\id 2SA - Biblica® Open Urdu Contemporary Version \usfm 3.0 \ide UTF-8 \h 2 شموایلؔ \toc1 دُوسرا شموایلؔ کی کِتاب \toc2 2 شموایلؔ \toc3 2 سمو \mt1 دُوسرا شموایلؔ \mt2 کی کِتاب \c 1 \s1 داویؔد کا شاؤل کی موت کی خبر سُننا \p \v 1 شاؤل کی موت کے بعد جَب داویؔد عمالیقیوں کو شِکست دے کر لَوٹا اَور صِقلاگ میں دو دِن ٹھہرا \v 2 تو تیسرے دِن شاؤل کی چھاؤنی سے ایک آدمی آیا جِس کے کپڑے پھٹے ہُوئے تھے اَور اَپنے سَر پر خاک ڈالی ہُوئی تھی۔ جَب وہ داویؔد کے پاس پہُنچا تو اُس کی تعظیم کرنے کے لیٔے زمین پر سَجدہ کیا۔ \p \v 3 داویؔد نے اُس سے پُوچھا، ”تُم کہاں سے آئے ہو؟“ \p اُس نے جَواب دیا، ”مَیں اِسرائیلیوں کی چھاؤنی سے بچ کر آیا ہُوں۔“ \p \v 4 داویؔد نے پُوچھا، ”بتاؤ، کیا بات ہے؟“ \p اُس نے کہا ”لوگ جنگ میں سے بھاگ گیٔے اَور اُن میں سے بہت سے گِرے اَور مَر گیٔے اَور شاؤل اَور اُس کا بیٹا یُوناتانؔ بھی ہلاک ہو چُکے۔“ \p \v 5 تَب داویؔد نے اُس جَوان سے جو اُس کے پاس خبر لایاتھا کہا، ”تُجھے کیسے مَعلُوم ہُوا کہ شاؤل اَور اُس کا بیٹا یُوناتانؔ دونوں ہلاک ہو چُکے ہیں؟“ \p \v 6 اُس جَوان نے کہا، ”میں اِتّفاقاً کوہِ گِلبوعہؔ پر پہُنچ گیا تھا، وہاں شاؤل اَپنے نیزہ پرجھکا ہُوا تھا اَور رتھ اَور سوار اُس کا پیچھا کرتے چلے آ رہے تھے۔ \v 7 اَور جَب اُس نے مُڑ کر مُجھے دیکھا تو آواز دی۔ مَیں نے کہا، ’مَیں کیا کر سَکتا ہُوں؟‘ \p \v 8 ”اُس نے پُوچھا، ’تُم کون ہو؟‘ \p ”مَیں نے جَواب دیا: ’مَیں ایک عمالیقی ہُوں۔‘ \p \v 9 ”تَب اُس نے مُجھ سے کہا، ’میرے نزدیک آ اَور مُجھے قتل کر دے کیونکہ مَیں موت کے عذاب میں گِرفتار ہُوں لیکن ابھی زندہ ہُوں۔‘ \p \v 10 ”اِس لیٔے مَیں نے اُس کے نزدیک جا کر اُسے قتل کر دیا کیونکہ مُجھے یقین تھا کہ گرنے کے بعد اُس کا بچنا مُشکل ہے۔ میں اُس کے سَر کا تاج اَور بازو کا کنگن یہاں اَپنے آقا کے آپ پاس لایا ہُوں۔“ \p \v 11 تَب داویؔد اَور اُس کے ساتھ کے سارے لوگوں نے اَپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ \v 12 اَور اُنہُوں نے شاؤل اَور اُس کے بیٹے یُوناتانؔ کے لیٔے اَور یَاہوِہ کی فَوج اَور اِسرائیل کے گھرانے کے لیٔے ماتم کیا اَور رُوئے اَور شام تک روزہ رکھا، اِس لیٔے کہ وہ تلوار سے مارے گیٔے تھے۔ \p \v 13 پھر داویؔد نے اُس جَوان سے جو یہ خبر لایاتھا پُوچھا، ”تو کہاں کا ہے؟“ \p اُس نے جَواب دیا، ”مَیں ایک پردیسی عمالیقی کا بیٹا ہُوں۔“ \p \v 14 تَب داویؔد نے اُس سے پُوچھا، ”تُم یَاہوِہ کے ممسوح کو ہلاک کرنے کے لیٔے اُس پر وار کرنے سے کیوں نہ ڈرا؟“ \p \v 15 تَب داویؔد نے اَپنے آدمیوں میں سے ایک کو بُلاکر کہا، ”جاؤ، اَور اُسے مار گراؤ۔“ پس اُس نے اُسے اَیسا مارا کہ وہ مَر گیا۔ \v 16 کیونکہ داویؔد نے اُسے کہاتھا، ”تیرا خُون تیرے ہی سَر ہو کیونکہ جَب تُم نے کہا، ’مَیں نے یَاہوِہ کے ممسوح کو قتل کر دیا تو تُم نے اَپنے ہی مُنہ سے اَپنے خِلاف گواہی دے دی۔‘ “ \s1 شاؤل اَور یُوناتانؔ کے لیٔے داویؔد کا مرثیہ \p \v 17 اَور داویؔد نے شاؤل اَور اُس کے بیٹے یُوناتانؔ پر یہ مرثیہ کہا، \v 18 اَور حُکم دیا کہ یہُوداہؔ کے لوگوں کو کمان کا یہ مرثیہ سِکھایا جائے (یہ یاشار کی کِتاب میں لِکھّا ہے): \q1 \v 19 ”اَے اِسرائیل! تیری ہی بُلندیوں پر تیرا فخر\f + \fr 1‏:19 \fr*\fq فخر \fq*\ft اصلی عِبرانی میں غزال درج ہے۔\ft*\f* دَم توڑ چُکاہے۔ \q2 ہائے وہ شہزور کیسے مارے گیٔے! \b \q1 \v 20 ”گاتؔھ میں اِس کا ذِکر نہ کرنا، \q2 اشقلونؔ کے کوچوں میں اِس کا اعلان نہ کرنا، \q1 کہیں اَیسا نہ ہو کہ فلسطینیوں کی بیٹیاں شادمان ہوں، \q2 اَور نامختونوں کی بیٹیاں خُوشیاں منائیں۔ \b \q1 \v 21 ”اَے گِلبوعہؔ کی پہاڑیو، \q2 تُم پر نہ تو شبنم گِرے، نہ بارش ہو، \q2 نہ فصلوں بھرے کھیت ہُوں۔ \q1 کیونکہ وہاں شہزوروں کی سِپر خاک آلُودہ پڑی ہے، \q2 یعنی شاؤل کی سِپر جِس پر اَب کویٔی تیل نہ ملے گا۔ \b \q1 \v 22 ”مقتولوں کے خُون، \q2 اَور شہزوروں کی چربی کے بغیر، \q1 یُوناتانؔ کی کمان کبھی واپس نہ ہُوئی، \q2 اَور شاؤل کی تلوار کبھی خالی نہ لَوٹی۔ \q1 \v 23 شاؤل اَور یُوناتانؔ \q2 زندگی بھر محبُوب اَور چہیتے بنے رہے، \q2 اَور موت کے بعد بھی جُدا نہ ہُوئے۔ \q1 وہ عُقابوں سے زِیادہ تیز، \q2 اَور شیروں سے زِیادہ طاقتور تھے۔ \b \q1 \v 24 ”اَے اِسرائیل کی بیٹیو، \q2 شاؤل کے لیٔے آنسُو بہاؤ، \q1 جِس نے تُمہیں شاندار اَور اَرغوانی کپڑے پہنائے، \q2 اَور جِس نے تمہارے لباس کو سونے کے زیورات سے آراستہ کیا۔ \b \q1 \v 25 ”ہائے وہ شہزور جنگ کے دَوران کیسے مارے گیٔے! \q2 یُوناتانؔ تیری بُلندیوں پر قتل ہُوا۔ \q1 \v 26 مَیں تیرے لیٔے رنجیدہ ہُوں، اَے میرے بھایٔی یُوناتانؔ! \q2 تُو مُجھے بہت عزیز تھا۔ \q1 میرے لیٔے تیری مَحَبّت عجِیب تھی، \q2 عورتوں کی مَحَبّت سے بھی زِیادہ عجِیب۔ \b \q1 \v 27 ”وہ شہزور کیسے ڈھیر ہُوئے! \q2 اَور جنگ کے ہتھیار کیسے نابود ہو گئے!“ \c 2 \s1 داویؔد کا بطور یہُودیؔہ بادشاہ مَسح کیاجانا \p \v 1 اِسی اَثنا میں داویؔد نے یَاہوِہ سے پُوچھا، ”کیا میں یہُودیؔہ کے شہروں میں سے کسی میں جا بسُوں؟“ \p یَاہوِہ نے فرمایا، ”جا۔“ \p داویؔد نے پُوچھا، ”کس شہر میں؟“ \p یَاہوِہ نے جَواب دیا، ”حِبرونؔ میں۔“ \p \v 2 لہٰذا داویؔد اَپنی دونوں بیویوں یزرعیلؔ کی احِینوعمؔ اَور کرمِلؔ کے نابالؔ کی بِیوہ ابیگیلؔ کے ہمراہ وہاں چلا گیا۔ \v 3 اَور داویؔد اُن آدمیوں کو بھی جو اُس کے ساتھ تھے اُن کے خاندانوں سمیت وہاں سے لے گیا اَور وہ حِبرونؔ اَور اُس کے قصبوں میں بس گیٔے۔ \v 4 تَب بنی یہُوداہؔ کے لوگ آئے اَور وہاں اُنہُوں نے داویؔد کو مَسح کرکے یہُوداہؔ کے قبیلہ کا بادشاہ بنا دیا۔ \p جَب داویؔد کو بتایا گیا کہ یہ یبیسؔ گِلعادؔ کے لوگ تھے جنہوں نے شاؤل کو دفن کیا تھا \v 5 تو داویؔد نے یبیسؔ گِلعادؔ کے لوگوں کے پاس اُنہیں یہ کہنے کے لیٔے قاصِد بھیجے کہ، ”تُم نے اَپنے آقا شاؤل کو دفن کرکے جِس مہربانی کا اِظہار کیا ہے اُس کے لیٔے یَاہوِہ تُمہیں برکت بخشیں، \v 6 یَاہوِہ تمہارے ساتھ مہربانی اَور وفاداری کریں اَور مَیں بھی تمہارے ساتھ وَیسی ہی مہربانی کروں گا کیونکہ تُم نے یہ نیک کام کیا ہے۔ \v 7 لہٰذا اَب طاقتور اَور دِلیر بنو کیونکہ تمہارا آقا شاؤل مَر گیا ہے اَور یہُوداہؔ کے گھرانے نے مُجھے مَسح کرکے اَپنا بادشاہ بنایا ہے۔“ \s1 داویؔد اَور شاؤل کے گھرانوں میں جنگ \p \v 8 اِس اَثنا میں ابنیرؔ بِن نیرؔ نے جو شاؤل کی فَوج کا سپہ سالار تھا، شاؤل کے بیٹے اِشبوستؔ کو ساتھ لیا اَور اُسے محنایمؔ میں لے آیا \v 9 اَور اُسے گِلعادؔ، اشُوری، یزرعیلؔ اَور اِفرائیمؔ، بِنیامین اَور تمام اِسرائیل کا بادشاہ بنایا۔ \p \v 10 شاؤل کا بیٹا اِشبوستؔ چالیس بَرس کی عمر میں اِسرائیل کا بادشاہ بنا اَور اُس نے دو بَرس حُکمرانی کی۔ مگر یہُوداہؔ کا قبیلہ داویؔد کا مطیع رہا۔ \v 11 داویؔد حِبرونؔ میں یہُوداہؔ کے گھرانے پر سات سال چھ مہینے تک بادشاہی کرتا رہا۔ \p \v 12 اَور ابنیرؔ بِن نیرؔ اَور اِشبوستؔ بِن شاؤل کے خادِم محنایمؔ کو خیرباد کہہ کر گِبعونؔ کو گیٔے \v 13 اَور یُوآبؔ بِن ضرویاہؔ اَور داویؔد کے آدمی نکلے اَور گِبعونؔ کے تالاب پر اُن سے ملے۔ ایک فریق تالاب کے ایک طرف بیٹھ گیا اَور دُوسرا دُوسری طرف۔ \p \v 14 تَب ابنیرؔ نے یُوآبؔ سے کہا، ”کہ آؤ ہم چند جَوانوں کو چُن لیں جو ہمارے سامنے ایک دُوسرے سے لڑیں۔“ \p یُوآبؔ نے کہا، ”کہ ٹھیک ہے۔ اُنہیں اَیسا ہی کرنے دو۔“ \p \v 15 پس وہ جَوان کھڑے ہو گئے اَور اُن کی گِنتی کی گئی تو بَارہ آدمی بِنیامین اَور اِشبوستؔ بِن شاؤل کی طرف سے اَور بَارہ آدمی داویؔد کی طرف سے تھے۔ \v 16 تَب ہر ایک آدمی نے اَپنے اَپنے مُخالف کو سَر سے پکڑکر اَپنی تلوار اُس کے پہلو میں گھونپ دی اَور وہ ایک ساتھ گِر پڑے۔ اِس لیٔے گِبعونؔ میں اُس جگہ کو حِلقتؔ ہصّورِیمؔ\f + \fr 2‏:16 \fr*\fq حِلقتؔ ہصّورِیمؔ\fq*\ft یعنی خنجر\ft*\f* کا نام دیا گیا۔ \p \v 17 اَور اُس دِن بڑی سخت لڑائی ہُوئی جِس میں ابنیرؔ اَور اِسرائیل کے آدمیوں نے داویؔد کے آدمیوں سے شِکست کھائی۔ \p \v 18 اَور ضرویاہؔ کے تینوں بیٹے یُوآبؔ، ابیشائی اَور عساہیلؔ وہاں مَوجُود تھے۔ عساہیلؔ جنگلی ہِرن کی مانند سُبک پا تھا۔ \v 19 اَور عساہیلؔ نے ابنیرؔ کا پیچھا کیا اَور اُس کا تعاقب کرتے ہُوئے داہنے یا بائیں ہاتھ نہ مُڑا۔ \v 20 تَب ابنیرؔ نے اَپنے پیچھے کی طرف دیکھ کر، ”پُوچھا کہ اَے عساہیلؔ! کیا تُم ہو؟“ \p اُس نے جَواب دیا، ”ہاں۔“ \p \v 21 تَب ابنیرؔ نے اُس سے کہا، ”کہ داہنے یا بائیں، ایک طرف مُڑ جا اَور جَوانوں میں سے کسی کو پکڑکر اُس کے ہتھیار چھین لے۔“ لیکن عساہیلؔ نے اُس کا تعاقب کرنا نہ چھوڑا۔ \p \v 22 ابنیرؔ نے عساہیلؔ کو پھر مُتنبّہ کیا کہ، ”میرا پیچھا کرنا بند کر! اگر مَیں تُجھے مار گراؤں گا تو پھر تیرے بھایٔی یُوآبؔ کو کیا مُنہ دِکھا سکوں گا؟“ \p \v 23 لیکن عساہیلؔ تعاقب سے باز نہ آیا۔ تَب ابنیرؔ نے اَپنے نیزے کا بٹ اُس کے پیٹ میں گھونپ دیا اَور وہ اُس کی پیٹھ کے آرپار نکل گیا۔ چنانچہ وہ گرا اَور موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ اَورجو آدمی اُس جگہ آیا جہاں عساہیلؔ گرا اَور مَرا تھا وہ وہیں رُک گیا۔ \p \v 24 لیکن یُوآبؔ اَور ابیشائی نے ابنیرؔ کا تعاقب کیا اَور جَب سُورج غروب ہو رہاتھا تو وہ کوہِ امّہؔ کے پاس پہُنچے جو گیاحؔ کے قریب گِبعونؔ کی بنجر زمین کی راہ پر ہے۔ \v 25 اَور بِنیامین کے لوگ ایک بار پھر ابنیرؔ کے پیچھے جمع ہو گئے اَور اُنہُوں نے ایک دستہ کی صورت میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر اَپنا مورچہ قائِم کر لیا۔ \p \v 26 تَب ابنیرؔ نے یُوآبؔ کو پُکار کر کہا، ”کیا یہ ضروُری ہے کہ تلوار اَبد تک ہلاک کرتی رہے؟ کیا تُم نہیں جانتے کہ اِس کا اَنجام کس قدر تلخ ہوگا؟ تُم اَپنے آدمیوں کو کب حُکم دوگے کہ اَپنے بھائیوں کا تعاقب کرنے سے باز آئیں؟“ \p \v 27 یُوآبؔ نے جَواب دیا، ”زندہ خُدا کی قَسم، اگر تُم زبان نہ کھولتے تو یہ آدمی صُبح تک اَپنے بھائیوں کا تعاقب جاری رکھتے۔“ \p \v 28 لہٰذا یُوآبؔ نے نرسنگا پھُونکا اَور سَب آدمی رُک گیٔے اَور پھر اُنہُوں نے اِسرائیل کا تعاقب نہ کیا اَور نہ اُن سے لڑے۔ \p \v 29 ابنیرؔ اَور اُس کے آدمی ساری رات عراباہؔ کے میدان میں چلتے رہے اَور دریائے یردنؔ کو پار کرکے بِترونؔ سے گزرتے ہُوئے محنایِمؔ کو آئے۔ \p \v 30 اَور یُوآبؔ نے ابنیرؔ کے تعاقب سے لَوٹ کر اَپنے تمام آدمیوں کو جمع کیا تو عساہیلؔ کے علاوہ داویؔد کے اُنّیس آدمی غائب تھے۔ \v 31 لیکن داویؔد کے آدمیوں نے بنی بِنیامین کے تین سَوساٹھ آدمیوں کو جو ابنیرؔ کے ساتھ تھے مار گرایا۔ \v 32 اُنہُوں نے عساہیلؔ کو اُٹھاکر بیت لحمؔ میں اُس کے باپ کی قبر میں دفن کر دیا اَور یُوآبؔ اَور اُس کے آدمی رات بھرکے سفر کے بعد صُبح سویرے حِبرونؔ جا پہُنچے۔ \c 3 \p \v 1 شاؤل اَور داویؔد کے گھرانوں کے مابین طویل عرصہ تک جنگ جاری رہی۔ داویؔد قوی سے قوی تر اَور شاؤل کا خاندان کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا۔ \b \lh \v 2 اَور حِبرونؔ میں داویؔد کے یہاں بیٹے پیدا ہُوئے۔ \b \li1 اُس کا پہلوٹھا امنُونؔ تھا جو یزرعیلی احِینوعمؔ کے بطن سے تھا۔ \li1 \v 3 اُس کا دُوسرا بیٹا کِلیابؔ تھا جو کرمِلی نابالؔ کی بِیوہ ابیگیلؔ کے بطن سے تھا۔ \li1 تیسرا اَبشالومؔ تھا جو گیشُور کے بادشاہ تلمی کی بیٹی معکہؔ کے بطن سے تھا۔ \li1 \v 4 چوتھا ادُونیّاہؔ تھا جو حگِیّت کے بطن سے تھا۔ \li1 پانچواں شفطیاہؔ تھا جو ابیطالؔ کے بطن سے تھا \li1 \v 5 اَور چھٹا اِترِعامؔ تھا جو داویؔد کی بیوی عِگلاہؔ کے بطن سے تھا۔ \b \lf یہ داویؔد کے یہاں حِبرونؔ میں پیدا ہُوئے تھے۔ \s1 ابنیرؔ کا داویؔد کے ساتھ مِل جانا \p \v 6 شاؤل اَور داویؔد کے گھرانوں کی جنگ کے دَوران ابنیرؔ نے شاؤل کے گھرانے میں اَپنے آپ کو خُوب طاقتور بنا لیا تھا۔ \v 7 اَور شاؤل کی ایک داشتہ تھی جِس کا نام رِصفاہؔ تھا اَورجو ایّہؔ کی بیٹی تھی۔ اَور اِشبوستؔ نے ابنیرؔ سے کہا، ”تُم میرے باپ کی داشتہ کے پاس کیوں گئے؟“ \p \v 8 اِشبوستؔ کی اِس بات پر ابنیرؔ بہت غُصّہ ہُوا اَور کہنے لگاکہ، ”کیا میں یہُوداہؔ کے کسی کُتّے کا سَر ہُوں؟ آج کے دِن تک مَیں تمہارے باپ شاؤل کے گھرانے، اُس کے کُنبہ اَور دوستوں کا وفادار رہا ہُوں اَور مَیں نے تُجھے داویؔد کے حوالہ نہیں کیا۔ پھر بھی اَب تُم مُجھ پر اِس عورت سے بدکاری کرنے کا اِلزام لگاتے ہو؟ \v 9 خُدا ابنیرؔ کے ساتھ وَیسا ہی بَلکہ اُس سے بھی زِیادہ کریں اگر مَیں داویؔد سے وُہی سلُوک نہ کروں جِس کی یَاہوِہ نے قَسم کھا کر اُس سے وعدہ کیا تھا۔“ \v 10 یعنی یہ کہ بادشاہی شاؤل کے گھرانے سے مُنتقل کرکے داویؔد کے تخت کو اِسرائیل اَور یہُوداہؔ پر دانؔ سے بیرشبعؔ تک قائِم کروں۔ \v 11 اَور اِشبوستؔ نے ابنیرؔ کو کویٔی اَور لفظ کہنے کی جُرأت نہ کی کیونکہ وہ اُس سے ڈرتا تھا۔ \p \v 12 پھر ابنیرؔ نے اَپنی طرف سے داویؔد کو یہ کہنے کے لیٔے قاصِد بھیجے کہ، ”یہ مُلک کس کا ہے؟ میرے ساتھ عہد کر لے اَور مَیں تمام اِسرائیل کو تمہاری طرف مائل کرنے کے لیٔے تمہاری مدد کروں گا۔“ \p \v 13 داویؔد نے کہا، اَچھّا، مَیں تمہارے ساتھ عہد کروں گا لیکن مَیں تُجھ سے ایک بات کا مطالبہ کرتا ہُوں کہ جَب تُو مُجھے مِلنے کو آئے تو شاؤل کی بیٹی میکلؔ کو اَپنے ساتھ لے کر آنا ورنہ میرے سامنے مت آنا۔ \v 14 تَب داویؔد نے شاؤل کے بیٹے اِشبوستؔ کے پاس یہ مطالبہ کرتے ہُوئے قاصِد بھیجے، ”کہ میری بیوی میکلؔ جِس کو مَیں نے فلسطینیوں کی سَو کھلڑیاں دے کر بیاہا تھا میرے حوالہ کر دیں۔“ \p \v 15 لہٰذا اِشبوستؔ نے حُکم دیا اَور اُسے اُس کے خَاوند پَلطیؔ ايلؔ بِن لائش سے چھین لیا \v 16 تاہم اُس کا خَاوند بحوریمؔ تک راستہ بھر اُس کے پیچھے پیچھے روتا ہُوا اُس کے ساتھ گیا۔ ابنیرؔ نے اُس سے کہا، ”واپس گھر چلا جا۔“ پس وہ واپس چلا گیا۔ \p \v 17 اَور ابنیرؔ نے اِسرائیل کے بُزرگوں سے صلاح مشورہ کیا اَور کہا، ”کچھ عرصہ ہُوا، تُم داویؔد کو اَپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔ \v 18 اَب بنالو کیونکہ یَاہوِہ کا داویؔد سے وعدہ ہے، ’میں اَپنے خادِم داویؔد کے ذریعہ سے اَپنی قوم اِسرائیل کو فلسطینیوں اَور اُن کے تمام دُشمنوں کے ہاتھ سے چھُڑاؤں گا۔‘ “ \p \v 19 اَور ابنیرؔ نے بنی بِنیامین سے بھی بذاتِ خُود باتیں کیں اَور ابنیرؔ وہ سَب باتیں جو اِسرائیل اَور بِنیامین کے گھرانے کے لوگ کرنا چاہتے تھے داویؔد کو بتانے کے لیٔے حِبرونؔ گئے۔ \v 20 جَب ابنیرؔ جِس کے ہمراہ بیس آدمی تھے حِبرونؔ میں داویؔد کے پاس آیا، تو داویؔد نے اُس کے اَور اُس کے آدمیوں کے لیٔے ضیافت کی۔ \v 21 ابنیرؔ نے داویؔد سے کہا، ”مُجھے اِجازت دو کہ فوراً جاؤں اَور اَپنے آقا بادشاہ کے لیٔے تمام اِسرائیل کو جمع کروں تاکہ وہ آپ کے ساتھ عہدوپیمان کرو اَور تُم اُن سَب پر اَپنی دِلی مرضی کے مُطابق حُکمرانی کرو۔“ چنانچہ داویؔد نے ابنیرؔ کو رخصت کیا اَور وہ سلامت چلا گیا۔ \s1 یُوآبؔ کا ابنیرؔ کو قتل کرنا \p \v 22 عَین اُسی وقت داویؔد کے آدمی اَور یُوآبؔ کِسی دھاوے سے لُوٹ کا بہت سا مال اَپنے ساتھ لے کر آئےتھے۔ لیکن ابنیرؔ داویؔد کے ساتھ حِبرونؔ میں نہ تھا کیونکہ داویؔد نے اُسے رخصت کر دیا تھا اَور وہ سلامت چلا گیا تھا۔ \v 23 اَور جَب یُوآبؔ اَور لشکر کے سَب لوگ اُس کے ہمراہ وہاں پہُنچے تو اُسے بتایا گیا کہ ابنیرؔ بِن نیرؔ بادشاہ کے پاس آیاتھا اَور بادشاہ نے اُسے رخصت کر دیا اَور وہ سلامت چلا گیا۔ \p \v 24 لہٰذا یُوآبؔ بادشاہ کے پاس گیا اَور کہنے لگاکہ، ”آپ نے کیا کیا؟ دیکھو، ابنیرؔ تمہارے پاس آیاتھا۔ لیکن تُم نے اُسے جانے کیوں دیا؟ اَب تو وہ چلا گیا ہے! \v 25 کیا آپ نہیں جانتے کہ ابنیرؔ بِن نیرؔ آپ کو دھوکا دینے اَور آپ کی آمدورفت پر نظر رکھنے اَورجو کچھ بھی آپ کر رہے ہو اُس کا بھید لینے آیاتھا۔“ \p \v 26 پھر یُوآبؔ داویؔد کے پاس سے چلا گیا اَور اُس نے ابنیرؔ کے پیچھے قاصِد بھیجے اَور وہ اُسے سیرہؔ کے کنوئیں سے اَپنے ساتھ لے کر واپس آ گئے۔ لیکن داویؔد کو اِس کا علم نہ ہُوا۔ \v 27 اَور ابنیرؔ کے حِبرونؔ لَوٹ آنے پر یُوآبؔ اُسے الگ پھاٹک کے اَندر لے گیا گویا اُس سے کویٔی راز کی بات کرنا چاہتاہے اَور وہاں اُس نے اَپنے بھایٔی عساہیلؔ کے خُون کا بدلہ لینے کے لیٔے ابنیرؔ کے پیٹ میں چھُرا گھونپ دیا اَور وہ مَر گیا۔ \p \v 28 بعد میں جَب داویؔد نے اُس کے متعلّق سُنا تو اُس نے کہا، ”مَیں اَور میری بادشاہی یَاہوِہ کے حُضُور میں ہمیشہ تک ابنیرؔ بِن نیرؔ کے خُون سے پاک ہے۔ \v 29 وہ یُوآبؔ اَور اُس کے باپ کے سارے گھرانے کے سَر لگے اَور یُوآبؔ کے گھرانے میں کویٔی نہ کویٔی اَیسا ضروُر مَوجُود رہے جسے جریان کا مرض ہو یا جو کوڑھی ہو یا بیساکھی کے سہارے چلے یا تلوار سے مَرے یا ٹکڑے ٹکڑے کا مُحتاج ہو۔“ \p \v 30 (یُوآبؔ اَور اُس کے بھایٔی ابیشائی نے ابنیرؔ کو قتل کر دیا کیونکہ اُس نے اُن کے بھایٔی عساہیلؔ کو گِبعونؔ کی جنگ میں مار دیا تھا۔) \p \v 31 تَب داویؔد نے یُوآبؔ اَور اُس کے لشکر کے سارے لوگوں سے کہا، ”اَپنے کپڑے پھاڑو اَور ٹاٹ پہنو اَور صُبح کو ابنیرؔ کے آگے ماتم کرتے ہُوئے چلو۔“ اَور داویؔد بادشاہ خُود بھی تابُوت کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ \v 32 اُنہُوں نے ابنیرؔ کو حِبرونؔ میں دفن کیا اَور بادشاہ ابنیرؔ کی قبر پر چِلّا چِلّاکر رُویا اَور سَب لوگ بھی رُوئے۔ \p \v 33 بادشاہ نے ابنیرؔ پر یہ مرثیہ کہا: \q1 ”کیا یہ لازِم تھا کہ ابنیرؔ ایک باغی کی طرح ماراجائے؟ \q2 \v 34 نہ تو تمہارے ہاتھ بندھے ہُوئے تھے، \q2 اَور نہ تمہارے پاؤں میں بیڑیاں تھیں۔ \q1 پر تُم اَیسے مارےگئے، جَیسے کویٔی بدکاروں کے ہاتھوں ماراجائے۔“ \p اَور لوگوں نے پھر سے رونا شروع کر دیا۔ \p \v 35 تَب لوگوں نے آکر داویؔد کو ترغِیب دی کہ ابھی دِن ہے تُم کچھ کھالو؛ لیکن داویؔد نے یہ کہتے ہُوئے قَسم کھائی، ”اگر مَیں سُورج کے ڈُوبنے سے پیشتر روٹی یا اَور کچھ چکھوں تو خُدا مُجھ سے اَیسا بَلکہ اِس سے بھی زِیادہ کرے!“ \p \v 36 اَور تمام لوگوں نے بادشاہ کی بات کو پسند کیا۔ درحقیقت اُس کے علاوہ جو کچھ بھی بادشاہ نے کیا وہ اُس سے خُوش تھے۔ \v 37 اُس دِن تمام لوگوں اَور تمام اِسرائیل کو مَعلُوم ہو گیا کہ ابنیرؔ بِن نیرؔ کے قتل میں بادشاہ کا ہاتھ نہیں تھا۔ \p \v 38 تَب بادشاہ نے اَپنے لوگوں سے کہا، ”کیا تُمہیں احساس نہیں کہ آج اِسرائیل میں سے ایک شہزادہ اَور ایک عظیم آدمی ہمیشہ کے لیٔے رخصت ہو گیا ہے؟ \v 39 اَور آج اگرچہ میں مَسح کیا ہُوا بادشاہ ہُوں میں کمزور ہُوں اَور ضرویاہؔ کے یہ بیٹے مُجھ سے زِیادہ طاقتور ہیں۔ یَاہوِہ بدکار کو اُس کی بدی کے مُطابق بدلہ دے!“ \c 4 \s1 اِشبوستؔ کا قتل \p \v 1 جَب شاؤل کے بیٹے اِشبوستؔ نے سُنا کہ ابنیرؔ حِبرونؔ میں مَر گیا ہے تو وہ پست ہِمّت ہو گیا اَور اِسرائیل کے سارے لوگوں پر خوف طاری ہو گیا۔ \v 2 شاؤل کے بیٹے کے دو آدمی چھاپہ مار دستوں کے سردار تھے۔ ایک کا نام بعناہ اَور دُوسرے کا ریخابؔ تھا اَور وہ رِمّونؔ بیروتی کے بیٹے تھے جو بِنیامین کے قبیلہ سے تھا۔ بیروت بِنیامین کا حِصّہ سمجھا جاتا ہے۔ \v 3 کیونکہ بیروت کے لوگ گِتَّئیم کو بھاگ گیٔے تھے اَور آج تک وہاں پردیسی کی طرح مُقیم ہیں۔ \p \v 4 (یُوناتانؔ بِن شاؤل کا ایک بیٹا تھا جو دونوں ٹانگوں سے لنگڑا تھا اَور جَب یزرعیلؔ کی طرف سے شاؤل اَور یُوناتانؔ کے متعلّق خبر مِلی تو وہ پانچ سال کا تھا۔ اُس کی دایہ اُسے جلدی سے اُٹھاکر بھاگی اَور گھبراہٹ میں وہ اُس کی گود سے گِر گیا اَور لنگڑا ہو گیا۔ اُس کا نام مفِیبوستؔ تھا)۔ \p \v 5 رِمّونؔ بیروتی کے بیٹے ریخابؔ اَور بعناہ اِشبوستؔ کے گھر جانے کے لیٔے روانہ ہُوئے اَور شِدّت کی دھوپ میں وہاں پہُنچے۔ وہ دوپہر کو وہاں آرام کر رہاتھا۔ \v 6 اَور وہ گیہُوں لینے کے بہانے گھر کے اَندرونی حِصّہ میں گھُسے اَور اُنہُوں نے اُس کے پیٹ میں چھُرا گھونپ دیا اَور پھر ریخابؔ اَور اُس کا بھایٔی بعناہ چُپکے سے باہر نکل گیٔے۔ \p \v 7 وہ اُس گھر میں اُس وقت داخل ہُوئے جَب اِشبوستؔ اَپنی خواب گاہ میں بِستر پر سو رہاتھا۔ اُنہُوں نے اُسے چھُرا گھونپ کر مار ڈالا اَور اُس کا سَر کاٹ لیا۔ اَور اِشبوستؔ کے سَر اَپنے ساتھ لے کر رات بھر عراباہؔ کے میدان کی راہ سے سفر کیا۔ \v 8 وہ اِشبوستؔ کے سَر کو حِبرونؔ میں داویؔد کے پاس لایٔے اَور بادشاہ سے کہنے لگے کہ، ”یہ ہے تمہارے دُشمن شاؤل کے بیٹے اِشبوستؔ کا سَر جِس نے تمہاری جان لینے کی کوشش کی۔ آج یَاہوِہ نے میرے آقا بادشاہ کا اِنتقام شاؤل اَور اُس کی نَسل سے لے لیا ہے۔“ \p \v 9 داویؔد نے ریخابؔ اَور اُس کے بھایٔی بعناہ کو جو رِمّونؔ بیروتی کے بیٹے تھے جَواب دیا، ”کہ یَاہوِہ کی حیات کی قَسم جِس نے مُجھے ہر مُصیبت سے رِہائی دی ہے۔ \v 10 ایک آدمی نے آکر مُجھے یہ بتایا، ’شاؤل مَر گیا ہے،‘ تو مَیں نے صِقلاگ میں اُسے پکڑکر قتل کر دیا۔ اُس نے سوچا کہ وہ میرے لیٔے اَچھّی خبر لا رہاہے۔ لیکن یہ تھا وہ اِنعام جو مَیں نے اُسے اُس کی خبر کے بدلہ میں دیا۔ \v 11 پس جَب بدکار لوگوں نے ایک بےگُناہ آدمی کو اُسی کے گھر میں اُس کے بِستر پر قتل کیا ہے تو مُجھ پر کس قدر زِیادہ واجِب ہے کہ اُس کے خُون کا بدلہ تُم سے لُوں اَور زمین کو تمہارے وُجُود سے پاک کر دُوں۔“ \p \v 12 لہٰذا داویؔد نے اَپنے آدمیوں کو اُن کے قتل کا حُکم دیا اَور وہ قتل کر دئیے گیٔے اَور اُنہُوں نے اُن کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اُن کی لاشوں کو حِبرونؔ میں تالاب کے پاس لٹکا دیا۔ لیکن اُنہُوں نے اِشبوستؔ کا سَر لے لیا اَور اُسے حِبرونؔ میں ابنیرؔ کی قبر میں دفن کر دیا۔ \c 5 \s1 داویؔد کا اِسرائیل کا بادشاہ بَن جانا \p \v 1 تَب اِسرائیل کے سَب قبیلے حِبرونؔ میں داویؔد کے پاس آئے اَور کہنے لگے، ”کہ ہم تمہارا اَپنا ہی گوشت اَور خُون ہیں۔ \v 2 کچھ عرصہ پہلے جَب شاؤل ہمارا بادشاہ تھا تو تُم ہی تو تھے جو اِسرائیلیوں کی فَوجی مہموں میں اُن کی قیادت کیا کرتے تھے۔ اَور یَاہوِہ نے تُمہیں فرمایا، ’تُم میری قوم اِسرائیل کی گلّہ بانی کروگے اَور تُم اُن کے حُکمران بَن جاؤگے۔‘ “ \p \v 3 جَب اِسرائیل کے سَب بُزرگ حِبرونؔ میں داویؔد بادشاہ کے پاس آئے تو بادشاہ نے اُن کے ساتھ حِبرونؔ میں یَاہوِہ کے حُضُور عہد کیا اَور اُنہُوں نے داویؔد کو مَسح کرکے اِسرائیل کا بادشاہ بنایا۔ \p \v 4 جَب داویؔد بادشاہ بنے تو وہ تیس سال کے تھے اَور اُنہُوں نے چالیس سال حُکمرانی کی۔ \v 5 اُنہُوں نے حِبرونؔ میں یہُوداہؔ پر سات سال چھ مہینے اَور یروشلیمؔ میں تمام اِسرائیل اَور یہُوداہؔ پر تینتیس سال حُکمرانی کی۔ \s1 داویؔد کا یروشلیمؔ کو فتح کرنا \p \v 6 پھر بادشاہ اَور اُن کے آدمی یروشلیمؔ پر چڑھائی کرنے گیٔے جہاں یبُوسی رہتے تھے۔ یبُوسیوں نے داویؔد سے کہا، ”آپ شہر میں داخل نہ ہو سکیں گے کیونکہ آپ کو تو اَندھے اَور لنگڑے بھی روک سکتے ہیں۔“ وہ سوچتے تھے، ”داویؔد کا شہر میں داخل ہونا غَیر ممکن ہے۔“ \v 7 تاہم داویؔد نے صِیّونؔ کے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ اُسے اَب داویؔد کا شہر کہتے ہیں۔ \p \v 8 اُس دِن داویؔد نے کہا، ”جو کویٔی بھی یبُوسیوں کو مغلُوب کرےگا اُسے داویؔد کے دُشمنوں یعنی لنگڑوں اَور اَندھوں تک پہُنچنے کے لیٔے نالے کو اِستعمال کرنا پڑےگا۔“ اِسی لیٔے ”یہ کہاوت مشہُور ہو گئی کہ اَندھوں اَور لنگڑوں کا محل میں کیا کام؟“ \p \v 9 پھر داویؔد اُس قلعہ میں رہنے لگے اَور اُنہُوں نے اُس کا نام داویؔد کا شہر رکھا۔ اُنہُوں نے اُس کے اِردگرد کے خِطّہ کو مِلّوؔ سے لے کر اَندرونی جانِب تک مضبُوطی سے تعمیر کیا۔ \v 10 اَور داویؔد زِیادہ سے زِیادہ طاقتور ہوتا گیا کیونکہ قادرمُطلق یَاہوِہ خُدا اُس کے ساتھ تھے۔ \p \v 11 اَور شاہِ صُورؔ حِیرامؔ نے قاصِدوں کو دیودار کی لکڑی، بڑھئی اَور مِعمار دے کر داویؔد کے پاس بھیجا اَور اُنہُوں نے داویؔد کے لیٔے ایک محل بنایا۔ \v 12 اَور داویؔد کو مَعلُوم ہو گیا کہ یَاہوِہ نے اُسے اِسرائیل کے بادشاہ کے طور پر قِیام بخشا ہے اَور اَپنی قوم اِسرائیل کی خاطِر اُس کی بادشاہی کو بڑا ممتاز کیا ہے۔ \p \v 13 حِبرونؔ سے چلے آنے کے بعد داویؔد نے یروشلیمؔ میں اَپنے حرم میں کیٔی داشتائیں اَور بیویاں داخل کرلی اُن کے یہاں کیٔی بیٹے اَور بیٹیاں پیدا ہُوئیں۔ \v 14 اَور وہاں یروشلیمؔ میں اُس کے یہاں جو بچّے پیدا ہُوئے اُن کے نام یہ ہیں: شَمّوعؔ، شوبابؔ، ناتنؔ اَور شُلومونؔ، \v 15 اِبحارؔ، الِیشُوعؔ، نِفیگ، یافیعؔ، \v 16 اِلیشمعؔ، الیدعؔ اَور الیفلطؔ۔ \s1 داویؔد کا فلسطینیوں کو شِکست دینا \p \v 17 جَب فلسطینیوں نے سُنا کہ داویؔد کو مَسح کرکے اِسرائیل کا بادشاہ بنایا گیا ہے تو وہ سَب لشکر کے ساتھ اِکٹھّے ہوکر اُسے تلاش کرنے نکل پڑے لیکن داویؔد یہ خبر سُن کر قلعہ میں چلا گیا۔ \v 18 اَور فلسطینی آئے اَور رفائیمؔ کی وادی میں پھیل گیٔے۔ \v 19 لہٰذا داویؔد نے یَاہوِہ سے پُوچھا، ”کیا میں جا کر فلسطینیوں پر حملہ کر دُوں؟ کیا آپ اُنہیں میرے حوالے کر دیں گے؟“ \p یَاہوِہ نے داویؔد کو جَواب دیا، ”جاؤ، مَیں ضروُر فلسطینیوں کو تمہارے حوالے کر دُوں گا۔“ \p \v 20 لہٰذا داویؔد بَعل پراضیمؔ کو گئے اَور وہاں اُس نے اُنہیں شِکست دی۔ اُس نے کہا، ”جَیسے اَچانک سیلاب کا پانی پھوٹ کر بہہ نکلتا ہے وَیسے ہی یَاہوِہ نے میرے دُشمنوں کو میرے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔“ اِس لیٔے وہ جگہ بَعل پراضیمؔ\f + \fr 5‏:20 \fr*\fq بَعل پراضیمؔ \fq*\ft خُدا جو توڑ دینے والا ہے\ft*\f* کہلائی۔ \v 21 فلسطینی اَپنے بُتوں کو وہاں چھوڑ گیٔے اَور داویؔد اَور اُس کے آدمی اُنہیں اُٹھاکر لے گیٔے۔ \p \v 22 فلسطینی ایک دفعہ پھر آئے اَور وادی رفائیمؔ میں پھیل گیٔے۔ \v 23 لہٰذا داویؔد نے یَاہوِہ سے ہدایت چاہی تو یَاہوِہ نے اُسے جَواب دیا، ”سیدھے جا کر حملہ کرنے کے بجائے اُنہیں پیچھے سے گھیر لینا اَور بید کے درختوں کے سامنے سے اُن پر حملہ کرنا۔ \v 24 اَور جُوں ہی تُم بید کے درختوں کی پھُنگیوں میں قدموں کی آواز سُنو تو جلدی سے حرکت میں آجانا تاکہ وہ سمجھ لیں کہ یَاہوِہ فلسطینیوں کی فَوج کو مارنے کے لیٔے تمہارے آگے گئے ہیں۔“ \v 25 لہٰذا داویؔد نے وَیسا ہی کیا جَیسا کہ یَاہوِہ نے اُسے حُکم دیا تھا اَور وہ فلسطینیوں کو گِبعؔ\f + \fr 5‏:25 \fr*\fq گِبعؔ \fq*\ft یعنی گِبعونؔ\ft*\f* سے لے کر گِزرؔ تک مارتا چلا گیا۔ \c 6 \s1 عہد کے صندُوق کا یروشلیمؔ لایا جانا \p \v 1 داویؔد نے اِسرائیل میں سے آدمیوں کو چُن کر جمع کیا جو تعداد میں تیس ہزار تھے۔ \v 2 اَور داویؔد اَپنے سارے آدمیوں کے ساتھ یہُوداہؔ کے بعلہؔ\f + \fr 6‏:2 \fr*\fq بعلہؔ \fq*\ft یعنی قِریت یعریمؔ\ft*\f* کو روانہ ہُوا تاکہ خُدا کے صندُوق کو لے آئے جو اُس کے نام یعنی قادرمُطلق یَاہوِہ\f + \fr 6‏:2 \fr*\fq قادرمُطلق یَاہوِہ \fq*\ft عِبرانی میں یَاہوِہ سباؤتھ یعنی لشکروں کے یَاہوِہ\ft*\f* کے نام سے کہلاتا ہے اَورجو اُن کروبیوں کے درمیان تخت نشین ہے جو صندُوق پر ہیں۔ \v 3 اِس لئے اُنہُوں نے خُدا کے صندُوق کو ایک نئی گاڑی پر رکھا اَور اُسے ابینادابؔ کے گھر سے لے آئے جو پہاڑی پر تھا۔ ابینادابؔ کے بیٹے عُزّاہ اَور اخیوؔ اُس نئی گاڑی کو ہانک رہے تھے \v 4 جِس پر خُدا کا صندُوق تھا اَور اخیوؔ ابینادابؔ کے آگے آگے چل رہاتھا۔ \v 5 اَور داویؔد اَور تمام بنی اِسرائیل کا گھرانا اَپنی ساری قُوّت کے ساتھ یَاہوِہ کے آگے صنوبر کی لکڑی سے بنے ہر قِسم کے ساز سِتار، بربط، دف، خنجری اَور جھانجھ اَیسے سازوں کو بجاتے ہُوئے خُوشی منا رہے تھے۔ \p \v 6 اَور جَب وہ نکونؔ کے کھلیان کو آئے بَیلوں نے ٹھوکر کھائی اَور خُدا کا صندُوق گرنے پر تھا اَور عُزّاہ نے آگے بڑھ کر خُدا کے صندُوق کو سنبھال لیا۔ \v 7 اُس نے صندُوق کو ہاتھ لگا کر غلطی کی تھی اِس لیٔے یَاہوِہ کا قہر عُزّاہ پر بھڑکا اَور وہ وہیں خُدا کے صندُوق کے پاس مَر گیا۔ \p \v 8 داویؔد اِس بات سے بڑا غمگین ہُوا کیونکہ یَاہوِہ کا قہر عُزّاہ کے خِلاف بھڑکا تھا لہٰذا وہ جگہ آج تک پیریزؔ عُزّاہ\f + \fr 6‏:8 \fr*\fq پیریزؔ عُزّاہ \fq*\ft عُزّا کے خِلاف آگ بگُولہ ہونا\ft*\f* کہلاتی ہے۔ \p \v 9 اُس دِن داویؔد یَاہوِہ سے ڈر گیا اَور کہنے لگاکہ، ”یَاہوِہ کا صندُوق میرے یہاں کیسے آسکتا ہے؟“ \v 10 لہٰذا اُس نے نہ چاہا کہ یَاہوِہ کے صندُوق کو داویؔد کے شہر میں اَپنے پاس لے جائے اَور وہ اُسے گِتّی عوبیدؔ اِدُوم کے گھر لے گیا۔ \v 11 اَور یَاہوِہ کا صندُوق تین مہینے تک عوبیدؔ اِدُوم گِتّی کے گھر میں رہا اَور یَاہوِہ نے اُسے اَور اُس کے سارے گھرانے کو برکت بخشی۔ \p \v 12 اَور جَب داویؔد بادشاہ کو بتایا گیا، ”خُدا کے صندُوق کی وجہ سے یَاہوِہ نے عوبیدؔ اِدُوم کے گھرانے کو اَور اُس کی ہر چیز کو برکت بخشی ہے تو داویؔد گیا۔“ اَور خُدا کے صندُوق کو عوبیدؔ اِدُوم کے گھر سے داویؔد کے شہر میں خُوشی خُوشی لے آئے۔ \v 13 جَب یَاہوِہ کے صندُوق کو اُٹھاکر لے جانے والے چھ قدم چل چُکے تو داویؔد نے ایک بَیل اَور ایک فربہ بچھڑا قُربان کیا۔ \v 14 اَور داویؔد جو کتان کا افُود پہنے ہُوئے تھا پُورے جوش کے ساتھ یَاہوِہ کے حُضُور رقص کرنے لگا۔ \v 15 اِس طرح داویؔد اَور اِسرائیل کے سارے لوگ نعرے لگاتے ہُوئے اَور نرسنگے پھُونکتے ہُوئے یَاہوِہ کے صندُوق کو لے کر آئے۔ \p \v 16 اَور جَب یَاہوِہ کا صندُوق داویؔد کے شہر میں داخل ہو رہاتھا تو شاؤل کی بیٹی میکلؔ نے ایک کھڑکی سے جھانکا۔ اَور جَب اُس نے داویؔد بادشاہ کو یَاہوِہ کے سامنے اُچھلتے اَور رقص کرتے دیکھا تو اُس کے دِل میں داویؔد کے لیٔے حقارت پیدا ہو گئی۔ \p \v 17 اُنہُوں نے یَاہوِہ کے صندُوق کو لاکر اُس کی جگہ پر خیمہ میں رکھ دیا جو داویؔد نے اُس کے لیٔے کھڑا کیا تھا۔ اَور داویؔد نے یَاہوِہ کے آگے سوختنی نذریں اَور سلامتی کی نذریں چڑھائیں۔ \v 18 اَور جَب داویؔد سوختنی نذریں اَور سلامتی کی نذریں چڑھا چُکے تو اُنہُوں نے قادرمُطلق یَاہوِہ کے نام سے لوگوں کو برکت دی۔ \v 19 پھر اُس نے سارے بنی اِسرائیل کے ہُجوم کو یعنی مَردوں اَور عورتوں کو ایک ایک روٹی، ایک ایک کھجور کی ٹکیا اَور ایک ایک کشمش کی ٹکیا دی۔ پھر سَب لوگ اَپنے اَپنے گھر چلے گیٔے۔ \p \v 20 جَب داویؔد اَپنے گھرانے کو برکت دینے کے لیٔے گھر لَوٹا تو شاؤل کی بیٹی، میکلؔ اُس کا اِستِقبال کرنے باہر آئی اَور کہنے لگی واہ، ”آج شاہِ اِسرائیل نے اَپنے خادِموں کی لونڈیوں کے سامنے اَپنے آپ کو ایک ادنیٰ آدمی کی طرح ننگا کرکے اَپنے مرتبہ کو کیسی اَذیّت دی ہے!“ \p \v 21 داویؔد نے میکلؔ سے کہا، ”یہ تو یَاہوِہ کے حُضُور میں تھا جِس نے تیرے باپ اَور اُس کے گھرانے کے کسی فرد کی بجائے مُجھے چُنا تاکہ اَپنی قوم اِسرائیل کا حُکمران بنائے۔ لہٰذا میں یَاہوِہ کے آگے رقص کروں گا۔ \v 22 بَلکہ میں اِس سے بھی زِیادہ نیچا ہوکر اَپنی ہی نظر میں ذلیل ہُوں گا۔ لیکن جِن لونڈیوں کا تُم نے ذِکر کیا ہے وُہی میری عزّت کریں گی۔“ \p \v 23 اَور شاؤل کی بیٹی میکلؔ اَپنی موت کے دِن تک بے اَولاد رہی۔ \c 7 \s1 داویؔد سے خُدا کے وعدے \p \v 1 بعدازاں جَب بادشاہ اَپنے محل میں رہنے لگا اَور یَاہوِہ نے اُسے اُس کے چاروں طرف کے دُشمنوں سے آرام بخشا \v 2 تو بادشاہ نے ناتنؔ نبی سے کہا، ”اِدھر مَیں ہُوں جو دیودار کی لکڑی کے محل میں رہتا ہُوں اَور اُدھر خُدا کا صندُوق ہے جو خیمہ میں رکھا گیا ہے۔“ \p \v 3 ناتنؔ نے بادشاہ کو جَواب دیا، ”جو کچھ آپ کے جی میں ہے اُسے اَنجام دیں کیونکہ یَاہوِہ آپ کے ساتھ ہیں۔“ \p \v 4 اُسی رات یَاہوِہ کا کلام ناتنؔ کو پہُنچا: \pm \v 5 ”جاؤ اَور میرے خادِم داویؔد کو بتاؤ، ’یَاہوِہ یُوں فرماتے ہیں: کیا تُم میرے رہنے کے لیٔے ایک گھر بناؤگے؟ \v 6 جَب مَیں اِسرائیلیوں کو مِصر سے نکال کر لایا اُس دِن سے لے کر آج تک میں کسی گھر میں نہیں رہا بَلکہ خیمہ کو اَپنا قِیام بنا کر جابجا گھُومتا رہا ہُوں۔ \v 7 جہاں کہیں مَیں تمام بنی اِسرائیل کے ساتھ گیا کیا مَیں نے اُن کے اُن حُکمرانوں میں سے جِن کو مَیں نے اَپنی قوم اِسرائیل کی گلّہ بانی کرنے کا حُکم دیا تھا مَیں نے اُن میں سے کسی سے بھی کبھی کہا، ”تُم نے میرے لیٔے دیودار کی لکڑی کا گھر کیوں نہیں بنایا؟“ ‘ \pm \v 8 ”پس تُم میرے خادِم داویؔد کو بتاؤ، ’قادرمُطلق یَاہوِہ یُوں فرماتے ہیں، مَیں نے تُمہیں چراگاہ میں سے جَب تُم بھیڑ بکریوں کے پیچھے پیچھے چلتے تھے تاکہ تُم میری قوم اِسرائیل کے حُکمران ہو۔ \v 9 جہاں کہیں تُم گئے مَیں تمہارے ساتھ رہا اَور مَیں نے تمہارے سارے دُشمنوں کو تمہارے سامنے سے فنا کر دیا۔ اَب مَیں تمہارے نام کو رُوئے زمین کے عظیم آدمیوں کے بڑے ناموں کی مانند عظمت بخشوں گا۔ \v 10 اَور مَیں اَپنی قوم اِسرائیل کو ایک اَیسی سرزمین میں قائِم کروں گا جو اُن کا وطن ہوگا اَور اُنہیں وہاں سے کبھی نہ ہٹایا جا سکےگا۔ اَور بدکار لوگ اُنہیں دُکھ نہ دے سکیں گے جَیسا کہ وہ پہلے کیا کرتے تھے۔ \v 11 اَور جَیسا کہ وہ اُس وقت سے کرتے آ رہے ہیں جَب مَیں نے اَپنی قوم اِسرائیل پر قاضی مُقرّر کرنے کا حُکم دیا تھا اَور تُمہیں تمہارے سَب دُشمنوں سے سکون بھی بخشوں گا۔ \pm ” ’اَور یَاہوِہ تُمہیں فرماتے ہیں کہ یَاہوِہ خُود تمہارے گھرانے کو قائِم رکھیں گے: \v 12 اَور جَب تیرے دِن پُورے ہو جایٔیں اَور تُو اَپنے آباؤاَجداد کے ساتھ سو جائے تو مَیں تیرے بعد تیری نَسل کو جو تیرے صُلب سے ہوگی برپا کروں گا اَور اُس کی بادشاہی کو قائِم کروں گا \v 13 اَور یہی وہ شخص ہوگا جو میرے نام کی حَمد و ثنا کے لیٔے ایک گھر بنائے گا اَور مَیں اُس کی بادشاہی کا تخت ہمیشہ تک قائِم رکھوں گا۔ \v 14 اَور مَیں اُس کا باپ ہوں گا اَور وہ میرا بیٹا ہوگا۔ اَور جَب وہ خطا کرےگا تو مَیں اُسے آدمیوں کے ذریعہ ڈنڈوں اَور کوڑوں سے پِٹواؤں گا۔ \v 15 لیکن جَیسے شاؤل سے میری رحمت جُدا ہو گئی تھی اُس سے میری رحمت کبھی جُدا نہ ہوگی، وُہی شاؤل جسے مَیں نے تیرے راستہ سے ہٹا دیا۔ \v 16 تیرا خاندان اَور تیری بادشاہی میرے حُضُور اَبد تک قائِم رہے گی اَور تیرا تخت اَبد تک قائِم رہے گا۔‘ “ \p \v 17 چنانچہ ناتنؔ نے یہ ساری باتیں جسے یَاہوِہ نے رُویا میں دِکھایا تھا اُسے داویؔد کو کہہ سُنایٔیں۔ \s1 داویؔد کی دعا \p \v 18 تَب داویؔد بادشاہ اَندر گئے اَور یَاہوِہ کے حُضُور بیٹھ کر کہنے لگے: \pm ”اَے یَاہوِہ قادر مَیں کون ہُوں اَور میرا خاندان کیا ہے کہ آپ نے مُجھے یہ مقام عطا کیا؟ \v 19 تو بھی اَے یَاہوِہ قادر آپ کی نظر میں یہ گویا کافی نہ تھا کہ آپ نے اَپنے خادِم کے گھرانے کے مُستقبِل کی خبر بھی دے دی۔ اَے یَاہوِہ قادر کیا آپ اِنسان سے اِسی طرح پیش آتے ہیں؟ \pm \v 20 ”داویؔد آپ سے اِس سے زِیادہ کیا کہہ سَکتا ہے؟ جَب کہ اَے یَاہوِہ قادر آپ اَپنے خادِم کو جانتے ہیں۔ \v 21 آپ نے اَپنے کلام کی خاطِر اَور اَپنی مرضی کے مُطابق یہ عظیم کام کیا ہے اَور اَپنے خادِم کو اِس سے آگاہ کر دیا ہے۔ \pm \v 22 ”اَے یَاہوِہ قادر آپ واقعی کتنے عظیم ہیں! اَور جَیسا کہ ہم نے خُود اَپنے کانوں سے سُنا ہے آپ کی مانند کویٔی نہیں اَور آپ کے سِوا کویٔی خُدا نہیں ہے۔ \v 23 آپ کی قوم اِسرائیل کی مانند کون ہے، یعنی رُوئے زمین پر اَیسی بے نظیر قوم جسے خُدا نے خُود جا کر چھُڑایا تاکہ اُسے اَپنی قوم بنا لے اَور یُوں اَپنے نام کو جلال بخشے اَور اَپنی اُس قوم کے آگے جسے آپ نے مِصر سے نکالا دیگر قوموں اَور اُن کے معبُودوں کو پامال کرکے عظیم اَور مُہیب کارنامے اَنجام دیئے۔ \v 24 آپ نے اَپنی قوم اِسرائیل کو مُقرّر کر دیا کہ وہ ہمیشہ کے لیٔے آپ کی قوم بنی رہے اَور آپ اَے یَاہوِہ اُن کا خُدا ہو گئے۔ \pm \v 25 ”اَور اَب اَے یَاہوِہ خُدا اَپنے اُس وعدہ کو ہمیشہ تک قائِم رکھنا جو آپ نے اَپنے خادِم اَور اُس کے گھرانے کے متعلّق کیا ہے اَور جَیسا آپ نے کہا وَیسا ہی کرنا۔ \v 26 تاکہ ہمیشہ تک آپ کے نام کی عظمت ہو اَور لوگ کہیں، ’قادرمُطلق یَاہوِہ اِسرائیل کے خُدا ہیں!‘ اَور آپ کے خادِم داویؔد کا گھرانا آپ کے حُضُور میں ہمیشہ قائِم رہے! \pm \v 27 ”اَے قادرمُطلق یَاہوِہ اِسرائیل کے خُدا آپ نے اَپنے خادِم پر ظاہر کیا اَور کہا، ’مَیں تیرے لیٔے ایک خاندان کی بُنیاد رکھوں گا۔‘ لہٰذا آپ کے خادِم کو ہمّت ہُوئی کہ آپ سے یہ دعا کرے۔ \v 28 اَے یَاہوِہ قادر، آپ ہی خُدا ہیں! آپ کا عہد قابلِ اِعتماد ہے اَور آپ نے اَپنے خادِم سے اِن اَچھّی باتوں کا وعدہ کیا ہے۔ \v 29 اَب اَپنے خادِم کے گھرانے کو برکت دینا منظُور فرمائیں تاکہ وہ ہمیشہ آپ کی نظر میں قائِم رہے۔ کیونکہ اَے یَاہوِہ قادر آپ نے فرمایاہے اَور آپ کی برکت سے آپ کے خادِم کا گھرانا اَبد تک مُبارک رہے گا۔“ \c 8 \s1 داویؔد کی فتوحات \p \v 1 کچھ عرصہ بعد داویؔد نے فلسطینیوں کو شِکست دی اَور اُنہیں مغلُوب کیا اَور خاص شہر میتھیگ امّہؔ کو فلسطینیوں کے ہاتھ سے چھین لیا۔ \p \v 2 اَور داویؔد نے مُوآبیوں کو بھی شِکست دی۔ اُنہُوں نے اُنہیں زمین پر اُلٹا کر جریبی رسّی سے ناپا اَور رسّی کی ہر دو لمبائیوں تک کے لوگ قتل کر دئیے گیٔے اَور ہر تیسری لمبائی تک کے زندہ رہنے دئیے گیٔے۔ پس مُوآبی داویؔد کے محکُوم ہوکر اُسے خراج دینے لگے۔ \p \v 3 علاوہ ازیں داویؔد نے ضوباہؔ کے بادشاہ رحوبؔ کے بیٹے ہددعزرؔ کو شِکست دی جَب وہ دریائے فراتؔ پر اَپنی یادگار کو بحال کرنے گیا تھا۔ \v 4 اَور داویؔد کے ایک ہزار رتھ، سات ہزار رتھ بان اَور بیس ہزار پیادہ سپاہی پکڑ لئے۔ اُس نے ایک سَو رتھ کے گھوڑوں کے سِوا باقی سَب کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ \p \v 5 اَور جَب دَمشق کے ارامی ضوباہؔ کے بادشاہ ہددعزرؔ کی مدد کو آئے تو داویؔد نے اُن میں سے بائیس ہزار کو قتل کیا۔ \v 6 اَور اُس نے دَمشق کی ارامی بادشاہی میں فَوجی چوکیاں قائِم کر دیں اَور ارامی بھی اُس کے تابع ہوکر خراج دینے لگے۔ اَور جہاں کہیں بھی داویؔد گیا یَاہوِہ نے اُسے فتح بخشی۔ \p \v 7 داویؔد نے ہددعزرؔ کے فَوجی سرداروں کی سونے کی ڈھالیں لے لیں اَور اُنہیں یروشلیمؔ میں لے آیا۔ \v 8 اَور ہددعزرؔ کے قصبوں طیبحؔ یا بیطح اَور بیروتی سے داویؔد بادشاہ نے کانسے کی بڑی مقدار پر قبضہ کر لیا۔ \p \v 9 جَب حماتؔ کے بادشاہ تُوعیؔ نے سُنا کہ داویؔد نے ہددعزرؔ کے تمام فَوج کو شِکست دے دی۔ \v 10 تو اُس نے اَپنے بیٹے یُورامؔ کو داویؔد بادشاہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ داویؔد بادشاہ کو ہددعزرؔ پر فتح پا لینے کے لیٔے سلام کہے اَور اُسے مُبارکباد دے کیونکہ ہددعزرؔ تُوعیؔ کے ساتھ لڑتا رہتا تھا۔ اَور یورامؔ چاندی، سونے اَور کانسے کے ظروف اَپنے ساتھ لایا۔ \p \v 11 داویؔد بادشاہ نے اُنہیں یَاہوِہ کے لیٔے مخصُوص کر دیا جَیسا کہ اُس نے ساری مغلُوب قوموں کے سونے چاندی کو کیا تھا۔ \v 12 اِدُومیوں یعنی ارامیوں، مُوآبیوں، بنی عمُّون، فلسطینیوں اَور عمالیقیوں سے حاصل کیا ہُوا سونا چاندی اَور رحوبؔ کے بیٹے ہددعزرؔ، شاہِ ضوباہؔ کا مالِ غنیمت۔ \p \v 13 جَب داویؔد اٹھّارہ ہزار ارامیوں\f + \fr 8‏:13 \fr*\fq ارامیوں \fq*\ft چند نُسخوں میں اِدُوم لِکھا ہے\ft*\f* کو وادی شور میں مار گرانے کے بعد لَوٹا تو اُس کے نام کو بڑی شہرت مِلی۔ \p \v 14 اَور اُس نے سارے اِدُوم میں فَوجی چوکیاں قائِم کیں اَور تمام اِدُومی داویؔد کے مطیع ہو گئے اَور یَاہوِہ نے داویؔد کو جہاں کہیں وہ گیا فتح بخشی۔ \s1 داویؔد کے افسر \p \v 15 داویؔد نے تمام اِسرائیل پر حُکمرانی کی اَور اَپنی ساری رعایا کے ساتھ نہایت ہی اِنصاف اَور راستی سے پیش آتے رہے۔ \v 16 اَور یُوآبؔ بِن ضرویاہؔ فَوج کا سپہ سالار تھا اَور یہوشافاطؔ بِن احِیلودؔ مورّخ تھا؛ \v 17 اَور صدُوقؔ بِن احِیطوبؔ اَور احِیملکؔ بِن ابیاترؔ کاہِنؔ تھے؛ اَور سِرایاہؔ میر مُنشی تھا؛ \v 18 اَور بِنایاہؔ بِن یہُویدعؔ کریتیوں اَور پِلیتھیوں کا مُنشی تھا؛ اَور داویؔد کے بیٹے\f + \fr 8‏:18 \fr*\fq بیٹے\fq*\ft اعلیٰ حُکاّم مزید دیکھیں\+xt 1 توا 18‏:17‏\+xt*\ft*\f* کاہِنؔ تھے۔ \c 9 \s1 داویؔد اَور مفِیبوستؔ \p \v 1 اَور داویؔد نے پُوچھا، ”کیا شاؤل کے گھرانے کا کویٔی شخص اَب تک باقی ہے جِس پر میں یُوناتانؔ کی خاطِر مہربانی کر سکوں؟“ \p \v 2 اَور شاؤل کے گھرانے کا ایک خادِم باقی تھا جِس کا نام ضیباؔ تھا۔ اُسے داویؔد کے سامنے حاضِر ہونے کے لیٔے بُلایا گیا اَور بادشاہ نے پُوچھا، ”کیا تُو ضیباؔ ہے؟“ \p اُس نے جَواب دیا، ”ہاں، یہ آپ کا خادِم ضیباؔ ہی ہے۔“ \p \v 3 تَب بادشاہ نے پُوچھا، ”کیا شاؤل کے گھرانے سے اَب تک کویٔی باقی نہیں جِس پر مَیں خُدا کی طرف سے مہربانی کر سکوں؟“ \p ضیباؔ نے بادشاہ کو جَواب دیا، ”یُوناتانؔ کا ایک بیٹا اَب تک باقی ہے جو دونوں پاؤں سے لنگڑا ہے۔“ \p \v 4 تَب بادشاہ نے پُوچھا، ”وہ کہاں ہے؟“ \p ضیباؔ نے جَواب دیا، ”وہ لُو دِبارؔ میں عمّی ایل کے بیٹے مکیرؔ کے گھر میں ہے۔“ \p \v 5 لہٰذا داویؔد بادشاہ نے اُسے لُو دِبارؔ سے عمّی ایل کے بیٹے مکیرؔ کے گھر سے بُلوا بھیجا۔ \p \v 6 جَب مفِیبوستؔ بِن یُوناتانؔ بِن شاؤل داویؔد کے پاس آیا تو اُس نے جھُک کر داویؔد کا اِحترام کیا۔ \p داویؔد نے کہا، ”مفِیبوستؔ!“ \p اُس نے جَواب دیا، ”آپ کا خادِم حاضِر ہے۔“ \p \v 7 پھر داویؔد نے اُس سے کہا، ”ڈرنے کی کوئی بات نہیں، کیونکہ مَیں تو تیرے باپ یُوناتانؔ کی خاطِر تُجھ پر مہربانی کرنا چاہتا ہُوں۔ میں وہ ساری زمین جو تیرے دادا شاؤل کی مِلکیّت تھی تُجھے لَوٹا دُوں گا اَور تُو ہمیشہ میرے دسترخوان پر کھانا کھایا کرےگا۔“ \p \v 8 مفِیبوستؔ نے آداب بجا لاکر کہا، ”آپ کا خادِم کیا چیز ہے کہ آپ مجھ جَیسے مریل کُتّے کی پروا کریں؟“ \p \v 9 تَب بادشاہ نے شاؤل کے خادِم ضیباؔ کو طلب کیا اَور اُس سے کہا، ”مَیں نے شاؤل اَور اُس کے گھرانے کی ہر ایک چیز تیرے آقا کے پوتے کو دے دی ہے۔ \v 10 پس تُم، تمہارے بیٹے اَور تمہارے نوکر اُس زمین پر اُس کے لیٔے کاشتکاری کریں اَور فصل لے کر آئیں تاکہ تمہارے آقا کے پوتے کے گھر کا خرچ چلے۔ اَور تیرے آقا کا پوتا مفِیبوستؔ ہمیشہ میرے دسترخوان پر کھانا کھائے گا۔“ (اَور ضیباؔ کے پندرہ بیٹے اَور بیس خادِم تھے)۔ \p \v 11 تَب ضیباؔ نے بادشاہ سے کہا، ”آپ کا خادِم وُہی کرےگا جِس کا میرے آقا بادشاہ نے اَپنے خادِم کو حُکم دیا ہے۔“ لہٰذا مفِیبوستؔ داویؔد کے دسترخوان پر شہزادوں یعنی بادشاہ کے اَپنے بیٹوں کی طرح کھانا کھانے لگا۔ \p \v 12 اَور مفِیبوستؔ کا ایک نوجوان بیٹا تھا جِس کا نام میکاؔ تھا اَور ضیباؔ کے گھرانے کے سارے لوگ مفِیبوستؔ کے خادِم تھے۔ \v 13 اَور مفِیبوستؔ یروشلیمؔ میں رہتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ بادشاہ کے دسترخوان پر کھانا کھاتا تھا اَور وہ دونوں پاؤں سے لنگڑا تھا۔ \c 10 \s1 داویؔد کا عمُّونیوں کو شِکست دینا \p \v 1 اِس کے بعد عمُّونیوں کا بادشاہ مَر گیا اَور اُس کا بیٹا حنُونؔ بطور بادشاہ اُس کا جانشین ہُوا۔ \v 2 اَور داویؔد نے سوچا کہ، ”میں ناحسؔ کے بیٹے حنُونؔ پر مہربانی کروں گا، جَیسے اُس کے باپ نے مُجھ پر مہربانی کی تھی۔“ لہٰذا داویؔد نے حنُونؔ کے پاس اُس کے باپ کی ماتم پُرسی کرنے کی غرض سے ایک وفد بھیجا۔ \p جَب داویؔد کے آدمی عمُّونیوں کی سرزمین میں آئے \v 3 تو عمُّونی اُمرا نے اَپنے مالک حنُونؔ سے کہا، ”کیا تُم یہ سوچتے ہو کہ داویؔد نے تمہارے پاس تمہارے باپ کے اِحترام کے طور پر ماتم پُرسی کے لیٔے سفیر بھیجے ہیں؟ کیا داویؔد نے اُنہیں جاسُوسی کرنے تو نہیں بھیجا کہ وہ شہر کی حالت مَعلُوم کریں اَور پھر داویؔد اُسے تباہ کر دے؟“ \v 4 اِس پر حنُونؔ نے داویؔد کے سفیروں کو پکڑ لیا اَور ہر ایک کی آدھی داڑھی مُنڈوا دی اَور اُن کے لباس کمر سے نیچے تک کٹوا کر اُنہیں رخصت کر دیا۔ \p \v 5 جَب داویؔد کو اِس کی خبر پہُنچی کہ وہ اِس ذِلّت کی وجہ سے بڑے شرمندہ ہیں تو اُس نے اُن سے مِلنے کو قاصِد بھیجے اَور بادشاہ نے فرمایا، ”جَب تک تمہاری داڑھیاں بڑھ نہ جایٔیں تَب تک تُم یریحوؔ میں ہی رُکے رہو۔ اُس کے بعد واپس آجانا۔“ \p \v 6 جَب عمُّونیوں کو احساس ہُوا کہ وہ اَپنی حرکت سے داویؔد کی نظر میں ذلیل ٹھہرے ہیں تو اُنہُوں نے بیت رحوبؔ اَور ضوباہؔ سے بیس ہزار ارامی پیادہ سپاہیوں، نیز معکہؔ کے بادشاہ کو ایک ہزار سپاہیوں سمیت اَور طوبؔ کے بَارہ ہزار آدمیوں کو اُجرت پر بُلا لیا۔ \p \v 7 جَب داویؔد نے یہ سُنا تو اُس نے یُوآبؔ اَور سُورماؤں کے تمام فَوج کو بھیجا \v 8 تَب بنی عمُّون نے باہر نکل کر اَپنے پھاٹک کے پاس ہی لڑائی کے لیٔے صف باندھی اَور ضوباہؔ اَور رحوبؔ کے ارامی اَور طوبؔ اَور معکہؔ کے لوگ میدان میں الگ تھے۔ \p \v 9 جَب یُوآبؔ نے دیکھا کہ اُس کے آگے اَور پیچھے لڑائی کے لیٔے صف بندی ہو چُکی ہے تو اُس نے اِسرائیل کے کچھ بہترین فَوجیوں کو چُن کر اُنہیں ارامیوں کے خِلاف صف آرا کیا۔ \v 10 اَور باقی آدمیوں کو اَپنے بھایٔی ابیشائی کی قیادت میں عمُّونیوں کے خِلاف میدان میں اُتارا۔ \v 11 اَور یُوآبؔ نے کہا، ”اگر ارامی مُجھ پر غالب آنے لگیں تو تُم میری مدد کے لیٔے بروقت پہُنچ جانا۔ لیکن اگر عمُّونی تمہارے خِلاف زِیادہ طاقتور ثابت ہُوئے تو مَیں تمہاری رِہائی کو بروقت پہُنچ جاؤں گا۔ \v 12 پس ہمّت باندھو اَور آؤ ہم اَپنی قوم اَور اَپنے خُدا کے شہروں کی خاطِر بہادری سے جنگ کریں اَور یَاہوِہ جو کچھ اُن کی نظر میں بہتر ہوگا وُہی کریں گے۔“ \p \v 13 تَب یُوآبؔ اَور اُس کے لشکر کے آدمی ارامیوں سے لڑنے کے لیٔے آگے بڑھے اَور ارامی اُن کے سامنے سے بھاگ نکلے۔ \v 14 جَب عمُّونیوں نے دیکھا کہ ارامی بھاگ نکلے تو وہ بھی ابیشائی کے سامنے سے بھاگ کر شہر کے اَندر چلے گیٔے۔ تَب یُوآبؔ عمُّونیوں سے جنگ کرنے کے بعد واپس یروشلیمؔ چلا گیا۔ \p \v 15 بعد میں جَب ارامیوں نے دیکھا کہ اِسرائیلیوں نے اُنہیں شِکست دے دی ہے تو وہ پھر سے جمع ہونے لگے۔ \v 16 ہددعزرؔ نے دریائے فراتؔ کے پار سے ارامیوں کو بُلوا بھیجا۔ وہ حِلامؔ میں آ گئے اَور ہددعزرؔ کا سپہ سالار شُوبکؔ اُن کی قیادت کر رہاتھا۔ \p \v 17 جَب داویؔد کو اِس کی خبر مِلی تو اُس نے تمام بنی اِسرائیل کو جمع کیا اَور دریائے یردنؔ کو پار کرکے حِلامؔ کی طرف بڑھا۔ ارامیوں نے داویؔد کا مُقابلہ کرنے کے لیٔے صف آرائی کی اَور اُس سے لڑے۔ \v 18 لیکن ارامی اِسرائیلیوں کے سامنے ٹِک نہ سکے اَور بھاگ نکلے۔ داویؔد نے اُن کے سات سَو رتھ بانو اَور چالیس ہزار پیادہ فَوجیوں کو قتل کر دیا اَور اُس نے فَوج کے سپہ سالار شُوبکؔ کو بھی مار گرایا اَور وہ وہیں مَر گیا۔ \v 19 جَب اُن تمام بادشاہوں نے جو ہددعزرؔ کے مطیع تھے دیکھا کہ وہ اِسرائیل سے شِکست کھا چُکے ہیں تو اُنہُوں نے بنی اِسرائیل سے صُلح کرلی اَور اُن کے مطیع ہو گئے۔ \p ارامیوں نے ڈر کے مارے پھر کبھی عمُّونیوں کی مدد کرنے کی جُرأت نہ کی۔ \c 11 \s1 داویؔد اَور بتشیبؔا \p \v 1 موسمِ بہار میں جَب بادشاہ جنگ کرنے نکلتے تھے، تَب داویؔد نے یُوآبؔ کو اَپنے سرداروں اَور ساری بنی اِسرائیل فَوج کے ہمراہ بھیج دیا۔ اُنہُوں نے عمُّونیوں کو ہلاک کیا اَور ربّہؔ کا محاصرہ کر لیا لیکن داویؔد یروشلیمؔ ہی میں رہا۔ \p \v 2 ایک شام داویؔد بادشاہ اَپنے پلنگ سے اُٹھ کر محل کی چھت پر ٹہلنے لگا۔ اُس نے چھت پر سے دیکھا کہ ایک عورت نہا رہی ہے۔ وہ عورت بڑی خُوبصورت تھی \v 3 اَور داویؔد نے اُس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیٔے کسی اہم شخص کو بھیجا۔ اُس آدمی نے بتایا کہ، ”وہ بتشیبؔا ہے جو اِلیعامؔ کی بیٹی اَور حِتّی اورِیّاہؔ کی بیوی ہے۔“ \v 4 تَب داویؔد نے اَپنے قاصِدوں کو بھیج کر اُسے بُلوایا اَور وہ اُس کے پاس آ گئی اَور وہ اُس کے ساتھ ہمبستر ہُوا (کیونکہ وہ اَپنی ماہواری نَجاست سے پاک ہو چُکی تھی)۔ پھر وہ واپس گھر چلی گئی۔ \v 5 وہ عورت حاملہ ہو گئی اَور اُس نے داویؔد کو خبر بھیجی کہ، ”میں حاملہ ہُوں۔“ \p \v 6 لہٰذا داویؔد نے یُوآبؔ کو یہ پیغام بھیجا: ”حِتّی اورِیّاہؔ کو میرے پاس بھیج دے۔“ یُوآبؔ نے اُسے داویؔد کے پاس بھیج دیا۔ \v 7 جَب اورِیّاہؔ اُس کے پاس آیا تو داویؔد نے اُس سے یُوآبؔ کا خیریت پُوچھی اَور یہ بھی کہ سپاہی کیسے ہیں اَور جنگ کیسی چل رہی ہے؟ \v 8 پھر داویؔد نے اورِیّاہؔ سے کہا، ”اَپنے گھر جا اَور اَپنے پاؤں دھوکر آرام کر۔“ اورِیّاہؔ محل سے چلا گیا اَور بادشاہ کی طرف سے اُس کے پیچھے پیچھے ایک تحفہ بھیجا گیا۔ \v 9 لیکن اورِیّاہؔ شاہی محل کے مدخل پر ہی اَپنے مالک کے سَب خادِموں کے ساتھ سو گیا اَور اَپنے گھر نہ گیا۔ \p \v 10 جَب داویؔد کو مَعلُوم ہُوا، ”اورِیّاہؔ اَپنے گھر نہیں گیا۔“ تو اُس نے اُس سے پُوچھا، ”کیا تُو ابھی ابھی فَوجی مُہم\f + \fr 11‏:10 \fr*\fq فَوجی مُہم \fq*\ft عِبرانی میں سفر سے\ft*\f* سے نہیں آیا ہے؟ تُو اَپنے گھر کیوں نہیں گیا؟“ \p \v 11 اورِیّاہؔ نے داویؔد سے کہا، ”عہد کا صندُوق اَور بنی اِسرائیل اَور یہُوداہؔ خیموں میں رہتے ہیں اَور میرا آقا یُوآبؔ اَور میرے مالک کے آدمی کھُلے کھیتوں میں ڈالے ہُوئے ہیں۔ بھلا میں کس طرح کھانے پینے اَور اَپنی بیوی کے ساتھ سونے کے لیٔے گھر جا سَکتا ہُوں؟ آپ کی حیات کی قَسم میں اَیسا کام نہیں کروں گا!“ \p \v 12 تَب داویؔد نے اُس سے کہا، ”ایک دِن اَور یہاں ٹھہر اَور کل مَیں تُجھے واپس بھیج دُوں گا۔“ اِس لیٔے اورِیّاہؔ اُس دِن اَور اگلے دِن بھی یروشلیمؔ میں رہا۔ \v 13 اَور داویؔد کے بُلانے پر اُس نے اُس کے حُضُور میں کھایا پیا اَور داویؔد نے اُسے خُوب پلا کر متوالا کر دیا۔ لیکن شام کو اورِیّاہؔ اَپنے مالک کے خادِموں کے درمیان اَپنی چٹائی پر سونے کے لیٔے باہر گیا پر اَپنے گھر نہ گیا۔ \p \v 14 صُبح کو داویؔد نے یُوآبؔ کے نام ایک خط لِکھّا اَور اُسے اورِیّاہؔ کے ہاتھ بھیجا۔ \v 15 اِس خط میں اُس نے لِکھّا کہ، ”اورِیّاہؔ کو محاذِ جنگ کی اگلی صف میں رکھنا جہاں سخت لڑائی جاری ہو اَور پھر اُس کے پیچھے سے ہٹ جانا تاکہ وہ بُری طرح زخمی ہو اَور اَپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔“ \p \v 16 لہٰذا جَب یُوآبؔ نے شہر کا محاصرہ کر لیا تو اُس نے اورِیّاہؔ کو اَیسی جگہ رکھا جہاں اُسے مَعلُوم تھا کہ بڑے بہادر آدمی شہر کا دفاع کر رہے ہیں۔ \v 17 جَب اُس شہر کے آدمی باہر نکل کر یُوآبؔ کے خِلاف لڑے تو داویؔد کی فَوج کے کچھ آدمی مارے گیٔے اَور حِتّی اورِیّاہؔ بھی مارا گیا۔ \p \v 18 تَب یُوآبؔ نے قاصِد کے ذریعہ لڑائی کا سارا حال داویؔد کو بھیجا۔ \v 19 اَور قاصِد کو تاکید کی: ”جَب تُو لڑائی کی یہ تفصیل بادشاہ کو بتا چُکے، \v 20 تو ممکن ہے کہ بادشاہ کا غُصّہ بھڑک اُٹھے اَور وہ پُوچھ لے، ’تُم لڑنے کے لیٔے شہر کے اِس قدر نزدیک کیوں گیٔے تھے؟ کیا تُمہیں مَعلُوم نہیں تھا کہ وہ دیوار پر سے تیروں کی بارش کر دیں گے؟ \v 21 یرُب بشیتؔ کے بیٹے اَبی ملیخ کو کس نے مارا؟ کیا وہ ایک عورت نہ تھی جِس نے تبیضؔ میں چکّی کا پاٹ دیوار پر سے اُس کے اُوپر پھینکا تھا جِس سے وہ مَر گیا؟ پھر تُم دیوار کے نزدیک کیوں گیٔے؟‘ تَب جَواب میں اُسے کہنا، ’تیرا خادِم حِتّی اورِیّاہؔ بھی مَر گیا ہے۔‘ “ \p \v 22 چنانچہ وہ قاصِد روانہ ہُوا اَور جَب وہاں پہُنچا تو اُس نے داویؔد کو سَب کچھ بتایا جسے بتانے کے لیٔے یُوآبؔ نے اُسے بھیجا تھا \v 23 قاصِد نے داویؔد سے کہا، ”وہ لوگ ہم پر غالب آئے اَور پھر باہر نکل کر میدان میں ہمارے رُوبرو ہو گئے۔ لیکن ہم نے اُنہیں واپس شہر کے مدخل تک دھکیل دیا۔ \v 24 تَب تیر اَندازوں نے دیوار پر سے آپ کے خادِموں پر تیر برسانے شروع کر دیئے جِن سے بادشاہ کے کچھ آدمی مَر گیٔے اَور آپ کا خادِم حِتّی اورِیّاہؔ بھی مَر گیا۔“ \p \v 25 تَب داویؔد نے قاصِد سے کہا، ”یُوآبؔ سے کہنا: ’اِس واقعہ سے پریشان ہونے کی ضروُرت نہیں۔ تلوار جَیسے ایک کو اَپنا لقمہ بناتی ہے وَیسے ہی دُوسرے کو بھی کھا جاتی ہے شہر پر شِدّت سے حملہ کر اَور اُسے تباہ کر دے۔‘ اِن باتوں سے یُوآبؔ کی حوصلہ اَفزائی کرنا۔“ \p \v 26 جَب اورِیّاہؔ کی بیوی نے سُنا کہ اُس کا خَاوند مَر گیا ہے تو اُس نے اُس کے لیٔے ماتم کیا۔ \v 27 اَور جَب ماتم کرنے کی مُدّت ختم ہو گئی تو داویؔد نے اُسے اَپنے گھر بُلوایا اَور وہ اُس کی بیوی بَن گئی اَور اُس سے اُس کے ایک لڑکا پیدا ہُوا۔ لیکن داویؔد کا یہ کام یَاہوِہ کی نظر میں بُرا تھا۔ \c 12 \s1 ناتنؔ کا داویؔد کو ڈانٹنا \p \v 1 یَاہوِہ نے ناتنؔ کو داویؔد کے پاس بھیجا اَور جَب وہ اُس کے پاس آیا تو کہنے لگاکہ، ”کسی شہر میں دو آدمی تھے، ایک اَمیر تھا اَور دُوسرا غریب۔ \v 2 اُس اَمیر آدمی کے پاس بڑی تعداد میں بھیڑیں اَور مویشی تھے۔ \v 3 لیکن غریب آدمی کے پاس ایک چُھوٹی بھیڑ کے سِوا کچھ نہ تھا جسے اُس نے خرید کر پالا تھا اَور وہ اُس کے بال بچّوں کے ساتھ ہی پرورش پائی تھی۔ وہ اُس کی روٹی کے نوالے کھاتی اَور اُس کے پیالے میں سے پیتی تھی اَور اُس کی گود میں ہی سُوتی تھی اَور اُس کے لیٔے بیٹی کی طرح تھی۔ \p \v 4 ”ایک دِن اُس اَمیر کے یہاں کویٔی مُسافر آیا۔ لیکن وہ اَمیر آدمی جَب اُس مہمان کے لیٔے کھانا تیّار کرنے لگا تو اَپنی بھیڑوں یا مویشیوں میں سے کسی جانور کو ذبح کرنے کی بجائے اُس نے اُس غریب آدمی کی چُھوٹی بھیڑ لے لی اَور اُس سے اَپنے مہمان کے لیٔے کھانا تیّار کیا۔“ \p \v 5 یہ سُن کر داویؔد غُصّہ سے آگ بگُولا ہو گیا اَور اُس نے ناتنؔ سے کہا، ”زندہ یَاہوِہ کی قَسم وہ آدمی جِس نے یہ کام کیا موت کا سزاوار ہے۔ \v 6 اُسے اُس چُھوٹی بھیڑ کے بدلے میں چار گُنا اَدا کرنا پڑےگا کیونکہ اُس نے اَیسا کام کیا اَور اُسے ترس نہ آیا۔“ \p \v 7 تَب ناتنؔ نے داویؔد سے کہا، ”وہ آدمی آپ ہی ہو اَور یَاہوِہ، بنی اِسرائیل کے خُدا کا یہ فرمان ہے: ’مَیں نے تُجھے مَسح کرکے بنی اِسرائیل کا بادشاہ بنایا اَور مَیں نے تُجھے شاؤل کے ہاتھ سے چھُڑایا۔ \v 8 مَیں نے تیرے مالک کا گھر تیرے حوالہ کر دیا، تیرے مالک کی بیوی کو تیرے بازوؤں میں دے دیا اَور مَیں نے بنی اِسرائیل اَور یہُوداہؔ کا گھرانا تُجھے بخش دیا۔ اگر یہ کم تھا تو مَیں تُجھے اَور بھی زِیادہ دیتا۔ \v 9 پھر تُونے اَیسا بُرا کام کرکے یَاہوِہ کے حُکم کی تحقیر کیوں کی؟ تُونے اورِیّاہؔ حِتّی کو تلوار کا لقمہ بنوایا اَور اُس کی بیوی لے کر اُسے اَپنی بیوی بنا لیا۔ تُونے اُسے عمُّونیوں کی تلوار سے قتل کروایا۔ \v 10 اَب وُہی تلوار تیرے گھرانے سے کبھی الگ نہ ہوگی کیونکہ تُونے مُجھے حقیر جانا اَور اورِیّاہؔ حِتّی کی بیوی کو لے کر اَپنی بیوی بنا لیا۔‘ \p \v 11 ”اِس لئے یَاہوِہ یُوں فرماتے ہیں: ’مَیں تیرے اَپنے ہی گھر سے تُجھ پر مُصیبت لانے والا ہُوں اَور تیری بیویوں کو لے کر تیری آنکھوں کے بالکُل سامنے تیرے ہمسایہ کو دوں گا جو دِن دہاڑے اُن سے ہمبستر ہوگا۔ \v 12 تُونے یہ حرکت چھُپ کر کی تھی مگر میں دِن دہاڑے تمام بنی اِسرائیل کے سامنے اَیسا ہونے دُوں گا۔‘ “ \p \v 13 تَب داویؔد نے ناتنؔ سے کہا، ”مَیں نے یَاہوِہ کے خِلاف گُناہ کیا ہے۔“ \p ناتنؔ نے جَواب دیا، ”یَاہوِہ نے بھی آپ کا گُناہ بخش دیا ہے اَور آپ نہیں مَریں گے۔ \v 14 لیکن چونکہ آپ نے اِس کام سے یَاہوِہ کے دُشمنوں کو کُفر بکنے کا موقع دیا ہے اِس لیٔے وہ بیٹا جو آپ سے پیدا ہوگا مَر جائے گا۔“ \p \v 15 اَور ناتنؔ کے اَپنے گھر لَوٹ جانے کے بعد یَاہوِہ نے اُس بچّہ کو مارا جو داویؔد کے یہاں اورِیّاہؔ کی بیوی کے پیٹ سے پیدا ہُوا تھا بیمار ہو گیا۔ \v 16 اِس لیٔے داویؔد نے اُس بچّہ کی صحت یابی کے لیٔے خُدا سے اِلتجا کی اَور روزہ رکھا اَور اَپنے گھر کے اَندر جا کر ساری رات ٹاٹ پہن کر زمین پر پڑے پڑے رات گزاری۔ \v 17 اَور اُس کے گھر کے بُزرگ اُسے زمین پر سے اُٹھانے کے لیٔے اُس کے پاس آ کھڑے ہُوئے لیکن اُس نے اُٹھنے سے اِنکار کر دیا اَور اُن کے ساتھ کھانا بھی نہ کھایا۔ \p \v 18 اَور ساتویں دِن وہ بچّہ مَر گیا اَور داویؔد کے مُلازم اُسے بچّہ کی موت کی خبر دینے سے ڈر رہے تھے اَور آپَس میں کہہ رہے تھے، ”جَب وہ بچّہ زندہ تھا تو داویؔد کو ہماری کویٔی بات سُننا گوارا نہ تھی۔ اَب ہم اُسے کیسے بتائیں کہ وہ بچّہ مَر گیا ہے؟ ہمیں تو ڈر ہے کہ وہ یہ خبر سُن کر کچھ کر نہ بیٹھے۔“ \p \v 19 جَب داویؔد نے دیکھا کہ اُس کے مُلازم آپَس میں کانا پھُوسی کر رہے ہیں تو وہ سمجھ گیا کہ بچّہ مَر چُکاہے۔ لہٰذا اُس نے خُود ہی پُوچھا، ”کیا بچّہ مَر گیا؟“ \p اُنہُوں نے جَواب دیا، ”ہاں وہ مَر چُکاہے۔“ \p \v 20 تَب داویؔد زمین پر سے اُٹھا اَور اُس نے نہانے کے بعد تیل لگایا، کپڑے بدلے اَور یَاہوِہ کے گھر میں جا کر سَجدہ کیا۔ پھر وہ اَپنے گھر گیا اَور کھانا لانے کا حُکم دیا۔ اُنہُوں نے کھانا لاکر اُن کے سامنے رکھا اَور اُنہُوں نے کھایا۔ \p \v 21 اُن کے مُلازموں نے اُس سے پُوچھا، ”آپ اَیسا کیوں کر رہے ہو؟ جَب وہ بچّہ زندہ تھا تو آپ نے روزہ رکھا اَور آنسُو بہائے اَور جَب کہ وہ بچّہ مَر چُکاہے تو آپ نے اَپنے آپ ہی اُٹھ کر کھانا بھی کھا لیا ہے!“ \p \v 22 داویؔد نے جَواب دیا، ”جَب تک وہ بچّہ زندہ تھا مَیں نے روزہ رکھا اَور آنسُو بہائے کیونکہ مَیں نے سوچا، ’کون جانتا ہے کہ یَاہوِہ مُجھ پر مہربان ہو جائے اَور اُس بچّہ کو زندہ رہنے دے۔‘ \v 23 لیکن اَب جَب کہ وہ مَر چُکاہے تو میں روزہ کیوں رکھوں گا؟ کیا میں اُسے پھر واپس لا سَکتا ہُوں؟ میں ہی اُس کے پاس جاؤں گا لیکن وہ لَوٹ کر میرے پاس نہیں آئے گا۔“ \p \v 24 پھر داویؔد نے اَپنی بیوی بتشیبؔا کو تسلّی دی اَور وہ اُس کے پاس گئے اَور ہمبستر ہُوئے۔ اَور اُن کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہُوا اَور اُنہُوں نے اُس کا نام شُلومونؔ رکھا اَور وہ یَاہوِہ کو عزیز تھا۔ \v 25 چونکہ وہ یَاہوِہ کو عزیز تھا اِس لیٔے خُدا نے ناتنؔ نبی کی مَعرفت پیغام بھیج کر اُس کا نام یدیدیاہؔ\f + \fr 12‏:25 \fr*\fq یدیدیاہؔ \fq*\ft یعنی خُدا کا عزیز\ft*\f* رکھا۔ \p \v 26 اِسی دَوران یُوآبؔ نے عمُّونیوں کے ربّہؔ شہر کے خِلاف لڑ کر دارُالحکومت پر قبضہ کر لیا۔ \v 27 تَب یُوآبؔ نے داویؔد کے پاس قاصِد بھیج کر خبر دی، ”مَیں نے ربّہؔ کے خِلاف لڑ کر اُس کے پانی کے ذخیرہ کے شہر پر قبضہ کر لیا۔ \v 28 اَب تُم باقی فَوجیوں کو جمع کرو اَور شہر کا محاصرہ کرکے اُس پر قبضہ کر لو کیونکہ اگر مَیں اُسے فتح کروں گا تو وہ میرے نام سے موسوم ہو جائے گا۔“ \p \v 29 لہٰذا داویؔد نے تمام فَوج کو جمع کرکے ربّہؔ کی طرف کُوچ کیا اَور اُس پر حملہ کرکے اُسے اَپنے قبضہ میں لے لیا۔ \v 30 اُس نے اُن کے بادشاہ کا تاج اُس کے سَر سے اُتار لیا جِس کا وزن سونے کے ایک تالنت\f + \fr 12‏:30 \fr*\fq ایک تالنت \fq*\ft تقریباً 34 کِلوگرام\ft*\f* کے برابر تھا اَور اُس میں قیمتی پتّھر جڑے تھے۔ وہ داویؔد کے سَر پر رکھا گیا۔ اَور آپ نے شہر سے بہت سا مالِ غنیمت بھی حاصل کیا۔ \v 31 اَورجو لوگ وہاں تھے اُنہیں باہر نکال کر آروں، لوہے کی کُدالوں اَور کُلہاڑوں سے محنت مزدُوری کرنے اَور اینٹیں بنانے کے کام پر لگا دیا۔ آپ نے عمُّونیوں کے تمام قصبوں کے ساتھ اَیسا ہی کیا۔ پھر داویؔد اَور اُن کی فَوج کے سَب لوگ یروشلیمؔ کو لَوٹ گئے۔ \c 13 \s1 امنُونؔ اَور تامارؔ \p \v 1 اِسی دَوران داویؔد کا بیٹا امنُونؔ تامارؔ پر عاشق ہو گیا۔ وہ داویؔد کے بیٹے اَبشالومؔ کی بہن تھی اَور بڑی خُوبصورت تھی۔ \p \v 2 امنُونؔ اَپنی بہن تامارؔ کی وجہ سے اِس قدر مایوس ہُوا کہ بیمار پڑ گیا کیونکہ وہ کنواری تھی اَور اُسے اُس کے ساتھ کچھ کرنا دشوار مَعلُوم ہو رہاتھا۔ \p \v 3 اَور داویؔد کے بھایٔی شِمعہؔ کا بیٹا یوُنادابؔ امنُونؔ کا دوست تھا۔ یوُنادابؔ بڑا ہوشیار تھا۔ \v 4 اُس نے امنُونؔ سے پُوچھا، ”تُم تو بادشاہ کے بیٹے ہو پھر روز بروز تمہارا مُنہ کیوں اُترتا جا رہاہے؟ کیا تُم مُجھے نہیں بتاؤ گے؟“ \p امنُونؔ نے اُس سے کہا، ”مُجھے اَپنے بھایٔی اَبشالومؔ کی بہن تامارؔ سے مَحَبّت ہو گئی ہے۔“ \p \v 5 یوُنادابؔ نے اُس سے کہا، ”تُم اَپنے بِستر پر لیٹ جاؤ اَور بیمار ہونے کا بہانہ کر لو، اَور جَب تیرا باپ تُجھے دیکھنے آئے تو اُسے کہنا، ’میری درخواست ہے کہ تُم مہربانی کرکے میری بہن تامارؔ کو آنے دے تاکہ وہ مُجھے کھانا کھِلائے۔ اُسے میرے سامنے کھانا بنانے کی اِجازت دے تاکہ میں اُسے دیکھتا رہُوں اَور پھر اُس ہی کے ہاتھ سے کھانا کھاؤں۔‘ “ \p \v 6 لہٰذا امنُونؔ لیٹ گیا اَور بیماری کا بہانہ کر لیا۔ جَب بادشاہ اُسے دیکھنے آیا تو امنُونؔ نے اُس سے کہا، ”مہربانی کرکے میری بہن تامارؔ کو آنے دیں کہ وہ میری نظروں کے سامنے کچھ ٹکیاں بنائے تاکہ میں اُس کے ہاتھ سے کھاؤں۔“ \p \v 7 داویؔد نے محل میں تامارؔ کو پیغام بھیجا: ”اَپنے بھایٔی امنُونؔ کے گھر جا اَور اُس کے لیٔے کچھ کھانا تیّار کر۔“ \v 8 لہٰذا تامارؔ اَپنے بھایٔی امنُونؔ کے گھر گئی۔ وہ بِستر پر پڑا ہُوا تھا۔ اُس نے کچھ آٹا لیا۔ اُسے گوندھا اَور امنُونؔ کی نظروں کے سامنے ٹکیاں پکائیں۔ \v 9 پھر اُس نے اُنہیں طشتری میں رکھ کر اُس کے سامنے رکھا مگر اُس نے کھانے سے اِنکار کر دیا۔ \p امنُونؔ نے کہا، ”یہاں سے ہر ایک کو باہر بھیج دو۔“ جَب سَب چلے گیٔے \v 10 تو امنُونؔ نے تامارؔ سے کہا، ”کھانا میری خواب گاہ میں لے آ اَور مُجھے اَپنے ہاتھ سے کھِلا۔“ تامارؔ اُن ٹکیوں کو اُٹھاکر اَپنے بھایٔی امنُونؔ کی خواب گاہ میں لے گئی۔ \v 11 لیکن جَب وہ اُنہیں لے کر اُس کے پاس گئی کہ وہ کھائے تو اُس نے جھپٹ کر اُسے پکڑ لیا اَور کہا، ”اَے میری بہن، میرے ساتھ لیٹ جا۔“ \p \v 12 اُس نے اُس سے کہا، ”نہیں میرے بھایٔی، میرے ساتھ زبردستی مت کر کیونکہ اِسرائیلیوں میں اَیسا کام نہیں ہونا چاہئے! اَیسی بدی مت کرو۔ \v 13 میرا کیا ہوگا؟ میں تو بُری طرح رُسوا ہو جاؤں گی اَور تیرا کیا ہوگا؟ تُو اِسرائیل میں ایک بدکار احمق کی مانند گِنا جائے گا۔ مہربانی کرکے بادشاہ سے بات کر۔ وہ مُجھے تیرے ساتھ شادی کرنے سے نہ روکے گا۔“ \v 14 لیکن اُس نے اُس کی ایک نہ سُنی اَور چونکہ وہ اُس سے زِیادہ طاقتور تھا اِس لیٔے اُس نے زبردستی کرکے اُس کی عزّت لُوٹ لی۔ \p \v 15 جَب امنُونؔ اَپنی ہَوس پُوری کر چُکا اُس کی مَحَبّت جِتنی تھی اِس سے کیٔی گُنا نفرت میں بدل گئی۔ لہٰذا امنُونؔ نے اُس سے کہا، ”اُٹھ اَور یہاں سے نکل جا!“ \p \v 16 تامارؔ نے کہا، ”نہیں! مُجھے یہاں سے نکالنا اُس ظُلم سے کہیں بڑھ کر ہوگا جو تُونے پہلے مُجھ پر کیا ہے۔“ \p لیکن اُس نے اُس کی ایک نہ سُنی۔ \v 17 اَور اَپنے ذاتی نوکر کو بُلاکر کہا، ”اِس عورت کو یہاں سے باہر نکال دے اَور دروازہ اَندر سے بند کر دے۔“ \v 18 نوکر نے اُس کو باہر نکال دیا اَور اُس کے پیچھے دروازہ کی چٹخنی لگا دی۔ وہ کشیدہ کاری والا جوڑا پہنے ہُوئے تھی کیونکہ شاہی دوشیزائیں اِسی قِسم کا لباس پہنتی تھیں۔ \v 19 تامارؔ نے اَپنے سَر پر خاک ڈال لی اَور کشیدہ کاری والا لباس جو وہ پہنے ہُوئے تھی پھاڑ ڈالا اَور سَر پر ہاتھ رکھ کر زار زار روتی ہُوئی باہر چلی گئی۔ \p \v 20 اُس کے بھایٔی اَبشالومؔ نے اُس سے کہا، ”کیا تیرے بھایٔی امنُونؔ نے تیرے ساتھ زبردستی کی ہے؟ بہن! اَب چُپ ہو جا کیونکہ وہ تیرا بھایٔی ہے اَور اِس بات کا غم نہ کر۔“ اَور تامارؔ اَپنے بھایٔی اَبشالومؔ کے گھر میں ایک بدنصیب عورت کی طرح پڑی رہی۔ \p \v 21 جَب داویؔد بادشاہ نے یہ سَب باتیں سُنیں تو اُس کے غُصّہ کی کویٔی اِنتہا نہ رہی۔ \v 22 اَور اَبشالومؔ نے امنُونؔ کو کچھ بُرا بھلا تو نہ کہا لیکن امنُونؔ سے نفرت کرنے لگا کیونکہ اُس نے اُس کی بہن تامارؔ کی عزّت لُوٹی تھی۔ \s1 اَبشالومؔ کا امنُونؔ کو قتل کرنا \p \v 23 دو سال بعد جَب اَبشالومؔ کی بھیڑوں کے بال کترنے والے اِفرائیمؔ کی سرحد کے نزدیک بَعل حَصورؔ میں تھے تو اُس نے بادشاہ کے سَب بیٹوں کو وہاں آنے کی دعوت دی۔ \v 24 اَبشالومؔ نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا، ”آپ کے خادِم کے پاس بھیڑوں کے بال کترنے والے آ گیٔے ہیں۔ کیا بادشاہ اَور اُس کے حاکم تشریف لاکر خادِم کو ممنون فرمائیں گے؟“ \p \v 25 بادشاہ نے جَواب دیا: بیٹا! نہیں، ہم سَب کو نہیں جانا چاہئے کیونکہ ہم تُجھ پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ حالانکہ اَبشالومؔ نے اُسے بہت ترغِیب دی پھر بھی اُس نے اِنکار کیا مگر اُس کے حق میں دعا ضروُر فرمائی۔ \p \v 26 تَب اَبشالومؔ نے کہا، ”اگر نہیں تو براہِ کرم میرے بھایٔی امنُونؔ کو ہی میرے ساتھ جانے دیں۔“ \p بادشاہ نے اُس سے پُوچھا، ”کیا اُس کا جانا ضروُری ہے؟“ \p \v 27 لیکن جَب اَبشالومؔ ضِد کرنے لگا تو اُس نے امنُونؔ اَور دیگر بادشاہ کے شہزادوں کو اُس کے ساتھ بھیج دیا۔ \p \v 28 اَبشالومؔ نے اَپنے آدمیوں کو حُکم دیا کہ، ”سُنو! جَب امنُونؔ مَے پی کر بے خُود ہو جائے اَور مَیں تُمہیں کہُوں کہ امنُونؔ کو مارو تو تُم اُسے مار ڈالنا۔ اَور خوف نہ کرنا۔ کیا مَیں تُمہیں حُکم نہیں دے رہا ہُوں؟ پس ہمّت سے کام لینا اَور بہادر بننا۔“ \v 29 لہٰذا اَبشالومؔ کے آدمیوں نے امنُونؔ کے ساتھ وُہی کیا جِس کا اَبشالومؔ نے حُکم دیا تھا۔ تَب بادشاہ کے تمام شہزادے اُٹھ کھڑے ہُوئے اَور اَپنے خچّروں پر سوار ہوکر بھاگ نکلے۔ \p \v 30 وہ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ داویؔد کو اِطّلاع مِلی: ”اَبشالومؔ نے بادشاہ کے تمام شہزادوں کو مار گرایا ہے اَور اُن میں سے کویٔی بھی باقی نہیں بچا ہے۔“ \v 31 یہ سُن کر بادشاہ اُٹھ کھڑا ہُوا، اُس نے اَپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اَور زمین پر لیٹ گیا اَور اُس کے تمام مُلازم بھی اَپنے اَپنے کپڑے پھاڑ کر اُس کے پاس کھڑے ہو گئے۔ \p \v 32 لیکن داویؔد کے بھایٔی شِمعہؔ کے بیٹے یوُنادابؔ نے کہا، ”میرا آقا یہ نہ سوچے کہ بادشاہ کے تمام شہزادے مار ڈالے گیٔے ہیں۔ صِرف امنُونؔ ہی مَرا ہے کیونکہ اُس دِن سے جَب امنُونؔ نے اُس کی بہن تامارؔ کی عصمت دری کی تھی، اَبشالومؔ نے اُسے مار ڈالنے کا پکّا اِرادہ کر لیا تھا۔ \v 33 سو میرے آقا بادشاہ کو اِس اِطّلاع سے کہ تمام شہزادے مار ڈالے گیٔے ہیں، پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ صِرف امنُونؔ ہی مَرا ہے۔“ \p \v 34 اِسی دَوران اَبشالومؔ بھاگ گیا۔ \p اُس آدمی نے جو پہرا دے رہاتھا، ”نگاہ کی تو دیکھا کہ مغرب کی طرف پہاڑی کے دامن میں راستہ پر بہت سے آدمی چلے آ رہے ہیں۔ اُس نے جا کر بادشاہ کو بتایا کہ مَیں نے پہاڑی کے دامن میں حُورونایمؔ کی طرف آدمی دیکھے ہیں۔“ \p \v 35 تَب یوُنادابؔ نے بادشاہ سے کہا، ”دیکھو بادشاہ کے شہزادے آ گیٔے اَور جَیسا آپ کہ خادِم نے کہاتھا بالکُل وَیسا ہی ہُوا۔“ \p \v 36 جوں ہی اُس نے اَپنی بات ختم کی شہزادے آ پہُنچے اَور آہ و زاری کرنے لگے اَور بادشاہ اَور اُس کے سَب مُلازم بھی زار زار رُوئے۔ \p \v 37 اَبشالومؔ بھاگ کر گیشُور کے بادشاہ عمّیہُوؔد کے بیٹے تلمی کے پاس چلا گیا اَور داویؔد اَپنے بیٹے کے لیٔے عرصہ تک ماتم کرتا رہا۔ \p \v 38 اَبشالومؔ بھاگ کر گیشُور جانے کے بعد تین سال تک وہیں رہا۔ \v 39 داویؔد بادشاہ کے دِل میں اَبشالومؔ تک پہُنچنے کی بڑی آرزُو تھی کیونکہ وہ امنُونؔ کی موت کے غم سے تسلّی پاچُکا تھا۔ \c 14 \s1 اَبشالومؔ کا یروشلیمؔ کو واپسی \p \v 1 یُوآبؔ بِن ضرویاہؔ کو محسُوس ہُوا کہ بادشاہ کا دِل اَبشالومؔ کا متمنّی ہے \v 2 اِس لیٔے یُوآبؔ نے کسی کو تقوعؔ بھیج کر وہاں سے ایک چالاک عورت کو بُلوایا اَور اُس سے کہا، ”تُو ایک سوگ منانے والی عورت کا بھیس بدل کر ماتمی کپڑے پہن لے اَور کسی طرح کا بناؤ سنگار کئے بغیر ایک اَیسی عورت کی طرح اداکاری کرنا جو بہت دِنوں سے کسی عزیز کی موت کا ماتم کر رہی ہو۔ \v 3 اَور پھر بادشاہ کے پاس جا کر یہ باتیں کہنا جو میں بتا رہا ہُوں۔“ اَور یُوآبؔ نے وہ باتیں اُسے سِکھا دیں \p \v 4 اَور جَب تقوعؔ کی وہ عورت بادشاہ کے پاس گئی تو اُن کی تعظیم کے لیٔے مُنہ کے بَل زمین پر گری اَور کہا، ”اَے بادشاہ! میری مدد کرو!“ \p \v 5 بادشاہ نے اُس سے کہا، ”تُو کس بات سے پریشان ہے؟“ \p اُس نے کہا، ”درحقیقت میں ایک بِیوہ ہُوں؛ میرا خَاوند مَر چُکاہے۔ \v 6 آپ کی خادِمہ کے دو بیٹے تھے۔ وہ کھیت میں ایک دُوسرے سے لڑنے لگے اَور وہاں اُنہیں چھُڑانے والا کویٔی نہ تھا۔ ایک نے دُوسرے کو اِتنا مارا کہ وہ مَر گیا۔ \v 7 اَور اَب برادری کے سارے لوگ آپ کی خادِمہ کے خِلاف اُٹھ کھڑے ہُوئے ہیں اَور کہتے ہیں کہ جِس نے اَپنے بھایٔی کو مارا ہے اُسے ہمارے حوالہ کرو تاکہ ہم اُسے اَپنے بھایٔی کی جان کے بدلے میں قتل کریں تاکہ کویٔی وارِث ہی نہ رہے۔ وہ اُس ایک اَنگارے کو بھی جو میرے پاس باقی بچ رہاہے، بُجھا دینا چاہتے ہیں تاکہ رُوئے زمین پر میرے خَاوند کا نام و نِشان باقی نہ رہے اَور اُس کی نَسل نابود ہو جائے۔“ \p \v 8 بادشاہ نے اُس عورت سے کہا، ”تُو گھر جا اَور مَیں تیری خاطِر ایک حُکم نامہ جاری کروں گا۔“ \p \v 9 لیکن تقوعؔ کی اُس عورت نے کہا، ”میرے آقا بادشاہ! سارا جُرم مُجھ پر اَور میرے باپ کے گھرانے پر ہی رہنے دیں۔ آپ پر اَور آپ کے تخت پر بے اِلزام ٹھہرے۔“ \p \v 10 بادشاہ نے جَواب دیا کہ، ”اگر کویٔی تُجھے کچھ کہے تو اُسے میرے پاس لے آنا اَور پھر وہ تُجھے تنگ نہیں کرےگا۔“ \p \v 11 اُس عورت نے کہا، ”بادشاہ سلامت! میری گزارش ہے کہ یَاہوِہ اَپنے خُدا سے اِلتجا کریں کہ خُون کا اِنتقام لینے والا مزید بربادی سے باز آئے اَور میرے بیٹے کو ہلاک نہ کرنے پایٔے۔“ \p اُس نے کہا، ”زندہ یَاہوِہ کی قَسم، تیرے بیٹے کا ایک بال بھی زمین پر نہیں گرنے پایٔےگا۔“ \p \v 12 تَب اُس عورت نے کہا، ”اِس خادِمہ کو اَپنے آقا بادشاہ سے ایک بات کہنے کی اِجازت ملے!“ \p اُنہُوں نے جَواب دیا، ”کہئے۔“ \p \v 13 اُس عورت نے کہا: ”پھر آپ نے خُدا کے لوگوں کے خِلاف اَیسی تدبیر کیوں کی ہے؟ جَب بادشاہ یہ کہتاہے تو کیا وہ اَپنے آپ کو مُجرم نہیں ٹھہراتا کیونکہ بادشاہ اَپنے جَلاوطن بیٹے کو واپس نہیں لایا؟ \v 14 جَیسے زمین پر گِرے ہُوئے پانی کو دوبارہ جمع نہیں کیا جا سَکتا وَیسے ہی ہمیں موت کے مُنہ میں چلے جاناہے۔ لیکن خُدا کسی کی جان نہیں لیتا بَلکہ اُس کی بجائے وہ اَیسے وسائل پیدا کر دیتاہے کہ جَلاوطن کیا ہُوا شخص بھی اُس سے دُور نہ رہے۔ \p \v 15 ”چونکہ لوگوں نے مُجھے ڈرا دیا تھا اِس لیٔے میں اَپنے آقا بادشاہ کو یہ کہنے آئی اَور اِس خادِمہ نے سوچا، ’میں بادشاہ سے عرض کروں گی، شاید بادشاہ اَپنی خادِمہ کی عرض پُوری کر دیں۔ \v 16 اَور شاید بادشاہ اَپنی خادِمہ کو اُس آدمی کے ہاتھ سے چھُڑانے کے لیٔے رضامند ہو جائیں جو مُجھے اَور میرے بیٹے دونوں کو اُس مِیراث سے جو خُدا نے ہمیں بخشی ہے خارج کرنے کی کوشش کر رہاہے۔‘ \p \v 17 ”اَور اَب آپ کی خادِمہ کو اُمّید ہے، ’میرے آقا بادشاہ کی بات مُجھے سکون بخشے گی کیونکہ میرا مالک بادشاہ نیکی اَور بدی کے اِمتیاز میں خُدا کے فرشتہ کی مانند ہے۔ یَاہوِہ آپ کے خُدا آپ کے ساتھ ہُوں۔‘ “ \p \v 18 تَب بادشاہ نے اُس عورت سے کہا، ”جو کچھ مَیں تُجھ سے پُوچھنے والا ہُوں صَاف صَاف بتانا اَور مُجھ سے کچھ مت چھُپانا۔“ \p عورت نے کہا، ”میرا آقا بادشاہ فرمائیں!“ \p \v 19 تَب بادشاہ نے کہا، ”تُجھے یہ سَب کچھ یُوآبؔ نے سِکھا کر بھیجا ہے، ہے نا؟“ \p عورت نے جَواب دیا: ”آپ کے جان کی قَسم اَے میرے آقا بادشاہ، اِن باتوں سے جو میرے مالک بادشاہ نے فرمائی ہیں کون اِنکار کر سَکتا ہے! ہاں یہ آپ کا خادِم یُوآبؔ ہی تھا جِس نے مُجھے اَیسا کرنے کا حُکم دیا اَور مُجھے پٹّی پڑھا کر بھیجا۔ \v 20 آپ کے خادِم یُوآبؔ نے مَوجُودہ صورت حال کو بدلنے کے لیٔے اَیسا کیا۔ میرا آقا بادشاہ یَاہوِہ کے فرشتہ کی طرح دانشمند ہے جو مُلک میں ہونے والی ہر بات کو جانتا ہے۔“ \p \v 21 تَب بادشاہ نے یُوآبؔ سے کہا، ”ٹھیک! مَیں نے تیری بات مان لی لہٰذا جا اَور اُس جَوان اَبشالومؔ کو واپس لے آ۔“ \p \v 22 یُوآبؔ نے مُنہ کے بَل زمین پر گِر کر اُسے سَجدہ کیا اَور بادشاہ کو مُبارکباد دی۔ یُوآبؔ کہنے لگا، ”اَے میرے آقا بادشاہ، آج مُجھے یقین ہو گیا کہ مُجھ پر آپ کی نظرِکرم ہے کیونکہ بادشاہ نے اَپنے خادِم کی درخواست قبُول فرمائی ہے۔“ \p \v 23 پھر یُوآبؔ گیشُور گیا اَور اَبشالومؔ کو واپس یروشلیمؔ لے آیا۔ \v 24 لیکن بادشاہ نے فرمایا، ”وہ سیدھا اَپنے گھر جائے اَور میرا مُنہ نہ دیکھے۔“ لہٰذا اَبشالومؔ اَپنے گھر چلا گیا اَور بادشاہ کا مُنہ تک نہ دیکھ پایا۔ \p \v 25 اَبشالومؔ اِتنا حسین تھا کہ سارے اِسرائیل میں اُس کا کویٔی ثانی نہ تھا۔ اُس میں سَر سے پاؤں تک کویٔی بھی عیب نہ تھا۔ \v 26 اُس کے سَر کے بال اِتنے گھنے تھے کہ وہ اُنہیں ہر سال منڈوایا کرتا تھا اَور جَب اُن کا وزن کرتا تھا تو وہ شاہی تول کے مُطابق دو سَو ثاقل\f + \fr 14‏:26 \fr*\fq دو سَو ثاقل \fq*\ft تقریباً سَوا دو کِلوگرام\ft*\f* ہوتا تھا۔ \p \v 27 اَور اَبشالومؔ سے تین بیٹے پیدا ہُوئے اَور ایک بیٹی۔ بیٹی کا نام تامارؔ تھا اَور وہ بڑی خُوبصورت عورت تھی۔ \p \v 28 اَبشالومؔ پُورے دو سال یروشلیمؔ میں رہا لیکن اُسے بادشاہ کا مُنہ دیکھنا نصیب نہ ہُوا۔ \v 29 پھر اَبشالومؔ نے یُوآبؔ کو بُلوایا تاکہ اُسے بادشاہ کے پاس بھیجے۔ لیکن یُوآبؔ نے اُس کے پاس آنے سے اِنکار کر دیا۔ اُس نے دوبارہ بُلوایا لیکن وہ نہ آیا۔ \v 30 تَب اُس نے اَپنے خادِموں سے کہا: ”دیکھو میرے کھیت کے بعد یُوآبؔ کا کھیت ہے اَور اُس میں اُس کے جَو ہیں۔ جاؤ اَور اُس میں آگ لگا دو۔“ لہٰذا اَبشالومؔ کے خادِموں نے کھیت میں آگ لگا دی۔ \p \v 31 تَب یُوآبؔ اَبشالومؔ کے گھر گیا اَور اُس سے کہا، ”تیرے خادِموں نے میرے کھیت میں آگ کیوں لگائی ہے؟“ \p \v 32 اَبشالومؔ نے یُوآبؔ سے کہا، ”دیکھ، مَیں نے تُجھے پیغام بھیج کر بُلا لیا تھا، ’تاکہ مَیں تُجھے بادشاہ کے پاس یہ پُوچھنے کے لیٔے بھیج سکوں، ”مُجھے گیشُور سے یہاں کس لیٔے لایا گیا ہے؟ میرے لیٔے تو یہی بہتر تھا کہ مَیں ابھی تک وہیں رہتا!“ ‘ اَب مَیں بادشاہ کا مُنہ دیکھنا چاہتا ہُوں اَور اگر مَیں کسی بات کے لیٔے قُصُوروار ہُوں تو وہ مُجھے مار ڈالے۔“ \p \v 33 پس یُوآبؔ بادشاہ کے پاس گیا اَور اُسے یہ بات بتایٔی۔ تَب بادشاہ نے اَبشالومؔ کو طلب کیا۔ وہ آیا اَور بادشاہ کے سامنے مُنہ کے بَل زمین پر جھُکا اَور بادشاہ نے اَبشالومؔ کا مُنہ چُوم لیا۔ \c 15 \s1 اَبشالومؔ کی سازش \p \v 1 اِسی اَثنا میں اَبشالومؔ نے اَپنے لیٔے ایک رتھ اَور گھوڑے اَور اَپنے آگے دَوڑنے کے لیٔے پچاس آدمی حاصل کر لیٔے۔ \v 2 اَبشالومؔ سویرے اُٹھ بیٹھتا اَور شہر کے پھاٹک کو جانے والے راستہ کے کنارے کھڑا ہو جاتا۔ اَور جَب بھی وہ کسی کو اَپنے مُقدّمہ کے فیصلہ کے لیٔے بادشاہ کے پاس جاتے دیکھتا تو اُسے آواز دے کر پُوچھتا، ”تُم کون سے قصبہ سے ہو؟“ وہ جَواب دیتا، ”آپ کے خادِم اِسرائیل کے فُلاں قبیلہ کا ہے۔“ \v 3 تو اَبشالومؔ اُسے کہتا کہ، ”دیکھ تیرا دعویٰ تو صحیح ہے مگر اُسے سُننے کے لیٔے وہاں بادشاہ کا کویٔی نُمائندہ مَوجُود نہیں ہے۔“ \v 4 پھر اَبشالومؔ مزید کہتا، ”کاش میں مُلک کا قاضی بنایا گیا ہوتا! تَب ہر کویٔی اَپنا مُقدّمہ یا دعویٰ لے کر میرے پاس آتا اَور مَیں اُس کا اِنصاف کرتا۔“ \p \v 5 نیز جَب کویٔی اُسے جھُک کر سلام کرنے کے لیٔے اُس کے قریب آتا تو اَبشالومؔ اَپنا ہاتھ بڑھا کر اُسے پکڑ لیتا تھا اَور چُومتا تھا۔ \v 6 غرض اَبشالومؔ تمام بنی اِسرائیلیوں کے ساتھ جو اِنصاف کے لیٔے بادشاہ کے پاس آتے تھے، اِس طرح پیش آتا تھا اَور یُوں اُس نے اِسرائیل کے تمام لوگوں کے دِل جیت لیٔے۔ \p \v 7 چار سال اِس طرح گزر گئے۔ آخِر میں اَبشالومؔ نے بادشاہ سے کہا، ”مُجھے حِبرونؔ جانے اَور اَپنی مَنّت کو جو مَیں نے یَاہوِہ کے لیٔے مانی ہے پُوری کرنے کی اِجازت عطا فرمائی جائے۔ \v 8 جَب آپ کا خادِم ارام کے شہر گیشُور میں رہتا تھا تو مَیں نے یہ مَنّت مانی تھی: ’اگر یَاہوِہ مُجھے واپس یروشلیمؔ لے جائیں تو میں حِبرونؔ میں یَاہوِہ کی عبادت کروں گا۔‘ “ \p \v 9 بادشاہ نے اُس سے کہا: ”جا، سلامتی سے رخصت ہو!“ لہٰذا وہ حِبرونؔ چلا گیا۔ \p \v 10 تَب اَبشالومؔ نے اِسرائیل کے سَب قبیلوں میں خُفیہ طور پر قاصِد بھیج کر مُنادی کرادی، ”جوں ہی نرسنگے کی آواز سُنایٔی دے تو سَب بول اُٹھیں، ’اَبشالومؔ حِبرونؔ میں بادشاہ ہے۔‘ “ \v 11 یروشلیمؔ سے دو سَو آدمی اَبشالومؔ کے ہمراہ گیٔے تھے۔ اُنہیں بطور مہمان دعوت دی گئی تھی اَور وہ بڑی سادہ دِلی کے ساتھ اُس کے ہمراہ ہو لیٔے تھے کیونکہ وہ اِس مُعاملہ سے قطعی ناواقِف تھے۔ \v 12 جَب اَبشالومؔ قُربانیاں گزران رہاتھا تو اُس نے داویؔد کے مُشیر اخِیتُفلؔ گِلونی کو بھی اُس کے آبائی شہر گِلوہؔ سے بُلوایا۔ اِس طرح اُس سازش کو مضبُوطی مِل گئی اَور اَبشالومؔ کے حامی بڑھتے چلے گیٔے۔ \s1 داویؔد کا فرار ہونا \p \v 13 ایک قاصِد نے آکر داویؔد کو بتایا کہ، ”اِسرائیل کے لوگوں کے دِل اَبشالومؔ کی طرف ہیں۔“ \p \v 14 تَب داویؔد نے اَپنے تمام مُلازمین سے جو اُس کے ساتھ یروشلیمؔ میں تھے کہا، ”آؤ، ہم بھاگ چلیں ورنہ ہم میں سے کویٔی بھی اَبشالومؔ کے ہاتھ سے بچ کر نکلنے نہ پایٔےگا۔ ہمیں فوراً چل دینا چاہئے ورنہ وہ فوراً کُوچ کرکے ہمیں آ لے گا اَور تباہ کر دے گا اَور سارے شہر کو تلوار سے ہلاک کر ڈالے گا۔“ \p \v 15 بادشاہ کے مُلازمین نے جَواب دیا کہ، ”جو کچھ ہمارا مالک بادشاہ چاہے، آپ کے خادِم کرنے کو تیّار ہیں۔“ \p \v 16 تَب بادشاہ وہاں سے نِکلا اَور اُس کا سارا گھرانا اُس کے پیچھے چلا۔ لیکن اُس نے دس داشتاؤں کو محل کی نگہبانی کے لیٔے وہیں چھوڑ دیا۔ \v 17 پس بادشاہ اَپنے تمام لوگوں کے ساتھ جو اُس کے پیچھے پیچھے تھے، روانہ ہُوا۔ وہ کچھ فاصلہ پر ایک جگہ رُک گیٔے۔ \v 18 اَور اُس کے تمام مُلازمین اُس کے آگے ہوکر گزرے۔ نیز سَب کریتی اَور سَب پِلیتھی اَور وہ تمام چھ سَو گِتّی جو گاتؔھ سے بادشاہ کے ساتھ ہو لیٔے تھے، اُس کے سامنے آگے چلے۔ \p \v 19 بادشاہ نے گِتّی اِتّی سے کہا، ”تُم ہمارے ساتھ کیوں چلتےہو؟ واپس جاؤ اَور اَبشالومؔ بادشاہ کے پاس رہو کیونکہ تُم تو پردیسی ہو اَور جَلاوطن ہے۔ \v 20 اَور تُم کل ہی تو آئے ہو۔ کیا آج مَیں تُجھے اَپنے ساتھ اِدھر اُدھر لیٔے پھروں؟ مُجھے تو یہ بھی مَعلُوم نہیں کہ میں کہاں جا رہا ہُوں؟ لہٰذا واپس ہو جا اَور اَپنے عزیزوں کو بھی ساتھ لیتا جا۔ یَاہوِہ کی رحمت اَور راستی تیرے ساتھ ہُوں!“ \p \v 21 لیکن اِتّی نے بادشاہ کو جَواب دیا، ”زندہ یَاہوِہ کی قَسم، اَور میرے آقا بادشاہ کی جان کی قَسم جہاں کہیں میرا آقا بادشاہ ہوگا وہیں آپ کا خادِم ہوگا۔ مَیں آپ کے ساتھ ہی جیوں گا اَور آپ کے ساتھ ہی مروں گا۔“ \p \v 22 داویؔد نے اِتّی سے کہا، ”آگے بڑھ اَور چلنا شروع کر۔“ پس گِتّی اِتّی اَپنے تمام آدمیوں اَور اَپنے بال بچّوں کے ساتھ آگے چل دیا۔ \p \v 23 اُن لوگوں کو جاتے دیکھ کر دیہات کے سَب لوگ بُلند آواز سے رونے لگے۔ بادشاہ نے بھی قِدرُونؔ کی وادی کو پار کیا اَور تمام لوگ بیابان کی طرف آگے بڑھتے چلے گیٔے۔ \p \v 24 اَور صدُوقؔ بھی وہاں تھا۔ اَور تمام لیوی جو اُس کے ساتھ آئےتھے خُدا کے عہد کا صندُوق بھی ہمراہ لایٔے۔ اُنہُوں نے خُدا کے صندُوق کو نیچے رکھ دیا۔ ابیاترؔ اُوپر جا کھڑا ہُوا اَور جَب تک کہ تمام لوگ شہر سے باہر نکل نہ آئے وہ وہیں کھڑا رہا۔ \p \v 25 تَب بادشاہ نے صدُوقؔ سے کہا، ”خُدا کے صندُوق کو واپس شہر میں لے جا۔ اگر مُجھ پر یَاہوِہ کی نظرِکرم ہوگی تو وہ مُجھے واپس لے آئے گا اَور موقع دے گا کہ میں اِسے اَور اِس کی قِیام گاہ کو پھر سے دیکھ سکوں۔ \v 26 لیکن اگر وہ فرمایٔے، ’میں تُم سے خُوش نہیں ہُوں،‘ تَب میں تیّار ہُوں کہ جو کچھ اُسے بھلا مَعلُوم ہو میرے ساتھ کرے۔“ \p \v 27 اَور بادشاہ نے صدُوقؔ کاہِنؔ سے یہ بھی کہا، ”تُم تو غیب بین ہو، ہے نا؟ پس تُم اَپنے بیٹے اخِیمعضؔ کو اَور ابیاترؔ اَور اُس کے بیٹے یُوناتانؔ کو ساتھ لے کر سلامتی سے شہر واپس چلے جاؤ۔ \v 28 اَور مَیں بیابان کے سبزہ زار میں تمہارے پیغام کا اِنتظار کروں گا۔“ \v 29 سو صدُوقؔ اَور ابیاترؔ خُدا کے صندُوق کو واپس یروشلیمؔ لے گیٔے اَور وہیں رہے۔ \p \v 30 داویؔد کوہِ زَیتُون کی چڑھائی پر چڑھتا جا رہاتھا اَور اُس کی آنکھوں سے آنسُو بہ رہے تھے۔ اُس کا سَر ڈھکا ہُوا تھا اَور وہ ننگے پاؤں تھا۔ اُس کے ساتھ سَب لوگوں نے بھی اَپنے سَر ڈھانکے ہُوئے تھے اَور وہ روتے ہُوئے اُوپر چڑھتے جا رہے تھے۔ \v 31 داویؔد کو خبر مِلی، ”سازش کرنے والوں میں اَبشالومؔ کے ساتھ اخِیتُفلؔ بھی شامل ہے۔“ لہٰذا داویؔد نے دعا مانگی، ”یَاہوِہ! اخِیتُفلؔ کی صلاح اَور مشورت کو ناکام بنادے۔“ \p \v 32 تَب داویؔد اُس چوٹی پر پہُنچا جہاں لوگ خُدا کی عبادت کیا کرتے تھے ارکی حُوشائی اُس کا اِستِقبال کرنے کے لیٔے حاضِر تھا۔ اُس نے اَپنی قبا چاک کی ہُوئی تھی اَور سَر پر خاک ڈال رکھی تھی۔ \v 33 داویؔد نے اُس سے کہا: ”اگر تُو میرے ساتھ جائے گا تو مُجھ پر بوجھ بنا رہے گا۔ \v 34 لیکن اگر تُو شہر لَوٹ جائے اَور اَبشالومؔ سے کہے، ’اَے بادشاہ! مَیں آپ کی خدمت مَیں حاضِر ہُوا ہُوں جَیسے مَیں ماضی میں تیرے باپ کا خادِم تھا اَب تمہارا خادِم ہُوں۔‘ اِس طرح سے تُم اخِیتُفلؔ کی صلاح کو ناکام بنا کر میری مدد کر سکتے ہو۔ \v 35 اَور کیا وہاں صدُوقؔ اَور ابیاترؔ کاہِنؔ تیرے ساتھ نہ ہوں گے؟ پس بادشاہ کے محل میں تُم جو کچھ بھی سُنو اُن دونوں کو بتا دیا کرنا۔ \v 36 اُن کے دو بیٹے اخِیمعضؔ بِن صدُوقؔ اَور یُوناتانؔ بِن ابیاترؔ بھی وہاں اُن کے ساتھ ہیں۔ اَورجو بات تُم سُنو، اُن کے ذریعہ مُجھ تک پہُنچا دینا۔“ \p \v 37 جَب داویؔد کا ہمراز حُوشائی یروشلیمؔ پہُنچا تو اَبشالومؔ شہر میں داخل ہو رہاتھا۔ \c 16 \s1 داویؔد اَور ضیباؔ \p \v 1 جَب داویؔد پہاڑ کی چوٹی سے تھوڑی دُور آگے نکل گیا تو وہاں مفِیبوستؔ کا خادِم ضیباؔ اُس کا اِستِقبال کرنے کے لیٔے منتظر تھا۔ اُس کے پاس گدھے تھے جِن پر زینیں کسی ہُوئی تھیں اَور جِن پر دو سَو روٹیاں، کشمش کی ایک سَو ٹکیاں، اَنجیر کی ایک سَو ٹکیاں اَور مَے کا ایک مشکیزہ لدا ہُوا تھا۔ \p \v 2 بادشاہ نے ضیباؔ سے پُوچھا، ”تُم اِنہیں کس لیٔے لائے ہو؟“ \p ضیباؔ نے جَواب دیا کہ گدھے بادشاہ کے گھرانے کی سواری کے لیٔے ہیں اَور روٹی اَور پھل لوگوں کے کھانے کے لیٔے ہیں اَور مَے اُن لوگوں کے لیٔے ہے جو بیابان میں تھک کر چُور ہو جایٔیں تاکہ اُسے پی کر تازہ دَم ہو سکیں۔ \p \v 3 تَب بادشاہ نے پُوچھا کہ، ”تیرے آقا کا پوتا کہاں ہے؟“ \p ضیباؔ نے اُسے جَواب دیا کہ وہ یروشلیمؔ میں ٹھہرا ہُواہے کیونکہ اُس کا خیال ہے کہ آج اِسرائیل کا گھرانا میرے دادا کی بادشاہی مُجھے دے دے گا۔ \p \v 4 تَب بادشاہ نے ضیباؔ سے کہا، ”وہ سَب جو مفِیبوستؔ کا تھا، اَب تیرا ہے۔“ \p ”میں جھُک کر آداب بجا لاتا ہُوں۔“ ضیباؔ نے کہا، ”اَے میرے آقا بادشاہ مُجھ پر آپ کی نظرِکرم رہے۔“ \s1 شِمعیؔ کا داویؔد پر لعنت کرنا \p \v 5 اَور جَب داویؔد بادشاہ بحوریمؔ کے قریب پہُنچا تو وہاں سے ایک آدمی جو شاؤل ہی کے برادری سے تھا نکل کر باہر آیا۔ اُس کا نام شِمعیؔ بِن گیراؔ تھا۔ باہر آتے ہی اُس نے لعنت بھیجنا شروع کر دیا \v 6 وہ داویؔد اَور بادشاہ کے تمام مُلازمین پر پتّھر پھینکنے لگا حالانکہ سَب لوگ اَور جنگی جَوان داویؔد کے داہنے اَور بائیں تھے۔ \v 7 لعنت کرتے وقت شِمعیؔ نے کہا: ”دفع ہو جا۔ دُورہو جا۔ او خُونی۔ او بدکار! \v 8 تُم نے شاؤل کے تخت پر قبضہ جمالیا، اُس کے گھرانے کے لوگوں کا خُون بہایا۔ یَاہوِہ نے تُجھ سے اُسی کا بدلہ لیا ہے۔ یَاہوِہ نے بادشاہی تیرے بیٹے اَبشالومؔ کو دے دی ہے۔ تُو خُونی ہے اِسی لیٔے تباہی اَور بربادی کا شِکار ہو رہاہے۔“ \p \v 9 تَب ابیشائی بِن ضرویاہؔ نے بادشاہ سے کہا، ”یہ مریل کُتّا اَور میرے آقا بادشاہ پر لعنت کرے؟ مُجھے اِجازت دیں کہ جا کر اُس کا سَر قلم کر دُوں۔“ \p \v 10 لیکن بادشاہ نے کہا، ”اَے بنی ضرویاہؔ۔ تُم کیوں پریشان ہوتے ہو؟ اگر وہ لعنت کر رہاہے تو اِس لیٔے کہ یَاہوِہ نے اُسے حُکم دیا ہوگا، ’داویؔد پر لعنت کرے،‘ پس کون پُوچھ سکےگا، ’تُم کیوں اَیسا کر رہے ہو؟‘ “ \p \v 11 پھر داویؔد نے ابیشائی اَور تمام مُلازمین سے کہا، ”جَب میرا ہی بیٹا جو میرا اَپنا خُون اَور گوشت ہے، مُجھے جان سے مار ڈالنا چاہتے ہیں تو یہ بِنیامینی جِتنا بھی کرے کم ہے۔ اُسے چھوڑ دو اَور لعنت کرنے دو کیونکہ یَاہوِہ نے اُسے حُکم دیا ہے۔ \v 12 شاید یَاہوِہ میری ذِلّت پر نظر کریں اَورجو لعنت آج مُجھے مِل رہی ہے آج اَپنی لعنت کے بجائے اَپنی عہد کی نِعمت مُجھے واپس کر دیں۔“ \p \v 13 لہٰذا داویؔد اَور اُس کے لوگ اُس راستے سے گزرتے گیٔے اَور شِمعیؔ سامنے کی پہاڑی کی ڈھلوان کے ساتھ ساتھ چلتے ہُوئے لعنت کرتا، پتّھر پھینکتا اَور خاک اُڑاتا جا رہاتھا۔ \v 14 اَور بادشاہ اَور اُس کے ہمراہ تمام لوگ تھکے ماندے اَپنی منزلِ مقصود پر پہُنچے اَور تازہ دَم ہُوئے۔ \s1 حُوشائی اَور اخِیتُفلؔ کی صلاح \p \v 15 اِس دَوران اَبشالومؔ اَور اِسرائیل کے تمام لوگ یروشلیمؔ کو آ گئے اَور اخِیتُفلؔ اُس کے ساتھ تھا۔ \v 16 تَب داویؔد کے ہمراز ارکی حُوشائی نے اَبشالومؔ کے پاس جا کر کہا، ”بادشاہ سلامت رہے! بادشاہ سلامت رہے!“ \p \v 17 اَبشالومؔ نے حُوشائی سے پُوچھا، ”کیا یہ وہ مَحَبّت تو نہیں جو تیرے دِل میں اَپنے دوست کے لیٔے ہے؟ تُو اَپنے دوست کے ساتھ کیوں نہیں گیا؟“ \p \v 18 حُوشائی نے اَبشالومؔ سے کہا: ”نہیں، جسے یَاہوِہ نے، اِن لوگوں نے اَور اِسرائیل کے سَب لوگوں نے چُنا میں اُسی کا ہُوں اَور اُسی کی خدمت میں رہُوں گا۔ \v 19 علاوہ اِس کے میں کس کی خدمت کروں؟ کیا مُجھے اُس کے بیٹے کی خدمت نہیں کرنا چاہئے؟ جَیسے مَیں نے تیرے باپ کی خدمت کی وَیسے ہی آپ کی خدمت کروں گا۔“ \p \v 20 اَبشالومؔ نے اخِیتُفلؔ سے کہا، ”مُجھے صلاح دیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟“ \p \v 21 اخِیتُفلؔ نے اَبشالومؔ کو جَواب دیا: ”تُم اَپنے باپ کی اُن داشتاؤں کے ساتھ صحبت کر جنہیں وہ محل کی نگہبانی کے لیٔے چھوڑ گیا ہے۔ تَب تمام اِسرائیل سُنے گا کہ تیرے باپ کو تُجھ سے گھِن آنے لگی ہے۔ یُوں جو تیرے ساتھ ہیں اُن کے ہاتھ مضبُوط ہوں گے۔“ \v 22 پس اُنہُوں نے اَبشالومؔ کے لیٔے چھت پر ایک خیمہ لگا دیا اَور وہ تمام اِسرائیل کے سامنے اَپنے باپ کی داشتاؤں کے پاس جانے لگا۔ \p \v 23 اُن دِنوں اخِیتُفلؔ کی ہر صلاح خُدا داد صلاح کی مانند سَمجھی جاتی تھی۔ داویؔد اَور اَبشالومؔ دونوں اخِیتُفلؔ کی صلاح کو یہی درجہ دیتے تھے۔ \c 17 \p \v 1 اَور اخِیتُفلؔ نے اَبشالومؔ سے کہا: ”اگر آپ اِجازت دیں تو میں بَارہ ہزار آدمی چُن کر آج ہی رات کو داویؔد کے تعاقب میں روانہ ہو جاؤں \v 2 اَور مَیں چاہتا ہُوں کہ جَب وہ تھکا ماندہ اَور کمزور دِکھائی دے اُس وقت اُس پر حملہ کر دُوں۔ میں اُسے خوفزدہ کر دُوں گا اَور سَب لوگ جو اُس کے ساتھ ہیں بھاگ جایٔیں گے۔ میں صِرف بادشاہ کو مار گرانا چاہتا ہُوں \v 3 تاکہ تمام لوگوں کو واپس آپ کے پاس لے آؤں۔ جِس آدمی کی آپ کو تلاش ہے اُس کی موت کا مطلب ہوگا سَب کی سلامتی۔ اِس طرح وہ سَب کے سَب بچ جایٔیں گے۔“ \v 4 یہ تجویز اَبشالومؔ اَور سَب اِسرائیلی بُزرگوں کو پسند آئی۔ \p \v 5 لیکن اَبشالومؔ نے کہا، ”ارکی حُوشائی کو بھی طلب کر تاکہ ہم سُن سکیں کہ اُس کی رائے کیا ہے۔