\id LUK - Biblica® Open Urdu Contemporary Version \ide UTF-8 \h لُوقا \toc1 لُوقا کی انجیل \toc2 لُوقا \toc3 لُوق \mt1 لُوقا \mt2 کی انجیل \c 1 \s1 پیش لفظ \p \v 1 چونکہ بہت سے لوگوں نے اُن باتوں کو جو ہمارے درمیان واقع ہویٔی ہیں اُنہیں سلسلہ وار بَیان کرنے کی کوشش کی ہے، \v 2 خصوصاً اُن باتوں کو ہم تک اُن لوگوں نے پہُنچایا جو شروع سے ہی اُن کے چشم دید گواہ اَور کلام کے خادِم تھے۔ \v 3 اِس لیٔے اَے محترم تھِیفلُسؔ، مَیں نے خُود شروع سے ہر بات کی خُوب تحقیق کی، اَور مُناسب سمجھا کہ سَب باتوں کو ترتیب وار تحریر کرکے آپ کی خدمت میں پیش کروں، \v 4 تاکہ آپ کو مَعلُوم ہو جائے کہ جِن باتوں کی آپ نے تعلیم پائی ہے وہ کس قدر پُختہ ہیں۔ \s1 حضرت یُوحنّا کی وِلادت کی پیشن گوئی \p \v 5 یہُودیؔہ صُوبہ کے بادشاہ ہیرودیسؔ کے زمانہ میں ایک کاہِنؔ تھا جِس کا نام زکریاؔہ تھا۔ وہ ابیّاہؔ کے فرقہ کہانت سے تعلّق رکھتا تھا؛ اُس کی بیوی، اِلیشاَبیتؔ بھی حضرت ہارونؔ کے خاندان سے تھی۔ \v 6 وہ دونوں خُدا کی نظر میں راستباز تھے اَور خُداوؔند کے سَب اَحکام اَور قوانین پر پُوری طرح بے عیب عَمل کرتے تھے۔ \v 7 لیکن اُن کے اَولاد نہ تھی کیونکہ اِلیشاَبیتؔ بانجھ تھیں اَور دونوں عمر رسیدہ تھے۔ \p \v 8 ایک بار زکریاؔہ کے فرقہ کی باری پر جَب وہ خُدا کے حُضُور کہانت کے فرائض اَنجام دے رہے تھے۔ \v 9 تو کہانت کے دستور کے مُطابق زکریاؔہ کے نام کا قُرعہ نِکلا کہ وہ خُداوؔند کے بیت المُقدّس میں جا کر لوبان جَلائیں۔ \v 10 جَب لوبان جَلانے کا وقت آیا اَور عبادت کرنے والے باہر جمع ہوکر دعا کر رہے تھے۔ \p \v 11 تو خُداوؔند کا ایک فرشتہ زکریاؔہ کو لوبان کے مذبح کی داہنی طرف کھڑا ہُوا دِکھائی دیا۔ \v 12 زکریاؔہ اُسے دیکھ کر، گھبرا گیٔے اَور اُن پر دہشت طاری ہو گئی۔ \v 13 لیکن فرشتہ نے اُن سے کہا: ”ڈرو مت، زکریاؔہ؛ تمہاری دعا سُن لی گئی ہے۔ تمہاری بیوی اِلیشاَبیتؔ سے تمہارے لیٔے ایک بیٹا پیدا ہوگا اَور تُم اُس کا نام یُوحنّا رکھنا۔ \v 14 وہ تمہارے لیٔے خُوشی اَور شادمانی کا باعث ہوگا اَور بہت سے لوگ اُس کی وِلادت سے خُوش ہوں گے \v 15 کیونکہ وہ خُداوؔند کی نظر میں عظیم ٹھہرے گا۔ وہ انگوری شِیرے اَور شراب سے ہمیشہ دُور رہے گا اَور اَپنی ماں کے رحم ہی سے پاک رُوح سے معموُر ہوگا۔ \v 16 وہ بنی اِسرائیلؔ میں سے بہت سے افراد کو خُداوؔند کی طرف جو اُن کا خُدا ہے واپس لے آئے گا۔ \v 17 اَور وہ ایلیّاہ کی رُوح اَور قُوّت میں خُداوؔند کے آگے آگے چلے گا تاکہ والدین کے دِل اُن کی اَولاد کی طرف اَور نافرمانوں کو راستبازوں کی دانائی کی طرف پھیر دے اَور خُداوؔند کے لیٔے ایک مُستعد قوم تیّار کر دے۔“ \p \v 18 زکریاؔہ نے فرشتہ سے پُوچھا، ”میں یہ کیسے یقین کروں؟ میں تو بُوڑھا ہُوں اَور میری بیوی بھی عمر رسیدہ ہے۔“ \p \v 19 فرشتہ نے جَواب دیا، ”میں گیبریلؔ ہُوں۔ میں خُدا کے حُضُور کھڑا رہتا ہُوں، اَور مُجھے اِس لیٔے بھیجا گیا ہے کہ مَیں تُجھ سے کلام کروں اَور تُجھے یہ خُوشخبری سُناؤں۔ \v 20 اَور سُنو! جَب تک یہ باتیں پُوری نہیں ہو جاتیں تمہاری زبان بند رہے گی اَور تُم بول نہ سکوگے، کیونکہ تُم نے میری اِن باتوں کا، یقین نہ کیا جو اَپنے وقت پر پُوری ہُوں گی۔“ \p \v 21 اُس دَوران، لوگ زکریاؔہ کا اِنتظار کر رہے تھے اَور حیران تھے کہ اُنہیں بیت المُقدّس میں اِتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔ \v 22 جَب وہ باہر آئے، تو اُن سے بول نہ سکے۔ وہ سمجھ گیٔے کہ زکریاؔہ نے بیت المُقدّس میں کویٔی رُویا دیکھی ہے، کیونکہ وہ اُن سے اِشاروں میں باتیں کرتے تھے لیکن بول نہیں سکتے تھے۔ \p \v 23 جَب زکریاؔہ کی خدمت کے دِن پُورے ہو گئے، تو وہ گھر چلے گیٔے۔ \v 24 اِس کے بعد زکریاؔہ کی بیوی اِلیشاَبیتؔ حاملہ ہو گئیں اَور اُنہُوں نے خُود کو پانچ مہینوں تک چُھپائے رکھا۔ \v 25 اِلیشاَبیتؔ نے کہا، ”خُداوؔند نے میرے لیٔے یہ کام کیا ہے، خُداوؔند نے اِن دِنوں میں مُجھ پر نظریں کرم کی اَور مُجھے لوگوں میں رُسوا ہونے سے بچا لیا۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ کی وِلادت کی پیشن گوئی \p \v 26 اِلیشاَبیتؔ کے حَمل کے چھٹے مہینے میں، خُدا نے گیبریلؔ فرشتہ کو گلِیل صُوبہ کے ایک شہر ناصرتؔ میں، \v 27 ایک کنواری کے پاس بھیجا جِن کی منگنی حضرت یُوسیفؔ نام کے ایک مَرد سے ہو چُکی تھی، جو حضرت داویؔد کی نَسل سے تھے۔ اُس کنواری کا نام حضرت مریمؔ تھا۔ \v 28 فرشتہ نے اُن کے پاس آکر کہا، ”سلام، آپ پر بڑا فضل ہُواہے! خُداوؔند آپ کے ساتھ ہے۔“ \p \v 29 حضرت مریمؔ، فرشتہ کا کلام سُن کر بہت گھبرا گئیں اَور سوچنے لگیں کہ یہ کیسا سلام ہے۔ \v 30 لیکن فرشتہ نے اُن سے کہا، ”اَے مریمؔ! خوف نہ کر؛ آپ پر خُدا کا فضل ہُواہے۔ \v 31 آپ حاملہ ہوں گی اَور آپ کو ایک بیٹا پیدا ہوگا۔ آپ اُن کا نام یِسوعؔ\f + \fr 1‏:31 \fr*\fq یِسوعؔ \fq*\ft عِبرانی زبان میں \ft*\fqa یِشُوعؔ ہے جِس کے معنی یَاہوِہ نَجات دینے والا ہے۔‏\fqa*\f* رکھنا۔ \v 32 وہ عظیم ہوں گے اَور خُداتعالیٰ کا بیٹا کہلایٔیں گے۔ خُداوؔند خُدا اُن کے باپ حضرت داویؔد کا تخت اُنہیں دے گا، \v 33 اَور وہ حضرت یعقوب کے گھرانے پر ہمیشہ تک بادشاہی کریں گے؛ اُن کی بادشاہی کبھی ختم نہ ہوگی۔“ \p \v 34 حضرت مریمؔ نے فرشتہ سے پُوچھا، ”یہ کس طرح ہوگا، میں تو ابھی کنواری ہی ہُوں؟“ \p \v 35 فرشتہ نے جَواب دیا، ”پاک رُوح آپ پر نازل ہوگا، اَور خُداتعالیٰ کی قُدرت آپ پر سایہ ڈالے گی۔ اِس لیٔے وہ قُدُّوس جو پیدا ہونے والے ہیں، خُدا کا بیٹا کہلایٔیں گے۔ \v 36 اَور دیکھو، آپ کی رشتہ دار، اِلیشاَبیتؔ کے بُڑھاپے میں بھی بیٹا ہونے والا ہے، جنہیں لوگ بانجھ کہتے تھے وہ چھ ماہ سے حاملہ ہیں۔ \v 37 کیونکہ خُدا کا کویٔی بھی کلام کبھی ناکام نہیں ہوتا۔“ \p \v 38 حضرت مریمؔ نے جَواب دیا، ”میں تو خُداوؔند کی بندی ہُوں، جَیسا آپ نے مُجھ سے کہا ہے وَیسا ہی ہو۔“ تَب فرشتہ اُن کے پاس سے چلا گیا۔ \s1 حضرت مریمؔ اَور اِلیشاَبیتؔ کی مُلاقات \p \v 39 اُن ہی دِنوں میں حضرت مریمؔ تیّار ہوکر فوراً یہُودیؔہ کے پہاڑی علاقہ کے ایک شہر کو گئیں، \v 40 اَور حضرت زکریاؔہ کے گھر میں داخل ہوکر اِلیشاَبیتؔ کو سلام کیا۔ \v 41 جَب اِلیشاَبیتؔ نے حضرت مریمؔ کا سلام سُنا تو، بچّہ اُن کے رحم میں اُچھل پڑا اَور اِلیشاَبیتؔ پاک رُوح سے بھر گئیں۔ \v 42 اَور بُلند آواز سے پُکار کر کہنے لگیں: ”آپ عورتوں میں مُبارک ہیں، اَور مُبارک ہے آپ کا پیدا ہونے والا بچّہ! \v 43 لیکن مُجھ پر یہ فضل کِس لیٔے ہُوا، کہ میرے خُداوؔند کی ماں میرے پاس آئی؟ \v 44 کیونکہ جُوں ہی آپ کے سلام کی آواز میرے کانوں میں پہُنچی، بچّہ خُوشی کے مارے میرے پیٹ میں اُچھل پڑا۔ \v 45 مُبارک ہو تُم جو ایمان لائیں کہ خُداوؔند نے جو کُچھ آپ سے کہا وہ پُورا ہوکر رہے گا!“ \s1 حضرت مریمؔ کا نغمہ \p \v 46 اَور مریمؔ نے کہا: \q1 ”میری جان خُداوؔند کی تعظیم کرتی ہے۔ \q2 \v 47 اَور میری رُوح میرے مُنجّی خُدا سے نہایت خُوش ہے، \q1 \v 48 کیونکہ خُدا نے اَپنی خادِمہ کی \q2 پست حالی پر نظر کی ہے۔ \q1 اَب سے لے کر ہر زمانہ کے لوگ مُجھے مُبارک کہیں گے، \q2 \v 49 کیونکہ خُدائے قادر نے میرے لیٔے بڑے بڑے کام کیٔے ہیں۔ \q2 اَور اُن کا نام قُدُّوس ہے۔ \q1 \v 50 خُدا کی رحمت اُس سے ڈرنے والوں پر، \q2 نَسل بہ نَسل جاری رہتی ہے۔ \q1 \v 51 خُدا نے اَپنے بازو سے عظیم کام کیٔے ہیں؛ \q2 جو اَپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے، اُس نے اُنہیں پراگندہ کر دیا۔ \q1 \v 52 خُدا نے حُکمرانوں کو اُن کے تخت سے اُتار دیا \q2 لیکن حلیموں کو سرفراز کر دیا۔ \q1 \v 53 خُدا نے بھُوکوں کو اَچھّی چیزوں سے سیر کر دیا \q2 لیکن دولتمندوں کو خالی ہاتھ لَوٹا دیا۔ \q1 \v 54 خُدا نے اَپنے خادِم اِسرائیلؔ کی مدد کی ہے، \q2 خُدا نے اَپنے رحم دِل ہونے کے وعدہ کو یاد رکھا ہے \q1 \v 55 جو خُدا نے اَبدی وعدہ حضرت اَبراہامؔ اَور اُن کی نَسل سے، \q2 اَور ہمارے باپ دادا، سے کیا تھا۔“ \p \v 56 اَور حضرت مریمؔ تقریباً تین ماہ تک اِلیشاَبیتؔ کے ساتھ رہیں۔ پھر اَپنے گھر لَوٹ گئیں۔ \s1 حضرت یُوحنّا کی وِلادت \p \v 57 اَب اِلیشاَبیتؔ کے وضعِ حَمل کا وقت آ پہُنچا، تو اُن کے ایک بیٹا پیدا ہُوا۔ \v 58 اُن کے پڑوسیوں اَور رشتہ داروں نے یہ سُن کر کہ خُداوؔند نے اِلیشاَبیتؔ پر بڑی رحمت کی ہے، اُن کے ساتھ مِل کر خُوشی منائی۔ \p \v 59 آٹھویں دِن وہ بچّے کا ختنہ کرنے کے لیٔے آئے اَور بچّہ کا نام اُس کے باپ کے نام پر زکریاؔہ رکھنے لگے۔ \v 60 لیکن اُن کی ماں بول اُٹھیں اَور کہنے لگیں، ”نہیں! بچّہ کا نام یُوحنّا ہوگا۔“ \p \v 61 اُنہُوں نے اِلیشاَبیتؔ سے کہا، ”تمہارے خاندان میں کویٔی بھی اِس نام کا نہیں ہے۔“ \p \v 62 تَب اُنہُوں نے بچّے کے باپ سے اِشاروں میں پُوچھا، کہ تُم بچّے کا نام کیا رکھنا چاہتے ہو۔ \v 63 حضرت زکریاؔہ نے تختی منگوائی، اَور اُس پر یہ لِکھ کر سَب کو حیرت میں ڈال دیا کہ، ”بچّہ کا نام یُوحنّا ہے۔“ \v 64 اُسی وقت حضرت زکریاؔہ کا مُنہ کھُل گیا اَور اُن کی زبان کام کرنے لگی، اَور وہ بولنے لگے، اَور خُدا کی تعریف کرنے لگے۔ \v 65 اِس واقعہ سے پڑوس کے تمام لوگوں پر دہشت چھاگئی، اَور یہُودیؔہ کے تمام پہاڑی علاقوں میں اِن سَب باتوں کا تذکرہ ہونے لگا۔ \v 66 اَور سَب سُننے والے حیران ہوکر سوچتے تھے کہ، ”یہ بچّہ بڑا ہوکر کیا بنے گا؟“ کیونکہ خُداوؔند کا ہاتھ اُن کے ساتھ تھا۔ \s1 حضرت زکریاؔہ کا نغمہ \p \v 67 تَب اُن کے باپ زکریاؔہ پاک رُوح سے معموُر ہوکر نبُوّت کرنے لگے: \q1 \v 68 ”اِسرائیلؔ کے خُداوؔند، خُدا کی حَمد ہو، \q2 کیونکہ خُدا نے آکر اَپنے لوگوں کو مخلصی بخشی۔ \q1 \v 69 اُس نے اَپنے خادِم حضرت داویؔد کے گھرانے میں ہمارے لیٔے \q2 ایک طاقتور سینگ\f + \fr 1‏:69 \fr*\fq سینگ \fq*\ft یعنی \ft*\fqa یہاں پر ایک مضبُوط بادشاہ کی علامت ہے۔‏\fqa*\f* نَجات دِہندہ کو بھیجا \q1 \v 70 (جَیسا اُس نے زمانہ قدیم میں اَپنے مُقدّس نبیوں کے مَعرفت فرمایا تھا)، \q1 \v 71 تاکہ ہم اَپنے سبھی دُشمنوں سے \q2 اَور نفرت رکھنے والوں سے نَجات پائیں \q1 \v 72 کہ وہ ہمارے باپ دادا پر رحم کرے \q2 اَور اَپنے پاک عہد کو یاد فرمایٔے، \q2 \v 73 یعنی اُس قَسم کو جو اُس نے ہمارے باپ حضرت اَبراہامؔ سے کھائی تھی: \q1 \v 74 کہ وہ ہمیں ہمارے دُشمنوں سے چُھڑائے گا، \q2 اَور ہمیں بے خوف اَپنی خدمت کرنے کے لائق بنائے گا، \q2 \v 75 تاکہ اُس کی حُضُوری میں پاکیزگی اَور راستبازی سے زندگی بھر رہ سکیں۔ \b \b \q1 \v 76 ”اَور اَے میرے بچّے، تُو خُداتعالیٰ کا نبی کہلائے گا؛ \q2 کیونکہ تُم خُداوؔند کے آگے آگے چل کر اُن کی راہ تیّار کروگے، \q1 \v 77 تاکہ خُداوؔند کے لوگوں کو نَجات کا علم بخشو، \q2 جو گُناہوں کی مُعافی سے حاصل ہوتی ہے، \q1 \v 78 ہمارے خُدا کی اُس بڑی رحمت کی وجہ سے، \q2 ہم پر عالمِ بالا کا آفتاب طُلوع ہوگا \q1 \v 79 تاکہ اُن کو رَوشنی بخشے جو تاریکی \q2 اَور موت کے سایہ میں بیٹھے ہیں، \q1 اَور ہمارے قدموں کو سلامتی کی راہ پر لے چلے۔“ \p \v 80 اَور وہ بچّہ بڑھتا گیا اَور رُوحانی\f + \fr 1‏:80 \fr*\fq رُوحانی \fq*\ft یا \ft*\fqa پاک رُوح میں‏\fqa*\f* طور پر قُوّت پاتا گیا؛ اَور اِسرائیلؔ پر عام طور پر ظاہر ہونے سے پہلے بیابان میں رہا۔ \c 2 \s1 حُضُور یِسوعؔ کی وِلادت \p \v 1 اُن دِنوں میں قَیصؔر اَوگُستُسؔ کی طرف سے فرمان جاری ہُوا کہ رُومی حُکومت کی ساری دُنیا کے لوگوں کی اِسم نویسی کی جایٔیں۔ \v 2 (یہ پہلی اِسم نویسی تھی جو سِیریؔا کے حاکم کورِنِیُسؔ کے عہد میں ہویٔی۔) \v 3 اَور سَب لوگ نام لکھوانے کے لیٔے اَپنے اَپنے شہر کو گیٔے۔ \p \v 4 یُوسیفؔ بھی گلِیل کے شہر ناصرتؔ سے یہُودیؔہ میں حضرت داویؔد کے شہر بیت لحمؔ کو روانہ ہُوا کیونکہ وہ داویؔد کے گھرانے اَور اَولاد سے تھا۔ \v 5 تاکہ وہاں اَپنی ہونے والی بیوی مریمؔ کے ساتھ جو حاملہ تھی، نام لکھوائے۔ \v 6 جَب وہ وہاں تھے تو اُن کے وضعِ حَمل کا وقت آ پہُنچا۔ \v 7 اَور اُن کا پہلوٹھا بیٹا پیدا ہُوا۔ اَور اُنہُوں نے اُسے کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ اُن کے لیٔے سرائے میں کویٔی جگہ نہ تھی۔ \p \v 8 اُسی علاقہ میں کُچھ چرواہے تھے جو رات کے وقت میدان میں اَپنے ریوڑ کی نگہبانی کر رہے تھے۔ \v 9 اَور خُداوؔند کا فرشتہ اُن پر ظاہر ہُوا اَور خُداوؔند کا جلال اُن کے چاروں طرف چمکا، اَور وہ بُری طرح ڈر گیٔے۔ \v 10 لیکن فرشتہ نے اُن سے کہا، ”ڈرو مت کیونکہ مَیں تُمہیں بڑی خُوشخبری کی بشارت دیتا ہُوں جو ساری اُمّت کے واسطے ہوگی۔ \v 11 کہ آج داویؔد کے شہر میں تمہارے لیٔے ایک مُنجّی پیدا ہُواہے؛ یہی المسیح اَور خُداوؔند ہے۔ \v 12 اَور اُس کا تمہارے لیٔے یہ نِشان ہوگا کہ تُم ایک بچّے کو کپڑے میں لپٹا اَور چرنی میں پڑا ہُوا پاؤگے۔“ \p \v 13 یَکایک آسمان سے فرشتوں کا ایک لشکر اُس فرشتہ کے ساتھ خُدا کی تمجید کرتے اَور یہ کہتے ہویٔے ظاہر ہُوا، \q1 \v 14 ”عالمِ بالا پر خُدا کی تمجید ہو، \q2 اَور زمین پر اُن آدمیوں پر خُدا کی سلامتی جِن پر وہ مہربان ہے۔“ \p \v 15 جَب فرشتے اُن کے پاس سے آسمان پر چلے گیٔے تو چرواہوں نے آپَس میں کہا، ”آؤ ہم بیت لحمؔ چلیں اَور جِس واقعہ کی خبر خُداوؔند نے ہمیں دی ہے اُسے دیکھیں۔“ \p \v 16 لہٰذا وہ جلدی سے روانہ ہُوئے اَور مریمؔ، یُوسیفؔ اَور بچّے سے ملے جو چرنی میں پڑا تھا۔ \v 17 اَور بچّے کو دیکھ کر وہ باتیں جو اُنہیں اُس کے بارے میں بتایٔی گئی تھیں، اُنہیں مشہُور کر دیا۔ \v 18 اَور چرواہوں کی باتیں سُن کر سارے لوگ تعجُّب کرنے لگے۔ \v 19 لیکن مریمؔ ساری باتوں کو دِل میں رکھ کر اُن پر غور کرتی رہیں۔ \v 20 اَور چرواہے جَیسا اُنہیں بتایا گیا تھا وَیسا ہی سَب کُچھ دیکھ کر اَور سُن کر خُدا کی تمجید اَور تعریف کرتے ہُوئے واپس چلے گیٔے۔ \p \v 21 آٹھویں دِن جَب اُس کے ختنہ کا وقت آیا تو اُس کا نام یِسوعؔ رکھا گیا۔ یہ وُہی نام ہے جو فرشتہ نے اُسے مریمؔ کے حاملہ ہونے سے پہلے دیا تھا۔ \s1 حُضُور یِسوعؔ کا بیت المُقدّس میں پیش کیاجانا \p \v 22 جَب حضرت مَوشہ کی شَریعت کے مُطابق اُن کے پاک ہونے کے دِن پُورے ہو گئے تو یُوسیفؔ اَور مریمؔ اُسے یروشلیمؔ لے گیٔے تاکہ اُسے خُداوؔند کو پیش کریں \v 23 (جَیسا کہ خُداوؔند کی شَریعت میں لِکھّا ہُواہے، ”ہر پہلوٹھا خُداوؔند کے لیٔے مُقدّس ٹھہرے گا“\f + \fr 2‏:23 \fr*\ft \+xt خُرو 13‏:2‏،12‏\+xt*‏\ft*\f*)، \v 24 اَور خُداوؔند کی شَریعت کے مُطابق، ”قُمرِیوں کا ایک جوڑا یا کبُوتر کے دو بچّے قُربانی کے لیٔے لائیں۔“\f + \fr 2‏:24 \fr*\ft \+xt اَحبا 12‏:8‏\+xt*‏\ft*\f* \p \v 25 اُس وقت یروشلیمؔ میں ایک آدمی تھا جِس کا نام شمعُونؔ تھا۔ وہ راستباز اَور خُداپرست تھا۔ وہ اِسرائیلؔ کے تسلّی پانے کی راہ دیکھ رہاتھا اَور پاک رُوح اُس پر تھا۔ \v 26 پاک رُوح نے اُس پر نازل کر دیا تھا کہ جَب تک وہ خُداوؔند کے المسیح کو دیکھ نہ لے گا، مَرے گا نہیں۔ \v 27 وہ رُوح کی ہدایت سے بیت المُقدّس میں آیا اَور جَب یِسوعؔ کے والدین اُسے اَندر لایٔے تاکہ شَریعت کے فرائض اَنجام دیں \v 28 تو شمعُونؔ نے اُسے گود میں لے لیا اَور خُدا کی حَمد کرکے کہنے لگا: \q1 \v 29 ”اَے خُداوؔند! تُو اَپنے وعدہ کے مُطابق، \q2 اَب اَپنے خادِم کو سلامتی سے رخصت کر۔ \q1 \v 30 کیونکہ میری آنکھوں نے تیری نَجات کو دیکھ لیا ہے، \q2 \v 31 جسے آپ نے ساری اُمّتوں کے سامنے تیّار کیا ہے: \q1 \v 32 وہ غَیریہُودیوں کے لیٔے مُکاشفہ کا نُور \q2 اَور تمہاری اُمّت اِسرائیلؔ کا جلال ہے۔“ \p \v 33 اَور بچّے کے ماں باپ اِن باتوں کو جو اُس کے بارے میں کہی جا رہی تھیں، تعجُّب سے سُن رہے تھے۔ \v 34 تَب شمعُونؔ نے اُنہیں برکت دی اَور اُس کی ماں مریمؔ سے کہا: ”دیکھ! یہ طے ہو چُکاہے کہ یہ بچّہ اِسرائیلؔ میں بہت سے لوگوں کے زوال اَور عروج کا باعث ہوگا اَور اَیسا نِشان بنے گا جِس کی مُخالفت کی جائے گی۔ \v 35 تاکہ بہت سے دِلوں کے اَندیشے ظاہر ہو جایٔیں اَور غم کی تلوار تیری جان کو بھی چھید ڈالے گی۔“ \p \v 36 وہاں ایک عورت بھی تھی جو نبیّہ تھی۔ اُس کا نام حنّاؔ تھا۔ وہ آشؔر کے قبیلہ کے ایک شخص فنوایلؔ کی بیٹی تھی۔ وہ بڑی عمر رسیدہ تھی اَور اَپنی شادی کے بعد سات سال تک اَپنے شوہر کے ساتھ رہی تھی۔ \v 37 اَب وہ بِیوہ تھی اَور چَوراسی بَرس کی ہو چُکی تھی۔ وہ بیت المُقدّس سے جُدا نہ ہوتی تھی بَلکہ رات دِن روزوں اَور دعاؤں کے ساتھ عبادت میں لگی رہتی تھی۔ \v 38 اُس وقت وہ بھی وہاں آکر خُدا کا شُکر اَدا کرنے لگی اَور اُن سَب سے جو یروشلیمؔ کی مخلصی کے مُنتظر تھے، اُس بچّے کے بارے میں گُفتگو کرنے لگی۔ \p \v 39 جَب یُوسیفؔ اَور مریمؔ خُداوؔند کی شَریعت کے مُطابق سارے کام اَنجام دے چُکے تو گلِیل میں اَپنے شہر ناصرتؔ کو لَوٹ گیٔے۔ \v 40 اَور وہ بچّہ بڑھتا اَور قُوّت پاتا گیا اَور حِکمت سے معموُر؛ ہوتا گیا اَور خُدا کا فضل اُس پر تھا۔ \s1 بَارہ سال کی عمر میں حُضُور یِسوعؔ بیت المُقدّس میں \p \v 41 اُس کے والدین ہر سال عیدِفسح\f + \fr 2‏:41 \fr*\fq عیدِفسح \fq*\ft یعنی \ft*\fqa یہُودیوں کی سَب سے بڑی عید، اِس دِن برّہ ذبح کیا جاتا تھا‏۔‏\fqa*\f* کے لیٔے یروشلیمؔ جایا کرتے تھے۔ \v 42 جَب وہ بَارہ بَرس کا ہو گیا تو وہ عید کے دستور کے مُطابق یروشلیمؔ گیٔے۔ \v 43 جَب عید کے دِن گزر گئے تو اُس کے والدین واپس آئے لیکن لڑکا یِسوعؔ یروشلیمؔ میں ہی ٹھہرگیا لیکن اُس کے والدین کو اِس بات کی خبر نہ تھی۔ \v 44 اُن کا خیال تھا کہ وہ قافلہ کے ساتھ ہے۔ لہٰذا وہ ایک مَنزل آگے نکل گیٔے اَور اُسے اَپنے رشتہ داروں اَور دوستوں میں ڈھونڈنے لگے۔ \v 45 جَب وہ اُنہیں نہیں مِلا تو اُس کی جُستُجو میں یروشلیمؔ واپس آئے۔ \v 46 تین دِن کے بعد اُنہُوں نے اُسے بیت المُقدّس کے اَندر اُستادوں کے درمیان بیٹھے ہُوئے اُن کی سُنتے اَور اُن سے سوال کرتے پایا۔ \v 47 اَورجو لوگ اُن کی باتیں سُن رہے تھے وہ اُن کی ذہانت اَور اُس کے جَوابوں پر حیرت زدہ تھے۔ \v 48 جَب اُن کے والدین نے اُنہیں دیکھا تو اُنہیں حیرت ہویٔی۔ اُن کی ماں نے اُن سے پُوچھا، ”بیٹا، تُونے ہم سے اَیسا سلُوک کیوں کیا؟ تیرے اَبّا اَور مَیں تُجھے ڈھونڈتے ہویٔے پریشان ہو گئے تھے۔“ \p \v 49 یِسوعؔ نے پُوچھا، ”آپ لوگ مُجھے کیوں ڈھونڈتے پھرتے تھے؟ کیا آپ لوگوں کو مَعلُوم نہ تھا کہ مُجھے اَپنے باپ کے گھر میں ہونا ضروُری ہے؟“ \v 50 لیکن وہ سمجھ نہ پایٔے کہ وہ اُن سے کیا کہہ رہاہے۔ \p \v 51 تَب وہ اُن کے ساتھ روانہ ہوکر ناصرتؔ میں آیا اَور اُن کے تابع رہا اَور اُس کی ماں نے یہ ساری باتیں اَپنے دِل میں رکھیں۔ \v 52 اَور یِسوعؔ حِکمت اَور قد وقامت میں بڑھتے اَور خُدا اَور اِنسان کی نظر میں مقبُول ہوتے چلے گیٔے۔ \c 3 \s1 حضرت یُوحنّا کا حُضُور یِسوعؔ کی لئے راہ تیّار کرنا \p \v 1 قَیصؔر تِبریُس کی حُکومت کے پندرھویں بَرس جَب پُنطِیُس پِیلاطُسؔ یہُودیؔہ کا حاکم تھا اَور ہیرودیسؔ گلِیل کے چوتھائی حِصّہ پر اَور اُس کا بھایٔی فِلِپُّسؔ، اِتُوریہ اَور تَرخونؔی تِس چوتھائی حِصّہ اَور لِسانیاسؔ، اَبلینےؔ کے چوتھائی حِصّہ پر حُکمراں تھا \v 2 اَور حنّاؔ اَور کائِفؔا اعلیٰ کاہِن تھے۔ اُس وقت خُدا کا کلام بیابان میں زکریاؔہ کے بیٹے حضرت یُوحنّا پر نازل ہُوا۔ \v 3 اَور وہ یردنؔ کے اِردگرد کے علاقوں میں جا کر گُناہوں کی مُعافی کے واسطے تَوبہ کرنے اَور پاک غُسل لینے کی مُنادی کرنے لگے۔ \v 4 جَیسا کہ حضرت یَشعیاہ نبی نے اَپنے صحیفہ میں لِکھّا ہے: \q1 ”بیابان میں کویٔی پُکار رہاہے، \q1 ’خُداوؔند کے لیٔے راہ تیّار کرو، \q2 اُس کے لیٔے راہیں سیدھی بناؤ۔ \q1 \v 5 ہر وادی بھر دی جائے گی، \q2 اَور ہر پہاڑ اَور ٹیلا نیچا کر دیا جائے گا۔ \q1 ٹیڑھے راستے سیدھے کر دئیے جایٔیں گے، \q2 اَور ناہموار راہیں ہموار بنا دی جایٔیں گی۔ \q1 \v 6 اَور تمام بنی نَوع اِنسان خُدا کی نَجات دیکھیں گے۔‘ “\f + \fr 3‏:6 \fr*\ft \+xt یَشع 40‏:3‏‑5‏\+xt*‏\ft*\f* \p \v 7 حضرت یُوحنّا اُس ہُجوم سے جو گِروہ در گِروہ اُن کے پاس پاک غُسل لینے کے لیٔے آ رہاتھا اُن سے کہا، ”اَے زہریلے سانپ کے بچّو! تُمہیں کس نے آگاہ کر دیا کہ آنے والے غضب سے بچ کر بھاگ نکلو؟ \v 8 اَپنی تَوبہ کے لائق پھل بھی لاؤ۔ اَور خُود سے اِس گُمان میں نہ رہنا کہ تُم کہنے لگو، ’ہم تو حضرت اَبراہامؔ کی اَولاد ہیں۔‘ کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ خُدا اِن پتھّروں سے بھی حضرت اَبراہامؔ کے لیٔے اَولاد پیدا کر سَکتا ہے۔ \v 9 اَب درختوں کی جڑ پر کُلہاڑا رکھ دیا گیا ہے لہٰذا جو درخت اَچھّا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اَور آگ میں جھونکا جاتا ہے۔“ \p \v 10 ”لوگوں نے اُس سے پُوچھا کہ آخِر ہم کیا کریں؟“ \p \v 11 حضرت یُوحنّا نے جَواب دیا، جِس کے پاس دو کُرتے ہوں، ”اُس کے ساتھ جِس کے پاس ایک بھی نہ ہوں بانٹ لے اَور جِس کے پاس کھانا ہو وہ بھی اَیسا ہی کرے۔“ \p \v 12 اَور محصُول لینے والے بھی پاک غُسل لینے آئے اَور پُوچھنے لگے، ”اَے اُستاد محترم،“ ہم کیا کریں؟ \p \v 13 اَور آپ نے اُن سے کہا، ”جِتنا لینے کا تُمہیں اِختیار دیا گیا ہے اُس سے زِیادہ نہ لو۔“ \p \v 14 تَب بعض سپاہیوں نے بھی پُوچھا، ”ہم کیا کریں؟“ \p اَور حضرت یُوحنّا نے اُن سے کہا، ”کسی پر جھُوٹا اِلزام مت لگاؤ اَور نہ ڈرا دھمکا کر کسی سے کُچھ لو۔ اَپنی تنخواہ سے مطمئن رہو۔“ \p \v 15 جَب لوگ بڑے شوق سے مُنتظر تھے اَور دِل ہی دِل میں سوچ رہے تھے کہ شاید حضرت یُوحنّا ہی المسیح ہیں۔ \v 16 تو حضرت یُوحنّا نے جَواب دیتے ہُوئے کہا، ”میں تو تُمہیں صِرف پانی سے پاک غُسل دیتا ہُوں۔ لیکن جو آنے والا ہے وہ مُجھ سے بھی زِیادہ زورآور ہے، میں تو اِس لائق بھی نہیں کہ اُن کی جُوتوں کے تسمے کھول سکوں۔ وہ تُمہیں پاک رُوح اَور آگ سے پاک غُسل دیں گے۔ \v 17 اُس کا چھاج اُس کے ہاتھ میں ہے اَور وہ اَپنے کھلیان کو خُوب صَاف کرےگا اَور گیہُوں کو اَپنے کھتّے میں جمع کرےگا اَور بھُوسے کو اُس آگ میں جَلائے گا جو بُجھتی ہی نہیں۔“ \v 18 اَور وہ اُنہیں نصیحت کے طور پر بہت سِی باتیں بتاتے اَور خُوشخبری سُناتے رہے۔ \p \v 19 ہیرودیسؔ چوتھائی علاقہ پر حُکمراں تھا جَب حضرت یُوحنّا نے اُسے ملامت کی تھی کیونکہ اُس نے اَپنے بھایٔی فِلِپُّسؔ کی بیوی ہیرودِیاسؔ سے شادی کرلی تھی اَور دُوسری بہت سِی بدکاریاں بھی کی تھیں۔ \v 20 اُس نے سَب سے بُری حرکت یہ کی تھی کہ حضرت یُوحنّا کو قَید میں ڈلوادِیا۔ \s1 حُضُور یِسوعؔ کا پاک غُسل اَور نَسب نامہ \p \v 21 جَب سَب لوگ پاک غُسل لے رہے تھے تو یِسوعؔ نے بھی پاک غُسل لیا۔ اَور جَب وہ دعا کر رہے تھے، تو آسمان کھُل گیا \v 22 اَور پاک رُوح جِسمانی صورت میں کبُوتر کی شکل میں حُضُور پر نازل ہُوا اَور آسمان سے ایک آواز آئی: ”تُو میرا پیارا بیٹا ہے، جِس سے میں مَحَبّت کرتا ہُوں؛ تُم سے میں بہت خُوش ہُوں۔“ \p \v 23 جَب یِسوعؔ نے اَپنا کام شروع کیا تو وہ تقریباً تیس بَرس کے تھے۔ اُنہیں یُوسیفؔ کا بیٹا سمجھا جاتا تھا، \b \li1 جو عیلیؔ کا بیٹا تھا، \v 24 عیلیؔ متّاتؔ کا، \li1 متّاتؔ لیوی کا، لیوی ملکیؔ کا، \li1 ملکیؔ ینّایٔی کا اَور ینّایٔی یُوسیفؔ کا بیٹا تھا، \li1 \v 25 یُوسیفؔ مَتِّتیاہؔ کا، مَتِّتیاہؔ عامُوسؔ کا، \li1 عامُوسؔ ناحُومؔ کا، ناحُومؔ اِیسلیؔ کا، \li1 اِیسلیؔ نُوگہَؔ کا بیٹا تھا، \v 26 اَور نُوگہَؔ ماعتؔ کا، \li1 ماعتؔ مَتِّتیاہؔ کا، مَتِّتیاہؔ شِمعیؔ کا، \li1 شِمعیؔ یوسیخؔ کا، یوسیخؔ یوداہؔ کا بیٹا تھا، \li1 \v 27 یوداہؔ یُونانؔ کا، یُونانؔ ریساؔ کا، \li1 ریساؔ زرُبّابِیل کا، زرُبّابِیل شیالتی ایل کا، \li1 اَور شیالتی ایل نیریؔ کا، \v 28 نیریؔ ملکیؔ کا، \li1 ملکیؔ ادّیؔ کا، ادّیؔ قوسامؔ کا، \li1 قوسامؔ اِلمودامؔ کا، اِلمودامؔ عیرؔ کا بیٹا تھا، \li1 \v 29 عیرؔ یہوشُعؔ کا، یہوشُعؔ الیعزرؔ کا، \li1 الیعزرؔ یوریمؔ کا، یوریمؔ متّاتؔ کا، \li1 اَور متّاتؔ لیوی کا بیٹا تھا، \v 30 لیوی شمعُونؔ کا، \li1 شمعُونؔ یہُوداہؔ کا، یہُوداہؔ یُوسیفؔ کا، \li1 یُوسیفؔ یُونامؔ کا، اَور یُونامؔ اِلیاقیؔم کا بیٹا تھا، \li1 \v 31 اِلیاقیؔم میلیؔا کا، میلیؔا منّاہؔ کا، \li1 منّاہؔ متتّاہؔ کا، متتّاہؔ ناتنؔ کا، \li1 ناتنؔ داویؔد کا بیٹا تھا، \v 32 داویؔد یِشائی کا، \li1 یِشائی عوبیدؔ کا، عوبیدؔ بُوعزؔ کا، \li1 بُوعزؔ سَلمونؔ کا، سَلمونؔ نحسُونؔ کا بیٹا تھا، \li1 \v 33 اَور نحسُونؔ عَمّیندابؔ کا، عَمّیندابؔ آرام کا، \li1 آرام اَرنی کا، اَرنی حصرونؔ کا، حصرونؔ فارصؔ کا، \li1 فارصؔ یہُوداہؔ کا بیٹا تھا، \v 34 اَور یہُوداہؔ یعقوب کا، \li1 یعقوب اِصحاقؔ کا، اِصحاقؔ اَبراہامؔ کا، \li1 اَبراہامؔ تیراحؔ کا، اَور تیراحؔ نحُوؔر کا بیٹا تھا، \li1 \v 35 نحُوؔر سِروگ کا، سِروگ رِعوؔ کا، \li1 رِعوؔ فَلج کا، فَلج عِبرؔ کا \li1 عِبرؔ شِلحؔ کا بیٹا تھا، \v 36 اَور شِلحؔ قینانؔ کا، \li1 قینانؔ اَرفکسَدؔ کا، اَرفکسَدؔ سِمؔ کا، \li1 سِمؔ نُوح کا، نُوح لمکؔ کا بیٹا تھا۔ \li1 \v 37 اَور لمکؔ متُوسِلحؔ کا، متُوسِلحؔ حنوخؔ کا، \li1 حنوکؔ یاردؔ کا، یاردؔ مہلل ایل کا، \li1 مہلل ایل قینانؔ کا بیٹا تھا، \v 38 اَور قینانؔ انُوشؔ کا، \li1 انُوشؔ شیتؔ کا، شیتؔ آدمؔ کا، \li1 اَور آدمؔ خُدا کا بیٹا تھا۔ \c 4 \s1 حُضُور یِسوعؔ کی آزمائش \p \v 1 یِسوعؔ پاک رُوح سے بھرے ہویٔے یردنؔ سے لَوٹے اَور پاک رُوح کی ہدایت سے بیابان میں گیٔے۔ \v 2 اَور چالیس دِن تک اِبلیس کے ذریعہ آزمائے جاتے رہے۔ اُن دِنوں میں آپ نے کُچھ نہ کھایا اَور جَب وہ دِن پُورے ہویٔے تو حُضُور کو بھُوک لگی۔ \p \v 3 تَب اِبلیس نے اُن سے کہا، ”اگر آپ خُدا کے بیٹے ہیں تو اِس پتّھر سے کہیں کہ روٹی بَن جائے۔“ \p \v 4 یِسوعؔ نے جَواب دیا، ”لِکھّا ہے: ’اِنسان صِرف روٹی ہی سے زندہ نہیں رہتا۔‘ “\f + \fr 4‏:4 \fr*\ft \+xt اِست 8‏:3‏\+xt*‏\ft*\f* \p \v 5 اَور اِبلیس نے اُنہیں ایک اُونچے مقام پر لے جا کر پل بھر میں دُنیا کی تمام سلطنتیں دِکھا دیں۔ \v 6 اَور اِبلیس نے حُضُور سے کہا، ”میں یہ سارا اِختیار اَور شان و شوکت تُجھے عطا کر دُوں گا کیونکہ یہ میرے سُپرد کیٔے گیٔے ہیں اَور مَیں جسے چاہُوں دے سَکتا ہُوں۔ \v 7 لہٰذا اگر آپ میرے آگے سَجدہ کریں گے تو یہ سَب کُچھ آپ کا ہو جائے گا۔“ \p \v 8 یِسوعؔ نے جَواب میں اُس سے کہا، ”لِکھّا ہے: ’تُو اَپنے خُداوؔند خُدا ہی کو سَجدہ کر اَور صِرف اُسی کی خدمت کر۔‘ “\f + \fr 4‏:8 \fr*\ft \+xt اِست 6‏:13‏\+xt*‏\ft*\f* \p \v 9 اَور پھر اِبلیس یِسوعؔ کو یروشلیمؔ میں لے گیا اَور بیت المُقدّس کے سَب سے اُونچے مقام پر کھڑا کرکے کہنے لگاکہ، ”اگر آپ خُدا کے بیٹے ہیں تو یہاں سے اَپنے آپ کو نیچے گرا دیں۔ \v 10 کیونکہ لِکھّا ہے: \q1 ” ’وہ اَپنے فرشتوں کو تمہارے متعلّق حُکم دے گا \q2 کہ وہ آپ کی خُوب حِفاظت کریں؛ \q1 \v 11 اَور وہ آپ کو اَپنے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے، \q2 تاکہ آپ کے پاؤں کو کسی پتّھر سے ٹھیس نہ لگنے پایٔے۔‘\f + \fr 4‏:11 \fr*\ft \+xt زبُور 91‏:11‏،12‏\+xt*‏\ft*\f*“ \p \v 12 یِسوعؔ نے جَواب دیا، ”فرمایا گیا ہے: ’تُم خُداوؔند اَپنے خُدا کی آزمائش نہ کرو۔‘\f + \fr 4‏:12 \fr*\ft \+xt اِست 6‏:16‏\+xt*‏\ft*\f*“ \p \v 13 جَب اِبلیس اَپنی ہر آزمائش ختم کر چُکا تو کُچھ مُناسب عرصہ تک کے لیٔے یِسوعؔ کو چھوڑکر چلا گیا۔ \s1 ناصرتؔ میں حُضُور یِسوعؔ کی بےقدری \p \v 14 پھر یِسوعؔ رُوح کی قُوّت سے معموُر، ہوکر صُوبہ گلِیل واپس ہویٔے اَور چاروں طرف کے سارے علاقہ میں آپ کی شہرت پھیل گئی۔ \v 15 وہ اُن کے یہُودی عبادت گاہوں میں تعلیم دیتے اَور سَب لوگ حُضُور کی تعریف کرتے تھے۔ \p \v 16 پھر حُضُور ناصرتؔ میں آئے جہاں آپ نے پرورِش پائی تھی اَور اَپنے دستور کے مُطابق سَبت کے دِن یہُودی عبادت گاہ میں گیٔے۔ وہ پڑھنے کے لیٔے کھڑے ہویٔے \v 17 تو آپ کو یَشعیاہ نبی کا صحیفہ دیا گیا۔ حُضُور نے اُسے کھولا اَور وہ مقام نکالا جہاں یہ لِکھّا تھا: \q1 \v 18 ”خُداوؔند کا رُوح مُجھ پر ہے، \q2 اُس نے مُجھے مَسح کیا ہے \q2 تاکہ میں غریبوں کو خُوشخبری سُناؤں۔ \q1 اُس نے مُجھے بھیجا ہے تاکہ میں قَیدیوں کے لیٔے رِہائی \q2 اَور اَندھوں کو بینائی کی خبر دُوں، \q1 کُچلے ہوؤں کو آزادی بخشوں۔ \q2 \v 19 اَور خُداوؔند کے سالِ مقبُول کا اعلان کروں۔“\f + \fr 4‏:19 \fr*\ft \+xt یَشع 61‏:1‏،2‏؛ یَشع 58‏:6‏\+xt*‏\ft*\f* \p \v 20 پھر یِسوعؔ نے صحیفہ بند کرکے خادِم کے حوالہ کر دیا اَور بیٹھ گیٔے۔ اَورجو لوگ یہُودی عبادت گاہ میں مَوجُود تھے، اُن سَب کی آنکھیں حُضُور پر لگی تھیں۔ \v 21 اَور حُضُور اُن سے کہنے لگے، ”یہ نوشتہ جو تُمہیں سُنایا گیا، آج پُورا ہو گیا۔“ \p \v 22 اَور سَب نے آپ کی تعریف کی اَور اُن پُرفضل باتوں پرجو حُضُور کے مُنہ سے نکلتی تھیں تعجُّب کرکے کہتے تھے، ”کیا یہ یُوسیفؔ کا بیٹا نہیں؟“ \p \v 23 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”تُم ضروُر یہ مثال مُجھ پر کہو گے: کہ اَے حکیِم، ’اَپنا تو علاج کر! جو باتیں ہم نے کَفرنحُومؔ میں ہوتے سُنی ہیں اُنہیں یہاں اَپنے آبائی شہر میں بھی کر۔‘ “ \p \v 24 اَور یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”میں تُم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ کویٔی نبی اَپنے آبائی شہر میں مقبُول نہیں ہوتا۔ \v 25 یہ حقیقت ہے کہ ایلیّاہ کے زمانہ میں بہت سِی بیوائیں اِسرائیلؔ میں تھیں، جَب ساڑھے تین بَرس تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے تمام مُلک میں سخت قحط پڑا تھا۔ \v 26 تو بھی ایلیّاہ اُن میں سے کسی کے پاس نہیں بَلکہ صیؔدا کے ایک شہر صارفت کی ایک بِیوہ کے پاس بھیجا گیا تھا۔ \v 27 اَور الِیشعؔ نبی کے زمانہ میں اِسرائیلؔ میں بہت سے کوڑھی تھے لیکن سِوائے نَعمانؔ کے جو سِیریؔا کا باشِندہ تھا اُن میں سے کویٔی پاک صَاف نہ کیا گیا۔“ \p \v 28 جو لوگ یہُودی عبادت گاہ میں مَوجُود تھے، اِن باتوں کو سُنتے ہی غُصّہ سے بھر گیٔے۔ \v 29 وہ اُٹھے اَور اُنہُوں نے یِسوعؔ کو شہر سے باہر نکال دیا اَور پھر آپ کو اُس پہاڑی کی چوٹی پر لے گیٔے جِس پر اُن کا شہر آباد تھا تاکہ یِسوعؔ کو وہاں سے نیچے گرا دیں۔ \v 30 لیکن یِسوعؔ اُن کے درمیان سے نکل کر چلے گیٔے۔ \s1 ایک بدرُوح کا نکالا جانا \p \v 31 پھر یِسوعؔ گلِیل کے ایک شہر کَفرنحُومؔ کو چلے گیٔے جہاں وہ سَبت کے دِن تعلیم دیتے تھے۔ \v 32 اَور لوگ یِسوعؔ کی تعلیم سُن کر دنگ رہ گیٔے کیونکہ حُضُور صاحبِ اِختیار کی طرح تعلیم دے رہے تھے۔ \p \v 33 یہُودی عبادت گاہ میں ایک شخص تھا جِس میں بدرُوح تھی۔ وہ بڑی اُونچی آواز سے چِلّانے لگا، \v 34 ”اَے یِسوعؔ ناصری، یہاں سے چلے جایٔیں! آپ کو ہم سے کیا کام؟ کیا آپ ہمیں ہلاک کرنے آئے ہیں؟ میں جانتا ہُوں کہ آپ کون ہیں؟ آپ ہی خُدا کے قُدُّوس ہیں!“ \p \v 35 ”خاموش ہو جا!“ یِسوعؔ نے بدرُوح کو جِھڑکا اَور کہا، اَور اِس آدمی میں سے ”نکل جا!“ اِس پر بدرُوح نے اُس آدمی کو اُن کے درمیان زمین پر پٹکا اَور اُسے ضرر پہُنچائے بغیر اُس میں سے نکل گئی۔ \p \v 36 سَب لوگ حیرت زدہ ہوکر ایک دُوسرے سے کہنے لگے کہ، ”یہ کیسا کلام ہے؟ وہ اِختیار اَور قُدرت کے ساتھ بدرُوحوں کو حُکم دیتاہے اَور وہ نکل جاتی ہیں!“ \v 37 اَور آس پاس کے ہر علاقہ میں حُضُور کی شہرت بڑی تیزی پھیل گئی۔ \s1 بیماریوں کو اَچھّا کرنا \p \v 38 یہُودی عبادت گاہ سے نکل کر یِسوعؔ شمعُونؔ کے گھر پہُنچے۔ شمعُونؔ کی ساس تیز بُخار میں مُبتلا تھی۔ شاگردوں نے یِسوعؔ سے اُسے ٹھیک کرنے کی درخواست کی۔ \v 39 اَور یِسوعؔ نے اُس کی طرف جُھک کر بُخار کو جِھڑکا اَور وہ اُتر گیا۔ وہ فوراً اُٹھی اَور اُن کی خدمت میں لگ گئی۔ \p \v 40 سُورج ڈُوبتے ہی لوگ گھروں سے مُختلف بیماریوں والے مَریضوں کو یِسوعؔ کے پاس لائے اَور آپ نے ایک ایک پر ہاتھ رکھے اَور اُنہیں شفا بخشی۔ \v 41 اَور بدرُوحیں بھی چِلّاتی ہُوئی، اَور یہ کہتی ہُوئی کہ، ”تُو خُدا کا بیٹا ہے!“ کیٔی لوگوں میں سے نکل جاتی تھیں چونکہ اُنہیں مَعلُوم تھا کہ، وہ المسیح ہیں۔ یِسوعؔ اُنہیں جھڑکتے تھے اَور بولنے نہ دیتے تھے۔ \p \v 42 صُبح ہوتے ہی یِسوعؔ نکل کر کسی ویران جگہ چلے جاتے تھے۔ لوگ ہُجوم در ہُجوم آپ کو ڈھونڈتے ہُوئے آپ کے پاس آ جاتے تھے اَور آپ کو روکنے کی کوشش کرتے تھے کہ ہمارے پاس سے نہ جایٔیں۔ \v 43 لیکن یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”مُجھے دُوسرے شہروں میں بھی خُدا کی بادشاہی کی خُوشخبری سُنانا ضروُری ہے کیونکہ مَیں اِسی مقصد سے بھیجا گیا ہُوں۔“ \v 44 اَور یِسوعؔ یہُودیؔہ صُوبہ کے یہُودی عبادت گاہوں میں مُنادی کرتے رہے۔ \c 5 \s1 حُضُور یِسوعؔ کے پہلے شاگرد \p \v 1 ایک دِن یِسوعؔ گنیسرتؔ\f + \fr 5‏:1 \fr*\fq گنیسرتؔ \fq*\ft یا \ft*\fqa اِسے گلِیل کی جھیل بھی کہتے ہیں۔‏\fqa*\f* کی جھیل کے کنارے کھڑے تھے اَور لوگوں کا ایک ہُجوم خُدا کا کلام سُننے کی غرض سے آپ پر گرا پڑتا تھا۔ \v 2 یِسوعؔ نے دو کشتیاں کنارے لگی ہویٔی دیکھیں۔ مچھلی پکڑنے والے اُنہیں وہاں چھوڑکر اَپنے جال دھونے میں لگے ہُوئے تھے۔ \v 3 یِسوعؔ اُن میں سے ایک پر چڑھ گیٔے اَور اُس کے مالک شمعُونؔ سے درخواست کہ کشتی کو کنارے سے ہٹا کر ذرا دُور لے چل۔ پھر آپ کشتی میں بیٹھ گیٔے اَور لوگوں کو تعلیم دینے لگے۔ \p \v 4 جَب یِسوعؔ اُن سے کلام کر چُکے تو آپ نے شمعُونؔ سے کہا، ”کشتی کو گہرے پانی میں لے چل اَور تُم مچھلیاں پکڑنے کے لیٔے اَپنے جال ڈالو۔“ \p \v 5 شمعُونؔ نے جَواب دیا، ”اَے مالک، ہم نے ساری رات محنت کی لیکن کُچھ ہاتھ نہ آیا، لیکن آپ کے کہنے پر، جال ڈالتا ہُوں۔“ \p \v 6 چنانچہ اُنہُوں نے جال ڈالے اَور مچھلیوں کااِتنا بڑا غول گھیرلیا کہ اُن کے جال پھٹنے لگے۔ \v 7 تَب اُنہُوں نے دُوسری کشتی والے ساتھیوں کو اِشارہ کیا کہ آؤ اَور ہماری مدد کرو۔ پس وہ آئے اَور دونوں کشتیوں کو مچھلیوں سے اِس قدر بھر دیا کہ وہ ڈُوبنے لگیں۔ \p \v 8 شمعُونؔ پطرس نے یہ دیکھا تو، وہ یِسوعؔ کے پاؤں پر گِر کر کہنے لگے، ”اَے خُداوؔند؛ میں گُنہگار آدمی ہُوں۔ آپ میرے پاس سے چلے جائیے!“ \v 9 وجہ یہ تھی کہ وہ اَور اُن کے ساتھی مچھلیوں کے اِتنے بڑے شِکار کے سبب حیرت زدہ تھے۔ \v 10 یہی حال زبدیؔ کے بیٹوں، یعقوب اَور یُوحنّا کا بھی تھا جو شمعُونؔ کے ساتھی تھے۔ \p یِسوعؔ نے شمعُونؔ سے کہا، ”خوف نہ کر، اَب سے تُو اِنسانوں کو پکڑا کرےگا۔“ \v 11 وہ کشتیوں کو کنارے لے آئے اَور سَب کُچھ چھوڑکر آپ کے پیچھے ہو لیٔے۔ \s1 ایک کوڑھی کا شفا پانا \p \v 12 ایک دفعہ یِسوعؔ اُس علاقہ کے ایک شہر میں تھے تو اَیسا ہُوا کہ ایک آدمی جِس کے سارے جِسم پر کوڑھ پھیلا تھا۔ یِسوعؔ کو دیکھ کر مُنہ کے بَل زمین پر گِر کر حُضُور سے یُوں اِلتجا کرنے لگاکہ، ”اَے خُداوؔند، اگر آپ چاہیں تو مُجھے کوڑھ سے پاک کر سکتے ہیں۔“ \p \v 13 اَور یِسوعؔ نے ہاتھ بڑھا کر اُسے چھُوا اَور کہا، ”میں چاہتا ہُوں، تُو پاک صَاف ہو جا!“ اَور اُسی وقت اُس نے کوڑھ سے شفا پائی۔ \p \v 14 تَب یِسوعؔ نے اُسے تاکید کی، ”کسی سے کُچھ نہ کہنا، بَلکہ سیدھا کاہِنؔ کے پاس جا کر، اَپنے آپ کو دِکھا اَور اَپنے ساتھ وہ نذریں بھی لے جا جو حضرت مَوشہ نے تمہارے پاک صَاف ہونے کے لیٔے مُقرّر کی ہیں، تاکہ لوگوں کے سامنے گواہی ہو۔“ \p \v 15 لیکن یِسوعؔ کے بارے میں سَب کو خبر ہو گئی اَور لوگ کثرت سے جمع ہونے لگے تاکہ حُضُور کی تعلیم سُنیں اَور اَپنی بیماریوں سے شفا پائیں۔ \v 16 لیکن آپ اکثر غَیر آباد مقاموں میں چلے جاتے اَور دعا کیا کرتے تھے۔ \s1 ایک مفلُوج کا شفا پانا \p \v 17 ایک دِن اَیسا ہُوا کہ یِسوعؔ تعلیم دے رہے تھے اَور کُچھ فرِیسی اَور شَریعت کے عالِم جو گلِیل اَور یہُودیؔہ کے ہر قصبہ اَور یروشلیمؔ سے آکر وہاں بیٹھے ہُوئے تھے۔ اَور خُداوؔند کی قُدرت یِسوعؔ کے ساتھ تھی کہ وہ بیماریوں کو شفا دیں۔ \v 18 کُچھ لوگ ایک مفلُوج کو بچھونے پر ڈال کر لایٔے اَور کوشش کرنے لگے کہ اُسے اَندر لے جا کر یِسوعؔ کے سامنے رکھ دیں۔ \v 19 لیکن ہُجوم اِس قدر تھا کہ وہ اُسے اَندر نہ لے جا سکے۔ تَب وہ چھت پر چڑھ گیٔے اَور کھپریل ہٹا کر مفلُوج کو چارپائی سمیت لوگوں کے بیچ میں یِسوعؔ کے سامنے اُتار دیا۔ \p \v 20 آپ نے اُن کا ایمان دیکھ کر کہا، ”دوست! تیرے گُناہ مُعاف ہُوئے۔“ \p \v 21 شَریعت کے عالِم اَور فرِیسی سوچنے لگے، ”یہ آدمی کون ہے جو کُفر بَکتا ہے۔ خُدا کے سِوا کون گُناہ مُعاف کر سَکتا ہے؟“ \p \v 22 یِسوعؔ کو اُن کے خیالات مَعلُوم ہو گئے کی ”وہ اَپنے دِلوں میں کیا سوچ رہے ہیں؟ تَب آپ نے جَواب میں اُن سے پُوچھا، تُم اَپنے دِلوں میں اَیسی باتیں کیوں سوچتے ہو؟ \v 23 یہ کہنا زِیادہ آسان ہے: ’تیرے گُناہ مُعاف ہُوئے،‘ یا ’یہ کہنا کہ اُٹھ اَور چل پھر‘؟ \v 24 لیکن مَیں چاہتا ہُوں کہ تُمہیں مَعلُوم ہو کہ اِبن آدمؔ کو زمین پر گُناہ مُعاف کرنے کا اِختیار ہے۔“ حُضُور نے مفلُوج سے کہا، ”مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں، اُٹھ اَور اَپنا بچھونا اُٹھاکر اَپنے گھر چلا جا۔“ \v 25 وہ اُن کے سامنے اُسی وقت اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اَور جِس بچھونے پر وہ پڑا تھا اُسے اُٹھاکر خُدا کی تمجید کرتا ہُوا اَپنے گھر چلا گیا۔ \v 26 وہ سَب حیران رہ گیٔے اَور خُدا کی تمجید کرنے لگے۔ اَور سَب پر خوف طاری ہو گیا اَور وہ کہنے لگے، ”کہ آج ہم نے عجِیب باتیں دیکھی ہیں۔“ \s1 لیوی کا بُلایا جانا \p \v 27 اِن واقعات کے بعد یِسوعؔ وہاں سے نکلے اَور ایک محصُول لینے والے کو جِس کا نام لیوی تھا، محصُول کی چوکی پر بیٹھے دیکھا۔ یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”میرے پیروکار ہو جاؤ۔“ \v 28 وہ اُٹھا اَور سَب کُچھ چھوڑکر، حُضُور کے پیچھے چل دیا۔ \p \v 29 پھر لیوی نے اَپنے گھر میں یِسوعؔ کے لیٔے ایک بڑی ضیافت ترتیب دی اَور وہاں محصُول لینے والوں اَور دُوسرے لوگوں کا جو ضیافت میں شریک تھے بڑا مجمع تھا۔ \v 30 لیکن فرِیسی اَور شَریعت کے عالِم جو فرِیسی فرقہ سے تعلّق رکھتے تھے یِسوعؔ کے شاگردوں سے شکایت کرکے کہنے لگے، ”تُم محصُول لینے والوں اَور گُنہگاروں کے ساتھ کیوں کھاتے پیتے ہو؟“ \p \v 31 یِسوعؔ نے جَواب میں اُن سے کہا، ”بیماریوں کو طبیب کی ضروُرت ہوتی ہے، صحت مندوں کو نہیں۔ \v 32 میں راستبازوں کو نہیں بَلکہ گُنہگاروں کو تَوبہ کرنے کے لیٔے بُلانے آیا ہُوں۔“ \s1 روزہ رکھنے کے بارے میں سوال \p \v 33 فرِیسی اَور شَریعت کے عالِموں نے یِسوعؔ سے کہا، ”حضرت یُوحنّا کے شاگرد تو اکثر روزہ رکھتے اَور دعائیں کرتے ہیں اَور اِسی طرح فریسیوں کے بھی لیکن آپ کے شاگرد تو کھاتے پیتے رہتے ہیں؟“ \p \v 34 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”کیا تُم دُلہا کی مَوجُودگی میں؛ براتیِوں سے روزہ رکھوا سکتے ہو ہرگز نہیں۔ \v 35 لیکن وہ دِن آئیں گے جَب دُلہا اُن سے جُدا کیا جائے گا؛ تَب اُن دِنوں میں وہ روزہ رکھیں گے۔“ \p \v 36 اَور یِسوعؔ نے اُن سے یہ تمثیل بھی کہی: ”نئی پوشاک کو پھاڑ کر اُس کا پیوند پُرانی پوشاک پر کویٔی نہیں لگاتا ورنہ، نئی بھی پھٹے گی اَور اُس کا پیوند پُرانی پوشاک سے میل بھی نہ کھائے گا۔ \v 37 تازہ انگوری شِیرے کو بھی پُرانی مَشکوں میں کویٔی نہیں بھرتا ورنہ، مَشکیں اُس نئے انگوری شِیرے سے پھٹ جایٔیں گی، شِیرہ بھی بہہ جائے گا اَور مَشکیں بھی برباد ہو جایٔیں گی۔ \v 38 بَلکہ، نئے انگوری شِیرے کو نئی مَشکوں میں بھرنا چاہئے۔ \v 39 پُرانا شِیرہ پی کر نئے کی خواہش کویٔی نہیں کرتا، کیونکہ وہ کہتاہے کہ ’پُرانی ہی خُوب ہے۔‘ “ \c 6 \s1 حُضُور یِسوعؔ سَبت کے مالک \p \v 1 ایک بار یِسوعؔ سَبت کے دِن کھیتوں میں سے ہوکر گزر رہے تھے، اَور اُن کے شاگرد بالیں توڑ کر، ہاتھوں سے مَل مَل کر کھاتے جاتے تھے۔ \v 2 اِس پر بعض فریسیوں نے سوال کیا، ”تُم اَیسا کام کیوں کرتے ہو جو سَبت کے دِن کرنا جائز نہیں؟“ \p \v 3 یِسوعؔ نے اُنہیں جَواب دیا، ”کیا تُم نے کبھی نہیں پڑھا کہ جَب حضرت داویؔد اَور اُن کے ساتھی بھُوکے تھے تو اُنہُوں نے کیا کیا؟ \v 4 حضرت داویؔد کیسے خُدا کے گھر میں داخل ہویٔے اَور نذر کی ہویٔی روٹیاں لے کر، خُود بھی کھایٔیں اَور اَپنے ساتھیوں کو بھی یہ روٹیاں کھانے کو دیں جسے کاہِنوں کے سِوائے کسی اَور کے لیٔے روا نہیں تھا۔“ \v 5 پھر یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”اِبن آدمؔ سَبت کا بھی خُداوؔند ہے۔“ \p \v 6 کسی اَور سَبت کے دِن حُضُور یہُودی عبادت گاہ میں جا کر تعلیم دے رہے تھے، وہاں ایک آدمی تھا جِس کا داہنا ہاتھ سُوکھا ہُوا تھا۔ \v 7 شَریعت کے عالِم اَور فرِیسی یِسوعؔ کی تاک میں تھے اِس لیٔے حُضُور کو قریب سے دیکھنے لگے کہ اگر حُضُور سَبت کے دِن اُس آدمی کو شفا بخشیں تو فرِیسی حُضُور پر اِلزام لگاسکیں۔ \v 8 لیکن یِسوعؔ کو اُن کے خیالات مَعلُوم ہو گئے اَور اُس سُوکھے ہاتھ والے آدمی سے کہا، ”اُٹھو اَور سَب کے بیچ میں کھڑے ہو جاؤ۔“ وہ اُٹھا اَور کھڑا ہو گیا۔ \p \v 9 تَب یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”میں تُم سے یہ پُوچھتا ہُوں: سَبت کے دِن نیکی کرنا روا ہے یا بدی کرنا، جان بچانا یا ہلاک کرنا؟“ \p \v 10 اَور حُضُور نے اُن سَب پر نظر کرکے، اُس آدمی سے کہا، ”اَپنا ہاتھ بڑھا۔“ اُس نے بڑھایا اَور اُس کا ہاتھ بالکُل ٹھیک ہو گیا۔ \v 11 لیکن شَریعت کے عالِم اَور فرِیسی غُصّہ کے مارے پاگل ہو گئے اَور آپَس میں کہنے لگے کہ ہم یِسوعؔ کے ساتھ کیا کریں۔ \s1 رسولوں کا اِنتخاب \p \v 12 اُن دِنوں میں اَیسا ہُوا کہ یِسوعؔ دعا کرنے کے لیٔے ایک پہاڑ پر چلے گیٔے اَور خُدا سے دعا کرنے میں ساری رات گُزاری۔ \v 13 جَب دِن نِکلا تو، حُضُور نے اَپنے شاگردوں کو پاس بُلایا اَور اُن میں سے بَارہ کو چُن کر، اُنہیں رسولوں کا لقب دیا: \b \li1 \v 14 شمعُونؔ جِس کا نام اُنہُوں نے پطرس بھی رکھا اَور اُن کا بھایٔی اَندریاسؔ، \li1 اَور یعقوب، \li1 اَور یُوحنّا، \li1 اَور فِلِپُّسؔ، \li1 اَور برتلماؔئی، \li1 \v 15 اَور متّیؔ، \li1 اَور توماؔ، \li1 اَور حلفئؔی کے بیٹے یعقوب، \li1 اَور شمعُونؔ جو زیلوتیسؔ کہلاتا تھا، \li1 \v 16 اَور یعقوب کا بیٹا یہُوداہؔ، \li1 اَور یہُوداہؔ اِسکریوتی، جِس نے یِسوعؔ سے دغابازی بھی کی تھی۔ \s1 مُبارک بادِیاں اَور لعنتیں \p \v 17 تَب یِسوعؔ اَپنے شاگردوں کے ساتھ نیچے اُتر کر میدان میں کھڑے ہویٔے۔ اَور وہاں اُن کے بہت سے شاگرد جمع تھے اَور سارے یہُودیؔہ اَور یروشلیمؔ اَور صُورؔ اَور صیؔدا کے ساحِل کے علاقہ سے آنے والوں کا ایک بڑا ہُجوم بھی وہاں مَوجُود تھا، \v 18 یہ لوگ یِسوعؔ کی تعلیم سُننے اَور اَپنی بیماریوں سے شفا پانے کے لیٔے آئےتھے۔ اَورجو لوگ بدرُوحوں کی وجہ سے دُکھ اَور تکلیف میں مُبتلا تھے وہ بھی اَچھّے کر دئیے گیٔے، \v 19 اَور سَب آپ کو چھُونے کی کوشش کرتے تھے، کیونکہ آپ میں سے قُوّت نکلتی تھی اَور سَب کو شفا عنایت کرتی تھی۔ \p \v 20 یِسوعؔ نے اَپنے شاگردوں پر نظر ڈالی، اَور فرمایا: \q1 ”مُبارک ہیں وہ جو دِل کے حلیم\f + \fr 6‏:20 \fr*\fq حلیم \fq*\ft یہاں پر حلیم کا معنی ہے \ft*\fqa وہ جو خُدا کے خاص مدد کے اِنتظار میں ہیں۔‏\fqa*\f* ہیں، \q2 کیونکہ خُدا کی بادشاہی تمہاری ہے۔ \q1 \v 21 مُبارک ہو تُم جو ابھی خُدا کے لیٔے بھُوکے ہو، \q2 کیونکہ تُم آسُودہ ہوگے۔ \q1 مُبارک ہو تُم جو ابھی روتے ہو، \q2 کیونکہ تُم ہنسوگے۔ \q1 \v 22 مُبارک ہو تُم جَب لوگ تُم سے نفرت رکھیں، \q2 جَب تُمہیں الگ کر دیں، اَور تمہاری بے عزّتی کریں، \q2 اَور تمہارے نام کو بُرا جان کر، \q3 اِبن آدمؔ کے سبب سے اِنکار کر دیں۔ \p \v 23 ”اُس دِن تُم خُوش ہونا اَور جَشن منانا، کیونکہ تُمہیں آسمان پر بڑا اجر حاصل ہوگا۔ اِس لیٔے کہ اُن کے باپ دادا نے اُن نبیوں کو بھی اِسی طرح ستایا تھا۔ \q1 \v 24 ”مگر افسوس تُم پرجو دولتمند ہو، \q2 کیونکہ تُم اَپنی تسلّی پا چُکے ہو۔ \q1 \v 25 افسوس تُم پرجو اَب سیر ہو، \q2 کیونکہ تُم بھُوک کے شِکار ہوگے۔ \q1 افسوس تُم پرجو اَب ہنستے ہو، \q2 کیونکہ تُم ماتم کروگے اَور روؤگے۔ \q1 \v 26 افسوس تُم پر جَب سَب لوگ تُمہیں بھلا کہیں، \q2 کیونکہ اُن کے باپ دادا بھی جھُوٹے نبیوں کے ساتھ اَیسا ہی سلُوک کیا کرتے تھے۔ \s1 دُشمنوں سے مَحَبّت \p \v 27 ”لیکن مَیں تُم سُننے والوں سے کہتا ہُوں: اَپنے دُشمنوں سے مَحَبّت رکھو، اَورجو تُم سے نفرت رکھتے ہیں اُن کا بھلا کرو، \v 28 جو تُم پر لعنت کریں اُن کے لیٔے برکت چاہو، جو تمہارے ساتھ بُرا سلُوک کرتے ہیں اُن کے لیٔے دعا کرو۔ \v 29 اگر کویٔی تیرے ایک گال پر تھپّڑ مارے، تو دُوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۔ اگر کویٔی تیرا چوغہ لے لیتا ہے تو، اُسے کُرتا لینے سے بھی مت روکو۔ \v 30 جو تُم سے کُچھ مانگے اُسے ضروُر دو، اَور اگر کویٔی تیرا مال لے لیتا ہے تو اُس سے واپس مت مانگ۔ \v 31 جَیسا تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تُم بھی اُن کے ساتھ وَیسا ہی کرو۔ \p \v 32 ”اگر تُم صِرف اُن ہی سے مَحَبّت رکھتے ہو جو تُم سے مَحَبّت رکھتے ہیں تو، تمہارا کیا اِحسَان ہے؟ کیونکہ گُنہگار بھی اَپنے مَحَبّت کرنے والوں سے مَحَبّت کرتے ہیں۔ \v 33 اَور اگر تُم اُن ہی کا بھلا کرتے ہو جو تمہارا بھلا کرتے ہیں، تو تمہارا کیا اِحسَان ہے؟ کیونکہ گُنہگار بھی اَیسا ہی کرتے ہیں۔ \v 34 اَور اگر تُم اُسی کو قرض دیتے جِس سے وصول کرلینے کی اُمّید ہے، تو تمہارا کیا اِحسَان ہے؟ کیونکہ گُنہگار بھی گُنہگاروں کو قرض دیتے ہیں تاکہ اُن سے پُورا وصول کر لیں۔ \v 35 مگر تُم اَپنے دُشمنوں سے مَحَبّت رکھو، اُن کا بھلا کرو، قرض دو اَور اُس کے وصول پانے کی اُمّید نہ رکھو، تو تمہارا اجر بڑا ہوگا اَور تُم خُداتعالیٰ کے بیٹے ٹھہروگے کیونکہ وہ ناشُکروں اَور بدکاروں پر بھی مہربان ہے۔ \v 36 جَیسا رحم دِل تمہارا باپ ہے، تُم بھی وَیسا ہی رحم دِل بنو۔ \s1 عیب جوئی نہ کرنا \p \v 37 ”عیب جوئی نہ کرو، تو تمہاری بھی عیب جوئی نہ ہوگی۔ مُجرم نہ ٹھہراؤ تو تُم بھی مُجرم نہ ٹھہرائے جاؤگے۔ مُعاف کروگے، تو تُم بھی مُعافی پاؤگے۔ \v 38 دوگے، تو تُمہیں بھی دیا جائے گا۔ اَچھّا پیمانہ، دبا دبا کر، ہِلا ہِلا کر اَور لبریز کرکے تمہارے پَلّے میں ڈالا جائے گا کیونکہ جِس پیمانہ سے تُم ناپتے ہو، اُسی سے تمہارے لیٔے بھی ناپا جائے گا۔“ \p \v 39 اُس نے اُن سے یہ تمثیل بھی کہی: ”کیا ایک اَندھا دُوسرے اَندھے کو راستہ دِکھا سَکتا ہے؟ کیا وہ دونوں گڑھے میں نہیں گِریں گے؟ \v 40 کویٔی شاگرد اَپنے اُستاد سے بڑا نہیں ہوتا، لیکن جَب پُوری طرح تربّیت پایٔےگا تو اَپنے اُستاد کی مانِند ہو جائے گا۔ \p \v 41 ”تُم اَپنے بھایٔی کی آنکھ کا تِنکا کیوں دیکھتے ہو جَب کہ تمہاری اَپنی آنکھ میں شہتیر ہے جِس کا تُم خیال تک نہیں کرتے؟ \v 42 اَور جَب تیری اَپنی ہی آنکھ میں شہتیر ہے جسے تُو خُود نہیں دیکھ سَکتا تو کِس مُنہ سے اَپنے بھایٔی یا بہن سے کہہ سَکتا ہے لا، ’میں تیری آنکھ میں سے تِنکا نکال دُوں،‘ اَے ریاکار! پہلے اَپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال، پھر اَپنے بھایٔی یا بہن کی آنکھ میں سے تنکے کو اَچھّی طرح دیکھ کر نکال سکےگا۔ \s1 درخت اَور پھل \p \v 43 ”کیونکہ جو درخت اَچھّا ہوتاہے وہ بُرا پھل نہیں لاتا اَور نہ ہی بُرا درخت اَچھّا پھل لاتا ہے۔ \v 44 ہر درخت اَپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ کانٹوں والی جھاڑیوں سے نہ تو لوگ اَنجیر توڑتے ہیں نہ جھڑبیری سے انگور۔ \v 45 اَچھّا آدمی اَپنے دِل کے اَچھّے خزانہ سے اَچھّی چیزیں نکالتا ہے اَور بُرا آدمی بُرے خزانہ سے بُری چیزیں باہر لاتا ہے کیونکہ جو دِل میں بھرا ہوتاہے وُہی اُس کے مُنہ پر آتا ہے۔ \s1 دو قِسم کی بُنیادیں \p \v 46 ”تُم مُجھے ’اَے خُداوؔند، اَے خُداوؔند،‘ کیوں کہتے ہو، جَب میرے کہنے پر عَمل ہی نہیں کرتے؟ \v 47 میں تُمہیں بتاتا ہُوں کہ میرے پاس آنے والا اَور میری باتیں سُن کر اُن پر عَمل کرنے والا کِس کی مانِند ہے۔ \v 48 وہ اُس آدمی کی مانِند ہے جِس نے گھر بناتے وقت، زمین کو کافی گہرائی تک کھودا اَور گھر کی بُنیاد چٹّان پر رکھی۔ جَب سیلاب آیا، اَور پانی کی لہریں اُس کے گھر سے ٹکرائیں تو اُسے ہِلا نہ سکیں، کیونکہ وہ مضبُوط بنا تھا۔ \v 49 لیکن جو میری باتیں سُن کر اُن پر عَمل نہیں کرتا وہ اُس آدمی کی مانِند ہے جِس نے زمین پر گھر کو بغیر بُنیاد کے بنایا۔ اَور جَب پانی کی لہریں اُس سے ٹکرائیں، تو وہ گِر پڑا اَور بالکُل تباہ ہو گیا۔“ \c 7 \s1 رُومی افسر کا ایمان \p \v 1 جَب یِسوعؔ لوگوں کو اَپنی ساری باتیں سُنا چُکے، تو کَفرنحُومؔ میں آئے۔ \v 2 وہاں ایک رُومی افسر کا خادِم بیمار تھا، وہ اُسے بہت عزیز تھا، اَور وہ مَرنے کے قریب تھا۔ \v 3 اُس نے یِسوعؔ کے بارے میں سُنا تو کیٔی یہُودی بُزرگوں کو اُن کے پاس بھیجا تاکہ وہ یِسوعؔ سے درخواست کریں کہ وہ آکر اُس کے خادِم کو شفا بخشیں۔ \v 4 وہ یِسوعؔ کے پاس آئے، اَور اُن کی مِنّت کرکے کہنے لگے، ”وہ شخص اِس لائق ہے کہ آپ اُس کی مدد کریں، \v 5 کیونکہ وہ ہماری قوم سے مَحَبّت رکھتا ہے اَور ہماری یہُودی عبادت گاہ بھی اُسی نے بنوائی ہے۔“ \v 6 یِسوعؔ اُن کے ساتھ چل دئیے۔ \p ابھی وہ اُس گھر سے زِیادہ دُور نہ تھے کہ اُس افسر نے اَپنے بعض دوستوں کے ذریعہ یِسوعؔ کو کَہلوا بھیجا: ”اَے خُداوؔند، تکلیف نہ کیجئے، میں اِس لائق نہیں کہ آپ میری چھت کے نیچے آئیں۔ \v 7 اِسی لیٔے مَیں نے خُود کو بھی اِس لائق نہیں سمجھا کہ آپ کے پاس آؤں۔ آپ صِرف زبان سے کہہ دیں تو میرا خادِم شفا پا جائے گا۔ \v 8 کیونکہ مَیں خُود بھی کسی کے اِختیار میں ہُوں، اَور سپاہی میرے اِختیار میں ہیں۔ جَب مَیں ایک سے کہتا ہُوں، ’جا،‘ تو وہ چلا جاتا ہے؛ اَور دُوسرے سے ’آ،‘ تو وہ آ جاتا ہے اَور کسی خادِم سے کُچھ کرنے کو کہُوں تو وہ کرتا ہے۔“ \p \v 9 یِسوعؔ نے یہ سُن کر اُس ہُجوم پر تعجُّب کیا، اَور مُڑ کر پیچھے آنے والے لوگوں سے کہا، میں تُم سے کہتا ہُوں، ”مَیں نے اِسرائیلؔ میں بھی اِتنا بڑا ایمان نہیں پایا۔“ \v 10 جَب وہ لوگ جو یِسوعؔ کے پاس بھیجے گیٔے تھے گھر واپس آئے تو اُنہُوں نے اُس خادِم کو تندرست پایا۔ \s1 ایک بِیوہ کے لڑکے کا زندہ کیاجانا \p \v 11 اگلے دِن اَیسا ہُوا کہ، وہ نائِینؔ نام کے، ایک شہر کو گیٔے۔ اُن کے شاگرد اَور بہت سے لوگ بھی اُن کے ساتھ تھے \v 12 جَب وہ اُس شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہُنچے تو ایک جنازہ باہر نکل رہاتھا جو ایک بِیوہ کے اِکلوتے بیٹے کا تھا اَور شہر کے بہت سے لوگ بھی اُس بِیوہ کے ہمراہ تھے۔ \v 13 جَب خُداوؔند نے اُس بِیوہ کو دیکھا تو اُنہیں اُس پر ترس آیا۔ حُضُور نے اُس سے کہا، ”مت رو۔“ \p \v 14 حُضُور نے پاس آکر جنازہ کو چھُوا اَور کندھا دینے والے ٹھہر گیٔے۔ تَب آپ نے کہا، ”اَے جَوان مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں، اُٹھ!“ \v 15 وہ مُردہ اُٹھ بیٹھا اَور بولنے لگا۔ اَور یِسوعؔ نے اُسے اُس کی ماں کو سونپ دیا۔ \p \v 16 تَب سَب لوگوں پر خوف چھا گیا اَور وہ خُدا کی تمجید کرکے کہنے لگے۔ ”ہمارے درمیان ایک بڑا نبی برپا ہُواہے، اَور خُدا اَپنے لوگوں کی مدد کرنے آیا ہے۔“ \v 17 اَور اِس واقعہ کی خبر سارے یہُودیؔہ اَور آس پاس کے تمام علاقہ میں پھیل گئی۔ \s1 حضرت یُوحنّا کے شک کو دُور کیاجانا \p \v 18 حضرت یُوحنّا کے شاگردوں نے اِن سَب باتوں کی خبر اُنہیں دی تو، ”اُنہُوں نے اَپنے شاگردوں میں سے دو کو بُلایا؟“ \v 19 اَور اُنہیں خُداوؔند یِسوعؔ کے پاس یہ مَعلُوم کرنے کے لیٔے بھیجا، ”وہ جو آنے والا ہے آپ ہی ہیں، یا ہم کسی اَور کی راہ دیکھیں؟“ \p \v 20 جَب دونوں آدمیوں نے یِسوعؔ کے پاس پہُنچ کر کہا، ”پاک غُسل دینے والے حضرت یُوحنّا نے ہمیں یہ دریافت کرنے بھیجا ہے، ’کیا جو آنے والے ہیں، آپ ہی ہیں یا ہم کسی اَور کی راہ دیکھیں؟‘ “ \p \v 21 اُس وقت یِسوعؔ نے کیٔی لوگوں کو بیماریوں، آفتوں اَور بدرُوحوں سے خلاصی بخشی اَور بہت سے اَندھوں کو بینائی عطا کی۔ \v 22 اَور تَب حضرت یُوحنّا کے شاگردوں سے کہا: ”جو کُچھ تُم نے دیکھا اَور سُنا ہے جا کر حضرت یُوحنّا کو بتاؤ: اَندھے پھر سے دیکھنے لگتے ہیں، لنگڑے چلنے لگتے ہیں، کوڑھی پاک صَاف کیٔے جاتے ہیں، بہرے سُننے لگتے ہیں، مُردے زندہ کیٔے جاتے ہیں اَور غریبوں کو خُوشخبری سُنایٔی جاتی ہے۔ \v 23 مُبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔“ \p \v 24 وہاں سے حضرت یُوحنّا کے قاصِدوں کے چلے جانے کے بعد، یِسوعؔ یُوحنّا کے بارے میں ہُجوم سے کہنے لگے: ”تُم بیابان میں کیا دیکھنے گیٔے تھے؟ کیا ہَوا سے ہلتے ہویٔے سَرکنڈے کو؟ \v 25 اگر نہیں، تو اَور کیا دیکھنے گیٔے تھے؟ نفیس کپڑے پہنے ہُوئے کسی شخص کو؟ جو نفیس کپڑے پہنتے ہیں اَور عیش کرتے ہیں، شاہی محلوں میں رہتے ہیں۔ \v 26 آخِر تُم کیا دیکھنے گیٔے تھے؟ کیا کسی نبی کو؟ ہاں، میں تُمہیں بتاتا ہُوں کہ نبی سے بھی بڑے کو۔ \v 27 یہ وُہی ہے جِس کی بابت صحیفہ میں لِکھّا ہے: \q1 ” ’دیکھ، میں اَپنا پیغمبر تیرے آگے بھیج رہا ہُوں، \q2 جو تیرے آگے تیری راہ تیّار کرےگا۔‘\f + \fr 7‏:27 \fr*\ft \+xt ملاکیؔ 3‏:1‏\+xt*‏\ft*\f* \m \v 28 میں تُمہیں بتاتا ہُوں، جو عورتوں سے پیدا ہویٔے ہیں اُن میں حضرت یُوحنّا سے بڑا کویٔی نہیں؛ لیکن جو خُدا کی بادشاہی میں سَب سے چھوٹاہے وہ حضرت یُوحنّا سے بھی بڑا ہے۔“ \p \v 29 (جَب لوگوں نے اَور محصُول لینے والوں نے یہ باتیں سُنیں تو اُنہُوں نے حضرت یُوحنّا کا پاک غُسل لے کر خُدا کو برحق مان لیا۔ \v 30 مگر فریسیوں اَور شَریعت کے عالِموں نے حضرت یُوحنّا سے پاک غُسل نہ لے کر اَپنے نِسبت خُدا کے نیک اِرادہ کو ٹُھکرا دیا۔) \p \v 31 یِسوعؔ نے خِطاب جاری رکھتے ہُوئے فرمایا، ”میں اِس زمانہ کے لوگوں کی کس سے تشبیہ دُوں اَور اُنہیں کس کی مانِند کہُوں؟ \v 32 وہ اُن لڑکوں کی مانِند ہیں جو بازاروں میں بیٹھے ہُوئے اَپنے ہمجولیوں کو پُکار کر کہتے ہیں: \q1 ” ’ہم نے تمہارے لیٔے بانسری بجائی، \q2 اَور تُم نہ ناچے؛ \q1 ہم نے مرثیہ پڑھا، \q2 اَور تَب بھی تُم نہ رُوئے۔‘ \m \v 33 حضرت یُوحنّا پاک غُسل دینے والا نہ تو روٹی کھاتا نہ انگوری شِیرہ پیتا آیا، اَور تُم کہتے ہو، ’اُس میں بدرُوح ہے۔‘ \v 34 اِبن آدمؔ کھاتے پیتے آیا، اَور تُم کہتے ہو کہ دیکھو، ’یہ کھاؤ اَور شرابی آدمی، محصُول لینے والوں اَور گُنہگاروں کا یار ہے۔‘ \v 35 مگر حِکمت کو برحق ثابت اُس پر عَمل کرنے والے ہی کرتے ہیں۔“ \s1 گُنہگار عورت کا حُضُور یِسوعؔ کا مَسح کرنا \p \v 36 کسی فرِیسی نے یِسوعؔ سے مِنّت کی کہ میرے یہاں کھانا کھایٔیں اَور وہ اُس فرِیسی کے گھرجاکر دسترخوان پر بیٹھ گیٔے۔ \v 37 ایک بدچلن عورت جو اُسی شہر کی تھی، یہ سُن کر کہ یِسوعؔ اُس فرِیسی کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھے ہیں، سنگِ مرمر کے عِطردان میں عِطر لائی۔ \v 38 اُس نے یِسوعؔ کے پاؤں کے پاس پیچھے کھڑی ہوکر رونا شروع کر دیا۔ اَور وہ اَپنے آنسُوؤں سے اُن کے پاؤں بھگونے لگی۔ اَور اَپنے سَر کے بالوں سے اُنہیں پونچھ کر، بار بار اُنہیں چُومنے لگی اَور عِطر سے اُن کا مَسح کرنے لگی۔ \p \v 39 جِس فرِیسی نے اُنہیں دعوت دی تھی اُس نے یہ دیکھا، تو دِل ہی دِل میں کہنے لگا، ”اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جان لیتا کہ جو اُسے چھُو رہی ہے وہ کون ہے اَور کیسی عورت ہے یعنی یہ کہ وہ بدچلن ہے۔“ \p \v 40 یِسوعؔ نے شمعُونؔ سے کہا، ”شمعُونؔ، مُجھے تُجھ سے کُچھ کہنا ہے۔“ \p اُس نے کہا، ”اَے اُستاد محترم کہئیے۔“ \p \v 41 ”کسی ساہوکار کے دو قرضدار تھے۔ ایک نے پانچ سَو دینار،\f + \fr 7‏:41 \fr*\fq پانچ سَو دینار \fq*\ft یعنی \ft*\fqa قدیم زمانے میں ایک دینار ایک دِن کی مزدُوری ہُوا کرتی تھی۔ دیکھیں \+xt مت 20‏:2‏\+xt*‏\fqa*\f* اَور دُوسرے نے پچاس دینار لیٔے تھے۔ \v 42 اُن کے پاس قرض اَدا کرنے کو کُچھ بھی نہ تھا، لہٰذا اُس نے دونوں کو اُن کا قرض مُعاف کر دیا۔ اُن میں سے کون اُسے زِیادہ مَحَبّت کرےگا؟“ \p \v 43 شمعُونؔ نے جَواب دیا، ”میرے خیال میں وہ جسے اُس نے زِیادہ مُعاف کیا۔“ \p یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”تیرا فیصلہ صحیح ہے۔“ \p \v 44 تَب حُضُور نے عورت کی طرف مُڑ کر شمعُونؔ سے کہا، ”تو اِس خاتُون کو دیکھتا ہے؟ مَیں تیرے گھر میں داخل ہُوا تو، تُونے میرے پاؤں دھونے کے لیٔے پانی نہ دیا لیکن اِس خاتُون نے اَپنے آنسُوؤں سے میرے پاؤں بھگو دیئے اَور اَپنے بالوں سے اُنہیں پونچھا۔ \v 45 تُونے مُجھے بوسہ نہ دیا لیکن جَب سے میں اَندر آیا ہُوں یہ خاتُون میرے پاؤں چُومنے سے باز نہیں آ رہی ہے۔ \v 46 تُونے میرے سَر پر تیل نہ ڈالا لیکن اِس خاتُون نے میرے پاؤں پر عِطر اُنڈیلا ہے۔ \v 47 اِس لیٔے، میں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِس کے گُناہ جو بہت تھے بخش دئیے گیٔے ہیں چونکہ اِس نے بہت مَحَبّت ظاہر کی لیکن جِس کو تھوڑا مُعاف کیا گیا ہے وہ تھوڑی مَحَبّت دِکھاتا ہے۔“ \p \v 48 تَب یِسوعؔ نے اُس خاتُون سے کہا، ”تیرے گُناہ مُعاف ہویٔے۔“ \p \v 49 جو لوگ آپ کے ساتھ دسترخوان پر تھے یہ سُن کر دِل ہی دِل میں کہنے لگے، ”یہ کون ہے جو گُناہ بھی مُعاف کرتا ہے؟“ \p \v 50 لیکن یِسوعؔ نے خاتُون سے کہا، ”تیرے ایمان نے تُجھے بچا لیا ہے، سلامتی کے ساتھ رخصت ہو۔“ \c 8 \s1 بیج بونے والے کی تمثیل \p \v 1 اِس کے بعد، یُوں ہُوا کہ یِسوعؔ شہر بہ شہر اَور گاؤں بہ گاؤں پھر کر، خُدا کی بادشاہی کی خُوشخبری سُناتے اَور مُنادی کرتے رہے۔ یِسوعؔ بَارہ رسولوں کے ساتھ تھے، \v 2 بعض عورتیں بھی ساتھ تھیں جنہوں نے بدرُوحوں اَور بیماریوں سے شفا پائی تھی: مثلاً مریمؔ (مَگدلِینیؔ) جِس میں سے سات بدرُوحیں نکالی گئی تھیں؛ \v 3 اَور یوأنّہؔ ہیرودیسؔ کے دیوان؛ خُوزہؔ کی بیوی تھی، اَور سوسنّؔاہ اَور کیٔی دُوسری خواتین جو اَپنے مال و اَسباب سے اُن کی خدمت کرتی تھیں۔ \p \v 4 جَب اِتنا بڑا ہُجوم جمع ہو گیا اَور ہر شہر سے لوگ یِسوعؔ کے پاس چلے آتے تھے تو آپ نے یہ تمثیل سُنایٔی: \v 5 ”ایک بیج بونے والا بیج بونے نِکلا۔ بوتے وقت کُچھ بیج، راہ کے کنارے، گِرے اَور اُسے روندا گیا اَور چڑیوں نے آکر اُنہیں چُگ لیا۔ \v 6 کُچھ چٹّان پر گِرے اَور اُگتے ہی سُوکھ گیٔے کیونکہ اُنہیں نَمی نہ مِلی۔ \v 7 کُچھ جھاڑیوں میں گِرے اَور جھاڑیوں کے ساتھ بڑھے لیکن جھاڑیوں نے پھیل کر اُنہیں بڑھنے سے روک دیا۔ \v 8 اَور کُچھ اَچھّی زمین پر گِرے اَور اُگ گیٔے، اَور بڑھ کر سَو گُنا پھل لایٔے۔“ \p یہ باتیں کہہ کر آپ نے پُکارا، ”جِس کے پاس سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے۔“ \p \v 9 یِسوعؔ کے شاگردوں نے آپ سے پُوچھا کہ اِس تمثیل کا مطلب کیا ہے؟ \v 10 آپ نے فرمایا، ”تُمہیں تو خُدا کی بادشاہی کے رازوں کو سمجھنے کی قابلیّت دی گئی ہے، لیکن دُوسروں کو یہ باتیں تمثیلوں میں بَیان کی جاتی ہیں، کیونکہ، \q1 ” ’وہ دیکھتے ہُوئے بھی کُچھ نہیں دیکھتے؛ \q2 اَور سُنتے ہُوئے بھی کُچھ نہیں سمجھتے۔‘\f + \fr 8‏:10 \fr*\ft \+xt یَشع 6‏:9‏\+xt*‏\ft*\f* \p \v 11 ”اِس تمثیل کا مطلب یہ ہے: بیج خُدا کا کلام ہے۔ \v 12 راہ کے کنارے والے وہ ہیں جو سُنتے تو ہیں لیکن شیطان آتا ہے اَور اُن کے دِلوں سے کلام کو نکال لے جاتا ہے، اَیسا نہ ہو کہ وہ ایمان لائیں اَور نَجات پائیں۔ \v 13 چٹّان پر کے وہ ہیں جو کلام کو سُن کر اُسے خُوشی سے قبُول کرتے ہیں لیکن کلام اُن میں جڑ نہیں پکڑتا۔ وہ کُچھ عرصہ تک تو اَپنے ایمان پر قائِم رہتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت پَسپا ہو جاتے ہیں۔ \v 14 اَور جھاڑیوں میں گِرنے والے بیج سے مُراد وہ لوگ ہیں جو کلام کو سُنتے تو ہیں لیکن رفتہ رفتہ زندگی کی فِکروں، دولت اَور عیش و عشرت میں پھنس جاتے ہیں اَور اُن کا پھل پک نہیں پاتا۔ \v 15 اَچھّی زمین والے بیج سے مُراد وہ لوگ ہیں جو کلام کو سُن کر اُسے اَپنے عُمدہ اَور نیک دِل میں، مضبُوطی سے سنبھالے رہتے ہیں، اَور صبر سے پھل لاتے ہیں۔ \s1 چراغ اَور چراغدان \p \v 16 ”کویٔی شخص چراغ جَلا کر اُسے برتن سے نہیں چھُپاتا اَور نہ ہی چارپائی کے نیچے رکھتا ہے لیکن چراغدان پر رکھتا ہے تاکہ اَندر آنے والوں کو اُس کی رَوشنی دِکھائی دے۔ \v 17 کیونکہ کویٔی چیز چھپی ہویٔی نہیں جو ظاہر نہ کی جائے گی اَور نہ ہی کویٔی اَیسا راز ہے اُس کا پردہ فاش نہ کیا جائے گا۔ \v 18 لہٰذا خبردار رہو کہ تُم کس طرح سُنتے۔ کیونکہ جِس کے پاس ہے اُسے اَور دیا جائے گا؛ جِس کے پاس نہیں ہے، لیکن وہ سمجھتا ہے کہ ہے اُس سے وہ بھی لے لیا جائے گا۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ کے بھایٔی اَور اُس کی ماں \p \v 19 پھر اَیسا ہُوا کہ یِسوعؔ کی ماں اَور اُن کے بھایٔی اُن کے پاس آئے لیکن لوگوں کا اِس قدر ہُجوم جمع تھا کہ وہ اُن تک پہُنچ نہ سکے۔ \v 20 چنانچہ اُنہیں خبر دی گئی کہ، ”آپ کی ماں اَور آپ کے بھایٔی باہر کھڑے ہیں اَور حُضُور سے مِلنا چاہتے ہیں۔“ \p \v 21 لیکن حُضُور نے جَواب میں کہا، ”میری ماں اَور میرے بھایٔی تو وہ ہیں جو خُدا کا کلام سُنتے ہیں اَور اُس پر عَمل کرتے ہیں۔“ \s1 طُوفان کا روکا جانا \p \v 22 ایک دِن یِسوعؔ نے اَپنے شاگردوں سے کہا، ”آؤ ہم جھیل کے اُس پار چلیں۔“ چنانچہ وہ بڑی کشتی میں سوار ہویٔے اَور روانہ ہو گئے۔ \v 23 کشتی چلی جا رہی تھی کہ یِسوعؔ کو نیند آ گئی۔ اَچانک جھیل پر طُوفانی ہَوا چلنے لگی اَور اُن کی کشتی میں پانی بھرنے لگا اَور وہ بڑے خطرے میں پڑ گیٔے۔ \p \v 24 شاگردوں نے یِسوعؔ کے پاس آکر اُنہیں جگایا اَور کہا، ”آقا، آقا! ہم تو ڈُوبے جا رہے ہیں!“ \p وہ اُٹھے اَور آپ نے ہَوا اَور پانی کے زور و شور کو ڈانٹا؛ دونوں تھم گیٔے اَور بڑا اَمن ہو گیا۔ \v 25 تَب یِسوعؔ نے اُن سے پُوچھا، ”تمہارا ایمان کہاں چلا گیا تھا؟“ \p وہ ڈر گیٔے اَور حیرت زدہ ہوکر ایک دُوسرے سے کہنے لگے، ”آخِر یہ آدمی ہے کون؟ جو ہَوا اَور پانی کو بھی حُکم دیتاہے اَور وہ اُس کا حُکم مانتے ہیں۔“ \s1 بدرُوحوں کا نکالا جانا \p \v 26 وہ بڑی کشتی کے ذریعہ گِراسینیوں،\f + \fr 8‏:26 \fr*\fq گِراسینیوں \fq*\ft کُچھ پُرانے نوشتوں میں \ft*\fqa گدرینیوں اَور گیرگے سینیس آیا ہے آیت 37 بھی دیکھیں۔‏\fqa*\f* کے علاقہ میں پہُنچے جو جھیل کے اُس پار گلِیل کے سامنے ہے۔ \v 27 جَب یِسوعؔ نے کنارے پر قدم رکھا تو اُنہیں شہر کا ایک آدمی مِلا جِس میں بدرُوحیں تھیں۔ اُس نے مُدّت سے کپڑے پہننے چھوڑ دئیے تھے اَور وہ کسی گھر میں نہیں، بَلکہ قبروں میں رہتا تھا۔ \v 28 جَب اُس نے یِسوعؔ کو دیکھا تو زور سے چیخ ماری اَور اُن کے سامنے گرا، اَور چِلّا چِلّاکر کہنے لگا، ”اَے یِسوعؔ، خُداتعالیٰ کے بیٹے، آپ کو مُجھ سے کیا کام؟ مَیں آپ کی مِنّت کرتا ہُوں کہ مُجھے عذاب میں نہ ڈالیں۔“ \v 29 بات یہ تھی کہ یِسوعؔ نے بدرُوح کو اُس آدمی میں سے نکل جانے کا حُکم دیا تھا۔ اکثر بدرُوح اُس آدمی کو بڑی شِدّت سے پکڑ لیتی تھی، اَور لوگ اُسے قابُو میں رکھنے کے لیٔے زنجیروں اَور بِیڑیوں سے جکڑ دیتے تھے، لیکن وہ زنجیروں کو توڑ ڈالتا تھا اَور وہ بدرُوح اُسے بیابانوں میں بھگائے پِھرتی تھی۔ \p \v 30 یِسوعؔ نے اُس سے پُوچھا، ”تیرا نام کیا ہے؟“ \p اُس نے کہا، ”میرا نام لشکر،“ کیونکہ اُس میں بہت سِی بدرُوحیں گھُسی ہویٔی تھیں۔ \v 31 بدرُوحیں اُس کی مِنّت کرنے لگیں کہ ہمیں بڑے اتھاہ گڑھے میں جانے کا حُکم نہ دے۔ \p \v 32 وہاں پہاڑ پر سُؤروں کا ایک بڑا غول چَر رہاتھا۔ اُن بدرُوحوں نے یِسوعؔ سے اِلتجا کرکے کہا کہ ہمیں اُن میں داخل ہو جانے دیں، اَور حُضُور نے اُنہیں جانے دیا۔ \v 33 چنانچہ بدرُوحیں اُس آدمی میں سے نکل کر سُؤروں میں داخل ہو گئیں اَور اُس غول کے سارے سُؤر ڈھلان سے جھیل کی طرف لپکے اَور ڈُوب مَرے۔ \p \v 34 یہ ماجرا دیکھ کر سُؤر چَرانے والے بھاگ کھڑے ہویٔے اَور اُنہُوں نے شہر اَور دیہات میں اِس بات کی خبر پہُنچائی۔ \v 35 لوگ اِس ماجرے کو دیکھنے نکلے اَور یِسوعؔ کے پاس آئے۔ جَب اُنہُوں نے اُس آدمی کو جِس میں سے بدرُوحیں نکلی تھیں، کپڑے پہنے اَور ہوش میں یِسوعؔ کے پاؤں کے پاس بیٹھے دیکھا تو خوفزدہ رہ گیٔے۔ \v 36 اِس واقعہ کے دیکھنے والوں نے اُنہیں بتایا کہ وہ آدمی جِس میں بدرُوحیں تھیں کس طرح اَچھّا ہُوا۔ \v 37 چونکہ گِراسینیوں کے آس پاس کے علاقہ کے سارے باشِندے دہشت زدہ ہو گئے تھے اِس لیٔے یِسوعؔ سے مِنّت کی کہ آپ ہمارے پاس سے چلے جایٔیں۔ لہٰذا وہ کشتی میں سوار ہوکر واپس جانے لگے۔ \p \v 38 اَور اُس آدمی نے جِس میں سے بدرُوحیں نکلی تھیں یِسوعؔ کی مِنّت کی کہ مُجھے اَپنے ہی ساتھ رہنے دیں۔ لیکن یِسوعؔ نے اُسے رخصت کرکے کہا، \v 39 ”اَپنے گھر لَوٹ جا اَور لوگوں کو بتا کہ خُدا نے تیرے لیٔے کیا کُچھ کیا ہے۔“ چنانچہ وہ وہاں سے چلا گیا اَور سارے شہر میں اُن مہربانیوں کا جو یِسوعؔ نے اُس پر کی تھیں، چَرچا کرنے لگا۔ \s1 ایک مُردہ لڑکی اَور بیمار عورت \p \v 40 جَب یِسوعؔ واپس آئے تو ایک بڑا ہُجوم آپ کے اِستِقبال کو مَوجُود تھا کیونکہ سَب لوگ اُن کے مُنتظر تھے۔ \v 41 مقامی یہُودی عبادت گاہ کا ایک رہنما جِس کا نام یائیرؔ تھا، آیا اَور یِسوعؔ کے قدموں پر گِر کر اُن کی مِنّت کرنے لگاکہ وہ اُس کے گھر چلیں \v 42 کیونکہ اُس کی بَارہ بَرس کی اِکلوتی بیٹی موت کے بِستر پر پڑی تھی۔ \p جَب وہ جا رہاتھا تو لوگ اُس پر گِرے پڑتے تھے۔ \v 43 ایک خاتُون تھی جِس کے بَارہ بَرس سے خُون جاری تھا، وہ کیٔی طبیبوں سے علاج کراتے کراتے اَپنی ساری پُونجی لُٹا چُکی تھی لیکن کسی کے ہاتھ سے شفا نہ پا سکی تھی۔ \v 44 اُس نے پیچھے سے یِسوعؔ کے پاس آکر یِسوعؔ کی پوشاک کا کنارہ چھُوا اَور اُسی وقت اُس کا خُون بہنا بندہو گیا۔ \p \v 45 اِس پر یِسوعؔ نے کہا، ”مُجھے کس نے چھُوا ہے؟“ \p جَب سَب اِنکار کرنے لگے تو پطرس نے کہا، ”اَے آقا! لوگ ایک دُوسرے کو دھکیل دھکیل کر تُجھ پر گِرے پڑتے ہیں۔“ \p \v 46 لیکن یِسوعؔ نے کہا، ”کسی نے مُجھے ضروُر چھُوا ہے؛ کیونکہ مُجھے پتہ ہے کہ مُجھ میں سے قُوّت نکلی ہے۔“ \p \v 47 وہ عورت یہ دیکھ کر کہ وہ یِسوعؔ سے چھِپ نہیں سکتی، کانپتی ہویٔی سامنے آئی اَور اُن کے قدموں میں گِر پڑی۔ لوگوں کے سامنے بتانے لگی کہ اُس نے کس غرض سے یِسوعؔ کو چھُوا تھا اَور وہ کس طرح چھُوتے ہی شفایاب ہو گئی تھی۔ \v 48 یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”بیٹی! تمہارے ایمان نے تُمہیں شفا بخشی۔ سلامتی کے ساتھ رخصت ہو!“ \p \v 49 وہ یہ کہنے بھی نہ پایٔے تھے کہ یہُودی عبادت گاہ کے رہنما یائیرؔ کے گھر سے کسی نے آکر کہا، ”تیری بیٹی مَر چُکی ہے، اَب اُستاد کو مزید تکلیف نہ دیں۔“ \p \v 50 لیکن یہ سُن کر یِسوعؔ نے یائیرؔ سے کہا، ”ڈر مت؛ صِرف ایمان رکھ، وہ بچ جائے گی۔“ \p \v 51 جَب وہ یائیرؔ کے گھر میں داخل ہویٔے تو یِسوعؔ نے پطرس، یُوحنّا اَور یعقوب اَور لڑکی کے والدین کے سِوا کسی اَور کو اَندر نہ جانے دیا۔ \v 52 سَب لوگ لڑکی کے لیٔے رو پیٹ رہے تھے۔ لیکن یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”رونا پیٹنا بند کرو، لڑکی مَری نہیں بَلکہ سَو رہی ہے۔“ \p \v 53 اِس پر وہ یِسوعؔ کی ہنسی اُڑانے لگے کیونکہ اُنہیں مَعلُوم تھا کہ لڑکی مَر چُکی ہے۔ \v 54 لیکن حُضُور نے لڑکی کا ہاتھ پکڑکر کہا، ”میری بیٹی اُٹھ!“ \v 55 اُس کی رُوح لَوٹ آئی اَور وہ فوراً اُٹھ بیٹھی اَور اُنہُوں نے حُکم دیا کہ لڑکی کو کُچھ کھانے کو دیا جائے۔ \v 56 اُس لڑکی کے والدین حیران رہ گیٔے۔ یِسوعؔ نے اُنہیں تاکید کی کہ جو کُچھ ہُواہے اُس کا ذِکر کسی سے نہ کرنا۔ \c 9 \s1 بَارہ شاگردوں کا مُنادی کے لیٔے بھیجا جانا \p \v 1 یِسوعؔ نے اَپنے بَارہ رسولوں کو بُلایا اَور اُنہیں قُدرت اَور اِختیار بخشا کہ ساری بدرُوحوں کو نکالیں اَور بیماریوں کو دُور کریں۔ \v 2 اَور اُنہیں روانہ کیا تاکہ وہ خُدا کی بادشاہی کی مُنادی کریں اَور بیماریوں کو اَچھّا کریں \v 3 اَور اُن سے کہا: ”راستے کے لیٔے کُچھ نہ لینا، نہ لاٹھی، نہ تھیلا، نہ روٹی، نہ نقدی، نہ دو دو کُرتے۔ \v 4 تُم جِس گھر میں داخل ہو، اُس شہر سے رخصت ہونے تک اُسی گھر میں ٹھہرے رہنا۔ \v 5 اَور جِس شہر میں لوگ تُمہیں قبُول نہ کریں تو اُس شہر سے نکلتے وقت اَپنے پاؤں کی گرد بھی جھاڑ دینا تاکہ وہ اُن کے خِلاف گواہی دے۔“ \v 6 پس وہ روانہ ہویٔے اَور گاؤں گاؤں جا کر ہر جگہ خُوشخبری سُناتے اَور مَریضوں کو شفا دیتے پھرے۔ \p \v 7 ہیرودیسؔ جو مُلک کے چوتھائی حِصّہ پر حُکومت کرتا تھا یہ باتیں سُن کر گھبرا گیا۔ کیونکہ بعض کا کہنا تھا کہ حضرت یُوحنّا مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے، \v 8 اَور بعض کہتے تھے کہ ایلیّاہ ظاہر ہُواہے، اَور بعض کہتے تھے کہ پُرانے نبیوں میں سے کویٔی نبی زندہ ہو گیا ہے۔ \v 9 مگر ہیرودیسؔ نے کہا کہ، ”حضرت یُوحنّا کا تو مَیں نے سَر قلم کروا دیا تھا۔ اَب یہ کون ہے جِس کے بارے میں اَیسی باتیں سُننے میں آ رہی ہیں؟“ اَور وہ یِسوعؔ کو دیکھنے کی کوشش میں لگ گیا۔ \s1 پانچ ہزار آدمیوں کو کھِلانا \p \v 10 رسول واپس آئے اَورجو کُچھ اُنہُوں نے کام کئے آکر یِسوعؔ سے بَیان کیا اَور آپ اُنہیں ساتھ لے کر الگ بیت صیؔدا نام ایک شہر کی طرف روانہ ہویٔے۔ \v 11 لیکن لوگوں کو مَعلُوم ہو گیا اَور وہ آپ کا پیچھا کرنے لگے۔ یِسوعؔ نے خُوشی سے اُن سے مُلاقات کی اَور اُنہیں خُدا کی بادشاہی کی باتیں سُنانے لگے اَور جِن کو شفا کی ضروُرت تھی اُنہیں شفا بخشی۔ \p \v 12 جَب دِن ڈھلنے لگا تو اُن بَارہ رسولوں نے پاس آکر آپ سے کہا، ”اِن لوگوں کو رخصت کر دے تاکہ وہ آس پاس کے گاؤں اَور بستیوں میں جا سکیں اَور اَپنے کھانے پینے کا اِنتظام کریں، کیونکہ ہم تو ایک ویران جگہ میں ہیں۔“ \p \v 13 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”تُم ہی اِنہیں کُچھ کھانے کو دو۔“ \p اُنہُوں نے کہا، ”ہمارے پاس پانچ روٹیوں اَور دو مچھلیوں سے زِیادہ کُچھ نہیں، جَب تک کہ ہم جا کر اِن سَب کے لیٔے کھانا خرید نہ لائیں۔“ \v 14 کیونکہ پانچ ہزار کے قریب مَرد وہاں مَوجُود تھے۔ \p لیکن اُس نے اَپنے شاگردوں سے کہا، ”اِن لوگوں کو پچاس پچاس کی قطاروں میں بِٹھا دو۔“ \v 15 چنانچہ اُنہُوں نے اَیسا ہی کیا، اَور سَب کو بِٹھا دیا۔ \v 16 یِسوعؔ نے وہ پانچ روٹیاں اَور دو مچھلیاں لیں اَور آسمان کی طرف نظر اُٹھاکر، اُن پر برکت مانگی پھر آپ نے اُن روٹیوں کے ٹکڑے توڑ کر شاگردوں کو دئیے تاکہ وہ اُنہیں لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ \v 17 سَب لوگ کھا کر سیر ہو گئے اَور بچے ہویٔے ٹُکڑوں کی بَارہ ٹوکریاں بھر کر اُٹھائی گئیں۔ \s1 پطرس کا اقرار \p \v 18 ایک دفعہ یِسوعؔ تنہائی میں دعا کر رہے تھے اَور اُن کے شاگرد اُن کے پاس تھے، آپ نے اُن سے پُوچھا، ”لوگ میرے بارے میں، کیا کہتے ہیں کہ مَیں کون ہُوں؟“ \p \v 19 اُنہُوں نے جَواب دیا، ”کُچھ حضرت یُوحنّا پاک غُسل دینے والا؛ لیکن بعض ایلیّاہ اَور بعض کا خیال ہے کہ پُرانے نبیوں میں سے کویٔی نبی جی اُٹھا ہے۔“ \p \v 20 تَب آپ نے اُن سے پُوچھا، ”تُم مُجھے کیا کہتے ہو؟ مَیں کون ہُوں؟“ \p پطرس نے جَواب دیا، ”آپ خُدا کے المسیح ہیں۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ کا اَپنی موت کی پیشین گوئی کرنا \p \v 21 اِس پر یِسوعؔ نے اُنہیں تاکید کرکے حُکم دیا کہ یہ بات کسی سے نہ کہنا۔ \v 22 اَور یہ بھی کہا، ”اِبن آدمؔ کو کیٔی تکالیف کا سامنا کرنا پڑےگا۔ وہ بُزرگوں، اہم کاہِنوں اَور فقِیہوں کی طرف سے ردّ کر دیا جائے گا، وہ اُسے قتل کر ڈالیں گے لیکن وہ تیسرے دِن زندہ ہو جائے گا۔“ \p \v 23 پھر یِسوعؔ نے اُن سَب سے کہا: ”اگر کویٔی میری پیروی کرنا چاہے تو وہ اَپنی خُودی کا اِنکار کرے اَور روزانہ اَپنی صلیب اُٹھائے اَور میرے پیچھے ہولے۔ \v 24 کیونکہ جو کویٔی اَپنی جان کو باقی رکھنا چاہتاہے وہ اُسے کھویٔے گا لیکن جو کویٔی میری خاطِر اَپنی جان کھویٔے گا وہ اُسے محفوظ رکھےگا۔ \v 25 آدمی اگر ساری دُنیا حاصل کر لے مگر اَپنا نُقصان کر لے یا خُود کو کھو بیٹھے تو کیا فائدہ؟ \v 26 کیونکہ جو کویٔی مُجھ سے اَور میرے کلام سے شرمائے گا تو اِبن آدمؔ بھی جَب وہ اَپنے، اَور باپ کے جلال میں مُقدّس فرشتوں کے ساتھ آئے گا تو اُس سے شرمائے گا۔ \p \v 27 ”لیکن مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ بعض لوگ جو یہاں کھڑے ہیں، جَب تک وہ خُدا کی بادشاہی کو دیکھ نہ لیں گے، موت کا مزہ نہ چَکھنے پائیں گے۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ کی صورت کا بدل جانا \p \v 28 اِن باتوں کے تقریباً آٹھ دِن بعد اَیسا ہُوا کہ یِسوعؔ، پطرس، یُوحنّا اَور یعقوب کو ساتھ لے کر ایک پہاڑ پر دعا کرنے کی غرض سے گیٔے۔ \v 29 اَور جَب وہ دعا کر رہے تھے تو اُن کی صورت بدل گئی اَور اُن کی پوشاک سفید ہوکر بجلی کی مانِند چمکنے لگی۔ \v 30 اَور دیکھو دو آدمی یِسوعؔ سے باتیں کر رہے تھے۔ یہ حضرت مَوشہ اَور حضرت ایلیّاہ تھے۔ \v 31 جو جلال میں ظاہر ہوکر یِسوعؔ کے آسمان پر اُٹھائے جانے کا\f + \fr 9‏:31 \fr*\fq اُٹھائے جانے کا \fq*\ft یُونانی میں \ft*\fqa موت کا ذِکر‏\fqa*\f* ذِکر کر رہے تھے جو یروشلیمؔ میں واقع ہونے والا تھا۔ \v 32 لیکن پطرس اَور اُن کے ساتھیوں کی آنکھیں نیند سے بھاری ہو رہی تھیں۔ جَب وہ جاگے تو اُنہُوں نے یِسوعؔ کا جلال دیکھا اَور اُن دو آدمیوں پر بھی اُن کی نظر پڑی جو اُن کے ساتھ کھڑے تھے۔ \v 33 جَب وہ یِسوعؔ کے پاس سے جانے لگے تو پطرس نے یِسوعؔ سے کہا، ”آقا! ہمارا یہاں رہنا اَچھّا ہے۔ کیوں نہ ہم یہاں تین ڈیرے کھڑے کریں، ایک آپ کے لیٔے، ایک حضرت مَوشہ اَور ایک حضرت ایلیّاہ کے لیٔے۔“ (اُسے پتہ نہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہاہے۔) \p \v 34 وہ یہ کہہ ہی رہاتھا کہ، ایک بدلی اُن پر چھاگئی، اَور وہ اُس میں گھِر گیٔے اَور خوفزدہ ہو گئے۔ \v 35 تَب اُس بدلی میں سے آواز آئی کہ، ”یہ میرا پیارا بیٹا ہے، جسے مَیں نے چُن لیا ہے؛ تُم اُس کی سُنو۔“ \v 36 اَور آواز آنے کے بعد، یِسوعؔ تنہا دِکھائی دئیے۔ شاگردوں نے یہ بات اَپنے تک ہی رکھی اَور اُن دِنوں جو کُچھ دیکھا تھا اُس کا ذِکر کسی سے نہ کیا۔ \s1 ایک لڑکے میں سے بدرُوح کا نکالا جانا \p \v 37 اگلے دِن اَیسا ہُوا کہ جَب وہ پہاڑ سے نیچے آئے تو لوگوں کا ایک بڑا ہُجوم اُن سے مِلا۔ \v 38 ایک آدمی نے اُس ہُجوم میں سے چِلّاکر کہا، ”اَے اُستاد، مَیں آپ کی مِنّت کرتا ہُوں کہ میرے بیٹے پر نظر کر، وہ میرا اِکلوتا بیٹا ہے۔ \v 39 ایک بدرُوح اُسے قبضہ میں لے لیتی ہے اَور وہ یَکایک چِلّانے لگتا ہے؛ اَور اُس کو اَیسا مروڑتی ہے کہ اُس کے مُنہ سے جھاگ نکلنے لگتا ہے۔ بدرُوح اُسے زخمی کرکے مُشکل سے چھوڑتی ہے۔ \v 40 مَیں نے آپ کے شاگردوں سے اِلتجا کی تھی کہ وہ بدرُوح کو نکال دیں، لیکن وہ نہیں نکال سکے۔“ \p \v 41 یِسوعؔ نے جَواب میں کہا، ”اَے بےاِعتقاد اَور گُمراہ لوگو، میں کب تک تمہارے ساتھ رہُوں گا اَور تمہاری برداشت کرتا رہُوں گا؟ اَپنے بیٹے کو یہاں لے آؤ۔“ \p \v 42 ابھی وہ لڑکا آ ہی رہاتھا، بدرُوح نے اُسے مروڑ کر زمین پردے پٹکا۔ لیکن یِسوعؔ نے بدرُوح کو جِھڑکا اَور لڑکے کو شفا بخشی اَور اُسے اُس کے باپ کے حوالے کر دیا۔ \v 43 اَور سَب لوگ خُدا کی قُدرت دیکھ کر حیران رہ گیٔے۔ \s1 حُضُور یِسوعؔ نے اَپنی موت کی دُوسری بار پیشین گوئی کی \p جَب سَب لوگ اُن کاموں پرجو یِسوعؔ کرتے تھے تعجُّب کا اِظہار کر رہے تھے تو حُضُور نے اَپنے شاگردوں سے کہا، \v 44 ”میری اِن باتوں کو کانوں میں ڈال لو کیونکہ: اِبن آدمؔ آدمیوں کے حوالے کیٔے جانے کو ہے۔“ \v 45 لیکن وہ اِس بات کا مطلب نہ سمجھ سکے۔ کیونکہ وہ اُن سے پوشیدہ رکھی گئی تھی تاکہ وہ اُسے سمجھ نہ سکیں؛ اَور وہ اِس کے بارے میں اُن سے پُوچھنے سے بھی ڈرتے تھے۔ \p \v 46 پھر شاگردوں میں یہ بحث چھِڑ گئی کہ ہم میں سَب سے بڑا کون ہے؟ \v 47 یِسوعؔ نے اُن کے دِل کی بات مَعلُوم کرکے، ایک بچّے کو لیا اَور اُسے اَپنے پاس کھڑا کیا۔ \v 48 اَور اَپنے شاگردوں سے کہا، ”جو کویٔی اِس بچّے کو میرے نام پر قبُول کرتا ہے وہ مُجھے قبُول کرتا ہے؛ اَورجو مُجھے قبُول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبُول کرتا ہے۔ کیونکہ جو تُم میں سَب سے چھوٹاہے وُہی سَب سے بڑا ہے۔“ \p \v 49 تَب یُوحنّا نے یِسوعؔ سے کہا، ”اَے آقا! ہم نے ایک شخص کو آپ کے نام سے بدرُوحیں نکالتے دیکھا تو اُسے منع کیا کیونکہ وہ ہم میں سے ایک نہیں ہے۔“ \p \v 50 لیکن یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”اُسے منع نہ کرنا کیونکہ جو تمہارے خِلاف نہیں وہ تمہاری طرف ہے۔“ \s1 سامریہؔ والوں کی طرف سے مُخالفت \p \v 51 جَب یِسوعؔ کے آسمان پر اُٹھائے جانے کے دِن نزدیک آ گئے تو، آپ نے پُختہ اِرادہ کے ساتھ یروشلیمؔ کا رُخ کیا۔ \v 52 اَور اَپنے آگے قاصِد روانہ کر دئیے، یہ قاصِد گیٔے اَور سامریوں کے ایک گاؤں میں داخل ہویٔے تاکہ یِسوعؔ کے آنے کی تیّاری کریں؛ \v 53 لیکن وہاں کے لوگوں نے اُن کا اِستِقبال نہ کیا، کیونکہ یِسوعؔ یروشلیمؔ جا رہے تھے۔ \v 54 یہ دیکھ کر آپ کے شاگرد یعقوب اَور یُوحنّا کہنے لگے، ”اَے خُداوؔند، آپ حُکم دیں تو ہم آسمان سے آگ نازل کروا کر اِن لوگوں کو بھسم کر دیں؟“ \v 55 لیکن یِسوعؔ نے مُڑ کر دیکھا اَور اُنہیں جِھڑکا۔\f + \fr 9‏:55 \fr*\ft کچھ نوشتوں میں لِکھّا ہے: اَور کہا کہ تُم نہیں جانتے کہ تُم کیسی رُوح کے ہو کیونکہ اِبن آدمؔ لوگوں کو ہلاک کرنے نہیں بَلکہ بچانے آیا ہوں۔\ft*\f* \v 56 تَب وہ کسی دُوسرے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ \s1 حُضُور یِسوعؔ کے پیچھے چلنے کی قیمت \p \v 57 جَب وہ راستے میں چلے جا رہے تھے تو، کسی نے یِسوعؔ سے کہا، ”آپ جہاں بھی جایٔیں گے مَیں آپ کی پیروی کروں گا۔“ \p \v 58 یِسوعؔ نے سے جَواب دیا، ”لومڑیوں کے بھی بھٹ اَور ہَوا کے پرندوں کے گھونسلے ہوتے ہیں، لیکن اِبن آدمؔ کے لیٔے کویٔی جگہ نہیں جہاں وہ اَپنا سَر بھی رکھ سکے۔“ \p \v 59 پھر حُضُور نے ایک اَور شخص سے کہا، ”ہو میرے پیچھے ہولے۔“ \p لیکن اُس نے کہا، ”اَے خُداوؔند، پہلے مُجھے اِجازت دیں کہ میں جا کر اَپنے باپ کو دفن کرلُوں۔“ \p \v 60 یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”مُردوں کو اَپنے مُردے دفن کرنے دیں، لیکن آپ جایٔیں اَور خُدا کی بادشاہی کی مُنادی کریں۔“ \p \v 61 ایک اَور شخص نے کہا، ”خُداوؔند، مَیں آپ کے پیچھے چلُوں گا؛ لیکن پہلے مُجھے اِجازت دیں کہ میں اَپنے گھر والوں سے رخصت ہو آؤں۔“ \p \v 62 یِسوعؔ نے اُسے جَواب دیا، ”جو کویٔی ہل پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کی طرف دیکھتا ہے وہ خُدا کی بادشاہی میں خدمت کے لائق نہیں۔“ \c 10 \s1 بہتّر شاگردوں کا بھیجا جانا \p \v 1 اِس کے بعد خُداوؔند نے بہتّر شاگرد اَور مُقرّر کیٔے اَور اُنہیں دو دو کرکے اَپنے سے پہلے اُن شہروں اَور قصبوں میں روانہ کیا جہاں وہ خُود جانے والے تھے۔ \v 2 اَور آپ نے اُن سے کہا، ”فصل تو بہت ہے، لیکن مزدُور کم ہیں۔ اِس لیٔے فصل کے خُداوؔند سے اِلتجا کرو کہ، وہ اَپنی فصل کاٹنے کے لیٔے مزدُور بھیج دے۔ \v 3 جاؤ! دیکھو میں تُمہیں گویا برّوں کو بھیڑیوں کے درمیان بھیج رہا ہُوں۔ \v 4 اَپنے ساتھ بٹوا نہ لے جانا نہ تھیلی نہ جُوتے؛ اَور نہ کسی کو راہ میں سلام کرنا۔ \p \v 5 ”جَب کسی گھر میں داخل ہو تو، پہلے کہو کہ، ’اِس گھر کی سلامتی ہو۔‘ \v 6 اگر وہاں کویٔی سلامتی کا فرزند ہوگا تو، تمہارا سلام اُس پر ٹھہرے گا؛ ورنہ، تمہارے پاس لَوٹ آئے گا۔ \v 7 اُسی گھر میں ٹھہرے رہو، اَورجو کُچھ اُن سے ملے گھر والوں کے ساتھ کھاؤ اَور پیو، کیونکہ مزدُور اَپنی مزدُوری کا حقدار ہے۔ گھر بدلتے نہ رہنا۔ \p \v 8 ”جِس شہر میں تُم داخل ہو اَور اُس شہر والے تُمہیں قبُول کریں، تو جو کُچھ تمہارے سامنے رکھا جائے اُسے کھاؤ۔ \v 9 وہاں کے بیماریوں کو شفا دو اَور بتاؤ کہ، ’خُدا کی بادشاہی تمہارے نزدیک آ گئی ہے۔‘ \v 10 اَور اگر تُم کسی اَیسے شہر میں قدم رکھتے جہاں کے لوگ تُمہیں قبُول نہیں کرتے تو، اُس شہر کی گلیوں میں جا کر کہو کہ، \v 11 ’ہم تمہارے شہر کی گرد کو بھی جو ہمارے پاؤں میں لگی ہویٔی ہے اِسے ایک اِنتباہ کے طور پر تمہارے سامنے جھاڑ دیتے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھو: خُدا کی بادشاہی تمہارے نزدیک آ گئی ہے۔‘ \v 12 میں تُم سے کہتا ہُوں کہ، عدالت کے دِن سدُومؔ کا حال اُس شہر کے حال سے زِیادہ قابل برداشت ہوگا۔ \p \v 13 ”اَے خُرازِینؔ! تُجھ پر افسوس، اَے بیت صیؔدا! تُجھ پر افسوس، کیونکہ جو معجزے تمہارے درمیان دِکھائے گیٔے اگر صُورؔ اَور صیؔدا میں دِکھائے جاتے، تو وہ ٹاٹ اوڑھ کر اَور سَر پر راکھ ڈال کر کب کے تَوبہ کر چُکے ہوتے۔ \v 14 لیکن عدالت کے دِن صُورؔ اَور صیؔدا کا حال تمہارے حال سے زِیادہ قابل برداشت ہوگا۔ \v 15 اَور تو اَے کَفرنحُومؔ، کیا تو آسمان تک بُلند کیا جائے گا؟ ہرگز نہیں، بَلکہ تو عالمِ اَرواح میں اُتار دیا جائے گا۔ \p \v 16 ”جو تمہاری سُنتا ہے وہ میری سُنتا ہے؛ جو تمہاری بےحُرمتی کرتا ہے وہ میری بےحُرمتی کرتا ہے؛ لیکن جو میری بےحُرمتی کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کی بےحُرمتی کرتا ہے۔“ \p \v 17 اَور وہ بہتّر شاگرد خُوشی کے ساتھ واپس آئے اَور کہنے لگے، ”اَے خُداوؔند! آپ کے نام سے تو بدرُوحیں بھی ہمارا حُکم مانتی ہیں۔“ \p \v 18 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”مَیں نے شیطان کو بجلی کی طرح آسمان سے گِرتے ہویٔے دیکھ رہاتھا۔ \v 19 دیکھو، مَیں نے تُمہیں سانپوں اَور بِچھُّوؤں کو کُچلنے کا اِختیار دیا ہے اَور دُشمن کی ساری قُوّت پر غلبہ عطا کیا ہے؛ اَور تُمہیں کسی سے بھی نُقصان نہ پہُنچے گا۔ \v 20 تو بھی، اِس بات سے خُوش نہ ہو کہ رُوحیں تمہارا حُکم مانتی ہیں، بَلکہ اِس بات سے خُوش ہو کہ تمہارے نام آسمان پر لکھے ہویٔے ہیں۔“ \p \v 21 اُسی گھڑی یِسوعؔ نے، پاک رُوح کی خُوشی سے معموُر ہوکر فرمایا، ”اَے باپ! آسمان اَور زمین کے خُداوؔند! مَیں آپ کی حَمد کرتا ہُوں کہ آپ نے یہ باتیں عالِموں اَور دانِشوروں سے پوشیدہ رکھیں، اَور بچّوں پر ظاہر کیں۔ ہاں، اَے باپ! کیونکہ آپ کی خُوشی اِسی میں تھی۔ \p \v 22 ”ساری چیزیں میرے باپ کی طرف سے میرے سُپرد کر دی گئی ہیں۔ اَور سِوا باپ کے کویٔی نہیں جانتا کہ بیٹا کون ہے، اَور سِوا بیٹے کے کویٔی نہیں جانتا کہ باپ کون ہے اَور سِوائے اُس شخص کے جِس پر بیٹا باپ کو ظاہر کرنے کا اِرادہ کرے۔“ \p \v 23 تَب وہ اَپنے شاگردوں کی طرف مُخاطِب ہُوئے اَور صِرف اُن ہی سے کہنے لگے، ”مُبارک ہیں وہ آنکھیں جو یہ باتیں دیکھتی ہیں جنہیں تُم دیکھتے ہو۔ \v 24 کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ بہت سے نبیوں اَور بادشاہوں کی خواہش تھی کہ یہ باتیں دیکھیں جو تُم دیکھتے ہو، مگر نہ دیکھ پایٔے، اَور یہ باتیں سُنیں جو تُم سُنتے ہو مگر نہ سُن پایٔے۔“ \s1 نیک سامری کی تمثیل \p \v 25 تَب ایک شَریعت کا عالِم اُٹھا اَور یِسوعؔ کو آزمانے کی غرض سے کہنے لگا۔ اَے اُستاد، ”مُجھے اَبدی زندگی کا وارِث بننے کے لیٔے کیا کرنا ہوگا؟“ \p \v 26 یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”شَریعت میں کیا لِکھّا ہے؟ تُم اُسے کس طرح پڑھتے ہو؟“ \p \v 27 اُس نے جَواب دیا، ” ’خُداوؔند اَپنے خُدا سے اَپنے سارے دِل اَور اَپنی ساری جان اَور اَپنی ساری طاقت اَور اَپنی ساری عقل سے مَحَبّت رکھو‘\f + \fr 10‏:27 \fr*\ft \+xt اِست 5‏:6‏\+xt*‏\ft*\f* اَور ’اَپنے پڑوسی سے اَپنی مانِند مَحَبّت رکھنا۔‘\f + \fr 10‏:27 \fr*\ft \+xt اَحبا 19‏:18‏\+xt*‏\ft*\f*“ \p \v 28 یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”تُونے ٹھیک جَواب دیا ہے۔ یہی کر تو تُو زندہ رہے گا۔“ \p \v 29 مگر اُس نے اَپنی راستبازی جتانے کی غرض سے، یِسوعؔ سے پُوچھا، ”میرا پڑوسی کون ہے؟“ \p \v 30 یِسوعؔ نے جَواب میں کہا: ”ایک آدمی یروشلیمؔ سے یریحوؔ جا رہاتھا کہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں میں جا پڑا۔ اُنہُوں نے اُس کے کپڑے اُتار لیٔے، اُسے مارا پِیٹا اَور زخمی کر دیا اَور ادھ مُوأ چھوڑکر چلے گیٔے۔ \v 31 اِتّفاقاً ایک کاہِنؔ اُس راہ سے جا رہاتھا، اُس نے زخمی کو دیکھا، مگر کَترا کرچلاگیا۔ \v 32 اِسی طرح، ایک لیوی، بھی اِدھر آ نِکلا اَور اُسے دیکھ کر، کَترا کرچلاگیا۔ \v 33 پھر ایک سامری، جو سفر کر رہاتھا، وہاں نِکلا؛ زخمی کو دیکھ کر اُسے بڑا ترس آیا۔ \v 34 وہ اُس کے پاس گیا اَور اُس کے زخموں پر تیل اَور انگوری شِیرہ لگا کر اُنہیں باندھا اَور زخمی کو اَپنے گدھا پر بِٹھا کر سرائے میں لے گیا اَور اُس کی تیمار داری کی۔ \v 35 اگلے دِن اُس نے دو دینار\f + \fr 10‏:35 \fr*\fq دو دینار \fq*\ft قدیم زمانے میں \ft*\fqa ایک دینار ایک دِن کی مزدُوری ہُوا کرتی تھی۔ (دیکھئے \+xt مت 20‏:2)‏\+xt*‏\fqa*\f* نکال کر سرائے کے رکھوالے کو دئیے اَور کہا، ’اِس کی دیکھ بھال کرنا، اَور اگر خرچہ زِیادہ ہُوا تو، میں واپسی پر اَدا کر دُوں گا۔‘ \p \v 36 ”تمہاری نظر میں اِن تینوں میں سے کون اُس شخص کا جو ڈاکوؤں کے ہاتھوں میں جا پڑا تھا، پڑوسی ثابت ہُوا؟“ \p \v 37 شَریعت کے عالِم نے جَواب دیا، ”وہ جِس نے اُس کے ساتھ ہمدردی کی۔“ \p یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”جا تُو بھی اَیسا ہی کر۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ کا مریمؔ اَور مرتھاؔ کے گھر جانا \p \v 38 یِسوعؔ اَور اُن کے شاگرد چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہُنچے، وہاں مرتھاؔ نام کی ایک عورت نے آپ کے لیٔے اَپنے گھر کو کھولا۔ \v 39 اُس کی ایک بہن بھی تھی جِس کا نام مریمؔ تھا، وہ خُداوؔند کے قدموں کے پاس بیٹھ کر اُن کی باتیں سُن رہی تھی۔ \v 40 لیکن مرتھاؔ کام کی زیادتی کی وجہ سے گھبرا گئی اَور یِسوعؔ کے پاس آکر کہنے لگی، ”خُداوؔند! کیا یہ سہی ہے کہ میری بہن خدمت کرنے میں ہاتھ بٹانے کے بجائے یہاں پر بیٹھی ہے اَور مُجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے؟ اُس سے کہئے کہ میری مدد کرے!“ \p \v 41 خُداوؔند نے جَواب میں اُس سے کہا، ”مرتھاؔ! مرتھاؔ! تُو بہت سِی چیزوں کے بارے میں فِکرمند اَور پریشان ہو رہی ہے۔ \v 42 حالانکہ صِرف ایک ہی چیز ہے جِس کے بارے میں فکر کرنے کی ضروُرت ہے۔ اَور مریمؔ نے وہ عُمدہ حِصّہ چُن لیا ہے جو اُس سے کبھی چھینا نہ جائے گا۔“ \c 11 \s1 حُضُور یِسوعؔ دعا کرنا سِکھاتے ہیں \p \v 1 ایک دِن یِسوعؔ کسی جگہ دعا کر رہے تھے۔ جَب وہ دعا کر چُکے تو اُن کے شاگردوں میں سے ایک نے کہا، ”خُداوؔند، جَیسے حضرت یُوحنّا نے اَپنے شاگردوں کو دعا کرنا سِکھایا، آپ ہمیں بھی سِکھایٔیں۔“ \p \v 2 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”جَب تُم دعا کرو، تو کہو: \q1 ” ’اَے ہمارے آسمانی باپ، \q1 آپ کا نام پاک مانا جائے، \q1 آپ کی بادشاہی آئے۔\f + \fr 11‏:2 \fr*\ft کُچھ نوشتوں میں جَیسی آپ کی مرضی آسمان پر پُوری ہوتی ہے، وَیسے ہی زمین پر بھی پُوری ہو۔‏\ft*\f* \q1 \v 3 ہماری روز کی روٹی ہر دِن ہمیں عطا فرما۔ \q1 \v 4 اَور ہمارے گُناہوں کو مُعاف کر، \q2 کیونکہ ہم بھی اَپنے ہر قُصُوروار کو مُعاف کرتے ہیں۔\f + \fr 11‏:4 \fr*\ft اصل یُونانی زبان میں سبھی لوگ جو ہمارے قرضدار ہیں۔‏\ft*\f* \q1 اَور ہمیں آزمائش\f + \fr 11‏:4 \fr*\fq آزمائش \fq*\ft کُچھ پُرانے نوشتوں میں \ft*\fqa لیکن ہمیں اُس شیطان سے بچا۔‏\fqa*\f* میں نہ پڑنے دیں۔‘ “ \p \v 5 پھر یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”فرض کرو کہ تُم میں سے کسی کا ایک دوست ہے، وہ آدھی رات کو اُس کے پاس جا کر کہتاہے کہ، ’اَے دوست، مہربانی کرکے مُجھے تین روٹیاں دے؛ \v 6 کیونکہ میرا ایک دوست سفر کرکے میرے پاس آیا ہے، اَور میرے پاس کُچھ بھی نہیں کہ اُس کی خاطِر تواضع کر سکوں۔‘ \v 7 اَور فرض کرو کہ وہ اَندر سے جَواب میں کہتاہے، ’مُجھے تکلیف نہ دے، دروازہ بندہو چُکاہے اَور مَیں اَور میرے بال بچّے بِستر میں ہیں، میں اُٹھ کر تُجھے دے نہیں سَکتا۔‘ \v 8 میں تُم سے کہتا ہُوں کہ اگرچہ وہ اُس کا دوست ہونے کے باوُجُود بھی اُٹھ کر روٹی نہ بھی دے گا تو بھی اُس کے بار بار اِصرار کرنے کے باعث ضروُر اُٹھے گا اَور جِتنی روٹیوں کی اُسے ضروُرت ہے، دے گا۔ \p \v 9 ”پس میں تُم سے کہتا ہُوں: مانگو تو تُمہیں دیا جائے گا؛ ڈھونڈوگے تو پاؤگے؛ دروازہ کھٹکھٹاؤگے، تو تمہارے لیٔے کھولا جائے گا۔ \v 10 کیونکہ جو مانگتاہے اُسے ملتا ہے، جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتاہے اَورجو کھٹکھٹاتاہے اُس کے لیٔے دروازہ کھولا جائے گا۔ \p \v 11 ”تُم میں سے اَیسا کون سا باپ ہے کہ جَب اُس کا بیٹا مچھلی مانگے تو اُسے مچھلی نہیں، بَلکہ سانپ دے؟ \v 12 یا اَنڈا مانگے تو اُسے بِچھُّو تھما دے۔ \v 13 پس جَب تُم بُرے ہونے کے باوُجُود بھی اَپنے بچّوں کو اَچھّی چیزیں دینا جانتے ہو، تو کیا تمہارا آسمانی باپ اُنہیں جو اُس سے مانگتے ہیں، پاک رُوح اِفراط سے عطا نہ فرمایٔے گا!“ \s1 حُضُور یِسوعؔ اَور بَعل زبُول \p \v 14 ایک دفعہ یِسوعؔ ایک گُونگے شخص میں سے بدرُوح کو نکال رہے تھے اَور جَب بدرُوح نکل گئی تو گُونگا بولنے لگا اَور لوگ تعجُّب کرنے لگے۔ \v 15 لیکن اُن میں سے بعض نے کہا، ”وہ بدرُوحوں کے رہنما بَعل زبُول، کی مدد سے بدرُوحوں کو نکالتا ہے۔“ \v 16 بعض اُنہیں آزمانے کی غرض سے اُن سے کویٔی آسمانی نِشان طلب کرنے لگے۔ \p \v 17 لیکن یِسوعؔ نے اُن کے خیالات جان کر اُن سے کہا: ”جِس حُکومت میں پھوٹ پڑ جاتی ہے وہ ویران ہو جاتی ہے اَور جِس گھر میں پھوٹ پڑ جاتی ہے وہ قائِم نہیں رہ سَکتا۔ \v 18 اَور اگر شیطان اَپنی ہی مُخالفت کرنے لگے تو اُس کی حُکومت کیسے قائِم رہ سکتی ہے؟ پھر بھی تُم کہتے ہو کہ میں بَعل زبُول، کی مدد سے بدرُوحوں کو نکالتا ہُوں۔ \v 19 اگر مَیں بَعل زبُول کی مدد سے بدرُوحوں کو نکالتا ہُوں تو تمہارے شاگرد اُنہیں کِس کی مدد سے نکالتے ہیں؟ پس وُہی تمہارے مُنصِف ہوں گے۔ \v 20 لیکن اگر مَیں خُدا کی قُدرت سے بدرُوحوں کو نکالتا ہُوں تو خُدا کی بادشاہی تمہارے درمیان آ پہُنچی۔ \p \v 21 ”جَب تک کویٔی زورآور آدمی ہتھیاروں سے لیس ہوکر اَپنے گھر کی حِفاظت کرتا ہے تو اُس کا مال و اَسباب محفوظ رہتاہے۔ \v 22 لیکن جَب اُس سے بھی زِیادہ زورآور آدمی اُس پر حملہ کرکے اُسے مغلُوب کر لیتا ہے تو اُس کے سارے ہتھیار جِن پر اُس کا بھروسا تھا چھین لیتا ہے اَور اُس کا سارا مال و اَسباب لُوٹ کر بانٹ دیتاہے۔ \p \v 23 ”جو میرے ساتھ نہیں وہ میرا مُخالف ہے اَورجو میرے ساتھ جمع نہیں کرتا، وہ بکھیرتا ہے۔ \p \v 24 ”جَب کسی آدمی میں سے بدرُوح نکل جاتی ہے تو وہ سُوکھنے مقاموں میں جا کر آرام ڈھونڈتی ہے اَور جَب نہیں پاتی تو کہتی ہے، ’میں اَپنے اُسی گھر میں پھر واپس چلی جاؤں گی جہاں سے میں نکلی تھی۔‘ \v 25 اَور واپس آکر اُسے صَاف سُتھرا اَور آراستہ پاتی ہے۔ \v 26 تَب وہ جا کر اَپنے سے بھی بدتر سات اَور بدرُوحوں کو ساتھ لے آتی ہے اَور وہ اَندر جا کر اُس میں رہنے لگتی ہیں اَور اُس آدمی کی آخِری حالت پہلے سے بھی زِیادہ بُری ہو جاتی ہے۔“ \p \v 27 یِسوعؔ جَب یہ باتیں کہہ رہے تھے تبھی ہُجوم میں سے ایک عورت نے اُونچی آواز میں آپ سے کہا، ”مُبارک ہے وہ پیٹ جِس سے آپ پیدا ہویٔے اَور مُبارک ہیں وہ چھاتِیاں جنہوں نے آپ کو دُودھ پِلایا۔“ \p \v 28 لیکن یِسوعؔ نے جَواب دیا، ”جو لوگ خُدا کا کلام سُنتے اَور اُس پر عَمل کرتے ہیں وہ زِیادہ مُبارک ہیں۔“ \s1 حضرت يونسؔ کا نِشان \p \v 29 جَب ہُجوم زِیادہ بڑھنے لگا تو یِسوعؔ نے کہا، ”اِس زمانہ کے لوگ بُرے ہیں جو مُجھ سے نِشان طلب کرتے ہیں مگر حضرت يونسؔ کے نِشان کے سِوا کویٔی اَور نِشان نہیں دیا جائے گا۔ \v 30 کیونکہ جِس طرح يونسؔ نینوہؔ کے باشِندوں کے لیٔے نِشان ٹھہرے اُسی طرح اِبن آدمؔ بھی اِس زمانہ کے لوگوں کے لیٔے نِشان ٹھہرے گا۔ \v 31 جُنوب کی ملِکہ عدالت کے دِن اِس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوکر اُنہیں مُجرم ٹھہرائے گی کیونکہ وہ بڑی دُور سے حضرت شُلومونؔ کی حِکمت سُننے کے لیٔے آئی تھی اَور دیکھو یہاں حضرت شُلومونؔ سے بھی بڑا مَوجُود ہے۔ \v 32 نینوہؔ کے لوگ عدالت کے دِن اِس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوکر اُنہیں مُجرم ٹھہرائیں گے، اِس لیٔے کہ اُنہُوں نے حضرت يونسؔ کی مُنادی کی وجہ سے تَوبہ کرلی تھی اَور دیکھو! یہاں وہ مَوجُود ہے جو يونسؔ سے بھی بڑا ہے۔ \s1 بَدن کا چراغ \p \v 33 ”کویٔی شخص چراغ جَلا کر تہہ خانہ یا پیمانہ کے نیچے نہیں لیکن چراغدان پر رکھتا ہے تاکہ اَندر آنے والوں کو رَوشنی دِکھائی دے۔ \v 34 تیرے بَدن کا چراغ تیری آنکھ ہے۔ جَب تیری آنکھ سالِم ہے تو تیرا پُورا بَدن بھی رَوشن ہے؛ اگر خَراب ہے تو تیرا بَدن بھی تاریک ہے۔ \v 35 خبردار، کہیں اَیسا نہ ہو کہ جو رَوشنی تُجھ میں ہے وہ تاریکی بَن جائے۔ \v 36 پس اگر تیرا سارا بَدن رَوشن اَور کویٔی حِصّہ تاریک نہ رہے تو وہ سارے کا سارا اَیسا رَوشن ہوگا جَیسے کسی چراغ نے اَپنی چمک سے تُجھے رَوشن کر دیا ہے۔“ \s1 شَریعت کے عالِموں اَور فریسیوں پر ملامت \p \v 37 یِسوعؔ جَب اَپنی بات پُوری کر چُکے تو کسی فرِیسی نے یِسوعؔ کو اَپنے ساتھ کھانے کی مِنّت کی۔ یِسوعؔ اُس کے گھر میں داخل ہویٔے اَور دسترخوان پر بیٹھ گیٔے۔ \v 38 فرِیسی نے یہ دیکھ کر تعجُّب کیا کہ وہ بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھانے بیٹھ گیٔے۔ \p \v 39 اِس پر خُداوؔند نے اُس سے کہا، ”اَے فریسیوں! تُم پیالے اَور رکابی کو باہر سے تو صَاف کرتے ہو، مگر تمہارے اَندر لُوٹ اَور بدی بھری پڑی ہے۔ \v 40 اَے نادانو! کیا جِس نے باہر والے حِصّے کو بنایا اُس نے اَندر والے حِصّے کو نہیں بنایا؟ \v 41 چنانچہ جو کُچھ تمہارے اَندر ہے اُسے غریبوں کو دے دو، تو سَب کُچھ تمہارے لیٔے پاک صَاف ہو جائے گا۔ \p \v 42 ”مگر اَے فریسیوں، تُم پر افسوس، تُم پودینہ، سَداب اَور سبزی ترکاری کا دسواں حِصّہ تو خُدا کو دیتے ہو لیکن دُوسری طرف اِنصاف کرنے سے اَور خُدا کی مَحَبّت سے غافل رہتے ہو۔ لازِم تُو یہ تھا کہ تُم پہلے والے کو بغیر چھوڑے پُورا کرتے اَور بعد والے کو بھی عَمل میں لاتے۔ \p \v 43 ”اَے فریسیوں، تُم پر افسوس، کیونکہ تُم یہُودی عبادت گاہوں میں اعلیٰ درجہ کی کُرسیاں اَور بازاروں میں لوگوں سے اِحتراماً سلام پانا پسند کرتے ہو۔ \p \v 44 ”تُم پر افسوس، تُم اُن پوشیدہ قبروں کی طرح ہو جِن پر سے لوگ اَنجانے میں پاؤں رکھتے ہویٔے گزر جاتے ہیں۔“ \p \v 45 تَب شَریعت کے عالِموں میں سے ایک نے اُنہیں جَواب میں کہا، ”اَے اُستاد، یہ باتیں کہہ کر، آپ ہماری توہین کرتے ہیں۔“ \p \v 46 یِسوعؔ نے فرمایا، ”اَے شَریعت کے عالِموں، تُم پر بھی افسوس کیونکہ تُم آدمیوں پر اَیسے بوجھ لادتے ہو جنہیں اُٹھانا بےحد مُشکل ہوتاہے اَور تُم خُود اَپنی ایک اُنگلی بھی اُن کی مدد کے واسطے نہیں اُٹھاتے۔ \p \v 47 ”تُم پر افسوس، تُم تو نبیوں کی مزار تعمیر کرتے جنہیں تمہارے باپ دادا نے ہلاک کیا تھا۔ \v 48 پس تُم گواہ ہو کہ تُم اَپنے باپ دادا کے کاموں کی پُوری تائید کرتے کیونکہ اُنہُوں نے تو نبیوں کو قتل کیا اَور تُم اُن نبیوں کی مزار تعمیر کرتے۔ \v 49 اِس لیٔے خُدا کی حِکمت نے فرمایا، ’میں نبیوں اَور رسولوں کو اُن کے پاس بھیجوں گی۔ وہ اُن میں سے بعض کو قتل کر ڈالیں گے اَور بعض کو ستائیں گے۔‘ \v 50 پس یہ مَوجُودہ نَسل سارے نبیوں کے اُس خُون کی جو دُنیا کے شروع سے بہایا گیا ہے، ذمّہ دار ٹھہرائی جائے گی۔ \v 51 ہابلؔ کے خُون سے لے کر زکریاؔہ کے خُون تک جسے قُربان گاہ اَور پاک مَقدِس کے درمیان قتل کیا گیا تھا۔ ہاں! میں کہتا ہُوں کہ یہ نَسل ہی اُن کے خُون کی ذمّہ دار ٹھہرائی جائے گی۔ \p \v 52 ”اَے شَریعت کے عالِموں تُم پر افسوس، تُم نے علم کی کُنجی چھین لی، تُم خُود بھی داخل نہ ہویٔے اَورجو داخل ہو رہے تھے اُنہیں بھی روک دیا۔“ \p \v 53 جَب وہ وہاں سے باہر نِکلا تو شَریعت کے عالِم اَور فرِیسی سخت مُخالف ہو گئے اَور نہایت غُصّہ میں چاروں طرف سے مُختلف سوالات کرنے لگے، \v 54 تاکہ اُنہیں اُن کے مُنہ سے نکلی ہویٔی کسی بات میں پکڑ لیں۔ \c 12 \s1 ہدایات اَور حوصلہ اَفزائی \p \v 1 اِسی دَوران ہزاروں آدمیوں کا مجمع لگ گیا، اَور جَب وہ ایک دُوسرے پر گِرے پڑ رہے تھے، تو یِسوعؔ نے سَب سے پہلے اَپنے شاگردوں، سے مُخاطِب ہوکر فرمایا: ”فریسیوں کے خمیر یعنی اُن کی ریاکاری سے خبردار رہنا۔ \v 2 کویٔی چیز ڈھکی ہویٔی نہیں جو ظاہر نہ کی جائے گی اَور نہ ہی کویٔی چیز چھپی ہویٔی ہے جو ظاہر نہ کی جائے۔ \v 3 اِس لیٔے جو باتیں تُم نے اَندھیرے میں کہی ہیں وہ رَوشنی میں سُنی جایٔیں گی اَورجو کُچھ تُم نے کوٹھریوں میں کسی کے کان میں کہا ہے، اُس کا اعلان چھتوں پر سے کیا جائے گا۔ \p \v 4 ”دوستوں، میں تُم سے کہتا ہُوں کہ اُن سے مت ڈرو جو بَدن کو تو ہلاک کر سکتے ہیں اَور اُس کے بعد اَور کُچھ نہیں کر سکتے۔ \v 5 لیکن مَیں تُمہیں جتائے دیتا ہُوں کہ کس سے ڈرنا چاہئے: اُس سے، جسے بَدن کو ہلاک کرنے، کے بعد اُسے جہنّم میں ڈال دینے کا اِختیار ہے۔ ہاں، میں تُم سے کہتا ہُوں، اُسی سے ڈرو۔ \v 6 اگرچہ دو سِکّوں میں پانچ گوریّاں نہیں بکتیں لیکن خُدا اُن میں سے کسی کو بھی فراموش نہیں کرتا۔ \v 7 یقیناً، تمہارے سَر کے سبھی بال بھی گنے ہُوئے ہیں۔ لہٰذا ڈرو مت؛ تمہاری قیمت تو بہت سِی گوریّوں سے بھی زِیادہ ہے۔ \p \v 8 ”میں تُمہیں بتاتا ہُوں کہ جو کویٔی لوگوں کے سامنے میرا اقرار کرتا ہے، اِبن آدمؔ بھی خُدا کے فرشتوں کے رُوبرو اُس کا اقرار کرےگا۔ \v 9 لیکن جو کویٔی آدمیوں کے سامنے میرا اِنکار کرتا ہے، اُس کا اِنکار خُدا کے فرشتوں کے سامنے کیا جائے گا۔ \v 10 اگر کویٔی اِبن آدمؔ کے خِلاف کُچھ کہے گا تو، اُسے مُعاف کر دیا جائے گا لیکن جو پاک رُوح کے خِلاف کُفر بکے گا وہ ہرگز نہ بخشا جائے گا۔ \p \v 11 ”جَب وہ تُمہیں یہُودی عبادت گاہوں میں حاکموں اَور صاحبِ اِختیاروں کے حُضُور میں لے جایٔیں تو فکر مت کرنا کہ ہم کیا کہیں اَور کیوں اَور کیسے جَواب دیں۔ \v 12 کیونکہ پاک رُوح عَین وقت پر تُمہیں سِکھا دے گا کہ تُمہیں کیا کہنا ہے۔“ \s1 اَمیر احمق کی تمثیل \p \v 13 ہُجوم میں سے کسی نے اُن سے کہا، ”اَے اُستاد، میرے بھایٔی کو حُکم دے کہ وہ مِیراث میں سے میرا حِصّہ میرے حوالے کر دے۔“ \p \v 14 یِسوعؔ نے جَواب دیا، ”اَے اِنسان، کس نے مُجھے تمہارا مُنصِف یا ثالِثی مُقرّر کیا ہے؟“ \v 15 اَور حُضُور نے اُن سے کہا، ”خبردار! ہر طرح کے لالچ سے دُور رہو؛ کسی کی زندگی کا اِنحصار اُس کے مال و دولت کی کثرت پر نہیں ہے۔“ \p \v 16 تَب آپ نے اُنہیں یہ تمثیل سُنایٔی: ”کسی دولتمند کی زمین میں بڑی فصل ہویٔی۔ \v 17 اَور وہ دِل ہی دِل میں سوچ کر کہنے لگا، ’میں کیا کروں؟ میرے پاس جگہ نہیں ہے جہاں میں اَپنی پیداوار جمع کر سکوں۔‘ \p \v 18 ”پھر اُس نے کہا، ’میں ایک کام کروں گا کہ اَپنے کھتّے ڈھا کر نئے اَور بڑے کھتّے بناؤں گا اَور اُس میں اَپنا تمام اناج اَور مال و اَسباب بھر دُوں گا۔ \v 19 پھر اَپنی جان سے کہُوں گا، ”اَے جان تیرے پاس کیٔی برسوں کے لیٔے مال جمع ہے۔ آرام سے رہ، کھا پی اَور عیش کر۔“ ‘ \p \v 20 ”مگر خُدا نے اُس سے کہا، ’اَے نادان! اِسی رات تیری جان تُجھ سے طلب کرلی جائے گی۔ پس جو کُچھ تُونے جمع کیا ہے وہ کس کے کام آئے گا؟‘ \p \v 21 ”چنانچہ جو اَپنے لیٔے تو خزانہ جمع کرتا ہے لیکن خُدا کی نظر میں دولتمند نہیں بنتا اُس کا بھی یہی حال ہوگا۔“ \s1 فکر نہ کرو \p \v 22 تَب یِسوعؔ نے اَپنے شاگردوں سے کہا: ”یہی وجہ ہے کہ میں تُم سے کہتا ہُوں، نہ تو اَپنی جان کی فکر کرو، کہ تُم کیا کھاؤگے؛ نہ اَپنے بَدن کی، کہ تُم کیا پہنوگے۔ \v 23 کیونکہ جان خُوراک سے اَور بَدن پوشاک سے بڑھ کر ہے۔ \v 24 کوّوں پر غور کرو جو نہ تو بوتے ہیں اَور نہ ہی فصل کو کاٹ کر کھتّوں میں جمع کرتے ہیں، نہ اُن کے پاس گودام ہوتاہے نہ کھتّا، تو بھی خُدا اُنہیں کھِلاتاہے۔ تُم تو پرندوں سے بھی زِیادہ قدر و قیمت والے ہو۔ \v 25 تُم میں اَیسا کون ہے جو فکر کرکے اَپنی عمر میں گھڑی بھر کا\f + \fr 12‏:25 \fr*\fq گھڑی بھر کا \fq*\ft یعنی \ft*\fqa ایک گھنٹہ یا ایک دِن۔‏\fqa*\f* بھی اِضافہ کر سکے؟ \v 26 پس جَب تُم یہ چُھوٹی سِی بات بھی نہیں کر سکتے تو باقی چیزوں کی فکر کس لیٔے کرتے ہو۔ \p \v 27 ”سوسن کے پھُولوں کو دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں؟ وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کاتتے ہیں تو بھی میں تُم سے کہتا ہُوں کہ بادشاہ شُلومونؔ بھی اَپنی ساری شان و شوکت کے باوُجُود اُن میں سے کسی کی طرح مُلبّس نہ تھے۔ \v 28 پس جَب خُدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اَور کل تنور میں جھونکی جاتی ہے، اَیسی پوشاک پہناتاہے، تو اَے کم ایمان والو! کیا وہ تُمہیں بہتر پوشاک نہ پہنائے گا؟ \v 29 اَور اِس فکر میں مُبتلا مت رہو کہ تُم کیا کھاؤگے اَور کیا پیوگے۔ اِن چیزوں کے بارے میں فکر مت کرو۔ \v 30 کیونکہ دُنیا کی ساری غَیرقومیں اِن چیزوں کی جُستُجو میں لگی رہتی ہیں لیکن تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُمہیں اِن چیزوں کی ضروُرت ہے۔ \v 31 بَلکہ پہلے خُدا کی بادشاہی کی تلاش کرو تو یہ چیزیں بھی تُمہیں دے دی جایٔیں گی۔ \p \v 32 ”اَے چُھوٹے گلّے! ڈر مت! کیونکہ تمہارے آسمانی باپ کی خُوشی اِسی میں ہے کہ وہ تُمہیں بادشاہی عطا فرمائے۔ \v 33 اَپنا مال و اَسباب بیچ کر خیرات کر دو اَور اَپنے لیٔے اَیسے بٹوے بناؤ جو پُرانے نہیں ہوتے اَور نہ پھٹتے ہیں یعنی آسمان پر خزانہ جمع کرو جو ختم نہیں ہوتا، جہاں چور نہیں پہُنچ سَکتا اَور جِس میں کیڑا نہیں لگتا۔ \v 34 کیونکہ جہاں تمہارا خزانہ ہے وہیں تمہارا دِل بھی لگا رہے گا۔ \s1 چَوکَس رہو \p \v 35 ”خدمت کے لیٔے کمربستہ رہو اَور اَپنا چراغ جَلائے رکھو۔ \v 36 اَور اُن خادِموں کی طرح بنو، جو اَپنے مالک کی شادی کی ضیافت سے لَوٹنے کا اِنتظار کر رہے ہوں تاکہ جَب وہ آئے اَور دروازہ کھٹکھٹائے تو فوراً اُس کے لیٔے دروازہ کھول دیں۔ \v 37 وہ سبھی خادِم مُبارک ہیں جنہیں اُن کا مالک اَپنی واپسی پر جاگتا ہُوا چَوکَس پایٔے۔ میں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ مالک خُود کمربستہ ہوکر اُنہیں دسترخوان پر بِٹھاتے گا اَور پاس آکر اُن کی خدمت کرےگا۔ \v 38 مُبارک ہیں وہ خادِم، جنہیں اُن کا مالک رات کے دُوسرے یا تیسرے پہر میں بھی آکر اُن کو خُوب چَوکَس پایٔے۔ \v 39 لیکن یہ جان لو کہ اگر گھر کے مالک کو مَعلُوم ہو تاکہ چور کِس گھڑی آئے گا تو وہ اَپنے گھر میں نقب نہ لگنے دیتا۔ \v 40 پس تُم بھی تیّار رہو کیونکہ جِس گھڑی تُمہیں اُمّید تک نہ ہوگی اِبن آدمؔ اُسی وقت آ جائے گا۔“ \p \v 41 پطرس نے کہا، ”اَے خُداوؔند، یہ تمثیل جو تُونے کہی، صِرف ہمارے لیٔے ہے یا سَب کے لیٔے ہے؟“ \p \v 42 خُداوؔند نے جَواب دیا، ”کون ہے وہ وفادار اَور عقلمند مُنتظِم، جِس کا مالک اُسے اَپنے گھر کے خادِم چاکروں پر مُقرّر کرے تاکہ وہ اُنہیں اُن کی خُوراک مُناسب وقت پر بانٹتا رہے؟ \v 43 وہ خادِم مُبارک ہے جِس کا مالک آئے تو اُسے اَیسا ہی کرتے پایٔے۔ \v 44 میں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ وہ اَپنی ساری مِلکیّت کی دیکھ بھال کا اِختیار اُس کے حوالے کر دے گا۔ \v 45 لیکن اگر وہ خادِم اَپنے دِل میں یہ کہنے لگے، ’میرے مالک کے آنے میں ابھی دیر ہے‘ اَور دُوسرے خادِموں اَور خادِماؤں کو مارنا پیٹنا شروع کر دے اَور خُود کھا پی کرنشے میں متوالا رہنے لگے؟ \v 46 تو اُس خادِم کا مالک کسی اَیسے دِن واپس آ جائے گا، جِس کی اُسے اُمّید نہ ہوگی، اَور جِس گھڑی کی اُسے خبر نہ ہوگی۔ تو وہ اُسے غضبناک سزا دے گا اَور اُس کا اَنجام بےاِعتقادوں جَیسا ہوگا۔ \p \v 47 ”اگر وہ خادِم جو اَپنے مالک کی مرضی جان لینے کے باوُجُود بھی تیّار نہیں رہتا اَور نہ ہی اَپنے مالک کی مرضی کے مُطابق عَمل کرتا ہے تو وہ خادِم بہت مار کھائے گا۔ \v 48 مگر جِس نے اَپنے مالک کی مرضی کو جانے بغیر مار کھانے کے کام کیٔے وہ کم مار کھائے گا۔ پس جسے زِیادہ دیا گیا ہے اُس سے اُمّید بھی زِیادہ کی جائے گی اَور جِس کے پاس زِیادہ سونپا گیا ہے اُس سے طلب بھی زِیادہ ہی کیا جائے گا۔ \s1 صُلح یا جُدائی \p \v 49 ”میں زمین پر آگ برسانے آیا ہُوں۔ کاش یہ پہلے سے ہی بھڑک رہی ہوتی تو کِتنا اَچھّا ہوتا! \v 50 لیکن مُجھے ایک پاک غُسل لیناہے اَور جَب تک لے نہیں لیتا، میں بہت درد میں رہُوں گا! \v 51 کیا تُم سوچتے ہو کہ میں زمین پر صُلح قائِم کرانے آیا ہُوں؟ نہیں، میں تو لوگوں کو ایک دُوسرے سے جُدا کرانے آیا ہُوں۔ \v 52 کیونکہ اَب سے ایک گھر کے ہی پانچ آدمیوں میں مُخالفت پیدا ہو جائے گی۔ تین، دو کے اَور دو، تین کے مُخالف ہو جایٔیں گے۔ \v 53 باپ بیٹے کے خِلاف ہوگا اَور بیٹا باپ کے؛ اَور ماں بیٹی کے، اَور بیٹی ماں کے؛ ساس بہُو کے اَور بہُو ساس کے خِلاف ہوگی۔“ \s1 زمانہ کا اِمتیاز \p \v 54 پھر یِسوعؔ نے ہُجوم سے کہا: ”جَب تُم بادل کو مغرب سے اُٹھتے دیکھتے تو ایک دَم کہنے لگتے ہو ’بارش آئے گی،‘ اَور اَیسا ہی ہوتاہے۔ \v 55 اَور جَب جُنوبی ہَوا چلنے لگتی ہے، تو تُم کہتے ہو، ’گرمی ہوگی،‘ اَور اَیسا ہی ہوتاہے۔ \v 56 اَے ریاکاروں! تُم زمین اَور آسمان کی صورت دیکھ کر موسم کا اَندازہ لگانا تو جانتے ہو لیکن مَوجُودہ زمانہ کی علامات کے بارے میں کیوں غور نہیں کرتے؟ \p \v 57 ”تُم خُود ہی اَپنے لیٔے فیصلہ کیوں نہیں کرلیتے کہ ٹھیک کیا ہے؟ \v 58 جَب تو اَپنے دُشمن کے ساتھ مُنصِف کے پاس راستہ میں جا رہاہے تو راستہ ہی میں اُس سے چھُٹکارا حاصل کر لے، کہیں اَیسا نہ ہو کہ وہ تُجھے مُنصِف کے حوالے کر دے اَور مُنصِف تُجھے سپاہی کے سُپرد کر دے اَور سپاہی تُجھے قَیدخانہ میں ڈال دے۔ \v 59 میں تُم سے کہتا ہُوں کہ جَب تک تُم ایک ایک پیسہ اَدا نہ کر دوگے، وہاں سے ہرگز نکل نہ پاؤگے۔“ \c 13 \s1 تَوبہ یا ہلاکت \p \v 1 اُس وقت بعض لوگ وہاں شریک تھے جو یِسوعؔ کو اُن گلِیلیوں کے بارے میں بتانے لگے جِن کے خُون کو پِیلاطُسؔ نے اُن کی قُربانی کے ساتھ میں مِلایا تھا۔ \v 2 یِسوعؔ نے اُنہیں جَواب دیا، ”کیا تُم یہ سمجھتے ہو کہ اِن گلِیلیوں کا اَیسا بُرا اَنجام اِس لیٔے ہُوا کہ وہ باقی سارے گلِیلیوں سے زِیادہ گُنہگار تھے؟ اِس لیٔے اُن کے ساتھ اَیسا ہُوا \v 3 میں تُم سے کہتا ہُوں، کہ نہیں! بَلکہ اگر تُم بھی تَوبہ نہ کروگے تو سَب کے سَب اِسی طرح ہلاک جاؤگے۔ \v 4 یا کیا وہ اٹھّارہ جِن پر سِلومؔ کا بُرج گرا اَور وہ دَب کر مَر گیٔے یروشلیمؔ کے باقی باشِندوں سے زِیادہ قُصُوروار تھے؟ \v 5 میں تُم سے کہتا ہُوں کہ نہیں! بَلکہ اگر تُم تَوبہ نہ کروگے تو تُم سَب بھی اِسی طرح ہلاک ہوگے۔“ \p \v 6 اِس کے بعد یِسوعؔ نے اُنہیں یہ تمثیل سُنایٔی: ”کسی آدمی نے اَپنے انگوری باغ میں اَنجیر کا درخت لگا رکھا تھا، وہ اُس میں پھل ڈھونڈنے آیا مگر ایک بھی پھل نہ پایا۔ \v 7 تَب اُس نے باغبان سے کہا، دیکھ، ’میں پچھلے تین بَرس سے اِس اَنجیر کے درخت میں پھل ڈھونڈنے آتا رہا ہُوں اَور کُچھ نہیں پاتا ہُوں۔ اِسے کاٹ ڈال! یہ کیوں جگہ گھیرے ہُوئے ہے؟‘ \p \v 8 ”لیکن باغبان نے جَواب میں اُس سے کہا، ’مالک،‘ اِسے اِس سال اَور باقی رہنے دے، ’میں اِس کے اِردگرد کھُدائی کرکے کھاد ڈالُوں گا۔ \v 9 اگر یہ اگلے سال پھل لایا تو خیر ہے ورنہ اِسے کٹوا ڈالنا۔‘ “ \s1 ایک کُبڑی عورت کا سَبت کے دِن شفا پانا \p \v 10 ایک سَبت کے دِن یِسوعؔ کسی یہُودی عبادت گاہ میں تعلیم دے رہے تھے۔ \v 11 وہاں ایک عورت تھی جسے اٹھّارہ بَرس سے ایک بدرُوح نے اِس قدر مفلُوج کر دیا تھا کہ وہ کُبڑی ہو گئی تھی اَور کسی طرح سیدھی نہ ہو سکتی تھی۔ \v 12 جَب یِسوعؔ نے اُسے دیکھا تو اُسے سامنے بُلایا اَور کہا، ”اَے خاتُون، تُو اَپنی کمزوری سے آزاد ہو گئی۔“ \v 13 تَب یِسوعؔ نے اُس پر اَپنا ہاتھ رکھا اَور وہ فوراً سیدھی ہو گئی اَور خُدا کی تمجید کرنے لگی۔ \p \v 14 لیکن یہُودی عبادت گاہ کا رہنما خفا ہو گیا کیونکہ، یِسوعؔ نے سَبت کے دِن اُسے شفا دی تھی، اَور لوگوں سے کہنے لگاکہ، ”کام کرنے کے لیٔے چھ دِن ہیں اِس لیٔے اُن ہی دِنوں میں شفا پانے کے لیٔے آیا کرو نہ کہ سَبت کے دِن۔“ \p \v 15 خُداوؔند نے اُسے جَواب دیا، ”اَے ریاکاروں! کیا تُم میں سے ہر ایک سَبت کے دِن اَپنے بَیل یا گدھے کو تھان سے کھول کر پانی پِلانے کے لیٔے نہیں لے جاتا؟ \v 16 تو کیا یہ مُناسب نہ تھا کہ یہ عورت جو اَبراہامؔ کی بیٹی ہے جسے شیطان نے اٹھّارہ بَرس سے باندھ کر رکھا ہے، سَبت کے دِن اِس قَید سے چھُڑائی جاتی؟“ \p \v 17 جَب یِسوعؔ نے یہ باتیں کہیں تو اُن کے سَب مُخالف شرمندہ ہو گئے لیکن سَب لوگ یِسوعؔ کے ہاتھوں سے ہونے والے حیرت اَنگیز کاموں کو دیکھ کر خُوش تھے۔ \s1 رائی کے دانے اَور خمیر کی تمثیل \p \v 18 تَب یِسوعؔ نے اُن سے پُوچھا، ”خُدا کی بادشاہی کس چیز کے مانِند ہے اَور مَیں اِسے کس چیز سے تشبیہ دُوں؟ \v 19 وہ رائی کے دانے کی مانِند ہے جسے ایک شخص نے لے کر اَپنے باغ میں بو دیا۔ وہ اُگ کر اِتنا بڑا پَودا ہو گیا، کہ ہَوا کے پرندے اُس کی ڈالیوں پر بسیرا کرنے لگے۔“ \p \v 20 یِسوعؔ نے پھر سے پُوچھا، ”میں خُدا کی بادشاہی کو کس سے تشبیہ دُوں؟ \v 21 وہ خمیر کی مانِند ہے جسے ایک خاتُون نے لے کر 27 کِلو آٹے میں مِلا دیا اَور یہاں تک کہ سارا آٹا خمیر ہو گیا۔“ \s1 تنگ دروازہ \p \v 22 تَب یِسوعؔ یروشلیمؔ کے سفر پر نکلے اَور راستے میں آنے والے گاؤں اَور شہروں میں تعلیم دیتے چلے۔ \v 23 کسی شخص نے آپ سے پُوچھا، ”اَے خُداوؔند، کیا تھوڑے سے لوگ ہی نَجات پا سکیں گے؟“ \p آپ نے اُسے جَواب دیا، \v 24 ”تنگ دروازے سے داخل ہونے کی پُوری کوشش کرو کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ بہت سے لوگ اَندر جانے کی کوشش کریں گے لیکن جانا ممکن نہ ہوگا۔ \v 25 جَب گھر کا مالک ایک دفعہ اُٹھ کر دروازہ بند کر دیتاہے اَور تُم باہر کھڑے ہوکر کھٹکھٹاتے اَور درخواست کرتے رہوگے کہ، ’مالک، مہربانی کرکے ہمارے لیٔے دروازہ کھول دیجئے۔‘ \p ”لیکن وہ جَواب دے گا، ’میں تُمہیں نہیں جانتا کہ تُم کون ہو اَور کہاں سے آئے ہو؟‘ \p \v 26 ”تَب تُم کہنے لگوگے، ’ہم نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا اَور پیا اَور آپ ہمارے گلی کُوچوں میں تعلیم دیتے تھے۔‘ \p \v 27 ”لیکن وہ تُم سے کہے گا، ’میں تُمہیں نہیں جانتا کہ تُم کون اَور کہاں سے آئے ہو۔ اَے بدکاروں، تُم سَب مُجھ سے دُورہو جاؤ!‘ \p \v 28 ”جَب تُم اَبراہامؔ، اِصحاقؔ، یعقوب اَور سَب نبیوں کو خُدا کی بادشاہی میں شریک دیکھوگے اَور خُود کو باہر نکالے ہویٔے پاؤگے تو روتے اَور دانت پیستے رہ جاؤگے۔ \v 29 لوگ مشرق اَور مغرب، شمال اَور جُنوب سے آکر خُدا کی بادشاہی کی ضیافت میں اَپنی اَپنی جگہ لے کر شرکت کریں گے۔ \v 30 بے شک، بعض آخِر اَیسے ہیں جو اوّل ہوں گے اَور بعض اوّل اَیسے ہیں جو آخِر ہو جایٔیں گے۔“ \s1 یروشلیمؔ پر افسوس \p \v 31 اُسی وقت بعض فرِیسی یِسوعؔ کے پاس آئے اَور کہنے لگے، ”یہاں سے نکل کر کہیں اَور چلے جائیے کیونکہ ہیرودیسؔ آپ کو قتل کروانا چاہتاہے۔“ \p \v 32 لیکن آپ نے اُن سے کہا، ”اُس لومڑی سے جا کر یہ کہہ دو، ’میں آج اَور کل بدرُوحوں کو نکالنے اَور مَریضوں کو شفا دینے کا کام کرتا رہُوں گا اَور تیسرے دِن اَپنی مَنزل پر پہُنچ جاؤں گا۔‘ \v 33 پس مُجھے آج، کل اَور پرسوں اَپنا سفر جاری رکھناہے۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ کویٔی نبی یروشلیمؔ سے باہر ہلاک ہو! \p \v 34 ”اَے یروشلیمؔ! اَے یروشلیمؔ! تُو جو نبیوں کو قتل کرتی ہے اَورجو تیرے پاس بھیجے گیٔے اُنہیں سنگسار کر ڈالتی ہے۔ مَیں نے کیٔی دفعہ چاہا کہ تیرے بچّوں کو ایک ساتھ جمع کرلُوں، جِس طرح مُرغی اَپنے چُوزوں کو اَپنے پروں کے نیچے جمع کر لیتی ہے، لیکن تُم نے نہ چاہا۔ \v 35 دیکھو، تمہارا گھر تمہارے ہی لیٔے اُجاڑ چھوڑا جا رہاہے اَور مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ تُم مُجھے اُس وقت تک ہرگز نہ دیکھوگے جَب تک یہ نہ کہو گے، ’مُبارک ہے وہ جو خُداوؔند کے نام سے آتا ہے۔‘\f + \fr 13‏:35 \fr*\ft \+xt زبُور 118‏:26‏\+xt*‏\ft*\f*“ \c 14 \s1 حُضُور یِسوعؔ اَور فرِیسی \p \v 1 ایک دفعہ سَبت کے دِن، یِسوعؔ کسی فرِیسی رہنما کے گھر کھانا کھانے گیٔے تو کیٔی فریسیوں کی نظر اُن پر تھی۔ \v 2 وہاں ایک جلندری سُوجن کی بیماری کا مریض بھی آپ کے سامنے بیٹھا تھا۔ \v 3 یِسوعؔ نے فریسیوں اَور شَریعت کے عالِموں سے پُوچھا، ”سَبت کے دِن شفا دینا جائز ہے یا نہیں؟“ \v 4 لیکن سَب خاموش رہے، تَب یِسوعؔ نے اُس شخص کو چھُو کر شفا بخشی اَور رخصت کر دیا۔ \p \v 5 اَور تَب اُن سے پُوچھا، ”اگر تُم میں سے کسی کا گدھا یا بَیل کنویں میں گِر پڑے اَور تو کیا وہ سَبت کے دِن اُسے فوراً باہر نہ نکالے گا؟“ \v 6 اَور وہ اُن باتوں کا جَواب نہ دے سکے۔ \p \v 7 جَب یِسوعؔ نے دیکھا کہ جو لوگ کھانے پر بُلائے گیٔے تھے کس طرح مخصُوص نشِستوں کی تلاش میں ہیں تو آپ نے اُن سے ایک تمثیل کہی: \v 8 ”جَب کویٔی تُجھے شادی کی ضیافت پر بُلائے تو مہمان خصوصی کی جگہ پر نہ بیٹھ، ہو سَکتا ہے کہ کویٔی تُجھ سے بھی زِیادہ مُعزّز شخص بُلایا گیا ہو۔ \v 9 اَور تُم دونوں کو بُلانے والا وہاں آکر تُجھ سے کہے کہ یہ جگہ اُس کے لیٔے ہے، ’تو تُجھے شرمندہ ہوکر اُٹھنا پڑےگا‘ اَور سَب سے، پیچھے بیٹھنا پڑےگا۔ \v 10 بَلکہ جَب بھی تُو کسی دعوت پر بُلایا جائے تو سَب سے پچھلی جگہ بیٹھ جاتا کہ جَب تیرا میزبان وہاں آئے تو تُجھ سے کہے، ’دوست، سامنے جا کر بیٹھ۔‘ تَب سارے مہمانوں کے سامنے تیری کتنی عزّت ہوگی۔ \v 11 کیونکہ جو کویٔی اَپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اَورجو اَپنے آپ کو حلیم بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔“ \p \v 12 پھر یِسوعؔ نے اَپنے میزبان سے کہا، ”جَب تو دوپہر کا یا رات کا کھانا پکوائے، تُو اَپنے دوستوں، بھائیوں یا بہنوں، رشتہ داروں یا اَمیر پڑوسیوں کو نہ بُلا؛ کیونکہ وہ بھی تُجھے بُلاکر، تیرا اِحسَان چُکا سکتے ہیں۔ \v 13 بَلکہ جَب تُو ضیافت کرے تو غریبوں، ٹُنڈوں، لنگڑوں، اَور اَندھوں کو بُلا، \v 14 اَور تُو برکت پایٔےگا۔ کیونکہ اُن کے پاس کُچھ نہیں جِس سے وہ تیرا اِحسَان چُکا سکیں، لیکن تُجھے اِس اِحسَان کا بدلہ راستبازوں کی قیامت کے دِن ملے گا۔“ \s1 شاندار ضیافت کی تمثیل \p \v 15 مہمانوں میں سے ایک نے یہ باتیں سُن کر یِسوعؔ سے کہا، ”خُدا کی بادشاہی میں کھانا کھانے والا بڑا مُبارک ہوگا۔“ \p \v 16 یِسوعؔ نے اُسے جَواب دیا: ”کسی شخص نے ایک بڑی ضیافت کی اَور بہت سے لوگوں کو بُلایا۔ \v 17 جَب کھانے کا وقت ہو گیا تو اُس نے اَپنے خادِم کو بھیجا کہ مہمانوں سے کہے، ’آؤ اَب، سَب کُچھ تیّار ہے۔‘ \p \v 18 ”لیکن سَب نے مِل کر بہانا بنانا شروع کر دیا۔ پہلے نے اُس سے کہا، ’مَیں نے حال ہی میں کھیت مول لیا ہے، اَور میرا اُسے دیکھنے جانا ضروُری ہے۔ میں معذرت چاہتا ہُوں۔‘ \p \v 19 ”دُوسرے نے کہا، ’مَیں نے ابھی پانچ جوڑی بَیل خریدے ہیں، اَور مَیں اُنہیں آزمانے جا رہا ہُوں۔ میں معذرت چاہتا ہُوں۔‘ \p \v 20 ”ایک اَور نے کہا، ’مَیں نے ابھی بیاہ کیا ہے اِس لیٔے میرا آنا ممکن نہیں۔‘ \p \v 21 ”تَب خادِم نے واپس آکر یہ ساری باتیں اَپنے مالک کو بتائیں۔ گھر کے مالک کو بڑا غُصّہ آیا، اُس نے اَپنے خادِم کو حُکم دیا، ’جلدی کر اَور شہر کے گلی کُوچوں میں جا کر غریبوں، ٹُنڈوں، اَندھوں اَور لنگڑوں کو یہاں لے۔‘ \p \v 22 ”خادِم نے کہا، ’اَے مالک، آپ کے کہنے کے مُطابق عَمل کیا گیا لیکن ابھی بھی جگہ خالی ہے۔‘ \p \v 23 ”مالک نے خادِم سے کہا، ’راستوں اَور کھیتوں کی باڑوں کی طرف نکل جا اَور لوگوں کو مجبُور کر کہ وہ آئیں تاکہ میرا گھر بھر جائے۔ \v 24 کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ جو پہلے بُلائے گیٔے تھے، اُن میں سے ایک بھی میری ضیافت کا کھانا چَکھنے نہ پایٔےگا۔‘ “ \s1 شاگرد بننے کی قیمت \p \v 25 لوگوں کا ایک بڑا ہُجوم یِسوعؔ کے ساتھ چل رہاتھا اَور آپ نے مُڑ کر اُن سے کہا، \v 26 ”اگر کویٔی میرے پاس آتا ہے لیکن اُس مَحَبّت کو جو وہ اَپنے والدین، بیوی بچّوں اَور بھایٔی بہنوں اَور اَپنی جان سے عزیز رکھتا ہے، اَور اُسے قُربان نہیں کر سَکتا تو وہ میرا شاگرد نہیں ہو سَکتا۔ \v 27 اَورجو شخص اَپنی صلیب اُٹھاکر میرے پیچھے نہیں آتا وہ میرا شاگرد نہیں ہو سَکتا۔ \p \v 28 ”مان لو کہ تُم میں سے کویٔی بُرج بنانا چاہتاہے۔ اَور پہلے بیٹھ کر کیا وہ یہ نہیں سوچےگا کہ اُس کی تعمیر پر کِتنا خرچ آئے گا اَور کیا اُس کے پاس اُتنی رقم ہے کہ بُرج مُکمّل ہو جائے؟ \v 29 کہیں اگر تُم بُنیاد ڈال دو اَور اُسے مُکمّل نہ کر سکو تو سبھی دیکھنے والے تمہاری ہنسی اُڑائیں گے، \v 30 اَور کہیں گے، ’اِس آدمی نے عمارت شروع تو کی لیکن اُسے مُکمّل نہ کر سَکا۔‘ \p \v 31 ”یا فرض کرو کہ ایک بادشاہ کسی دُوسرے بادشاہ سے جنگ کرنے جا رہاہے تو کیا وہ پہلے بیٹھ کر مشورہ نہ کرےگا کہ کیا میں دس ہزار فَوجیوں سے اُس کا مُقابلہ کر سکوں گا جو بیس ہزار فَوجیوں کے ساتھ حملہ کرنے آ رہاہے؟ \v 32 اگر وہ اِس قابل نہیں تو وہ اُس بادشاہ کے پاس جو ابھی دُور ہے، ایلچی بھیج کر صُلح کی درخواست کرےگا۔ \v 33 اِسی طرح اگر تُم میں سے کویٔی اَپنا سَب کُچھ چھوڑ نہ دے، میرا شاگرد نہیں ہو سَکتا۔ \p \v 34 ”نمک اَچھّی چیز ہے، لیکن اگر نمک کی نمکینی جاتی رہے، تو اُسے کس چیز سے نمکین کیا جائے گا؟ \v 35 نہ تو وہ زمین کے کسی کام کا رہا نہ کھاد کے؛ لوگ اُسے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ \p ”جِس کے پاس سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے۔“ \c 15 \s1 کھوئی ہویٔی بھیڑ کی تمثیل \p \v 1 بہت سے محصُول لینے والے اَور گُنہگار لوگ یِسوعؔ کے پاس اُن کا کلام سُننے جمع ہو رہے تھے۔ \v 2 لیکن فرِیسی اَور شَریعت کے عالِم بتانے لگے، ”یہ آدمی گُنہگاروں سے میل جول رکھتا ہے اَور اُن کے ساتھ کھاتا پیتا بھی ہے۔“ \p \v 3 تَب یِسوعؔ نے اُنہیں یہ تمثیل سُنایٔی: \v 4 ”فرض کرو کہ تُم میں سے کسی کے پاس سَو بھیڑیں ہوں اَور اُن میں سے ایک کھو جائے۔ تو وہ کیا باقی نِنانوے بھیڑوں کو بیابان میں چھوڑکر اُس کھوئی ہُوئی بھیڑ کو جَب تک مِل نہ جائے تلاش نہ کرتا رہے گا؟ \v 5 اَور جَب وہ مِل جاتی ہے تو خُوشی سے اَپنے کندھوں پر اُٹھا لیتا ہے \v 6 اَور گھرجاکر۔ اَپنے دوستوں اَور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے اَور کہتاہے، ’میرے ساتھ مِل کر خُوشی مناؤ کیونکہ میری کھوئی ہویٔی بھیڑ مِل گئی ہے۔