہ آپ نے اپنے منہ سے اقرار کیا ہے کہ مَیں نے رب کے مسح کئے ہوئے بادشاہ کو مار دیا ہے۔“ \s1 ساؤل اور یونتن پر ماتم کا گیت \p \v 17 پھر داؤد نے ساؤل اور یونتن پر ماتم کا گیت گایا۔ \v 18 اُس نے ہدایت دی کہ یہوداہ کے تمام باشندے یہ گیت یاد کریں۔ گیت کا نام ’کمان کا گیت‘ ہے اور ’یاشر کی کتاب‘ میں درج ہے۔ گیت یہ ہے، \p \v 19 ”ہائے، اے اسرائیل! تیری شان و شوکت تیری بلندیوں پر ماری گئی ہے۔ ہائے، تیرے سورمے کس طرح گر گئے ہیں! \p \v 20 جات میں جا کر یہ خبر مت سنانا۔ اسقلون کی گلیوں میں اِس کا اعلان مت کرنا، ورنہ فلستیوں کی بیٹیاں خوشی منائیں گی، نامختونوں کی بیٹیاں فتح کے نعرے لگائیں گی۔ \p \v 21 اے جِلبوعہ کے پہاڑو! اے پہاڑی ڈھلانو! آئندہ تم پر نہ اوس پڑے، نہ بارش برسے۔ کیونکہ سورماؤں کی ڈھال ناپاک ہو گئی ہے۔ اب سے ساؤل کی ڈھال تیل مَل کر استعمال نہیں کی جائے گی۔ \b \p \v 22 یونتن کی کمان زبردست تھی، ساؤل کی تلوار کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹی۔ اُن کے ہتھیاروں سے ہمیشہ دشمن کا خون ٹپکتا رہا، وہ سورماؤں کی چربی سے چمکتے رہے۔ \p \v 23 ساؤل اور یونتن کتنے پیارے اور مہربان تھے! جیتے جی وہ ایک دوسرے کے قریب رہے، اور اب موت بھی اُنہیں الگ نہ کر سکی۔ وہ عقاب سے تیز اور شیرببر سے طاقت ور تھے۔ \p \v 24 اے اسرائیل کی خواتین! ساؤل کے لئے آنسو بہائیں۔ کیونکہ اُسی نے آپ کو قرمزی رنگ کے شاندار کپڑوں سے ملبّس کیا، اُسی نے آپ کو سونے کے زیورات سے آراستہ کیا۔ \b \p \v 25 ہائے، ہمارے سورمے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے ہیں۔ ہائے اے اسرائیل، یونتن مُردہ حالت میں تیری بلندیوں پر پڑا ہے۔ \p \v 26 اے یونتن میرے بھائی، مَیں تیرے بارے میں کتنا دُکھی ہوں۔ تُو مجھے کتنا عزیز تھا۔ تیری مجھ سے محبت انوکھی تھی، وہ عورتوں کی محبت سے بھی انوکھی تھی۔ \p \v 27 ہائے، ہائے! ہمارے سورمے کس طرح گر کر شہید ہو گئے ہیں۔ جنگ کے ہتھیار تباہ ہو گئے ہیں۔“ \c 2 \s1 داؤد یہوداہ کا بادشاہ بن جاتا ہے \p \v 1 اِس کے بعد داؤد نے رب سے دریافت کیا، ”کیا مَیں یہوداہ کے کسی شہر میں واپس چلا جاؤں؟“ رب نے جواب دیا، ”ہاں، واپس جا۔“ داؤد نے سوال کیا، ”مَیں کس شہر میں جاؤں؟“ رب نے جواب دیا، ”حبرون میں۔“ \v 2 چنانچہ داؤد اپنی دو بیویوں اخی نوعم یزرعیلی اور نابال کی بیوہ ابی جیل کرملی کے ساتھ حبرون میں جا بسا۔ \p \v 3 داؤد نے اپنے آدمیوں کو بھی اُن کے خاندانوں سمیت حبرون اور گرد و نواح کی آبادیوں میں منتقل کر دیا۔ \v 4 ایک دن یہوداہ کے آدمی حبرون میں آئے اور داؤد کو مسح کر کے اپنا بادشاہ بنا لیا۔ \p جب داؤد کو خبر مل گئی کہ یبیس جِلعاد کے مردوں نے ساؤل کو دفنا دیا ہے \v 5 تو اُس نے اُنہیں پیغام بھیجا، ”رب آپ کو اِس کے لئے برکت دے کہ آپ نے اپنے مالک ساؤل کو دفن کر کے اُس پر مہربانی کی ہے۔ \v 6 جواب میں رب آپ پر اپنی مہربانی اور وفاداری کا اظہار کرے۔ مَیں بھی اِس نیک عمل کا اجر دوں گا۔ \v 7 اب مضبوط اور دلیر ہوں۔ آپ کا آقا ساؤل تو فوت ہوا ہے، لیکن یہوداہ کے قبیلے نے مجھے اُس کی جگہ چن لیا ہے۔“ \s1 اِشبوست اسرائیل کا بادشاہ بن جاتا ہے \p \v 8 اِتنے میں ساؤل کی فوج کے کمانڈر ابنیر بن نیر نے ساؤل کے بیٹے اِشبوست کو محنائم شہر میں لے جا کر \v 9 بادشاہ مقرر کر دیا۔ جِلعاد، یزرعیل، آشر، افرائیم، بن یمین اور تمام اسرائیل اُس کے قبضے میں رہے۔ \v 10 صرف یہوداہ کا قبیلہ داؤد کے ساتھ رہا۔ اِشبوست 40 سال کی عمر میں بادشاہ بنا، اور اُس کی حکومت دو سال قائم رہی۔ \v 11 داؤد حبرون میں یہوداہ پر ساڑھے سات سال حکومت کرتا رہا۔ \s1 اسرائیل اور یہوداہ کے درمیان جنگ \p \v 12 ایک دن ابنیر اِشبوست بن ساؤل کے ملازموں کے ساتھ محنائم سے نکل کر جِبعون آیا۔ \v 13 یہ دیکھ کر داؤد کی فوج یوآب بن ضرویاہ کی راہنمائی میں اُن سے لڑنے کے لئے نکلی۔ دونوں فوجوں کی ملاقات جِبعون کے تالاب پر ہوئی۔ ابنیر کی فوج تالاب کی اُرلی طرف رُک گئی اور یوآب کی فوج پرلی طرف۔ \v 14 ابنیر نے یوآب سے کہا، ”آؤ، ہمارے چند جوان ہمارے سامنے ایک دوسرے کا مقابلہ کریں۔“ یوآب بولا، ”ٹھیک ہے۔“ \v 15 چنانچہ ہر فوج نے بارہ جوانوں کو چن کر مقابلے کے لئے پیش کیا۔ اِشبوست اور بن یمین کے قبیلے کے بارہ جوان داؤد کے بارہ جوانوں کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔ \v 16 جب مقابلہ شروع ہوا تو ہر ایک نے ایک ہاتھ سے اپنے مخالف کے بالوں کو پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے اپنی تلوار اُس کے پیٹ میں گھونپ دی۔ سب کے سب ایک ساتھ مر گئے۔ بعد میں جِبعون کی اِس جگہ کا نام خِلقت ہضوریم پڑ گیا۔ \p \v 17 پھر دونوں فوجوں کے درمیان نہایت سخت لڑائی چھڑ گئی۔ لڑتے لڑتے ابنیر اور اُس کے مرد ہار گئے۔ \v 18 یوآب کے دو بھائی ابی شے اور عساہیل بھی لڑائی میں حصہ لے رہے تھے۔ عساہیل غزال کی طرح تیز دوڑ سکتا تھا۔ \v 19 جب ابنیر شکست کھا کر بھاگنے لگا تو عساہیل سیدھا اُس کے پیچھے پڑ گیا اور نہ دائیں، نہ بائیں طرف ہٹا۔ \v 20 ابنیر نے پیچھے دیکھ کر پوچھا، ”کیا آپ ہی ہیں، عساہیل؟“ اُس نے جواب دیا، ”جی، مَیں ہی ہوں۔“ \v 21 ابنیر بولا، ”دائیں یا بائیں طرف ہٹ کر کسی اَور کو پکڑیں! جوانوں میں سے کسی سے لڑ کر اُس کے ہتھیار اور زرہ بکتر اُتاریں۔“ \p لیکن عساہیل اُس کا تعاقب کرنے سے باز نہ آیا۔ \v 22 ابنیر نے اُسے آگاہ کیا، ”خبردار۔ میرے پیچھے سے ہٹ جائیں، ورنہ آپ کو مار دینے پر مجبور ہو جاؤں گا۔ پھر آپ کے بھائی یوآب کو کس طرح منہ دکھاؤں گا؟“ \v 23 توبھی عساہیل نے پیچھا نہ چھوڑا۔ یہ دیکھ کر ابنیر نے اپنے نیزے کا دستہ اِتنے زور سے اُس کے پیٹ میں گھونپ دیا کہ اُس کا سرا دوسری طرف نکل گیا۔ عساہیل وہیں گر کر جاں بحق ہو گیا۔ جس نے بھی وہاں سے گزر کر یہ دیکھا وہ وہیں رُک گیا۔ \p \v 24 لیکن یوآب اور ابی شے ابنیر کا تعاقب کرتے رہے۔ جب سورج غروب ہونے لگا تو وہ ایک پہاڑی کے پاس پہنچ گئے جس کا نام امّہ تھا۔ یہ جیاح کے مقابل اُس راستے کے پاس ہے جو مسافر کو جِبعون سے ریگستان میں پہنچاتا ہے۔ \v 25 بن یمین کے قبیلے کے لوگ وہاں پہاڑی پر ابنیر کے پیچھے جمع ہو کر دوبارہ لڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔ \v 26 ابنیر نے یوآب کو آواز دی، ”کیا یہ ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ تک ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اُتارتے جائیں؟ کیا آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ ایسی حرکتیں صرف تلخی پیدا کرتی ہیں؟ آپ کب اپنے مردوں کو حکم دیں گے کہ وہ اپنے اسرائیلی بھائیوں کا تعاقب کرنے سے باز آئیں؟“ \p \v 27 یوآب نے جواب دیا، ”رب کی حیات کی قَسم، اگر آپ لڑنے کا حکم نہ دیتے تو میرے لوگ آج صبح ہی اپنے بھائیوں کا تعاقب کرنے سے باز آ جاتے۔“ \v 28 اُس نے نرسنگا بجا دیا، اور اُس کے آدمی رُک کر دوسروں کا تعاقب کرنے سے باز آئے۔ یوں لڑائی ختم ہو گئی۔ \p \v 29 اُس پوری رات کے دوران ابنیر اور اُس کے آدمی چلتے گئے۔ دریائے یردن کی وادی میں سے گزر کر اُنہوں نے دریا کو پار کیا اور پھر گہری گھاٹی میں سے ہو کر محنائم پہنچ گئے۔ \p \v 30 یوآب بھی ابنیر اور اُس کے لوگوں کو چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ جب اُس نے اپنے آدمیوں کو جمع کر کے گنا تو معلوم ہوا کہ عساہیل کے علاوہ داؤد کے 19 آدمی مارے گئے ہیں۔ \v 31 اِس کے مقابلے میں ابنیر کے 360 آدمی ہلاک ہوئے تھے۔ سب بن یمین کے قبیلے کے تھے۔ \v 32 یوآب اور اُس کے ساتھیوں نے عساہیل کی لاش اُٹھا کر اُسے بیت لحم میں اُس کے باپ کی قبر میں دفن کیا۔ پھر اُسی رات اپنا سفر جاری رکھ کر وہ پَو پھٹتے وقت حبرون پہنچ گئے۔ \c 3 \p \v 1 ساؤل کے بیٹے اِشبوست اور داؤد کے درمیان یہ جنگ بڑی دیر تک جاری رہی۔ لیکن آہستہ آہستہ داؤد زور پکڑتا گیا جبکہ اِشبوست کی طاقت کم ہوتی گئی۔ \s1 داؤد کا خاندان حبرون میں \p \v 2 حبرون میں داؤد کے بعض بیٹے پیدا ہوئے۔ پہلے کا نام امنون تھا۔ اُس کی ماں اخی نوعم یزرعیلی تھی۔ \v 3 پھر کِلیاب پیدا ہوا جس کی ماں نابال کی بیوہ ابی جیل کرملی تھی۔ تیسرا بیٹا ابی سلوم تھا۔ اُس کی ماں معکہ تھی جو جسور کے بادشاہ تلمی کی بیٹی تھی۔ \v 4 چوتھے کا نام ادونیاہ تھا۔ اُس کی ماں حجیت تھی۔ پانچواں بیٹا صفطیاہ تھا۔ اُس کی ماں ابی طال تھی۔ \v 5 چھٹے کا نام اِترعام تھا۔ اُس کی ماں عِجلہ تھی۔ یہ چھ بیٹے حبرون میں پیدا ہوئے۔ \s1 ابنیر اِشبوست سے جھگڑتا ہے \p \v 6 جتنی دیر تک اِشبوست اور داؤد کے درمیان جنگ رہی، اُتنی دیر تک ابنیر ساؤل کے گھرانے کا وفادار رہا۔ \p \v 7 لیکن ایک دن اِشبوست ابنیر سے ناراض ہوا، کیونکہ وہ ساؤل مرحوم کی ایک داشتہ سے ہم بستر ہو گیا تھا۔ عورت کا نام رِصفہ بنت ایّاہ تھا۔ اِشبوست نے شکایت کی، ”آپ نے میرے باپ کی داشتہ سے ایسا سلوک کیوں کیا؟“ \v 8 ابنیر بڑے غصے میں آ کر گرجا، ”کیا مَیں یہوداہ کا کُتا\f + \fr 3‏:8 \fq کُتا: \ft لفظی ترجمہ: \fqa کُتے کا سر \f* ہوں کہ آپ مجھے ایسا رویہ دکھاتے ہیں؟ آج تک مَیں آپ کے باپ کے گھرانے اور اُس کے رشتے داروں اور دوستوں کے لئے لڑتا رہا ہوں۔ میری ہی وجہ سے آپ اب تک داؤد کے ہاتھ سے بچے رہے ہیں۔ کیا یہ اِس کا معاوضہ ہے؟ کیا ایک ایسی عورت کے سبب سے آپ مجھے مجرم ٹھہرا رہے ہیں؟ \v 9‏-10 اللہ مجھے سخت سزا دے اگر اب سے ہر ممکن کوشش نہ کروں کہ داؤد پورے اسرائیل اور یہوداہ پر بادشاہ بن جائے، شمال میں دان سے لے کر جنوب میں بیرسبع تک۔ آخر رب نے خود قَسم کھا کر داؤد سے وعدہ کیا ہے کہ مَیں بادشاہی ساؤل کے گھرانے سے چھین کر تجھے دوں گا۔“ \p \v 11 یہ سن کر اِشبوست ابنیر سے اِتنا ڈر گیا کہ مزید کچھ کہنے کی جرأت جاتی رہی۔ \s1 ابنیر کے داؤد سے مذاکرات \p \v 12 ابنیر نے داؤد کو پیغام بھیجا، ”ملک کس کا ہے؟ میرے ساتھ معاہدہ کر لیں تو مَیں پورے اسرائیل کو آپ کے ساتھ ملا دوں گا۔“ \p \v 13 داؤد نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے، مَیں آپ کے ساتھ معاہدہ کرتا ہوں۔ لیکن ایک ہی شرط پر، آپ ساؤل کی بیٹی میکل کو جو میری بیوی ہے میرے گھر پہنچائیں، ورنہ مَیں آپ سے نہیں ملوں گا۔“ \v 14 داؤد نے اِشبوست کے پاس بھی قاصد بھیج کر تقاضا کیا، ”مجھے میری بیوی میکل جس سے شادی کرنے کے لئے مَیں نے سَو فلستیوں کو مارا واپس کر دیں۔“ \v 15 اِشبوست مان گیا۔ اُس نے حکم دیا کہ میکل کو اُس کے موجودہ شوہر فلطی ایل بن لَیس سے لے کر داؤد کو بھیجا جائے۔ \v 16 لیکن فلطی ایل اُسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ روتے روتے بحوریم تک اپنی بیوی کے پیچھے چلتا رہا۔ تب ابنیر نے اُس سے کہا، ”اب جاؤ! واپس چلے جاؤ!“ تب وہ واپس چلا۔ \p \v 17 ابنیر نے اسرائیل کے بزرگوں سے بھی بات کی، ”آپ تو کافی دیر سے چاہتے ہیں کہ داؤد آپ کا بادشاہ بن جائے۔ \v 18 اب قدم اُٹھانے کا وقت آ گیا ہے! کیونکہ رب نے داؤد سے وعدہ کیا ہے، ’اپنے خادم داؤد سے مَیں اپنی قوم اسرائیل کو فلستیوں اور باقی تمام دشمنوں کے ہاتھ سے بچاؤں گا‘۔“ \v 19 یہی بات ابنیر نے بن یمین کے بزرگوں کے پاس جا کر بھی کی۔ اِس کے بعد وہ حبرون میں داؤد کے پاس آیا تاکہ اُس کے سامنے اسرائیل اور بن یمین کے بزرگوں کا فیصلہ پیش کرے۔ \p \v 20 بیس آدمی ابنیر کے ساتھ حبرون پہنچ گئے۔ اُن کا استقبال کر کے داؤد نے ضیافت کی۔ \v 21 پھر ابنیر نے داؤد سے کہا، ”اب مجھے اجازت دیں۔ مَیں اپنے آقا اور بادشاہ کے لئے تمام اسرائیل کو جمع کر لوں گا تاکہ وہ آپ کے ساتھ عہد باندھ کر آپ کو اپنا بادشاہ بنا لیں۔ پھر آپ اُس پورے ملک پر حکومت کریں گے جس طرح آپ کا دل چاہتا ہے۔“ پھر داؤد نے ابنیر کو سلامتی سے رُخصت کر دیا۔ \s1 ابنیر کو قتل کیا جاتا ہے \p \v 22 تھوڑی دیر کے بعد یوآب داؤد کے آدمیوں کے ساتھ کسی لڑائی سے واپس آیا۔ اُن کے پاس بہت سا لُوٹا ہوا مال تھا۔ لیکن ابنیر حبرون میں داؤد کے پاس نہیں تھا، کیونکہ داؤد نے اُسے سلامتی سے رُخصت کر دیا تھا۔ \v 23 جب یوآب اپنے آدمیوں کے ساتھ شہر میں داخل ہوا تو اُسے اطلاع دی گئی، ”ابنیر بن نیر بادشاہ کے پاس تھا، اور بادشاہ نے اُسے سلامتی سے رُخصت کر دیا ہے۔“ \v 24 یوآب فوراً بادشاہ کے پاس گیا اور بولا، ”آپ نے یہ کیا کِیا ہے؟ جب ابنیر آپ کے پاس آیا تو آپ نے اُسے کیوں سلامتی سے رُخصت کیا؟ اب اُسے پکڑنے کا موقع جاتا رہا ہے۔ \v 25 آپ تو اُسے جانتے ہیں۔ حقیقت میں وہ اِس لئے آیا کہ آپ کو منوا کر آپ کے آنے جانے اور باقی کاموں کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔“ \p \v 26 یوآب نے دربار سے نکل کر قاصدوں کو ابنیر کے پیچھے بھیج دیا۔ وہ ابھی سفر کرتے کرتے سیرہ کے حوض پر سے گزر رہا تھا کہ قاصد اُس کے پاس پہنچ گئے۔ اُن کی دعوت پر وہ اُن کے ساتھ واپس گیا۔ لیکن بادشاہ کو اِس کا علم نہ تھا۔ \v 27 جب ابنیر دوبارہ حبرون میں داخل ہونے لگا تو یوآب شہر کے دروازے میں اُس کا استقبال کر کے اُسے ایک طرف لے گیا جیسے وہ اُس کے ساتھ کوئی خفیہ بات کرنا چاہتا ہو۔ لیکن اچانک اُس نے اپنی تلوار کو میان سے کھینچ کر ابنیر کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ اِس طرح یوآب نے اپنے بھائی عساہیل کا بدلہ لے کر ابنیر کو مار ڈالا۔ \p \v 28 جب داؤد کو اِس کی اطلاع ملی تو اُس نے اعلان کیا، ”مَیں رب کے سامنے قَسم کھاتا ہوں کہ بےقصور ہوں۔ میرا ابنیر کی موت میں ہاتھ نہیں تھا۔ اِس ناتے سے مجھ پر اور میری بادشاہی پر کبھی بھی الزام نہ لگایا جائے، \v 29 کیونکہ یوآب اور اُس کے باپ کا گھرانا قصوروار ہیں۔ رب اُسے اور اُس کے باپ کے گھرانے کو مناسب سزا دے۔ اب سے ابد تک اُس کی ہر نسل میں کوئی نہ کوئی ہو جسے ایسے زخم لگ جائیں جو بھر نہ پائیں، کسی کو کوڑھ لگ جائے، کسی کو بےساکھیوں کی مدد سے چلنا پڑے، کوئی غیرطبعی موت مر جائے، یا کسی کو خوراک کی مسلسل کمی رہے۔“ \v 30 یوں یوآب اور اُس کے بھائی ابی شے نے اپنے بھائی عساہیل کا بدلہ لیا۔ اُنہوں نے ابنیر کو اِس لئے قتل کیا کہ اُس نے عساہیل کو جِبعون کے قریب لڑتے وقت موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ \s1 داؤد ابنیر کا ماتم کرتا ہے \p \v 31‏-32 داؤد نے یوآب اور اُس کے ساتھیوں کو حکم دیا، ”اپنے کپڑے پھاڑ دو اور ٹاٹ اوڑھ کر ابنیر کا ماتم کرو!“ جنازے کا بندوبست حبرون میں کیا گیا۔ داؤد خود جنازے کے عین پیچھے چلا۔ قبر پر بادشاہ اونچی آواز سے رو پڑا، اور باقی سب لوگ بھی رونے لگے۔ \v 33 پھر داؤد نے ابنیر کے بارے میں ماتمی گیت گایا، \p \v 34 ”ہائے، ابنیر کیوں بےدین کی طرح مارا گیا؟ تیرے ہاتھ بندھے ہوئے نہ تھے، تیرے پاؤں زنجیروں میں جکڑے ہوئے نہ تھے۔ جس طرح کوئی شریروں کے ہاتھ میں آ کر مر جاتا ہے اُسی طرح تُو ہلاک ہوا۔“ \p تب تمام لوگ مزید روئے۔ \v 35 داؤد نے جنازے کے دن روزہ رکھا۔ سب نے منت کی کہ وہ کچھ کھائے، لیکن اُس نے قَسم کھا کر کہا، ”اللہ مجھے سخت سزا دے اگر مَیں سورج کے غروب ہونے سے پہلے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی کھا لوں۔“ \v 36 بادشاہ کا یہ رویہ لوگوں کو بہت پسند آیا۔ ویسے بھی داؤد کا ہر عمل لوگوں کو پسند آتا تھا۔ \v 37 یوں تمام حاضرین بلکہ تمام اسرائیلیوں نے جان لیا کہ بادشاہ کا ابنیر کو قتل کرنے میں ہاتھ نہ تھا۔ \v 38 داؤد نے اپنے درباریوں سے کہا، ”کیا آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ آج اسرائیل کا بڑا سورما فوت ہوا ہے؟ \v 39 مجھے ابھی ابھی مسح کر کے بادشاہ بنایا گیا ہے، اِس لئے میری اِتنی طاقت نہیں کہ ضرویاہ کے اِن دو بیٹوں یوآب اور ابی شے کو کنٹرول کروں۔ رب اُنہیں اُن کی اِس شریر حرکت کی مناسب سزا دے!“ \c 4 \s1 اِشبوست کو قتل کیا جاتا ہے \p \v 1 جب ساؤل کے بیٹے اِشبوست کو اطلاع ملی کہ ابنیر کو حبرون میں قتل کیا گیا ہے تو وہ ہمت ہار گیا، اور تمام اسرائیل سخت گھبرا گیا۔ \v 2 اِشبوست کے دو آدمی تھے جن کے نام بعنہ اور ریکاب تھے۔ جب کبھی اِشبوست کے فوجی چھاپہ مارنے کے لئے نکلتے تو یہ دو بھائی اُن پر مقرر تھے۔ اُن کا باپ رِمّون بن یمین کے قبائلی علاقے کے شہر بیروت کا رہنے والا تھا۔ بیروت بھی بن یمین میں شمار کیا جاتا ہے، \v 3 اگرچہ اُس کے باشندوں کو ہجرت کر کے جِتّیم میں بسنا پڑا جہاں وہ آج تک پردیسی کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ \p \v 4 یونتن کا ایک بیٹا زندہ رہ گیا تھا جس کا نام مفی بوست تھا۔ پانچ سال کی عمر میں یزرعیل سے خبر آئی تھی کہ ساؤل اور یونتن مارے گئے ہیں۔ تب اُس کی آیا اُسے لے کر کہیں پناہ لینے کے لئے بھاگ گئی تھی۔ لیکن جلدی کی وجہ سے مفی بوست گر کر لنگڑا ہو گیا تھا۔ اُس وقت سے اُس کی دونوں ٹانگیں مفلوج تھیں۔ \p \v 5 ایک دن رِمّون بیروتی کے بیٹے ریکاب اور بعنہ دوپہر کے وقت اِشبوست کے گھر گئے۔ گرمی عروج پر تھی، اِس لئے اِشبوست آرام کر رہا تھا۔ \v 6‏-7 دونوں آدمی یہ بہانہ پیش کر کے گھر کے اندرونی کمرے میں گئے کہ ہم کچھ اناج لے جانے کے لئے آئے ہیں۔ جب اِشبوست کے کمرے میں پہنچے تو وہ چارپائی پر لیٹا سو رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اُنہوں نے اُس کے پیٹ میں تلوار گھونپ دی اور پھر اُس کا سر کاٹ کر وہاں سے سلامتی سے نکل آئے۔ \p پوری رات سفر کرتے کرتے وہ دریائے یردن کی وادی میں سے گزر کر \v 8 حبرون پہنچ گئے۔ وہاں اُنہوں نے داؤد کو اِشبوست کا سر دکھا کر کہا، ”یہ دیکھیں، ساؤل کے بیٹے اِشبوست کا سر۔ آپ کا دشمن ساؤل بار بار آپ کو مار دینے کی کوشش کرتا رہا، لیکن آج رب نے اُس سے اور اُس کی اولاد سے آپ کا بدلہ لیا ہے۔“ \s1 داؤد قاتلوں کو سزا دیتا ہے \p \v 9 لیکن داؤد نے جواب دیا، ”رب کی حیات کی قَسم جس نے فدیہ دے کر مجھے ہر مصیبت سے بچایا ہے، \v 10 جس آدمی نے مجھے اُس وقت صِقلاج میں ساؤل کی موت کی اطلاع دی وہ بھی سمجھتا تھا کہ مَیں داؤد کو اچھی خبر پہنچا رہا ہوں۔ لیکن مَیں نے اُسے پکڑ کر سزائے موت دے دی۔ یہی تھا وہ اجر جو اُسے ایسی خبر پہنچانے کے عوض ملا! \v 11 اب تم شریر لوگوں نے اِس سے بڑھ کر کیا۔ تم نے بےقصور آدمی کو اُس کے اپنے گھر میں اُس کی اپنی چارپائی پر قتل کر دیا ہے۔ تو کیا میرا فرض نہیں کہ تم کو اِس قتل کی سزا دے کر تمہیں ملک میں سے مٹا دوں؟“ \p \v 12 داؤد نے دونوں کو مار دینے کا حکم دیا۔ اُس کے ملازموں نے اُنہیں مار کر اُن کے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹ ڈالا اور اُن کی لاشوں کو حبرون کے تالاب کے قریب کہیں لٹکا دیا۔ اِشبوست کے سر کو اُنہوں نے ابنیر کی قبر میں دفنایا۔ \c 5 \s1 داؤد پورے اسرائیل کا بادشاہ بن جاتا ہے \p \v 1 اُس وقت اسرائیل کے تمام قبیلے حبرون میں داؤد کے پاس آئے اور کہا، ”ہم آپ ہی کی قوم اور آپ ہی کے رشتے دار ہیں۔ \v 2 ماضی میں بھی جب ساؤل بادشاہ تھا تو آپ ہی فوجی مہموں میں اسرائیل کی قیادت کرتے رہے۔ اور رب نے آپ سے وعدہ بھی کیا ہے کہ تُو میری قوم اسرائیل کا چرواہا بن کر اُس پر حکومت کرے گا۔“ \v 3 جب اسرائیل کے تمام بزرگ حبرون پہنچے تو داؤد بادشاہ نے رب کے حضور اُن کے ساتھ عہد باندھا، اور اُنہوں نے اُسے مسح کر کے اسرائیل کا بادشاہ بنا دیا۔ \p \v 4 داؤد 30 سال کی عمر میں بادشاہ بن گیا۔ اُس کی حکومت 40 سال تک جاری رہی۔ \v 5 پہلے ساڑھے سات سال وہ صرف یہوداہ کا بادشاہ تھا اور اُس کا دار الحکومت حبرون رہا۔ باقی 33 سال وہ یروشلم میں رہ کر یہوداہ اور اسرائیل دونوں پر حکومت کرتا رہا۔ \s1 داؤد یروشلم پر قبضہ کرتا ہے \p \v 6 بادشاہ بننے کے بعد داؤد اپنے فوجیوں کے ساتھ یروشلم گیا تاکہ اُس پر حملہ کرے۔ وہاں اب تک یبوسی آباد تھے۔ داؤد کو دیکھ کر یبوسیوں نے اُس کا مذاق اُڑایا، ”آپ ہمارے شہر میں کبھی داخل نہیں ہو پائیں گے! آپ کو روکنے کے لئے ہمارے لنگڑے اور اندھے کافی ہیں۔“ اُنہیں پورا یقین تھا کہ داؤد شہر میں کسی بھی طریقے سے نہیں آ سکے گا۔ \p \v 7 توبھی داؤد نے صیون کے قلعے پر قبضہ کر لیا جو آج کل ’داؤد کا شہر‘ کہلاتا ہے۔ \v 8 جس دن اُنہوں نے شہر پر حملہ کیا اُس نے اعلان کیا، ”جو بھی یبوسیوں پر فتح پانا چاہے اُسے پانی کی سرنگ میں سے گزر کر شہر میں گھسنا پڑے گا تاکہ اُن لنگڑوں اور اندھوں کو مارے جن سے میری جان نفرت کرتی ہے۔“ اِس لئے آج تک کہا جاتا ہے، ”لنگڑوں اور اندھوں کو گھر میں جانے کی اجازت نہیں۔“ \p \v 9 یروشلم پر فتح پانے کے بعد داؤد قلعے میں رہنے لگا۔ اُس نے اُسے ’داؤد کا شہر‘ قرار دیا اور اُس کے ارد گرد شہر کو بڑھانے لگا۔ یہ تعمیری کام ارد گرد کے چبوتروں سے شروع ہوا اور ہوتے ہوتے قلعے تک پہنچ گیا۔ \p \v 10 یوں داؤد زور پکڑتا گیا، کیونکہ رب الافواج اُس کے ساتھ تھا۔ \s1 داؤد کی ترقی \p \v 11 ایک دن صور کے بادشاہ حیرام نے داؤد کے پاس وفد بھیجا۔ بڑھئی اور راج بھی ساتھ تھے۔ اُن کے پاس دیودار کی لکڑی تھی، اور اُنہوں نے داؤد کے لئے محل بنا دیا۔ \v 12 یوں داؤد نے جان لیا کہ رب نے مجھے اسرائیل کا بادشاہ بنا کر میری بادشاہی اپنی قوم اسرائیل کی خاطر سرفراز کر دی ہے۔ \p \v 13 حبرون سے یروشلم میں منتقل ہونے کے بعد داؤد نے مزید بیویوں اور داشتاؤں سے شادی کی۔ نتیجے میں یروشلم میں اُس کے کئی بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے۔ \v 14 جو بیٹے وہاں پیدا ہوئے وہ یہ تھے: سموع، سوباب، ناتن، سلیمان، \v 15 اِبحار، اِلی سوع، نفج، یفیع، \v 16 اِلی سمع، اِلیَدع اور اِلی فلط۔ \s1 فلستیوں پر فتح \p \v 17 جب فلستیوں کو اطلاع ملی کہ داؤد کو مسح کر کے اسرائیل کا بادشاہ بنایا گیا ہے تو اُنہوں نے اپنے فوجیوں کو اسرائیل میں بھیج دیا تاکہ اُسے پکڑ لیں۔ لیکن داؤد کو پتا چل گیا، اور اُس نے ایک پہاڑی قلعے میں پناہ لے لی۔ \p \v 18 جب فلستی اسرائیل میں پہنچ کر وادیٔ رفائیم میں پھیل گئے \v 19 تو داؤد نے رب سے دریافت کیا، ”کیا مَیں فلستیوں پر حملہ کروں؟ کیا تُو مجھے اُن پر فتح بخشے گا؟“ رب نے جواب دیا، ”ہاں، اُن پر حملہ کر! مَیں اُنہیں ضرور تیرے قبضے میں کر دوں گا۔“ \v 20 چنانچہ داؤد اپنے فوجیوں کو لے کر بعل پراضیم گیا۔ وہاں اُس نے فلستیوں کو شکست دی۔ بعد میں اُس نے گواہی دی، ”جتنے زور سے بند کے ٹوٹ جانے پر پانی اُس سے پھوٹ نکلتا ہے اُتنے زور سے آج رب میرے دیکھتے دیکھتے دشمن کی صفوں میں سے پھوٹ نکلا ہے۔“ چنانچہ اُس جگہ کا نام بعل پراضیم یعنی ’پھوٹ نکلنے کا مالک‘ پڑ گیا۔ \v 21 فلستی اپنے بُت چھوڑ کر بھاگ گئے، اور وہ داؤد اور اُس کے آدمیوں کے قبضے میں آ گئے۔ \p \v 22 ایک بار پھر فلستی آ کر وادیٔ رفائیم میں پھیل گئے۔ \v 23 جب داؤد نے رب سے دریافت کیا تو اُس نے جواب دیا، ”اِس مرتبہ اُن کا سامنا مت کرنا بلکہ اُن کے پیچھے جا کر بکا کے درختوں کے سامنے اُن پر حملہ کر۔ \v 24 جب اُن درختوں کی چوٹیوں سے قدموں کی چاپ سنائی دے تو خبردار! یہ اِس کا اشارہ ہو گا کہ رب خود تیرے آگے آگے چل کر فلستیوں کو مارنے کے لئے نکل آیا ہے۔“ \p \v 25 داؤد نے ایسا ہی کیا اور نتیجے میں فلستیوں کو شکست دے کر جِبعون سے لے کر جزر تک اُن کا تعاقب کیا۔ \c 6 \s1 داؤد عہد کا صندوق یروشلم میں لے آتا ہے \p \v 1 ایک بار پھر داؤد نے اسرائیل کے چنیدہ آدمیوں کو جمع کیا۔ 30,000 افراد تھے۔ \v 2 اُن کے ساتھ مل کر وہ یہوداہ کے بعلہ پہنچ گیا تاکہ اللہ کا صندوق اُٹھا کر یروشلم لے جائیں، وہی صندوق جس پر رب الافواج کے نام کا ٹھپا لگا ہے اور جہاں وہ صندوق کے اوپر کروبی فرشتوں کے درمیان تخت نشین ہے۔ \v 3‏-4 لوگوں نے اللہ کے صندوق کو پہاڑی پر واقع ابی نداب کے گھر سے نکال کر ایک نئی بَیل گاڑی پر رکھ دیا، اور ابی نداب کے دو بیٹے عُزّہ اور اخیو اُسے یروشلم کی طرف لے جانے لگے۔ اخیو گاڑی کے آگے آگے \v 5 اور داؤد باقی تمام لوگوں کے ساتھ پیچھے چل رہا تھا۔ سب رب کے حضور پورے زور سے خوشی منانے اور گیت گانے لگے۔ مختلف ساز بھی بجائے جا رہے تھے۔ فضا ستاروں، سرودوں، دفوں، خنجریوں\f + \fr 6‏:5 \fk خنجریوں: \ft عبرانی میں اِس سے مراد جُھنجُھنے جیسا کوئی ساز ہے۔ \f* اور جھانجھوں کی آوازوں سے گونج اُٹھی۔ \p \v 6 وہ گندم گاہنے کی ایک جگہ پر پہنچ گئے جس کے مالک کا نام نکون تھا۔ وہاں بَیل اچانک بےقابو ہو گئے۔ عُزّہ نے جلدی سے اللہ کا صندوق پکڑ لیا تاکہ وہ گر نہ جائے۔ \v 7 اُسی لمحے رب کا غضب اُس پر نازل ہوا، کیونکہ اُس نے اللہ کے صندوق کو چھونے کی جرأت کی تھی۔ وہیں اللہ کے صندوق کے پاس ہی عُزّہ گر کر ہلاک ہو گیا۔ \v 8 داؤد کو بڑا رنج ہوا کہ رب کا غضب عُزّہ پر یوں ٹوٹ پڑا ہے۔ اُس وقت سے اُس جگہ کا نام پرض عُزّہ یعنی ’عُزّہ پر ٹوٹ پڑنا‘ ہے۔ \p \v 9 اُس دن داؤد کو رب سے خوف آیا۔ اُس نے سوچا، ”رب کا صندوق کس طرح میرے پاس پہنچ سکے گا؟“ \v 10 چنانچہ اُس نے فیصلہ کیا کہ ہم رب کا صندوق یروشلم نہیں لے جائیں گے بلکہ اُسے عوبید ادوم جاتی کے گھر میں محفوظ رکھیں گے۔ \v 11 وہاں وہ تین ماہ تک پڑا رہا۔ \p اِن تین مہینوں کے دوران رب نے عوبید ادوم اور اُس کے پورے گھرانے کو برکت دی۔ \v 12 ایک دن داؤد کو اطلاع دی گئی، ”جب سے اللہ کا صندوق عوبید ادوم کے گھر میں ہے اُس وقت سے رب نے اُس کے گھرانے اور اُس کی پوری ملکیت کو برکت دی ہے۔“ یہ سن کر داؤد عوبید ادوم کے گھر گیا اور خوشی مناتے ہوئے اللہ کے صندوق کو داؤد کے شہر لے آیا۔ \v 13 چھ قدموں کے بعد داؤد نے رب کا صندوق اُٹھانے والوں کو روک کر ایک سانڈ اور ایک موٹا تازہ بچھڑا قربان کیا۔ \v 14 جب جلوس آگے نکلا تو داؤد پورے زور کے ساتھ رب کے حضور ناچنے لگا۔ وہ کتان کا بالاپوش پہنے ہوئے تھا۔ \v 15 خوشی کے نعرے لگا لگا کر اور نرسنگے پھونک پھونک کر داؤد اور تمام اسرائیلی رب کا صندوق یروشلم لے آئے۔ \p \v 16 رب کا صندوق داؤد کے شہر میں داخل ہوا تو داؤد کی بیوی میکل بنت ساؤل کھڑکی میں سے جلوس کو دیکھ رہی تھی۔ جب بادشاہ رب کے حضور کودتا اور ناچتا ہوا نظر آیا تو میکل نے دل میں اُسے حقیر جانا۔ \p \v 17 رب کا صندوق اُس تنبو کے درمیان میں رکھا گیا جو داؤد نے اُس کے لئے لگوایا تھا۔ پھر داؤد نے رب کے حضور بھسم ہونے والی اور سلامتی کی قربانیاں پیش کیں۔ \v 18 اِس کے بعد اُس نے قوم کو رب الافواج کے نام سے برکت دے کر \v 19 ہر اسرائیلی مرد اور عورت کو ایک روٹی، کھجور کی ایک ٹکی اور کشمش کی ایک ٹکی دے دی۔ پھر تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ \p \v 20 داؤد بھی اپنے گھر لوٹا تاکہ اپنے خاندان کو برکت دے کر سلام کرے۔ وہ ابھی محل کے اندر نہیں پہنچا تھا کہ میکل نکل کر اُس سے ملنے آئی۔ اُس نے طنزاً کہا، ”واہ جی واہ۔ آج اسرائیل کا بادشاہ کتنی شان کے ساتھ لوگوں کو نظر آیا ہے! اپنے لوگوں کی لونڈیوں کے سامنے ہی اُس نے اپنے کپڑے اُتار دیئے، بالکل اُسی طرح جس طرح گنوار کرتے ہیں۔“ \v 21 داؤد نے جواب دیا، ”مَیں رب ہی کے حضور ناچ رہا تھا، جس نے آپ کے باپ اور اُس کے خاندان کو ترک کر کے مجھے چن لیا اور اسرائیل کا بادشاہ بنا دیا ہے۔ اُسی کی تعظیم میں مَیں آئندہ بھی ناچوں گا۔ \v 22 ہاں، مَیں اِس سے بھی زیادہ ذلیل ہونے کے لئے تیار ہوں۔ جہاں تک لونڈیوں کا تعلق ہے، وہ ضرور میری عزت کریں گی۔“ \p \v 23 جیتے جی میکل بےاولاد رہی۔ \c 7 \s1 رب داؤد سے ابدی بادشاہی کا وعدہ کرتا ہے \p \v 1 داؤد بادشاہ سکون سے اپنے محل میں رہنے لگا، کیونکہ رب نے ارد گرد کے دشمنوں کو اُس پر حملہ کرنے سے روک دیا تھا۔ \v 2 ایک دن داؤد نے ناتن نبی سے بات کی، ”دیکھیں، مَیں یہاں دیودار کے محل میں رہتا ہوں جبکہ اللہ کا صندوق اب تک تنبو میں پڑا ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے!“ \p \v 3 ناتن نے بادشاہ کی حوصلہ افزائی کی، ”جو کچھ بھی آپ کرنا چاہتے ہیں وہ کریں۔ رب آپ کے ساتھ ہے۔“ \p \v 4 لیکن اُسی رات رب ناتن سے ہم کلام ہوا، \v 5 ”میرے خادم داؤد کے پاس جا کر اُسے بتا دے کہ رب فرماتا ہے، ’کیا تُو میری رہائش کے لئے مکان تعمیر کرے گا؟ ہرگز نہیں! \v 6 آج تک مَیں کسی مکان میں نہیں رہا۔ جب سے مَیں اسرائیلیوں کو مصر سے نکال لایا اُس وقت سے مَیں خیمے میں رہ کر جگہ بہ جگہ پھرتا رہا ہوں۔ \v 7 جس دوران مَیں تمام اسرائیلیوں کے ساتھ اِدھر اُدھر پھرتا رہا کیا مَیں نے اسرائیل کے اُن راہنماؤں سے کبھی اِس ناتے سے شکایت کی جنہیں مَیں نے اپنی قوم کی گلہ بانی کرنے کا حکم دیا تھا؟ کیا مَیں نے اُن میں سے کسی سے کہا کہ تم نے میرے لئے دیودار کا گھر کیوں نہیں بنایا؟‘ \p \v 8 چنانچہ میرے خادم داؤد کو بتا دے، ’رب الافواج فرماتا ہے کہ مَیں ہی نے تجھے چراگاہ میں بھیڑوں کی گلہ بانی کرنے سے فارغ کر کے اپنی قوم اسرائیل کا بادشاہ بنا دیا ہے۔ \v 9 جہاں بھی تُو نے قدم رکھا وہاں مَیں تیرے ساتھ رہا ہوں۔ تیرے دیکھتے دیکھتے مَیں نے تیرے تمام دشمنوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اب مَیں تیرا نام سرفراز کر دوں گا، وہ دنیا کے سب سے عظیم آدمیوں کے ناموں کے برابر ہی ہو گا۔ \v 10 اور مَیں اپنی قوم اسرائیل کے لئے ایک وطن مہیا کروں گا، پودے کی طرح اُنہیں یوں لگا دوں گا کہ وہ جڑ پکڑ کر محفوظ رہیں گے اور کبھی بےچین نہیں ہوں گے۔ بےدین قومیں اُنہیں اُس طرح نہیں دبائیں گی جس طرح ماضی میں کیا کرتی تھیں، \v 11 اُس وقت سے جب مَیں قوم پر قاضی مقرر کرتا تھا۔ مَیں تیرے دشمنوں کو تجھ سے دُور رکھ کر تجھے امن و امان عطا کروں گا۔ آج رب فرماتا ہے کہ مَیں ہی تیرے لئے گھر بناؤں گا۔ \p \v 12 جب تُو بوڑھا ہو کر کوچ کر جائے گا اور اپنے باپ دادا کے ساتھ آرام کرے گا تو مَیں تیری جگہ تیرے بیٹوں میں سے ایک کو تخت پر بٹھا دوں گا۔ اُس کی بادشاہی کو مَیں مضبوط بنا دوں گا۔ \v 13 وہی میرے نام کے لئے گھر تعمیر کرے گا، اور مَیں اُس کی بادشاہی کا تخت ابد تک قائم رکھوں گا۔ \v 14 مَیں اُس کا باپ ہوں گا، اور وہ میرا بیٹا ہو گا۔ جب کبھی اُس سے غلطی ہو گی تو مَیں اُسے یوں چھڑی سے سزا دوں گا جس طرح انسانی باپ اپنے بیٹے کی تربیت کرتا ہے۔ \v 15 لیکن میری نظرِ کرم کبھی اُس سے نہیں ہٹے گی۔ اُس کے ساتھ مَیں وہ سلوک نہیں کروں گا جو مَیں نے ساؤل کے ساتھ کیا جب اُسے تیرے سامنے سے ہٹا دیا۔ \v 16 تیرا گھرانا اور تیری بادشاہی ہمیشہ میرے حضور قائم رہے گی، تیرا تخت ہمیشہ مضبوط رہے گا‘۔“ \s1 داؤد کی شکرگزاری \p \v 17 ناتن نے داؤد کے پاس جا کر اُسے سب کچھ سنایا جو رب نے اُسے رویا میں بتایا تھا۔ \v 18 تب داؤد عہد کے صندوق کے پاس گیا اور رب کے حضور بیٹھ کر دعا کرنے لگا، \p ”اے رب قادرِ مطلق، مَیں کون ہوں اور میرا خاندان کیا حیثیت رکھتا ہے کہ تُو نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے؟ \v 19 اور اب اے رب قادرِ مطلق، تُو مجھے اَور بھی زیادہ عطا کرنے کو ہے، کیونکہ تُو نے اپنے خادم کے گھرانے کے مستقبل کے بارے میں بھی وعدہ کیا ہے۔ کیا تُو عام طور پر انسان کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے؟ ہرگز نہیں! \v 20 لیکن مَیں مزید کیا کہوں؟ اے رب قادرِ مطلق، تُو تو اپنے خادم کو جانتا ہے۔ \v 21 تُو نے اپنے فرمان کی خاطر اور اپنی مرضی کے مطابق یہ عظیم کام کر کے اپنے خادم کو اطلاع دی ہے۔ \p \v 22 اے رب قادرِ مطلق، تُو کتنا عظیم ہے! تجھ جیسا کوئی نہیں ہے۔ ہم نے اپنے کانوں سے سن لیا ہے کہ تیرے سوا کوئی اَور خدا نہیں ہے۔ \v 23 دنیا میں کون سی قوم تیری اُمّت اسرائیل کی مانند ہے؟ تُو نے اِسی ایک قوم کا فدیہ دے کر اُسے غلامی سے چھڑایا اور اپنی قوم بنا لیا۔ تُو نے اسرائیل کے واسطے بڑے اور ہیبت ناک کام کر کے اپنے نام کی شہرت پھیلا دی۔ ہمیں مصر سے رِہا کر کے تُو نے قوموں اور اُن کے دیوتاؤں کو ہمارے آگے سے نکال دیا۔ \v 24 اے رب، تُو اسرائیل کو ہمیشہ کے لئے اپنی قوم بنا کر اُن کا خدا بن گیا ہے۔ \v 25 چنانچہ اے رب قادرِ مطلق، جو بات تُو نے اپنے خادم اور اُس کے گھرانے کے بارے میں کی ہے اُسے ابد تک قائم رکھ اور اپنا وعدہ پورا کر۔ \v 26 تب تیرا نام ابد تک مشہور رہے گا اور لوگ تسلیم کریں گے کہ رب الافواج اسرائیل کا خدا ہے۔ پھر تیرے خادم داؤد کا گھرانا بھی تیرے حضور قائم رہے گا۔ \p \v 27 اے رب الافواج، اسرائیل کے خدا، تُو نے اپنے خادم کے کان کو اِس بات کے لئے کھول دیا ہے۔ تُو ہی نے فرمایا، ’مَیں تیرے لئے گھر تعمیر کروں گا۔‘ صرف اِسی لئے تیرے خادم نے یوں تجھ سے دعا کرنے کی جرأت کی ہے۔ \v 28 اے رب قادرِ مطلق، تُو ہی خدا ہے، اور تیری ہی باتوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ تُو نے اپنے خادم سے اِن اچھی چیزوں کا وعدہ کیا ہے۔ \v 29 اب اپنے خادم کے گھرانے کو برکت دینے پر راضی ہو تاکہ وہ ہمیشہ تک تیرے حضور قائم رہے۔ کیونکہ تُو ہی نے یہ فرمایا ہے، اور چونکہ تُو اے رب قادرِ مطلق نے برکت دی ہے اِس لئے تیرے خادم کا گھرانا ابد تک مبارک رہے گا۔“ \c 8 \s1 داؤد کی جنگیں \p \v 1 پھر ایسا وقت آیا کہ داؤد نے فلستیوں کو شکست دے کر اُنہیں اپنے تابع کر لیا اور حکومت کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں سے چھین لی۔ \p \v 2 اُس نے موآبیوں پر بھی فتح پائی۔ موآبی قیدیوں کی قطار بنا کر اُس نے اُنہیں زمین پر لٹا دیا۔ پھر رسّی کا ٹکڑا لے کر اُس نے قطار کا ناپ لیا۔ جتنے لوگ رسّی کی لمبائی میں آ گئے وہ ایک گروہ بن گئے۔ یوں داؤد نے لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کیا۔ پھر اُس نے گروہوں کے تین حصے بنا کر دو حصوں کے سر قلم کئے اور ایک حصے کو زندہ چھوڑ دیا۔ لیکن جتنے قیدی چھوٹ گئے وہ داؤد کے تابع رہ کر اُسے خراج دیتے رہے۔ \p \v 3 داؤد نے شمالی شام کے شہر ضوباہ کے بادشاہ ہدد عزر بن رحوب کو بھی ہرا دیا جب ہدد عزر دریائے فرات پر دوبارہ قابو پانے کے لئے نکل آیا تھا۔ \v 4 داؤد نے 1,700 گھڑسواروں اور 20,000 پیادہ سپاہیوں کو گرفتار کر لیا۔ رتھوں کے 100 گھوڑوں کو اُس نے اپنے لئے محفوظ رکھا، جبکہ باقیوں کی اُس نے کونچیں کاٹ دیں تاکہ وہ آئندہ جنگ کے لئے استعمال نہ ہو سکیں۔ \p \v 5 جب دمشق کے اَرامی باشندے ضوباہ کے بادشاہ ہدد عزر کی مدد کرنے آئے تو داؤد نے اُن کے 22,000 افراد ہلاک کر دیئے۔ \v 6 پھر اُس نے دمشق کے علاقے میں اپنی فوجی چوکیاں قائم کیں۔ اَرامی اُس کے تابع ہو گئے اور اُسے خراج دیتے رہے۔ جہاں بھی داؤد گیا وہاں رب نے اُسے کامیابی بخشی۔ \v 7 سونے کی جو ڈھالیں ہدد عزر کے افسروں کے پاس تھیں اُنہیں داؤد یروشلم لے گیا۔ \v 8 ہدد عزر کے دو شہروں بطاہ اور بیروتی سے اُس نے کثرت کا پیتل چھین لیا۔ \p \v 9 جب حمات کے بادشاہ تُوعی کو اطلاع ملی کہ داؤد نے ہدد عزر کی پوری فوج پر فتح پائی ہے \v 10 تو اُس نے اپنے بیٹے یورام کو داؤد کے پاس بھیجا تاکہ اُسے سلام کہے۔ یورام نے داؤد کو ہدد عزر پر فتح کے لئے مبارک باد دی، کیونکہ ہدد عزر تُوعی کا دشمن تھا، اور اُن کے درمیان جنگ رہی تھی۔ یورام نے داؤد کو سونے، چاندی اور پیتل کے تحفے بھی پیش کئے۔ \v 11 داؤد نے یہ چیزیں رب کے لئے مخصوص کر دیں۔ جہاں بھی وہ دوسری قوموں پر غالب آیا وہاں کی سونا چاندی اُس نے رب کے لئے مخصوص کر دی۔ \v 12 یوں ادوم، موآب، عمون، فلستیہ، عمالیق اور ضوباہ کے بادشاہ ہدد عزر بن رحوب کی سونا چاندی رب کو پیش کی گئی۔ \p \v 13 جب داؤد نے نمک کی وادی میں ادومیوں پر فتح پائی تو اُس کی شہرت مزید پھیل گئی۔ اُس جنگ میں دشمن کے 18,000 افراد ہلاک ہوئے۔ \v 14 داؤد نے ادوم کے پورے ملک میں اپنی فوجی چوکیاں قائم کیں، اور تمام ادومی داؤد کے تابع ہو گئے۔ داؤد جہاں بھی جاتا رب اُس کی مدد کر کے اُسے فتح بخشتا۔ \s1 داؤد کے اعلیٰ افسر \p \v 15 جتنی دیر داؤد پورے اسرائیل پر حکومت کرتا رہا اُتنی دیر تک اُس نے دھیان دیا کہ قوم کے ہر ایک شخص کو انصاف مل جائے۔ \v 16 یوآب بن ضرویاہ فوج پر مقرر تھا۔ یہوسفط بن اخی لُود بادشاہ کا مشیرِ خاص تھا۔ \v 17 صدوق بن اخی طوب اور اخی مَلِک بن ابیاتر امام تھے۔ سرایاہ میرمنشی تھا۔ \v 18 بِنایاہ بن یہویدع داؤد کے خاص دستے بنام کریتی و فلیتی کا کپتان تھا۔ داؤد کے بیٹے امام تھے۔ \c 9 \s1 داؤد یونتن کے بیٹے پر مہربانی کرتا ہے \p \v 1 ایک دن داؤد پوچھنے لگا، ”کیا ساؤل کے خاندان کا کوئی فرد بچ گیا ہے؟ مَیں یونتن کی خاطر اُس پر اپنی مہربانی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔“ \p \v 2 ایک آدمی کو بُلایا گیا جو ساؤل کے گھرانے کا ملازم تھا۔ اُس کا نام ضیبا تھا۔ داؤد نے سوال کیا، ”کیا آپ ضیبا ہیں؟“ ضیبا نے جواب دیا، ”جی، آپ کا خادم حاضر ہے۔“ \v 3 بادشاہ نے دریافت کیا، ”کیا ساؤل کے خاندان کا کوئی فرد زندہ رہ گیا ہے؟ مَیں اُس پر اللہ کی مہربانی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔“ ضیبا نے کہا، ”یونتن کا ایک بیٹا اب تک زندہ ہے۔ وہ دونوں ٹانگوں سے مفلوج ہے۔“ \v 4 داؤد نے پوچھا، ”وہ کہاں ہے؟“ ضیبا نے جواب دیا، ”وہ لو دبار میں مکیر بن عمی ایل کے ہاں رہتا ہے۔“ \v 5 داؤد نے اُسے فوراً دربار میں بُلا لیا۔ \p \v 6 یونتن کے جس بیٹے کا ذکر ضیبا نے کیا وہ مفی بوست تھا۔ جب اُسے داؤد کے سامنے لایا گیا تو اُس نے منہ کے بل جھک کر اُس کی عزت کی۔ داؤد نے کہا، ”مفی بوست!“ اُس نے جواب دیا، ”جی، آپ کا خادم حاضر ہے۔“ \v 7 داؤد بولا، ”ڈریں مت۔ آج مَیں آپ کے باپ یونتن کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کر کے آپ پر اپنی مہربانی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اب سنیں! مَیں آپ کو آپ کے دادا ساؤل کی تمام زمینیں واپس کر دیتا ہوں۔ اِس کے علاوہ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ روزانہ میرے ساتھ کھانا کھایا کریں۔“ \p \v 8 مفی بوست نے دوبارہ جھک کر بادشاہ کی تعظیم کی، ”مَیں کون ہوں کہ آپ مجھ جیسے مُردہ کُتے پر دھیان دے کر ایسی مہربانی فرمائیں!“ \v 9 داؤد نے ساؤل کے پرانے ملازم ضیبا کو بُلا کر اُسے ہدایت دی، ”مَیں نے آپ کے مالک کے پوتے کو ساؤل اور اُس کے خاندان کی تمام ملکیت دے دی ہے۔ \v 10 اب آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اپنے بیٹوں اور نوکروں کے ساتھ اُس کے کھیتوں کو سنبھالیں تاکہ اُس کا خاندان زمینوں کی پیداوار سے گزارہ کر سکے۔ لیکن مفی بوست خود یہاں رہ کر میرے بیٹوں کی طرح میرے ساتھ کھانا کھایا کرے گا۔“ (ضیبا کے 15 بیٹے اور 20 نوکر تھے)۔ \p \v 11 ضیبا نے جواب دیا، ”مَیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ جو بھی حکم آپ دیں گے مَیں کرنے کے لئے تیار ہوں۔“ \v 12‏-13 اُس دن سے ضیبا کے گھرانے کے تمام افراد مفی بوست کے ملازم ہو گئے۔ مفی بوست خود جو دونوں ٹانگوں سے مفلوج تھا یروشلم میں رہائش پذیر ہوا اور روزانہ داؤد بادشاہ کے ساتھ کھانا کھاتا رہا۔ اُس کا ایک چھوٹا بیٹا تھا جس کا نام میکا تھا۔ \c 10 \s1 عمونی داؤد کی بےعزتی کرتے ہیں \p \v 1 کچھ دیر کے بعد عمونیوں کا بادشاہ فوت ہوا، اور اُس کا بیٹا حنون تخت نشین ہوا۔ \v 2 داؤد نے سوچا، ”ناحس نے ہمیشہ مجھ پر مہربانی کی تھی، اِس لئے اب مَیں بھی اُس کے بیٹے حنون پر مہربانی کروں گا۔“ اُس نے باپ کی وفات کا افسوس کرنے کے لئے حنون کے پاس وفد بھیجا۔ \p لیکن جب داؤد کے سفیر عمونیوں کے دربار میں پہنچ گئے \v 3 تو اُس ملک کے بزرگ حنون بادشاہ کے کان میں منفی باتیں بھرنے لگے، ”کیا داؤد نے اِن آدمیوں کو واقعی صرف اِس لئے بھیجا ہے کہ وہ افسوس کر کے آپ کے باپ کا احترام کریں؟ ہرگز نہیں! یہ صرف بہانہ ہے۔ اصل میں یہ جاسوس ہیں جو ہمارے دار الحکومت کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اُس پر قبضہ کر سکیں۔“ \v 4 چنانچہ حنون نے داؤد کے آدمیوں کو پکڑوا کر اُن کی داڑھیوں کا آدھا حصہ منڈوا دیا اور اُن کے لباس کو کمر سے لے کر پاؤں تک کاٹ کر اُتروایا۔ اِسی حالت میں بادشاہ نے اُنہیں فارغ کر دیا۔ \p \v 5 جب داؤد کو اِس کی خبر ملی تو اُس نے اپنے قاصدوں کو اُن سے ملنے کے لئے بھیجا تاکہ اُنہیں بتائیں، ”یریحو میں اُس وقت تک ٹھہرے رہیں جب تک آپ کی داڑھیاں دوبارہ بحال نہ ہو جائیں۔“ کیونکہ وہ اپنی داڑھیوں کی وجہ سے بڑی شرمندگی محسوس کر رہے تھے۔ \s1 عمونیوں سے جنگ \p \v 6 عمونیوں کو خوب معلوم تھا کہ اِس حرکت سے ہم داؤد کے دشمن بن گئے ہیں۔ اِس لئے اُنہوں نے کرائے پر کئی جگہوں سے فوجی طلب کئے۔ بیت رحوب اور ضوباہ کے 20,000 اَرامی پیادہ سپاہی، معکہ کا بادشاہ 1,000 فوجیوں سمیت اور ملکِ طوب کے 12,000 سپاہی اُن کی مدد کرنے آئے۔ \v 7 جب داؤد کو اِس کا علم ہوا تو اُس نے یوآب کو پوری فوج کے ساتھ اُن کا مقابلہ کرنے کے لئے بھیج دیا۔ \v 8 عمونی اپنے دار الحکومت ربّہ سے نکل کر شہر کے دروازے کے سامنے ہی صف آرا ہوئے جبکہ اُن کے اَرامی اتحادی ضوباہ اور رحوب ملکِ طوب اور معکہ کے مردوں سمیت کچھ فاصلے پر کھلے میدان میں کھڑے ہو گئے۔ \p \v 9 جب یوآب نے جان لیا کہ سامنے اور پیچھے دونوں طرف سے حملے کا خطرہ ہے تو اُس نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ سب سے اچھے فوجیوں کے ساتھ وہ خود شام کے سپاہیوں سے لڑنے کے لئے تیار ہوا۔ \v 10 باقی آدمیوں کو اُس نے اپنے بھائی ابی شے کے حوالے کر دیا تاکہ وہ عمونیوں سے لڑیں۔ \v 11 ایک دوسرے سے الگ ہونے سے پہلے یوآب نے ابی شے سے کہا، ”اگر شام کے فوجی مجھ پر غالب آنے لگیں تو میرے پاس آ کر میری مدد کرنا۔ لیکن اگر آپ عمونیوں پر قابو نہ پا سکیں تو مَیں آ کر آپ کی مدد کروں گا۔ \v 12 حوصلہ رکھیں! ہم دلیری سے اپنی قوم اور اپنے خدا کے شہروں کے لئے لڑیں۔ اور رب وہ کچھ ہونے دے جو اُس کی نظر میں ٹھیک ہے۔“ \p \v 13 یوآب نے اپنی فوج کے ساتھ شام کے فوجیوں پر حملہ کیا تو وہ اُس کے سامنے سے بھاگنے لگے۔ \v 14 یہ دیکھ کر عمونی ابی شے سے فرار ہو کر شہر میں داخل ہوئے۔ پھر یوآب عمونیوں سے لڑنے سے باز آیا اور یروشلم واپس چلا گیا۔ \s1 شام کے خلاف جنگ \p \v 15 جب شام کے فوجیوں کو شکست کی بےعزتی کا احساس ہوا تو وہ دوبارہ جمع ہو گئے۔ \v 16 ہدد عزر نے دریائے فرات کے پار مسوپتامیہ میں آباد اَرامیوں کو بُلایا تاکہ وہ اُس کی مدد کریں۔ پھر سب حلام پہنچ گئے۔ ہدد عزر کی فوج پر مقرر افسر سوبک اُن کی راہنمائی کر رہا تھا۔ \v 17 جب داؤد کو خبر ملی تو اُس نے اسرائیل کے تمام لڑنے کے قابل آدمیوں کو جمع کیا اور دریائے یردن کو پار کر کے حلام پہنچ گیا۔ شام کے فوجی صف آرا ہو کر اسرائیلیوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ \v 18 لیکن اُنہیں دوبارہ شکست مان کر فرار ہونا پڑا۔ اِس دفعہ اُن کے 700 رتھ بانوں کے علاوہ 40,000 پیادہ سپاہی ہلاک ہوئے۔ داؤد نے فوج کے کمانڈر سوبک کو اِتنا زخمی کر دیا کہ وہ میدانِ جنگ میں ہلاک ہو گیا۔ \p \v 19 جو اَرامی بادشاہ پہلے ہدد عزر کے تابع تھے اُنہوں نے اب ہار مان کر اسرائیلیوں سے صلح کر لی اور اُن کے تابع ہو گئے۔ اُس وقت سے اَرامیوں نے عمونیوں کی مدد کرنے کی پھر جرأت نہ کی۔ \c 11 \s1 داؤد اور بت سبع \p \v 1 بہار کا موسم آ گیا، وہ وقت جب بادشاہ جنگ کے لئے نکلتے ہیں۔ داؤد بادشاہ نے بھی اپنے فوجیوں کو لڑنے کے لئے بھیج دیا۔ یوآب کی راہنمائی میں اُس کے افسر اور پوری فوج عمونیوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہوئے۔ وہ دشمن کو تباہ کر کے دار الحکومت ربّہ کا محاصرہ کرنے لگے۔ داؤد خود یروشلم میں رہا۔ \p \v 2 ایک دن وہ دوپہر کے وقت سو گیا۔ جب شام کے وقت جاگ اُٹھا تو محل کی چھت پرٹہلنے لگا۔ اچانک اُس کی نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے صحن میں نہا رہی تھی۔ عورت نہایت خوب صورت تھی۔ \v 3 داؤد نے کسی کو اُس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا۔ واپس آ کر اُس نے اطلاع دی، ”عورت کا نام بت سبع ہے۔ وہ اِلی عام کی بیٹی اور اُوریاہ حِتّی کی بیوی ہے۔“ \v 4 تب داؤد نے قاصدوں کو بت سبع کے پاس بھیجا تاکہ اُسے محل میں لے آئیں۔ عورت آئی تو داؤد اُس سے ہم بستر ہوا۔ پھر بت سبع اپنے گھر واپس چلی گئی۔ (تھوڑی دیر پہلے اُس نے وہ رسم ادا کی تھی جس کا تقاضا شریعت ماہواری کے بعد کرتی ہے تاکہ عورت دوبارہ پاک صاف ہو جائے)۔ \p \v 5 کچھ دیر کے بعد اُسے معلوم ہوا کہ میرا پاؤں بھاری ہو گیا ہے۔ اُس نے داؤد کو اطلاع دی، ”میرا پاؤں بھاری ہو گیا ہے۔“ \v 6 یہ سنتے ہی داؤد نے یوآب کو پیغام بھیجا، ”اُوریاہ حِتّی کو میرے پاس بھیج دیں!“ یوآب نے اُسے بھیج دیا۔ \v 7 جب اُوریاہ دربار میں پہنچا تو داؤد نے اُس سے یوآب اور فوج کا حال معلوم کیا اور پوچھا کہ جنگ کس طرح چل رہی ہے؟ \p \v 8 پھر اُس نے اُوریاہ کو بتایا، ”اب اپنے گھر جائیں اور پاؤں دھو کر آرام کریں۔“ اُوریاہ ابھی محل سے دُور نہیں گیا تھا کہ ایک ملازم نے اُس کے پیچھے بھاگ کر اُسے بادشاہ کی طرف سے تحفہ دیا۔ \v 9 لیکن اُوریاہ اپنے گھر نہ گیا بلکہ رات کے لئے بادشاہ کے محافظوں کے ساتھ ٹھہرا رہا جو محل کے دروازے کے پاس سوتے تھے۔ \p \v 10 داؤد کو اِس بات کا پتا چلا تو اُس نے اگلے دن اُسے دوبارہ بُلایا۔ اُس نے پوچھا، ”کیا بات ہے؟ آپ تو بڑی دُور سے آئے ہیں۔ آپ اپنے گھر کیوں نہ گئے؟“ \v 11 اُوریاہ نے جواب دیا، ”عہد کا صندوق اور اسرائیل اور یہوداہ کے فوجی جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں۔ یوآب اور بادشاہ کے افسر بھی کھلے میدان میں ٹھہرے ہوئے ہیں تو کیا مناسب ہے کہ مَیں اپنے گھر جا کر آرام سے کھاؤں پیوں اور اپنی بیوی سے ہم بستر ہو جاؤں؟ ہرگز نہیں! آپ کی حیات کی قَسم، مَیں کبھی ایسا نہیں کروں گا۔“ \p \v 12 داؤد نے اُسے کہا، ”ایک اَور دن یہاں ٹھہریں۔ کل مَیں آپ کو واپس جانے دوں گا۔“ چنانچہ اُوریاہ ایک اَور دن یروشلم میں ٹھہرا رہا۔ \p \v 13 شام کے وقت داؤد نے اُسے کھانے کی دعوت دی۔ اُس نے اُسے اِتنی مَے پلائی کہ اُوریاہ نشے میں دُھت ہو گیا، لیکن اِس مرتبہ بھی وہ اپنے گھر نہ گیا بلکہ دوبارہ محل میں محافظوں کے ساتھ سو گیا۔ \s1 داؤد اُوریاہ کو قتل کرواتا ہے \p \v 14 اگلے دن صبح داؤد نے یوآب کو خط لکھ کر اُوریاہ کے ہاتھ بھیج دیا۔ \v 15 اُس میں لکھا تھا، ”اُوریاہ کو سب سے اگلی صف میں کھڑا کریں، جہاں لڑائی سب سے سخت ہوتی ہے۔ پھر اچانک پیچھے کی طرف ہٹ کر اُسے چھوڑ دیں تاکہ دشمن اُسے مار دے۔“ \p \v 16 یہ پڑھ کر یوآب نے اُوریاہ کو ایک ایسی جگہ پر کھڑا کیا جس کے بارے میں اُسے علم تھا کہ دشمن کے سب سے زبردست فوجی وہاں لڑتے ہیں۔ \v 17 جب عمونیوں نے شہر سے نکل کر اُن پر حملہ کیا تو کچھ اسرائیلی شہید ہوئے۔ اُوریاہ حِتّی بھی اُن میں شامل تھا۔ \p \v 18 یوآب نے لڑائی کی پوری رپورٹ بھیج دی۔ \v 19 داؤد کو یہ پیغام پہنچانے والے کو اُس نے بتایا، ”جب آپ بادشاہ کو تفصیل سے لڑائی کا سارا سلسلہ سنائیں گے \v 20 تو ہو سکتا ہے وہ غصے ہو کر کہے، ’آپ شہر کے اِتنے قریب کیوں گئے؟ کیا آپ کو معلوم نہ تھا کہ دشمن فصیل سے تیر چلائیں گے؟ \v 21 کیا آپ کو یاد نہیں کہ قدیم زمانے میں جدعون کے بیٹے ابی مَلِک کے ساتھ کیا ہوا؟ تیبض شہر میں ایک عورت ہی نے اُسے مار ڈالا۔ اور وجہ یہ تھی کہ وہ قلعے کے اِتنے قریب آ گیا تھا کہ عورت دیوار پر سے چکّی کا اوپر کا پاٹ اُس پر پھینک سکی۔ شہر کی فصیل کے اِس قدر قریب لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟‘ اگر بادشاہ آپ پر ایسے الزامات لگائیں تو جواب میں بس اِتنا ہی کہہ دینا، ’اُوریاہ حِتّی بھی مارا گیا ہے‘۔“ \p \v 22 قاصد روانہ ہوا۔ جب یروشلم پہنچا تو اُس نے داؤد کو یوآب کا پورا پیغام سنا دیا، \v 23 ”دشمن ہم سے زیادہ طاقت ور تھے۔ وہ شہر سے نکل کر کھلے میدان میں ہم پر ٹوٹ پڑے۔ لیکن ہم نے اُن کا سامنا یوں کیا کہ وہ پیچھے ہٹ گئے، بلکہ ہم نے اُن کا تعاقب شہر کے دروازے تک کیا۔ \v 24 لیکن افسوس کہ پھر کچھ تیرانداز ہم پر فصیل پر سے تیر برسانے لگے۔ آپ کے کچھ خادم کھیت آئے اور اُوریاہ حِتّی بھی اُن میں شامل ہے۔“ \v 25 داؤد نے جواب دیا، ”یوآب کو بتا دینا کہ یہ معاملہ آپ کو ہمت ہارنے نہ دے۔ جنگ تو ایسی ہی ہوتی ہے۔ کبھی کوئی یہاں تلوار کا لقمہ ہو جاتا ہے، کبھی وہاں۔ پورے عزم کے ساتھ شہر سے جنگ جاری رکھ کر اُسے تباہ کر دیں۔ یہ کہہ کر یوآب کی حوصلہ افزائی کریں۔“ \p \v 26 جب بت سبع کو اطلاع ملی کہ اُوریاہ نہیں رہا تو اُس نے اُس کا ماتم کیا۔ \v 27 ماتم کا وقت پورا ہوا تو داؤد نے اُسے اپنے گھر بُلا کر اُس سے شادی کر لی۔ پھر اُس کے بیٹا پیدا ہوا۔ \p لیکن داؤد کی یہ حرکت رب کو نہایت بُری لگی۔ \c 12 \s1 ناتن داؤد کو مجرم ٹھہراتا ہے \p \v 1 رب نے ناتن نبی کو داؤد کے پاس بھیج دیا۔ بادشاہ کے پاس پہنچ کر وہ کہنے لگا، ”کسی شہر میں دو آدمی رہتے تھے۔ ایک امیر تھا، دوسرا غریب۔ \v 2 امیر کی بہت بھیڑبکریاں اور گائےبَیل تھے، \v 3 لیکن غریب کے پاس کچھ نہیں تھا، صرف بھیڑ کی ننھی سی بچی جو اُس نے خرید رکھی تھی۔ غریب اُس کی پرورش کرتا رہا، اور وہ گھر میں اُس کے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی گئی۔ وہ اُس کی پلیٹ سے کھاتی، اُس کے پیالے سے پیتی اور رات کو اُس کے بازوؤں میں سو جاتی۔ غرض بھیڑ غریب کے لئے بیٹی کی سی حیثیت رکھتی تھی۔ \v 4 ایک دن امیر کے ہاں مہمان آیا۔ جب اُس کے لئے کھانا پکانا تھا تو امیر کا دل نہیں کرتا تھا کہ اپنے ریوڑ میں سے کسی جانور کو ذبح کرے، اِس لئے اُس نے غریب آدمی سے اُس کی ننھی سی بھیڑ لے کر اُسے مہمان کے لئے تیار کیا۔“ \p \v 5 یہ سن کر داؤد کو بڑا غصہ آیا۔ وہ پکارا، ”رب کی حیات کی قَسم، جس آدمی نے یہ کیا وہ سزائے موت کے لائق ہے۔ \v 6 لازم ہے کہ وہ بھیڑ کی بچی کے عوض غریب کو بھیڑ کے چار بچے دے۔ یہی اُس کی مناسب سزا ہے، کیونکہ اُس نے ایسی حرکت کر کے غریب پر ترس نہ کھایا۔“ \p \v 7 ناتن نے داؤد سے کہا، ”آپ ہی وہ آدمی ہیں! رب اسرائیل کا خدا فرماتا ہے، ’مَیں نے تجھے مسح کر کے اسرائیل کا بادشاہ بنا دیا، اور مَیں ہی نے تجھے ساؤل سے محفوظ رکھا۔ \v 8 ساؤل کا گھرانا اُس کی بیویوں سمیت مَیں نے تجھے دے دیا۔ ہاں، پورا اسرائیل اور یہوداہ بھی تیرے تحت آ گئے ہیں۔ اور اگر یہ تیرے لئے کم ہوتا تو مَیں تجھے مزید دینے کے لئے بھی تیار ہوتا۔ \v 9 اب مجھے بتا کہ تُو نے میری مرضی کو حقیر جان کر ایسی حرکت کیوں کی ہے جس سے مجھے نفرت ہے؟ تُو نے اُوریاہ حِتّی کو قتل کروا کے اُس کی بیوی کو چھین لیا ہے۔ ہاں، تُو قاتل ہے، کیونکہ تُو نے حکم دیا کہ اُوریاہ کو عمونیوں سے لڑتے لڑتے مروانا ہے۔ \v 10 چونکہ تُو نے مجھے حقیر جان کر اُوریاہ حِتّی کی بیوی کو اُس سے چھین لیا اِس لئے آئندہ تلوار تیرے گھرانے سے نہیں ہٹے گی۔‘ \p \v 11 رب فرماتا ہے، ’مَیں ہونے دوں گا کہ تیرے اپنے خاندان میں سے مصیبت تجھ پر آئے گی۔ تیرے دیکھتے دیکھتے مَیں تیری بیویوں کو تجھ سے چھین کر تیرے قریب کے آدمی کے حوالے کر دوں گا، اور وہ علانیہ اُن سے ہم بستر ہو گا۔ \v 12 تُو نے چپکے سے گناہ کیا، لیکن جو کچھ مَیں جواب میں ہونے دوں گا وہ علانیہ اور پورے اسرائیل کے دیکھتے دیکھتے ہو گا‘۔“ \p \v 13 تب داؤد نے اقرار کیا، ”مَیں نے رب کا گناہ کیا ہے۔“ ناتن نے جواب دیا، ”رب نے آپ کو معاف کر دیا ہے اور آپ نہیں مریں گے۔ \v 14 لیکن اِس حرکت سے آپ نے رب کے دشمنوں کو کفر بکنے کا موقع فراہم کیا ہے، اِس لئے بت سبع سے ہونے والا بیٹا مر جائے گا۔“ \p \v 15 تب ناتن اپنے گھر چلا گیا۔ \s1 داؤد کا بیٹا مر جاتا ہے \p پھر رب نے بت سبع کے بیٹے کو چھو دیا، اور وہ سخت بیمار ہو گیا۔ \v 16 داؤد نے اللہ سے التماس کی کہ بچے کو بچنے دے۔ روزہ رکھ کر وہ رات کے وقت ننگے فرش پر سونے لگا۔ \v 17 گھر کے بزرگ اُس کے ارد گرد کھڑے کوشش کرتے رہے کہ وہ فرش سے اُٹھ جائے، لیکن بےفائدہ۔ وہ اُن کے ساتھ کھانے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔ \p \v 18 ساتویں دن بیٹا فوت ہو گیا۔ داؤد کے ملازموں نے اُسے خبر پہنچانے کی جرأت نہ کی، کیونکہ اُنہوں نے سوچا، ”جب بچہ ابھی زندہ تھا تو ہم نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اُس نے ہماری ایک بھی نہ سنی۔ اب اگر بچے کی موت کی خبر دیں تو خطرہ ہے کہ وہ کوئی نقصان دہ قدم اُٹھائے۔“ \p \v 19 لیکن داؤد نے دیکھا کہ ملازم دھیمی آواز میں ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں۔ اُس نے پوچھا، ”کیا بیٹا مر گیا ہے؟“ اُنہوں نے جواب دیا، ”جی، وہ مر گیا ہے۔“ \p \v 20 یہ سن کر داؤد فرش پر سے اُٹھ گیا۔ وہ نہایا اور جسم کو خوشبودار تیل سے مَل کر صاف کپڑے پہن لئے۔ پھر اُس نے رب کے گھر میں جا کر اُس کی پرستش کی۔ اِس کے بعد وہ محل میں واپس گیا اور کھانا منگوا کر کھایا۔ \v 21 اُس کے ملازم حیران ہوئے اور بولے، ”جب بچہ زندہ تھا تو آپ روزہ رکھ کر روتے رہے۔ اب بچہ جاں بحق ہو گیا ہے تو آپ اُٹھ کر دوبارہ کھانا کھا رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے؟“ \v 22 داؤد نے جواب دیا، ”جب تک بچہ زندہ تھا تو مَیں روزہ رکھ کر روتا رہا۔ خیال یہ تھا کہ شاید رب مجھ پر رحم کر کے اُسے زندہ چھوڑ دے۔ \v 23 لیکن جب وہ کوچ کر گیا ہے تو اب روزہ رکھنے کا کیا فائدہ؟ کیا مَیں اِس سے اُسے واپس لا سکتا ہوں؟ ہرگز نہیں! ایک دن مَیں خود ہی اُس کے پاس پہنچوں گا۔ لیکن اُس کا یہاں میرے پاس واپس آنا ناممکن ہے۔“ \p \v 24 پھر داؤد نے اپنی بیوی بت سبع کے پاس جا کر اُسے تسلی دی اور اُس سے ہم بستر ہوا۔ تب اُس کے ایک اَور بیٹا پیدا ہوا۔ داؤد نے اُس کا نام سلیمان یعنی امن پسند رکھا۔ یہ بچہ رب کو پیارا تھا، \v 25 اِس لئے اُس نے ناتن نبی کی معرفت اطلاع دی کہ اُس کا نام یدیدیاہ یعنی ’رب کو پیارا‘ رکھا جائے۔ \s1 ربّہ شہر پر فتح \p \v 26 اب تک یوآب عمونی دار الحکومت ربّہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھا۔ پھر وہ شہر کے ایک حصے بنام ’شاہی شہر‘ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ \v 27 اُس نے داؤد کو اطلاع دی، ”مَیں نے ربّہ پر حملہ کر کے اُس جگہ پر قبضہ کر لیا ہے جہاں پانی دست یاب ہے۔ \v 28 چنانچہ اب فوج کے باقی افراد کو لا کر خود شہر پر قبضہ کر لیں۔ ورنہ لوگ سمجھیں گے کہ مَیں ہی شہر کا فاتح ہوں۔“ \p \v 29 چنانچہ داؤد فوج کے باقی افراد کو لے کر ربّہ پہنچا۔ جب شہر پر حملہ کیا تو وہ اُس کے قبضے میں آ گیا۔ \v 30 داؤد نے حنون بادشاہ کا تاج اُس کے سر سے اُتار کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ سونے کے اِس تاج کا وزن 34 کلو گرام تھا، اور اُس میں ایک بیش قیمت جوہر جڑا ہوا تھا۔ داؤد نے شہر سے بہت سا لُوٹا ہوا مال لے کر \v 31 اُس کے باشندوں کو غلام بنا لیا۔ اُنہیں پتھر کاٹنے کی آریاں، لوہے کی کدالیں اور کلہاڑیاں دی گئیں تاکہ وہ مزدوری کریں اور بھٹوں پر کام کریں۔ یہی سلوک باقی عمونی شہروں کے باشندوں کے ساتھ بھی کیا گیا۔ \p جنگ کے اختتام پر داؤد پوری فوج کے ساتھ یروشلم لوٹ آیا۔ \c 13 \s1 تمر کی عصمت دری \p \v 1 داؤد کے بیٹے ابی سلوم کی خوب صورت بہن تھی جس کا نام تمر تھا۔ اُس کا سوتیلا بھائی امنون تمر سے شدید محبت کرنے لگا۔ \v 2 وہ تمر کو اِتنی شدت سے چاہنے لگا کہ رنجش کے باعث بیمار ہو گیا، کیونکہ تمر کنواری تھی، اور امنون کو اُس کے قریب آنے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ \p \v 3 امنون کا ایک دوست تھا جس کا نام یوندب تھا۔ وہ داؤد کے بھائی سِمعہ کا بیٹا تھا اور بڑا ذہین تھا۔ \v 4 اُس نے امنون سے پوچھا، ”بادشاہ کے بیٹے، کیا مسئلہ ہے؟ روز بہ روز آپ زیادہ بجھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ کیا آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ بات کیا ہے؟“ امنون بولا، ”مَیں ابی سلوم کی بہن تمر سے شدید محبت کرتا ہوں۔“ \v 5 یوندب نے اپنے دوست کو مشورہ دیا، ”بستر پر لیٹ جائیں اور ایسا ظاہر کریں گویا بیمار ہیں۔ جب آپ کے والد آپ کا حال پوچھنے آئیں گے تو اُن سے درخواست کرنا، ’میری بہن تمر آ کر مجھے مریضوں کا کھانا کھلائے۔ وہ میرے سامنے کھانا تیار کرے تاکہ مَیں اُسے دیکھ کر اُس کے ہاتھ سے کھانا کھاؤں‘۔“ \p \v 6 چنانچہ امنون نے بستر پر لیٹ کر بیمار ہونے کا بہانہ کیا۔ جب بادشاہ اُس کا حال پوچھنے آیا تو امنون نے گزارش کی، ”میری بہن تمر میرے پاس آئے اور میرے سامنے مریضوں کا کھانا بنا کر مجھے اپنے ہاتھ سے کھلائے۔“ \p \v 7 داؤد نے تمر کو اطلاع دی، ”آپ کا بھائی امنون بیمار ہے۔ اُس کے پاس جا کر اُس کے لئے مریضوں کا کھانا تیار کریں۔“ \v 8 تمر نے امنون کے پاس آ کر اُس کی موجودگی میں میدہ گوندھا اور کھانا تیار کر کے پکایا۔ امنون بستر پر لیٹا اُسے دیکھتا رہا۔ \v 9 جب کھانا پک گیا تو تمر نے اُسے امنون کے پاس لا کر پیش کیا۔ لیکن اُس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ اُس نے حکم دیا، ”تمام نوکر کمرے سے باہر نکل جائیں!“ جب سب چلے گئے \v 10 تو اُس نے تمر سے کہا، ”کھانے کو میرے سونے کے کمرے میں لے آئیں تاکہ مَیں آپ کے ہاتھ سے کھا سکوں۔“ تمر کھانے کو لے کر سونے کے کمرے میں اپنے بھائی کے پاس آئی۔ \p \v 11 جب وہ اُسے کھانا کھلانے لگی تو امنون نے اُسے پکڑ کر کہا، ”آ میری بہن، میرے ساتھ ہم بستر ہو!“ \v 12 وہ پکاری، ”نہیں، میرے بھائی! میری عصمت دری نہ کریں۔ ایسا عمل اسرائیل میں منع ہے۔ ایسی بےدین حرکت مت کرنا! \v 13 اور ایسی بےحرمتی کے بعد مَیں کہاں جاؤں؟ جہاں تک آپ کا تعلق ہے اسرائیل میں آپ کی بُری طرح بدنامی ہو جائے گی، اور سب سمجھیں گے کہ آپ نہایت شریر آدمی ہیں۔ آپ بادشاہ سے بات کیوں نہیں کرتے؟ یقیناً وہ آپ کو مجھ سے شادی کرنے سے نہیں روکیں گے۔“ \v 14 لیکن امنون نے اُس کی نہ سنی بلکہ اُسے پکڑ کر اُس کی عصمت دری کی۔ \p \v 15 لیکن پھر اچانک اُس کی محبت سخت نفرت میں بدل گئی۔ پہلے تو وہ تمر سے شدید محبت کرتا تھا، لیکن اب وہ اِس سے بڑھ کر اُس سے نفرت کرنے لگا۔ اُس نے حکم دیا، ”اُٹھ، دفع ہو جا!“ \v 16 تمر نے التماس کی، ”ہائے، ایسا مت کرنا۔ اگر آپ مجھے نکالیں گے تو یہ پہلے گناہ سے زیادہ سنگین جرم ہو گا۔“ لیکن امنون اُس کی سننے کے لئے تیار نہ تھا۔ \v 17 اُس نے اپنے نوکر کو بُلا کر حکم دیا، ”اِس عورت کو یہاں سے نکال دو اور اِس کے پیچھے دروازہ بند کر کے کنڈی لگاؤ!“ \v 18 نوکر تمر کو باہر لے گیا اور پھر اُس کے پیچھے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔ \p تمر ایک لمبے بازوؤں والا فراک پہنے ہوئے تھی۔ بادشاہ کی تمام کنواری بیٹیاں یہی لباس پہنا کرتی تھیں۔ \v 19 بڑی رنجش کے عالم میں اُس نے اپنا یہ لباس پھاڑ کر اپنے سر پر راکھ ڈال لی۔ پھر اپنا ہاتھ سر پر رکھ کر وہ چیختی چلّاتی وہاں سے چلی گئی۔ \v 20 جب گھر پہنچ گئی تو ابی سلوم نے اُس سے پوچھا، ”میری بہن، کیا امنون نے آپ سے زیادتی کی ہے؟ اب خاموش ہو جائیں۔ وہ تو آپ کا بھائی ہے۔ اِس معاملے کو حد سے زیادہ اہمیت مت دینا۔“ اُس وقت سے تمر اکیلی ہی اپنے بھائی ابی سلوم کے گھر میں رہی۔ \p \v 21 جب داؤد کو اِس واقعے کی خبر ملی تو اُسے سخت غصہ آیا۔ \v 22 ابی سلوم نے امنون سے ایک بھی بات نہ کی۔ نہ اُس نے اُس پر کوئی الزام لگایا، نہ کوئی اچھی بات کی، کیونکہ تمر کی عصمت دری کی وجہ سے وہ اپنے بھائی سے سخت نفرت کرنے لگا تھا۔ \s1 ابی سلوم کا انتقام \p \v 23 دو سال گزر گئے۔ ابی سلوم کی بھیڑیں افرائیم کے قریب کے بعل حصور میں لائی گئیں تاکہ اُن کے بال کترے جائیں۔ اِس موقع پر ابی سلوم نے بادشاہ کے تمام بیٹوں کو دعوت دی کہ وہ وہاں ضیافت میں شریک ہوں۔ \v 24 وہ داؤد بادشاہ کے پاس بھی گیا اور کہا، ”اِن دنوں میں مَیں اپنی بھیڑوں کے بال کترا رہا ہوں۔ بادشاہ اور اُن کے افسروں کو بھی میرے ساتھ خوشی منانے کی دعوت ہے۔“ \p \v 25 لیکن داؤد نے انکار کیا، ”نہیں، میرے بیٹے، ہم سب تو نہیں آ سکتے۔ اِتنے لوگ آپ کے لئے بوجھ کا باعث بن جائیں گے۔“ ابی سلوم بہت اصرار کرتا رہا، لیکن داؤد نے دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ اُسے برکت دے کر رُخصت کرنا چاہتا تھا۔ \p \v 26 آخرکار ابی سلوم نے درخواست کی، ”اگر آپ ہمارے ساتھ جا نہ سکیں تو پھر کم از کم میرے بھائی امنون کو آنے دیں۔“ بادشاہ نے پوچھا، ”خاص کر امنون کو کیوں؟“ \v 27 لیکن ابی سلوم اِتنا زور دیتا رہا کہ داؤد نے امنون کو باقی بیٹوں سمیت بعل حصور جانے کی اجازت دے دی۔ \p \v 28 ضیافت سے پہلے ابی سلوم نے اپنے ملازموں کو حکم دیا، ”سنیں! جب امنون مَے پی پی کر خوش ہو جائے گا تو مَیں آپ کو امنون کو مارنے کا حکم دوں گا۔ پھر آپ کو اُسے مار ڈالنا ہے۔ ڈریں مت، کیونکہ مَیں ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے۔ مضبوط اور دلیر ہوں!“ \p \v 29 ملازموں نے ایسا ہی کیا۔ اُنہوں نے امنون کو مار ڈالا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کے دوسرے بیٹے اُٹھ کر اپنے خچروں پر سوار ہوئے اور بھاگ گئے۔ \v 30 وہ ابھی راستے میں ہی تھے کہ افواہ داؤد تک پہنچی، ”ابی سلوم نے آپ کے تمام بیٹوں کو قتل کر دیا ہے۔ ایک بھی نہیں بچا۔“ \p \v 31 بادشاہ اُٹھا اور اپنے کپڑے پھاڑ کر فرش پر لیٹ گیا۔ اُس کے درباری بھی دُکھ میں اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اُس کے پاس کھڑے رہے۔ \v 32 پھر داؤد کا بھتیجا یوندب بول اُٹھا، ”میرے آقا، آپ نہ سوچیں کہ اُنہوں نے تمام شہزادوں کو مار ڈالا ہے۔ صرف امنون مر گیا ہو گا، کیونکہ جب سے اُس نے تمر کی عصمت دری کی اُس وقت سے ابی سلوم کا یہی ارادہ تھا۔ \v 33 لہٰذا اِس خبر کو اِتنی اہمیت نہ دیں کہ تمام بیٹے ہلاک ہوئے ہیں۔ صرف امنون مر گیا ہو گا۔“ \p \v 34 اِتنے میں ابی سلوم فرار ہو گیا تھا۔ پھر یروشلم کی فصیل پر کھڑے پہرے دار نے اچانک دیکھا کہ مغرب سے لوگوں کا بڑا گروہ شہر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ پہاڑی کے دامن میں چلے آ رہے تھے۔ \v 35 تب یوندب نے بادشاہ سے کہا، ”لو، بادشاہ کے بیٹے آ رہے ہیں، جس طرح آپ کے خادم نے کہا تھا۔“ \v 36 وہ ابھی اپنی بات ختم کر ہی رہا تھا کہ شہزادے اندر آئے اور خوب رو پڑے۔ بادشاہ اور اُس کے افسر بھی رونے لگے۔ \p \v 37 داؤد بڑی دیر تک امنون کا ماتم کرتا رہا۔ لیکن ابی سلوم نے فرار ہو کر جسور کے بادشاہ تلمی بن عمی ہود کے پاس پناہ لی جو اُس کا نانا تھا۔ \v 38 وہاں وہ تین سال تک رہا۔ \v 39 پھر ایک وقت آ گیا کہ داؤد کا امنون کے لئے دُکھ دُور ہو گیا، اور اُس کا ابی سلوم پر غصہ تھم گیا۔ \c 14 \s1 یوآب ابی سلوم کی سفارش کرتا ہے \p \v 1 یوآب بن ضرویاہ کو معلوم ہوا کہ بادشاہ اپنے بیٹے ابی سلوم کو چاہتا ہے، \v 2 اِس لئے اُس نے تقوع سے ایک دانش مند عورت کو بُلایا۔ یوآب نے اُسے ہدایت دی، ”ماتم کا روپ بھریں جیسے آپ دیر سے کسی کا ماتم کر رہی ہوں۔ ماتم کے کپڑے پہن کر خوشبودار تیل مت لگانا۔ \v 3 بادشاہ کے پاس جا کر اُس سے بات کریں۔“ پھر یوآب نے عورت کو لفظ بہ لفظ وہ کچھ سکھایا جو اُسے بادشاہ کو بتانا تھا۔ \p \v 4 داؤد کے دربار میں آ کر عورت نے اوندھے منہ جھک کر التماس کی، ”اے بادشاہ، میری مدد کریں!“ \v 5 داؤد نے دریافت کیا، ”کیا مسئلہ ہے؟“ عورت نے جواب دیا، ”مَیں بیوہ ہوں، میرا شوہر فوت ہو گیا ہے۔ \v 6 اور میرے دو بیٹے تھے۔ ایک دن وہ باہر کھیت میں ایک دوسرے سے اُلجھ پڑے۔ اور چونکہ کوئی موجود نہیں تھا جو دونوں کو الگ کرتا اِس لئے ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ \v 7 اُس وقت سے پورا کنبہ میرے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ وہ تقاضا کرتے ہیں کہ مَیں اپنے بیٹے کو اُن کے حوالے کروں۔ وہ کہتے ہیں، ’اُس نے اپنے بھائی کو مار دیا ہے، اِس لئے ہم بدلے میں اُسے سزائے موت دیں گے۔ اِس طرح وارث بھی نہیں رہے گا۔‘ یوں وہ میری اُمید کی آخری کرن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر میرا یہ بیٹا بھی مر جائے تو میرے شوہر کا نام قائم نہیں رہے گا، اور اُس کا خاندان رُوئے زمین پر سے مٹ جائے گا۔“ \v 8 بادشاہ نے عورت سے کہا، ”اپنے گھر چلی جائیں اور فکر نہ کریں۔ مَیں معاملہ حل کر دوں گا۔“ \p \v 9 لیکن عورت نے گزارش کی، ”اے بادشاہ، ڈر ہے کہ لوگ پھر بھی مجھے مجرم ٹھہرائیں گے اگر میرے بیٹے کو سزائے موت نہ دی جائے۔ آپ پر تو وہ الزام نہیں لگائیں گے۔“ \v 10 داؤد نے اصرار کیا، ”اگر کوئی آپ کو تنگ کرے تو اُسے میرے پاس لے آئیں۔ پھر وہ آئندہ آپ کو نہیں ستائے گا!“ \v 11 عورت کو تسلی نہ ہوئی۔ اُس نے گزارش کی، ”اے بادشاہ، براہِ کرم رب اپنے خدا کی قَسم کھائیں کہ آپ کسی کو بھی موت کا بدلہ نہیں لینے دیں گے۔ ورنہ نقصان میں اضافہ ہو گا اور میرا دوسرا بیٹا بھی ہلاک ہو جائے گا۔“ داؤد نے جواب دیا، ”رب کی حیات کی قَسم، آپ کے بیٹے کا ایک بال بھی بیکا نہیں ہو گا۔“ \p \v 12 پھر عورت اصل بات پر آ گئی، ”میرے آقا، براہِ کرم اپنی خادمہ کو ایک اَور بات کرنے کی اجازت دیں۔“ بادشاہ بولا، ”کریں بات۔“ \v 13 تب عورت نے کہا، ”آپ خود کیوں اللہ کی قوم کے خلاف ایسا ارادہ رکھتے ہیں جسے آپ نے ابھی ابھی غلط قرار دیا ہے؟ آپ نے خود فرمایا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں، اور یوں آپ نے اپنے آپ کو ہی مجرم ٹھہرایا ہے۔ کیونکہ آپ نے اپنے بیٹے کو رد کر کے اُسے واپس آنے نہیں دیا۔ \v 14 بےشک ہم سب کو کسی وقت مرنا ہے۔ ہم سب زمین پر اُنڈیلے گئے پانی کی مانند ہیں جسے زمین جذب کر لیتی ہے اور جو دوبارہ جمع نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اللہ ہماری زندگی کو بلاوجہ مٹا نہیں دیتا بلکہ ایسے منصوبے تیار رکھتا ہے جن کے ذریعے مردود شخص بھی اُس کے پاس واپس آ سکے اور اُس سے دُور نہ رہے۔ \v 15 اے بادشاہ میرے آقا، مَیں اِس وقت اِس لئے آپ کے حضور آئی ہوں کہ میرے لوگ مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مَیں نے سوچا، مَیں بادشاہ سے بات کرنے کی جرأت کروں گی، شاید وہ میری سنیں \v 16 اور مجھے اُس آدمی سے بچائیں جو مجھے اور میرے بیٹے کو اُس موروثی زمین سے محروم رکھنا چاہتا ہے جو اللہ نے ہمیں دے دی ہے۔ \v 17 خیال یہ تھا کہ اگر بادشاہ معاملہ حل کر دیں تو پھر مجھے دوبارہ سکون ملے گا، کیونکہ آپ اچھی اور بُری باتوں کا امتیاز کرنے میں اللہ کے فرشتے جیسے ہیں۔ رب آپ کا خدا آپ کے ساتھ ہو۔“ \p \v 18 یہ سب کچھ سن کر داؤد بول اُٹھا، ”اب مجھے ایک بات بتائیں۔ اِس کا صحیح جواب دیں۔“ عورت نے جواب دیا، ”جی میرے آقا، بات فرمایئے۔“ داؤد نے پوچھا، ”کیا یوآب نے آپ سے یہ کام کروایا؟“ \v 19 عورت پکاری، ”بادشاہ کی حیات کی قَسم، جو کچھ بھی میرے آقا فرماتے ہیں وہ نشانے پر لگ جاتا ہے، خواہ بندہ بائیں یا دائیں طرف ہٹنے کی کوشش کیوں نہ کرے۔ جی ہاں، آپ کے خادم یوآب نے مجھے آپ کے حضور بھیج دیا۔ اُس نے مجھے لفظ بہ لفظ سب کچھ بتایا جو مجھے آپ کو عرض کرنا تھا، \v 20 کیونکہ وہ آپ کو یہ بات براہِ راست نہیں پیش کرنا چاہتا تھا۔ لیکن میرے آقا کو اللہ کے فرشتے کی سی حکمت حاصل ہے۔ جو کچھ بھی ملک میں وقوع میں آتا ہے اُس کا آپ کو پتا چل جاتا ہے۔“ \s1 ابی سلوم کی واپسی \p \v 21 داؤد نے یوآب کو بُلا کر اُس سے کہا، ”ٹھیک ہے، مَیں آپ کی درخواست پوری کروں گا۔ جائیں، میرے بیٹے ابی سلوم کو واپس لے آئیں۔“ \v 22 یوآب اوندھے منہ جھک گیا اور بولا، ”رب بادشاہ کو برکت دے! میرے آقا، آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ مَیں آپ کو منظور ہوں، کیونکہ آپ نے اپنے خادم کی درخواست کو پورا کیا ہے۔“ \v 23 یوآب روانہ ہو کر جسور چلا گیا اور وہاں سے ابی سلوم کو واپس لایا۔ \v 24 لیکن جب وہ یروشلم پہنچے تو بادشاہ نے حکم دیا، ”اُسے اپنے گھر میں رہنے کی اجازت ہے، لیکن وہ کبھی مجھے نظر نہ آئے۔“ چنانچہ ابی سلوم اپنے گھر میں دوبارہ رہنے لگا، لیکن بادشاہ سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔ \p \v 25 پورے اسرائیل میں ابی سلوم جیسا خوب صورت آدمی نہیں تھا۔ سب اُس کی خاص تعریف کرتے تھے، کیونکہ سر سے لے کر پاؤں تک اُس میں کوئی نقص نظر نہیں آتا تھا۔ \v 26 سال میں وہ ایک ہی مرتبہ اپنے بال کٹواتا تھا، کیونکہ اِتنے میں اُس کے بال حد سے زیادہ وزنی ہو جاتے تھے۔ جب اُنہیں تولا جاتا تو اُن کا وزن تقریباً سوا دو کلو گرام ہوتا تھا۔ \v 27 ابی سلوم کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بیٹی کا نام تمر تھا اور وہ نہایت خوب صورت تھی۔ \p \v 28 دو سال گزر گئے، پھر بھی ابی سلوم کو بادشاہ سے ملنے کی اجازت نہ ملی۔ \v 29 پھر اُس نے یوآب کو اطلاع بھیجی کہ وہ اُس کی سفارش کرے۔ لیکن یوآب نے آنے سے انکار کیا۔ ابی سلوم نے اُسے دوبارہ بُلانے کی کوشش کی، لیکن اِس بار بھی یوآب اُس کے پاس نہ آیا۔ \v 30 تب ابی سلوم نے اپنے نوکروں کو حکم دیا، ”دیکھو، یوآب کا کھیت میرے کھیت سے ملحق ہے، اور اُس میں جَو کی فصل پک رہی ہے۔ جاؤ، اُسے آگ لگا دو!“ نوکر گئے اور ایسا ہی کیا۔ \p \v 31 جب کھیت میں آگ لگ گئی تو یوآب بھاگ کر ابی سلوم کے پاس آیا اور شکایت کی، ”آپ کے نوکروں نے میرے کھیت کو آگ کیوں لگائی ہے؟“ \v 32 ابی سلوم نے جواب دیا، ”دیکھیں، آپ نہیں آئے جب مَیں نے آپ کو بُلایا۔ کیونکہ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ بادشاہ کے پاس جا کر اُن سے پوچھیں کہ مجھے جسور سے کیوں لایا گیا۔ بہتر ہوتا کہ مَیں وہیں رہتا۔ اب بادشاہ مجھ سے ملیں یا اگر وہ اب تک مجھے قصوروار ٹھہراتے ہیں تو مجھے سزائے موت دیں۔“ \p \v 33 یوآب نے بادشاہ کے پاس جا کر اُسے یہ پیغام پہنچایا۔ پھر داؤد نے اپنے بیٹے کو بُلایا۔ ابی سلوم اندر آیا اور بادشاہ کے سامنے اوندھے منہ جھک گیا۔ پھر بادشاہ نے ابی سلوم کو بوسہ دیا۔ \c 15 \s1 ابی سلوم کی سازش \p \v 1 کچھ دیر کے بعد ابی سلوم نے رتھ اور گھوڑے خریدے اور ساتھ ساتھ 50 محافظ بھی رکھے جو اُس کے آگے آگے دوڑیں۔ \v 2 روزانہ وہ صبح سویرے اُٹھ کر شہر کے دروازے پر جاتا۔ جب کبھی کوئی شخص اِس مقصد سے شہر میں داخل ہوتا کہ بادشاہ اُس کے کسی مقدمے کا فیصلہ کرے تو ابی سلوم اُس سے مخاطب ہو کر پوچھتا، ”آپ کس شہر سے ہیں؟“ اگر وہ جواب دیتا، ”مَیں اسرائیل کے فلاں قبیلے سے ہوں،“ \v 3 تو ابی سلوم کہتا، ”بےشک آپ اِس مقدمے کو جیت سکتے ہیں، لیکن افسوس! بادشاہ کا کوئی بھی بندہ اِس پر صحیح دھیان نہیں دے گا۔“ \v 4 پھر وہ بات جاری رکھتا، ”کاش مَیں ہی ملک پر اعلیٰ قاضی مقرر کیا گیا ہوتا! پھر سب لوگ اپنے مقدمے مجھے پیش کر سکتے اور مَیں اُن کا صحیح انصاف کر دیتا۔“ \v 5 اور اگر کوئی قریب آ کر ابی سلوم کے سامنے جھکنے لگتا تو وہ اُسے روک کر اُس کو گلے لگاتا اور بوسہ دیتا۔ \v 6 یہ اُس کا اُن تمام اسرائیلیوں کے ساتھ سلوک تھا جو اپنے مقدمے بادشاہ کو پیش کرنے کے لئے آتے تھے۔ یوں اُس نے اسرائیلیوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کر لیا۔ \p \v 7 یہ سلسلہ چار سال جاری رہا۔ ایک دن ابی سلوم نے داؤد سے بات کی، ”مجھے حبرون جانے کی اجازت دیجئے، کیونکہ مَیں نے رب سے ایسی مَنت مانی ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ حبرون جاؤں۔ \v 8 کیونکہ جب مَیں جسور میں تھا تو مَیں نے قَسم کھا کر وعدہ کیا تھا، ’اے رب، اگر تُو مجھے یروشلم واپس لائے تو مَیں حبرون میں تیری پرستش کروں گا‘۔“ \v 9 بادشاہ نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے۔ سلامتی سے جائیں۔“ \p \v 10 لیکن حبرون پہنچ کر ابی سلوم نے خفیہ طور پر اپنے قاصدوں کو اسرائیل کے تمام قبائلی علاقوں میں بھیج دیا۔ جہاں بھی وہ گئے اُنہوں نے اعلان کیا، ”جوں ہی نرسنگے کی آواز سنائی دے آپ سب کو کہنا ہے، ’ابی سلوم حبرون میں بادشاہ بن گیا ہے‘!“ \v 11 ابی سلوم کے ساتھ 200 مہمان یروشلم سے حبرون آئے تھے۔ وہ بےلوث تھے، اور اُنہیں اِس کے بارے میں علم ہی نہ تھا۔ \p \v 12 جب حبرون میں قربانیاں چڑھائی جا رہی تھیں تو ابی سلوم نے داؤد کے ایک مشیر کو بُلایا جو جِلوہ کا رہنے والا تھا۔ اُس کا نام اخی تُفل جلونی تھا۔ وہ آیا اور ابی سلوم کے ساتھ مل گیا۔ یوں ابی سلوم کے پیروکاروں میں اضافہ ہوتا گیا اور اُس کی سازشیں زور پکڑنے لگیں۔ \s1 داؤد یروشلم سے ہجرت کرتا ہے \p \v 13 ایک قاصد نے داؤد کے پاس پہنچ کر اُسے اطلاع دی، ”ابی سلوم آپ کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے، اور تمام اسرائیل اُس کے پیچھے لگ گیا ہے۔“ \v 14 داؤد نے اپنے ملازموں سے کہا، ”آؤ، ہم فوراً ہجرت کریں، ورنہ ابی سلوم کے قبضے میں آ جائیں گے۔ جلدی کریں تاکہ ہم فوراً روانہ ہو سکیں، کیونکہ وہ کوشش کرے گا کہ جتنی جلدی ہو سکے یہاں پہنچے۔ اگر ہم اُس وقت شہر سے نکلے نہ ہوں تو وہ ہم پر آفت لا کر شہر کے باشندوں کو مار ڈالے گا۔“ \v 15 بادشاہ کے ملازموں نے جواب دیا، ”جو بھی فیصلہ ہمارے آقا اور بادشاہ کریں ہم حاضر ہیں۔“ \p \v 16 بادشاہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ روانہ ہوا۔ صرف دس داشتائیں محل کو سنبھالنے کے لئے پیچھے رہ گئیں۔ \v 17 جب داؤد اپنے تمام لوگوں کے ساتھ شہر کے آخری گھر تک پہنچا تو وہ رُک گیا۔ \v 18 اُس نے اپنے تمام پیروکاروں کو آگے نکلنے دیا، پہلے شاہی دستے کریتی و فلیتی کو، پھر اُن 600 جاتی آدمیوں کو جو اُس کے ساتھ جات سے یہاں آئے تھے اور آخر میں باقی تمام لوگوں کو۔ \v 19 جب فلستی شہر جات کا آدمی اِتّی داؤد کے سامنے سے گزرنے لگا تو بادشاہ اُس سے مخاطب ہوا، ”آپ ہمارے ساتھ کیوں جائیں؟ نہیں، واپس چلے جائیں اور نئے بادشاہ کے ساتھ رہیں۔ آپ تو غیرملکی ہیں اور اِس لئے اسرائیل میں رہتے ہیں کہ آپ کو جلاوطن کر دیا گیا ہے۔ \v 20 آپ کو یہاں آئے تھوڑی دیر ہوئی ہے، تو کیا مناسب ہے کہ آپ کو دوبارہ میری وجہ سے کبھی اِدھر کبھی اُدھر گھومنا پڑے؟ کیا پتا ہے کہ مجھے کہاں کہاں جانا پڑے۔ اِس لئے واپس چلے جائیں، اور اپنے ہم وطنوں کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔ رب آپ پر اپنی مہربانی اور وفاداری کا اظہار کرے۔“ \p \v 21 لیکن اِتّی نے اعتراض کیا، ”میرے آقا، رب اور بادشاہ کی حیات کی قَسم، مَیں آپ کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا، خواہ مجھے اپنی جان بھی قربان کرنی پڑے۔“ \v 22 تب داؤد مان گیا۔ ”چلو، پھر آگے نکلیں!“ چنانچہ اِتّی اپنے لوگوں اور اُن کے خاندانوں کے ساتھ آگے نکلا۔ \v 23 آخر میں داؤد نے وادیٔ قدرون کو پار کر کے ریگستان کی طرف رُخ کیا۔ گرد و نواح کے تمام لوگ بادشاہ کو اُس کے پیروکاروں سمیت روانہ ہوتے ہوئے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ \p \v 24 صدوق امام اور تمام لاوی بھی داؤد کے ساتھ شہر سے نکل آئے تھے۔ لاوی عہد کا صندوق اُٹھائے چل رہے تھے۔ اب اُنہوں نے اُسے شہر سے باہر زمین پر رکھ دیا، اور ابیاتر وہاں قربانیاں چڑھانے لگا۔ لوگوں کے شہر سے نکلنے کے پورے عرصے کے دوران وہ قربانیاں چڑھاتا رہا۔ \v 25 پھر داؤد صدوق سے مخاطب ہوا، ”اللہ کا صندوق شہر میں واپس لے جائیں۔ اگر رب کی نظرِ کرم مجھ پر ہوئی تو وہ کسی دن مجھے شہر میں واپس لا کر عہد کے صندوق اور اُس کی سکونت گاہ کو دوبارہ دیکھنے کی اجازت دے گا۔ \v 26 لیکن اگر وہ فرمائے کہ تُو مجھے پسند نہیں ہے، تو مَیں یہ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ وہ میرے ساتھ وہ کچھ کرے جو اُسے مناسب لگے۔ \p \v 27 جہاں تک آپ کا تعلق ہے، اپنے بیٹے اخی معض کو ساتھ لے کر صحیح سلامت شہر میں واپس چلے جائیں۔ ابیاتر اور اُس کا بیٹا یونتن بھی ساتھ جائیں۔ \v 28 مَیں خود ریگستان میں دریائے یردن کی اُس جگہ رُک جاؤں گا جہاں ہم آسانی سے دریا کو پار کر سکیں گے۔ وہاں آپ مجھے یروشلم کے حالات کے بارے میں پیغام بھیج سکتے ہیں۔ مَیں آپ کے انتظار میں رہوں گا۔“ \p \v 29 چنانچہ صدوق اور ابیاتر عہد کا صندوق شہر میں واپس لے جا کر وہیں رہے۔ \v 30 داؤد روتے روتے زیتون کے پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ اُس کا سر ڈھانپا ہوا تھا، اور وہ ننگے پاؤں چل رہا تھا۔ باقی سب کے سر بھی ڈھانپے ہوئے تھے، سب روتے روتے چڑھنے لگے۔ \v 31 راستے میں داؤد کو اطلاع دی گئی، ”اخی تُفل بھی ابی سلوم کے ساتھ مل گیا ہے۔“ یہ سن کر داؤد نے دعا کی، ”اے رب، بخش دے کہ اخی تُفل کے مشورے ناکام ہو جائیں۔“ \p \v 32 چلتے چلتے داؤد پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا جہاں اللہ کی پرستش کی جاتی تھی۔ وہاں حوسی ارکی اُس سے ملنے آیا۔ اُس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، اور سر پر خاک تھی۔ \v 33 داؤد نے اُس سے کہا، ”اگر آپ میرے ساتھ جائیں تو آپ صرف بوجھ کا باعث بنیں گے۔ \v 34 بہتر ہے کہ آپ لوٹ کر شہر میں جائیں اور ابی سلوم سے کہیں، ’اے بادشاہ، مَیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ پہلے مَیں آپ کے باپ کی خدمت کرتا تھا، اور اب آپ ہی کی خدمت کروں گا۔‘ اگر آپ ایسا کریں تو آپ اخی تُفل کے مشورے ناکام بنانے میں میری بڑی مدد کریں گے۔ \v 35‏-36 آپ اکیلے نہیں ہوں گے۔ دونوں امام صدوق اور ابیاتر بھی یروشلم میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ دربار میں جو بھی منصوبے باندھے جائیں گے وہ اُنہیں بتائیں۔ صدوق کا بیٹا اخی معض اور ابیاتر کا بیٹا یونتن مجھے ہر خبر پہنچائیں گے، کیونکہ وہ بھی شہر میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔“ \p \v 37 تب داؤد کا دوست حوسی واپس چلا گیا۔ وہ اُس وقت پہنچ گیا جب ابی سلوم یروشلم میں داخل ہو رہا تھا۔ \c 16 \s1 ضیبا مفی بوست کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے \p \v 1 داؤد ابھی پہاڑ کی چوٹی سے کچھ آگے نکل گیا تھا کہ مفی بوست کا ملازم ضیبا اُس سے ملنے آیا۔ اُس کے پاس دو گدھے تھے جن پر زِینیں کسی ہوئی تھیں۔ اُن پر 200 روٹیاں، کشمش کی 100 ٹکیاں، 100 تازہ پھل اور مَے کی ایک مشک لدی ہوئی تھی۔ \v 2 بادشاہ نے پوچھا، ”آپ اِن چیزوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟“ ضیبا نے جواب دیا، ”گدھے بادشاہ کے خاندان کے لئے ہیں، وہ اِن پر بیٹھ کر سفر کریں۔ روٹی اور پھل جوانوں کے لئے ہیں، اور مَے اُن کے لئے جو ریگستان میں چلتے چلتے تھک جائیں۔“ \v 3 بادشاہ نے سوال کیا، ”آپ کے پرانے مالک کا پوتا مفی بوست کہاں ہے؟“ ضیبا نے کہا، ”وہ یروشلم میں ٹھہرا ہوا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ آج اسرائیلی مجھے بادشاہ بنا دیں گے، کیونکہ مَیں ساؤل کا پوتا ہوں۔“ \v 4 یہ سن کر داؤد بولا، ”آج ہی مفی بوست کی تمام ملکیت آپ کے نام منتقل کی جاتی ہے!“ ضیبا نے کہا، ”مَیں آپ کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکتا ہوں۔ رب کرے کہ مَیں اپنے آقا اور بادشاہ کا منظورِ نظر رہوں۔“ \s1 سِمعی داؤد کو لعن طعن کرتا ہے \p \v 5 جب داؤد بادشاہ بحوریم کے قریب پہنچا تو ایک آدمی وہاں سے نکل کر اُس پر لعنتیں بھیجنے لگا۔ آدمی کا نام سِمعی بن جیرا تھا، اور وہ ساؤل کا رشتے دار تھا۔ \v 6 وہ داؤد اور اُس کے افسروں پر پتھر بھی پھینکنے لگا، اگرچہ داؤد کے بائیں اور دائیں ہاتھ اُس کے محافظ اور بہترین فوجی چل رہے تھے۔ \v 7 لعنت کرتے کرتے سِمعی چیخ رہا تھا، ”چل، دفع ہو جا! قاتل! بدمعاش! \v 8 یہ تیرا ہی قصور تھا کہ ساؤل اور اُس کا خاندان تباہ ہوئے۔ اب رب تجھے جو ساؤل کی جگہ تخت نشین ہو گیا ہے اِس کی مناسب سزا دے رہا ہے۔ اُس نے تیرے بیٹے ابی سلوم کو تیری جگہ تخت نشین کر کے تجھے تباہ کر دیا ہے۔ قاتل کو صحیح معاوضہ مل گیا ہے!“ \p \v 9 ابی شے بن ضرویاہ بادشاہ سے کہنے لگا، ”یہ کیسا مُردہ کُتا ہے جو میرے آقا بادشاہ پر لعنت کرے؟ مجھے اجازت دیں، تو مَیں جا کر اُس کا سر قلم کر دوں۔“ \v 10 لیکن بادشاہ نے اُسے روک دیا، ”میرا آپ اور آپ کے بھائی یوآب سے کیا واسطہ؟ نہیں، اُسے لعنت کرنے دیں۔ ہو سکتا ہے رب نے اُسے یہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو پھر ہم کون ہیں کہ اُسے روکیں۔“ \v 11 پھر داؤد تمام افسروں سے بھی مخاطب ہوا، ”جبکہ میرا اپنا بیٹا مجھے قتل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو ساؤل کا یہ رشتے دار ایسا کیوں نہ کرے؟ اِسے چھوڑ دو، کیونکہ رب نے اِسے یہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ \v 12 شاید رب میری مصیبت کا لحاظ کر کے سِمعی کی لعنتیں برکت میں بدل دے۔“ \p \v 13 داؤد اور اُس کے لوگوں نے سفر جاری رکھا۔ سِمعی قریب کی پہاڑی ڈھلان پر اُس کے برابر چلتے چلتے اُس پر لعنتیں بھیجتا اور پتھر اور مٹی کے ڈھیلے پھینکتا رہا۔ \v 14 سب تھکے ماندے دریائے یردن کو پہنچ گئے۔ وہاں داؤد تازہ دم ہو گیا۔ \s1 ابی سلوم یروشلم میں \p \v 15 اِتنے میں ابی سلوم اپنے پیروکاروں کے ساتھ یروشلم میں داخل ہوا تھا۔ اخی تُفل بھی اُن کے ساتھ مل گیا تھا۔ \v 16 تھوڑی دیر کے بعد داؤد کا دوست حوسی ارکی ابی سلوم کے دربار میں حاضر ہو کر پکارا، ”بادشاہ زندہ باد! بادشاہ زندہ باد!“ \v 17 یہ سن کر ابی سلوم نے اُس سے طنزاً کہا، ”یہ کیسی وفاداری ہے جو آپ اپنے دوست داؤد کو دکھا رہے ہیں؟ آپ اپنے دوست کے ساتھ روانہ کیوں نہ ہوئے؟“ \v 18 حوسی نے جواب دیا، ”نہیں، جس آدمی کو رب اور تمام اسرائیلیوں نے مقرر کیا ہے، وہی میرا مالک ہے، اور اُسی کی خدمت میں مَیں حاضر رہوں گا۔ \v 19 دوسرے، اگر کسی کی خدمت کرنی ہے تو کیا داؤد کے بیٹے کی خدمت کرنا مناسب نہیں ہے؟ جس طرح مَیں آپ کے باپ کی خدمت کرتا رہا ہوں اُسی طرح اب آپ کی خدمت کروں گا۔“ \p \v 20 پھر ابی سلوم اخی تُفل سے مخاطب ہوا، ”آگے کیا کرنا چاہئے؟ مجھے اپنا مشورہ پیش کریں۔“ \v 21 اخی تُفل نے جواب دیا، ”آپ کے باپ نے اپنی کچھ داشتاؤں کو محل سنبھالنے کے لئے یہاں چھوڑ دیا ہے۔ اُن کے ساتھ ہم بستر ہو جائیں۔ پھر تمام اسرائیل کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے اپنے باپ کی ایسی بےعزتی کی ہے کہ صلح کا راستہ بند ہو گیا ہے۔ یہ دیکھ کر سب جو آپ کے ساتھ ہیں مضبوط ہو جائیں گے۔“ \v 22 ابی سلوم مان گیا، اور محل کی چھت پر اُس کے لئے خیمہ لگایا گیا۔ اُس میں وہ پورے اسرائیل کے دیکھتے دیکھتے اپنے باپ کی داشتاؤں سے ہم بستر ہوا۔ \p \v 23 اُس وقت اخی تُفل کا ہر مشورہ اللہ کے فرمان جیسا مانا جاتا تھا۔ داؤد اور ابی سلوم دونوں یوں ہی اُس کے مشوروں کی قدر کرتے تھے۔ \c 17 \s1 حوسی اور اخی تُفل \p \v 1 اخی تُفل نے ابی سلوم کو ایک اَور مشورہ بھی دیا۔ ”مجھے اجازت دیں تو مَیں 12,000 فوجیوں کے ساتھ اِسی رات داؤد کا تعاقب کروں۔ \v 2 مَیں اُس پر حملہ کروں گا جب وہ تھکاماندہ اور بےدل ہے۔ تب وہ گھبرا جائے گا، اور اُس کے تمام فوجی بھاگ جائیں گے۔ نتیجتاً مَیں صرف بادشاہ ہی کو مار دوں گا \v 3 اور باقی تمام لوگوں کو آپ کے پاس واپس لاؤں گا۔ جو آدمی آپ پکڑنا چاہتے ہیں اُس کی موت پر سب واپس آ جائیں گے۔ اور قوم میں امن و امان قائم ہو جائے گا۔“ \p \v 4 یہ مشورہ ابی سلوم اور اسرائیل کے تمام بزرگوں کو پسند آیا۔ \v 5 تاہم ابی سلوم نے کہا، ”پہلے ہم حوسی ارکی سے بھی مشورہ لیں۔ کوئی اُسے بُلا لائے۔“ \v 6 حوسی آیا تو ابی سلوم نے اُس کے سامنے اخی تُفل کا منصوبہ بیان کر کے پوچھا، ”آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ہمیں ایسا کرنا چاہئے، یا آپ کی کوئی اَور رائے ہے؟“ \p \v 7 حوسی نے جواب دیا، ”جو مشورہ اخی تُفل نے دیا ہے وہ اِس دفعہ ٹھیک نہیں۔ \v 8 آپ تو اپنے والد اور اُن کے آدمیوں سے واقف ہیں۔ وہ سب ماہر فوجی ہیں۔ وہ اُس ریچھنی کی سی شدت سے لڑیں گے جس سے اُس کے بچے چھین لئے گئے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ آپ کا باپ تجربہ کار فوجی ہے۔ امکان نہیں کہ وہ رات کو اپنے فوجیوں کے درمیان گزارے گا۔ \v 9 غالباً وہ اِس وقت بھی گہری کھائی یا کہیں اَور چھپ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ وہاں سے نکل کر آپ کے دستوں پر حملہ کرے اور ابتدا ہی میں آپ کے تھوڑے بہت افراد مر جائیں۔ پھر افواہ پھیل جائے گی کہ ابی سلوم کے دستوں میں قتلِ عام شروع ہو گیا ہے۔ \v 10 یہ سن کر آپ کے تمام افراد ڈر کے مارے بےدل ہو جائیں گے، خواہ وہ شیرببر جیسے بہادر کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ تمام اسرائیل جانتا ہے کہ آپ کا باپ بہترین فوجی ہے اور کہ اُس کے ساتھی بھی دلیر ہیں۔ \p \v 11 یہ پیشِ نظر رکھ کر مَیں آپ کو ایک اَور مشورہ دیتا ہوں۔ شمال میں دان سے لے کر جنوب میں بیرسبع تک لڑنے کے قابل تمام اسرائیلیوں کو بُلائیں۔ اِتنے جمع کریں کہ وہ ساحل کی ریت کی مانند ہوں گے، اور آپ خود اُن کے آگے چل کر لڑنے کے لئے نکلیں۔ \v 12 پھر ہم داؤد کا کھوج لگا کر اُس پر حملہ کریں گے۔ ہم اُس طرح اُس پر ٹوٹ پڑیں گے جس طرح اوس زمین پر گرتی ہے۔ سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے، اور نہ وہ اور نہ اُس کے آدمی بچ پائیں گے۔ \v 13 اگر داؤد کسی شہر میں پناہ لے تو تمام اسرائیلی فصیل کے ساتھ رسّے لگا کر پورے شہر کو وادی میں گھسیٹ لے جائیں گے۔ پتھر پر پتھر باقی نہیں رہے گا!“ \p \v 14 ابی سلوم اور تمام اسرائیلیوں نے کہا، ”حوسی کا مشورہ اخی تُفل کے مشورے سے بہتر ہے۔“ حقیقت میں اخی تُفل کا مشورہ کہیں بہتر تھا، لیکن رب نے اُسے ناکام ہونے دیا تاکہ ابی سلوم کو مصیبت میں ڈالے۔ \s1 داؤد کو ابی سلوم کا منصوبہ بتایا جاتا ہے \p \v 15 حوسی نے دونوں اماموں صدوق اور ابیاتر کو وہ منصوبہ بتایا جو اخی تُفل نے ابی سلوم اور اسرائیل کے بزرگوں کو پیش کیا تھا۔ ساتھ ساتھ اُس نے اُنہیں اپنے مشورے کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ \v 16 اُس نے کہا، ”اب فوراً داؤد کو اطلاع دیں کہ کسی صورت میں بھی اِس رات کو دریائے یردن کی اُس جگہ پر نہ گزاریں جہاں لوگ دریا کو پار کرتے ہیں۔ لازم ہے کہ آپ آج ہی دریا کو عبور کر لیں، ورنہ آپ تمام ساتھیوں سمیت برباد ہو جائیں گے۔“ \p \v 17 یونتن اور اخی معض یروشلم سے باہر کے چشمے عین راجل کے پاس انتظار کر رہے تھے، کیونکہ وہ شہر میں داخل ہو کر کسی کو نظر آنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ ایک نوکرانی شہر سے نکل آئی اور اُنہیں حوسی کا پیغام دے دیا تاکہ وہ آگے نکل کر اُسے داؤد تک پہنچائیں۔ \v 18 لیکن ایک جوان نے اُنہیں دیکھا اور بھاگ کر ابی سلوم کو اطلاع دی۔ دونوں جلدی جلدی وہاں سے چلے گئے اور ایک آدمی کے گھر میں چھپ گئے جو بحوریم میں رہتا تھا۔ اُس کے صحن میں کنواں تھا۔ اُس میں وہ اُتر گئے۔ \v 19 آدمی کی بیوی نے کنوئیں کے منہ پر کپڑا بچھا کر اُس پر اناج کے دانے بکھیر دیئے تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ وہاں کنواں ہے۔ \p \v 20 ابی سلوم کے سپاہی اُس گھر میں پہنچے اور عورت سے پوچھنے لگے، ”اخی معض اور یونتن کہاں ہیں؟“ عورت نے جواب دیا، ”وہ آگے نکل چکے ہیں، کیونکہ وہ ندی کو پار کرنا چاہتے تھے۔“ سپاہی دونوں آدمیوں کا کھوج لگاتے لگاتے تھک گئے۔ آخرکار وہ خالی ہاتھ یروشلم لوٹ گئے۔ \p \v 21 جب چلے گئے تو اخی معض اور یونتن کنوئیں سے نکل کر سیدھے داؤد بادشاہ کے پاس چلے گئے تاکہ اُسے پیغام سنائیں۔ اُنہوں نے کہا، ”لازم ہے کہ آپ دریا کو فوراً پار کریں!“ پھر اُنہوں نے داؤد کو اخی تُفل کا پورا منصوبہ بتایا۔ \v 22 داؤد اور اُس کے تمام ساتھی جلد ہی روانہ ہوئے اور اُسی رات دریائے یردن کو عبور کیا۔ پَو پھٹتے وقت ایک بھی پیچھے نہیں رہ گیا تھا۔ \p \v 23 جب اخی تُفل نے دیکھا کہ میرا مشورہ رد کیا گیا ہے تو وہ اپنے گدھے پر زِین کس کر اپنے وطنی شہر واپس چلا گیا۔ وہاں اُس نے گھر کے تمام معاملات کا بندوبست کیا، پھر جا کر پھانسی لے لی۔ اُسے اُس کے باپ کی قبر میں دفنایا گیا۔ \p \v 24 جب داؤد محنائم پہنچ گیا تو ابی سلوم اسرائیلی فوج کے ساتھ دریائے یردن کو پار کرنے لگا۔ \v 25 اُس نے عماسا کو فوج پر مقرر کیا تھا، کیونکہ یوآب تو داؤد کے ساتھ تھا۔ عماسا ایک اسماعیلی بنام اِترا کا بیٹا تھا۔ اُس کی ماں ابی جیل بنت ناحس تھی، اور وہ یوآب کی ماں ضرویاہ کی بہن تھی۔ \v 26 ابی سلوم اور اُس کے ساتھیوں نے ملکِ جِلعاد میں پڑاؤ ڈالا۔ \p \v 27 جب داؤد محنائم پہنچا تو تین آدمیوں نے اُس کا استقبال کیا۔ سوبی بن ناحس عمونیوں کے دار الحکومت ربّہ سے، مکیر بن عمی ایل لو دبار سے اور برزلی جِلعادی راجلیم سے آئے۔ \v 28 تینوں نے داؤد اور اُس کے لوگوں کو بستر، باسن، مٹی کے برتن، گندم، جَو، میدہ، اناج کے بُھنے ہوئے دانے، لوبیا، مسور، \v 29 شہد، دہی، بھیڑبکریاں اور گائے کے دودھ کا پنیر مہیا کیا۔ کیونکہ اُنہوں نے سوچا، ”یہ لوگ ریگستان میں چلتے چلتے ضرور بھوکے، پیاسے اور تھکے ماندے ہو گئے ہوں گے۔“ \c 18 \s1 جنگ کے لئے تیاریاں \p \v 1 داؤد نے اپنے فوجیوں کا معائنہ کر کے ہزار ہزار اور سَو سَو افراد پر آدمی مقرر کئے۔ \v 2 پھر اُس نے اُنہیں تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے پر یوآب کو، دوسرے پر اُس کے بھائی ابی شے بن ضرویاہ کو اور تیسرے پر اِتّی جاتی کو مقرر کیا۔ \p اُس نے فوجیوں کو بتایا، ”مَیں خود بھی آپ کے ساتھ لڑنے کے لئے نکلوں گا۔“ \v 3 لیکن اُنہوں نے اعتراض کیا، ”ایسا نہ کریں! اگر ہمیں بھاگنا بھی پڑے یا ہمارا آدھا حصہ مارا بھی جائے تو ابی سلوم کے فوجیوں کے لئے اِتنا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ آپ ہی کو پکڑنا چاہتے ہیں، کیونکہ آپ اُن کے نزدیک ہم میں سے 10,000 افراد سے زیادہ اہم ہیں۔ چنانچہ بہتر ہے کہ آپ شہر ہی میں رہیں اور وہاں سے ہماری حمایت کریں۔“ \p \v 4 بادشاہ نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے، جو کچھ آپ کو معقول لگتا ہے وہی کروں گا۔“ وہ شہر کے دروازے پر کھڑا ہوا، اور تمام مرد سَو سَو اور ہزار ہزار کے گروہوں میں اُس کے سامنے سے گزر کر باہر نکلے۔ \v 5 یوآب، ابی شے اور اِتّی کو اُس نے حکم دیا، ”میری خاطر جوان ابی سلوم سے نرمی سے پیش آنا!“ تمام فوجیوں نے تینوں کمانڈروں سے یہ بات سنی۔ \s1 ابی سلوم کی شکست \p \v 6 داؤد کے لوگ کھلے میدان میں اسرائیلیوں سے لڑنے گئے۔ افرائیم کے جنگل میں اُن کی ٹکر ہوئی، \v 7 اور داؤد کے فوجیوں نے مخالفوں کو شکستِ فاش دی۔ اُن کے 20,000 افراد ہلاک ہوئے۔ \v 8 لڑائی پورے جنگل میں پھیلتی گئی۔ یہ جنگل اِتنا خطرناک تھا کہ اُس دن تلوار کی نسبت زیادہ لوگ اُس کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔ \p \v 9 اچانک داؤد کے کچھ فوجیوں کو ابی سلوم نظر آیا۔ وہ خچر پر سوار بلوط کے ایک بڑے درخت کے سائے میں سے گزرنے لگا تو اُس کے بال درخت کی شاخوں میں اُلجھ گئے۔ اُس کا خچر آگے نکل گیا جبکہ ابی سلوم وہیں آسمان و زمین کے درمیان لٹکا رہا۔ \v 10 جن آدمیوں نے یہ دیکھا اُن میں سے ایک یوآب کے پاس گیا اور اطلاع دی، ”مَیں نے ابی سلوم کو دیکھا ہے۔ وہ بلوط کے ایک درخت میں لٹکا ہوا ہے۔“ \p \v 11 یوآب پکارا، ”کیا آپ نے اُسے دیکھا؟ تو اُسے وہیں کیوں نہ مار دیا؟ پھر مَیں آپ کو انعام کے طور پر چاندی کے دس سِکے اور ایک کمربند دے دیتا۔“ \v 12 لیکن آدمی نے اعتراض کیا، ”اگر آپ مجھے چاندی کے ہزار سِکے بھی دیتے توبھی مَیں بادشاہ کے بیٹے کو ہاتھ نہ لگاتا۔ ہمارے سنتے سنتے بادشاہ نے آپ، ابی شے اور اِتّی کو حکم دیا، ’میری خاطر ابی سلوم کو نقصان نہ پہنچائیں۔‘ \v 13 اور اگر مَیں چپکے سے بھی اُسے قتل کرتا توبھی اِس کی خبر کسی نہ کسی وقت بادشاہ کے کانوں تک پہنچتی۔ کیونکہ کوئی بھی بات بادشاہ سے پوشیدہ نہیں رہتی۔ اگر مجھے اِس صورت میں پکڑا جاتا تو آپ میری حمایت نہ کرتے۔“ \p \v 14 یوآب بولا، ”میرا وقت مزید ضائع مت کرو۔“ اُس نے تین نیزے لے کر ابی سلوم کے دل میں گھونپ دیئے جب وہ ابھی زندہ حالت میں درخت سے لٹکا ہوا تھا۔ \v 15 پھر یوآب کے دس سلاح برداروں نے ابی سلوم کو گھیر کر اُسے ہلاک کر دیا۔ \p \v 16 تب یوآب نے نرسنگا بجا دیا، اور اُس کے فوجی دوسروں کا تعاقب کرنے سے باز آ کر واپس آ گئے۔ \v 17 باقی اسرائیلی اپنے اپنے گھر بھاگ گئے۔ یوآب کے آدمیوں نے ابی سلوم کی لاش کو ایک گہرے گڑھے میں پھینک کر اُس پر پتھروں کا بڑا ڈھیر لگا دیا۔ \p \v 18 کچھ دیر پہلے ابی سلوم اِس خیال سے بادشاہ کی وادی میں اپنی یاد میں ایک ستون کھڑا کر چکا تھا کہ میرا کوئی بیٹا نہیں ہے جو میرا نام قائم رکھے۔ آج تک یہ ’ابی سلوم کی یادگار‘ کہلاتا ہے۔ \s1 داؤد کو ابی سلوم کی موت کی خبر ملتی ہے \p \v 19 اخی معض بن صدوق نے یوآب سے درخواست کی، ”مجھے دوڑ کر بادشاہ کو خوش خبری سنانے دیں کہ رب نے اُسے دشمنوں سے بچا لیا ہے۔“ \v 20 لیکن یوآب نے انکار کیا، ”جو پیغام آپ کو بادشاہ تک پہنچانا ہے وہ اُس کے لئے خوش خبری نہیں ہے، کیونکہ اُس کا بیٹا مر گیا ہے۔ کسی اَور وقت مَیں ضرور آپ کو اُس کے پاس بھیج دوں گا، لیکن آج نہیں۔“ \v 21 اُس نے ایتھوپیا کے ایک آدمی کو حکم دیا، ”جائیں اور بادشاہ کو بتائیں۔“ آدمی یوآب کے سامنے اوندھے منہ جھک گیا اور پھر دوڑ کر چلا گیا۔ \p \v 22 لیکن اخی معض خوش نہیں تھا۔ وہ اصرار کرتا رہا، ”کچھ بھی ہو جائے، مہربانی کر کے مجھے اُس کے پیچھے دوڑنے دیں!“ ایک اَور بار یوآب نے اُسے روکنے کی کوشش کی، ”بیٹے، آپ جانے کے لئے کیوں تڑپتے ہیں؟ جو خبر پہنچانی ہے اُس کے لئے آپ کو انعام نہیں ملے گا۔“ \v 23 اخی معض نے جواب دیا، ”کوئی بات نہیں۔ کچھ بھی ہو جائے، مَیں ہر صورت میں دوڑ کر بادشاہ کے پاس جانا چاہتا ہوں۔“ تب یوآب نے اُسے جانے دیا۔ اخی معض نے دریائے یردن کے کھلے میدان کا راستہ لیا، اِس لئے وہ ایتھوپیا کے آدمی سے پہلے بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ \p \v 24 اُس وقت داؤد شہر کے باہر اور اندر والے دروازوں کے درمیان بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔ جب پہرے دار دروازے کے اوپر کی فصیل پر چڑھا تو اُسے ایک تنہا آدمی نظر آیا جو دوڑتا ہوا اُن کی طرف آ رہا تھا۔ \v 25 پہرے دار نے آواز دے کر بادشاہ کو اطلاع دی۔ داؤد بولا، ”اگر اکیلا ہو تو ضرور خوش خبری لے کر آ رہا ہو گا۔“ یہ آدمی بھاگتا بھاگتا قریب آ گیا، \v 26 لیکن اِتنے میں پہرے دار کو ایک اَور آدمی نظر آیا جو شہر کی طرف دوڑتا ہوا آ رہا تھا۔ اُس نے شہر کے دروازے کے دربان کو آواز دی، ”ایک اَور آدمی دوڑتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ بھی اکیلا ہی آ رہا ہے۔“ داؤد نے کہا، ”وہ بھی اچھی خبر لے کر آ رہا ہے۔“ \v 27 پھر پہرے دار پکارا، ”لگتا ہے کہ پہلا آدمی اخی معض بن صدوق ہے، کیونکہ وہی یوں چلتا ہے۔“ داؤد کو تسلی ہوئی، ”اخی معض اچھا بندہ ہے۔ وہ ضرور اچھی خبر لے کر آ رہا ہو گا۔“ \p \v 28 دُور سے اخی معض نے بادشاہ کو آواز دی، ”بادشاہ کی سلامتی ہو!“ وہ اوندھے منہ بادشاہ کے سامنے جھک کر بولا، ”رب آپ کے خدا کی تمجید ہو! اُس نے آپ کو اُن لوگوں سے بچا لیا ہے جو میرے آقا اور بادشاہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔“ \v 29 داؤد نے پوچھا، ”اور میرا بیٹا ابی سلوم؟ کیا وہ محفوظ ہے؟“ اخی معض نے جواب دیا، ”جب یوآب نے مجھے اور بادشاہ کے دوسرے خادم کو آپ کے پاس رُخصت کیا تو اُس وقت بڑی افرا تفری تھی۔ مجھے تفصیل سے معلوم نہ ہوا کہ کیا ہو رہا ہے۔“ \v 30 بادشاہ نے حکم دیا، ”ایک طرف ہو کر میرے پاس کھڑے ہو جائیں!“ اخی معض نے ایسا ہی کیا۔ \p \v 31 پھر ایتھوپیا کا آدمی پہنچ گیا۔ اُس نے کہا، ”میرے بادشاہ، میری خوش خبری سنیں! آج رب نے آپ کو اُن سب لوگوں سے نجات دلائی ہے جو آپ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔“ \v 32 بادشاہ نے سوال کیا، ”اور میرا بیٹا ابی سلوم؟ کیا وہ محفوظ ہے؟“ ایتھوپیا کے آدمی نے جواب دیا، ”میرے آقا، جس طرح اُس کے ساتھ ہوا ہے، اُس طرح آپ کے تمام دشمنوں کے ساتھ ہو جائے، اُن سب کے ساتھ جو آپ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں!“ \p \v 33 یہ سن کر بادشاہ لرز اُٹھا۔ شہر کے دروازے کے اوپر کی فصیل پر ایک کمرا تھا۔ اب بادشاہ روتے روتے سیڑھیوں پر چڑھنے لگا اور چیختے چلّاتے اُس کمرے میں چلا گیا، ”ہائے میرے بیٹے ابی سلوم! میرے بیٹے، میرے بیٹے ابی سلوم! کاش مَیں ہی تیری جگہ مر جاتا۔ ہائے ابی سلوم، میرے بیٹے، میرے بیٹے!“ \c 19 \s1 یوآب داؤد کو سمجھاتا ہے \p \v 1 یوآب کو اطلاع دی گئی، ”بادشاہ روتے روتے ابی سلوم کا ماتم کر رہا ہے۔“ \v 2 جب فوجیوں کو خبر ملی کہ بادشاہ اپنے بیٹے کا ماتم کر رہا ہے تو فتح پانے پر اُن کی ساری خوشی کافور ہو گئی۔ ہر طرف ماتم اور غم کا سماں تھا۔ \v 3 اُس دن داؤد کے آدمی چوری چوری شہر میں گھس آئے، ایسے لوگوں کی طرح جو میدانِ جنگ سے فرار ہونے پر شرماتے ہوئے چپکے سے شہر میں آ جاتے ہیں۔ \p \v 4 بادشاہ ابھی کمرے میں بیٹھا تھا۔ اپنے منہ کو ڈھانپ کر وہ چیختا چلّاتا رہا، ”ہائے میرے بیٹے ابی سلوم! ہائے ابی سلوم، میرے بیٹے، میرے بیٹے!“ \v 5 تب یوآب اُس کے پاس جا کر اُسے سمجھانے لگا، ”آج آپ کے خادموں نے نہ صرف آپ کی جان بچائی ہے بلکہ آپ کے بیٹوں، بیٹیوں، بیویوں اور داشتاؤں کی جان بھی۔ توبھی آپ نے اُن کا منہ کالا کر دیا ہے۔ \v 6 جو آپ سے نفرت کرتے ہیں اُن سے آپ محبت رکھتے ہیں جبکہ جو آپ سے پیار کرتے ہیں اُن سے آپ نفرت کرتے ہیں۔ آج آپ نے صاف ظاہر کر دیا ہے کہ آپ کے کمانڈر اور دستے آپ کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہاں، آج مَیں نے جان لیا ہے کہ اگر ابی سلوم زندہ ہوتا تو آپ خوش ہوتے، خواہ ہم باقی تمام لوگ ہلاک کیوں نہ ہو جاتے۔ \v 7 اب اُٹھ کر باہر جائیں اور اپنے خادموں کی حوصلہ افزائی کریں۔ رب کی قَسم، اگر آپ باہر نہ نکلیں گے تو رات تک ایک بھی آپ کے ساتھ نہیں رہے گا۔ پھر آپ پر ایسی مصیبت آئے گی جو آپ کی جوانی سے لے کر آج تک آپ پر نہیں آئی ہے۔“ \p \v 8 تب داؤد اُٹھا اور شہر کے دروازے کے پاس اُتر آیا۔ جب فوجیوں کو بتایا گیا کہ بادشاہ شہر کے دروازے میں بیٹھا ہے تو وہ سب اُس کے سامنے جمع ہوئے۔ \s1 داؤد یروشلم واپس آتا ہے \p اِتنے میں اسرائیلی اپنے گھر بھاگ گئے تھے۔ \v 9 اسرائیل کے تمام قبیلوں میں لوگ آپس میں بحث مباحثہ کرنے لگے، ”داؤد بادشاہ نے ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچایا، اور اُسی نے ہمیں فلستیوں کے ہاتھ سے آزاد کر دیا۔ لیکن ابی سلوم کی وجہ سے وہ ملک سے ہجرت کر گیا ہے۔ \v 10 اب جب ابی سلوم جسے ہم نے مسح کر کے بادشاہ بنایا تھا مر گیا ہے تو آپ بادشاہ کو واپس لانے سے کیوں جھجکتے ہیں؟“ \p \v 11 داؤد نے صدوق اور ابیاتر اماموں کی معرفت یہوداہ کے بزرگوں کو اطلاع دی، ”یہ بات مجھ تک پہنچ گئی ہے کہ تمام اسرائیل اپنے بادشاہ کا استقبال کر کے اُسے محل میں واپس لانا چاہتا ہے۔ تو پھر آپ کیوں دیر کر رہے ہیں؟ کیا آپ مجھے واپس لانے میں سب سے آخر میں آنا چاہتے ہیں؟ \v 12 آپ میرے بھائی، میرے قریبی رشتے دار ہیں۔ تو پھر آپ بادشاہ کو واپس لانے میں آخر میں کیوں آ رہے ہیں؟“ \v 13 اور ابی سلوم کے کمانڈر عماسا کو دونوں اماموں نے داؤد کا یہ پیغام پہنچایا، ”سنیں، آپ میرے بھتیجے ہیں، اِس لئے اب سے آپ ہی یوآب کی جگہ میری فوج کے کمانڈر ہوں گے۔ اللہ مجھے سخت سزا دے اگر مَیں اپنا یہ وعدہ پورا نہ کروں۔“ \p \v 14 اِس طرح داؤد یہوداہ کے تمام دلوں کو جیت سکا، اور سب کے سب اُس کے پیچھے لگ گئے۔ اُنہوں نے اُسے پیغام بھیجا، ”واپس آئیں، آپ بھی اور آپ کے تمام لوگ بھی۔“ \v 15 تب داؤد یروشلم واپس چلنے لگا۔ جب وہ دریائے یردن تک پہنچا تو یہوداہ کے لوگ جِلجال میں آئے تاکہ اُس سے ملیں اور اُسے دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچائیں۔ \s1 داؤد سِمعی کو معاف کر دیتا ہے \p \v 16 بن یمینی شہر بحوریم کا سِمعی بن جیرا بھی بھاگ کر یہوداہ کے آدمیوں کے ساتھ داؤد سے ملنے آیا۔ \v 17 بن یمین کے قبیلے کے ہزار آدمی اُس کے ساتھ تھے۔ ساؤل کا پرانا نوکر ضیبا بھی اپنے 15 بیٹوں اور 20 نوکروں سمیت اُن میں شامل تھا۔ بادشاہ کے یردن کے کنارے تک پہنچنے سے پہلے پہلے \v 18 وہ جلدی سے دریا کو عبور کر کے اُس کے پاس آئے تاکہ بادشاہ کے گھرانے کو دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچائیں اور ہر طرح سے بادشاہ کو خوش رکھیں۔ \p داؤد دریا کو پار کرنے کو تھا کہ سِمعی اوندھے منہ اُس کے سامنے گر گیا۔ \v 19 اُس نے التماس کی، ”میرے آقا، مجھے معاف کریں۔ جو زیادتی مَیں نے اُس دن آپ سے کی جب آپ کو یروشلم کو چھوڑنا پڑا وہ یاد نہ کریں۔ براہِ کرم یہ بات اپنے ذہن سے نکال دیں۔ \v 20 مَیں نے جان لیا ہے کہ مجھ سے بڑا جرم سرزد ہوا ہے، اِس لئے آج مَیں یوسف کے گھرانے کے تمام افراد سے پہلے ہی اپنے آقا اور بادشاہ کے حضور آ گیا ہوں۔“ \p \v 21 ابی شے بن ضرویاہ بولا، ”سِمعی سزائے موت کے لائق ہے! اُس نے رب کے مسح کئے ہوئے بادشاہ پر لعنت کی ہے۔“ \v 22 لیکن داؤد نے اُسے ڈانٹا، ”میرا آپ اور آپ کے بھائی یوآب کے ساتھ کیا واسطہ؟ ایسی باتوں سے آپ اِس دن میرے مخالف بن گئے ہیں! آج تو اسرائیل میں کسی کو سزائے موت دینے کا نہیں بلکہ خوشی کا دن ہے۔ دیکھیں، اِس دن مَیں دوبارہ اسرائیل کا بادشاہ بن گیا ہوں!“ \v 23 پھر بادشاہ سِمعی سے مخاطب ہوا، ”رب کی قَسم، آپ نہیں مریں گے۔“ \s1 مفی بوست داؤد سے ملنے آتا ہے \p \v 24 ساؤل کا پوتا مفی بوست بھی بادشاہ سے ملنے آیا۔ اُس دن سے جب داؤد کو یروشلم کو چھوڑنا پڑا آج تک جب وہ سلامتی سے واپس پہنچا مفی بوست ماتم کی حالت میں رہا تھا۔ نہ اُس نے اپنے پاؤں نہ اپنے کپڑے دھوئے تھے، نہ اپنی مونچھوں کی کانٹ چھانٹ کی تھی۔ \v 25 جب وہ بادشاہ سے ملنے کے لئے یروشلم سے نکلا تو بادشاہ نے اُس سے سوال کیا، ”مفی بوست، آپ میرے ساتھ کیوں نہیں گئے تھے؟“ \p \v 26 اُس نے جواب دیا، ”میرے آقا اور بادشاہ، مَیں جانے کے لئے تیار تھا، لیکن میرا نوکر ضیبا مجھے دھوکا دے کر اکیلا ہی چلا گیا۔ مَیں نے تو اُسے بتایا تھا، ’میرے گدھے پر زِین کسو تاکہ مَیں بادشاہ کے ساتھ روانہ ہو سکوں۔‘ اور میرا جانے کا کوئی اَور وسیلہ تھا نہیں، کیونکہ مَیں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوں۔ \v 27 ضیبا نے مجھ پر تہمت لگائی ہے۔ لیکن میرے آقا اور بادشاہ اللہ کے فرشتے جیسے ہیں۔ میرے ساتھ وہی کچھ کریں جو آپ کو مناسب لگے۔ \v 28 میرے دادا کے پورے گھرانے کو آپ ہلاک کر سکتے تھے، لیکن پھر بھی آپ نے میری عزت کر کے اُن مہمانوں میں شامل کر لیا جو روزانہ آپ کی میز پر کھانا کھاتے ہیں۔ چنانچہ میرا کیا حق ہے کہ مَیں بادشاہ سے مزید اپیل کروں۔“ \p \v 29 بادشاہ بولا، ”اب بس کریں۔ مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آپ کی زمینیں آپ اور ضیبا میں برابر تقسیم کی جائیں۔“ \v 30 مفی بوست نے جواب دیا، ”وہ سب کچھ لے لے۔ میرے لئے یہی کافی ہے کہ آج میرے آقا اور بادشاہ سلامتی سے اپنے محل میں واپس آ پہنچے ہیں۔“ \s1 داؤد اور برزلی \p \v 31 برزلی جِلعادی راجلیم سے آیا تھا تاکہ بادشاہ کے ساتھ دریائے یردن کو پار کر کے اُسے رُخصت کرے۔ \v 32 برزلی 80 سال کا تھا۔ محنائم میں رہتے وقت اُسی نے داؤد کی مہمان نوازی کی تھی، کیونکہ وہ بہت امیر تھا۔ \v 33 اب داؤد نے برزلی کو دعوت دی، ”میرے ساتھ یروشلم جا کر وہاں رہیں! مَیں آپ کا ہر طرح سے خیال رکھوں گا۔“ \p \v 34 لیکن برزلی نے انکار کیا، ”میری زندگی کے تھوڑے دن باقی ہیں، مَیں کیوں یروشلم میں جا بسوں؟ \v 35 میری عمر 80 سال ہے۔ نہ مَیں اچھی اور بُری چیزوں میں امتیاز کر سکتا، نہ مجھے کھانے پینے کی چیزوں کا مزہ آتا ہے۔ گیت گانے والوں کی آوازیں بھی مجھ سے سنی نہیں جاتیں۔ نہیں میرے آقا اور بادشاہ، اگر مَیں آپ کے ساتھ جاؤں تو آپ کے لئے صرف بوجھ کا باعث ہوں گا۔ \v 36 اِس کی ضرورت نہیں کہ آپ مجھے اِس قسم کا معاوضہ دیں۔ مَیں بس آپ کے ساتھ دریائے یردن کو پار کروں گا \v 37 اور پھر اگر اجازت ہو تو واپس چلا جاؤں گا۔ مَیں اپنے ہی شہر میں مرنا چاہتا ہوں، جہاں میرے ماں باپ کی قبر ہے۔ لیکن میرا بیٹا کِمہام آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ وہ آپ کے ساتھ چلا جائے تو آپ اُس کے لئے وہ کچھ کریں جو آپ کو مناسب لگے۔“ \p \v 38 داؤد نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے، کِمہام میرے ساتھ جائے۔ اور جو کچھ بھی آپ چاہیں گے مَیں اُس کے لئے کروں گا۔ اگر کوئی کام ہے جو مَیں آپ کے لئے کر سکتا ہوں تو مَیں حاضر ہوں۔“ \p \v 39 پھر داؤد نے اپنے ساتھیوں سمیت دریا کو عبور کیا۔ برزلی کو بوسہ دے کر اُس نے اُسے برکت دی۔ برزلی اپنے شہر واپس چل پڑا \v 40 جبکہ داؤد جِلجال کی طرف بڑھ گیا۔ کِمہام بھی ساتھ گیا۔ اِس کے علاوہ یہوداہ کے سب اور اسرائیل کے آدھے لوگ اُس کے ساتھ چلے۔ \s1 اسرائیل اور یہوداہ آپس میں جھگڑتے ہیں \p \v 41 راستے میں اسرائیل کے مرد بادشاہ کے پاس آ کر شکایت کرنے لگے، ”ہمارے بھائیوں یہوداہ کے لوگوں نے آپ کو آپ کے گھرانے اور فوجیوں سمیت چوری چوری کیوں دریائے یردن کے مغربی کنارے تک پہنچایا؟ یہ ٹھیک نہیں ہے۔“ \p \v 42 یہوداہ کے مردوں نے جواب دیا، ”بات یہ ہے کہ ہم بادشاہ کے قریبی رشتے دار ہیں۔ آپ کو یہ دیکھ کر غصہ کیوں آ گیا ہے؟ نہ ہم نے بادشاہ کا کھانا کھایا، نہ اُس سے کوئی تحفہ پایا ہے۔“ \p \v 43 توبھی اسرائیل کے مردوں نے اعتراض کیا، ”ہمارے دس قبیلے ہیں، اِس لئے ہمارا بادشاہ کی خدمت کرنے کا دس گُنا زیادہ حق ہے۔ تو پھر آپ ہمیں حقیر کیوں جانتے ہیں؟ ہم نے تو پہلے اپنے بادشاہ کو واپس لانے کی بات کی تھی۔“ یوں بحث مباحثہ جاری رہا، لیکن یہوداہ کے مردوں کی باتیں زیادہ سخت تھیں۔ \c 20 \s1 سبع داؤد کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے \p \v 1 جھگڑنے والوں میں سے ایک بدمعاش تھا جس کا نام سبع بن بِکری تھا۔ وہ بن یمینی تھا۔ اب اُس نے نرسنگا بجا کر اعلان کیا، ”نہ ہمیں داؤد سے میراث میں کچھ ملے گا، نہ یسّی کے بیٹے سے کچھ ملنے کی اُمید ہے۔ اے اسرائیل، ہر ایک اپنے گھر واپس چلا جائے!“ \v 2 تب تمام اسرائیلی داؤد کو چھوڑ کر سبع بن بِکری کے پیچھے لگ گئے۔ صرف یہوداہ کے مرد اپنے بادشاہ کے ساتھ لپٹے رہے اور اُسے یردن سے لے کر یروشلم تک پہنچایا۔ \p \v 3 جب داؤد اپنے محل میں داخل ہوا تو اُس نے اُن دس داشتاؤں کا بندوبست کرایا جن کو اُس نے محل کو سنبھالنے کے لئے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ وہ اُنہیں ایک خاص گھر میں الگ رکھ کر اُن کی تمام ضروریات پوری کرتا رہا لیکن اُن سے کبھی ہم بستر نہ ہوا۔ وہ کہیں جا نہ سکیں، اور اُنہیں زندگی کے آخری لمحے تک بیوہ کی سی زندگی گزارنی پڑی۔ \p \v 4 پھر داؤد نے عماسا کو حکم دیا، ”یہوداہ کے تمام فوجیوں کو میرے پاس بُلا لائیں۔ تین دن کے اندر اندر اُن کے ساتھ حاضر ہو جائیں۔“ \v 5 عماسا روانہ ہوا۔ لیکن جب تین دن کے بعد لوٹ نہ آیا \v 6 تو داؤد ابی شے سے مخاطب ہوا، ”آخر میں سبع بن بِکری ہمیں ابی سلوم کی نسبت زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ جلدی کریں، میرے دستوں کو لے کر اُس کا تعاقب کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قلعہ بند شہروں کو قبضے میں لے لے اور یوں ہمارا بڑا نقصان ہو جائے۔“ \v 7 تب یوآب کے سپاہی، بادشاہ کا دستہ کریتی و فلیتی اور تمام ماہر فوجی یروشلم سے نکل کر سبع بن بِکری کا تعاقب کرنے لگے۔ \p \v 8 جب وہ جِبعون کی بڑی چٹان کے پاس پہنچے تو اُن کی ملاقات عماسا سے ہوئی جو تھوڑی دیر پہلے وہاں پہنچ گیا تھا۔ یوآب اپنا فوجی لباس پہنے ہوئے تھا، اور اُس پر اُس نے کمر میں اپنی تلوار کی پیٹی باندھی ہوئی تھی۔ اب جب وہ عماسا سے ملنے گیا تو اُس نے اپنے بائیں ہاتھ سے تلوار کو چوری چوری میان سے نکال لیا۔ \v 9 اُس نے سلام کر کے کہا، ”بھائی، کیا سب ٹھیک ہے؟“ اور پھر اپنے دہنے ہاتھ سے عماسا کی داڑھی کو یوں پکڑ لیا جیسے اُسے بوسہ دینا چاہتا ہو۔ \v 10 عماسا نے یوآب کے دوسرے ہاتھ میں تلوار پر دھیان نہ دیا، اور اچانک یوآب نے اُسے اِتنے زور سے پیٹ میں گھونپ دیا کہ اُس کی انتڑیاں پھوٹ کر زمین پر گر گئیں۔ تلوار کو دوبارہ استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ عماسا فوراً مر گیا۔ \p پھر یوآب اور ابی شے سبع کا تعاقب کرنے کے لئے آگے بڑھے۔ \v 11 یوآب کا ایک فوجی عماسا کی لاش کے پاس کھڑا رہا اور گزرنے والے فوجیوں کو آواز دیتا رہا، ”جو یوآب اور داؤد کے ساتھ ہے وہ یوآب کے پیچھے ہو لے!“ \v 12 لیکن جتنے وہاں سے گزرے وہ عماسا کا خون آلودہ اور تڑپتا ہوا جسم دیکھ کر رُک گئے۔ جب آدمی نے دیکھا کہ لاش رکاوٹ کا باعث بن گئی ہے تو اُس نے اُسے راستے سے ہٹا کر کھیت میں گھسیٹ لیا اور اُس پر کپڑا ڈال دیا۔ \v 13 لاش کے غائب ہو جانے پر سب لوگ یوآب کے پیچھے چلے گئے اور سبع کا تعاقب کرنے لگے۔ \p \v 14 اِتنے میں سبع پورے اسرائیل سے گزرتے گزرتے شمال کے شہر ابیل بیت معکہ تک پہنچ گیا تھا۔ بِکری کے خاندان کے تمام مرد بھی اُس کے پیچھے لگ کر وہاں پہنچ گئے تھے۔ \v 15 تب یوآب اور اُس کے فوجی وہاں پہنچ کر شہر کا محاصرہ کرنے لگے۔ اُنہوں نے شہر کی باہر والی دیوار کے ساتھ ساتھ مٹی کا بڑا تودہ لگایا اور اُس پر سے گزر کر اندر والی بڑی دیوار تک پہنچ گئے۔ وہاں وہ دیوار کی توڑ پھوڑ کرنے لگے تاکہ وہ گر جائے۔ \p \v 16 تب شہر کی ایک دانش مند عورت نے فصیل سے یوآب کے لوگوں کو آواز دی، ”سنیں! یوآب کو یہاں بُلا لیں تاکہ مَیں اُس سے بات کر سکوں۔“ \v 17 جب یوآب دیوار کے پاس آیا تو عورت نے سوال کیا، ”کیا آپ یوآب ہیں؟“ یوآب نے جواب دیا، ”مَیں ہی ہوں۔“ عورت نے درخواست کی، ”ذرا میری باتوں پر دھیان دیں۔“ یوآب بولا، ”ٹھیک ہے، مَیں سن رہا ہوں۔“ \v 18 پھر عورت نے اپنی بات پیش کی، ”پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ ابیل شہر سے مشورہ لو تو بات بنے گی۔ \v 19 دیکھیں، ہمارا شہر اسرائیل کا سب سے زیادہ امن پسند اور وفادار شہر ہے۔ آپ ایک ایسا شہر تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ’اسرائیل کی ماں‘ کہلاتا ہے۔ آپ رب کی میراث کو کیوں ہڑپ کر لینا چاہتے ہیں؟“ \p \v 20 یوآب نے جواب دیا، ”اللہ نہ کرے کہ مَیں آپ کے شہر کو ہڑپ یا تباہ کروں۔ \v 21 میرے آنے کا ایک اَور مقصد ہے۔ افرائیم کے پہاڑی علاقے کا ایک آدمی داؤد بادشاہ کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے جس کا نام سبع بن بِکری ہے۔ اُسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اُسے ہمارے حوالے کریں تو ہم شہر کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔“ \p عورت نے کہا، ”ٹھیک ہے، ہم دیوار پر سے اُس کا سر آپ کے پاس پھینک دیں گے۔“ \v 22 اُس نے ابیل بیت معکہ کے باشندوں سے بات کی اور اپنی حکمت سے اُنہیں قائل کیا کہ ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اُنہوں نے سبع کا سر قلم کر کے یوآب کے پاس پھینک دیا۔ تب یوآب نے نرسنگا بجا کر شہر کو چھوڑنے کا حکم دیا، اور تمام فوجی اپنے اپنے گھر واپس چلے گئے۔ یوآب خود یروشلم میں داؤد بادشاہ کے پاس لوٹ گیا۔ \s1 داؤد کے اعلیٰ افسر \p \v 23 یوآب پوری اسرائیلی فوج پر، بِنایاہ بن یہویدع شاہی دستے کریتی و فلیتی پر \v 24 اور ادورام بیگاریوں پر مقرر تھا۔ یہوسفط بن اخی لُود بادشاہ کا مشیرِ خاص تھا۔ \v 25 سِوا میرمنشی تھا اور صدوق اور ابیاتر امام تھے۔ \v 26 عیرا یائیری داؤد کا ذاتی امام تھا۔ \c 21 \s1 ساؤل کے جرم کا کفارہ \p \v 1 داؤد کی حکومت کے دوران کال پڑ گیا جو تین سال تک جاری رہا۔ جب داؤد نے اِس کی وجہ دریافت کی تو رب نے جواب دیا، ”کال اِس لئے ختم نہیں ہو رہا کہ ساؤل نے جِبعونیوں کو قتل کیا تھا۔“ \p \v 2 تب بادشاہ نے جِبعونیوں کو بُلا لیا تاکہ اُن سے بات کرے۔ اصل میں وہ اسرائیلی نہیں بلکہ اموریوں کا بچا کھچا حصہ تھے۔ ملکِ کنعان پر قبضہ کرتے وقت اسرائیلیوں نے قَسم کھا کر وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو ہلاک نہیں کریں گے۔ لیکن ساؤل نے اسرائیل اور یہوداہ کے لئے جوش میں آ کر اُنہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی۔ \p \v 3 داؤد نے جِبعونیوں سے پوچھا، ”مَیں اُس زیادتی کا کفارہ کس طرح دے سکتا ہوں جو آپ سے ہوئی ہے؟ مَیں آپ کے لئے کیا کروں تاکہ آپ دوبارہ اُس زمین کو برکت دیں جو رب نے ہمیں میراث میں دی ہے؟“ \v 4 اُنہوں نے جواب دیا، ”جو ساؤل نے ہمارے اور ہمارے خاندانوں کے ساتھ کیا ہے اُس کا ازالہ سونے چاندی سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی مناسب نہیں کہ ہم اِس کے عوض کسی اسرائیلی کو مار دیں۔“ داؤد نے سوال کیا، ”تو پھر مَیں آپ کے لئے کیا کروں؟“ \v 5 جِبعونیوں نے کہا، ”ساؤل ہی نے ہمیں ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، وہی ہمیں تباہ کرنا چاہتا تھا تاکہ ہم اسرائیل کی کسی بھی جگہ قائم نہ رہ سکیں۔ \v 6 اِس لئے ساؤل کی اولاد میں سے سات مردوں کو ہمارے حوالے کر دیں۔ ہم اُنہیں رب کے چنے ہوئے بادشاہ ساؤل کے وطنی شہر جِبعہ میں رب کے پہاڑ پر موت کے گھاٹ اُتار کر اُس کے حضور لٹکا دیں۔“ \p بادشاہ نے جواب دیا، ”مَیں اُنہیں آپ کے حوالے کر دوں گا۔“ \v 7 یونتن کا بیٹا مفی بوست ساؤل کا پوتا تو تھا، لیکن بادشاہ نے اُسے نہ چھیڑا، کیونکہ اُس نے رب کی قَسم کھا کر یونتن سے وعدہ کیا تھا کہ مَیں آپ کی اولاد کو کبھی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ \v 8 چنانچہ اُس نے ساؤل کی داشتہ رِصفہ بنت ایّاہ کے دو بیٹوں ارمونی اور مفی بوست کو اور اِس کے علاوہ ساؤل کی بیٹی میرب کے پانچ بیٹوں کو چن لیا۔ میرب برزلی محولاتی کے بیٹے عدری ایل کی بیوی تھی۔ \v 9 اِن سات آدمیوں کو داؤد نے جِبعونیوں کے حوالے کر دیا۔ \p ساتوں آدمیوں کو مذکورہ پہاڑ پر لایا گیا۔ وہاں جِبعونیوں نے اُنہیں قتل کر کے رب کے حضور لٹکا دیا۔ وہ سب ایک ہی دن مر گئے۔ اُس وقت جَو کی فصل کی کٹائی شروع ہوئی تھی۔ \p \v 10 تب رِصفہ بنت ایّاہ ساتوں لاشوں کے پاس گئی اور پتھر پر اپنے لئے ٹاٹ کا کپڑا بچھا کر لاشوں کی حفاظت کرنے لگی۔ دن کے وقت وہ پرندوں کو بھگاتی اور رات کے وقت جنگلی جانوروں کو لاشوں سے دُور رکھتی رہی۔ وہ بہار کے موسم میں فصل کی کٹائی کے پہلے دنوں سے لے کر اُس وقت تک وہاں ٹھہری رہی جب تک بارش نہ ہوئی۔ \p \v 11 جب داؤد کو معلوم ہوا کہ ساؤل کی داشتہ رِصفہ نے کیا کِیا ہے \v 12‏-14 تو وہ یبیس جِلعاد کے باشندوں کے پاس گیا اور اُن سے ساؤل اور اُس کے بیٹے یونتن کی ہڈیوں کو لے کر ساؤل کے باپ قیس کی قبر میں دفنایا۔ (جب فلستیوں نے جِلبوعہ کے پہاڑی علاقے میں اسرائیلیوں کو شکست دی تھی تو اُنہوں نے ساؤل اور یونتن کی لاشوں کو بیت شان کے چوک میں لٹکا دیا تھا۔ تب یبیس جِلعاد کے آدمی چوری چوری وہاں آ کر لاشوں کو اپنے پاس لے گئے تھے۔) داؤد نے جِبعہ میں اب تک لٹکی سات لاشوں کو بھی اُتار کر ضلع میں قیس کی قبر میں دفنایا۔ ضلع بن یمین کے قبیلے کی آبادی ہے۔ \p جب سب کچھ داؤد کے حکم کے مطابق کیا گیا تھا تو رب نے ملک کے لئے دعائیں سن لیں۔ \s1 فلستیوں سے جنگیں \p \v 15 ایک اَور بار فلستیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ داؤد اپنی فوج سمیت فلستیوں سے لڑنے کے لئے نکلا۔ جب وہ لڑتا لڑتا نڈھال ہو گیا تھا \v 16 تو ایک فلستی نے اُس پر حملہ کیا جس کا نام اِشبی بنوب تھا۔ یہ آدمی دیو قامت مرد رفا کی نسل سے تھا۔ اُس کے پاس نئی تلوار اور اِتنا لمبا نیزہ تھا کہ صرف اُس کی پیتل کی نوک کا وزن تقریباً ساڑھے 3 کلو گرام تھا۔ \v 17 لیکن ابی شے بن ضرویاہ دوڑ کر داؤد کی مدد کرنے آیا اور فلستی کو مار ڈالا۔ اِس کے بعد داؤد کے فوجیوں نے قَسم کھائی، ”آئندہ آپ لڑنے کے لئے ہمارے ساتھ نہیں نکلیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ اسرائیل کا چراغ بجھ جائے۔“ \p \v 18 اِس کے بعد اسرائیلیوں کو جوب کے قریب بھی فلستیوں سے لڑنا پڑا۔ وہاں سِبکی حوساتی نے دیو قامت مرد رفا کی اولاد میں سے ایک آدمی کو مار ڈالا جس کا نام سف تھا۔ \p \v 19 جوب کے قریب ایک اَور لڑائی چھڑ گئی۔ اِس کے دوران بیت لحم کے اِلحنان بن یعرے اُرجیم نے جاتی جالوت کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ جالوت کا نیزہ کھڈی کے شہتیر جیسا بڑا تھا۔ \v 20 ایک اَور دفعہ جات کے پاس لڑائی ہوئی۔ فلستیوں کا ایک فوجی جو رفا کی نسل کا تھا بہت لمبا تھا۔ اُس کے ہاتھوں اور پیروں کی چھ چھ اُنگلیاں یعنی مل کر 24 اُنگلیاں تھیں۔ \v 21 جب وہ اسرائیلیوں کا مذاق اُڑانے لگا تو داؤد کے بھائی سِمعہ کے بیٹے یونتن نے اُسے مار ڈالا۔ \v 22 جات کے یہ دیو قامت مرد رفا کی اولاد تھے، اور وہ داؤد اور اُس کے فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ \c 22 \s1 داؤد کا گیت \p \v 1 جس دن رب نے داؤد کو تمام دشمنوں اور ساؤل کے ہاتھ سے بچایا اُس دن بادشاہ نے گیت گایا، \p \v 2 ”رب میری چٹان، میرا قلعہ اور میرا نجات دہندہ ہے۔ \p \v 3 میرا خدا میری چٹان ہے جس میں مَیں پناہ لیتا ہوں۔ وہ میری ڈھال، میری نجات کا پہاڑ، میرا بلند حصار اور میری پناہ گاہ ہے۔ تُو میرا نجات دہندہ ہے جو مجھے ظلم و تشدد سے بچاتا ہے۔ \p \v 4 مَیں رب کو پکارتا ہوں، اُس کی تمجید ہو! تب وہ مجھے دشمنوں سے چھٹکارا دیتا ہے۔ \b \p \v 5 موت کی موجوں نے مجھے گھیر لیا، ہلاکت کے سیلاب نے میرے دل پر دہشت طاری کی۔ \p \v 6 پاتال کے رسّوں نے مجھے جکڑ لیا، موت نے میرے راستے میں اپنے پھندے ڈال دیئے۔ \p \v 7 جب مَیں مصیبت میں پھنس گیا تو مَیں نے رب کو پکارا۔ مَیں نے مدد کے لئے اپنے خدا سے فریاد کی تو اُس نے اپنی سکونت گاہ سے میری آواز سنی، میری چیخیں اُس کے کان تک پہنچ گئیں۔ \b \p \v 8 تب زمین لرز اُٹھی اور تھرتھرانے لگی، آسمان کی بنیادیں رب کے غضب کے سامنے کانپنے اور جھولنے لگیں۔ \p \v 9 اُس کی ناک سے دھواں نکل آیا، اُس کے منہ سے بھسم کرنے والے شعلے اور دہکتے کوئلے بھڑک اُٹھے۔ \p \v 10 آسمان کو جھکا کر وہ نازل ہوا۔ جب اُتر آیا تو اُس کے پاؤں کے نیچے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ \p \v 11 وہ کروبی فرشتے پر سوار ہوا اور اُڑ کر ہَوا کے پَروں پر منڈلانے لگا۔ \p \v 12 اُس نے اندھیرے کو اپنی چھپنے کی جگہ بنایا، بارش کے کالے اور گھنے بادل خیمے کی طرح اپنے ارد گرد لگائے۔ \p \v 13 اُس کے حضور کی تیز روشنی سے شعلہ زن کوئلے پھوٹ نکلے۔ \p \v 14 رب آسمان سے کڑکنے لگا، اللہ تعالیٰ کی آواز گونج اُٹھی۔ \p \v 15 اُس نے اپنے تیر چلا دیئے تو دشمن تتر بتر ہو گئے۔ اُس کی بجلی اِدھر اُدھر گرتی گئی تو اُن میں ہل چل مچ گئی۔ \p \v 16 رب نے ڈانٹا تو سمندر کی وادیاں ظاہر ہوئیں، جب وہ غصے میں گرجا تو اُس کے دم کے جھونکوں سے زمین کی بنیادیں نظر آئیں۔ \b \p \v 17 بلندیوں پر سے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُس نے مجھے پکڑ لیا، گہرے پانی میں سے کھینچ کر مجھے نکال لایا۔ \p \v 18 اُس نے مجھے میرے زبردست دشمن سے بچایا، اُن سے جو مجھ سے نفرت کرتے ہیں، جن پر مَیں غالب نہ آ سکا۔ \p \v 19 جس دن مَیں مصیبت میں پھنس گیا اُس دن اُنہوں نے مجھ پر حملہ کیا، لیکن رب میرا سہارا بنا رہا۔ \p \v 20 اُس نے مجھے تنگ جگہ سے نکال کر چھٹکارا دیا، کیونکہ وہ مجھ سے خوش تھا۔ \b \p \v 21 رب مجھے میری راست بازی کا اجر دیتا ہے۔ میرے ہاتھ صاف ہیں، اِس لئے وہ مجھے برکت دیتا ہے۔ \p \v 22 کیونکہ مَیں رب کی راہوں پر چلتا رہا ہوں، مَیں بدی کر نے سے اپنے خدا سے دُور نہیں ہوا۔ \p \v 23 اُس کے تمام احکام میرے سامنے رہے ہیں، مَیں اُس کے فرمانوں سے نہیں ہٹا۔ \p \v 24 اُس کے سامنے ہی مَیں بےالزام رہا، گناہ کرنے سے باز رہا ہوں۔ \p \v 25 اِس لئے رب نے مجھے میری راست بازی کا اجر دیا، کیونکہ اُس کی آنکھوں کے سامنے ہی مَیں پاک صاف ثابت ہوا۔ \b \p \v 26 اے اللہ، جو وفادار ہے اُس کے ساتھ تیرا سلوک وفاداری کا ہے، جو بےالزام ہے اُس کے ساتھ تیرا سلوک بےالزام ہے۔ \p \v 27 جو پاک ہے اُس کے ساتھ تیرا سلوک پاک ہے۔ لیکن جو کج رَو ہے اُس کے ساتھ تیرا سلوک بھی کج رَوی کا ہے۔ \p \v 28 تُو پست حالوں کو نجات دیتا ہے، اور تیری آنکھیں مغروروں پر لگی رہتی ہیں تاکہ اُنہیں پست کریں۔ \b \p \v 29 اے رب، تُو ہی میرا چراغ ہے، رب ہی میرے اندھیرے کو روشن کرتا ہے۔ \p \v 30 کیونکہ تیرے ساتھ مَیں فوجی دستے پر حملہ کر سکتا، اپنے خدا کے ساتھ دیوار کو پھلانگ سکتا ہوں۔ \b \p \v 31 اللہ کی راہ کامل ہے، رب کا فرمان خالص ہے۔ جو بھی اُس میں پناہ لے اُس کی وہ ڈھال ہے۔ \p \v 32 کیونکہ رب کے سوا کون خدا ہے؟ ہمارے خدا کے سوا کون چٹان ہے؟ \p \v 33 اللہ مجھے قوت سے کمربستہ کرتا، وہ میری راہ کو کامل کر دیتا ہے۔ \p \v 34 وہ میرے پاؤں کو ہرن کی سی پُھرتی عطا کرتا، مجھے مضبوطی سے میری بلندیوں پر کھڑا کرتا ہے۔ \p \v 35 وہ میرے ہاتھوں کو جنگ کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ اب میرے بازو پیتل کی کمان کو بھی تان لیتے ہیں۔ \b \p \v 36 اے رب، تُو نے مجھے اپنی نجات کی ڈھال بخش دی ہے، تیری نرمی نے مجھے بڑا بنا دیا ہے۔ \p \v 37 تُو میرے قدموں کے لئے راستہ بنا دیتا ہے، اِس لئے میرے ٹخنے نہیں ڈگمگاتے۔ \p \v 38 مَیں نے اپنے دشمنوں کا تعاقب کر کے اُنہیں کچل دیا، مَیں باز نہ آیا جب تک وہ ختم نہ ہو گئے۔ \p \v 39 مَیں نے اُنہیں تباہ کر کے یوں پاش پاش کر دیا کہ دوبارہ اُٹھ نہ سکے بلکہ گر کر میرے پاؤں تلے پڑے رہے۔ \p \v 40 کیونکہ تُو نے مجھے جنگ کرنے کے لئے قوت سے کمربستہ کر دیا، تُو نے میرے مخالفوں کو میرے سامنے جھکا دیا۔ \p \v 41 تُو نے میرے دشمنوں کو میرے سامنے سے بھگا دیا، اور مَیں نے نفرت کرنے والوں کو تباہ کر دیا۔ \p \v 42 وہ مدد کے لئے چیختے چلّاتے رہے، لیکن بچانے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ رب کو پکارتے رہے، لیکن اُس نے جواب نہ دیا۔ \p \v 43 مَیں نے اُنہیں چُور چُور کر کے گرد کی طرح ہَوا میں اُڑا دیا۔ مَیں نے اُنہیں گلی میں مٹی کی طرح پاؤں تلے روند کر ریزہ ریزہ کر دیا۔ \b \p \v 44 تُو نے مجھے میری قوم کے جھگڑوں سے بچا کر اقوام پر میری حکومت قائم رکھی ہے۔ جس قوم سے مَیں ناواقف تھا وہ میری خدمت کرتی ہے۔ \p \v 45 پردیسی دبک کر میری خوشامد کرتے ہیں۔ جوں ہی مَیں بات کرتا ہوں تو وہ میری سنتے ہیں۔ \p \v 46 وہ ہمت ہار کر کانپتے ہوئے اپنے قلعوں سے نکل آتے ہیں۔ \b \p \v 47 رب زندہ ہے! میری چٹان کی تمجید ہو! میرے خدا کی تعظیم ہو جو میری نجات کی چٹان ہے۔ \p \v 48 وہی خدا ہے جو میرا انتقام لیتا، اقوام کو میرے تابع کر دیتا \p \v 49 اور مجھے میرے دشمنوں سے چھٹکارا دیتا ہے۔ یقیناً تُو مجھے میرے مخالفوں پر سرفراز کرتا، مجھے ظالموں سے بچائے رکھتا ہے۔ \b \p \v 50 اے رب، اِس لئے مَیں اقوام میں تیری حمد و ثنا کروں گا، تیرے نام کی تعریف میں گیت گاؤں گا۔ \p \v 51 کیونکہ رب اپنے بادشاہ کو بڑی نجات دیتا ہے، وہ اپنے مسح کئے ہوئے بادشاہ داؤد اور اُس کی اولاد پر ہمیشہ تک مہربان رہے گا۔“ \c 23 \s1 داؤد کے آخری الفاظ \p \v 1 درجِ ذیل داؤد کے آخری الفاظ ہیں: \p ”داؤد بن یسّی کا فرمان جسے اللہ نے سرفراز کیا، جسے یعقوب کے خدا نے مسح کر کے بادشاہ بنا دیا تھا، اور جس کی تعریف اسرائیل کے گیت کرتے ہیں، \p \v 2 رب کے روح نے میری معرفت بات کی، اُس کا فرمان میری زبان پر تھا۔ \p \v 3 اسرائیل کے خدا نے فرمایا، اسرائیل کی چٹان مجھ سے ہم کلام ہوئی، ’جو انصاف سے حکومت کرتا ہے، جو اللہ کا خوف مان کر حکمرانی کرتا ہے، \p \v 4 وہ صبح کی روشنی کی مانند ہے، اُس طلوعِ آفتاب کی مانند جب بادل چھائے نہیں ہوتے۔ جب اُس کی کرنیں بارش کے بعد زمین پر پڑتی ہیں تو پودے پھوٹ نکلتے ہیں۔‘ \p \v 5 یقیناً میرا گھرانا مضبوطی سے اللہ کے ساتھ ہے، کیونکہ اُس نے میرے ساتھ ابدی عہد باندھا ہے، ایسا عہد جس کا ہر پہلو منظم اور محفوظ ہے۔ وہ میری نجات تکمیل تک پہنچائے گا اور میری ہر آرزو پوری کرے گا۔ \p \v 6 لیکن بےدین خاردار جھاڑیوں کی مانند ہیں جو ہَوا کے جھونکوں سے اِدھر اُدھر بکھر گئی ہیں۔ کانٹوں کی وجہ سے کوئی بھی ہاتھ نہیں لگاتا۔ \p \v 7 لوگ اُنہیں لوہے کے اوزار یا نیزے کے دستے سے جمع کر کے وہیں کے وہیں جلا دیتے ہیں۔“ \s1 داؤد کے سورما \p \v 8 درجِ ذیل داؤد کے سورماؤں کی فہرست ہے۔ جو تین افسر یوآب کے بھائی ابی شے کے عین بعد آتے تھے اُن میں یوشیب بشیبت تحکمونی پہلے نمبر پر آتا تھا۔ ایک بار اُس نے اپنے نیزے سے 800 آدمیوں کو مار دیا۔ \p \v 9 اِن تین افسروں میں سے دوسری جگہ پر اِلی عزر بن دودو بن اخوحی آتا تھا۔ ایک جنگ میں جب اُنہوں نے فلستیوں کو چیلنج دیا تھا اور اسرائیلی بعد میں پیچھے ہٹ گئے تو اِلی عزر داؤد کے ساتھ \v 10 فلستیوں کا مقابلہ کرتا رہا۔ اُس دن وہ فلستیوں کو مارتے مارتے اِتنا تھک گیاکہ آخرکار تلوار اُٹھا نہ سکا بلکہ ہاتھ تلوار کے ساتھ جم گیا۔ رب نے اُس کی معرفت بڑی فتح بخشی۔ باقی دستے صرف لاشوں کو لُوٹنے کے لئے لوٹ آئے۔ \p \v 11 اُس کے بعد تیسری جگہ پر سمّہ بن اجی ہراری آتا تھا۔ ایک مرتبہ فلستی لحی کے قریب مسور کے کھیت میں اسرائیل کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اسرائیلی فوجی اُن کے سامنے بھاگنے لگے، \v 12 لیکن سمّہ کھیت کے درمیان تک بڑھ گیا اور وہاں لڑتے لڑتے فلستیوں کو شکست دی۔ رب نے اُس کی معرفت بڑی فتح بخشی۔ \p \v 13‏-14 ایک اَور جنگ کے دوران داؤد عدُلام کے غار کے پہاڑی قلعے میں تھا جبکہ فلستی فوج نے وادیٔ رفائیم میں اپنی لشکرگاہ لگائی تھی۔ اُن کے دستوں نے بیت لحم پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ فصل کا موسم تھا۔ داؤد کے تیس اعلیٰ افسروں میں سے تین اُس سے ملنے آئے۔ \v 15 داؤد کو شدید پیاس لگی، اور وہ کہنے لگا، ”کون میرے لئے بیت لحم کے دروازے پر کے حوض سے کچھ پانی لائے گا؟“ \v 16 یہ سن کر تینوں افسر فلستیوں کی لشکرگاہ پر حملہ کر کے اُس میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے بیت لحم کے حوض تک پہنچ گئے۔ اُس سے کچھ پانی بھر کر وہ اُسے داؤد کے پاس لے آئے۔ لیکن اُس نے پینے سے انکار کر دیا بلکہ اُسے قربانی کے طور پر اُنڈیل کر رب کو پیش کیا \v 17 اور بولا، ”رب نہ کرے کہ مَیں یہ پانی پیوں۔ اگر ایسا کرتا تو اُن آدمیوں کا خون پیتا جو اپنی جان پر کھیل کر پانی لائے ہیں۔“ اِس لئے وہ اُسے پینا نہیں چاہتا تھا۔ یہ اِن تین سورماؤں کے زبردست کاموں کی ایک مثال ہے۔ \p \v 18‏-19 یوآب بن ضرویاہ کا بھائی ابی شے مذکورہ تین سورماؤں پر مقرر تھا۔ ایک دفعہ اُس نے اپنے نیزے سے 300 آدمیوں کو مار ڈالا۔ تینوں کی نسبت اُس کی دُگنی عزت کی جاتی تھی، لیکن وہ خود اُن میں گنا نہیں جاتا تھا۔ \p \v 20 بِنایاہ بن یہویدع بھی زبردست فوجی تھا۔ وہ قبضئیل کا رہنے والا تھا، اور اُس نے بہت دفعہ اپنی مردانگی دکھائی۔ موآب کے دو بڑے سورما اُس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ایک بار جب بہت برف پڑ گئی تو اُس نے ایک حوض میں اُتر کر ایک شیرببر کو مار ڈالا جو اُس میں گر گیا تھا۔ \v 21 ایک اَور موقع پر اُس کا واسطہ ایک دیو قامت مصری سے پڑا۔ مصری کے ہاتھ میں نیزہ تھا جبکہ اُس کے پاس صرف لاٹھی تھی۔ لیکن بِنایاہ نے اُس پر حملہ کر کے اُس کے ہاتھ سے نیزہ چھین لیا اور اُسے اُس کے اپنے ہتھیار سے مار ڈالا۔ \v 22 ایسی بہادری دکھانے کی بنا پر بِنایاہ بن یہویدع مذکورہ تین آدمیوں کے برابر مشہور ہوا۔ \v 23 تیس افسروں کے دیگر مردوں کی نسبت اُس کی زیادہ عزت کی جاتی تھی، لیکن وہ مذکورہ تین آدمیوں میں گنا نہیں جاتا تھا۔ داؤد نے اُسے اپنے محافظوں پر مقرر کیا۔ \p \v 24 ذیل کے آدمی بادشاہ کے 30 سورماؤں میں شامل تھے۔ \p یوآب کا بھائی عساہیل، بیت لحم کا اِلحنان بن دودو، \v 25 سمّہ حرودی، اِلیقہ حرودی، \v 26 خلِص فلطی، تقوع کا عیرا بن عقیس، \v 27 عنتوت کا ابی عزر، مبونی حوساتی، \v 28 ضلمون اخوحی، مَہری نطوفاتی، \v 29 حلِب بن بعنہ نطوفاتی، بن یمینی شہر جِبعہ کا اِتّی بن ریبی، \v 30 بِنایاہ فِرعاتونی، نحلے جعس کا ہِدّی، \v 31 ابی علبون عرباتی، عزماوت برحومی، \v 32‏-33 اِلیَحبا سعلبونی، بنی یسین، یونتن بن سمّہ ہراری، اخی آم بن سرار ہراری، \v 34 اِلی فلط بن احسبی معکاتی، اِلی عام بن اخی تُفل جلونی، \v 35 حصرو کرملی، فعری اربی، \v 36 ضوباہ کا اِجال بن ناتن، بانی جادی، \v 37 صِلق عمونی، یوآب بن ضرویاہ کا سلاح بردار نحری بیروتی، \v 38 عیرا اِتری، جریب اِتری \v 39 اور اُوریاہ حِتّی۔ آدمیوں کی کُل تعداد 37 تھی۔ \c 24 \s1 داؤد کی مردم شماری \p \v 1 ایک بار پھر رب کو اسرائیل پر غصہ آیا، اور اُس نے داؤد کو اُنہیں مصیبت میں ڈالنے پر اُکسا کر اُس کے ذہن میں مردم شماری کرنے کا خیال ڈال دیا۔ \p \v 2 چنانچہ داؤد نے فوج کے کمانڈر یوآب کو حکم دیا، ”دان سے لے کر بیرسبع تک اسرائیل کے تمام قبیلوں میں سے گزرتے ہوئے جنگ کرنے کے قابل مردوں کو گن لیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ اُن کی کُل تعداد کیا ہے۔“ \v 3 لیکن یوآب نے اعتراض کیا، ”اے بادشاہ میرے آقا، کاش رب آپ کا خدا آپ کے دیکھتے دیکھتے فوجیوں کی تعداد سَو گُنا بڑھائے۔ لیکن میرے آقا اور بادشاہ اُن کی مردم شماری کیوں کرنا چاہتے ہیں؟“ \v 4 لیکن بادشاہ یوآب اور فوج کے بڑے افسروں کے اعتراضات کے باوجود اپنی بات پر ڈٹا رہا۔ چنانچہ وہ دربار سے روانہ ہو کر اسرائیل کے مردوں کی فہرست تیار کرنے لگے۔ \p \v 5 دریائے یردن کو عبور کر کے اُنہوں نے عروعیر اور وادیٔ ارنون کے بیچ کے شہر میں شروع کیا۔ وہاں سے وہ جد اور یعزیر سے ہو کر \v 6 جِلعاد اور حِتّیوں کے ملک کے شہر قادس تک پہنچے۔ پھر آگے بڑھتے بڑھتے وہ دان اور صیدا کے گرد و نواح کے علاقے \v 7 اور قلعہ بند شہر صور اور حِوّیوں اور کنعانیوں کے تمام شہروں تک پہنچ گئے۔ آخرکار اُنہوں نے یہوداہ کے جنوب کی مردم شماری بیرسبع تک کی۔ \p \v 8 یوں پورے ملک میں سفر کرتے کرتے وہ 9 مہینوں اور 20 دنوں کے بعد یروشلم واپس آئے۔ \v 9 یوآب نے بادشاہ کو مردم شماری کی پوری رپورٹ پیش کی۔ اسرائیل میں تلوار چلانے کے قابل 8 لاکھ افراد تھے جبکہ یہوداہ کے 5 لاکھ مرد تھے۔ \p \v 10 لیکن اب داؤد کا ضمیر اُس کو ملامت کرنے لگا۔ اُس نے رب سے دعا کی، ”مجھ سے سنگین گناہ سرزد ہوا ہے۔ اے رب، اب اپنے خادم کا قصور معاف کر۔ مجھ سے بڑی حماقت ہوئی ہے۔“ \p \v 11 اگلے دن جب داؤد صبح کے وقت اُٹھا تو اُس کے غیب بین جاد نبی کو رب کی طرف سے پیغام مل گیا، \v 12 ”داؤد کے پاس جا کر اُسے بتا دینا، ’رب تجھے تین سزائیں پیش کرتا ہے۔ اِن میں سے ایک چن لے‘۔“ \v 13 جاد داؤد کے پاس گیا اور اُسے رب کا پیغام سنا دیا۔ اُس نے سوال کیا، ”آپ کس سزا کو ترجیح دیتے ہیں؟ اپنے ملک میں سات سال کے دوران کال؟ یا یہ کہ آپ کے دشمن آپ کو بھگا کر تین ماہ تک آپ کا تعاقب کرتے رہیں؟ یا یہ کہ آپ کے ملک میں تین دن تک وبا پھیل جائے؟ دھیان سے اِس کے بارے میں سوچیں تاکہ مَیں اُسے آپ کا جواب پہنچا سکوں جس نے مجھے بھیجا ہے۔“ \p \v 14 داؤد نے جواب دیا، ”ہائے، مَیں کیا کہوں؟ مَیں بہت پریشان ہوں۔ لیکن آدمیوں کے ہاتھ میں پڑنے کی نسبت بہتر ہے کہ مَیں رب ہی کے ہاتھ میں پڑ جاؤں، کیونکہ اُس کا رحم عظیم ہے۔“ \p \v 15 تب رب نے اسرائیل میں وبا پھیلنے دی۔ وہ اُسی صبح شروع ہوئی اور تین دن تک لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارتی گئی۔ شمال میں دان سے لے کر جنوب میں بیرسبع تک کُل 70,000 افراد ہلاک ہوئے۔ \v 16 لیکن جب وبا کا فرشتہ چلتے چلتے یروشلم تک پہنچ گیا اور اُس پر ہاتھ اُٹھانے لگا تو رب نے لوگوں کی مصیبت کو دیکھ کر ترس کھایا اور تباہ کرنے والے فرشتے کو حکم دیا، ”بس کر! اب باز آ۔“ اُس وقت رب کا فرشتہ وہاں کھڑا تھا جہاں ارَوناہ یبوسی اپنا اناج گاہتا تھا۔ \p \v 17 جب داؤد نے فرشتے کو لوگوں کو مارتے ہوئے دیکھا تو اُس نے رب سے التماس کی، ”مَیں ہی نے گناہ کیا ہے، یہ میرا ہی قصور ہے۔ اِن بھیڑوں سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ براہِ کرم اِن کو چھوڑ کر مجھے اور میرے خاندان کو سزا دے۔“ \p \v 18 اُسی دن جاد داؤد کے پاس آیا اور اُس سے کہا، ”ارَوناہ یبوسی کی گاہنے کی جگہ کے پاس جا کر اُس پر رب کی قربان گاہ بنا لے۔“ \v 19 چنانچہ داؤد چڑھ کر گاہنے کی جگہ کے پاس آیا جس طرح رب نے جاد کی معرفت فرمایا تھا۔ \p \v 20 جب ارَوناہ نے بادشاہ اور اُس کے درباریوں کو اپنی طرف چڑھتا ہوا دیکھا تو وہ نکل کر بادشاہ کے سامنے اوندھے منہ جھک گیا۔ \v 21 اُس نے پوچھا، ”میرے آقا اور بادشاہ میرے پاس کیوں آ گئے؟“ داؤد نے جواب دیا، ”مَیں آپ کی گاہنے کی جگہ خریدنا چاہتا ہوں تاکہ رب کے لئے قربان گاہ تعمیر کروں۔ کیونکہ یہ کرنے سے وبا رُک جائے گی۔“ \p \v 22 ارَوناہ نے کہا، ”میرے آقا اور بادشاہ، جو کچھ آپ کو اچھا لگے اُسے لے کر چڑھائیں۔ یہ بَیل بھسم ہونے والی قربانی کے لئے حاضر ہیں۔ اور اناج کو گاہنے اور بَیلوں کو جوتنے کا سامان قربان گاہ پر رکھ کر جلا دیں۔ \v 23 بادشاہ سلامت، مَیں خوشی سے آپ کو یہ سب کچھ دے دیتا ہوں۔ دعا ہے کہ آپ رب اپنے خدا کو پسند آئیں۔“ \p \v 24 لیکن بادشاہ نے انکار کیا، ”نہیں، مَیں ضرور ہر چیز کی پوری قیمت ادا کروں گا۔ مَیں رب اپنے خدا کو ایسی کوئی بھسم ہونے والی قربانی پیش نہیں کروں گا جو مجھے مفت میں مل جائے۔“ \p چنانچہ داؤد نے بَیلوں سمیت گاہنے کی جگہ چاندی کے 50 سِکوں کے عوض خرید لی۔ \v 25 اُس نے وہاں رب کی تعظیم میں قربان گاہ تعمیر کر کے اُس پر بھسم ہونے والی اور سلامتی کی قربانیاں چڑھائیں۔ تب رب نے ملک کے لئے دعا سن کر وبا کو روک دیا۔