“ \v 6 جَب حُوشائی اُس کے پاس آیا تو اَبشالومؔ نے اُسے بتایا، ”اخِیتُفلؔ نے یہ صلاح دی ہے۔ کیا ہمیں اُس کے کہنے کے مُطابق عَمل کرنا چاہئے؟ اگر نہیں تو ہمیں بتا کہ تیری کیا تجویز ہے؟“ \p \v 7 حُوشائی نے اَبشالومؔ کو جَواب دیا، ”اخِیتُفلؔ نے جو صلاح اِس دفعہ دیا ہے وہ ٹھیک نہیں۔ \v 8 حُوشائی نے مزید کہا کہ آپ اَپنے باپ کو اَور اُن کے آدمیوں کو جانتے ہیں کہ وہ جنگجو ہیں اَور اَیسی جنگلی ریچھنی کی طرح جھلّائے ہُوئے ہیں جِس کے بچّے اُس سے چھین لیٔے گیٔے ہُوں۔ علاوہ ازیں آپ کے باپ ایک تجربہ کار جنگی مَرد ہیں۔ وہ رات کے وقت فَوجیوں کے ساتھ نہیں ٹھہریں گے۔ \v 9 اَور اَب بھی غار میں یا کسی اَور جگہ چھُپے ہُوئے ہوں گے۔ اگر پہلے وہ آپ کے فَوجیوں پر ٹوٹ پڑے تو جو کویٔی بھی اِس کے متعلّق سُنے گا یہ کہے گا، ’اَبشالومؔ کے حمایتی فَوجیوں کی خُونریزی شروع ہو گئی ہے۔‘ \v 10 تَب بہادر سے بہادر اَور شیر دِل سپاہی بھی ڈر سے پگھل کر رہ جائے گا کیونکہ تمام بنی اِسرائیل کو مَعلُوم ہے کہ آپ کے باپ اَور وہ لوگ جو اُن کے ساتھ ہیں بڑے دِلیر سپاہی ہیں۔ \p \v 11 ”لہٰذا مَیں آپ کو صلاح دیتا ہُوں کہ دانؔ سے لے کر بیرشبعؔ تک تمام اِسرائیلی جو سمُندر کی ریت کی مانند لاتعداد ہیں آپ کے پاس جمع ہُوں اَور آپ خُود جنگ میں اُن کی قیادت کرنا۔ \v 12 تَب جہاں کہیں بھی وہ ہوں گے ہم اُن پر حملہ کریں گے اَور اُن پر اَیسے گریں گے جَیسے شبنم زمین پر گرتی ہے۔ ہم اُنہیں اَور اُن کے کسی آدمی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے۔ \v 13 اگر وہ کسی شہر میں چلا جائے تو تمام اِسرائیل اِس شہر میں رسّیاں لے آئیں گے اَور ہم اِسے گھسیٹ کر وادی میں لے جائیں گے یہاں تک کہ ایک کنکری بھی باقی نہ رہ جائے۔“ \p \v 14 تَب اَبشالومؔ اَور سارے اِسرائیلی لوگوں نے کہا، ”ارکی حُوشائی نے جو صلاح دی ہے وہ اخِیتُفلؔ کی صلاح سے بہتر ہے۔“ کیونکہ یَاہوِہ کی طرف سے پہلے ہی سے طے ہو چُکاتھا کہ اخِیتُفلؔ کی بہتر صلاح ناکام ثابت ہو اَور اَبشالومؔ پر آفت نازل ہو۔ \p \v 15 پھر حُوشائی نے صدُوقؔ کاہِنؔ اَور ابیاترؔ کاہِنؔ، دونوں کو بتایا، ”اخِیتُفلؔ نے اَبشالومؔ کو اَور اِسرائیلی بُزرگوں کو صلاح دی کہ وہ یُوں کریں اَور مَیں نے اُنہیں اَیسا کرنے کی صلاح دی ہے۔ \v 16 اَب جلدی کرو اَور کویٔی قاصِد بھیج کر داویؔد کو بتاؤ، ’وہ بیابان کے سبزہ زار میں رات نہ گُزاریں بَلکہ فوراً دریا کے پار چلے جائیں ورنہ بادشاہ اَور سَب لوگ جو اُن کے ساتھ ہیں نِیست کر دیئے جایٔیں گے۔‘ “ \p \v 17 یُوناتانؔ اَور اخِیمعضؔ عینؔ روگلؔ کے پاس ٹھہرے ہُوئے تھے۔ ایک خادِمہ جا کر اُنہیں آگاہ کرتی تھی اَور وہ جا کر داویؔد بادشاہ کو بتاتے تھے کیونکہ وہ یہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے کہ کویٔی اُنہیں شہر میں داخل ہوتے ہُوئے دیکھ لے۔ \v 18 لیکن ایک نوجوان نے اُنہیں دیکھ لیا اَور اَبشالومؔ کو بتا دیا۔ لہٰذا وہ جلدی سے وہاں سے روانہ ہوکر بحوریمؔ میں ایک آدمی کے گھر چلے گیٔے۔ اُس کے صحن میں ایک کنواں تھا اَور وہ اُس میں اُترگئے۔ \v 19 اُس آدمی کی بیوی نے اُس کنوئیں کے مُنہ پر ایک چادر پھیلا دی اَور اُس پر اناج بِکھیر دیا اَور اِس چال کے بارے میں کسی کو کچھ بھی مَعلُوم نہ ہُوا۔ \p \v 20 جَب اَبشالومؔ کے آدمی اُس گھر میں اُس عورت کے پاس آئے تو اُنہُوں نے پُوچھا کہ، ”اخِیمعضؔ اَور یُوناتانؔ کہاں ہیں؟“ \p اُس عورت نے اُنہیں جَواب دیا کہ وہ تو نالہ کے پار چلے گیٔے ہیں۔ اُن آدمیوں نے اُنہیں ڈھونڈا لیکن کسی کو وہاں نہ پایا لہٰذا وہ واپس یروشلیمؔ چلے گیٔے۔ \p \v 21 اُن کے وہاں سے چلے جانے کے بعد وہ دونوں کنوئیں سے باہر نکلے اَور داویؔد بادشاہ کو خبر دینے پہُنچے۔ اُنہُوں نے اُس سے کہا: ”یہاں سے فوراً روانہ ہوکر دریا پار چلے جائیں کیونکہ اخِیتُفلؔ نے آپ کے خِلاف یہ صلاح دی ہے۔“ \v 22 لہٰذا داویؔد اَور وہ سَب لوگ جو اُن کے ساتھ تھے روانہ ہُوئے اَور دریائے یردنؔ کے پار چلے گیٔے اَور صُبح کی رَوشنی ہونے تک سَب لوگ دریا کو پار کر چُکے تھے۔ \p \v 23 جَب اخِیتُفلؔ نے دیکھا کہ اُس کی صلاح پر عَمل نہیں کیا گیا تو اُس نے اَپنے گدھے پر زین کسی اَور اَپنے گھر چلا گیا جو شہر میں تھا۔ وہاں اُس نے اَپنے گھرانے کا بندوبست کیا اَور پھر اَپنے آپ کو پھانسی دی اَور مَر گیا اَور اَپنے باپ کی قبر میں دفن ہُوا۔ \p \v 24 تَب داویؔد محنایمؔ کو چلےگئے اَور اَبشالومؔ تمام بنی اِسرائیلی مَردوں کے ہمراہ دریائے یردنؔ کے پار جا اُترے۔ \v 25 اَبشالومؔ نے یُوآبؔ کی جگہ عماساؔ کو فَوج کا سپہ سالار مُقرّر کیا۔ عماساؔ ایک بنی اِشمعیلی آدمی اِسرائیلی یترؔ\f + \fr 17‏:25 \fr*\fq یترؔ \fq*\ft کچھ نُسخوں میں اِترا بھی لِکھا ہے\ft*\f* کا بیٹا تھا جِس نے ابیگیلؔ سے شادی کی تھی جو ناحسؔ کی بیٹی تھی اَور یُوآبؔ کی ماں ضرویاہؔ کی بہن تھی۔ \v 26 اَور بنی اِسرائیلی اَور اَبشالومؔ نے گِلعادؔ میں لگائی۔ \p \v 27 اَور جَب داویؔد محنایمؔ کو آئے تو ناحسؔ کا بیٹا شوبیؔ جو بنی عمُّون کے ربّہؔ سے تھا اَور عمّی ایل کا بیٹا مکیرؔ جو لُو دِبارؔ سے تھا اَور برزِلّئیؔ گِلعادی جو روگلیمؔ سے تھا \v 28 بِسترے، ڈونگے اَور کُمہار کے مٹّی کے برتن لے کر آئے۔ نیز وہ گیہُوں، جَو، آٹا، بھُنا ہُوا اناج، لوبیا کی پھلیاں اَور مسور، \v 29 شہد اَور دہی، بھیڑ بکری اَور گائے کے دُودھ کا پنیر بھی لایٔے۔ یہ چیزیں داویؔد اَور اُن کے لوگوں کے کھانے کے لیٔے اِس خیال سے لایٔے تھے کہ، ”بیابان میں داویؔد اَور اُن کے لوگ بھُوکے پیاسے اَور تھکے ماندے ہوں گے۔“ \c 18 \s1 اَبشالومؔ کی موت \p \v 1 اَور داویؔد نے اُن مَردوں کو جو اُن کے ساتھ تھے جمع کرکے گِنا اَور ہر ہزار اَور ہر سَو آدمیوں کی ٹکڑیوں پر سردار مُقرّر کئے۔ \v 2 اَور داویؔد نے جِن فَوجیوں کو روانہ کیا اُن کا ایک تہائی یُوآبؔ کے، ایک تہائی یُوآبؔ کے بھایٔی ابیشائی بِن ضرویاہؔ کے، اَور ایک تہائی گِتّی اِتّی کے ماتحت تھا اَور بادشاہ نے اُن لوگوں سے کہا، ”میں خُود بھی ضروُر تمہارے ساتھ چلُوں گا۔“ \p \v 3 لیکن لوگوں نے کہا، ”آپ کو جانے کی ضروُرت نہیں۔ اگر ہم بھاگنے پر مجبُور ہُوئے تو وہ ہماری پروا نہیں کریں گے اَور خواہ ہم میں سے آدھے بھی مارے جایٔیں وہ پروا نہیں کریں گے۔ لیکن آپ ہمارے دس ہزار کے برابر ہو۔ تمہارے لیٔے بہتر یہی ہے کہ تُم شہر میں رہ کر ہی ہماری مدد کریں۔“ \p \v 4 بادشاہ نے کہا، ”جو کچھ تُمہیں بہتر مَعلُوم ہوتاہے میں وُہی کروں گا۔“ \p لہٰذا جَب وہ لوگ سَو سَو اَور ہزار ہزار کی ٹکڑیوں میں باہر نکلے تو بادشاہ پھاٹک کے پاس کھڑے رہے۔ \v 5 اَور بادشاہ نے یُوآبؔ، ابیشائی اَور اِتّی کو حُکم دیا، ”میری خاطِر اُس جَوان اَبشالومؔ کے ساتھ نرمی سے پیش آنا۔“ جَب بادشاہ نے ہر ایک سردار کو اَبشالومؔ کے متعلّق تاکید کی تو تمام لوگ سُن رہے تھے۔ \p \v 6 سَو وہ لوگ بنی اِسرائیل سے لڑنے کے لیٔے روانہ ہُوئے اَور لڑائی اِفرائیمؔ کے جنگل میں ہُوئی۔ \v 7 اَور اِسرائیل کی فَوج نے داویؔد کے آدمیوں سے شِکست دِلائی اَور اُس دِن اُتنی زِیادہ خُونریزی ہُوئی کہ بیس ہزار آدمی مارےگئے۔ \v 8 وہ لڑائی سارے علاقہ میں پھیل گئی اَور اُس دِن بیشتر جانیں تلوار کی بجائے اُس جنگل کا لقمہ بَن گئیں۔ \p \v 9 اَور اِتّفاقاً اَبشالومؔ داویؔد کے آدمیوں کے سامنے آ گیا۔ وہ اَپنے خچّر پر سوار تھا اَور جَب وہ خچّر تیز رفتار کے ساتھ ایک بڑے گھنے بلُوط کے درخت کے نیچے سے گزرا تو اَبشالومؔ کا سَر اُس درخت کی شاخوں میں پھنس گیا اَور وہ خچّر جِس پر وہ سوار تھا اُس کے نیچے سے نکل گیا اَور وہ ہَوا میں لٹکتا رہ گیا۔ \p \v 10 جَب اُن آدمیوں میں سے ایک نے یہ دیکھا تو اُس نے یُوآبؔ کو خبر دی کہ، ”مَیں نے اَبشالومؔ کو ایک بلُوط کے درخت میں لٹکا ہُوا دیکھاہے۔“ \p \v 11 یُوآبؔ نے اُس سے جِس نے یہ خبر دی تھی کہا: ”کیا! تُونے اُس جنگجو کو لٹکا دیکھا؟ تو اُسے وہیں کیوں نہ مار گرایا کیونکہ مَیں تُجھے دس ثاقل\f + \fr 18‏:11 \fr*\fq دس ثاقل \fq*\ft تقریباً 115 گرام\ft*\f* چاندی اَور ایک کمربند عطا کرتا۔“ \p \v 12 لیکن اُس نے یُوآبؔ کو جَواب دیا، ”خواہ مُجھے ایک ہزار ثاقل چاندی بھی تول کر دے دی جاتی تَب بھی بادشاہ کے بیٹے پر ہاتھ نہ اُٹھاتا۔ کیونکہ ہم سُن رہے تھے جَب بادشاہ نے آپ کو ابیشائی اَور اِتّی کو تاکید کی تھی کہ جَوان اَبشالومؔ پر میری خاطِر آنچ نہ آنے پایٔے۔ \v 13 اگر مَیں اُن سے دغا کرتا تو یہ بات بادشاہ سے پوشیدہ نہ رہتی اَور آپ بھی میری مدد سے ہاتھ دھو لیتے۔“ \p \v 14 یُوآبؔ نے کہا، ”مَیں تیرے ساتھ یُوں ہی ٹھہرا نہیں رہ سَکتا۔“ لہٰذا اُس نے تین برچھی لیں اَور اُن سے اَبشالومؔ کے دِل کو چھید ڈالا۔ اَبشالومؔ بلُوط کے درخت میں ابھی زندہ ہی تھا \v 15 کہ یُوآبؔ کے دس سلح برداروں نے اَبشالومؔ کو گھیرلیا اَور قتل کر دیا۔ \p \v 16 تَب یُوآبؔ نے نرسنگا پھُونکا اَور وہ لوگ جو بنی اِسرائیلیوں کا تعاقب کر رہے تھے لَوٹ آئے کیونکہ یُوآبؔ نے اُنہیں روک دیا تھا۔ \v 17 اَور اُنہُوں نے اَبشالومؔ کو لے کر جنگل کے ایک بڑے گڑھے میں پھینک دیا اَور اُس کے اُوپر پتّھروں کا ایک بڑا ڈھیر لگا دیا۔ اِس دَوران تمام بنی اِسرائیلی اَپنے اَپنے خیموں کو بھاگ گیٔے۔ \p \v 18 اَبشالومؔ نے اَپنے زندگی بھر ایک سُتون لے کر اُسے شاہی وادی میں اَپنی یادگار کے طور پر کھڑا کیا تھا اَور کیونکہ اِس نے سوچا، ”میرے پاس اَپنے نام کی یاد کو جاری رکھنے کے لئے کوئی بیٹا نہیں ہے۔“ وہ آج تک اَبشالومؔ کی یادگار کہلاتی ہے۔ \s1 داویؔد کا ماتم کرنا \p \v 19 اَور صدُوقؔ کے بیٹے اخِیمعضؔ نے کہا، ”مُجھے اِجازت دیں کہ دَوڑکر یہ خبر بادشاہ کے پاس لے جاؤں کہ یَاہوِہ نے اُنہیں اُن کے دُشمنوں سے رِہائی بخشی ہے۔“ \p \v 20 لیکن یُوآبؔ نے اُس سے کہا، ”آج نہیں، یہ خبر کسی اَور وقت لے جانا۔ آج اَیسا ہرگز نہ کرنا کیونکہ مرنے والا بادشاہ کا بیٹا تھا۔“ \p \v 21 تَب یُوآبؔ نے ایک کُوشی آدمی سے کہا، ”جا اَورجو کچھ تُونے دیکھاہے بادشاہ کو بتا۔“ وہ کُوشی یُوآبؔ کے سامنے جھُکا اَور پھر تیزی سے روانہ ہُوا۔ \p \v 22 تَب اخِیمعضؔ بِن صدُوقؔ نے یُوآبؔ سے پھر کہا، ”خواہ کچھ ہو مہربانی کرکے مُجھے بھی اُس کُوشی کے پیچھے دَوڑ جانے دیں۔“ \p لیکن یُوآبؔ نے جَواب دیا، ”میرے بیٹے! تُو کیوں جانا چاہتاہے؟ یہ اَیسی خبر نہیں ہے جِس کے عوض تُجھے کویٔی اِنعام ملے گا۔“ \p \v 23 اُس نے کہا، ”خواہ کچھ ہو۔ میں تو فرار ہونا چاہتا ہُوں۔“ \p لہٰذا یُوآبؔ نے کہا، ”اَچھّا! دَوڑجا!“ تَب اخِیمعضؔ اُس میدان سے ہوتا ہُوا دَوڑکر کُوشی سے آگے نکل گیا۔ \p \v 24 اَور جَب داویؔد اَندرونی اَور بیرونی پھاٹکوں کے درمیان بیٹھے ہُوئے تھے تو اُس وقت پہرےدار فصیل کی دیوار پر چڑھ کر پھاٹک کی چھت پر گیا۔ جَب اُس نے نظر دَوڑائی تو دیکھا کہ ایک آدمی اکیلا دَوڑا آ رہاہے۔ \v 25 پہرےدار نے پُکار کر بادشاہ کو یہ اِطّلاع دی۔ \p بادشاہ نے کہا: ”اگر وہ اکیلا ہے تو ضروُر کویٔی اَچھّی خبر لایا ہوگا۔“ اَور وہ آدمی دَوڑتا ہُوا نزدیک آ گیا۔ \p \v 26 پھر پہرےدار نے دیکھا کہ ایک اَور آدمی دَوڑا چلا آ رہاہے۔ اُس نے نیچے دربان کو پُکار کر کہا: ”دیکھ ایک اَور آدمی اکیلا دَوڑا آ رہاہے!“ \p تَب بادشاہ نے کہا: ”وہ بھی ضروُر اَچھّی خبر لا رہا ہوگا۔“ \p \v 27 پہرےدار نے کہا، ”مُجھے آگے والے شخص کا دَوڑنا صدُوقؔ کے بیٹے اخِیمعضؔ کے دَوڑنے کی طرح لگتا ہے۔“ \p بادشاہ نے کہا، ”وہ اَچھّا آدمی ہے اَور اَچھّی خبر لے کر آتا ہے۔“ \p \v 28 تَب اخِیمعضؔ نے بادشاہ کو پُکار کر کہا، ”سَب کچھ ٹھیک ہے!“ اَور نزدیک آکر بادشاہ کے سامنے مُنہ کے بَل زمین پر جھُک کر کہنے لگا، ”یَاہوِہ آپ کے خُدا کی سِتائش ہو! جِن آدمیوں نے میرے آقا بادشاہ کے خِلاف ہاتھ اُٹھائے تھے، خُدا نے اُنہیں ہمارے حوالہ کر دیا ہے۔“ \p \v 29 بادشاہ نے پُوچھا: کیا وہ جَوان اَبشالومؔ خیریت سے ہے؟ \p اخِیمعضؔ نے جَواب دیا کہ، ”جَب یُوآبؔ نے بادشاہ کے خادِم یعنی اِس خادِم کو روانہ فرمایا تو مَیں نے بڑی ہلچل دیکھی۔ مگر مُجھے مَعلُوم نہیں کہ وہ کیا تھی۔“ \p \v 30 بادشاہ نے کہا: ”اَچھّا، اُدھر ایک طرف ہوکر کھڑا رہ۔“ لہٰذا وہ ایک طرف ہٹ گیا اَور وہیں کھڑا رہا۔ \p \v 31 تَب اُس کُوشی نے آکر کہا، ”اَے میرے آقا بادشاہ! سُنیں، اَچھّی خبر یہ ہے کہ یَاہوِہ نے آپ کو اُن سَب سے نَجات بخشی ہے جنہوں نے آپ کے خِلاف بغاوت کی تھی۔“ \p \v 32 تَب بادشاہ نے اُس کُوشی سے پُوچھا، ”کیا وہ جَوان اَبشالومؔ خیریت سے ہے؟“ \p اُس کُوشی نے جَواب دیا، ”میرے آقا بادشاہ کے سَب دُشمن اَور وہ سَب جو آپ کو نُقصان پہچانے کے لیٔے بغاوت کریں اُن کا حَشر اُس جَوان کی مانند ہو۔“ \p \v 33 یہ سُن کر بادشاہ کا دِل دھک سے رہ گیا اَور وہ روتا ہُوا پھاٹک کے دروازہ کے اُوپر کمرہ کی طرف چل دیا۔ وہ چلتے چلتے یُوں کہتے جاتا تھا: ”ہائے میرے بیٹے اَبشالومؔ! میرے بیٹے، میرے بیٹے اَبشالومؔ! کاش تیرے بدلے میں مَرجاتا۔ اَے اَبشالومؔ، میرے بیٹے، میرے بیٹے!“ \c 19 \p \v 1 اَور یُوآبؔ کو بتایا گیا کہ دیکھو، ”بادشاہ اَبشالومؔ کے لیٔے نوحہ اَور ماتم کر رہاہے۔“ \v 2 سَو تمام لوگوں کے لیٔے اُس دِن کی فتح ماتم میں بدل گئی، ”کیونکہ اُس دِن لوگوں نے یہ بات سُنی کہ بادشاہ اَپنے بیٹے کے لیٔے غمگین ہے۔“ \v 3 اَور اُس دِن وہ لوگ شہر میں اَیسی خاموشی کے ساتھ داخل ہُوئے جَیسے میدانِ جنگ سے فرار ہُوئے لوگ شرم کے مارے دبے پاؤں آتے ہیں۔ \v 4 بادشاہ نے اَپنا مُنہ ڈھانک کر بُلند آواز سے چِلّانا شروع کر دیا، ”ہائے میرے بیٹے اَبشالومؔ! ہائے اَبشالومؔ میرے بیٹے۔ میرے بیٹے!“ \p \v 5 یُوآبؔ گھر میں بادشاہ کے پاس جا کر کہنے لگا، ”آپ نے اَپنے سَب آدمیوں کو شرمندہ کر دیا جنہوں نے آج کے دِن آپ کے بیٹوں اَور بیٹیوں، اَور تمہاری بیویوں اَور داشتاؤں کی جانیں بچائی ہیں۔ \v 6 آپ اُنہیں جو آپ سے نفرت کرتے ہیں مَحَبّت کرتے ہیں اَور اُن سے جو آپ سے مَحَبّت کرتے ہیں نفرت کرتے ہیں۔ آج آپ نے ظاہر کر دیا ہے کہ آپ کی نظر میں اَپنے سرداروں اَور اَپنے آدمیوں کی کویٔی وقعت نہیں۔ میں سمجھتا ہُوں کہ اگر اَبشالومؔ آج زندہ ہوتا اَور ہم سَب مَر گیٔے ہوتے تو آپ زِیادہ خُوش ہوتے۔ \v 7 اَب باہر جاتے اَور اَپنے آدمیوں کی حوصلہ اَفزائی کرتے۔ میں یَاہوِہ کی قَسم کھاتا ہُوں کہ اگر آپ باہر نہ گئے تو رات ہونے تک آپ کے ساتھ ایک بھی آدمی باقی نہ رہے گا۔ اَور آپ کی جَوانی سے لے کر اَب تک آپ پر جِتنی بھی آفتیں آئی ہیں یہ سَب سے زِیادہ بُری ہُوں گی۔“ \p \v 8 پس بادشاہ اُٹھا اَور پھاٹک میں بیٹھ گیا۔ اَور جَب لوگوں کو بتایا گیا، ”دیکھو بادشاہ پھاٹک میں بیٹھا ہُواہے،“ تو وہ سَب اُن کے سامنے آئے۔ \p اِس دَوران سارے بنی اِسرائیل اَپنے اَپنے گھروں کو بھاگ گئے۔ \p اِس دَوران اِسرائیلی بھاگ کر اَپنے اَپنے گھروں کو چلے گیٔے تھے۔ \s1 داویؔد کا یروشلیمؔ کو لَوٹ آنا \p \v 9 اَور بنی اِسرائیل کے تمام قبیلوں میں سَب لوگ آپَس میں یہ بحث کرنے لگے کہ، ”جِس بادشاہ نے ہمیں ہمارے دُشمنوں کے ہاتھ سے چھُڑایا اَور ہمیں فلسطینیوں کے ہاتھ سے بچایا اَب وُہی اَبشالومؔ کے سامنے سے مُلک چھوڑکر بھاگ گیا ہے۔ \v 10 اَور اَبشالومؔ جسے ہم نے مَسح کرکے بادشاہ بنایا وہ بھی جنگ میں مارا گیا ہے، اِس لئے اَب تُم داویؔد بادشاہ کو واپس لانے کی بات کیوں نہیں کرتے؟“ \p \v 11 تَب داویؔد بادشاہ نے صدُوقؔ اَور ابیاترؔ کاہِنوں کو یہ پیغام بھیجا: ”یہُوداہؔ کے بُزرگوں سے پُوچھو کہ بادشاہ کو اُس کے محل میں لانے کے لیٔے تُم سَب سے پیچھے کیوں ہو جَب کہ اُن ساری باتوں کا چرچا جو اِسرائیل میں ہو رہاہے وہ بادشاہ کی جائے قِیام تک پہُنچ چُکاہے؟ \v 12 تُم میرے بھایٔی ہو اَور میرا اَپنا گوشت اَور خُون ہو، پھر بادشاہ کو واپس لانے میں تُم سَب سے پیچھے کیوں ہو؟ \v 13 اَور عماساؔ سے کہنا، ’کیا تُم میرا اَپنا گوشت اَور خُون نہیں؟ اَب اگر میری فَوج کا سپہ سالار یُوآبؔ کی جگہ تُم نہ ہوتے تو مُجھ پر خُدا کی مار پڑے!‘ “ \p \v 14 اَور اُس نے بنی یہُوداہؔ کے ہر آدمی کا دِل جیت لیا۔ چنانچہ اُنہُوں نے بادشاہ کو پیغام بھیجا کہ، ”آپ اَپنے سارے آدمیوں کے ساتھ واپس آ جائیں۔ \v 15 تَب بادشاہ لَوٹے اَور یردنؔ تک جاپہنچے۔“ \p اَور یہُوداہؔ کے آدمی آگے جا کر بادشاہ کا اِستِقبال کرنے اَور اُنہیں یردنؔ پار لانے کے لیٔے گِلگالؔ میں آئے ہُوئے تھے۔ \v 16 اَور بحوریمؔ کا شِمعیؔ بِن گیراؔ بِنیامینی بھی بنی یہُوداہؔ کے آدمیوں کے ہمراہ جلدی سے داویؔد بادشاہ کے اِستِقبال کو آیا۔ \v 17 اُس کے ساتھ ایک ہزار بنی بِنیامین تھے اَور شاؤل کے گھرانے کا خادِم ضیباؔ بھی اَپنے پندرہ بیٹوں اَور بیس مُلازمین سمیت اُس کے ساتھ تھا۔ وہ تیزی سے یردنؔ پر بادشاہ کے پہُنچنے سے پہلے پہُنچے۔ \v 18 تاکہ بادشاہ کے گھر کے لوگوں کو پار لانے میں اُن کی مدد کریں اَورجو کچھ بادشاہ فرمایٔے اُسے اَنجام دیں۔ \p اَور گیراؔ کا بیٹا شِمعیؔ دریائے یردنؔ کو پار کرتے ہی بادشاہ کے سامنے مُنہ کے بَل گرا \v 19 اَور کہنے لگا، ”میرا آقا مُجھے مُجرم نہ سمجھے اَور میرے آقا بادشاہ کے یروشلیمؔ چھوڑنے کے دِن آپ کے خادِم نے جو بدسلُوکی کی اُسے بھُول جائیں اَور بادشاہ سے درخواست ہے کہ اُسے اَپنے دِل سے نکال دیں۔ \v 20 کیونکہ آپ کا خادِم جانتا ہے کہ اُس نے گُناہ کیا ہے۔ لیکن آج وہ یُوسیفؔ کے قبیلہ کے آدمیوں میں سَب سے پہلے اَپنے آقا بادشاہ کا اِستِقبال کرنے کے لیٔے یہاں آیا ہے۔