‘ \v 7 میں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِسی طرح سے ایک تَوبہ کرنے والے گُنہگار کے باعث آسمان پر زِیادہ خُوشی منائی جائے گی لیکن نِنانوے اَیسے راستبازوں کی نِسبت خُوشی نہیں منائی جائے گی جو سوچتے ہَیں کہ اُنہیں تَوبہ کرنے کی ضروُرت نہیں ہے۔ \s1 کھویٔے ہویٔے سِکّے کی تمثیل \p \v 8 ”یا فرض کرو کہ کسی عورت کے پاس چاندی کے دس سِکّے\f + \fr 15‏:8 \fr*\fq چاندی کے دس سِکّے \fq*\ft اصل یُونانی زبان میں \ft*\fqa دس دِرہم ہے جو قدیم زمانہ میں ایک دِرہم ایک دِن کی مزدُوری تھی۔‏\fqa*\f* ہوں اَور ایک کھو جائے تو کیا وہ چراغ جَلا کر، گھر میں جھاڑو نہ لگاتی رہے گی اَور جَب تک مِل نہ جائے اُسے ڈھونڈتی نہ رہے گی؟ \v 9 اَور ڈھونڈ لینے کے بعد وہ اَپنی سہیلیوں اَور پڑوسیوں کو ساتھ بُلاکر یہ نہ کہےگی، ’میرے ساتھ مِل کر خُوشی مناؤ کیونکہ مَیں نے اَپنا کھویا ہُوا چاندی کا سِکّہ پالیاہے۔‘ \v 10 پس میں تُم سے کہتا ہُوں کہ اِسی طرح ایک گُنہگار کے تَوبہ کرنے پر بھی خُدا کے فرشتوں کے درمیان خُوشی منائی جاتی ہے۔“ \s1 کھویٔے ہویٔے بیٹے کی تمثیل \p \v 11 پھر یِسوعؔ نے کہا: ”کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔ \v 12 اُن میں سے چُھوٹے نے اَپنے باپ سے کہا، ’اَے باپ، جائداد میں جو حِصّہ میرا ہے مُجھے دے دو۔‘ اِس لیٔے باپ نے اَپنی جائداد اُن میں بانٹ دی۔ \p \v 13 ”تھوڑے دِنوں بعد، چُھوٹے بیٹے نے اَپنا سارا مال و متاع جمع کیا، اَور دُور کسی دُوسرے مُلک کو روانہ ہو گیا اَور وہاں اَپنی ساری دولت عیش و عشرت میں اُڑا دی۔“ \v 14 جَب سَب کُچھ خرچ ہو گیا تو اُس مُلک میں ہر طرف سخت قحط پڑا اَور وہ مُحتاج ہو گیا۔ \v 15 تَب وہ اُس مُلک کے ایک باشِندے کے پاس کام ڈھونڈنے پہُنچا۔ اُس نے اُسے اَپنے کھیتوں میں سُؤر چَرانے کے کام پر لگا دیا۔ \v 16 وہاں وہ اُن پھلیوں سے جنہیں سُؤر کھاتے تھے، اَپنا پیٹ بھرنا چاہتا تھا لیکن کویٔی اُسے پھلیاں بھی کھانے کو نہیں دیتا تھا۔ \p \v 17 ”تَب وہ ہوش میں آیا، اَور کہنے لگا، ’میرے باپ کے مزدُوروں کو ضروُرت سے بھی زِیادہ کھانا ملتا ہے لیکن مَیں یہاں بھُوک کی وجہ سے مَر رہا ہُوں! \v 18 میں اُٹھ کر اَپنے باپ کے پاس جاؤں گا اَور اُس سے کہُوں گا: اَے باپ! میں آسمانی خُدا کی نظر میں اَور تیری نظر میں گُنہگار ہُوں۔ \v 19 اَب تو میں اِس لائق بھی نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلا سکوں؛ مُجھے بھی اَپنے مزدُوروں میں شامل کر لے۔‘ \v 20 پس وہ اُٹھا اَور اَپنے باپ کے پاس چل دیا۔ \p ”لیکن ابھی وہ کافی دُور ہی تھا، کہ اُس کے باپ نے اُسے دیکھ لیا اَور اُس کے باپ کو اُس پر بڑا ترس آیا؛ اَور اَپنے بیٹے کی طرف دَوڑکر، اُسے گلے لگا لیا اَور خُوب چُوما۔ \p \v 21 ”بیٹے نے اَپنے باپ سے کہا، ’اَے باپ! میں آسمانی خُدا کی نظر میں اَور آپ کی نظر میں گُنہگار ہُوں، اَب تو میں اِس لائق بھی نہیں رہا کہ آپ کا بیٹا کہلا سکوں۔‘ \p \v 22 ”مگر باپ نے اَپنے خادِموں سے کہا، ’جلدی کرو! اَور سَب سے پہلے ایک بہترین چوغہ لاکر اِسے پہناؤ۔ اَور اِس کے ہاتھ میں انگُوٹھی اَور پاؤں میں جُوتی پہناؤ۔ \v 23 ایک موٹا تازہ بچھڑا لاکر ذبح کرو تاکہ ہم کھایٔیں اَور جَشن منائیں۔ \v 24 کیونکہ میرا بیٹا جو مَر چُکاتھا، اَب وہ زندہ ہو گیا ہے، کھو گیا تھا، اَب مِلا ہے۔‘ پس سبھی خُوشی منانے لگے۔ \p \v 25 ”اِس دَوران، بڑا بیٹا جو کھیت میں تھا، جَب وہ گھر کے نزدیک پہُنچا تو اُس نے گانے بجانے اَور ناچنے کی آواز سُنی۔ \v 26 اِس لیٔے اُس نے ایک خادِم کو بُلایا اَور پُوچھا کہ یہ کیا ہو رہاہے؟ \v 27 تیرا بھایٔی لَوٹ آیا ہے، اُس نے اُس سے کہا، ’اَور تیرے باپ نے ایک موٹا تازہ بچھڑا ذبح کرایا ہے کیونکہ اُس نے اُسے صحیح سلامت واپس پالیاہے۔‘ \p \v 28 ”لیکن بڑا بھایٔی خفا ہو گیا اَور اَندر نہیں جانا چاہتا تھا مگر اُس کا باپ باہر آکر اُسے منانے لگا۔ \v 29 اُس نے باپ کو جَواب میں کہا، ’دیکھ! میں اِتنے برسوں سے تیری خدمت کر رہا ہُوں اَور کبھی تیری حُکم عُدولی نہیں کی مگر تُونے تو کبھی ایک بکری کا جَوان بچّہ بھی مُجھے نہیں دیا کہ اَپنے دوستوں کے ساتھ خُوشی مناتا۔ \v 30 لیکن جَب تیرا یہ بیٹا تیرا سارا پُونجی طوائفوں پر لُٹا کر واپس آیا تو، تُونے اِس کے لیٔے ایک موٹا تازہ بچھڑا ذبح کرایا ہے!‘ \p \v 31 ” ’میرے بیٹے،‘ باپ نے اُس سے کہا، ’تو ہمیشہ میرے پاس ہے اَور میرا جو کُچھ بھی ہے سَب تیرا ہی ہے۔ \v 32 لیکن ہمیں خُوشی منانا اَور شادمان ہونا مُناسب تھا کیونکہ تیرا یہ بھایٔی جو مَر چُکاتھا اَور اَب زندہ ہو گیا ہے؛ اَور کھو گیا تھا اَور اَب مِل گیا ہے۔‘ “ \c 16 \s1 چالاک مُنشی \p \v 1 پھر یِسوعؔ نے اَپنے شاگردوں سے کہا: ”کسی اَمیر آدمی کا ایک مُنشی تھا۔ اُس کے لوگوں نے اُس کے مالک سے شکایت کی، کہ وہ تیرا مال غبن کر رہاہے۔ \v 2 اِس لیٔے مالک نے اُسے اَندر بُلایا اَور کہا، ’یہ کیا بات ہے جو مَیں تمہارے بارے میں سُن رہا ہُوں؟ سارا حِساب کِتاب مُجھے دے، کیونکہ اَب سے تو میرا مُنشی نہیں رہے گا۔‘ \p \v 3 ”مُنشی نے دِل میں سوچا، ’اَب مَیں کیا کروں؟ میرا مالک مُجھے کام سے نکال رہاہے۔ مُجھ میں مٹّی کھودنے کی طاقت تو نہیں ہے، اَور شرم کے مارے بھیک بھی نہیں مانگ سَکتا۔ \v 4 میں جانتا ہُوں کہ مُجھے کیا کرنا ہوگا، کہ برطرف کیٔے جانے کے بعد بھی لوگ مُجھے اَپنے گھروں میں خُوشی سے قبُول کریں۔‘ \p \v 5 ”پس اُس نے اَپنے مالک کے ایک ایک قرضدار کو طلب کیا، پہلے سے پُوچھا، ’تُجھ پر میرے مالک کی کتنی رقم باقی ہے؟‘ \p \v 6 ” ’تین ہزار لیٹر زَیتُون کے تیل کی قیمت،‘ اُس نے جَواب دیا۔ \p ”مُنشی نے اُس سے کہا، ’یہ رہے تیرے کاغذات، بیٹھ کر جلدی سے، پندرہ سَو لیٹر بنادے۔‘ \p \v 7 ”پھر دُوسرے سے پُوچھا، ’تُجھ پر کِتنا باقی ہے؟‘ \p ” ’تیس ٹن گیہُوں کے دام،‘ اُس نے جَواب دیا۔ \p ”اُس نے کہا، ’یہ رہے تیرے کاغذات، اَور اِسے چوبیس ٹن لِکھ دے۔‘ \p \v 8 ”مالک نے اُس چالاک مُنشی کی تعریف کی، اِس لیٔے کہ اُس نے بڑی عیّاری سے کام لیا تھا کیونکہ اِس دُنیا کے فرزند دُنیا والوں کے ساتھ سودے بازی میں نُور کے فرزندوں سے زِیادہ عیّار ہیں۔ \v 9 میں تُم سے کہتا ہُوں کہ دُنیوی کمائی سے بھی اَپنے لیٔے دوست بنالو تاکہ جَب وہ جاتی رہے تو تمہارے دوست تُمہیں دائمی قِیام گاہوں میں جگہ فراہم کریں۔ \p \v 10 ”جو بہت تھوڑے میں وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے وہ بہت زِیادہ میں بھی وفادار رہتاہے۔ اَورجو تھوڑے میں بےایمان ہے وہ زِیادہ میں بھی بےایمان ہے۔ \v 11 پس اگر تُم دُنیا کی دُنیوی دولت کے مُعاملہ میں وفادار نہ ثابت ہُوئے تو حقیقی دولت کون تمہارے سُپرد کرےگا؟ \v 12 اَور اگر تُم کسی دُوسرے کے مال میں وفادار نہ ٹھہرے تو جو تمہارا اَپنا ہے اُسے کون تُمہیں دے گا؟ \p \v 13 ”کویٔی خادِم دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سَکتا، یا تو وہ ایک سے نفرت کرےگا اَور دُوسرے سے مَحَبّت یا ایک سے وفا کرےگا اَور دُوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھے گا۔ تُم خُدا اَور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔“ \p \v 14 تَب زَر دوست فرِیسی یہ باتیں سُن کر یِسوعؔ کی ہنسی اُڑانے لگے۔ \v 15 اُس نے اُن سے کہا، ”تُم وہ جو لوگوں کے سامنے اَپنے آپ کو بڑے راستباز ٹھہراتے لیکن خُدا تمہارے دِلوں کو جانتا ہے کیونکہ جو چیز آدمیوں کی نظر میں اعلیٰ ہے وہ خُدا کی نظر میں مکرُوہ ہے۔ \s1 کُچھ اَور نصیحتیں \p \v 16 ”توریت اَور نبیوں کی باتیں حضرت یُوحنّا تک قائِم رہیں اَور پھر اُس وقت سے خُدا کی بادشاہی کی خُوشخبری سُنایٔی جانے لگی اَور ہر کویٔی اُس میں داخل ہونے کی زبردست کوشش کر رہاہے۔ \v 17 آسمان اَور زمین کا غائب ہو جانا آسان ہے لیکن توریت کا ایک شوشہ تک بھی مٹنا ممکن نہیں ہے۔ \p \v 18 ”جو کویٔی اَپنی بیوی کو چھوڑکر کسی دُوسری سے شادی کرتا ہے، وہ زنا کرتا ہے اَورجو آدمی چھوڑی ہویٔی عورت سے شادی کرتا ہے وہ بھی زنا کا مُرتکب ہوتاہے۔ \s1 ایک اَمیر آدمی اَور لعزؔر \p \v 19 ”ایک بڑا اَمیر آدمی تھا جو اَرغوانی اَور نفیس قِسم کے سُوتی کپڑے اِستعمال کرتا تھا اَور ہر روز عیش و عشرت میں مگن رہتا تھا۔ \v 20 ایک بھکاری آدمی جِس کا نام لعزؔر تھا، اُس کے پھاٹک پر پڑا رہتا تھا۔ اُس کا تمام جِسم پھوڑوں سے بھرا تھا۔ \v 21 وہ چاہت رکھتا تھا کہ اَمیر آدمی کی میز سے گِرے ہویٔے ٹُکڑوں سے ہی اَپنا پیٹ بھر لے۔ اُس کی اَیسی حالت تھی کہ کُتّے بھی آکر اُس کے پھوڑے کو چاٹتے تھے۔ \p \v 22 ”پھر اَیسا ہُوا کہ وقت کے مُطابق بھکاری آدمی مَر گیا اَور فرشتے اُسے اُٹھاکر حضرت اَبراہامؔ کے پاس میں پہُنچا دئیے وہ اَمیر آدمی بھی مَرا اَور دفنایا گیا۔ \v 23 جَب، اُس نے عالمِ اَرواح میں عذاب میں مُبتلا ہوکر، اَپنی آنکھیں اُوپر اُٹھائیں تو دُور سے حضرت اَبراہامؔ کو دیکھا اَور یہ بھی کہ لعزؔر، اَبراہامؔ کے پاس میں ہے۔ \v 24 اُس نے چِلّاکر کہا، ’اَے باپ اَبراہامؔ، مُجھ پر رحم کر اَور لعزؔر کو بھیج تاکہ وہ اَپنی اُنگلی کا سِرا پانی سے تر کرکے میری زبان کو ٹھنڈک پہُنچائے کیونکہ مَیں اِس آگ میں تڑپ رہا ہُوں۔‘ \p \v 25 ”لیکن اَبراہامؔ نے کہا، ’بیٹا، یاد کر کہ تو اَپنی زندگی میں اَچھّی چیزیں حاصل کر چُکاہے اَور اِسی طرح لعزؔر بُری چیزیں، لیکن اَب وہ یہاں آرام سے ہے اَور تُم تڑپ رہے ہو۔ \v 26 اَور اِن باتوں کے علاوہ، ہمارے اَور تمہارے درمیان ایک بڑا گڑھا واقع ہے تاکہ جو اُس پار تمہاری طرف جانا چاہیں، نہ جا سکیں اَورجو اِس پار ہماری طرف آنا چاہیں، نہ آ سکیں۔‘ \p \v 27 ”اُس اَمیر آدمی نے کہا، ’اِس لیٔے اَے باپ، میں مِنّت کرتا ہُوں کہ آپ اُسے دُنیا میں میرے باپ کے گھر بھیج دیں، \v 28 جہاں میرے پانچ بھایٔی ہیں تاکہ وہ اُنہیں آگاہ کرے، کہیں اَیسا نہ ہو کہ وہ بھی اِس عذاب والی جگہ جایٔیں۔‘ \p \v 29 ”لیکن حضرت اَبراہامؔ نے جَواب دیا، ’اُن کے پاس حضرت مَوشہ کی توریت اَور نبیوں کی کِتابیں تو ہیں، وہ اُن پر عَمل کریں۔‘ \p \v 30 ” ’نہیں، اَے باپ اَبراہامؔ،‘ اُس نے کہا، ’اگر کویٔی مُردوں میں سے زندہ ہوکر اُن کے پاس جائے تو وہ تَوبہ کریں گے۔‘ \p \v 31 ”لیکن حضرت اَبراہامؔ نے اُس سے کہا، ’جَب وہ حضرت مَوشہ اَور نبیوں کی نہیں سُنتے، تو اگر کویٔی مُردوں میں سے زندہ ہو جائے تَب بھی وہ قائل نہ ہوں گے۔‘ “ \c 17 \s1 گُناہ، ایمان، فرض \p \v 1 تَب یِسوعؔ نے اَپنے شاگردوں سے کہا: ”یہ ناممکن ہے کہ لوگوں کو ٹھوکریں نہ لگیں لیکن افسوس ہے اُس شخص پرجو اِن ٹھوکروں کا باعث بنا۔ \v 2 اُس کے لیٔے یہی بہتر تھا کہ چکّی کا بھاری سا بھاری پتّھر اُس کی گردن سے لٹکا کر اُسے سمُندر میں پھینک دیا جاتا تاکہ وہ اِن چُھوٹوں میں سے کسی کے ٹھوکر کھانے کا باعث نہ بنتا۔ \v 3 پس خبردار رہو۔ \p ”اگر تیرا بھایٔی یا بہن گُناہ کرتا ہے تو اُسے ملامت کر اَور اگر وہ تَوبہ کرے تو اُسے مُعاف کر دے۔ \v 4 اگر وہ ایک دِن میں سات دفعہ بھی تیرے خِلاف گُناہ کرے اَور ساتوں دفعہ تیرے پاس آکر کہے کہ ’میں تَوبہ کرتا ہُوں،‘ تو تُو اُسے مُعاف کردینا۔“ \p \v 5 رسولوں نے خُداوؔند سے کہا، ”ہمارے ایمان کو بڑھا۔“ \p \v 6 خُداوؔند نے کہا، ”اگر تمہارا ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی ہوتا، تو تُم اِس شہتوت کے درخت سے کہہ سکتے تھے، ’یہاں سے اُکھڑ جا اَور سمُندر میں جا لگ،‘ تو وہ تمہارا حُکم مان لیتا۔ \p \v 7 ”فرض کرو کہ تُم میں سے کسی ایک کے پاس خادِم ہے جو زمین جوتتا یا بھیڑ چَراتا اَور جَب وہ کھیت سے آئے تو اُس سے کہے کہ، ’جلدی سے میرے پاس آ جا اَور دسترخوان پر کھانے بیٹھ جا‘؟ \v 8 کیا وہ یہ نہ کہے گا، ’میرا کھانا تیّار کر، اَور جَب تک میں کھا پی نہ لُوں؛ کمربستہ ہوکر میری خدمت میں لگا رہ۔ اِس کے بعد تو بھی کھا پی لینا‘؟ \v 9 کیا وہ اِس لیٔے خادِم کا شُکر اَدا کرےگا کہ اُس نے وُہی کیا جو اُسے کرنے کو کہا گیا تھا؟ \v 10 اِسی طرح، جَب تُم بھی اِن باتوں کی تعمیل کر چُکو جِن کے کرنے کا تُمہیں حُکم دیا گیا تھا تو کہو، ’ہم نکمّے خادِم ہیں؛ جو کام ہمیں دیا گیا تھا ہم نے وُہی کیا۔‘ “ \s1 دس کوڑھیوں کا شفا پانا \p \v 11 یِسوعؔ یروشلیمؔ کی طرف سفر کرتے ہویٔے سامریہؔ اَور گلِیل کی سرحد سے ہوکر گزر رہے تھے۔ \v 12 جَب وہ ایک گاؤں میں داخل ہویٔے تو اُنہیں دس کوڑھی ملے جو دُور کھڑے ہویٔے تھے۔ \v 13 اُنہُوں نے بُلند آواز سے کہا، ”اَے یِسوعؔ، اَے آقا، ہم پر رحم کیجئے!“ \p \v 14 یِسوعؔ نے اُنہیں دیکھ کر کہا، ”جاؤ، اَپنے آپ کو کاہِنوں کو دِکھاؤ اَور اَیسا ہُوا کہ وہ جاتے جاتے کوڑھ سے پاک صَاف ہو گئے۔“ \p \v 15 لیکن اُن میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ وہ شفا پاگیا، بُلند آواز سے خُدا کی تمجید کرتا ہُوا واپس آیا \v 16 اَور یِسوعؔ کے قدموں میں مُنہ کے بَل گِر کر اُن کا شُکر اَدا کرنے لگا۔ یہ آدمی سامری تھا۔ \p \v 17 یِسوعؔ نے اُس سے پُوچھا، ”کیا دسوں کوڑھ سے پاک صَاف نہیں ہویٔے؟ پھر وہ نَو کہاں ہیں؟ \v 18 کیا اِس پردیسی کے سِوا دُوسروں کو اِتنی تَوفیق بھی نہ مِلی کہ لَوٹ کر خُدا کی تمجید کرتے؟“ \v 19 تَب یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”اُٹھ اَور رخصت ہو، تیرے ایمان نے تُجھے شفا دی ہے۔“ \s1 خُدا کی بادشاہی \p \v 20 ایک بار فریسیوں نے یِسوعؔ سے پُوچھا کہ خُدا کی بادشاہی کب آئے گی؟ یِسوعؔ نے اُنہیں جَواب دیا، ”خُدا کی بادشاہی اَیسی نہیں کہ لوگ اُسے آتا دیکھ سکیں، \v 21 اَور کہہ سکیں کہ دیکھو وہ یہاں ہے، یا وہاں ہے، لیکن خُدا کی بادشاہی تمہارے درمیان میں ہے۔“ \p \v 22 تَب آپ نے اَپنے شاگردوں سے کہا، ”وہ دِن بھی آنے والے ہیں جَب تُم اِبن آدمؔ کے دِنوں میں سے ایک دِن کو دیکھنے کی آرزُو کروگے مگر نہ دیکھ پاؤگے۔ \v 23 لوگ تُم سے کہیں گے، ’دیکھو وہ وہاں ہے!‘ یا ’دیکھو وہ یہاں ہے!‘ مگر تُم اِدھر بھاگتے ہویٔے اُن کے پیچھے مت جانا۔ \v 24 کیونکہ جَیسے بجلی آسمان میں کوند کر ایک طرف سے دُوسری طرف چمکتی چلی جاتی ہے وَیسے ہی اِبن آدمؔ اَپنے مُقرّرہ دِن ظاہر ہوگا۔ \v 25 لیکن لازِم ہے کہ پہلے وہ بہت دُکھ اُٹھائے اَور اِس زمانہ کے لوگوں کی طرف سے ردّ کیا جائے۔ \p \v 26 ”اَور جَیسا حضرت نُوح کے دِنوں میں تھا، وَیسا ہی اِبن آدمؔ کے دِنوں میں ہوگا۔ \v 27 کہ لوگ کھاتے پیتے تھے اَور شادی بیاہ نُوح کے لکڑی والے پانی کے جہاز میں داخل ہونے کے دِن تک کرتے کراتے تھے۔ پھر سیلاب آیا اَور اُس نے سَب کو ہلاک کر دیا۔ \p \v 28 ”اَور اَیسا ہی حضرت لُوطؔ کے دِنوں میں تھا کہ لوگ کھانے پینے، خریدوفروخت کرنے، درخت لگانے اَور مکان تعمیر کرنے میں مشغُول تھے۔ \v 29 لیکن جِس دِن حضرت لُوطؔ، سدُومؔ سے باہر نکلے، آگ اَور گندھک نے آسمان سے بَرس کر سَب کو ہلاک کر ڈالا۔ \p \v 30 ”اُسی طرح اِبن آدمؔ کے ظاہر ہونے کے دِن بھی اَیسا ہی ہوگا۔ \v 31 اُس دِن جو چھت پر اَور اُس کا مال و اَسباب گھر کے اَندر میں، وہ اُسے لینے کے لیٔے نیچے نہ اُترے۔ جو کھیت میں ہو وہ بھی کسی چیز کے لیٔے واپس نہ جائے۔ \v 32 حضرت لُوطؔ کی بیوی کو یاد رکھو۔ \v 33 جو کویٔی اَپنی جان کو باقی رکھنے کی کوشش کرےگا وہ اُسے کھویٔے گا اَورجو کویٔی میری خاطِر اُسے کھویٔے گا، اُسے بچائے گا۔ \v 34 میں کہتا ہُوں کہ اُس رات دو لوگ چارپائی پر ہوں گے، ایک لے لیا جائے گا اَور دُوسرا وہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ \v 35 دو عورتیں مِل کر چکّی پیستی ہوں گی، ایک لے لی جائے گی اَور دُوسری وہیں چھوڑ دی جائے گی۔ \v 36 دو آدمی کھیت میں ہوں گے۔ ایک لے لیا جائے گا اَور دُوسرا چھوڑ دیا جائے گا۔“\f + \fr 17‏:36 \fr*\ft کُچھ قدیم نوشتوں میں دئیے گیٔے حوالہ جَیسا لِکھّا ملتا ہے۔ \+xt مت 24‏:40‏\+xt*‏\ft*\f* \p \v 37 اُنہُوں نے آپ سے پُوچھا، ”اَے خُداوؔند، یہ کہاں ہوگا؟“ \p یِسوعؔ نے اُنہیں جَواب دیا، ”جہاں لاشیں ہوں گی، وہاں گِدھ بھی جمع ہو جایٔیں گے۔“ \c 18 \s1 بِیوہ اَور قاضی کی تمثیل \p \v 1 یِسوعؔ چاہتے تھے کہ شاگردوں کو مَعلُوم ہو کہ ہِمّت ہارے بغیر دعا میں لگے رہنا چاہئے۔ اِس لیٔے آپ نے اُنہیں یہ تمثیل سُنایٔی: \v 2 ”کسی شہر میں ایک قاضی تھا۔ وہ نہ تو خُدا سے ڈرتا تھا، نہ اِنسان کی پروا کرتا تھا۔ \v 3 اَور اُسی شہر میں ایک بِیوہ بھی تھی جو اُس قاضی کے پاس لگاتار فریاد لے کر آتی رہتی تھی کہ، ’میرا اِنصاف کر اَور مُجھے میرے رقیب سے بچا۔‘ \p \v 4 ”پہلے تو وہ کُچھ عرصہ تک تو منع کرتا رہا۔ لیکن آخِر میں اُس نے اَپنے جی میں کہا، ’سچ ہے کہ میں خُدا سے نہیں ڈرتا اَور نہ اِنسان کی پروا کرتا ہُوں، \v 5 لیکن یہ بِیوہ مُجھے پریشان کرتی رہتی ہے، اِس لیٔے میں اُس کا اِنصاف کروں گا، ورنہ یہ تو بار بار آکر میرے ناک میں دَم کر دے گی!‘ “ \p \v 6 اَور خُداوؔند نے کہا، ”سُنو، یہ بےاِنصاف قاضی کیا کہتاہے۔ \v 7 پس کیا خُدا اَپنے چُنے ہویٔے لوگوں کا اِنصاف کرنے میں دیر کرےگا، جو دِن رات اُس سے فریاد کرتے رہتے ہیں؟ کیا وہ اُنہیں ٹالتا رہے گا؟ \v 8 میں تُم سے کہتا ہُوں کہ خُدا اُن کا اِنصاف کرےگا اَور جلد کرےگا۔ پھر بھی جَب اِبن آدمؔ آئے گا تو کیا وہ زمین پر ایمان پایٔےگا؟“ \s1 فرِیسی اَور مُحصَّل کی تمثیل \p \v 9 یِسوعؔ نے بعض اَیسے لوگوں کو جو اَپنے آپ کو تو راستباز سمجھتے تھے لیکن دُوسروں کو ناچیز جانتے تھے، یہ تمثیل سُنایٔی: \v 10 ”دو آدمی دعا کرنے کے لیٔے بیت المُقدّس میں گیٔے، ایک فرِیسی تھا اَور دُوسرا محصُول لینے والا۔ \v 11 فرِیسی نے کھڑے ہوکر یہ دعا کی: ’اَے خُدا! میں تیرا شُکر کرتا ہُوں کہ میں دُوسرے آدمیوں کی طرح نہیں ہُوں جو لُٹیرے، ظالِم اَور زناکار ہیں اَور نہ ہی اِس محصُول لینے والے کی مانِند ہُوں۔ \v 12 میں ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتا ہُوں اَور اَپنی ساری آمدنی کا دسواں حِصّہ نذر کر دیتا ہُوں۔‘ \p \v 13 ”لیکن اُس محصُول لینے والے نے جو دُور کھڑا ہُوا تھا۔ اَور اُس نے آسمان کی طرف نظر بھی اُٹھانا نہ چاہا، بَلکہ چھاتی پیٹ پیٹ کر کہا، ’خُدا، مُجھ گُنہگار پر رحم کر۔‘ \p \v 14 ”میں تُم سے کہتا ہُوں کہ یہ آدمی، اُس دُوسرے سے، خُدا کی نظر میں زِیادہ راستباز ٹھہر کر اَپنے گھر گیا۔ کیونکہ جو کویٔی اَپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اَورجو اَپنے آپ کو حلیم بنائے گا، وہ بڑا کیا جائے گا۔“ \s1 چُھوٹے بچّے اَور حُضُور یِسوعؔ \p \v 15 پھر بعض لوگ چُھوٹے بچّوں کو یِسوعؔ کے پاس لانے لگے تاکہ وہ اُن پر ہاتھ رکھیں۔ شاگردوں نے جَب یہ دیکھا تو اُنہیں جِھڑک دیا۔ \v 16 لیکن یِسوعؔ نے بچّوں کو اَپنے پاس بُلایا اَور شاگردوں سے کہا، ”چُھوٹے بچّوں کو میرے پاس آنے دو، اُنہیں منع مت کرو کیونکہ خُدا کی بادشاہی اَیسوں ہی کی ہے۔ \v 17 میں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کویٔی خُدا کی بادشاہی کو بچّے کی طرح قبُول نہ کرے تو وہ اُس میں ہرگز داخل نہ ہوگا۔“ \s1 دولتمند رہنما \p \v 18 کسی یہُودی حاکم نے یِسوعؔ سے پُوچھا، ”اَے نیک اُستاد! اَبدی زندگی کا وارِث بننے کے لیٔے میں کیا کروں؟“ \p \v 19 یِسوعؔ نے جَواب دیا، ”تو مُجھے نیک کیوں کہتاہے؟ نیک صِرف ایک ہی ہے یعنی خُدا۔ \v 20 تُم حُکموں کو تو جانتے ہو: ’تُم زنا نہ کرنا، خُون نہ کرنا، چوری نہ کرنا، جھُوٹی گواہی نہ دینا، اَپنے باپ اَور ماں کی عزّت کرنا۔‘\f + \fr 18‏:20 \fr*\ft \+xt خُرو 20‏:12‏‑16؛ اِست 5‏:16‏‑20‏\+xt*‏\ft*\f*“ \p \v 21 اُس نے کہا، ”اِن سَب پر تو میں لڑکپن سے، عَمل کرتا آ رہا ہُوں۔“ \p \v 22 جَب یِسوعؔ نے یہ سُنا تو اُس سے کہا، ”ابھی تک تُجھ میں ایک بات کی کمی ہے۔ اَپنا سَب کُچھ بیچ دے اَور رقم غریبوں میں بانٹ دے، تو تُجھے آسمان پر خزانہ ملے گا۔ پھر آکر میرے پیچھے ہو لینا۔“ \p \v 23 یہ بات سُن کر اُس پر بہت اُداسی چھاگئی، کیونکہ وہ کافی دولتمند تھا۔ \v 24 یِسوعؔ نے اُسے دیکھ کر کہا، ”دولتمندوں کا خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونا کِتنا مُشکل ہے! \v 25 بے شک، اُونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزر جانا کسی دولتمند کے خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے سے زِیادہ آسان ہے۔“ \p \v 26 جنہوں نے یہ بات سُنی وہ پُوچھنے لگے، ”پھر کون نَجات پا سَکتا ہے؟“ \p \v 27 یِسوعؔ نے جَواب دیا، ”جو بات آدمیوں کے لیٔے ناممکن ہے وہ خُدا کے لیٔے ممکن ہے۔“ \p \v 28 پطرس نے یِسوعؔ سے کہا، ”آپ کی پیروی کرنے کے لیٔے ہم تو اَپنا سَب کُچھ چھوڑکر چلے آئے ہیں!“ \p \v 29 حُضُور نے اُن سے کہا، ”میں تُم سے سچ کہتا ہُوں، اَیسا کویٔی نہیں جِس نے خُدا کی بادشاہی کی خاطِر اَپنے گھر یا بیوی یا بھائیوں یا بہنوں یا والدین یا بچّوں کو چھوڑ دیا ہے \v 30 اَور وہ اِس دُنیا میں کیٔی گُنا زِیادہ نہ پایٔے اَور آنے والی دُنیا میں اَبدی زندگی۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ تیسری بار اَپنی موت کی پیشن گوئی کرتے ہیں \p \v 31 یِسوعؔ نے بَارہ شاگردوں کو ایک طرف کیا اَور اُن سے کہا، ”دیکھو ہم یروشلیمؔ جا رہے ہیں اَور نبیوں نے جو کُچھ اِبن آدمؔ کے بارے میں لِکھّا ہے وہ سَب پُورا ہوگا۔ \v 32 اُسے غَیریہُودیوں کے حوالہ کیا جائے گا۔ وہ اُس کی ہنسی اُڑائیں گے، بے عزّت کریں گے اَور اُس پر تُھوکیں گے۔ \v 33 اُسے کوڑے ماریں گے اَور قتل کر ڈالیں گے۔ لیکن وہ تیسرے دِن پھر سے زندہ ہو جائے گا۔“ \p \v 34 لیکن یہ باتیں شاگردوں کی سمجھ میں بالکُل نہ آئیں اَور اِن باتوں کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا اَور اُن کی سمجھ میں نہ آیا کہ یِسوعؔ کِس کے بارے میں اُن سے بات کر رہے تھے۔ \s1 ایک اَندھے بھکاری کا بینائی پانا \p \v 35 اَور اَیسا ہُوا کہ جَب یِسوعؔ یریحوؔ کے نزدیک پہُنچے، تو ایک اَندھا راہ کے کنارے بیٹھا بھیک مانگ رہاتھا۔ \v 36 جَب اُس نے ہُجوم کے گزرنے کی آواز سُنی تو وہ پُوچھنے لگاکہ یہ کیا ہو رہاہے؟ \v 37 لوگوں نے اُسے بتایا، ”یِسوعؔ ناصری جا رہے ہیں۔“ \p \v 38 اُس نے چِلّاکر کہا، ”اَے اِبن داویؔد یِسوعؔ! مُجھ پر رحم فرمائیے!“ \p \v 39 جو لوگ ہُجوم کی رہنمائی کر رہے تھے اُسے ڈانٹنے لگے کہ خاموش ہو جاؤ، مگر وہ اَور بھی زِیادہ چِلّانے لگا، ”اَے اِبن داویؔد، مُجھ پر رحم کیجئے!“ \p \v 40 یِسوعؔ نے رُک کر حُکم دیا کہ اُس آدمی کو میرے پاس لاؤ۔ جَب وہ پاس آیا تو یِسوعؔ نے اُس سے پُوچھا، \v 41 ”تُو کیا چاہتاہے کہ مَیں تیرے لیٔے کروں؟“ \p اُس نے کہا، ”اَے خُداوؔند! میں اَپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہُوں؟“ \p \v 42 یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”تمہاری آنکھوں میں رَوشنی آ جائے، تمہارے ایمان نے تُمہیں اَچھّا کر دیا ہے۔“ \v 43 وہ اُسی دَم دیکھنے لگا اَور خُدا کی تمجید کرتا ہُوا یِسوعؔ کا پیروکار بن گیا۔ یہ دیکھ کر سارے لوگ خُدا کی حَمد کرنے لگے۔ \c 19 \s1 زکّائیؔ اَور حُضُور یِسوعؔ \p \v 1 یِسوعؔ یریحوؔ میں داخل ہوکر جا رہے تھے۔ \v 2 وہاں ایک آدمی تھا جِس کا نام زکّائیؔ تھا۔ وہ محصُول لینے والوں کا افسر تھا اَور کافی دولتمند تھا۔ \v 3 وہ یِسوعؔ کو دیکھنے کا خواہشمند تھا، لیکن اُس کا قد چھوٹا تھا اِس لیٔے وہ ہُجوم میں یِسوعؔ کو دیکھ نہ سَکتا تھا۔ \v 4 لہٰذا وہ دَوڑکر آگے چلا گیا اَور ایک گُولر کے درخت پر چڑھ گیا تاکہ جَب یِسوعؔ اُس جگہ سے گزریں تو وہ آپ کو اُوپر سے دیکھ سکے۔ \p \v 5 جَب یِسوعؔ اُس جگہ پہُنچے تو آپ نے اُوپر دیکھ کر اُس سے کہا، ”اَے زکّائیؔ جلدی سے نیچے اُتر آ کیونکہ آج مُجھے تیرے گھر میں رہنا لازمی ہے۔“ \v 6 پس وہ فوراً نیچے اُتر آیا اَور یِسوعؔ کا اِستِقبال کرتے ہویٔے خُوشی سے اَپنے گھر لے گیا۔ \p \v 7 یہ دیکھ کر سارے لوگ بُڑبُڑانے لگے، ”کہ وہ ایک گُنہگار کے یہاں مہمانی کرنے گیا ہے۔