“ \p \v 21 تَب ضرویاہؔ کے بیٹے ابیشائی نے کہا، ”کیا شِمعیؔ کا مارا جانا ضروُری نہیں؟ اُس نے یَاہوِہ کے ممسوح پر لعنت کی۔“ \p \v 22 داویؔد نے جَواب دیا، ”اَے ضرویاہؔ کے بیٹو! تُمہیں اِس سے کیا؟ کیوں برہم ہو؟ کیا آج اَیسا دِن ہے کہ اِسرائیل میں کسی کو ماراجائے؟ کیا مُجھے خبر نہیں کہ آج اِسرائیل کا بادشاہ میں ہُوں؟“ \v 23 پس بادشاہ نے قَسم کھائی اَور شِمعیؔ کو یقین دِلایا، ”تُجھے کویٔی نہیں مارے گا۔“ \p \v 24 اَور شاؤل کا پوتا مفِیبوستؔ بھی بادشاہ کے اِستِقبال کو گیا۔ اُس نے بادشاہ کے چلے جانے کے دِن سے لے کر اُس کے خیریت سے واپس آنے تک نہ تو اَپنے پاؤں کے ناخن کٹوائے، نہ اَپنی مونچھیں ترشوائیں اَور نہ ہی اَپنے کپڑے دھلوائے۔ \v 25 اَور جَب وہ یروشلیمؔ سے بادشاہ کا اِستِقبال کرنے کے لیٔے آیا تو بادشاہ نے اُس سے پُوچھا، مفِیبوستؔ، ”تُو میرے ساتھ کیوں نہیں گیا تھا؟“ \p \v 26 اُس نے کہا: ”میرے آقا بادشاہ! میرے نوکر نے مُجھے دھوکا دیا۔ آپ تو جانتے ہو، ’آپ کا خادِم لنگڑا ہے اِس لیٔے میرا اِرادہ یہ تھا کہ میں اَپنے گدھے پر زین ڈلوا کر اُس پر سوار ہُوں گا،‘ تاکہ میں بادشاہ کے ساتھ جا سکوں۔ \v 27 لیکن میرے نوکر ضیباؔ نے میرے بارے میں جھُوٹ بولا۔ لیکن میرے آقا بادشاہ! آپ تو خُدا کے فرشتہ کی مانند ہو۔ لہٰذا جو کچھ آپ کو بھلا مَعلُوم ہو وُہی کریں۔ \v 28 میرے دادا کی ساری نَسل میرے آقا بادشاہ کی طرف سے صِرف موت کی مُستحق تھی۔ لیکن آپ نے اَپنے خادِم کو اُن لوگوں کے درمیان جگہ دی جو آپ کے دسترخوان پر کھاتے تھے۔ پس مُجھے کیا حق ہے کہ بادشاہ سے اِس سے زِیادہ فریاد کروں؟“ \p \v 29 بادشاہ نے اُس سے کہا، ”تُجھے مزید کہنے کی کویٔی ضروُرت نہیں۔ میرا فیصلہ یہ ہے کہ تُو اَور ضیباؔ دونوں اُن کھیتوں کو باہم بانٹ لو۔“ \p \v 30 تَب مفِیبوستؔ نے بادشاہ سے کہا، ”ضیباؔ ہی سَب کچھ لے لے۔ میرے لیٔے یہی بہت ہے کہ میرا آقا بادشاہ سلامتی سے گھر آ گیا ہے۔“ \p \v 31 اَور برزِلّئیؔ گِلعادی بھی روگلیمؔ سے آیا تاکہ بادشاہ کے ہمراہ یردنؔ کو پار کرے اَور وہاں سے اُنہیں آگے رخصت کرے۔ \v 32 برزِلّئیؔ اسّی سال کا بُوڑھا آدمی تھا اَور اُس نے بادشاہ کو جَب وہ محنایمؔ میں رُکا تھا رسد پہُنچائی تھی کیونکہ وہ ایک اَمیر آدمی تھا۔ \v 33 بادشاہ نے برزِلّئیؔ سے کہا، ”میرے ساتھ پار چل اَور یروشلیمؔ میں میرے پاس رہنا۔ مَیں تیرا ہر طرح خیال رکھوں گا۔“ \p \v 34 لیکن برزِلّئیؔ نے بادشاہ کو جَواب دیا، ”میری زندگی کے چند سال باقی ہیں، میں یروشلیمؔ جا کر کیا کروں گا؟ \v 35 اَب مَیں اسّی بَرس کا ہو گیا ہُوں جَب مَیں میٹھے اَور کڑوے کے فرق کو محسُوس نہیں کر سَکتا۔ جو کچھ یہ خادِم کھاتا پیتا ہے اُس کا مزہ نہیں لے سَکتا ہے اَور مَردوں اَور عورتوں کے گانے کی آواز نہیں سُن سَکتا۔ تو پھر یہ خادِم کس لیٔے اَپنے آقا بادشاہ پر مزید بوجھ بنے؟ \v 36 آپ کا خادِم یردنؔ کے پار تھوڑی دُور تک ہی بادشاہ کے ساتھ جائے گا۔ بادشاہ کو مُجھے اَیسا بڑا اجر دینے کی کیا ضروُرت ہے؟ \v 37 اَپنے خادِم کو لَوٹ جانے دیں تاکہ وہ اَپنے قصبہ میں اَپنے باپ اَور ماں کی قبر کے پاس مَرے۔ لیکن دیکھو آپ کا خادِم کِمہامؔ حاضِر ہے۔ اُسے اِجازت دیں کہ وہ میرے آقا بادشاہ کے ساتھ پار جائے اَورجو کچھ بادشاہ کو اَچھّا لگے وہ اُس کے لیٔے کریں۔“ \p \v 38 تَب بادشاہ نے کہا، ”کِمہامؔ میرے ساتھ پار جائے گا اَورجو کچھ آپ چاہیں گے میں اُس کے لیٔے کروں گا۔ مَیں آپ کی خُوشی کے لیٔے بھی سَب کچھ کرنے کو تیّار ہُوں۔“ \p \v 39 تَب سَب لوگ دریائے یردنؔ کے پار ہُوئے اَور پھر بادشاہ بھی پار ہُوئے۔ اَور بادشاہ نے برزِلّئیؔ کو چُوما اَور اُسے دعا دی اَور وہ اَپنے گھر کو لَوٹ گیا۔ \p \v 40 جَب بادشاہ گِلگالؔ روانہ ہُوا تو کِمہامؔ بھی اُس کے ساتھ گیا اَور یہُوداہؔ کے سارے لشکر اَور اِسرائیل کے آدھے لشکر نے بادشاہ کو حِفاظت سے پار پہُنچایا۔ \p \v 41 اَور تھوڑی دیر کے بعد اِسرائیل کے سارے لوگ آکر داویؔد بادشاہ سے کہنے لگے کہ، ”ہمارے بھایٔی یہُوداہؔ بادشاہ کو، اُس کے گھرانے اَور اُس کے آدمیوں کو یردنؔ پار سے چوری سے کیوں لایٔے؟“ \p \v 42 یہُوداہؔ کے آدمیوں نے اِسرائیل کے آدمیوں کو جَواب دیا، ”یہ اِس لیٔے کہ بادشاہ کا ہم سے قریبی رشتہ ہے۔ تُم اِس بات سے ناراض کیوں ہو؟ کیا ہم نے بادشاہ کے توشہ میں سے کچھ کھایا ہے؟ کیا ہم نے اُن سے کچھ لیا ہے؟“ \p \v 43 تَب اِسرائیل کے آدمیوں نے یہُوداہؔ کے آدمیوں کو جَواب دیا کہ، ”بادشاہ میں ہمارے دس حِصّے ہیں؛ اِس لئے داویؔد پر ہمارا تُم سے زِیادہ حق ہے۔ پھر تُم نے ہماری حقارت کس لیٔے کی؟ کیا ہمیں اَپنے بادشاہ کو لَوٹا لانے کے لیٔے تُم سے صلاح لینا ضروُری تھا؟“ \p لیکن یہُوداہؔ کے آدمیوں کا جَواب اِسرائیل کے آدمیوں کی باتوں سے زِیادہ اثردار تھا۔ \c 20 \s1 شیبا کا داویؔد کے خِلاف بغاوت کرنا \p \v 1 اِتّفاق سے ایک شرارتی بِنیامینی سبعؔ بِن بِکریؔ وہاں مَوجُود تھا۔ اُس نے نرسنگا پھُونکا اَور چِلّاکر کہا، \q1 ”داویؔد میں ہمارا کویٔی حِصّہ نہیں ہے، \q2 یِشائی کے بیٹے میں کویٔی حِصّہ نہیں! \q1 اَے اِسرائیلیوں! سَب اَپنے اَپنے خیمہ کو چلے جاؤ!“ \p \v 2 پس اِسرائیل کے سَب آدمی سبعؔ بِن بِکریؔ کے پیچھے جانے کے لیٔے داویؔد کا ساتھ چھوڑکر چل دئیے لیکن بنی یہُوداہؔ یردنؔ سے لے کر یروشلیمؔ تک راستہ بھر اَپنے بادشاہ کے ساتھ ہی رہے۔ \p \v 3 اَور جَب داویؔد بادشاہ یروشلیمؔ میں اَپنے محل کو لَوٹ آیا تو اُس نے اُن دس داشتاؤں کو جنہیں وہ محل کی نِگرانی کے لیٔے چھوڑ گیا تھا لے کر ایک مکان میں نظر بند کر دیا۔ وہ اُنہیں ضروُرت کی ساری چیزیں مہیا کرتا رہا لیکن اُن کے پاس نہ گیا۔ لہٰذا اُنہُوں نے بیواؤں کی طرح زندگی گزاری اَور نظر بندی کی حالت میں وفات پائی۔ \p \v 4 تَب بادشاہ نے عماساؔ سے کہا، ”تین دِن کے اَندر اَندر بنی یہُوداہؔ کو یہاں میرے جھنڈے تلے جمع کرو اَور تُم خُود بھی یہاں مَوجُود رہنا۔“ \v 5 لیکن جَب عماساؔ بنی یہُوداہؔ کو بُلانے گیا تو اُس نے بادشاہ کے مُقرّرہ وقت سے زِیادہ وقت لگایا۔ \p \v 6 داویؔد نے ابیشائی سے کہا، ”اَب سبعؔ بِن بِکریؔ ہمیں اَبشالومؔ سے بھی زِیادہ نُقصان پہُنچائے گا۔ اِس لیٔے اَپنے مالک کے آدمیوں کو ساتھ لے کر اُس کا تعاقب کرنا ورنہ وہ کسی فصیلدار شہر کو لے کر ہم سے بچ نکلے گا۔“ \v 7 لہٰذا یُوآبؔ کے آدمی اَور کریتی اَور پِلیتھی اَور تمام جنگجو زبردست سُورما ابیشائی کی زیرِ قیادت نکلے اَور سبعؔ بِن بِکریؔ کا تعاقب کرنے کے لیٔے یروشلیمؔ سے روانہ ہو گئے۔ \p \v 8 اَور جَب وہ گِبعونؔ میں واقع اُس بڑی چٹّان پر پہُنچے تو عماساؔ اُنہیں مِلنے آیا۔ یُوآبؔ جنگی لباس پہنے ہُوئے تھا اَور اُس کی کمر میں ایک پٹکا بندھا ہُوا تھا جِس کے مِیان میں ایک تلوار لٹک رہی تھی۔ جوں ہی اُس نے قدم آگے رکھا تلوار اُس کی مِیان سے باہر گِر پڑی۔ \p \v 9 یُوآبؔ نے عماساؔ سے کہا: ”بھایٔی! تُم خیریت سے ہو؟“ اَور ساتھ ہی عماساؔ کو چُومنے کے لیٔے اَپنے داہنے ہاتھ سے اُس کی داڑھی پکڑ لی۔ \v 10 اَور عماساؔ اُس تلوار سے جو یُوآبؔ کے ہاتھ میں تھی بے خبر تھا۔ لہٰذا یُوآبؔ نے اُسے اُس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ اُس کی انتڑیاں باہر نکل کر زمین پر گِر پڑی اَور عماساؔ تلوار کے ایک ہی وار سے مَر گیا۔ تَب یُوآبؔ اَور اُس کے بھایٔی ابیشائی سبعؔ بِن بِکریؔ کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔ \p \v 11 یُوآبؔ کے آدمیوں میں سے ایک نے عماساؔ کے پاس کھڑے ہوکر کہا، ”جو کوئی یُوآبؔ کی حمایت کرتا ہے اَور داویؔد کی طرف ہے وہ یُوآبؔ کی پیروی کرے!“ \v 12 اَور عماساؔ سڑک کے بیچ اَپنے خُون میں لت پَت لَوٹ رہاتھا اَور اُس آدمی نے دیکھا کہ سَب لوگ رُک گیٔے ہیں۔ جَب اُسے احساس ہُوا کہ ہر کویٔی جو عماساؔ تک آتا ہے وہ رُک جاتا ہے تو وہ اُسے سڑک سے گھسیٹ کر ایک کھیت میں لے گیا اَور اُس پر ایک کپڑا ڈال دیا۔ \v 13 عماساؔ کے سڑک سے ہٹا دیئے جانے کے بعد سَب لوگ یُوآبؔ کے ساتھ سبعؔ بِن بِکریؔ کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔ \p \v 14 اَور شیبا بنی اِسرائیل کے سَب قبیلوں میں سے ہوتا ہُوا ابیل بیت معکہؔ تک گیا اَور بیریوں کے سارے خِطّہ سے ہوکر گزرا تو وہ بھی جمع ہوکر اُس کے پیچھے ہو لیٔے۔ \v 15 اَور سَب فَوجیوں نے جو یُوآبؔ کے ہمراہ تھے بیت معکہؔ کے ابیل میں آکر شیبا کو گھیرلیا۔ اُنہُوں نے شہر کے مقابل ایک دمدمہ بنا لیا جو شہر کی بیرونی فصیل تک بُلند تھا۔ اَور جَب وہ فصیل کو توڑ کر گرانے میں لگے ہُوئے تھے \v 16 تو ایک سیانی عورت نے شہر میں سے پُکار کر کہا، ”سُنو! سُنو! ذرا یُوآبؔ سے کہو کہ یہاں آئے تاکہ میں اُس سے بات کر سکوں۔“ \v 17 جَب وہ اُس کے نزدیک آیا تو اُس عورت نے پُوچھا، ”کیا تُم یُوآبؔ ہو؟“ \p اُس نے جَواب دیا، ”ہاں،“ \p تَب اُس نے کہا، ”اَپنی خادِمہ کی بات سُنیں۔“ \p اُس نے کہا، ”میں سُن رہا ہُوں۔“ \p \v 18 تَب وہ کہنے لگی، ”قدیم زمانہ میں یُوں کہا کرتے تھے، ’جو پُوچھنا ہوگا ابیل میں پُوچھ لیں گے،‘ اَور اِس طرح فیصلہ ہوتا تھا۔ \v 19 اَور ہم اِسرائیل میں صُلح پسند لوگ اَور وفادار اَور صُلح پسند لوگ ہیں اَور آپ ایک اَیسے شہر کو تباہ کر رہے ہو جو اِسرائیل میں شہروں کی ماں ہے آپ یَاہوِہ کی مِیراث کو کس لیٔے نگلنا چاہتے ہو؟“ \p \v 20 یُوآبؔ نے جَواب دیا، ”خُدا نہ کرے! خُدا نہ کرے کہ میں نگل جاؤں!“ یا ”ہلاک کروں! \v 21 بات یہ نہیں ہے۔ بَلکہ اِفرائیمؔ کے کوہستانی علاقہ کے ایک آدمی سبعؔ بِن بِکریؔ نے بادشاہ کے خِلاف یعنی داویؔد کے خِلاف ہاتھ اُٹھایا ہے۔ بس اُسے میرے حوالہ کر دو تو میں شہر سے چلا جاؤں گا۔“ \p اُس عورت نے یُوآبؔ سے کہا: ”دیکھو، اُس کا سَر دیوار پر سے تیرے پاس پھینک دیا جائے گا۔“ \p \v 22 تَب اُس عورت نے جا کر سَب لوگوں کو دانشمندانہ صلاح دی اَور اُنہُوں نے سبعؔ بِن بِکریؔ کا سَر کاٹ کر یُوآبؔ کی طرف پھینک دیا۔ پس اُس نے نرسنگا پھُونکا اَور اُس کے آدمی اُس شہر سے ہٹ گیٔے اَور ہر ایک اَپنے اَپنے گھر کو لَوٹ گیا۔ اَور یُوآبؔ یروشلیمؔ میں بادشاہ کے پاس واپس چلا گیا۔ \s1 داویؔد کے اہلکار \li1 \v 23 اَور یُوآبؔ اِسرائیل کے تمام فَوج کا سالار تھا \li1 اَور بِنایاہؔ بِن یہُویدعؔ کریتیوں اَور پِلیتھیوں پر مامُور تھا۔ \li1 \v 24 اَور ادورامؔ\f + \fr 20‏:24 \fr*\fq ادورامؔ \fq*\ft اِس کا دُوسرا نام ادُونِیرامؔ\ft*\f* خراج کا داروغہ تھا۔ \li1 اَور یہوشافاطؔ بِن احِیلودؔ مورّخ تھا۔ \li1 \v 25 اَور شیوا مُنشی تھا \li1 اَور صدُوقؔ اَور ابیاترؔ کاہِنؔ تھے۔ \li1 \v 26 اَور عیراؔ یائرِی داویؔد کا کاہِنؔ تھا۔ \c 21 \s1 گِبعونیوں سے اِنتقام لیا جانا \p \v 1 اَور داویؔد کی حُکمرانی کے دَوران تین سال مسلسل قحط پڑا لہٰذا داویؔد نے یَاہوِہ سے دریافت کیا۔ یَاہوِہ نے فرمایا کہ، ”یہ شاؤل اَور اُس کے خُونریز گھرانے کے سبب سے ہے اَور اِس لیٔے بھی کہ اُس نے گِبعونیوں کو قتل کیا تھا۔“ \p \v 2 تَب بادشاہ نے گِبعونیوں کو بُلایا اَور اُن سے بات کی۔ (وہ گِبعونی بنی اِسرائیل میں سے نہیں تھے بَلکہ باقی بچے ہُوئے امُوریوں میں سے تھے جِن کی جان بخشی گئی اِسرائیلیوں نے قَسم کھائی تھی لیکن شاؤل نے بنی اِسرائیل اَور یہُوداہؔ کی خاطِر اَپنا جوش دِکھانے کے لیٔے اُنہیں نِیست و نابود کرنے کی کوشش کی تھی)۔ \v 3 داویؔد نے گِبعونیوں سے پُوچھا کہ، ”مَیں تمہارے لیٔے کیا کروں؟ میں کس چیز سے کفّارہ دُوں تاکہ تُم یَاہوِہ کی مِیراث کو دعا دو؟“ \p \v 4 گِبعونیوں نے اُسے جَواب دیا کہ، ”ہمیں کویٔی حق نہیں کہ شاؤل یا اُس کے گھرانے سے چاندی یا سونے کا مطالبہ کریں۔ نہ ہی ہمیں یہ اِختیار ہے کہ اِسرائیل میں سے کسی کی جان لیں۔“ \p تَب داویؔد نے اُن سے پُوچھا کہ پھر تُم کیا چاہتے ہو کہ مَیں تمہارے لیٔے کروں؟ \p \v 5 اُنہُوں نے بادشاہ کو جَواب دیا کہ، ”وہ آدمی جِس نے ہمیں تباہ کیا اَور ہمارے خِلاف منصُوبہ بنایا کہ ہمارے لوگوں کو مار ڈالا جائے اَور ہمارے لیٔے اِسرائیل میں کہیں بھی کویٔی جگہ باقی نہ رہے، \v 6 ہماری درخواست ہے کہ اُسی کی نَسل میں سے سات آدمی ہمارے حوالہ کئے جایٔیں تاکہ اُنہیں قتل کرکے اُن کی لاشیں یَاہوِہ کے لیٔے یَاہوِہ کے چُنے ہُوئے شاؤل کے گِبعہؔ میں لٹکا دی جایٔیں۔“ \p بادشاہ نے کہا، ”اَچھّا، میں اُنہیں تمہارے حوالہ کر دُوں گا۔“ \p \v 7 لیکن بادشاہ نے مفِیبوستؔ بِن یُوناتانؔ بِن شاؤل کو اُس یَاہوِہ کے عہدوپیمان کی وجہ سے جو داویؔد اَور یُوناتانؔ بِن شاؤل کے درمیان باندھا گیا تھا بچائے رکھا \v 8 لیکن بادشاہ نے ایّہؔ کی بیٹی رِصفاہؔ کے دونوں بیٹوں ارموؔنی اَور مفِیبوستؔ کو جو اُن کے ہاں شاؤل سے پیدا ہُوئے تھے اَور شاؤل کی لڑکی میربؔ یعنی میکلؔ کے پانچ بیٹوں کو جو اُن کے ہاں عدری ایل بِن برزِلّئیؔ مِحولاتی سے پیدا ہُوئے تھے، لے کر \v 9 گِبعونیوں کے حوالہ کیا جنہوں نے اُنہیں قتل کرکے یَاہوِہ کے آگے ایک پہاڑی پر لٹکا دیا۔ وہ ساتوں ایک ساتھ مَرے۔ اُنہیں فصل کاٹنے کے دِنوں میں عَین اُس وقت جَب جَو کی فصل کی کٹائی شروع ہو رہی تھی قتل کیا گیا۔ \p \v 10 تَب ایّہؔ کی بیٹی رِصفاہؔ نے ٹاٹ لے کر اُسے اَپنے لیٔے ایک پہاڑی پر بچھا لیا اَور فصل کی کٹائی کے شروع سے لے کر لاشوں پر آسمان سے بارش ہونے تک نہ تو دِن کو پرندوں کو اَور نہ رات کو جنگلی جانوروں کو اُن لاشوں کو چھُونے دیا۔ \v 11 جَب داویؔد کو شاؤل کی داشتہ ایّہؔ کی بیٹی رِصفاہؔ کی اِس حرکت کی خبر مِلی \v 12 تو داویؔد بادشاہ نے جا کر شاؤل اَور اُس کے بیٹے یُوناتانؔ کی ہڈّیاں یبیسؔ گِلعادؔ کے لوگوں سے لے لیں۔ (یبیسؔ گِلعادؔ کے باشِندوں نے اُن ہڈّیوں کو جو بیت شانؔ کے چَوک سے چوری کی گئی تھیں، جہاں فلسطینیوں نے گِلبوعہؔ میں شاؤل کو مارنے کے بعد لٹکا دیا تھا)۔ \v 13 داویؔد، شاؤل اَور اُس کے بیٹے یُوناتانؔ کی ہڈّیوں کو وہاں سے لے آئے اَور جنہیں قتل کیا گیا تھا اُن کی ہڈّیوں کو بھی جو میدان میں بِکھری پڑی تھیں جمع کیا گیا۔ \p \v 14 اَور اُنہُوں نے شاؤل کی اَور اُس کے بیٹے یُوناتانؔ کی ہڈّیوں کو ضِلعؔ میں جو بِنیامین کی سرزمین میں ہے شاؤل کے باپ قیشؔ کی قبر میں دفن کیا اَور بادشاہ نے جو کچھ کرنے کا حُکم دیا تھا اُنہُوں نے کیا اَور اِس کے بعد خُدا نے اُس دعا کو سُن لیا جو اُس مُلک کے حق میں مانگی گئی تھی۔ \s1 فلسطینیوں کے خِلاف جنگ \p \v 15 اَور فلسطینیوں اَور اِسرائیلیوں کے درمیان ایک دفعہ پھر جنگ چھِڑ گئی اَور داویؔد اَپنے آدمیوں کو لے کر فلسطینیوں سے لڑنے کے لیٔے گئے اَور لڑتے لڑتے تھک گئے۔ \v 16 اَور اِشبی بنوبؔ جو رافاؔ\f + \fr 21‏:16 \fr*\fq رافاؔ \fq*\ft یعنی دیو قامت\ft*\f* کی نَسل سے تھا اَور جِس کے نیزے کے کانسے کا پھل وزن میں تین سَو ثاقل\f + \fr 21‏:16 \fr*\fq تین سَو ثاقل \fq*\ft تقریباً ساڑھے 3 کِلو\ft*\f* تھا اَورجو نئی تلوار سے مُسلّح تھا کہنے لگاکہ وہ داویؔد کو قتل کرےگا۔ \v 17 لیکن ضرویاہؔ کا بیٹا ابیشائی داویؔد کے بچانے کے لیٔے بروقت پہُنچ گیا۔ اُس نے اُس فلسطینی کو مار گرایا اَور اُسے قتل کر دیا۔ تَب داویؔد کے آدمیوں نے قَسم کھا کر اُس سے کہا، ”تُم پھر کبھی ہمارے ساتھ لڑائی پر نہیں جاؤگے تاکہ اِسرائیل کا چراغ بُجھنے نہ پایٔے۔“ \p \v 18 اِسی دَوران گوبؔ میں فلسطینیوں کے ساتھ ایک اَور لڑائی ہُوئی تَب سِبّکائی حُوشاتی نے سافؔ کو قتل کیا جو رافاؔ کی نَسل سے تھا۔ \p \v 19 گوبؔ میں ہی فلسطینیوں کے ساتھ ایک اَور جنگ میں اِلحنانؔ بِن یارِ اُورگیم نے جو بیت لحمؔ کا تھا گِتّی گولیتؔ کے بھایٔی کو قتل کیا جِس کے نیزے کی چھڑ جُلاہے کے شہتیر کی طرح تھی۔ \p \v 20 ایک اَور جنگ میں بھی جو گاتؔھ میں ہُوئی ایک بڑا قدآور آدمی تھا جِس کے ہر ہاتھ اَور ہر پاؤں کی چھ چھ اُنگلیاں تھیں یعنی کُل چوبیس تھیں۔ وہ بھی کسی رافاؔ کی نَسل سے تھا۔ \v 21 جَب اُس نے اِسرائیلیوں کو بُرا بھلا کہا تو داویؔد کے بھایٔی شِمعہؔ کے بیٹے یُوناتانؔ نے اُسے قتل کر دیا۔ \p \v 22 یہ چاروں گاتؔھ میں رافاؔ کی نَسل سے تھے اَور داویؔد اَور اُس کے آدمیوں کے ہاتھوں مارے گیٔے۔ \c 22 \s1 داویؔد کا خُدا کی مدح سرائی کرنا \p \v 1 جَب یَاہوِہ نے داویؔد کو اُن کے سَب دُشمنوں اَور شاؤل کے حملہ سے بچایا تو آپ نے یَاہوِہ کی حُضُوری میں اِس نغمہ کو گایا۔ \v 2 داویؔد نے کہا: \q1 ”یَاہوِہ میری چٹّان، میرا قلعہ اَور میرے چھُڑانے دینے والے ہیں؛ \q2 \v 3 میرے خُدا میری چٹّان ہیں، میں جِس میں پناہ لیتا ہُوں، \q2 وہ میری سِپر اَور میری نَجات کا سینگ، \q1 وہ میرا حصار، میری پناہ گاہ اَور میرا مُنجّی ہیں، \q2 جو مُجھے ظالموں سے بچاتے ہیں۔ \b \q1 \v 4 ”مَیں یَاہوِہ کو پُکارتا ہُوں جو سِتائش کے لائق ہیں، \q2 اَور دُشمنوں سے مُجھے بچا لیتے ہیں۔ \q1 \v 5 موت کی موجوں نے مُجھے گھیرلیا؛ \q2 اَور تباہی کے سیلابوں نے مُجھے اَپنی لپیٹ میں لے لیا۔ \q1 \v 6 پاتال کی رسّیاں میرے چَوگرد لپٹ گئیں؛ \q2 اَور موت کے پھندے میرے سامنے تھے۔ \b \q1 \v 7 ”مَیں نے اَپنی مُصیبت میں یَاہوِہ کو پُکارا؛ \q2 مَیں نے اَپنے خُدا سے فریاد کی۔ \q1 اُنہُوں نے اَپنی ہیکل میں سے میری آواز سُنی، \q2 میری فریاد اُن کے کانوں میں پہُنچی۔ \q1 \v 8 زمین کانپ اُٹھی اَور ہل گئی، \q2 اَور آسمانوں کی بُنیادیں لرز اُٹھیں؛ \q2 وہ ہل گئیں اِس لیٔے کہ وہ غضبناک ہو گئے تھے۔ \q1 \v 9 اُن کے نتھنوں سے دُھواں اُٹھا؛ \q2 اَور اُن کے مُنہ سے بھسم کرنے والی آگ نکلی، \q2 جِس سے کوئلے دہک اُٹھے۔ \q1 \v 10 اُنہُوں نے آسمانوں کو جھُکایا اَور نیچے اُتر آئے؛ \q2 سیاہ بادل اُن کے پاؤں کے نیچے تھے۔ \q1 \v 11 وہ کروبی پر سوار ہوکر اُڑے؛ \q2 وہ ہَوا کے بازوؤں پر سوار ہوکر اُڑے۔ \q1 \v 12 اُنہُوں نے تاریکی کو اَپنا غلاف۔ \q2 اَور آسمان کے کالے بادلوں کو شامیانہ بنا لیا۔ \q1 \v 13 اُن کی حُضُوری کی تجلّی سے جو اُن کے سامنے تھی \q2 بجلی کڑک اُٹھی۔ \q1 \v 14 یَاہوِہ آسمان پر سے گرجے؛ \q2 اَور خُداتعالیٰ کی آواز گونج اُٹھی۔ \q1 \v 15 اُنہُوں نے اَپنے تیر چلائے اَور دُشمنوں کو پراگندہ کیا، \q2 اَور بجلیاں گرا کر اُنہیں شِکست دی۔ \q1 \v 16 اَے یَاہوِہ، آپ کی ڈانٹ سے \q2 اَور آپ کے نتھنوں کے دَم کے جھونکے سے \q1 سمُندر کی وادیاں دِکھائی دینے لگیں \q2 اَور زمین کی بُنیادیں نموُدار ہو گئیں۔ \b \q1 \v 17 ”اُنہُوں نے آسمان سے ہاتھ بڑھا کر مُجھے تھام لیا؛ \q2 اَور گہرے پانی میں سے کھینچ کر باہر نکالا۔ \q1 \v 18 اُنہُوں نے میرے زبردست دُشمن سے مُجھے رِہائی بخشی، \q2 اَور اُن مُخالفوں سے، جو میرے مُقابلہ میں زِیادہ طاقتور تھے۔ \q1 \v 19 وہ میری مُصیبت کے دِن مُجھ پر ٹوٹ پڑے، \q2 لیکن یَاہوِہ میرا سہارا تھے۔ \q1 \v 20 وہ مُجھے کشادہ جگہ میں نکال لائے؛ \q2 اُنہُوں نے مُجھے بچا لیا کیونکہ وہ مُجھ سے خُوش تھے۔ \b \q1 \v 21 ”یَاہوِہ نے میری راستبازی کے مُطابق مُجھ سے سلُوک کیا؛ \q2 اَور میرے ہاتھوں کی پاکیزگی کے مُطابق مُجھے صِلہ دیا۔ \q1 \v 22 کیونکہ مَیں یَاہوِہ کی راہوں پر چلتا رہا؛ \q2 اَور مَیں نے اَپنے خُدا کے خِلاف کویٔی بدی نہیں کی۔ \q1 \v 23 اُن کے سارے آئین میرے سامنے ہیں؛ \q2 اَور مَیں نے اُن کے قوانین سے مُنہ نہیں موڑا۔ \q1 \v 24 میں اُن کے سامنے بے عیب رہا \q2 اَور اَپنے آپ کو گُناہ سے بَری رکھا۔ \q1 \v 25 اَور یَاہوِہ نے میری راستبازی کے مُطابق، \q2 اَور اَپنے ہاتھوں کی اُس پاکیزگی کے مُطابق جسے وہ دیکھتے تھے مُجھے اجر دیا۔ \b \q1 \v 26 ”وفادار کے ساتھ آپ اَپنے آپ کو وفادار جتاتے ہیں، \q2 اَور کامل کے ساتھ اَپنے آپ کو کامل جتاتے ہیں، \q1 \v 27 نیک اِنسان کے ساتھ آپ اَپنے آپ کو نیک جتاتے ہیں، \q2 لیکن ٹیڑھے اِنسان کے ساتھ ہوشیاری جتاتے ہیں۔ \q1 \v 28 آپ حلیموں کو تو بچاتے ہیں، \q2 لیکن مغروُروں پر نظر رکھتے ہیں تاکہ اُنہیں نیچا کریں۔ \q1 \v 29 اَے یَاہوِہ، آپ میرے چراغ ہیں؛ \q2 اَور یَاہوِہ میری تاریکی کو نُور تبدیل کرتے ہیں۔ \q1 \v 30 آپ کی مدد سے میں فَوج پر چڑھائی کر سَکتا ہُوں؛ \q2 اَور اَپنے خُدا کی بدولت میں دیوار پھاند سَکتا ہُوں۔ \b \q1 \v 31 ”خُدا کی راہ پکّی ہے؛ \q2 یَاہوِہ کا کلام کامل ہے۔ \q2 وہ اُن سَب کی سِپر ہے جو اُن میں پناہ لیتے ہیں۔ \q1 \v 32 کیونکہ یَاہوِہ کے علاوہ اَور کون خُدا ہے؟ \q2 اَور ہمارے خُدا کے سِوا اَور کون چٹّان ہے؟ \q1 \v 33 خُدا ہی قُوّت سے مُجھے مُسلّح کرتے ہیں \q2 اَور میری راہ کو کامل کرتے ہیں۔ \q1 \v 34 وہ میرے پاؤں کو ہِرنی کے پاؤں کی مانند بناتے ہیں؛ \q2 اَور مُجھے بُلندیوں پر کھڑا رہنے کے قابل بناتے ہیں۔ \q1 \v 35 وہ میرے ہاتھوں کو جنگ کرنا سِکھاتے ہیں؛ \q2 اَور یہاں تک کہ میرے بازو کانسے کی کمان کو جھُکا دیتے ہیں۔ \q1 \v 36 آپ مُجھے اَپنی فتح کی سِپر دیتے ہیں؛ \q2 آپ کی بندہ پروری نے مُجھے بڑا بنا دیا ہے۔ \q1 \v 37 آپ میرے قدموں کی راہ کشادہ کرتے ہیں، \q2 تاکہ میں پھسلنے نہ پاؤں۔ \b \q1 \v 38 ”مَیں نے اَپنے دُشمنوں کا تعاقب کرکے اُنہیں کُچل ڈالا؛ \q2 اَور جَب تک وہ تباہ نہ ہو گئے مَیں واپس نہ لَوٹا۔ \q1 \v 39 مَیں نے اُنہیں پُوری طرح کُچل دیا تاکہ وہ اُٹھ نہ پائیں؛ \q2 وہ میرے پاؤں کے نیچے گِر گیٔے۔ \q1 \v 40 آپ نے مُجھے جنگ کے لیٔے قُوّت سے مُسلّح کیا؛ \q2 اَور میرے مُخالفوں کو میرے قدموں میں جھُکا دیا۔ \q1 \v 41 آپ نے لڑائی میں میرے دُشمنوں کو پیٹھ دِکھانے پر مجبُور کیا، \q2 اَور مَیں نے اَپنے حریفوں کو تباہ کر دیا۔ \q1 \v 42 اُنہُوں نے مدد کے لئے پُکارا، لیکن اُنہیں بچانے والا کویٔی نہ تھا۔ \q2 اُنہُوں نے یَاہوِہ کی بھی دہائی دی، لیکن اُنہُوں نے جَواب نہ دیا۔ \q1 \v 43 مَیں نے اُنہیں پیس پیس کر زمین کی گَرد کی مانند بنا دیا؛ \q2 مَیں نے اُنہیں کُچل کر، گلی کوچوں کی کیچڑ کی مانند روند ڈالا۔ \b \q1 \v 44 ”آپ نے مُجھے لوگوں کی یلغار سے بھی چھُڑا لیا؛ \q2 آپ نے مُجھے قوموں کا سردار بنانے کے لیٔے محفوظ رکھا۔ \q1 اَور جِن لوگوں سے میں واقف بھی نہ تھا وہ میری خدمت کرنے لگے، \q2 \v 45 اَور پردیسی میرے آگے جھکتے ہیں؛ \q2 میرا نام سُنتے ہی وہ میری اِطاعت کرنے لگتے ہیں۔ \q1 \v 46 وہ سَب گھبرا جاتے ہیں؛ \q2 اَور تھرتھراتے ہُوئے اَپنے قلعوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ \b \q1 \v 47 ”یَاہوِہ زندہ ہیں! میری چٹّان مُبارک ہو! \q2 اَور میرا مُنجّی خُدا ممتاز ہو! \q1 \v 48 وُہی خُدا ہیں جو میرا اِنتقام لیتے ہیں، \q2 اَور قوموں کو میرے سامنے جھُکاتے ہیں، \q2 \v 49 وہ مُجھے میرے دُشمنوں سے بچاتے ہیں، \q1 آپ نے مُجھے میرے حریفوں پر سرفرازی بخشی؛ \q2 اَور تُند خُو لوگوں سے مُجھے بچایا۔ \q1 \v 50 اِس لیٔے اَے یَاہوِہ! میں قوموں کے درمیان آپ کی تمجید؛ \q2 اَور آپ کے نام کی مدح سرائی کروں گا۔ \b \q1 \v 51 ”وہ اَپنے بادشاہ کے لیٔے رِہائی کا بُرج؛ \q2 اَور اَپنے ممسوح داویؔد اَور اُن کی نَسل کو، \q2 ہمیشہ اَپنی لافانی شفقت میں رکھیں گے۔“ \c 23 \s1 داویؔد کے آخِری الفاظ \p \v 1 داویؔد کی آخِری الفاظ یہ ہیں: \q1 ”یِشائی کے بیٹے داویؔد کے مُنہ کا الہامی کلام، \q2 اُس آدمی کا کلام جسے خُداتعالیٰ نے سرفراز کیا، \q1 وہ آدمی جسے یعقوب کے خُدا نے مَسح کیا، \q2 جو بنی اِسرائیل کا مُغنّی تھا: \b \q1 \v 2 ”یَاہوِہ کی رُوح نے میری مَعرفت کلام کیا؛ \q2 اَور اُس کا سُخن میری زبان پر تھا۔ \q1 \v 3 بنی اِسرائیل کے خُدا نے فرمایا، \q2 بنی اِسرائیل کی چٹّان نے مُجھ سے کہا: \q1 ’جَب کویٔی لوگوں پر راستی سے حُکومت کرتا ہے، \q2 جَب وہ خُدا کے خوف کے ساتھ حُکومت کرتا ہے، \q1 \v 4 تو وہ صُبح کی رَوشنی کی مانند ہوگا جَب سُورج نکلتا ہے \q2 اَیسی صُبح جِس میں بادل نہ ہوں، \q1 بارش کے بعد کی اُس چمک کی مانند \q2 جِس سے زمین پر گھاس پیدا ہوتی ہے۔‘ \b \q1 \v 5 ”کیا میرا گھر خُدا کے حُضُور میں راست نہیں؟ \q2 کیا خُدا نے میرے ساتھ دائمی عہد نہیں باندھا، \q2 جِس کی سَب باتیں مُعیّن اَور پائدار ہیں؟ \q1 کیا وہ میری نَجات کی تکمیل نہیں کریں گے \q2 اَور میری ہر تمنّا پُوری نہیں کریں گے؟ \q1 \v 6 لیکن تمام بدکار آدمی کانٹوں کی مانند ایک طرف پھینک دئیے جاتے ہیں، \q2 جنہیں ہاتھ سے جمع نہیں کیا جاتا۔ \q1 \v 7 جو کویٔی کانٹوں کو چھوتا ہے \q2 وہ لوہے کے اوزار یا نیزے کی چھڑ سے کام لیتا ہے؛ \q2 اَور جہاں وہ پڑے ہوتے ہیں وہیں جَلا دئیے جاتے ہیں۔“ \s1 داویؔد کے زبردست سُورما \p \v 8 داویؔد کے جنگجو زبردست سُورماؤں کے نام یہ ہیں: یوشیبؔ بشیبت\f + \fr 23‏:8 \fr*\fq یوشیبؔ بشیبت \fq*\ft یعنی اِشبوستؔ\ft*\f* تحکمونی، جو تین سپہ سالاروں کا سردار تھا۔ اُس نے اَپنا نیزہ آٹھ سَو آدمیوں کے خِلاف اُٹھایا اَور اُنہیں ایک ہی مُقابلہ میں قتل کر ڈالا۔ \p \v 9 اُس کے بعد الیعزرؔ بِن احُوحی دودائی یعنی دودوؔ تھا۔ یہ اُن تین جنگجو سُورماؤں میں سے ایک تھا جو داویؔد کے ساتھ اُس وقت تھے جَب اُنہُوں نے اُن فلسطینیوں کو جو جنگ کے لیٔے فسدمّیمؔ میں اِکٹھّے ہُوئے تھے طَعنہ دیا تھا اَور اِسرائیلی فَوج پیچھے ہٹ گئی تھی۔ \v 10 لیکن وہ اَپنی جگہ پر قائِم رہا۔ اُس نے فلسطینیوں کو اِتنا مارا کہ اُس کا ہاتھ تھک گیا اَور تلوار سے چپک گیا۔ اُس دِن یَاہوِہ نے بڑی فتح بخشی اَور وہ اِسرائیلی جو شِکست کھا چُکے تھے الیعزرؔ کے پاس صِرف مُردوں کی چیزیں لوٹنے کے لیٔے جمع ہو گئے۔ \p \v 11 اُس کے بعد شمّہ بِن اَگیؔ ہراری تھا۔ جَب فلسطینیوں نے اُس جگہ جہاں مسور سے بھرا ہُوا کھیت تھا صف بندی کی تو اِسرائیلی فَوج اُن کے آگے سے بھاگ گیٔے تھے۔ \v 12 لیکن شمّہ اُس کھیت کے درمیان اَپنی جگہ قائِم رہا اَور اُس جگہ کی حِفاظت کی اَور فلسطینیوں کو مار گرایا۔ اِس طرح یَاہوِہ نے ایک بڑی فتح بخشی۔ \p \v 13 فصل کاٹنے کے موسم میں تیس سرداروں میں سے تین سردار چٹّان سے نیچے اُتر کر عدُلّامؔ کے غار میں داویؔد کے پاس آئے جَب کہ اُس وقت فلسطینیوں کا ایک دستہ وادی رفائیمؔ میں چھاؤنی لگائے تھا۔ \v 14 اُس وقت داویؔد قلعہ میں تھے اَور فلسطینیوں کی چوکی بیت لحمؔ میں تھی۔ \v 15 اَور داویؔد کو شِدّت سے پیاس لگی اَور اُنہُوں نے کہا، ”کاش کویٔی مُجھے بیت لحمؔ کے پھاٹک کے نزدیک والے کنوئیں سے پانی لاکر پلائے!“ \v 16 لہٰذا اُن تینوں جنگجو سُورماؤں نے فلسطینیوں کی صفوں کو چیر کر بیت لحمؔ کے نزدیک والے کنوئیں سے پانی بھرا اَور اُسے داویؔد کے پاس لے آئے۔ لیکن اُس نے پینے سے اِنکار کیا اَور اُسے یَاہوِہ کے حُضُور اُنڈیل کر \v 17 کہنے لگا، ”اَے یَاہوِہ! میں اِسے پیوں؟ مُجھ سے یہ ہرگز نہ ہوگا! کیا یہ اُن آدمیوں کا خُون نہیں جو اَپنی جان کو خطرے میں ڈال کر گیٔے؟“ لہٰذا داویؔد نے اُسے پینا نہ چاہا۔ \p اُن تینوں جنگجو سُورماؤں نے اَیسے کیٔی کام اَنجام دئیے تھے۔ \p \v 18 اَور یُوآبؔ بِن ضرویاہؔ کا بھایٔی ابیشائی اُن تین جنگجو مَردوں کا سردار تھا۔ اُس نے اَپنا نیزہ تین سَو آدمیوں کے خِلاف اُٹھایا اَور اُنہیں قتل کر دیا۔ لہٰذا وہ بھی اُن تینوں کی طرح مشہُور ہو گیا۔ \v 19 وہ اُن تینوں میں مُعزّز ہونے کے باعث اُن کا سردار بَن گیا لیکن وہ اُن پہلے سُورماؤں میں شُمار نہیں کیا جاتا تھا۔ \p \v 20 بِنایاہؔ بِن یہُویدعؔ قبضی ایل کے ایک سُورما کا بیٹا تھا جِس نے کیٔی بڑے کارنامے اَنجام دئیے تھے۔ اُس نے مُوآب کے اریئیلؔ کے دو بہترین آدمیوں کو مار گرایا۔ ایک دِن جَب برف پڑ رہی تھی اُس نے ایک گڑھے میں اُتر کر ایک شیرببر کو بھی مارا۔ \v 21 اَور اُس نے ایک قدآور مِصری کو مار گرایا اگرچہ اُس مِصری کے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ بِنایاہؔ ایک لاٹھی لے کر اُس پر لپکا۔ اُس نے اُس مِصری کے ہاتھ سے نیزہ چھین لیا اَور اُسی کے نیزہ سے اُسے مار ڈالا۔ \v 22 بِنایاہؔ بِن یہُویدعؔ نے اَیسے کیٔی کام کئے۔ وہ بھی اُن تین جنگجو سُورماؤں کی طرح مشہُور تھا۔ \v 23 وہ تیسوں سُورماؤں میں سَب سے زِیادہ مُعزّز سمجھا جاتا تھا لیکن وہ پہلے تین سُورماؤں کے برابر نہیں ہونے پایا۔ اَور داویؔد نے اُسے اَپنے مُحافظ دستہ کا سردار بنا دیا۔ \b \lh \v 24 تیس سُورما اِن میں سے تھے: \b \li1 یُوآبؔ کا بھایٔی عساہیلؔ، \li1 اِلحنانؔ بیت لحمؔ کے دُودؔو کا بیٹا، \li1 \v 25 حرودی شمّہ، \li1 حرودی الِقہ، \li1 \v 26 پَلطیؔ خلصؔ، \li1 تقوعؔ سے عیراؔ بِن عقیشؔ، \li1 \v 27 عناتوت سے ابیعزیر، \li1 حُوشاتی مبونّائی،\f + \fr 23‏:27 \fr*\fq مبونّائی \fq*\ft یعنی سِبّکائی\ft*\f* \li1 \v 28 ضلمُونؔ احُوحی، \li1 مہرائی نطُوفاتی، \li1 \v 29 نطُوفاتی حلیب یا حلید بِن بعناہ، \li1 بِنیامین کے گِبعہؔ کے اِتھائی بِن رِبائیؔ، \li1 \v 30 فِرعاتونی بِنایاہؔ، \li1 گعشؔ کی وادیوں کا ہِدّیؔ، \li1 \v 31 اَبی علبونؔ عرباتی، \li1 عزماوتؔ برحومی، \li1 \v 32 الیحبہؔ شعلبُونی، \li1 بنی یاشِن \li1 یُوناتانؔ، \v 33 بِن شمّہ ہراری، \li1 احی آم بِن شرارؔ ہراری، \li1 \v 34 الیفلطؔ بِن احسبیؔ معکاتی، \li1 اِلیعامؔ بِن اخِیتُفلؔ گِلونی، \li1 \v 35 کرمِلی حضرُوؔ، \li1 عربی فعریؔ، \li1 \v 36 ضوباہؔ سے ناتنؔ کا بیٹا اِگالؔ، \li1 گادی بانیؔ یعنی ہاگریؔ کا بیٹا، \li1 \v 37 صِلقؔ عمُّونی، \li1 بیروتی نحریؔ یُوآبؔ بِن ضرویاہؔ کا سلح بردار، \li1 \v 38 یتری عیراؔ، \li1 یتری گاریبؔ، \li1 \v 39 اَور حِتّی اورِیّاہؔ۔ \b \lf یہ سَب سینتیس لوگ تھے۔ \c 24 \s1 داویؔد کا مَرد شُماری کرنا \p \v 1 یَاہوِہ کا غُصّہ اِسرائیل کے خِلاف ایک دفعہ پھر بھڑکا اَور اُنہُوں نے داویؔد کو یہ کہہ کر اُبھارا کہ، ”جا کر بنی اِسرائیل اَور یہُوداہؔ کی مردُم شماری کر۔“ \p \v 2 پس بادشاہ نے یُوآبؔ اَور اُس کے ساتھ فَوج کے سپہ سالاروں سے کہا، ”دانؔ سے لے کر بیرشبعؔ تک بنی اِسرائیل کے تمام قبیلوں میں جاؤ اَور اُن لوگوں کا شُمار کرو جو جنگ کرنے کے قابل ہُوں تاکہ مُجھے مَعلُوم ہو کہ اَیسے کتنے آدمی ہیں۔“ \p \v 3 لیکن یُوآبؔ نے بادشاہ کو جَواب دیا کہ، ”داویؔد تمہارا یَاہوِہ اُن لوگوں کو سَو گُنا بڑھائے اَور میرے آقا بادشاہ کی آنکھیں اُنہیں دیکھیں۔ لیکن میرے آقا بادشاہ نے اَیسا اِرادہ کس غرض سے کیا ہے؟“ \p \v 4 مگر یُوآبؔ اَور فَوج کے سپہ سالاروں کو بادشاہ کا حُکم ماَننا پڑا۔ لہٰذا وہ بادشاہ کے حُضُور سے نکلے تاکہ بنی اِسرائیل کے اَیسے لوگوں کا شُمار کریں جو جنگ کے قابل ہُوں۔ \p \v 5 اَور وہ دریائے یردنؔ کو پار کرنے کے بعد عروعؔر کے قریب تنگ گھاٹی میں اُس شہر کے جُنوب میں خیمہ زن ہُوئے۔ پھر گادؔ سے گزر کر آگے یعزیرؔ چلے گیٔے۔ \v 6 اَور پھر وہ گِلعادؔ اَور تحتیمؔ حُدشی کے علاقہ سے گزر کر آگے دانؔ یعن آئے اَور چکّر کاٹ کر صیدونؔ کی جانِب روانہ ہو گئے۔ \v 7 پھر وہ صُورؔ کے قلعہ کی طرف اَور حِوّیوں اَور کنعانیوں کے تمام شہروں سے ہوتے ہُوئے آخِر میں یہُوداہؔ کے جُنوب میں آگے بیرشبعؔ جا پہُنچے۔ \p \v 8 سارے مُلک میں گشت کرنے کے بعد وہ نَو مہینے اَور بیس دِن میں یروشلیمؔ واپس آئے۔ \p \v 9 اَور یُوآبؔ نے اُن لوگوں کی تعداد جو جنگ کرنے کے قابل تھے بادشاہ کو بتایٔی۔ اِسرائیل میں آٹھ لاکھ تندرست و توانا آدمی تھے جو شمشیر زنی کر سکتے تھے اَور یہُوداہؔ میں اَیسے آدمیوں کی تعداد پانچ لاکھ تھی۔ \p \v 10 اَور جنگی مَردوں کی گِنتی کرنے کے بعد داویؔد کے ضمیر نے اُسے پشیمان کیا اَور داویؔد نے یَاہوِہ سے کہا، ”مَیں نے اَیسا کرکے بڑا سنگین گُناہ کیا ہے، اَب اَے یَاہوِہ، مَیں آپ کی مِنّت کرتا ہُوں کہ آپ اَپنے خادِم کا سنگین گُناہ دُور کر دیں کیونکہ مَیں نے یہ بڑی حماقت کی ہے۔“ \p \v 11 اگلی صُبح داویؔد کے اُٹھنے سے پیشتر، یَاہوِہ کا کلام گادؔ نبی پر، جو داویؔد کا غیب بین تھا نازل ہُوا کہ: \v 12 ”جا اَور داویؔد کو بتا، ’یَاہوِہ یُوں فرماتے ہیں کہ مَیں تیرے سامنے تین بَلائیں لاتا ہُوں۔ اُن میں سے ایک چُن لے جسے مَیں تُجھ پر نازل کروں۔‘ “ \p \v 13 لہٰذا گادؔ نے داویؔد کے پاس جا کر اُسے بتایا اَور پُوچھا، ”کیا آپ کے مُلک میں تین سال کا قحط ہو؟ یا جَب آپ کے دُشمن آپ کا تعاقب کریں تو آپ تین مہینے تک اُن سے بھاگتے پھرے؟ یا آپ کے مُلک میں تین دِن تک وَبا پھیلے؟ اِس لئے اَب آپ خُوب سوچ لینا اَور فیصلہ کرنا کہ مُجھے بتائیں کہ مَیں اَپنے بھیجنے والے کو کیا جَواب دُوں؟“ \p \v 14 داویؔد نے گادؔ سے کہا، ”میں بڑی کشمش میں ہُوں۔ بہتر ہے کہ ہم یَاہوِہ کے ہاتھوں میں پڑیں کیونکہ اُن کی رحمتیں عظیم ہیں۔ لیکن مُجھے اِنسان کے ہاتھوں میں پڑنا منظُور نہیں۔“ \p \v 15 سَو یَاہوِہ نے بنی اِسرائیل پر اُس صُبح سے لے کر مُقرّرہ مُدّت کے خاتِمہ تک وَبا بھیجی اَور دانؔ سے بیرشبعؔ تک ستّر ہزار لوگ موت کے شِکار ہو گئے۔ \v 16 اَور جَب فرشتہ نے یروشلیمؔ کو تباہ کرنے کے لیٔے اَپنا ہاتھ بڑھایا تو اِس تباہی سے یَاہوِہ ملُول ہُوئے اَور اُنہُوں نے اُس فرشتہ سے جو لوگوں کو ہلاک کر رہاتھا کہا، ”بس کر! اَپنا ہاتھ روک لے۔“ اُس وقت یَاہوِہ کا فرشتہ یبُوسی اُرنانؔ کے کھلیان میں تھا۔ \p \v 17 جَب داویؔد نے اُس فرشتہ کو جو لوگوں کو مار رہاتھا دیکھا تو اُس نے یَاہوِہ سے کہا، ”گُناہ تو مَیں نے کیا ہے اَور خطا تو مُجھ چرواہے سے ہُوئی ہے اَور یہ تو محض بھیڑیں ہیں۔ اُنہُوں نے کیا کیا ہے؟ لہٰذا آپ کا ہاتھ مُجھ پر اَور میرے گھرانے پر پڑے۔“ \s1 داویؔد کا ایک مذبح تعمیر کرنا \p \v 18 اُسی دِن گادؔ نے داویؔد کے پاس جا کر اُن سے کہا، ”جا اَور یبُوسی اُرنانؔ کے کھلیان میں یَاہوِہ کے لیٔے ایک مذبح تعمیر کر۔“ \v 19 لہٰذا داویؔد جَیسا کہ یَاہوِہ نے اُسے گادؔ کی مَعرفت حُکم دیا تھا۔ \v 20 جَب اُرنانؔ نے نگاہ اُٹھائی تو دیکھا کہ بادشاہ اَور اُن کے اہلکار اُس کی طرف چلے آ رہے ہیں۔ وہ فوراً باہر نِکلا اَور زمین پر مُنہ رکھ کر بادشاہ کو سَجدہ کیا۔ \p \v 21 اُرنانؔ نے کہا، ”میرا آقا بادشاہ اَپنے خادِم کے پاس کس لیٔے آئے ہیں؟“ \p داویؔد نے جَواب دیا، ”تیرا کھلیان خریدنے کے لیٔے تاکہ میں یَاہوِہ کے لیٔے ایک مذبح بنا سکوں۔ تَب لوگوں پر آئی ہُوئی وَبا رُک جائے گی۔“ \p \v 22 اُرنانؔ نے داویؔد سے کہا، ”میرا آقا بادشاہ جو کچھ آپ کو پسند ہے لے لیں اَور نذر چڑھائیں۔ یہاں سوختنی نذر کے لیٔے بَیل ہیں اَور ایندھن کے لیٔے گاہنے کا اوزار گٹھّا اَور بَیلوں کے جُوئے بھی ہیں۔ \v 23 اَے بادشاہ! اُرنانؔ یہ سَب بادشاہ کو دیتاہے۔“ اروناہؔ نے یہ بھی کہا، ”میری دعا ہے کہ یَاہوِہ آپ کا خُدا آپ کو قبُول فرمائیں۔“ \p \v 24 لیکن بادشاہ نے اُرنانؔ کو جَواب دیا، ”نہیں، مَیں تُجھے قیمت اَدا کرنے پر اِس لیٔے بضِد ہُوں کہ مَیں یَاہوِہ اَپنے خُدا کے حُضُور میں اَیسی سوختنی نذریں نہیں پیش کروں گا جِن پر میرا کچھ خرچ نہ ہُوا ہو۔“ \p لہٰذا داویؔد نے وہ کھلیان اَور وہ بَیل پچاس ثاقل چاندی اَدا کرکے خرید لیٔے۔ \v 25 اَور داویؔد نے یَاہوِہ کے لیٔے وہاں ایک مذبح تعمیر کیا اَور سوختنی نذریں اَور سلامتی کی نذریں چڑھائیں۔ تَب یَاہوِہ نے اُس مُلک کے بارے میں کی گئی دعا کا جَواب دیا اَور اِسرائیل سے وہ وَبا جاتی رہی۔