“ \p \v 8 لیکن زکّائیؔ نے کھڑے ہوکر خُداوؔند سے کہا، ”دیکھئے، خُداوؔند! میں اَپنا آدھا مال غریبوں کو ابھی دیتا ہُوں اَور اگر مَیں نے دھوکے سے کسی کا کُچھ لیا ہے تو اُس کا چَو گُنا واپس کرتا ہُوں۔“ \p \v 9 یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”آج اِس گھر میں نَجات آئی ہے کیونکہ یہ آدمی بھی اَبراہامؔ کی اَولاد ہے۔ \v 10 کیونکہ اِبن آدمؔ کھویٔے ہوؤں کو ڈھونڈنے اَور ہلاک ہونے والوں کو نَجات دینے آیا ہے۔“ \s1 توڑوں کی تمثیل \p \v 11 جَب لوگ یِسوعؔ کی یہ باتیں سُن رہے تھے تو آپ نے اُن سے ایک تمثیل کہی، کیونکہ آپ یروشلیمؔ کے نزدیک پہُنچ چُکے تھے اَور لوگوں کا خیال تھا کہ خُدا کی بادشاہی جلد آنے والی ہے۔ \v 12 یِسوعؔ نے فرمایا: ”ایک خاندانی اُمرا دُور کسی دُوسرے مُلک کو روانہ ہُوا تاکہ اُسے بادشاہ مُقرّر کیاجایٔے اَور پھر واپس آئے۔ \v 13 اِس لیٔے اُس نے اَپنے خادِموں میں سے دس کو بُلایا اَور دسوں کو سونے کا ایک ایک سِکّہ\f + \fr 19‏:13 \fr*\fq سِکّہ \fq*\ft اصل یُونانی زبان میں مِنّا، \ft*\fqa قدیم زمانے میں ایک مِنّا تقریباً 100 دِن کی اُجرت تھی۔‏\fqa*\f* دے کر کہا۔ ’میرے واپس آنے تک اِس رقم سے کاروبار کرنا۔‘ \p \v 14 ”لیکن اُس کی رعِیّت اُس سے نفرت کرتی تھی لہٰذا اُنہُوں نے اُس کے پیچھے ایک وفد اِس پیغام کے ساتھ روانہ کیا، ’ہم نہیں چاہتے کہ یہ آدمی ہم پر حُکومت کرے۔‘ \p \v 15 ”بادشاہ بننے کے بعد، جَب، وہ واپس آیا۔ تو اُس نے اَپنے خادِموں کو بُلایا جنہیں اُس نے کاروبار کے لیٔے رقم دی تھی تاکہ مَعلُوم کرے کہ ہر ایک نے کِتنا کِتنا کمایاہے۔ \p \v 16 ”پہلا خادِم آیا تو اُس نے کہا، ’اَے مالک، مَیں نے ایک سِکّے سے دس سِکّے کمائے۔‘ \p \v 17 ” ’شاباش، اَے نیک خادِم!‘ اُس نے جَواب دیا، ’کیونکہ تُونے تھوڑی سِی رقم کو بھی وفاداری سے اِستعمال کیا اِس لیٔے تُجھے، دس شہروں پر اِختیار عطا کیا جاتا ہے۔‘ \p \v 18 ”دُوسرے خادِم نے آکر کہا، ’اَے مالک، مَیں نے تیرے سِکّہ سے پانچ اَور سِکّے کمائے۔‘ \p \v 19 ”بادشاہ نے اُس سے بھی کہا، ’تُجھے بھی پانچ شہروں پر اِختیار عطا کیا جاتا ہے۔‘ \p \v 20 ”تَب تیسرے خادِم نے آکر کہا، ’اَے مالک، یہ رہا تیرا سِکّہ؛ مَیں نے اِسے رُومال میں باندھ کر رکھ دیا تھا۔ \v 21 کیونکہ تو سخت آدمی ہے اِس لیٔے مُجھے تیرا خوف تھا، تو جہاں پر رُوپیہ نہیں لگایا ہوتاہے وہاں سے بھی اُٹھا لیتا ہے اَور جہاں بویا نہیں وہاں سے بھی کاٹتا ہے۔‘ \p \v 22 ”مالک نے اُس سے کہا، ’اَے شریر خادِم! میں تیری ہی باتوں سے تُجھے مُلزم ٹھہراتا ہُوں، جَب تو جانتا تھا، کہ میں سخت آدمی ہُوں، اَور جہاں پر رُوپیہ نہیں لگایا ہوتاہے وہاں سے بھی اُٹھا لیتا ہُوں، اَور جسے بویا نہیں ہوتا اُسے بھی کاٹ لیتا ہُوں؟ \v 23 تو پھر تُونے میرا سِکّہ کسی ساہوکار کے پاس جمع کیوں نہیں کرایا، تاکہ میں واپس آکر اُس سے سُود سمیت وصول کر لیتا؟‘ \p \v 24 ”تَب اُس نے اُن سے جو پاس کھڑے تھے کہا، ’اُس سے یہ سِکّہ لے لو اَور اُسے دے دو جِس کے پاس دس سِکّے ہیں۔‘ \p \v 25 ” ’اَے مالک،‘ اُنہُوں نے کہا، ’اُس کے پاس تو پہلے ہی سے دس سِکّے مَوجُود ہَیں!‘ \p \v 26 ”یِسوعؔ نے جَواب میں کہا، ’میں تُم سے کہتا ہُوں کہ جِس کے پاس ہوگا، اُسے اَور بھی دیا جائے گا، اَور جِس کے پاس نہیں ہوگا، اُس سے وہ بھی جو اُس کے پاس ہے، لے لیا جائے گا۔ \v 27 لیکن میرے اُن دُشمنوں کو جو نہیں چاہتے تھے کہ میں اُن کا بادشاہ بنُوں، یہاں لے آؤ اَور میرے سامنے قتل کر دو۔‘ “ \s1 حُضُور یِسوعؔ کی یروشلیمؔ میں آمد \p \v 28 یہ باتیں کہہ کر یِسوعؔ یروشلیمؔ پہُنچنے کے لیٔے آگے بڑھنے لگے۔ \v 29 جَب وہ بیت فگے اَور بیت عنیّاہ کے پاس پہُنچے جو کوہِ زَیتُون پر آباد ہَیں، تو یِسوعؔ نے اَپنے دو شاگردوں کو یہ کہہ کر آگے بھیجا، \v 30 ”سامنے والے گاؤں میں جاؤ، وہاں داخل ہوتے ہی تُم ایک گدھی کا جَوان بچّہ بندھا ہُوا پاؤگے، جِس پر اَب تک کسی نے سواری نہیں کی ہے۔ اُسے کھول کر یہاں لے آؤ۔ \v 31 اَور اگر کویٔی تُم سے پُوچھے، ’اِسے کیوں کھول رہے ہو تو کہنا کہ خُداوؔند کو اِس کی ضروُرت ہے۔‘ “ \p \v 32 آگے بھیجے جانے والوں نے جا کر جَیسا یِسوعؔ نے اُن سے کہاتھا وَیسا ہی پایا۔ \v 33 جَب وہ گدھی کے بچّے کو کھول رہے تھے، تو اُس کے مالکوں نے اُن سے پُوچھا، ”اِس بچّے کو کیوں کھول رہے ہو؟“ \p \v 34 اُنہُوں نے جَواب دیا، ”خُداوؔند کو اِس کی ضروُرت ہے۔“ \p \v 35 پس وہ اُسے یِسوعؔ کے پاس لایٔے اَور اُس گدھے کے بچّے پر اَپنے کپڑے ڈال کر یِسوعؔ کو اُس پر سوار کر دیا۔ \v 36 جَب یِسوعؔ جا رہے تھے تو لوگوں نے راستے میں اَپنے کپڑے بچھا دئیے۔ \p \v 37 جَب وہ اُس مقام کے نزدیک پہُنچے جہاں سڑک کوہِ زَیتُون سے نیچے کی طرف جاتی ہے، تو شاگردوں کی ساری جماعت اُن سارے معجزوں کی وجہ سے جو اُنہُوں نے دیکھے تھے، خُوش ہوکر اُونچی آواز سے خُدا کی تمجید یہ کہکر کرنے لگی: \q1 \v 38 ”مُبارک ہے وہ بادشاہ جو خُداوؔند کے نام سے آتا ہے!“\f + \fr 19‏:38 \fr*\ft \+xt زبُور 118‏:26‏\+xt*‏\ft*\f* \b \q1 ”آسمان پر صُلح اَور عالمِ بالا پر جلال!“ \p \v 39 ہُجوم میں بعض فرِیسی بھی تھے، وہ یِسوعؔ سے کہنے لگے، ”اَے اُستاد، اَپنے شاگردوں کو ڈانٹئے کہ وہ چُپ رہیں!“ \p \v 40 یِسوعؔ نے اُنہیں جَواب دیا، ”میں تُم سے کہتا ہُوں کہ اگر یہ خاموش ہو جایٔیں گے تو پتّھر چِلّانے لگیں گے۔“ \p \v 41 جَب یِسوعؔ یروشلیمؔ کے نزدیک پہُنچے اَور شہر کو دیکھا تو رو پڑے۔ \v 42 وہ کہنے لگے، ”کاش کہ تُو، اِسی دِن اَپنی سلامتی سے تعلّق رکھنے والی باتوں کو جان لیتی! لیکن اَب یہ بات تیری آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ \v 43 تُجھے وہ دِن دیکھنے پڑیں گے جَب تیرے دُشمن تیرے خِلاف مورچہ باندھ کر تُجھے چاروں طرف سے گھیر لیں گے اَور تُجھ پر چڑھ آئیں گے۔ \v 44 اَور تُجھے اَور تیرے بچّوں کو تیری پناہ میں ہیں زمین پر پٹک دیں گے اَور کسی پتّھر پر پتّھر باقی نہ رہنے دیں گے، اِس لیٔے کہ تُونے اُس وقت کو نہ پہچانا جَب تُجھ پر خُدا کی نظر پڑی تھی۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ کا بیت المُقدّس کو پاک صَاف کیاجانا \p \v 45 تَب یِسوعؔ بیت المُقدّس کے صحنوں میں داخل ہویٔے اَور وہاں سے خریدوفروخت کرنے والوں کو باہر نکالنے لگے۔ \v 46 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”لِکھّا ہے، ’میرا گھر دعا کا گھر‘\f + \fr 19‏:46 \fr*\ft \+xt یَشع 56‏:7‏\+xt*‏\ft*\f* کہلائے گا؛ مگر تُم نے ’اُسے ڈاکوؤں کا اڈّا بنا رکھا ہے۔‘\f + \fr 19‏:46 \fr*\ft \+xt یرم 7‏:11‏\+xt*‏\ft*\f*“ \p \v 47 یِسوعؔ ہر روز بیت المُقدّس میں تعلیم دیتے تھے مگر اہم کاہِنوں، شَریعت کے عالِموں اَور یہُودی بُزرگ آپ کو قتل کرنے کی کوشش میں لگے ہویٔے تھے۔ \v 48 لیکن اُنہیں اَیسا کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا کیونکہ سارے لوگ یِسوعؔ کی باتیں سُننے کے لیٔے اُنہیں گھیرے رہتے تھے۔ \c 20 \s1 حُضُور یِسوعؔ کا اِختیار \p \v 1 ایک دِن جَب یِسوعؔ بیت المُقدّس میں لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے اَور اُنہیں انجیل سُنا رہے تھے تو اہم کاہِن اَور شَریعت کے عالِم، یہُودی بُزرگوں کے ساتھ آپ کے پاس پہُنچے۔ \v 2 اَور کہنے لگے، ”آپ یہ ساری باتیں کس اِختیار سے کرتے ہیں یا آپ کو یہ اِختیار کِس نے دیا ہے؟“ \p \v 3 یِسوعؔ نے جَواب دیا، ”میں بھی تُم سے ایک سوال پُوچھتا ہُوں، مُجھے بتاؤ: \v 4 حضرت یُوحنّا کا پاک غُسل خُدا\f + \fr 20‏:4 \fr*\fq خُدا \fq*\ft اصل نوشتوں میں \ft*\fqa آسمان آیا ہے۔‏\fqa*\f* کی طرف سے تھا یا اِنسان کی طرف سے؟“ \p \v 5 وہ آپَس میں بحث کرنے لگے، ”اگر ہم کہیں، ’وہ آسمان کی طرف سے تھا،‘ تو وہ کہیں گے، ’پھر تُم نے اُس کا یقین کیوں نہ کیا؟‘ \v 6 لیکن اگر کہیں، ’اِنسان کی طرف سے تھا،‘ تو لوگ ہمیں سنگسار کر ڈالیں گے، کیونکہ وہ یُوحنّا کو نبی مانتے ہیں۔“ \p \v 7 لہٰذا اُنہُوں نے جَواب دیا، ”ہم نہیں جانتے کہ کس کی طرف سے تھا۔“ \p \v 8 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”تَب تو میں بھی تُمہیں نہیں بتاؤں گا کہ اِن کاموں کو کِس اِختیار سے کرتا ہُوں۔“ \s1 ٹھیکیدار کِسانوں کی تمثیل \p \v 9 پھر یِسوعؔ نے لوگوں کو یہ تمثیل سُنایٔی: ”ایک شخص نے انگوری باغ لگایا اَور اُسے کُچھ کاشت کاروں کو ٹھیکے پردے کر خُود ایک لمبے عرصہ کے لیٔے پردیس چلا گیا۔ \v 10 جَب انگور توڑنے کا موسم آیا تو اُس نے ایک خادِم کو ٹھیکیداروں کے پاس انگوری باغ کے پھلوں سے اَپنا کچھ حِصّہ لینے بھیجا۔ لیکن ٹھیکیداروں نے اُس کو خُوب پِیٹا اَور خالی ہاتھ لَوٹا دیا۔ \v 11 تَب اُس نے ایک اَور خادِم کو بھیجا لیکن اُنہُوں نے اُس کی بھی بے عزّتی کی اَور مارپیٹ کرکے اُسے خالی ہاتھ لَوٹا دیا۔ \v 12 پھر اُس نے تیسرے خادِم کو بھیجا۔ اُنہُوں نے اُسے بھی زخمی کرکے بھگا دیا۔ \p \v 13 ”تَب انگوری باغ کے مالک نے کہا، ’میں کیا کروں؟ میں اَپنے بیٹے کو بھیجوں گا، جِس سے میں مَحَبّت کرتا ہُوں؛ شاید وہ اُس کا ضروُر اِحترام کریں گے۔‘ \p \v 14 ”مگر جَب ٹھیکیداروں نے اُسے دیکھا تو، آپَس میں مشورہ کرکے، کہنے لگے، یہی وارِث ہے، آؤ ’ہم اِسے قتل کر دیں، تاکہ مِیراث ہماری ہو جائے۔‘ \v 15 پس اُنہُوں نے اُسے انگوری باغ سے باہر نکال کر قتل کر ڈالا۔ \p ”اَب انگوری باغ کا مالک اُن کے ساتھ کس طرح پیش آئے گا؟ \v 16 وہ آکر اُن ٹھیکیداروں کو ہلاک کرےگا اَور انگوری باغ اَوروں کے سُپرد کر دے گا۔“ \p یہ سُن کر لوگوں نے کہا، ”کہ کاش اَیسا کبھی نہ ہوتا!“ \p \v 17 یِسوعؔ نے اُن کی طرف نظر کرکے پُوچھا، ”تو پھر کِتاب مُقدّس کے اِس حوالہ کا کیا مطلب ہے: \q1 ” ’جِس پتّھر کو مِعماروں نے ردّ کر دیا \q2 وُہی کونے کے سِرے کا پتّھر ہو گئے‘؟\f + \fr 20‏:17 \fr*\ft \+xt زبُور 118‏:22‏\+xt*‏\ft*\f* \m \v 18 جو کویٔی اِس پتّھر پر گِرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا؛ لیکن جِس پر یہ گِرے گا اُسے پیس ڈالے گا۔“ \p \v 19 شَریعت کے عُلما اَور اہم کاہِنوں نے اُسی وقت یِسوعؔ کو پکڑنے کی کوشش کی، کیونکہ وہ جان گیٔے تھے کہ آپ نے وہ تمثیل اُن ہی کے بارے میں کہی ہے لیکن وہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔ \s1 قَیصؔر کو محصُول اَدا کرنا روا ہے یا نہیں \p \v 20 چنانچہ وہ یِسوعؔ کو پکڑنے کی تاک میں لگے رہے اَور اُنہُوں نے دیانت داروں کی شکل میں جاسُوسوں کو آپ کے پاس بھیجا تاکہ آپ کی کویٔی بات پکڑ سکیں اَور آپ کو حاکم کے قبضہ اِختیار میں دے دیں۔ \v 21 جاسُوسوں نے یِسوعؔ سے پُوچھا: ”اَے اُستاد، ہم جانتے ہیں کہ آپ سچ بولتے ہیں اَور سچّائی کی تعلیم دیتے ہیں، اَور کسی کی طرفداری نہیں کرتے بَلکہ سچّائی سے خُدا کی راہ کی تعلیم دیتے ہیں۔ \v 22 کیا ہمارے لیٔے قَیصؔر کو محصُول اَدا کرنا روا ہے یا نہیں؟“ \p \v 23 یِسوعؔ نے اُن کی منافقت کو جانتے ہویٔے اُن سے کہا، \v 24 ”مُجھے ایک دینار لاکر دِکھاؤ، اِس پر کس کی صورت اَور کس کا نام لِکھّا ہے؟“ \p اُنہُوں نے جَواب دیا، ”قَیصؔر کا۔“ \p \v 25 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”جو قَیصؔر کا ہے قَیصؔر کو اَورجو خُدا کا ہے خُدا کو اَدا کرو۔“ \p \v 26 اَور وہ لوگوں کے سامنے یِسوعؔ کی کہی ہویٔی کویٔی بات نہ پکڑ سکے بَلکہ آپ کے جَواب سے دنگ ہوکر خاموش ہو گئے۔ \s1 قیامت اَور شادی بیاہ \p \v 27 کُچھ صدُوقی جو کہتے ہیں کہ روزِ قیامت ہے ہی نہیں، وہ یِسوعؔ کے پاس آئے اَور پُوچھنے لگے۔ \v 28 ”اَے اُستاد،“ ہمارے لیٔے حضرت مَوشہ کا حُکم ہے، ”اگر کسی آدمی کا شادی شُدہ بھایٔی بے اَولاد مَر جائے تو وہ اَپنے بھایٔی کی بِیوہ سے شادی کر لے تاکہ اَپنے بھایٔی کے لیٔے نَسل پیدا کر سکے۔ \v 29 چنانچہ سات بھایٔی تھے۔ پہلے نے شادی کی اَور بے اَولاد مَر گیا۔ \v 30 پھر دُوسرے اَور \v 31 تیسرے بھایٔی نے اُس سے شادی کی، اَور بے اَولاد مَر گیا یہی سلسلہ ساتویں بھایٔی تک بے اَولاد مَرنے کا جاری رہا۔ \v 32 آخِر میں وہ عورت بھی مَر گئی۔ \v 33 اَب بتائیں کہ قیامت کے دِن وہ کِس کی بیوی ہوگی، کیونکہ وہ اُن ساتوں کی بیوی رہ چُکی تھی؟“ \p \v 34 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”اِس دُنیا کے لوگوں میں تو شادی بیاہ کرنے کا دستور ہے، \v 35 لیکن جو لوگ آنے والی دُنیا کے لائق ٹھہریں گے اَور مُردوں میں سے جی اُٹھیں گے وہ شادی بیاہ نہیں کریں گے۔ \v 36 وہ مَریں گے بھی نہیں؛ کیونکہ وہ فرشتوں کی مانِند ہوں گے۔ اَور قیامت کے فرزند نے کے باعث خُدا کے فرزند ہوں گے۔ \v 37 اَور جلتی ہویٔی جھاڑی کے بَیان میں، حضرت مَوشہ نے بھی اُس طرف اِشارہ کیا کہ مُردے جی اُٹھیں گے، کیونکہ حضرت مَوشہ خُداوؔند کو‏ ’اَبراہامؔ کا خُدا، اِصحاقؔ کا خُدا اَور یعقوب کا خُدا کہہ کر پُکارتے ہیں۔‘\f + \fr 20‏:37 \fr*\ft ‏ \+xt خُرو 3‏:6‏\+xt*‏\ft*\f* \v 38 خُدا مُردوں کا نہیں، بَلکہ زندوں کا خُدا ہے کیونکہ اُس کے نزیک سَب زندہ ہیں۔“ \p \v 39 شَریعت کے عُلما میں سے بعض نے جَواب دیا، ”اَے اُستاد، آپ نے خُوب فرمایاہے!“ \v 40 اَور اُن میں سے پھر کسی نے بھی حُضُور سے اَور کویٔی سوال کرنے کی جُرأت نہ کی۔ \s1 حُضُور المسیح کِس کا بیٹا ہے؟ \p \v 41 پھر یِسوعؔ نے اُن سے فرمایا، ”المسیح کو داویؔد کا بیٹا کس طرح کہا جاتا ہے؟ \v 42 کیونکہ داویؔد تو خُود زبُور شریف میں فرماتے ہیں: \q1 ” ’خُداتعالیٰ نے میرے خُداوؔند سے کہا: \q2 ”میری داہنی طرف بیٹھو \q1 \v 43 جَب تک کہ مَیں تمہارے دُشمنوں کو \q2 تمہارے پاؤں کے نیچے نہ کر دُوں۔“ ‘\f + \fr 20‏:43 \fr*\ft \+xt زبُور 110‏:1‏\+xt*‏\ft*\f* \m \v 44 جَب داویؔد ہی خُود اُنہیں ’خُداوؔند‘ کہتے ہیں۔ تو وہ کِس طرح داویؔد کا بیٹاہو سکتے ہیں؟“ \s1 قانُون کے اُستادوں کے خِلاف اِنتباہ کرنا \p \v 45 جَب سَب لوگ سُن رہے تھے تو یِسوعؔ نے اَپنے شاگردوں سے کہا، \v 46 ”شَریعت کے عالِموں سے خبردار رہنا۔ جو لمبے لمبے چوغے پہن کر اِدھر اُدھر چلنا پسند کرتے ہیں اَور چاہتے ہیں کہ لوگ بازاروں میں اُنہیں اِحتراماً مُبارکبادی سلام کریں وہ یہُودی عبادت گاہوں میں اعلیٰ درجہ کی کُرسیاں اَور ضیافتوں میں صدر نشینی چاہتے ہیں۔ \v 47 وہ بیواؤں کے گھروں کو ہڑپ کرلیتے ہیں اَور دِکھاوے کے طور پر لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اِن لوگوں کو سَب سے زِیادہ سزا ملے گی۔“ \c 21 \s1 ایک بِیوہ کا نذرانہ \p \v 1 یِسوعؔ نے نظر اُٹھاکر دیکھا کہ دولتمند لوگ بیت المُقدّس کے خزانہ میں اَپنے نذرانے ڈال رہے تھے۔ \v 2 آپ نے ایک غریب بِیوہ کو بھی دیکھا جِس نے صِرف دو بہت چُھوٹے تانبے کے سِکّے ڈالے۔ \v 3 اِس پر یِسوعؔ نے کہا، ”میں تُم سے سچ کہتا ہُوں، کہ اِس بِیوہ نے سَب لوگوں سے زِیادہ نذرانہ ڈالا ہے۔ \v 4 کیونکہ باقی سَب لوگوں نے تو اَپنی ساری پُونجی میں سے کُچھ بطور نذر ڈالا لیکن اِس عورت نے اَپنی ناداری کی حالت میں بھی جو کُچھ اُس کے پاس تھا سَب ڈال دیا۔“ \s1 آخِرت کی نِشانیاں \p \v 5 یِسوعؔ کے بعض شاگرد بیت المُقدّس کی تعریف کر رہے تھے کہ وہ نفیس پتھّروں اَور نذر کیٔے گیٔے تحفوں سے آراستہ ہے۔ تو یہ سُن کر یِسوعؔ نے کہا، \v 6 ”وہ دِن آئیں گے کہ یہ چیزیں جو تُم یہاں دیکھ رہے ہو، اِن کا کویٔی بھی پتّھر اَپنی جگہ باقی نہ رہے گا بَلکہ گرا دیا جائے گا۔“ \p \v 7 شاگردوں نے آپ سے پُوچھا، ”اَے اُستاد، ہمیں بتائیے، یہ باتیں کب واقع ہوں گی؟ اَور اِن باتوں کی پُورا ہونے کی کیا علامت ہوگی اَور اُن کے ظاہر میں آنے کے وقت کا نِشان کیا کیا ہوگا؟“ \p \v 8 یِسوعؔ نے کہا: ”خبردار گُمراہ نہ ہو جانا کیونکہ کیٔی لوگ میرے نام سے آئیں گے، اَور کہیں گے، ’میں ہی المسیح ہُوں،‘ اَور ’یہ بھی کہ وقت نزدیک آ پہُنچا ہے۔‘ تُم اُن کے پیچھے مت چلے جانا۔ \v 9 اَور جَب لڑائیوں اَور بغاوتوں کی افواہیں سُنو، تو خوفزدہ مت ہونا۔ کیونکہ پہلے اُن کا واقع ہونا ضروُری ہے، لیکن ابھی آخِرت نہ ہوگی۔“ \p \v 10 تَب آپ نے اُن سے فرمایا، ”قوم پر قوم اَور سلطنت پر سلطنت حملہ کرےگی۔ \v 11 جگہ جگہ بڑے بڑے زلزلے آئیں گے، قحط پڑیں گے اَور وبَائیں کیٔی جگہ پر پھیلیں گی، دہشت ناک واقعات اَور آسمان پر عظیم نِشانات ظاہر ہوں گے۔ \p \v 12 ”لیکن اِن سَب باتوں کے ہونے سے پہلے، لوگ تُمہیں گِرفتار کریں گے اَور ستائیں گے۔ وہ تُمہیں یہُودی عبادت گاہوں کی عدالتوں مَیں حاضِر کریں گے اَور قَیدخانوں میں ڈلوائیں گے اَور بادشاہوں اَور حاکموں کے حُضُور میں پیش کریں گے اَور یہ اِس لیٔے ہوگا کہ تُم میرے پیروکار ہو۔ \v 13 تَب تُمہیں میری گواہی دینے کا اَچھّا موقع ملے گا۔ \v 14 لیکن تُمہیں کویٔی ضروُرت نہیں کہ تُم پہلے ہی سے فکر کرنے لگو کہ ہم کیا کہیں گے۔ \v 15 کیونکہ مَیں تُمہیں اَیسے الفاظ اَور حِکمت عطا کروں گا کہ تمہارا کویٔی بھی مُخالف نہ تو تمہارا سامنا کر سکےگا نہ تمہارے خِلاف کُچھ کہہ سکےگا۔ \v 16 اَور تمہارے والدین، بھایٔی اَور بہنیں، رشتہ دار اَور دوست تُم سے بےوفائی کریں گے اَور تُم میں سے بعض کو قتل بھی کریں گے۔ \v 17 اَور میرے نام کی وجہ سے سارے لوگ تُم سے نفرت کرنے لگیں گے \v 18 لیکن تمہارے سَر کا ایک بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ \v 19 سَب کُچھ برداشت کرکے ہی تُم اَپنی جانوں کو محفوظ رکھ سکوگے۔ \p \v 20 ”اَور جَب یروشلیمؔ کو فَوجوں کے محاصرہ میں دیکھو تو جان لینا کہ اُس کی تباہی کے دِن نزدیک آ گئے ہیں۔ \v 21 تَب اُس وقت جو یہُودیؔہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جایٔیں اَورجو یروشلیمؔ کے اَندرہوں باہر نکل جایٔیں اَورجو دیہات میں ہوں وہ شہر میں داخل نہ ہوں۔ \v 22 کیونکہ یہ غضبِ الٰہی کے دِن ہوں گے جِن میں وہ سَب کُچھ جو پہلے سے کِتاب مُقدّس میں لِکھّا جا چُکاہے پُورا ہوگا۔ \v 23 مگر حاملہ خواتین اَور اُن ماؤں کا جو اُن دِنوں میں دُودھ پِلاتی ہوں گی، وہ دِن کتنے خوفناک ہوں گے! کیونکہ اِس مُلک میں بہت بڑی مُصیبت برپا ہوگی اَور اِس قوم پر خُدا کا بڑا غضب نازل ہوگا۔ \v 24 وہ تلوار کا لُقمہ بَن جایٔیں گے اَور اسیر کر سَب مُلکوں میں پہُنچائے جایٔیں گے اَور غَیریہُودی لوگ یروشلیمؔ کو پاؤں تلے کُچل ڈالیں گے یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جَب تک اُن کی میِعاد پُوری نہ ہو جائے۔ \p \v 25 ”سُورج، چاند اَور سِتاروں میں نِشان ظاہر ہوں گے اَور زمین پر مُلکوں کو اَذیّت پہُنچے گی کیونکہ سمُندر اَور اُس کی لہروں کا زور و شور اُنہیں خوفزدہ کر دے گا۔ \v 26 لوگ اِس اَندیشے سے کہ دُنیا پر کیا کیا مُصیبتوں آنے والی ہیں اِس قدر خوف کھایٔیں گے کہ اُن کے ہوش و حواس باقی نہ رہیں گے، کیوں کہ آسمان کی قُوّتیں ہِلا دی جایٔیں گی۔ \v 27 تَب لوگ اِبن آدمؔ کو عظیم قُدرت اَور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتا دیکھیں گے۔ \v 28 جَب یہ باتیں ہونا شروع جایٔیں تو سیدھے کھڑے ہوکر اَپنا سَر اُوپر اُٹھانا کیونکہ تمہاری مخلصی نزدیک ہوگی۔“ \p \v 29 تَب یِسوعؔ نے اُنہیں یہ تمثیل سُنایٔی: ”تُم اَنجیر کے درخت اَور سارے درختوں پر غور کرو۔ \v 30 جُوں ہی اُن میں کونپلیں پھُوٹنے لگتی ہیں، تُم دیکھ کر جان لیتے ہو کہ اَب گرمی نزدیک ہے۔ \v 31 اِسی طرح، جَب تُم یہ باتیں ہوتے دیکھو، تو جان لو کہ خُدا کی بادشاہی نزدیک ہے۔ \p \v 32 ”میں تُم سے سچ کہتا ہُوں، کہ اِس نَسل کے ختم ہونے سے پہلے ہی یہ سَب کُچھ پُورا ہوگا۔ \v 33 آسمان اَور زمین ٹل جایٔیں گی لیکن میری باتیں کبھی نہیں ٹلیں گی۔ \p \v 34 ”پس تُم خبردار رہو۔ کہیں اَیسا نہ کہ تمہارے دِل عیّاشی، نشہ بازی اَور اِس زندگی کی فِکروں سے سُست پڑ جایٔیں اَور وہ دِن تُم پر پھندے کی طرح اَچانک آ پڑے۔ \v 35 کیونکہ وہ رُوئے زمین پر مَوجُود تمام لوگوں پر پھندے کی طرح آ پڑےگا۔ \v 36 پس ہر وقت چَوکَس رہو اَور دعا میں لگے رہو تاکہ تُم اِن سَب باتوں سے جو ہونے والی ہیں، بچ کر اِبن آدمؔ کے حُضُور میں کھڑے ہونے کے لائق ٹھہرو۔“ \p \v 37 یِسوعؔ ہر روز بیت المُقدّس میں تعلیم دیتے تھے، اَور ہر رات کو باہر جا کر اُس پہاڑ پر رات گزارتے تھے جِس کا نام کوہِ زَیتُون تھا، \v 38 اَور صُبح ہوتے ہی سَب لوگ آپ کی باتیں سُننے بیت المُقدّس میں آ جاتے تھے۔ \c 22 \s1 یہُوداہؔ کی غدّاری \p \v 1 عیدِ فطیر جسے عیدِفسح بھی کہتے ہیں نزدیک آ گئی تھی۔ \v 2 اہم کاہِن اَور شَریعت کے عالِم یِسوعؔ کو قتل کرنے کا سہی موقع ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ وہ عوام سے ڈرتے تھے۔ \v 3 تبھی شیطان یہُوداہؔ میں سما گیا، جسے اِسکریوتی بھی کہتے تھے، جو بَارہ شاگردوں میں سے ایک تھا۔ \v 4 وہ اہم کاہِنوں اَور بیت المُقدّس کے پہرےداروں کے افسران اَور رہنماؤں کے پاس گیا اَور اُن سے مشورہ کرنے لگاکہ وہ کس طرح یِسوعؔ کو اُن کے ہاتھوں میں پکڑوا دے۔ \v 5 وہ بڑے خُوش ہویٔے اَور اُسے رُوپیہ دینے پر راضی ہو گیٔے۔ \v 6 یہُوداہؔ نے اُن کی بات مان لی اَور موقع ڈھونڈنے لگاکہ جِس وقت آس پاس کویٔی ہُجوم نہ ہو یِسوعؔ کو کس طرح اُن کے حوالے کر دے۔ \s1 عِشائے خُداوندی \p \v 7 تَب عیدِ فطیر کا دِن آیا، اُس دِن عیدِفسح کے برّہ کی قُربانی کرنا فرض تھا۔ \v 8 یِسوعؔ نے پطرس اَور یُوحنّا کو یہ کہہ کر روانہ کیا، ”کہ جاؤ اَور ہمارے لیٔے عیدِفسح کے کھانے کی تیّاری کرو۔“ \p \v 9 اُنہُوں نے پُوچھا، ”آپ کہاں چاہتے ہَیں کہ ہم فسح کا کھانا تیّار کریں؟“ \p \v 10 یِسوعؔ نے اُنہیں جَواب دیا، ”شہر میں داخل ہوتے ہی تُمہیں ایک آدمی ملے گا جو پانی کا گھڑا لے جا رہا ہوگا۔ اُس کے پیچھے جانا اَور جِس گھر میں وہ داخل ہو \v 11 اُس گھر کے مالک سے کہنا، ’اُستاد نے پُوچھا ہے: وہ مہمان خانہ کہاں ہے، جہاں میں اَپنے شاگردوں کے ساتھ عیدِفسح کا کھانا کھا سکوں؟‘ \v 12 وہ تُمہیں ایک بڑا سا کمرہ اُوپر لے جا کر دِکھائے گا جو ہر طرح سے آراستہ ہوگا۔ وہیں ہمارے لیٔے تیّاری کرنا۔“ \p \v 13 اُنہُوں نے جا کر سَب کُچھ وَیسا ہی پایا جَیسا یِسوعؔ نے اُنہیں بتایا تھا پھر عیدِفسح کا کھانا تیّار کیا۔ \p \v 14 جَب کھانے کا وقت آیا تو یِسوعؔ اَور اُن کے رسول دسترخوان کے اِردگرد کھانا کھانے بیٹھ گیٔے۔ \v 15 اَور آپ نے اُن سے کہا، ”میری بڑی آرزُو تھی کہ اَپنے دُکھ اُٹھانے سے پہلے عیدِفسح کا یہ کھانا تمہارے ساتھ کھاؤں۔ \v 16 کیونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ آئندہ میں اِسے اُس وقت تک نہ کھاؤں گا جَب تک کہ خُدا کی بادشاہی میں اِس کا مقصد پُورا نہ ہو جائے۔“ \p \v 17 پھر یِسوعؔ نے پیالہ لیا، اَور خُدا کا شُکر اَدا کرکے کہا، ”اِسے لو اَور آپَس میں بانٹ لو۔ \v 18 کیونکہ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ میں انگور کا شِیرہ تَب تک نہیں پیوں گا جَب تک کہ خُدا کی بادشاہی آ نہ جائے۔“\f + \fr 22‏:18 \fr*\ft عیدِفسح کے دِن خُدا کی نَجات کو یاد کیا جاتا تھا جو خُدا کی اَبدی بادشاہی میں حُضُور یِسوعؔ کے ذریعہ پُوری ہونے والی ہے۔‏\ft*\f* \p \v 19 پھر آپ نے روٹی لی اَور خُدا کا شُکر کرکے اُس کے ٹکڑے کیٔے، اَور شاگردوں کو یہ کہہ کر دیا، ”یہ میرا بَدن ہے جو تمہارے لیٔے دیا جاتا ہے، میری یادگاری کے لیٔے یہی کیا کرو۔“ \p \v 20 اِسی طرح کھانے کے بعد یِسوعؔ نے پیالہ لیا، اَور یہ کہہ کر دیا، ”یہ پیالہ میرے خُون میں نیا عہد ہے جو تمہارے لیٔے بہایا جاتا ہے۔ \v 21 مگر مُجھے گِرفتار کرانے والے کا ہاتھ میرے ساتھ دسترخوان پر ہے۔ \v 22 اِبن آدمؔ تو جا ہی رہاہے جَیسا کہ اُس کے لیٔے پہلے سے مُقرّر ہو چُکاہے لیکن اُس آدمی پر افسوس جو مُجھے دھوکا دیتاہے!“ \v 23 یہ سُن کر وہ آپَس میں پُوچھنے لگے کہ ہم میں اَیسا کون ہے جو یہ کام کرےگا؟ \p \v 24 شاگردوں میں اِس بات پر آپَس میں بحث ہونے لگی کہ اُن میں کون سَب سے بڑا سمجھا جاتا ہے۔ \v 25 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”غَیریہُودیوں پر اُن کے حُکمراں حُکمرانی کرتے ہیں اَورجو اِختیار والے ہیں وہ مُحسِن کَہلاتے ہیں۔ \v 26 لیکن تُمہیں اُن کے جَیسا نہیں ہوناہے، اِس کے بجائے، تُم میں جو سَب سے بڑا ہے وہ سَب سے چُھوٹے کی مانِند اَورجو حاکم ہے وہ خادِم کی مانِند ہو۔ \v 27 کیونکہ بڑا کون ہے؟ وہ جو دسترخوان پر بیٹھا ہے یا وہ ہے جو خدمت کرتا ہے؟ کیا وہ بڑا نہیں ہے جو دسترخوان پر بیٹھا ہے؟ لیکن مَیں تو تمہارے بیچ میں ایک خادِم کی مانِند ہُوں۔ \v 28 مگر تُم وہ جو میری آزمائشوں میں برابر میرے ساتھ کھڑے رہے ہو۔ \v 29 جَیسے میرے باپ نے مُجھے ایک سلطنت عطا کی ہے، وَیسے ہی میں بھی تُمہیں ایک سلطنت عطا کرتا ہُوں۔ \v 30 تاکہ تُم میری سلطنت میں میرے دسترخوان سے کھاؤ اَور پیو اَور تُم شاہی تختوں پر بیٹھ کر اِسرائیلؔ کے بَارہ قبیلوں کا اِنصاف کروگے۔ \p \v 31 ”شمعُونؔ! شمعُونؔ! شیطان نے تُم سبھی کو گندُم کی طرح پھٹکنے کی اِجازت مانگی ہے۔ \v 32 لیکن شمعُونؔ، کہ مَیں نے تمہارے لیٔے شِدّت سے دعا کی ہے کہ تیرا ایمان جاتا نہ رہے اَور جَب تو تَوبہ کر چُکے تو اَپنے بھائیوں کے ایمان کو مضبُوط کرنا۔“ \p \v 33 پطرس نے آپ سے کہا، ”اَے خُداوؔند، آپ کے ساتھ تو میں قَید ہونے اَور مَرنے کو بھی تیّار ہُوں۔“ \p \v 34 لیکن یِسوعؔ نے جَواب دیا، ”اَے پطرس! میں تُم سے کہتا ہُوں، آج اِس سے پہلے کہ مُرغ بانگ دے تُم تین دفعہ میرا اِنکار کروگے کہ تُم مُجھے جانتے تک نہیں۔“ \p \v 35 اُس کے بعد یِسوعؔ نے اُن سے پُوچھا، ”جَب مَیں نے تُمہیں بٹوے، تھیلی اَور جُوتوں کے بغیر بھیجا تھا تو کیا تُم کسی چیز کے مُحتاج ہویٔے تھے؟“ \p اُنہُوں نے کہا، ”کسی چیز کے نہیں۔“ \p \v 36 آپ نے اُن سے فرمایا، ”مگر اَب جِس کے پاس بٹوا ہو وہ اُسے ساتھ رکھ لے اَور اِسی طرح تھیلی بھی اَور جِس کے پاس تلوار نہ ہو وہ اَپنے کپڑے بیچ کر تلوار خرید لے۔ \v 37 کیونکہ کِتاب مُقدّس میں لِکھّا ہے: ’اُسے بدکاروں کے ساتھ شُمار کیا گیا‘\f + \fr 22‏:37 \fr*\ft \+xt یَشع 53‏:12‏\+xt*‏\ft*\f* اَور مَیں تُم کو بتاتا ہُوں کہ یہ بات میرے حق میں پُورا ہونا لازمی ہے۔ ہاں، جو کُچھ میرے بارے میں لِکھّا ہُواہے وہ پُورا ہونا ہی ہے۔“ \p \v 38 شاگردوں نے کہا، ”اَے خُداوؔند، دیکھئے، یہاں دو تلواریں ہیں۔“ \p آپ نے اُن سے فرمایا، ”بہت ہیں۔“ \s1 کوہِ زَیتُون پر حُضُور یِسوعؔ کی دعا \p \v 39 پھر یِسوعؔ باہر نکلے اَور جَیسا آپ کا دستور تھا کوہِ زَیتُون پر گیٔے، اَور آپ کے شاگرد بھی پیچھے ہو لیٔے۔ \v 40 اُس جگہ پہُنچ کر آپ نے اُن سے فرمایا، ”دعا کرو تاکہ تُم آزمائش میں نہ پڑو۔“ \v 41 پھر یِسوعؔ اُنہیں چھوڑکر کُچھ آگے چلےگئے، تقریباً اِتنے فاصلہ پر جِتنی دُوری تک پتّھر پھینکا جا سَکتا ہے۔ وہاں وہ جُھک کر یُوں دعا کرنے لگے، \v 42 ”اَے باپ، اگر آپ کی مرضی ہو؛ تو اِس پیالہ کو میرے سامنے سے ہٹا لیں لیکن پھر بھی میری مرضی نہیں بَلکہ آپ کی مرضی پُوری ہو۔“ \v 43 اَور آسمان سے ایک فرشتہ اُن پر ظاہر ہُوا جو اُنہیں تقویّت دیتا تھا۔ \v 44 پھر وہ سخت درد و کرب میں مُبتلا ہوکر اَور بھی دِل سوزی سے دعا کرنے لگے اَور اُن کا پسیِنہ خُون کی بُوندوں کی مانِند زمین پر ٹپکنے لگا۔\f + \fr 22‏:43‏،44 \fr*\ft کیٔی نوشتوں میں 43‏،44 آیت پائی نہیں جاتی ہے۔‏\ft*\f* \p \v 45 جَب وہ دعا سے فارغ ہوکر کھڑے ہویٔے، اَور شاگردوں کے پاس واپس آئے، تو اُنہیں اُداسی کے سبب، سوتے پایا۔ \v 46 اَور اُن سے پُوچھا، ”تُم کیوں سو رہے؟ اُٹھ کر دعا کرو تاکہ تُم آزمائش میں نہ پڑو۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ کی گِرفتاری \p \v 47 ابھی یِسوعؔ یہ بات کہہ ہی رہے تھے کہ ایک ہُجوم پہُنچا، اَور اُن بَارہ میں سے ایک، جِس کا نام یہُوداہؔ تھا، اُن کے آگے آگے چلا آ رہاتھا۔ وہ یِسوعؔ کو بوسہ سے سلام کرنے کے لیٔے آگے آیا۔ \v 48 لیکن یِسوعؔ نے اُس سے کہا، ”یہُوداہؔ، کیا تو ایک بوسہ سے اِبن آدمؔ کو پکڑواتا ہے؟“ \p \v 49 جَب یِسوعؔ کے ساتھیوں نے یہ ماجرا دیکھا تو کہا، ”اَے خُداوؔند، کیا ہم تلوار چلائیں؟“ \v 50 اَور اُن میں سے ایک نے اعلیٰ کاہِن کے خادِم پر تلوار چلا کر، اُس کا داہنا کان اُڑا دیا۔ \p \v 51 ”بس کرو! بہت ہو چُکا!“ اِس پر یِسوعؔ نے کہا، اَور آپ نے اُس کے کان کو چھُو کر اَچھّا کر دیا۔ \p \v 52 تَب یِسوعؔ نے اہم کاہِنوں، بیت المُقدّس کے سپاہیوں، اَور بُزرگوں سے جو آپ کو گِرفتار کرنے آئےتھے، سے کہا، ”کیا تُم تلواریں اَور لاٹھیاں لے کر کسی بغاوت کرنے والے کو پکڑنے نکلے ہو؟ \v 53 جَب مَیں ہر روز بیت المُقدّس کے صحنوں میں تمہارے ساتھ ہوتا تھا، تو تُم نے مُجھ پر ہاتھ نہ ڈالا لیکن یہ تمہارے اَور تاریکی کے اِختیار کا وقت ہے۔“ \s1 پطرس کا اِنکار کرنا \p \v 54 تَب اُنہُوں نے یِسوعؔ کو گِرفتار کر لیا اَور اُنہیں وہاں سے اعلیٰ کاہِن کے گھر میں لے گیٔے۔ پطرس بھی کُچھ فاصلہ پر رہ کر اُن کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ \v 55 اَور جَب کُچھ لوگ صحن کے بیچ میں آگ جَلا کر ایک ساتھ بیٹھے ہویٔے تھے تو پطرس بھی اُن کے ساتھ بیٹھ گیا۔ \v 56 اَور ایک لونڈی نے اُسے آگ کے پاس بیٹھا دیکھ کر پطرس کو پہچانتے ہویٔے کہا، ”کہ یہ آدمی بھی یِسوعؔ کے ساتھ تھا۔“ \p \v 57 مگر پطرس نے اِنکار کرکے کہا، ”اَے عورت میں اُسے نہیں جانتا۔“ \p \v 58 تھوڑی دیر بعد کسی اَور نے اُسے دیکھ کر کہا، ”تُو بھی اُن ہی میں سے ایک ہے۔“ \p پطرس نے کہا، ”نہیں بھایٔی، میں نہیں ہُوں!“ \p \v 59 تقریباً ایک گھنٹہ بعد کسی اَور نے بڑے یقین سے کہا، ”یہ آدمی بِلا شک اُن کے ساتھ تھا، کیونکہ یہ بھی تو گلِیلی ہے۔“ \p \v 60 لیکن پطرس نے کہا، ”جَناب، میں نہیں جانتا کہ تُم کیا بول رہے ہو!“ وہ ابھی کہہ ہی رہاتھا کہ مُرغ نے بانگ دے دی۔ \v 61 اَور خُداوؔند نے مُڑ کر پطرس کو سیدھے دیکھا اَور پطرس کو خُداوؔند کی وہ بات یاد آئی جو آپ نے پطرس سے کہی تھی: ”آج مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے، تُو تین بار میرا اِنکار کرےگا۔“ \v 62 اَور وہ باہر جا کر زار زار رُویا۔ \s1 سپاہی حُضُور یِسوعؔ کی ہنسی اُڑاتے ہیں \p \v 63 جو آدمی یِسوعؔ کو اَپنے قبضہ میں لیٔے ہُوئے تھے، آپ کی ہنسی اُڑانے اَور پیٹنے لگے۔ \v 64 اُنہُوں نے آپ کی آنکھوں پر پٹّی باندھ کر پُوچھا، ”نبُوّت کر! کہ تُجھے کِس نے مارا؟“ \v 65 اَور اُنہُوں نے آپ کو بہت سِی گالِیاں بھی دیں۔ \s1 حُضُور یِسوعؔ کی عدالتِ عالیہ میں پیشی \p \v 66 صُبح ہوتے ہی قوم کے بُزرگوں، اہم کاہِنوں اَور شَریعت کے عالِموں نے جمع ہوکر یِسوعؔ کو اَپنی عدالتِ عالیہ میں پیش کیا اَور \v 67 کہنے لگے، ”اگر آپ المسیح ہیں تو ہم سے کہہ دیں۔“ \p آپ نے اُن سے کہا، ”اگر مَیں تُم سے کہہ بھی دُوں تَب بھی تُم ایمان نہ لاؤگے۔ \v 68 اَور اگر تُم سے پُوچھوں، تو تُم جَواب نہیں دوگے۔ \v 69 لیکن اَب سے اِبن آدمؔ قادرمُطلق خُدا کی داہنی طرف بیٹھا رہے گا۔“ \p \v 70 اِس پر وہ سَب بول اُٹھے، ”کہ کیا آپ ہی خُدا کے بیٹے ہیں؟“ \p یِسوعؔ نے جَواب دیا کہ تُم خُود کہتے ہو کہ میں ہُوں۔ \p \v 71 اُنہُوں نے کہا، ”اَب ہمیں اَور گواہی کی کیا ضروُرت ہے؟ کیونکہ ہم نے اُسی کے مُنہ سے اِس بات کو سُن لیا ہے۔“ \c 23 \p \v 1 تَب پُوری مَجلِس اُٹھی اَور یِسوعؔ کو پِیلاطُسؔ کے پاس لے گئی۔ \v 2 اَور آپ پر یہ کہہ کر اِلزام لگانے لگے، ”کہ ہم نے اِسے ہماری قوم کو بہکاتے پایا ہے وہ قَیصؔر کو محصُول اَدا کرنے سے منع کرتا ہے اَور دعویٰ کرتا ہے کہ میں المسیح، اَور ایک بادشاہ ہُوں۔“ \p \v 3 تَب پِیلاطُسؔ نے یِسوعؔ سے پُوچھا، ”کیا آپ یہُودیوں کے بادشاہ ہیں؟“ \p یِسوعؔ نے اُسے جَواب دیا، ”تُم نے خُود ہی کہہ دیا۔“ \p \v 4 پِیلاطُسؔ نے اہم کاہِنوں اَور عوام سے کہا، ”میں اِس شخص میں کویٔی قُصُور نہیں پاتا۔“ \p \v 5 لیکن وہ اِصرار کرکے کہنے لگے، ”وہ پُورے یہُودیؔہ میں گلِیل سے لے کر یہاں تک لوگوں کو اَپنی تعلیم سے اُکساتا ہے۔“ \p \v 6 جَب پِیلاطُسؔ نے یہ سُنا تو اُس نے پُوچھا، کیا یہ آدمی گلِیلی ہے؟ \v 7 اَور جُوں ہی اُسے مَعلُوم ہُوا کہ وہ ہیرودیسؔ کی عملداری کا ہے، اُسے ہیرودیسؔ کے پاس بھیج دیا جو اُن دِنوں خُود بھی یروشلیمؔ میں تھا۔ \p \v 8 جَب ہیرودیسؔ نے یِسوعؔ کو دیکھا، تو نہایت خُوش ہُوا، اِس لیٔے کہ اُسے ایک عرصے سے یِسوعؔ کو دیکھنے کی خواہش تھی۔ اَور اُس نے آپ کے بارے میں بہت سِی باتیں سُن رکھی تھیں، اَور اُسے اُمّید تھی کہ وہ یِسوعؔ کا کویٔی معجزہ بھی دیکھ سکےگا۔ \v 9 اُس نے یِسوعؔ سے بہت کُچھ پُوچھا، لیکن یِسوعؔ نے اُسے کویٔی جَواب نہ دیا۔ \v 10 اَور اہم کاہِن اَور شَریعت کے عالِم وہاں کھڑے ہوکر، بڑی سختی سے آپ پر اِلزام لگا رہے تھے۔ \v 11 تَب ہیرودیسؔ اَور اُس کے سپاہیوں نے ساتھ مِل کر یِسوعؔ کی بے عزّتی کی اَور ہنسی اُڑائی۔ پھر ایک چمکدار لباس پہناکر آپ کو پِیلاطُسؔ کے پاس واپس بھیج دیا۔ \v 12 اُسی دِن پِیلاطُسؔ اَور ہیرودیسؔ ایک دُوسرے کے دوست بَن گیٔے حالانکہ اِس سے پہلے اُن میں دُشمنی تھی۔ \p \v 13 تَب پِیلاطُسؔ نے اہم کاہِنوں، حاکموں اَور عوام کو جمع کیا \v 14 اَور اُن سے کہا، ”تُم اِس شخص کو میرے پاس یہ کہتے ہویٔے لایٔے کہ یہ لوگوں کو بغاوت کرنے کے لیٔے بہکاتا ہے۔ مَیں نے خُود بھی تمہارے سامنے اُس سے بازپُرس کی مگر جِس جُرم کا اِلزام تُم اُس پر لگاتے ہو، مَیں نے اُسے قُصُوروار نہیں پایا ہے۔ \v 15 اَور نہ ہی ہیرودیسؔ نے، کیوں کہ اُس نے اُسے ہمارے پاس واپس بھیج دیا۔ دیکھو، اِس نے کویٔی اَیسا کام نہیں کیا ہے جو اِسے قتل کے لائق ٹھہرائے۔ \v 16 لہٰذا، میں اِسے پِٹوا کر چھوڑ دُوں گا۔“ \v 17 اُسے لازِم تھا کہ عید کے موقع پر مُجرموں میں سے کسی ایک کو اُن کی خاطِر رِہا کر دے۔\f + \fr 23‏:17 \fr*\ft کُچھ نوشتوں میں دئیے گیٔے حوالہ جَیسی آیت پائی جاتی ہے۔ \+xt مت 27‏:15‏\+xt* اَور \+xt مرقُ 15‏:6‏\+xt*‏\ft*\f* \p \v 18 لیکن پُوری عوام ایک آواز میں چِلّانے لگی، ”کہ اِس آدمی کو مار ڈالو! ہماری خاطِر بَراَبّؔا کو رِہا کر دے!“ \v 19 (بَراَبّؔا شہر میں بغاوت، اَور خُون کے اِلزام میں قَید کیا گیا تھا۔) \p \v 20 پِیلاطُسؔ نے یِسوعؔ کو رِہا کرنے کے اِرادہ سے، اُن سے دوبارہ پُوچھا۔ \v 21 لیکن وہ چِلّانے لگے، ”کہ اِسے مصلُوب کرو! اِسے مصلُوب کرو!“ \p \v 22 تَب اُس نے اُن سے تیسری بار پُوچھا: ”کیوں؟ آخِر اِس نے کون سا جُرم کیا ہے؟ مَیں نے اِس میں اَیسا کویٔی قُصُور نہیں پایا کہ وہ سزائے موت کا مُستحق ہو۔ اِس لیٔے میں اِسے پِٹوا کر چھوڑ دیتا ہُوں۔“ \p \v 23 لیکن وہ چِلّا چِلّاکر مطالبہ کرنے لگے کہ وہ مصلُوب کیا جائے اَور اُن کا چِلّانا کارگر ثابت ہُوا۔ \v 24 پس پِیلاطُسؔ نے اُن کی درخواست کے مُطابق موت کا حُکم صادر کر دیا۔ \v 25 اَورجو آدمی بغاوت اَور خُون کے جُرم میں قَید میں تھا جِس کی رِہائی اُنہُوں نے ماںگی تھی، اُسے چھوڑ دیا گیا، اَور یِسوعؔ کو اُن کی مرضی کے مُوافق اُن کے حوالے کر دیا۔ \s1 حُضُور یِسوعؔ کا مصلُوب ہونا \p \v 26 جَب فَوجی یِسوعؔ کو لیٔے جا رہے تھے، تو اُنہُوں نے شمعُونؔ کُرینی کو جو اَپنے گاؤں سے آ رہاتھا پکڑ لیا، اَور صلیب اُس پر رکھ دی تاکہ وہ اُسے اُٹھاکر یِسوعؔ کے پیچھے پیچھے لے چلے۔ \v 27 لوگوں کا ایک بڑا ہُجوم آپ کے پیچھے ہو لیا، اَور ہُجوم میں کیٔی عورتیں بھی تھیں جو آپ کے لیٔے نوحہ اَور ماتم کر رہی تھیں۔ \v 28 یِسوعؔ نے مُڑ کر اُن سے کہا، ”اَے یروشلیمؔ کی بیٹیوں! میرے لیٔے مت روؤ؛ بَلکہ اَپنے لیٔے اَور اَپنے بچّوں کے لیٔے روؤ۔ \v 29 کیونکہ وہ دِن آنے والے ہیں جَب تُم یہ کہوگی، ’وہ بانجھ عورتیں مُبارک ہیں جِن کے رحم بچّوں سے خالی رہے، اَور جِن کی چھاتِیوں نے دُودھ نہیں پِلایا!‘ \v 30 تَب \q1 ” ’وہ پہاڑوں سے کہیں گے، ”ہم پر گِر پڑو!“ \q2 اَور ٹیلوں سے، ”کہ ہمیں چھُپا لو!“ ‘\f + \fr 23‏:30 \fr*\ft \+xt ہوش 10‏:8‏\+xt*‏\ft*\f* \m \v 31 کیونکہ، جَب لوگ ہرے درخت کے ساتھ اَیسا سلُوک کرتے ہیں، تو پھر سُوکھنے درخت کے ساتھ کیا کریں گے؟“ \p \v 32 دو اَور مُجرم آدمی بھی تھے جنہیں یِسوعؔ کے ساتھ لے جایا جا رہاتھا، تاکہ اُنہیں بھی قتل کیا جائے۔ \v 33 جَب وہ سَب کھوپڑی نامی جگہ پر پہُنچے، تو وہاں اُنہُوں نے یِسوعؔ کو دو مُجرموں کے درمیان ایک کو آپ کے داہنی طرف، اَور دُوسرے کو بائیں طرف مصلُوب کیا۔ \v 34 یِسوعؔ نے دعا کی، ”اَے باپ، اِنہیں مُعاف کر، کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ کیا کر رہے ہیں۔\f + \fr 23‏:34 \fr*\fq اَے باپ، اِنہیں مُعاف کر، کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ کیا کر رہے ہیں \fq*\ft کُچھ قدیم نوشتوں میں یہ جُملہ نہیں پایا جاتا ہے۔‏\ft*\f*“ اَور اُنہُوں نے آپ کے کپڑوں پر قُرعہ ڈال کر آپَس میں تقسیم کر لیا۔ \p \v 35 لوگ کھڑے کھڑے یہ سَب کُچھ دیکھ رہے تھے اَور رہنما لوگ بھی حُضُور پر طَعنہ کستے تھے اَور کہتے تھے، ”اِس نے اَوروں کو بچایا؛ اگر یہ خُدا کا المسیح، جو برگُزیدہ ہے تو اَپنے آپ کو بچالے۔“ \p \v 36 سپاہیوں نے بھی آکر آپ کی ہنسی اُڑائی اَور پینے کے لیٔے آپ کو سِرکہ دیا۔ \v 37 اَور کہا، ”اگر تو یہُودیوں کا بادشاہ ہے، تو اَپنے آپ کو بچالے۔“ \p \v 38 حُضُور کے سَر کے اُوپر ایک نوشتہ بھی لگایا گیا تھا کہ یہ: \pc یہُودیوں کا بادشاہ ہے۔ \p \v 39 دو مُجرم جو مصلُوب کیٔے گیٔے تھے، اُن میں سے ایک نے یِسوعؔ کو لَعن طَعن کرتے ہویٔے کہا: ”اگر تو المسیح ہے؟ تُو اَپنے آپ کو اَور ہمیں بچا!“ \p \v 40 لیکن دُوسرے نے اُسے ڈانٹا اَور کہا، ”کیا تُجھے خُدا کا خوف نہیں حالانکہ تو خُود بھی وُہی سزا پا رہاہے! \v 41 ہم تو اَپنے جرائم کی وجہ سے سزا پا رہے ہیں، اَور ہمارا قتل کیاجانا واجِب ہے لیکن اِس اِنسان نے کویٔی غلط کام نہیں کیا ہے۔“ \p \v 42 تَب اُس نے کہا، ”اَے یِسوعؔ! جَب آپ اَپنی بادشاہی میں آئیں تو مُجھے یاد کرنا۔“ \p \v 43 یِسوعؔ نے اُسے جَواب دیا، ”مَیں تُجھے یقین دِلاتا ہُوں کہ تو آج ہی میرے ساتھ فِردَوس میں ہوگا۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ کی موت \p \v 44 تقریباً دوپہر کا وقت تھا، کہ چاروں طرف اَندھیرا چھا گیا اَور تین بجے تک پُورے مُلک کی یہی حالت رہی۔ \v 45 سُورج تاریک ہو گیا اَور بیت المُقدّس کا پردہ پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا \v 46 اَور یِسوعؔ نے زور سے چِلّاکر کہا، ”اَے باپ! میں اَپنی جان آپ کے ہاتھوں میں سونپتا ہُوں“\f + \fr 23‏:46 \fr*\ft \+xt زبُور 31‏:5‏\+xt*‏\ft*\f* اَور یہ کہہ کر دَم توڑ دیا۔ \p \v 47 جَب فَوجی افسر نے یہ ماجرا دیکھا، تو خُدا کی تمجید کرتے ہویٔے کہا، ”یہ شخص واقعی راستباز تھا۔“ \v 48 اَور سارے لوگ جو وہاں جمع تھے یہ منظر دیکھ کر، سینہ کُوبی کرتے ہُوئے لَوٹ گیٔے۔ \v 49 لیکن یِسوعؔ کے سارے جان پہچان والے اَور وہ عورتیں جو گلِیل سے آپ کے پیچھے پیچھے آئی تھیں، کُچھ فاصلہ پر کھڑی یہ سَب دیکھ رہی تھیں۔ \s1 حُضُور یِسوعؔ کی تدفین \p \v 50 یُوسیفؔ نام کا ایک آدمی تھا، وہ یہُودیوں کی عدالتِ عالیہ کا ایک رُکن تھا اَور بڑا نیک اَور راستباز تھا، \v 51 وہ عدالتِ عالیہ کے اراکین کے فیصلہ اَور عَمل کے حق میں نہ تھا۔ وہ یہُودیوں کے شہر ارِمَتِیاؔہ کا باشِندہ تھا، اَور خُدا کی بادشاہی کا مُنتظر تھا۔ \v 52 اُس نے پِیلاطُسؔ کے پاس جا کر یِسوعؔ کی لاش مانگی۔ \v 53 اَور لاش کو صلیب پر سے اُتار کر مہین سُوتی چادر میں کفنایا، اَور اُسے ایک قبر میں رکھ دیا، جو چٹّان میں کھودی گئی تھی، جِس میں کبھی کسی کو دفنایا نہیں گیا تھا۔ \v 54 وہ تیّاری کا دِن تھا، اَور سَبت کا دِن شروع ہونے ہی والا تھا۔ \p \v 55 وہ عورتیں جو گلِیل سے یِسوعؔ کے ساتھ آئی تھیں، یُوسیفؔ کے پیچھے پیچھے گئیں اَور اُنہُوں نے اُس قبر کو اَور یِسوعؔ کی لاش کو دیکھا کہ کس طرح اُس میں رکھا گیا ہے۔ \v 56 تَب وہ گھر لَوٹ گئیں اَور اُنہُوں نے خُوشبودار مَسالے اَور عِطر تیّار کیا اَور شَریعت کے حُکم کے مُطابق سَبت کے دِن آرام کیا۔ \c 24 \s1 حُضُور یِسوعؔ کا جی اٹھنا \p \v 1 ہفتہ کے پہلے دِن یعنی اتوار، کے صُبح سویرے، بعض عورتیں خُوشبودار مَسالے جو اُنہُوں نے تیّار کیٔے تھے، اَپنے ساتھ لے کر قبر پر آئیں۔ \v 2 لیکن اُنہُوں نے پتّھر کو قبر کے مُنہ سے لُڑھکا ہُوا پایا، \v 3 لیکن جَب وہ اَندر گئیں تو اُنہیں خُداوؔند یِسوعؔ کی لاش نہ مِلی۔ \v 4 جَب وہ اِس بارے میں حیرت میں مُبتلا تھیں تو اَچانک دو شخص بجلی کی طرح چمکدار لباس میں اُن کے پاس آ کھڑے ہُوئے۔ \v 5 وہ خوفزدہ ہو گئیں اَور اَپنے سَر زمین کی طرف جھُکا دئیے، لیکن اُنہُوں نے اُن سے کہا، ”تُم زندہ کو مُردوں میں کیوں ڈھونڈتی ہو؟ \v 6 یِسوعؔ یہاں نہیں ہیں؛ بَلکہ وہ جی اُٹھے ہیں! تُمہیں یاد نہیں، کہ جَب وہ گلِیل میں تمہارے ساتھ تھے تو اُنہُوں نے تُم سے کہاتھا: \v 7 ’اِبن آدمؔ کو گُنہگاروں کے حوالہ کیاجانا، صلیب پر مصلُوب ہونا اَور تیسرے دِن پھر سے جی اُٹھنا ضروُری ہے۔‘ “ \v 8 تَب اُنہیں یِسوعؔ کی باتیں یاد آئیں۔ \p \v 9 جَب وہ خواتین قبر سے واپس آئیں، تو گیارہ رسولوں اَور باقی سَب شاگردوں کو ساری باتیں بَیان کر دیں۔ \v 10 مریمؔ مَگدلِینیؔ، یوأنّہؔ، اَور یعقوب کی ماں مریمؔ، اَور اُن کے ساتھ کیٔی دُوسری عورتیں تھیں، جنہوں نے رسولوں کو اِن باتوں کی خبر دی تھی۔ \v 11 لیکن اُنہُوں نے عورتوں کا یقین نہ کیا، کیونکہ اُن کی باتیں اُنہیں فُضول سِی لگیں۔ \v 12 مگر پطرس اُٹھے، اَور قبر کی طرف دَوڑے۔ وہاں پطرس نے جُھک کر اَندر دیکھا، تو اُنہیں صِرف خالی کفن کے کپڑے پڑے ہُوئے نظر آئے، اَور وہ تعجُّب کرتے ہُوئے کہ کیا ہو گیا ہے، وہاں سے چلےگئے۔ \s1 اِماؤسؔ کی راہ پر \p \v 13 پھر اَیسا ہُوا کہ اُن میں سے دو شاگرد اُسی دِن اِماؤسؔ نام کے ایک گاؤں کی طرف جا رہے تھے جو یروشلیمؔ سے گیارہ کِلو مِیٹر کی دُوری پر تھا \v 14 وہ آپَس میں اُن واقعات کے بارے میں باتیں کرتے جا رہے تھے جو ہویٔیں تھیں۔ \v 15 جَب وہ باتوں میں مشغُول تھے اَور آپَس میں بحث کر رہے تھے، تو یِسوعؔ خُود ہی نزدیک آکر اُن کے ساتھ ساتھ چلنے لگے؛ \v 16 لیکن وہ حُضُور کو پہچان نہ پایٔے کیونکہ اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہُوا تھا۔ \p \v 17 یِسوعؔ نے اُن سے پُوچھا، ”تُم لوگ آپَس میں کیا بحث کرتے ہویٔے جا رہے ہو؟“ \p وہ یہ سُن کر خاموش مایوس سا چہرا لٹکایٔے کھڑے ہو گیٔے۔ \v 18 تَب اُن میں سے ایک جِس کا نام کِلیُپاسؔ تھا، آپ سے پُوچھا، ”کیا یروشلیمؔ میں اکیلا تُو ہی اجنبی ہے جو یہ بھی نہیں جانتا کہ اِن دِنوں شہر میں کیا کیا ہُواہے؟“ \p \v 19 آپ نے اُن سے پُوچھا، ”کیا ہُواہے؟“ \p اُنہُوں نے جَواب دیا، ”یِسوعؔ ناصری کا واقعہ، وہ ایک نبی تھے۔ جنہیں کام اَور کلام کے باعث خُدا کی نظر میں اَور سارے لوگوں کے نزدیک بڑی قُدرت حاصل تھی۔ \v 20 اَور ہمارے اہم کاہِنوں اَور حاکموں نے حُضُور کو قتل کرنے کا فرمان جاری کرایا، اَور حُضُور کو صلیب پر مصلُوب کر دیا؛ \v 21 لیکن ہمیں تُو یہ اُمّید تھی کہ یہی وہ شخص ہے جو اِسرائیلؔ کو مخلصی عطا کرنے والا ہے اَور اِس کے علاوہ اِن واقعات کو ہُوئے آج تیسرا دِن ہے۔ \v 22 اِس کے علاوہ، ہمارے گِروہ کی چند عورتوں نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا ہے جو آج صُبح سویرے اُن کی قبر پر گئی تھیں، \v 23 لیکن اُنہیں یِسوعؔ کی لاش نہ مِلی۔ اُنہُوں نے لَوٹ کر ہمیں بتایا کہ اُنہُوں نے فرشتوں کو دیکھا اَور فرشتوں نے اُنہیں بتایا کہ یِسوعؔ زندہ ہو گئے ہیں۔ \v 24 تَب ہمارے بعض ساتھی بھی قبر پر گیٔے اَور جَیسا عورتوں نے کہاتھا اُسے وَیسا ہی پایا۔ لیکن اُنہُوں نے بھی یِسوعؔ کو نہیں دیکھا۔“ \p \v 25 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”تُم کتنے نادان، اَور نبیوں کی بتایٔی ہویٔی باتوں کو یقین کرنے میں کتنے سُست ہو! \v 26 کیا المسیح کے لیٔے ضروُری نہ تھا کہ وہ اَذیتّوں کو برداشت کرتا اَور پھر اَپنے جلال میں داخل ہوتا؟“ \v 27 اَور آپ نے حضرت مَوشہ سے لے کر سارے نبیوں کی باتیں جو آپ کے بارے میں کِتاب مُقدّس میں درج تھیں، اُنہیں سمجھا دیں۔ \p \v 28 اِتنے میں وہ اُس گاؤں کے نزدیک پہُنچے جہاں اُنہیں جانا تھا، لیکن یِسوعؔ کے چلنے کے ڈھنگ سے اَیسا مَعلُوم ہُوا گویا وہ اَور آگے جانا چاہتے ہیں۔ \v 29 لیکن اُنہُوں نے حُضُور کو یہ کہہ کر مجبُور کیا، ”کہ ہمارے پاس رُک جایٔیں، کیونکہ دِن تقریباً ڈھل چُکاہے؛ اَور شام ہونے والی ہے؛ پس وہ اُن کے ساتھ ٹھہرنے کے لیٔے اَندر چلے گیٔے۔“ \p \v 30 جَب وہ اُن کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھے، تو آپ نے روٹی لی، اَور شُکر کرکے توڑا، اَور اُنہیں دینے لگے۔ \v 31 تَب اُن کی آنکھیں کھُل گئیں اَور اُنہُوں نے حُضُور کو پہچان لیا، اَور یِسوعؔ اُن کی نظروں سے غائب ہو گیٔے۔ \v 32 اُنہُوں نے آپَس میں کہا، ”کیا ہمارے دِل جوش سے نہیں بھر گیٔے تھے جَب وہ راستے میں ہم سے باتیں کر رہے تھے اَور ہمیں کِتاب مُقدّس سے باتیں سمجھا رہے تھے۔“ \p \v 33 تَب وہ اُسی گھڑی اُٹھے اَور یروشلیمؔ واپس آئے۔ جہاں اُنہُوں نے گیارہ رسولوں اَور اُن کے ساتھیوں کو ایک جگہ اِکٹھّے پایا، \v 34 وہ کہہ رہے تھے، ”خُداوؔند سچ مُچ مُردوں میں سے جی اُٹھے ہیں! اَور شمعُونؔ کو دِکھائی دئیے ہیں۔“ \v 35 تَب اُن دونوں نے راستے کی ساری باتیں بَیان کیں، اَور یہ بھی کہ اُنہُوں نے کس طرح یِسوعؔ کو روٹی توڑتے وقت پہچانا تھا۔ \s1 خُداوؔند کا شاگردوں پر ظاہر ہونا \p \v 36 ابھی وہ یہ باتیں کہہ ہی رہے تھے، کہ یِسوعؔ خُود ہی اُن کے درمیان آ کھڑے ہویٔے اَور اُن سے فرمایا، ”تمہاری سلامتی ہو۔“ \p \v 37 لیکن وہ اِس قدر ہِراساں اَور خوفزدہ ہو گئے، کہ سمجھنے لگے کہ کسی رُوح کو دیکھ رہے ہیں۔ \v 38 یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”تُم کیوں گھبرائے ہویٔے ہو اَور تمہارے دِلوں میں شک کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ \v 39 میرے ہاتھ اَور پاؤں دیکھو، مَیں ہی ہُوں! مُجھے چھُو کر دیکھو؛ کیونکہ رُوح کی ہڈّیاں اَور گوشت نہیں ہوتی ہیں، جَیسا تُم مُجھ میں دیکھ رہے ہو۔“ \p \v 40 یہ کہنے کے بعد، آپ نے اُنہیں اَپنے ہاتھ اَور پاؤں دِکھائے۔ \v 41 لیکن خُوشی اَور حیرت کے مارے جَب اُنہیں یقین نہیں آ رہاتھا، لہٰذا یِسوعؔ نے اُن سے کہا، ”کیا یہاں تمہارے پاس کُچھ کھانے کو ہے؟“ \v 42 اُنہُوں نے حُضُور کو بھُنی ہویٔی مچھلی کا قتلہ پیش کیا، \v 43 اَور آپ نے اُسے لیا اَور اُن کے سامنے کھایا۔ \p \v 44 پھر آپ نے اُن سے کہا، ”جَب مَیں تمہارے ساتھ تھا تو مَیں نے تُمہیں یہ باتیں بتایٔی تھیں: کہ حضرت مَوشہ کی توریت، نبیوں کی کِتابوں اَور زبُور میں میرے بارے میں جو کُچھ لِکھّا ہے وہ سَب ضروُر پُورا ہوگا۔“ \p \v 45 تَب آپ نے اُن کا ذہن کھولا تاکہ وہ کِتاب مُقدّس کو سمجھ سکیں۔ \v 46 اَور اُن سے کہا، ”یُوں لِکھّا ہے: کہ المسیح دُکھ اُٹھائے گا اَور تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا، \v 47 اَور میرے نام سے یروشلیمؔ سے شروع کرکے تمام قوموں میں، گُناہوں کی مُعافی کے لیٔے تَوبہ کرنے کی مُنادی کی جائے گی۔ \v 48 تُم اِن باتوں کے گواہ ہو۔ \v 49 میرے باپ نے جِس کا وعدہ کیا ہے میں اُسے تُم پر نازل کروں گا؛ لیکن جَب تک تُمہیں آسمان سے قُوّت کا لباس عطا نہ ہو اِسی شہر میں ٹھہرے رہنا۔“ \s1 حُضُور یِسوعؔ کا اُوپر اُٹھایا جانا \p \v 50 پھر یِسوعؔ اُنہیں بیت عنیّاہ تک باہر لے گیٔے، اَور اَپنے ہاتھ اُٹھاکر اُنہیں برکت بخشی۔ \v 51 جَب وہ اُنہیں برکت دے رہے تھے، تو اُن سے جُدا ہو گیٔے اَور آسمان میں اُوپر اُٹھا لیٔے گیٔے۔ \v 52 شاگردوں نے حُضُور کو سَجدہ کیا اَور پھر بڑی خُوشی کے ساتھ یروشلیمؔ لَوٹ گیٔے۔ \v 53 اَور وہ بیت المُقدّس میں لگاتار حاضِر ہوکر، خُدا کی حَمد کیا کرتے تھے۔