\id 1SA - Biblica® Open Urdu Contemporary Version \ide UTF-8 \h 1 شموایلؔ \toc1 پہلا شموایلؔ کی کِتاب \toc2 1 شموایلؔ \toc3 1 سمو \mt1 پہلا شموایلؔ \mt2 کی کِتاب \c 1 \s1 شموایلؔ کی پیدائش \p \v 1 کوہستان کے اِفرائیمؔ میں راماتائیم ضوفیم کا ایک آدمی تھا، جِس کا نام اِلقانہؔ تھا۔ اَور وہ اِفرائیمی تھا اَور یروحامؔ بِن اِلیہُوؔ بِن توحوؔ بِن صُوفؔ تھا۔ \v 2 اُس کی دو بیویاں تھیں۔ ایک کا نام حنّہؔ تھا اَور دُوسری کا فنِنّہؔ۔ فنِنّہؔ بال بچّوں والی تھی لیکن حنّہؔ بے اَولاد تھی۔ \p \v 3 یہ آدمی ہر سال اَپنے شہر سے شیلوہؔ میں جہاں عیلیؔ کے دو بیٹے حُفنیؔ اَور فِنحاسؔ یَاہوِہ کے کاہِنؔ تھے قادرمُطلق یَاہوِہ کے حُضُور سَجدہ کرنے اَور قُربانی گزراننے کو جاتے تھے۔ \v 4 اَور جَب بھی اِلقانہؔ کے لیٔے قُربانی کرنے کا دِن آتا، تو وہ اَپنی بیوی فنِنّہؔ اَور اُس کے سَب بیٹوں، بیٹیوں کو اُس قُربانی کے گوشت کے حِصّے دیتا تھا۔ \v 5 لیکن حنّہؔ کو وہ دُگنا حِصّہ دیتا تھا کیونکہ وہ اُس سے مَحَبّت کرتا تھا، لیکن یَاہوِہ نے اُس کا رحم بند رکھا تھا۔ \v 6 اَور چونکہ یَاہوِہ نے اُس کا رحم بند رکھا تھا اِس لیٔے اُس کی سوتن اُسے تنگ کرنے کے لیٔے چھیڑتی رہتی تھی۔ \v 7 اَور یہ سلسلہ سال بسال چلتا رہا۔ جَب بھی حنّہؔ یَاہوِہ کے گھر جاتی تو اُس کی سوتن اُس کو چھیڑتی یہاں تک کہ وہ رونے لگتی اَور کھانا نہ کھاتی تھی۔ \v 8 اُس کا خَاوند اِلقانہؔ اُسے کہتا، ”حنّہؔ تُم کیوں رو رہی ہے؟ تُم کھانا کیوں نہیں کھاتی؟ تُم غمگین کیوں ہو؟ کیا مَیں تمہارے لیٔے دس بیٹوں سے بڑھ کر نہیں ہُوں؟“ \p \v 9 ایک بار جَب وہ شیلوہؔ میں کھا پی کر فارغ ہُوئے تو حنّہؔ کھڑی ہو گئی۔ اُس وقت عیلیؔ کاہِنؔ یَاہوِہ کے ہیکل کی چوکھٹ کے پاس کُرسی پر بیٹھا ہُوا تھا۔ \v 10 حنّہؔ کا دِل دُکھ سے بھرا ہُوا تھا۔ وہ رو رو کر یَاہوِہ سے دعا کرنے لگی \v 11 اَور اُس نے یہ کہتے ہُوئے مَنّت مانی، ”اَے قادرمُطلق یَاہوِہ! اگر آپ اَپنی خادِمہ کی خستہ حالت پر نظر عنایت کریں اَور اُسے فراموش نہ کریں بَلکہ یاد رکھیں اَور اُسے ایک بیٹا بخشیں تو میں اُسے زندگی بھرکے لیٔے یَاہوِہ کی نذر کر دوں گی اَور اُس کے سَر پر کبھی اُسترا نہ پھرے گا۔“ \p \v 12 اَور جَب وہ یَاہوِہ سے دعا کر رہی تھی تو عیلیؔ غور سے اُس کا مُنہ دیکھ رہاتھا۔ \v 13 حنّہؔ دِل ہی دِل میں دعا کر رہی تھی اَور اُس کے ہونٹ ہل رہے تھے مگر اُس کی آواز سُنایٔی نہ دیتی تھی۔ لہٰذا عیلیؔ نے یہ سوچ کر کہ وہ نشہ میں ہے \v 14 عیلیؔ نے اُس سے کہا، ”تُم کب تک نشہ میں رہوگی؟ مے کو چھوڑ دو۔“ \p \v 15 حنّہؔ نے جَواب دیا، ”اَیسا نہیں ہے میرے آقا، میں تو ایک غمزدہ عورت ہُوں۔ مَیں نے مَے یا کویٔی اَور نشہ آور شَے نہیں پی ہے۔ بَلکہ میں تو یَاہوِہ کے آگے اَپنے دِل کا غم کو بَیان کر رہی تھی۔ \v 16 تُم اِس خادِمہ کو کویٔی بدکار عورت مت سمجھو۔ میں تو اَپنے دُکھ اَور غم کی شِدّت کے باعث یہاں دعا میں لگی ہُوئی تھی۔“ \p \v 17 تَب عیلیؔ نے جَواب دیا، ”سلامتی سے رخصت ہو اَور اِسرائیل کا خُدا تمہاری وہ مُراد پُوری کریں جِس کے لیٔے تُم نے اُن سے دعا کی ہے۔“ \p \v 18 اُس نے کہا، ”اِس خادِمہ پر آپ کی نظرِکرم ہو۔“ تَب وہ وہاں سے چلی گئی اَور کچھ کھانا کھایا اَور پھر بعد کو اُس کا چہرہ اُداس نہ رہا۔ \p \v 19 اگلے دِن صُبح سویرے اُٹھ کر اُنہُوں نے یَاہوِہ کے حُضُور سَجدہ کیا اَور پھر رامہؔ میں اَپنے گھر کو لَوٹ گیٔے۔ پھر اِلقانہؔ اَپنی بیوی حنّہؔ کے ساتھ ہم بِستر ہُوا اَور یَاہوِہ نے اُسے یاد کیا۔ \v 20 لہٰذا حنّہؔ حاملہ ہُوئی اَور وقت پُورا ہونے پر اُس کے بیٹا پیدا ہُوا۔ اُس نے یہ کہتے ہُوئے، ”مَیں نے اُسے یَاہوِہ سے مانگا ہے اُس کا نام شموایلؔ\f + \fr 1‏:20 \fr*\fq شموایلؔ\fq*\ft یعنی خُدا نے سُنا\ft*\f* رکھا۔“ \s1 حنّہؔ کا شموایلؔ کو مخصُوص کرنا \p \v 21 اَور جَب وہ آدمی اِلقانہؔ اَپنے سارے گھرانے سمیت یَاہوِہ کے حُضُور سالانہ قُربانی چڑھانے اَور اَپنی مَنّت پُوری کرنے گیا \v 22 تو حنّہؔ نہ گئی۔ اُس نے اَپنے خَاوند سے کہا، ”جَب لڑکے کا دُودھ چھُڑایا جائے گا؛ تَب میں اُسے لے کر جاؤں گی اَور یَاہوِہ کے حُضُور پیش کروں گی اَور وہ ہمیشہ وہاں رہے گا۔“ \p \v 23 اَور اُس کے خَاوند اِلقانہؔ نے اُس سے کہا، ”تُجھے جو اَچھّا لگے وُہی کرنا۔ اُس بچّہ کا دُودھ چھُڑانے تک گھر ہی میں رہ۔ فقط اِتنا ہو کہ یَاہوِہ اَپنے قول کو برقرار رکھیں۔“ لہٰذا وہ عورت گھر میں ہی رہی۔ اَور جَب تک بیٹے نے دُودھ پینا نہیں چھوڑا وہ اُسے پلاتی رہی۔ \p \v 24 اَور جَب اُس کا دُودھ پینا چھُڑایا گیا تو اُس نے اُس لڑکے کو جو ابھی کمسِن تھا ساتھ لیا اَور اُسے ایک تین سالہ بچھڑے، ایک ایفہ آٹے\f + \fr 1‏:24 \fr*\fq ایک ایفہ آٹے \fq*\ft تقریباً سولہ کِلوگرام\ft*\f* اَور مَے کی ایک مشک کے ساتھ شیلوہؔ میں یَاہوِہ کے گھر میں لے گئی۔ \v 25 اَور جَب وہ اُس بچھڑے کو ذبح کر چُکے تو وہ اُس لڑکے کو عیلیؔ کے پاس لایٔے۔ \v 26 اَور اُس نے عیلیؔ سے کہا آقا، ”مُجھے مُعاف کیجئے آپ کی جان کی قَسم، میں ہی وہ عورت ہُوں جو ایک دِن یہاں تمہارے پاس کھڑی ہوکر یَاہوِہ سے دعا مانگ رہی تھی۔ \v 27 مَیں نے اِس بچّہ کے لیٔے دعا کی اَور یَاہوِہ نے میری مُراد جو مَیں نے اُس سے مانگی تھی پُوری کر دی۔ \v 28 لہٰذا اَب مَیں اُسے یَاہوِہ کو نذر کرتی ہُوں، یعنی اُسے زندگی بھرکے لیٔے یَاہوِہ کو دے دیا جائے گا۔“ اَور وہاں اُن سبھی نے یَاہوِہ کو سَجدہ کیا۔ \c 2 \s1 حنّہؔ کی دعا \p \v 1 تَب حنّہؔ نے دعا کی اَور کہا: \q1 ”میرا دِل یَاہوِہ میں شادمان ہے؛ \q2 یَاہوِہ نے میرا سینگ اُونچا کیا ہے۔ \q1 میرا مُنہ میرے دُشمنوں پر کُھل گیا ہے، \q2 کیونکہ مَیں آپ کی نَجات سے خُوش ہُوں۔ \b \q1 \v 2 ”یَاہوِہ کی مانند کوئی پاک نہیں؛ \q2 کیونکہ آپ کے سِوا اَور کویٔی ہے ہی نہیں؛ \q2 اَور نہ ہی کویٔی چٹّان ہمارے خُدا کی مانند ہے۔ \b \q1 \v 3 ”اِس قدر مغروُری سے باتیں نہ کرنا \q2 اَور تمہارے مُنہ سے مغروُریت کی کوئی بات نہ نکلے، \q1 کیونکہ یَاہوِہ اَیسے خُدا ہیں جو خُدائے علیم ہے، \q2 وُہی اعمال کے تولنے والے ہیں۔ \b \q1 \v 4 ”سُورماؤں کی کمانیں توڑ دی جاتی ہیں، \q2 لیکن لڑکھڑانے والے قُوّت سے کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ \q1 \v 5 وہ جو آسُودہ تھے روٹی کی خاطِر مزدُور بنے، \q2 لیکن وہ جو بھُوکے تھے اَب بھُوکے نہیں ہیں۔ \q1 وہ جو بانجھ تھی سات بچّوں کی ماں بنی؛ \q2 لیکن وہ جِس کے بہت بچّے ہیں، اُس کی حالت قابل رحم ہے۔ \b \q1 \v 6 ”یَاہوِہ ہی ہیں جو جان لیتے ہیں اَور زندگی بخشتے ہیں؛ \q2 وُہی قبر میں اُتارتے ہیں اَور وُہی قبر سے زندہ اُٹھاتے ہیں۔ \q1 \v 7 یَاہوِہ ہی مُفلس کر دیتے ہیں اَور وُہی دولتمند بناتے ہیں؛ \q2 وُہی پست کرتے ہیں اَور وُہی سرفراز کرتے ہیں۔ \q1 \v 8 وہ مسکین کو خاک پر سے \q2 اَور وہ ہی مُحتاج کو کُوڑے کے ڈھیر سے باہر نکالتے ہیں؛ \q1 وہ اُنہیں اُمرا کے ساتھ بِٹھاتے ہیں \q2 اَور جاہ و جلال کے تخت عطا فرماتے ہیں۔ \b \q1 ”کیونکہ زمین کے سُتون یَاہوِہ ہی کے ہیں؛ \q2 اَور اُن ہی پر اُنہُوں نے دُنیا قائِم کی ہے۔ \q1 \v 9 وہ اَپنے وفادار خادِموں کے قدموں کی نگہبانی کریں گے، \q2 لیکن بدکار اَندھیرے میں فنا کر دئیے جایٔیں گے۔ \b \q1 ”کیونکہ اِنسان قُوّت ہی سے فتح نہیں پاتا؛ \q2 \v 10 جو یَاہوِہ کی مُخالفت کرتے ہیں وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جایٔیں گے۔ \q1 خُداتعالیٰ اُن کے خِلاف آسمان سے گرجیں گے؛ \q2 یَاہوِہ دُنیا کے کناروں کا اِنصاف کریں گے۔ \b \q1 ”وہ اَپنے بادشاہ کو قُوّت بخشیں گے، \q2 وہ اَپنے ممسوح کے سینگ کو فتح مند کریں گے۔“ \p \v 11 تَب اِلقانہؔ رامہؔ کو اَپنے گھر لَوٹ گیا لیکن وہ لڑکا عیلیؔ کاہِنؔ کے ماتحت یَاہوِہ کے حُضُور خدمت کرنے لگا۔ \s1 عیلیؔ کے بدکار بیٹے \p \v 12 عیلیؔ کے بیٹے بڑے بدکار تھے۔ نہ ہی اُن کے لیٔے یَاہوِہ کے اِختیار کی کوئی اہمیّت تھی۔ \v 13 اَور کاہِنوں کا لوگوں کے ساتھ یہ دستور تھا کہ جَب کویٔی شخص قُربانی چڑھاتا تھا تو کاہِنؔ کا خدمت گار گوشت اُبالتے وقت ایک تین رُخی کانٹا اَپنے ہاتھ میں لیٔے ہُوئے آتا \v 14 اَور اُسے کڑاہی یا دیگچے، ہانڈی میں زور سے ڈال کر باہر نکالتا اَور جِتنا گوشت اُس کانٹے میں پھنس کر اُوپر آ جاتا اُسے کاہِنؔ اَپنے لیٔے لے لیتا تھا۔ یہی سلُوک وہ اُن تمام بنی اِسرائیلیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے جو شیلوہؔ میں رہتے تھے۔ \v 15 بَلکہ چربی کے جَلائے جانے سے پیشتر ہی کاہِنؔ کا خدمت گار آ مَوجُود ہوتا اَور قُربانی دینے والے آدمی سے کہنے لگتا، ”کاہِنؔ کے لیٔے کباب کے واسطے کچھ گوشت دیں کیونکہ وہ تُجھ سے اُبلا ہُوا گوشت نہیں بَلکہ کچّا ہی لے گا۔“ \p \v 16 اگر وہ آدمی کہتا، ”پہلے مُجھے چربی جَلا لینے دے اَور پھر جو کچھ تُم چاہے لے لینا،“ تو خدمت گار جَواب دیتا، ”نہیں، ابھی دو۔ اگر تُم نہیں دوگے تو میں زبردستی لے لُوں گا۔“ \p \v 17 عیلیؔ کے لڑکوں کا یہ گُناہ یَاہوِہ کی نظر میں بہت بڑا تھا کیونکہ اُن کی اِس حرکت سے یَاہوِہ کی قُربانی کی تحقیر ہوتی تھی۔ \p \v 18 لیکن شموایلؔ جو ابھی لڑکا تھا کتان کا افُود پہنے ہُوئے یَاہوِہ کے حُضُور میں خدمت کرتا تھا۔ \v 19 ہر سال اُس کی ماں اُس کے لیٔے ایک چھوٹا سا جُبّہ بناتی اَور جَب وہ اَپنے خَاوند کے ساتھ وہاں سالانہ قُربانی چڑھانے جاتی تو اِسے اُس کے پاس لے جاتی۔ \v 20 اَور عیلیؔ اِلقانہؔ اَور اُس کی بیوی کو یہ کہتے ہُوئے دعا دیتا، ”یَاہوِہ تُجھے اِس عورت سے اَور بچّے بخشے تاکہ وہ اُس ایک کی جگہ لے لیں جسے اُس نے دعا کے ذریعہ پایا اَور یَاہوِہ کو نذر کر دیا۔“ پھر وہ گھر چلے جاتے۔ \v 21 اَور یَاہوِہ نے حنّہؔ پر مہربانی کی۔ وہ حاملہ ہُوئی اَور اُس کے تین بیٹے اَور دو بیٹیاں اَور پیدا ہُوئیں۔ اِسی دَوران وہ لڑکا شموایلؔ یَاہوِہ کے حُضُور بڑا ہوتا گیا۔ \p \v 22 اَور عیلیؔ نے جو بہت عمر رسیدہ تھا اُن تمام باتوں کو سُنا جو اُس کے بیٹے سارے اِسرائیل کے ساتھ کیا کرتے تھے اَور کیسے وہ اُن عورتوں کے ساتھ جو خیمہ اِجتماع کے دروازے پر خدمت کرتی تھیں بدکاری کیا کرتے تھے۔ \v 23 لہٰذا اُس نے اُنہیں کہا، ”تُم اَیسے کام کیوں کرتے ہو؟ مَیں تمہارے اِن بُرے کاموں کے متعلّق سارے لوگوں سے سُنتا ہُوں۔ \v 24 نہیں، بیٹو! یہ اَچھّی بات نہیں جسے مَیں یَاہوِہ کے لوگوں کے درمیان پھیلتے سُن رہا ہُوں \v 25 اگر کویٔی آدمی کسی دُوسرے آدمی کا گُناہ کرے تو خُدا اُن میں ثالثی کر سَکتا ہے لیکن اگر کویٔی شخص یَاہوِہ کا گُناہ کرے تو اُس کی شفاعت کون کرےگا؟“ لیکن اُس کے بیٹوں نے اَپنے باپ کی ڈانٹ ڈپٹ کی پروا نہ کی کیونکہ یَاہوِہ کی یہی مرضی تھی کہ وہ مار ڈالے جایٔیں۔ \p \v 26 اَور وہ لڑکا شموایلؔ قد وقامت میں اَور یَاہوِہ اَور اِنسانوں کی مقبُولیّت میں بڑھتا گیا۔ \s1 عیلیؔ کے گھرانے کے خِلاف نبُوّت \p \v 27 تَب ایک مَرد خُدا عیلیؔ کے پاس آیا اَور اُس سے کہا، ”یَاہوِہ یُوں فرماتے ہیں: ’کیا مَیں نے اَپنے آپ کو تیرے آبائی خاندان پر جَب وہ مِصر میں فَرعوہؔ کی غُلامی میں تھا صَاف ظاہر نہیں کیا تھا؟ \v 28 اَور بنی اِسرائیل کے سَب قبیلوں میں سے مَیں نے تیرے باپ کو اَپنا کاہِنؔ ہونے کے لیٔے، اَپنے مذبح کے پاس جانے کے لیٔے، بخُور جَلانے کے لیٔے اَور اَپنی حُضُوری میں افُود پہننے کے لیٔے چُن لیا اَور مَیں نے ہی تیرے آبائی خاندان کے لیٔے سَب غِذا کی نذر بھی مُقرّر کیں جو بنی اِسرائیل آگ سے گزرانتے ہیں۔ \v 29 پس تُم میری اُن قُربانیوں اَور نذروں کی جو مَیں نے اَپنے قِیام کے لیٔے مُقرّر کی ہیں تحقیر کیوں کرتے ہو؟ تیرے بیٹے میری قوم اِسرائیل کے ہر ہدیہ کے عُمدہ سے عُمدہ حِصّوں کو کھا کر اَپنے آپ کو موٹا کرتے ہیں۔ تُم اَپنے بیٹوں کو مُجھ سے زِیادہ عزّت کیوں دیتاہے؟‘ \p \v 30 ”اِس لیٔے یَاہوِہ اِسرائیل کا خُدا فرماتے ہیں: ’مَیں نے وعدہ کیا تھا کہ تیرا گھرانا اَور تیرا آبائی گھرانا اَبد تک میرے حُضُور میں خدمت کرتا رہے گا۔‘ مگر اَب یَاہوِہ فرماتے ہیں: ’اَب بات بہت بڑھ چُکی ہے! کیونکہ جو میری عزّت کرتے ہیں مَیں اُن کی عزّت کروں گا۔ لیکن وہ جو میری تحقیر کرتے ہیں اُن کی تحقیر ہوگی۔ \v 31 دیکھو وہ دِن آ رہے ہیں کہ میں تیری اَور تیرے باپ کے گھرانے کی قُوّت کو اِس قدر زائل کر دُوں گا کہ تیرے خاندان میں کویٔی بھی لمبی عمر نہیں پایٔےگا۔ \v 32 اَور تُم میرے قِیام میں مُصیبت دیکھوگے اَور اگرچہ اِسرائیل کا بھلا ہوتا رہے گا لیکن تیرے گھرانے میں کسی کی عمر دراز نہ ہوگی۔ \v 33 اَور اگر تُم میں سے کسی کو میں اَپنے مذبح سے الگ نہیں کرتا تو اُسے صِرف تُجھے آنسُو رُلانے اَور تیرے دِل کو دُکھ پہُنچانے کے لیٔے زندہ رہنے دیا جائے گا اَور تیری ساری اَولاد بھری جَوانی میں مَر جائے گی۔ \p \v 34 ” ’اَورجو کچھ تیرے دونوں بیٹوں حُفنیؔ اَور فِنحاسؔ کے ساتھ ہوگا وہ تیرے لیٔے ایک نِشان ہوگا۔ وہ دونوں ایک ہی دِن مَریں گے۔ \v 35 اَور مَیں اَپنے لیٔے ایک وفادار کاہِنؔ برپا کروں گا جو میری مرضی اَور منشا کے مُطابق عَمل کرےگا میں اُس کے گھر کو پائیداری بخشوں گا اَور وہ ہمیشہ میرے ممسوح کے حُضُور میں خدمت کرےگا۔ \v 36 تَب ہر ایک جو تیرے گھرانے میں بچا رہ جائے گا ایک ٹکڑے چاندی اَور ایک ٹکیا روٹی کے لیٔے اُس کے سامنے آکر سَجدہ کرےگا اَور اِلتجا کرےگا، ”کہانت کا کویٔی کام مُجھے بھی دیا جائے تاکہ کھانے کے لیٔے مُجھے روٹی مُیسّر ہو سکے۔“ ‘ “ \c 3 \s1 یَاہوِہ کا شموایلؔ کو بُلانا \p \v 1 اَور اُس لڑکے شموایلؔ نے عیلیؔ کے ماتحت یَاہوِہ کے حُضُور میں خدمت کی۔ اُن ایّام میں یَاہوِہ کا کلام کم ہی نازل ہوتا تھا اَور رُویا بھی عام نہ تھی۔ \p \v 2 ایک رات عیلیؔ، جِس کی آنکھیں اِس قدر کمزور ہو گئی تھیں کہ وہ بمشکل دیکھ سَکتا تھا اَپنی جگہ لیٹا ہُوا تھا \v 3 اَور خُدا کا چراغ جَل رہاتھا۔ شموایلؔ یَاہوِہ کی ہیکل میں جہاں خُدا کا صندُوق تھا لیٹا ہُوا تھا۔ \v 4 تَب یَاہوِہ نے شموایلؔ کو پُکارا: \p شموایلؔ نے جَواب دیا، ”مَیں حاضِر ہُوں۔“ \v 5 اَور وہ دَوڑکر عیلیؔ کے پاس گیا اَور کہا، ”آپ نے مُجھے آواز دی تھی، مَیں حاضِر ہُوں۔“ \p لیکن عیلیؔ نے کہا، ”نہیں مَیں نے تو نہیں بُلایا۔“ جا، جا کر لیٹ جا۔ لہٰذا وہ جا کر لیٹ گیا۔ \p \v 6 اَور یَاہوِہ نے پھر پُکارا، ”شموایلؔ!“ اَور شموایلؔ اُٹھ کر عیلیؔ کے پاس گیا اَور کہا، ”آپ نے مُجھے پُکارا تھا مَیں حاضِر ہُوں۔“ \p عیلیؔ نے کہا، ”کہ بیٹا، مَیں نے تُجھے نہیں پُکارا۔ واپس جا اَور لیٹ جا۔“ \p \v 7 شموایلؔ ابھی تک یَاہوِہ سے آشنا نہ تھا اَور نہ ہی کبھی یَاہوِہ کا کلام اُس پر نازل ہُوا تھا۔ \p \v 8 پھر یَاہوِہ نے تیسری بار ”شموایلؔ!“ کو پُکارا اَور شموایلؔ اُٹھ کر عیلیؔ کے پاس گیا اَور کہا، ”آپ نے مُجھے پُکارا اِس لیٔے مَیں حاضِر ہُوں۔“ \p تَب عیلیؔ سمجھ گیا کہ اُس لڑکے کو یَاہوِہ آواز دے رہے تھے۔ \v 9 لہٰذا عیلیؔ نے شموایلؔ سے کہا، ”جا اَور لیٹ جا، اگر تُجھے پھر بُلایا جائے تو کہنا، ’اَے یَاہوِہ! فرمایئے کیونکہ آپ کا بندہ سُن رہاہے۔‘ “ پس شموایلؔ جا کر اَپنی جگہ لیٹ گیا۔ \p \v 10 تَب یَاہوِہ وہاں آ کھڑے ہُوئے اَور پہلے کی طرح پُکارا، ”شموایلؔ! شموایلؔ!“ \p تَب شموایلؔ نے کہا، ”فرمایئے کیونکہ آپ کا خادِم سُن رہاہے۔“ \p \v 11 اَور یَاہوِہ نے شموایلؔ سے کہا: ”دیکھ، مَیں اِسرائیل میں ایک اَیسا کام کرنے والا ہُوں جسے سُن کر ہر ایک کے کان بھنّا اُٹھیں گے۔ \v 12 اُس وقت مَیں عیلیؔ کے خِلاف وہ سَب کچھ جو مَیں نے اُس کے گھرانے کے خِلاف شروع سے لے کر آخِر تک کہا عَمل میں لاؤں گا۔ \v 13 کیونکہ مَیں اُسے بتا چُکا ہُوں کہ میں اُس بدکاری کے باعث جسے وہ جانتا ہے اُس کے گھر کا ہمیشہ کے لیٔے فیصلہ کروں گا۔ اُس کے بیٹے لعنتی کام کرتے رہے اَور وہ اُنہیں روکنے میں ناکام رہا۔ \v 14 اِس لیٔے عیلیؔ کے گھرانے کی بابت مَیں نے قَسم کھائی، ’قُربانی یا ہدیہ سے بھی اُس کے گھرانے کے گُناہ کا کفّارہ نہیں ہوگا۔‘ “ \p \v 15 اَور شموایلؔ صُبح تک لیٹا رہا۔ تَب اُس نے یَاہوِہ کے گھر کے دروازے کھولے اَور وہ اَپنی رُویا کی بات عیلیؔ کو بتانے سے ڈرتا تھا۔ \v 16 لیکن عیلیؔ نے اُسے بُلایا، ”بیٹا، شموایلؔ۔“ \p شموایلؔ نے جَواب دیا، ”مَیں حاضِر ہُوں۔“ \p \v 17 ”وہ کیا بات ہے جو خُدا نے تُجھ سے کہی ہے؟“ تَب عیلیؔ نے پُوچھا، ”اُسے مُجھ سے نہ چھُپا۔ اَور اگر تُم مُجھ سے کویٔی بات جو اُنہُوں نے بتایٔی ہے چھُپاؤگے تو خُدا تُجھ سے وَیسا ہی بَلکہ اُس سے بھی زِیادہ کرے۔“ \v 18 لہٰذا شموایلؔ نے اُسے سَب کچھ بتا دیا اَور اُس سے کچھ بھی نہ چھپایا۔ تَب عیلیؔ نے کہا، ”وہ یَاہوِہ ہیں۔ اُنہیں وہ کام کرنے دیں جو اُن کی نظر میں بھلا ہے۔“ \p \v 19 اَور جَب شموایلؔ بڑا ہُوا، تو یَاہوِہ اُس کے ساتھ تھے اَور اُنہُوں نے شموایلؔ کے بارے میں اَپنی ساری پیشین گوئیاں پُوری کیں۔ \v 20 اَور تمام اِسرائیل نے دانؔ سے بیرشبعؔ تک تسلیم کر لیا کہ شموایلؔ یَاہوِہ کا مُقرّر کیا ہُوا نبی ہے۔ \v 21 اَور یَاہوِہ شیلوہؔ میں ظاہر ہوتے رہے اَور وہیں پر اُنہُوں نے اَپنے کلام کے وسیلہ سے اَپنے آپ کو شموایلؔ پر ظاہر کیا تھا۔ \c 4 \p \v 1 اَور شموایلؔ کا کلام تمام اِسرائیل میں پہُنچا۔ \s1 فلسطینیوں کا عہد کے صندُوق پر قبضہ کرنا \p پھر اَیسا ہُوا کہ اِسرائیلی فلسطینیوں سے لڑنے کے لیٔے نکلے۔ اِسرائیلیوں نے اِبن عزرؔ میں نصب کی اَور فلسطینیوں نے افیقؔ میں۔ \v 2 اَور فلسطینی اِسرائیل کا مُقابلہ کرنے کے لیٔے صف آرا ہُوئے اَور جَب لڑائی نے زور پکڑا تو اِسرائیلیوں نے فلسطینیوں سے شِکست کھائی کیونکہ اُن کے تقریباً چار ہزار آدمی میدانِ جنگ میں قتل کر دئیے گیٔے تھے۔ \v 3 جَب وہ فَوجی سپاہی چھاؤنی میں واپس آئے تو اِسرائیل کے بُزرگوں نے پُوچھا، ”آج یَاہوِہ نے ہمیں فلسطینیوں سے شِکست کیوں دِلوائی؟ آؤ ہم یَاہوِہ کا عہد کا صندُوق شیلوہؔ سے لے آئیں تاکہ وہ ہمارے ساتھ جائے اَور ہمیں ہمارے دُشمنوں کے ہاتھ سے بچائیں۔“ \p \v 4 لہٰذا اُنہُوں نے شیلوہؔ میں آدمی بھیجے اَور وہ اُس قادرمُطلق یَاہوِہ\f + \fr 4‏:4 \fr*\fq قادرمُطلق یَاہوِہ \fq*\ft عِبرانی میں یَاہوِہ سباؤتھ یعنی لشکروں کے یَاہوِہ\ft*\f* کے عہد کے صندُوق کو لے آئے جو کروبیوں کے درمیان تخت نشین ہے۔ اَور عیلیؔ کے دونوں بیٹے حُفنیؔ اَور فِنحاسؔ وہاں یَاہوِہ کے عہد کے صندُوق کے ساتھ تھے۔ \p \v 5 اَور جَب یَاہوِہ کا عہد کا صندُوق چھاؤنی میں آ گیا تو تمام اِسرائیلیوں نے اِتنے زور سے نعرہ مارا کہ زمین لرز اُٹھی۔ \v 6 اُس شوروغل کو سُن کر فلسطینیوں نے پُوچھا، ”عِبرانیوں کی چھاؤنی میں یہ سَب نعرہ بازی کیسی ہے؟“ \p اَور جَب اُنہیں مَعلُوم ہُوا کہ یَاہوِہ کا عہد کا صندُوق چھاؤنی میں آ گیا ہے \v 7 تو فلسطینی ڈر گیٔے اَور کہنے لگے، ”اُن کی چھاؤنی میں تو ایک معبُود آ گیا ہے۔“ مزید کہا ”یہ ایک بَلا ہم پر آئی ہے اِس سے پہلے کبھی اَیسا نہیں ہُوا۔ \v 8 اَب ہماری خیر نہیں! اِن زبردست معبُودوں کے ہاتھ سے ہمیں کون بچائے گا؟ یہ وُہی معبُود ہیں جنہوں نے مِصریوں پر بیابان میں مہلک بَلائیں نازل کیں۔ \v 9 اَے فلسطینیو! مضبُوط بنو اَور مردانگی کے جوہر دِکھاؤ ورنہ تُم عِبرانیوں کے محکُوم ہو جاؤگے جَیسا کہ وہ اِس وقت تمہارے محکُوم ہیں۔ مردانگی سے کام لو اَور لڑو!“ \p \v 10 پس فلسطینی لڑے اَور اِسرائیلیوں نے شِکست کھائی اَور ہر ایک آدمی اَپنے اَپنے خیمہ کی طرف بھاگ نِکلا۔ وہاں بہت بڑی خُونریزی ہُوئی جِس میں اِسرائیل کے تیس ہزار پیادے کام آئے۔ \v 11 خُدا کا صندُوق اِسرائیل کے ہاتھ سے نکل گیا اَور عیلیؔ کے دونوں بیٹے حُفنیؔ اَور فِنحاسؔ بھی مارے گیٔے۔ \s1 عیلیؔ کی وفات \p \v 12 اَور اُسی دِن بِنیامین کے گھرانے کا ایک آدمی میدانِ جنگ سے بھاگ کر شیلوہؔ پہُنچا۔ اُس کے کپڑے پھٹے ہُوئے تھے اَور اُس نے اَپنے سَر پر خاک ڈال رکھی تھی۔ \v 13 جَب وہ وہاں پہُنچا تو عیلیؔ راہ کے کنارے اَپنی کُرسی پر بیٹھا اِنتظار کر رہاتھا۔ کیونکہ اُس کے دِل میں خُدا کے عہد کے صندُوق کے لیٔے اَندیشہ تھا۔ اَور جَب وہ آدمی قصبہ میں داخل ہُوا اَورجو کچھ واقع ہُوا تھا بتایا تو سارا قصبہ چِلّانے لگا۔ \p \v 14 عیلیؔ نے چِلّانے کی آواز سُن کر، ”پُوچھا کہ اِس شوروغل کا کیا مطلب ہے؟“ \p اَور وہ آدمی جلدی سے عیلیؔ کے پاس گیا، \v 15 عیلیؔ اٹّھانوے سال کا تھا اَور اُس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں اَور وہ دیکھ نہ سَکتا تھا۔ \v 16 اُس نے عیلیؔ، کو بتایا، ”میں ابھی ابھی میدانِ جنگ سے آیا ہُوں اَور بھاگ کر یہاں پہُنچا ہُوں۔“ \p تَب عیلیؔ نے پُوچھا، ”بیٹا! لڑائی کا کیا حال رہا؟“ \p \v 17 جو آدمی خبر لے کر آیاتھا اُس نے جَواب دیا، ”اِسرائیلی فلسطینیوں سے شِکست کھا کر بھاگ نکلے اَور فَوج کا سخت جانی نُقصان ہُواہے۔ تمہارے دونوں بیٹے حُفنیؔ اَور فِنحاسؔ بھی جنگ میں کام آئے ہیں اَور خُدا کے عہد کا صندُوق چھِن گیا ہے۔“ \p \v 18 جَب اُس نے خُدا کے عہد کے صندُوق کا ذِکر کیا تو وہ اَپنی کُرسی سے پیچھے کی طرف پھاٹک کے پاس گرا اَور اُس کی گردن ٹوٹ گئی اَور وہ مَر گیا کیونکہ وہ ایک ضعیف اَور بھاری بھر کم آدمی تھا۔ اُس نے قاضی کی حیثیت سے چالیس سال تک اِسرائیل کی قیادت کی۔ \p \v 19 اُس کی بہُو، فِنحاسؔ کی بیوی حاملہ تھی اَور عنقریب جننے والی تھی۔ جَب اُس نے یہ خبر سُنی کہ خُدا کے عہد کا صندُوق چھین لیا گیا اَور اُس کا سسُر اَور خَاوند مَر گیٔے تو وہ دردِزہ میں مُبتلا ہو گئی اَور بچّے کو پیدا کیا۔ مگر وہ دردِزہ سے اِس قدر نڈھال ہو گئی \v 20 کہ قریبُ المرگ تھی۔ وہ عورتیں جو اُس کی تیمار داری کر رہی تھیں کہنے لگیں، ”مایوس نہ ہو۔ تُم کو بیٹا ہُواہے۔“ مگر اُس نے نہ تو جَواب دیا نہ توجّہ کی۔ \p \v 21 اَور اُس نے یہ کہتے ہُوئے اُس لڑکے کا نام ایکبودؔ رکھا، خُدا کے عہد کا صندُوق چھِن جانے اَور اُس کے سسُر اَور خَاوند کے اِنتقال کے باعث، ”اِسرائیل سے جلال جاتا رہا۔“ \v 22 اُس نے کہا، ”جلال اِسرائیل سے رخصت ہُوا کیونکہ خُدا کے عہد کا صندُوق چھِن گیا ہے۔“ \c 5 \s1 اشدُودؔ اَور عقرونؔ میں صندُوق \p \v 1 خُدا کے عہد کا صندُوق چھین لینے کے بعد، فلسطینی اُسے اِبن عزرؔ سے اشدُودؔ لے گیٔے۔ \v 2 اَور فلسطینیوں نے خُدا کے صندُوق کو دگونؔ کے مَندِر میں لے جا کر دگونؔ معبُود کے پاس رکھ دیا۔ \v 3 اگلے دِن جَب اشدُودؔ کے لوگ صُبح کو اُٹھے تو دیکھا، وہاں دگونؔ تھا، یَاہوِہ کے عہد کے صندُوق کے آگے مُنہ کے بَل زمین پر گرا پڑا ہے! تَب اُنہُوں نے دگونؔ کو اُٹھایا اَور واپس اُس کی جگہ پر رکھ دیا۔ \v 4 لیکن اگلی صُبح جَب وہ اُٹھے، تو وہاں دگونؔ تھا، یَاہوِہ کے عہد کے صندُوق کے آگے اوندھے مُنہ زمین پر گرا پڑا تھا! اُس کا سَر اَور بازو توڑ دئیے گیٔے تھے اَور دہلیز پر پڑے ہُوئے تھے۔ صِرف اُس کا دھڑ رہ گیا تھا۔ \v 5 یہی وجہ ہے کہ آج بھی دگونؔ کے پجاری اَور دیگر لوگ جو اشدُودؔ میں دگونؔ کے مَندِر میں آتے ہیں دہلیز پر پاؤں نہیں رکھتے۔ \p \v 6 اَور یَاہوِہ کا ہاتھ اشدُودؔ اَور اُس کے گِردونواح کے لوگوں پر بھاری تھا۔ یَاہوِہ نے اُن پر تباہی نازل کر دی اَور اُنہیں گِلٹیوں کی تکلیف (طاعون) میں مُبتلا کر دیا۔ \v 7 اشدُودؔ کے لوگوں نے جَب یہ حال دیکھا تو کہنے لگے، ”اِسرائیل کے معبُود کا صندُوق یہاں ہمارے پاس ہرگز نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اُن کا ہاتھ ہم پر اَور ہمارے معبُود دگونؔ پر بھاری ہے۔“ \v 8 لہٰذا اُنہُوں نے فلسطینیوں کے تمام سرداروں کو بُلاکر جمع کیا اَور پُوچھا، ”ہم اِسرائیل کے معبُود کے صندُوق کا کیا کریں؟“ \p اُنہُوں نے جَواب دیا، ”اِسرائیل کے خُدا کا صندُوق گاتؔھ بھجوا دو۔“ لہٰذا اُنہُوں نے اِسرائیل کے خُدا کا صندُوق وہاں مُنتقل کر دیا۔ \p \v 9 جَب اُنہُوں نے اُسے مُنتقل کر دیا تو یَاہوِہ کا ہاتھ اُس شہر کے خِلاف اُٹھا اَور وہاں بڑا خوف و ہِراس پھیل گیا اَور یَاہوِہ نے اُس شہر کے لوگوں کو چُھوٹے سے بڑے تک گِلٹیوں کی وَبا میں مُبتلا کر دیا۔ \v 10 لہٰذا اُنہُوں نے خُدا کے صندُوق کو عقرونؔ بھیج دیا۔ \p اَور جوں ہی خُدا کے عہد کا صندُوق عقرونؔ میں داخل ہُوا عقرونؔ کے لوگ چِلّانے لگے، ”وہ ہمیں اَور ہمارے لوگوں کو مارنے کے لیٔے اِسرائیل کے معبُود کا صندُوق اِدھر لایٔے ہیں۔“ \v 11 پس اُنہُوں نے فلسطینیوں کے تمام سرداروں کو بُلاکر جمع کیا اَور کہا، ”اِسرائیل کے معبُود کا صندُوق یہاں سے ہٹا دو اَور اُسے اُس کی اَپنی جگہ پر واپس بھجوا دو ورنہ اُس کی مَوجُودگی ہمیں اَور ہمارے لوگوں کو مار ڈالے گی۔“ وجہ یہ تھی کہ موت نے شہر میں خوف و ہِراس پھیلا دیا تھا اَور خُدا کا ہاتھ اُس شہر پر بہت بھاری تھا۔ \v 12 جو لوگ موت سے بچ گیٔے تھے وہ گِلٹیوں کے مرض میں مُبتلا تھے۔ اَور اُس شہر کی شوروغل آسمان تک جا پہُنچی۔ \c 6 \s1 صندُوق کا اِسرائیل کو لَوٹایا جانا \p \v 1 جَب یَاہوِہ کے عہد کے صندُوق کو فلسطینیوں کے علاقہ میں سات مہینے ہو گئے، \v 2 تو فلسطینیوں نے کاہِنوں اَور غیب بینوں کو بُلایا اَور کہا، ”ہم یَاہوِہ کے اِس صندُوق کا کیا کریں؟ ہمیں بتاؤ کہ اگر اِسے اِس کی جگہ اُس کو واپس کس طریقہ سے بھیجا جائے۔“ \p \v 3 اُنہُوں نے جَواب دیا، ”اگر تُم اِسرائیل کے معبُود کے صندُوق کو واپس بھیجنا چاہتے ہو تو اِسے خالی نہ بھیجنا بَلکہ اُس کے ساتھ خطا کی قُربانی کے طور پر ہرجانہ بھی ضروُر بھیجنا۔ تَب تُم شفا پاؤگے اَور اُسے جان بھی لوگے ورنہ اُس کا ہاتھ تُم پر بھاری رہے گا۔“ \p \v 4 فلسطینیوں نے پُوچھا، ”خطا کی قُربانی کے طور پر کیا ہرجانہ بھیجنا چاہیے؟“ \p اُنہُوں نے جَواب دیا، ”فلسطینی سرداروں کی تعداد کے مُطابق سونے کی پانچ گِلٹیاں اَور سونے کے پانچ چُوہے۔ کیونکہ تُم اَور تمہارے سردار طاعون کی وَبا میں مُبتلا ہُوئے ہو۔ \v 5 لہٰذا تُم اُن گِلٹیوں اَور اُن چُوہوں کے جو مُلک کو ہلاک کر رہے ہیں بُت بناؤ اَور اِسرائیل کے خُدا کا جلال ظاہر کرو۔ تَب شاید وہ تُم، اَور تمہارے معبُودوں اَور تمہارے مُلک پر سے اَپنا دستِ غضب اُٹھا لیں۔ \v 6 تُم کیوں مِصریوں اَور فَرعوہؔ کی طرح اَپنے دِلوں کو سخت کرتے ہو؟ جَب وہ اُن کے ساتھ سختی سے پیش آیا تو کیا اُنہُوں نے اِسرائیلیوں کو مِصر سے باہر نہیں جانے دیا اَور کیا وہ وہاں سے نکل نہیں گیٔے؟ \p \v 7 ”اَب تُم ایک نئی گاڑی تیّار رکھو اَور اُس کے ساتھ دو گائیں اَیسی لو جِن کے بچھڑے دُودھ پیتے ہُوں اَورجو کبھی جُوتی نہ گئی ہُوں اَور اُنہیں گاڑی کھینچنے کے لیٔے گاڑی میں جوت دو۔ لیکن اُن کے بچھڑوں کو گھر لے جا کر باڑے میں بند کردینا۔ \v 8 اَور یَاہوِہ کا صندُوق لے کر اُس گاڑی پر چڑھانا اَور سونے کی اُن اَشیا کو جنہیں تُم خطا کی قُربانی یعنی ہرجانہ کے طور پر بھیج رہے ہو ایک صندوقچہ میں بند کرکے یَاہوِہ کے عہد کے صندُوق کے پاس رکھنا اَور گاڑی کو روانہ کردینا۔ \v 9 مگر اِسے دیکھتے رہنا۔ اگر وہ بیت شِمِشؔ کی طرف اَپنے علاقہ کو جائے تو سمجھ لینا کہ یہ بَلائے عظیم یَاہوِہ ہی نے ہم پر نازل کی ہے۔ لیکن اگر وہ اَپنے علاقہ کو نہ جائے تو ہم جان لیں گے کہ جِس ہاتھ نے ہمیں مارا وہ یَاہوِہ کا ہاتھ نہیں تھا بَلکہ ہمارے ساتھ یہ حادثہ اِتّفاقاً ہو گیا۔“ \p \v 10 لہٰذا اُنہُوں نے اَیسا ہی کیا اَور اُسی طرح کی دو گائیں لے کر اُنہیں گاڑی میں جوتا اَور اُن کے بچھڑوں کو لے جا کر چُھوٹے باڑے میں باندھا \v 11 اَور یَاہوِہ کے صندُوق کو گاڑی پر چڑھایا اَور اُس کے ہمراہ وہ صندوقچہ بھی رکھ دیا جِس میں سونے کے چُوہے اَور گِلٹیوں کی بُت بند تھیں۔ \v 12 تَب وہ گائیں راہ پر ڈکارتی ہوئی چلتی ہُوئی جا رہی تھیں اَور سارا راستہ سیدھے بیت شِمِشؔ کی طرف اَور داہنی طرف یا بائیں طرف نہ مُڑیں۔ اَور فلسطینیوں کے سردار بیت شِمِشؔ کی سرحد تک اُن کے پیچھے پیچھے گیٔے۔ \p \v 13 اُس وقت بیت شِمِشؔ کے لوگ وادی میں اَپنے گیہُوں کی کٹائی کر رہے تھے اَور جَب اُنہُوں نے نگاہ اُٹھاکر اُس صندُوق کو دیکھا تو وہ اُسے دیکھتے ہی خُوشی منانے لگے۔ \v 14 اَور وہ گاڑی بیت شِمِشؔ کے یہوشُعؔ کے کھیت پر پہُنچی اَور وہاں ایک بڑی چٹّان کے پاس رُک گئی۔ تَب اُن لوگوں نے اُس گاڑی کی لکڑی کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اَور دونوں گائیں بطور سوختنی نذر یَاہوِہ کے حُضُور چڑھا دیں۔ \v 15 اَور لیویوں نے یَاہوِہ کے صندُوق کو اَور اُس صندوقچہ کو جِس میں سونے کی اَشیا تھیں لے کر اُنہیں اُس بڑی چٹّان پر رکھ دیا۔ اُس دِن بیت شِمِشؔ کے لوگوں نے یَاہوِہ کے لیٔے سوختنی نذریں چڑھائیں اَور ذبیحے گزرانے۔ \v 16 اَور فلسطینیوں کے پانچوں سرداروں کو یہ سارا ماجرا دیکھ کر اُسی دِن عقرونؔ لَوٹ گیٔے۔ \p \v 17 وہ سونے کی گِلٹیاں جو فلسطینیوں نے یَاہوِہ کو خطا کی قُربانی یعنی ہرجانہ کے طور پر بھیجیں یہ ہیں: اشدُودؔ، غزّہؔ، اشقلونؔ، گاتؔھ اَور عقرونؔ ہر ایک کے لیٔے ایک ایک \v 18 اَور سونے کے اُن چُوہوں کی تعداد اُتنی ہی تھی جِتنی کہ اُن فلسطینی قصبوں کی تھی جو اُن سرداروں کے ماتحت تھے۔ اُس میں اُن قلعہ بند قصبوں اَور بغیر فصیل کے دیہات کی تعداد بھی شامل ہے جو اُس بڑی چٹّان تک پھیلے ہُوئے تھے جِس پر اُنہُوں نے یَاہوِہ کے صندُوق کو رکھا تھا۔ وہ چٹّان آج تک یہوشُعؔ بیت شِمِشؔ کے کھیت میں مَوجُود ہے اَور اِس واقعہ کی شاہِد ہے۔ \p \v 19 لیکن خُدا نے بیت شِمِشؔ کے کچھ لوگوں کو سخت سزا دی اَور اُن میں سے ستّر کو مار ڈالا کیونکہ اُنہُوں نے یَاہوِہ کے صندُوق کے اَندر جھانکا تھا۔ اَور وہاں کے لوگوں نے یَاہوِہ کی اُس بھاری سزا کے باعث بڑا ماتم کیا۔ \v 20 اَور بیت شِمِشؔ کے لوگوں نے پُوچھا، ”کون یَاہوِہ کے حُضُور اِس قُدُّوس خُدا کے حُضُور کھڑا رہ سَکتا ہے؟ یہاں سے صندُوق کس طرف روانہ کیا جائے؟“ \p \v 21 تَب اُنہُوں نے قِریت یعریمؔ کے لوگوں کے پاس قاصِد بھیج کر پیغام دیا، ”اُن فلسطینیوں نے یَاہوِہ کا صندُوق لَوٹا دیا ہے۔ لہٰذا تُم آؤ اَور اُسے اَپنے یہاں لے جاؤ۔“ \c 7 \nb \v 1 تَب قِریت یعریمؔ کے لوگوں نے آکر یَاہوِہ کے صندُوق کو اَپنے قبضہ میں لے لیا اَور اُسے ابینادابؔ کے گھر جو پہاڑی پر ہے لے گیٔے اَور اُس کے بیٹے الیعزرؔ کی تقدیس کی کہ وہ یَاہوِہ کے صندُوق کی نگہبانی کرے۔ \v 2 وہ صندُوق بیس سال کے طویل عرصہ تک قِریت یعریمؔ میں ہی رہا۔ \s1 شموایلؔ کا مِصفاہؔ میں فلسطینیوں کو مغلُوب کرنا \p اَور اِسرائیل کے سَب لوگ نوحہ کرتے رہے اَور یَاہوِہ کی بخشش کے طلب گار ہُوئے۔ \v 3 اَور شموایلؔ نے تمام بنی اِسرائیل کے گھرانے سے کہا، ”اگر تُم اَپنے سارے دِل سے یَاہوِہ کی طرف رُجُوع کر رہے ہو تو پھر غَیر معبُودوں اَور عستوریتؔ کو اَپنے درمیان سے دُور کرکے اَپنے آپ کو یَاہوِہ کے سُپرد کر دو اَور اگر تُم صِرف اُن ہی کی عبادت کروگے تو وہ تُمہیں فلسطینیوں کے ہاتھ سے چھُڑائیں گے۔“ \v 4 لہٰذا بنی اِسرائیل اَپنے بَعل معبُود اَور عستوریتؔ کو چھوڑکر فقط یَاہوِہ کی عبادت کرنے لگے۔ \p \v 5 پھر شموایلؔ نے کہا، ”تمام اِسرائیل کو مِصفاہؔ میں جمع کرو اَور مَیں یَاہوِہ سے تمہاری شفاعت کروں گا۔“ \v 6 اَور جَب وہ مِصفاہؔ میں جمع ہُوئے تو اُنہُوں نے کوئیں سے پانی بھر کر یَاہوِہ کے آگے اُنڈیلا اَور اُس دِن اُنہُوں نے روزہ رکھا اَور وہاں اُنہُوں نے اعتراف کیا، ”ہم نے یَاہوِہ کا گُناہ کیا ہے۔“ اَور مِصفاہؔ میں شموایلؔ اِسرائیل کا قاضی تھا۔ \p \v 7 جَب فلسطینیوں نے سُنا کہ بنی اِسرائیل مِصفاہؔ میں جمع ہُوئے ہیں تو فلسطینیوں کے سردار اُن پر حملہ کرنے کی غرض سے بڑھے۔ جَب اِسرائیلیوں نے یہ سُنا تو وہ فلسطینیوں کی وجہ سے دہشت زدہ ہو گئے۔ \v 8 اَور بنی اِسرائیل نے شموایلؔ سے کہا، ”ہمارے لیٔے یَاہوِہ ہمارے خُدا سے فریاد کرنا بند نہ کرنا تاکہ وہ ہمیں فلسطینیوں کے ہاتھ سے بچائیں۔“ \v 9 تَب شموایلؔ نے ایک دُودھ پیتا برّہ لیا اَور اُسے پُوری سوختنی نذر کے طور پر یَاہوِہ کے حُضُور گزرانا اَور اُس نے بنی اِسرائیل کی طرف سے یَاہوِہ سے فریاد کی اَور یَاہوِہ نے اُس کی سُنی۔ \p \v 10 اَور جَب شموایلؔ سوختنی نذر گزران رہاتھا تو فلسطینی نزدیک آ پہُنچے تاکہ اِسرائیلیوں سے جنگ کریں۔ لیکن اُس دِن یَاہوِہ فلسطینیوں پر زور سے گرجے اَور اُن میں اَیسا خوف و ہِراس پیدا کر دیا کہ اُنہُوں نے اِسرائیلیوں کے ہاتھوں شِکست کھا کر بھاگ گئے۔ \v 11 اَور اِسرائیل کے لوگوں نے بڑی پھرتی سے مِصفاہؔ سے نکل کر فلسطینیوں کا تعاقب کیا اَور بیت کرؔ سے نیچے ایک مقام تک راستہ بھر اُن کا قتلِ عام کرتے چلے گیٔے۔ \p \v 12 تَب شموایلؔ نے ایک پتّھر لے کر اُسے مِصفاہؔ اَور شینؔ کے درمیان نصب کر دیا اَور اُس نے یہ کہہ کر اُس کا نام اِبن عزرؔ\f + \fr 7‏:12 \fr*\fq اِبن عزرؔ \fq*\ft یعنی مدد کا پتّھر\ft*\f* رکھا کہ، ”اِتنی دُور تک یَاہوِہ نے ہماری مدد کی۔“ \p \v 13 لہٰذا فلسطینی مغلُوب ہو گئے اَور اُنہُوں نے اِسرائیلی علاقہ پر پھر حملہ نہ کیا۔ اَور شموایلؔ کے لئے زندگی بھر یَاہوِہ کا ہاتھ ہمیشہ فلسطینیوں کے خِلاف رہا۔ \v 14 اَور عقرونؔ سے گاتؔھ تک کے قصبات جو فلسطینیوں نے اِسرائیل سے چھین لیٔے تھے اُن پر پھر سے اِسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ اِسرائیل نے اَپنے سارے علاقہ کو فلسطینیوں کے تسلُّط سے چھُڑا لیا اَور بنی اِسرائیل اَور امُوریوں کے درمیان بھی صُلح و سلامتی ہو گئی۔ \p \v 15 شموایلؔ زندگی بھر بنی اِسرائیل کی بطور رہنما عدالت کرتے رہے۔ \v 16 وہ سال بسال بیت ایل سے گِلگالؔ اَور وہاں سے مِصفاہؔ کو دورہ پر جاتے اَور اُن تمام مقامات میں بنی اِسرائیل کی عدالت کرتے تھے۔ \v 17 لیکن وہ ہمیشہ رامہؔ کو جہاں اُن کا گھر تھا واپس چلے جاتے تھے اَور وہاں بھی وہ بنی اِسرائیل کی عدالت کرتے تھے۔ وہیں اُنہُوں نے یَاہوِہ کے لیٔے ایک مذبح بنایا۔ \c 8 \s1 بنی اِسرائیل نے ایک بادشاہ کی درخواست کی۔ \p \v 1 جَب شموایلؔ ضعیف ہو گئے تو اُنہُوں نے اَپنے بیٹوں کو بنی اِسرائیل کے لیٔے قاضی مُقرّر کیا۔ \v 2 اُس کے پہلوٹھے کا نام یُوایلؔ تھا اَور اُس کے دُوسرے بیٹے کا نام ابیّاہؔ تھا اَور وہ بیرشبعؔ میں قاضی تھے۔ \v 3 لیکن شموایلؔ کے بیٹے اُس کے نقش قدم پر نہ چلے۔ وہ ناجائز نفع کمانے پرتُلے ہُوئے تھے رشوت لیتے اَور اِنصاف کا خُون کرتے تھے۔ \p \v 4 لہٰذا بنی اِسرائیل کے سَب بُزرگ جمع ہوکر رامہؔ میں شموایلؔ کے پاس آئے \v 5 اَور کہنے لگے، ”تُم بُوڑھے ہو گئے ہو، اَور تمہارے بیٹے تمہاری راہوں پر نہیں چلتے، اِس لیٔے تُم دیگر قوموں کی طرح ہم پر کسی کو بادشاہ مُقرّر کر دو۔“ \p \v 6 لیکن جَب اُنہُوں نے کہا، ”ہماری عدالت کرنے کے لیٔے ہمیں کویٔی بادشاہ دیں،“ تو یہ بات شموایلؔ کو بڑی بُری لگی۔ لہٰذا اُس نے یَاہوِہ سے دعا کی۔ \v 7 اَور یَاہوِہ نے شموایلؔ سے کہا: ”جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اُسے سُن۔ یہ تُم نہیں جسے اُنہُوں نے ردّ کیا ہے بَلکہ اُنہُوں نے مُجھے اَپنے بادشاہ کے طور پر ردّ کیا ہے۔ \v 8 جَب مَیں اُنہیں مِصر سے نکال کر لایا اُس دِن سے آج تک جِس طرح وہ غَیر معبُودوں کی عبادت کرنے کے لیٔے مُجھے چھوڑ چُکے ہیں وَیسے ہی وہ تمہارے ساتھ کر رہے ہیں۔ \v 9 تُم اُن کی بات مان لو لیکن سنجِیدگی سے اُنہیں خبردار کر دو اَور بتا دو کہ وہ بادشاہ جو اُن پر حُکمرانی کرےگا اُس کے ضوابط کیا ہوں گے۔“ \p \v 10 تَب شموایلؔ نے، اُن لوگوں کو جو اُس سے ایک بادشاہ مُقرّر کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے یَاہوِہ کی سَب باتیں کہہ سُنائیں۔ \v 11 اَور یہ بھی کہا، ”تُم پر حُکومت کرنے والا بادشاہ جو کچھ کرےگا وہ یہ ہے: وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اَپنے رتھوں اَور گھوڑوں کے لیٔے خدمت گار رکھےگا اَور وہ اُس کے رتھوں کے آگے آگے دَوڑیں گے۔ \v 12 بعض کو وہ ہزار ہزار پر اَور بعض کو پچاس پچاس پر سردار مُقرّر کرےگا اَور بعض کو اَپنی زمین میں ہل چلانے اَور اَپنی فصل کاٹنے کے کام پر لگائے گا اَور بعض کو دُوسروں کو جنگ کے ہتھیار بنانے اَور اَپنے رتھوں کے لیٔے سازوسامان تیّار کرنے کے لیٔے رکھےگا۔ \v 13 اَور تمہاری بیٹیوں کو لے کر اُن سے عطر سازی کروائے گا، سالن تیّار کروائے گا اَور روٹیاں پکوائے گا۔ \v 14 وہ تمہارے بہترین کھیتوں اَور تاکستانوں اَور زَیتُون کے باغوں کو لے کر اَپنے خدمت گاروں کو عطا کرےگا۔ \v 15 اَور تمہارے اناج اَور تمہاری انگور کی فصل کا دسواں حِصّہ لے کر اَپنے خادِموں اَور اہلکاروں کو دے گا۔ \v 16 تمہارے خادِموں اَور لونڈیوں اَور تمہارے بہترین مویشیوں اَور گدھوں کو اَپنے اِستعمال کے لیٔے لے لے گا۔ \v 17 وہ تمہاری بھیڑ بکریوں کا دسواں حِصّہ لے لے گا اَور تُم خُود بھی اُس کے غُلام بَن کر رہ جاؤگے۔ \v 18 اَور جَب وہ دِن آئے گا تو تُم اُس بادشاہ سے جسے تُم نے چُنا ہوگا نَجات پانے کے لیٔے فریاد کروگے لیکن اُس دِن یَاہوِہ تمہاری نہ سُنیں گے۔“ \p \v 19 لیکن لوگوں نے شموایلؔ کی بات سُننے سے اِنکار کر دیا اَور کہا، ”نہیں! ہم اَپنے اُوپر ایک بادشاہ چاہتے ہیں۔ \v 20 تَب ہم بھی اَور سَب قوموں کی مانند ہوں گے اَور ہم پر حُکومت کرنے، ہمارے آگے جانے اَور ہماری لڑائیاں لڑنے کے لیٔے ہمارا بھی ایک بادشاہ ہوگا۔“ \p \v 21 شموایلؔ نے لوگوں کی سَب باتیں سُنیں اَور اُنہیں یَاہوِہ کے حُضُور دہرایا۔ \v 22 تَب یَاہوِہ نے جَواب دیا، ”اُن کی بات مان لے اَور اُن کے لیٔے ایک بادشاہ مُقرّر کر دے۔“ \p تَب شموایلؔ نے بنی اِسرائیل کے ”لوگوں کو اَپنے اَپنے قصبے کو چلے جانے کا حُکم دیا۔“ \c 9 \s1 شموایلؔ کا شاؤل کو مَسح کرنا \p \v 1 وہاں بِنیامین کے قبیلہ سے ایک آدمی تھا جِس کا نام قیشؔ بِن اَبی ایل بِن ضرورؔ بِن بکورتؔ بِن اپیحؔ بِنیامین تھا۔ وہ ایک صاحبِ حیثیت بھی تھا۔ \v 2 اُس کا شاؤل نامی ایک بیٹا تھا جو جَوان اَور خُوبصورت تھا اَور جِس کا بنی اِسرائیل میں کویٔی ثانی نہ تھا۔ وہ اِتنا قدآور تھا کہ دیگر لوگوں میں سے ہر کویٔی اُس کے کندھے تک آتا تھا۔ \p \v 3 شاؤل کے باپ قیشؔ کے گدھے کھو گیٔے۔ اِس لئے قیشؔ نے اَپنے بیٹے شاؤل سے کہا، ”ایک خدمت گار کو ساتھ لے کر جاؤ اَور گدھوں کو ڈھونڈو۔“ \v 4 لہٰذا وہ اِفرائیمؔ کے پہاڑی علاقہ اَور شلِیشہؔ کے اِردگرد کے خِطّہ میں اُنہیں ڈھونڈتے پھرے لیکن وہ کہیں نہ ملے۔ تَب وہ اَور آگے شعلیِمؔ کے علاقہ میں گیٔے لیکن گدھے وہاں بھی نہ تھے۔ تَب وہ بِنیامین کے علاقہ میں داخل ہوکر گھُومے پھرے لیکن اُنہیں وہاں بھی نہ پایا۔ \p \v 5 اَور جَب وہ صُوفؔ کے ضلع میں پہُنچے تو شاؤل اَپنے خدمت گار سے جو اُن کے ساتھ تھا کہنے لگے، ”آؤ، واپس چلیں ورنہ میرے باپ گدھوں کی فکر چھوڑکر ہماری فکر میں مُبتلا ہو جائیں گے۔“ \p \v 6 لیکن خدمت گار نے جَواب دیا، ”دیکھ! اِس قصبہ میں ایک مَرد خُدا ہیں جِن کا بڑا اِحترام کیا جاتا ہے اَورجو کچھ وہ کہتے ہیں وہ ضروُر پُورا ہوتاہے۔ آؤ، اَب وہاں چلیں۔ شاید وہ ہمیں بتا سکیں کہ ہم کس طرف جایٔیں۔“ \p \v 7 شاؤل نے اَپنے خدمت گار سے کہا، ”اگر ہم جایٔیں بھی تو اُس آدمی کو کیا دے سکیں گے؟ وہ کھانا جو ہمارے توشہ دان میں تھا ختم ہو چُکاہے۔ ہمارے پاس اُس مَرد خُدا کو پیش کرنے کے لیٔے کویٔی تحفہ نہیں۔ ہمارے پاس ہے کیا؟“ \p \v 8 اُس خادِم نے شاؤل کو جَواب میں کہا، ”دیکھو! میرے پاس پاؤ بھر ثاقل\f + \fr 9‏:8 \fr*\fq پاؤ بھر ثاقل \fq*\ft تقریباً تین گرام\ft*\f* چاندی ہے جسے میں اُس مَرد خُدا کو دے دُوں گا تاکہ وہ ہمیں بتائیں کہ ہم کس طرف جایٔیں۔“ \v 9 (پچھلے زمانہ میں اِسرائیل میں دستور تھا کہ جَب بھی کویٔی خُدا سے کچھ پُوچھنے جاتا تو وہ کہتا تھا، ”آؤ، کسی غیب بین کے پاس چلیں،“ کیونکہ جسے آج کل نبی کہتے ہیں پہلے وہ غیب بین کہلاتا تھا)۔ \p \v 10 تَب شاؤل نے اَپنے خدمت گار سے کہا، ”ٹھیک ہے۔ آؤ، چلیں۔“ لہٰذا وہ اُس قصبہ کی طرف جہاں وہ مَرد خُدا تھا روانہ ہو گئے۔ \p \v 11 اَور جَب وہ اُس قصبہ کی طرف پہاڑی پر چڑھ رہے تھے تو اُنہُوں نے دیکھا کہ قصبہ کی کچھ لڑکیاں باہر پانی بھرنے آ رہی ہیں۔ وہ اُن کے پاس جا کر پُوچھنے لگے، ”کیا وہ غیب بین یہاں ہیں؟“ \p \v 12 اُنہُوں نے جَواب دیا، ”ہاں، وہ یہیں ہیں۔ دیکھو، وہ تمہارے سامنے ہی ہیں۔ جلدی کرو، وہ آج ہی ہمارے قصبہ میں آئے ہیں کیونکہ آج اُونچے مقام پر لوگوں کی طرف سے قُربانی چڑھائی جاتی ہے۔ \v 13 اَور جوں ہی تُم قصبے میں داخل ہو تو اُس سے پہلے کہ وہ اُونچے مقام پر کھانا کھانے کے لیٔے جائیں تُم اُن سے مِل سکوگے۔ لوگ اُن کے آنے تک کھانا نہیں کھایٔیں گے کیونکہ اُن کا قُربانی کو برکت دینا ضروُری ہے۔ اُس کے بعد بُلائے ہُوئے مہمان کھایٔیں گے۔ اَب جاؤ، یہی وقت ہے کہ تُم اُن سے مِل سکوگے۔“ \p \v 14 وہ اُس قصبہ کی طرف بڑھے اَور جَب وہ اُس میں داخل ہو رہے تھے تو شموایلؔ اُس اُونچے مقام کو جانے کے لیٔے اُن کی طرف آ رہے تھے۔ \p \v 15 اَور شاؤل کے آنے سے ایک دِن پیشتر ہی یَاہوِہ نے شموایلؔ کو آگاہ کر دیا تھا: \v 16 ”کل تقریباً اِسی وقت مَیں بِنیامین کی سرزمین سے ایک آدمی کو تمہارے پاس بھیجوں گا۔ اُسے میری قوم اِسرائیل پر حُکمرانی کرنے کے لیٔے مَسح کرنا۔ وہ میرے لوگوں کو فلسطینیوں کے ہاتھ سے چھُڑائے گا۔ مَیں نے اَپنے لوگوں پر نظر کی ہے کیونکہ اُن کی فریاد مُجھ تک پہُنچی ہے۔“ \p \v 17 لہٰذا جَب شموایلؔ نے شاؤل کو دیکھا تو یَاہوِہ نے شموایلؔ سے کہا، ”یہی وہ آدمی ہے جِس کی بابت مَیں نے تُمہیں بتایا تھا۔ یہی میرے لوگوں پر حُکومت کرےگا۔“ \p \v 18 اَور شاؤل نے پھاٹک پر شموایلؔ کے پاس جا کر پُوچھا، ”کیا آپ مہربانی کرکے مُجھے بتائیں گے کہ غیب بین کا گھر کہاں ہے؟“ \p \v 19 شموایلؔ نے شاؤل جَواب دیا، ”مَیں ہی وہ غیب بین ہُوں۔ میرے آگے آگے اُونچے مقام کو چلو کیونکہ آج تُم میرے ساتھ کھانا کھاؤگے اَور صُبح کو مَیں تُمہیں رخصت کروں گا اَورجو کچھ تمہارے دِل میں ہے سَب تُمہیں بتا دُوں گا۔ \v 20 اَور تمہارے گدھے جِن کو کھویٔے ہُوئے تین دِن ہو گئے ہیں اُن کی بابت فکر نہ کرو کیونکہ وہ مِل گیٔے ہیں۔ اَور اگر بنی اِسرائیل کو تمہاری اَور تمہارے آبائی گھرانے کی تمنّا نہیں تو پھر کس کی تمنّا ہے؟“ \p \v 21 شاؤل نے جَواب دیا، ”کیا میں ایک بِنیامینی یعنی اِسرائیل کے سَب سے چُھوٹے قبیلہ سے نہیں ہُوں؟ اَور کیا میرا خاندان بِنیامین کے قبیلہ کے کل خاندانوں میں سَب سے چھوٹا نہیں؟ پھر آپ مُجھ سے اَیسی بات کیوں کہتے ہو؟“ \p \v 22 تَب شموایلؔ نے شاؤل اَور اُن کے خدمت گار کو مہمان خانہ میں لاکر سَب مہمانوں سے آگے جو کویٔی تیس آدمی تھے ایک مخصُوص جگہ بِٹھایا۔ \v 23 اَور شموایلؔ نے باورچی سے کہا، ”گوشت کا وہ ٹکڑا لاؤ جو مَیں نے تُمہیں دیا تھا اَور کہاتھا کہ اُسے الگ رکھ چھوڑنا۔“ \p \v 24 لہٰذا باورچی نے وہ ران اَورجو کچھ اُس پر تھا اُٹھاکر شاؤل کے سامنے رکھ دیا۔ تَب شموایلؔ نے کہا، ”یہ اُس وقت سے تمہارے ہی واسطے رکھی ہُوئی تھی، ’جَب مَیں نے مہمانوں کی ضیافت کرنے کی بات کہی تھی۔ اِسے کھاؤ!‘ “ لہٰذا اُس دِن شاؤل نے شموایلؔ کے ساتھ کھانا کھایا۔ \p \v 25 اَور اُونچے مقام سے قصبہ میں آنے کے بعد شموایلؔ نے اَپنے گھر کی چھت پر شاؤل سے باتیں کیں۔ \v 26 اگلے دِن کی صُبح کو بیدار ہوتے ہی شموایلؔ نے شاؤل کو پھر گھر کی چھت پر بُلایا اَور کہا، ”تیّار ہو جاؤ تاکہ مَیں تُمہیں رخصت کروں۔“ اَور جَب شاؤل تیّار ہو گئے تو وہ اَور شموایلؔ اِکٹھّے باہر نکلے۔ \v 27 اَور جَب وہ قصبہ کی سرحد سے باہر نکل رہے تھے تو شموایلؔ نے شاؤل سے کہا، ”اَپنے خدمت گار کو حُکم دو کہ وہ آگے چلا جائے۔“ خدمت گار نے وَیسا ہی کیا، ”لیکن تُم ابھی یہاں ٹھہرے رہو کیونکہ مَیں تُمہیں خُدا کی طرف سے ایک پیغام دینا چاہتا ہُوں۔“ \c 10 \p \v 1 تَب شموایلؔ نے تیل کی کُپّی لی اَور اُسے شاؤل کے سَر پر اُنڈیلا اَور اُسے چُوم کر کہنے لگا، ”کیا یہ حقیقت نہیں کہ یَاہوِہ نے تُمہیں اَپنی مِیراث یعنی بنی اِسرائیل کا بادشاہ ہونے کے لیٔے مَسح کیا ہے؟ \v 2 جَب تُم آج میرے پاس سے چلے جاؤگے، تو راخلؔ کے مقبرہ کے قریب بِنیامین کے علاقہ میں ضِلضعؔ کے مقام پر دو آدمی تُم سے ملیں گے۔ اَور کہیں گے، ’وہ گدھے جنہیں تُم ڈھونڈنے گئے تھے مِل گیٔے ہیں۔ اَب تمہارے باپ نے اُن کے بارے میں فکر کرنا چھوڑ دیا ہے اَور وہ تمہارے لیٔے فِکرمند ہے اَور کہتے ہیں، ”مَیں اَپنے بیٹے کے لیٔے کیا کروں؟“ ‘ \p \v 3 ”پھر وہاں سے آگے بڑھ کر جَب تُم تبورؔ کے بڑے بلُوط درخت کے پاس پہُنچوگے تو وہاں تُمہیں تین آدمی ملیں گے جو بیت ایل یعنی خُدا کے گھر کی زیارت کے لیٔے جا رہے ہوں گے۔ ایک بکری کے تین بچّے، دُوسرا تین روٹیاں اَور تیسرا مَے کا ایک مشکیزہ اُٹھائے ہوگا۔ \v 4 وہ تُمہیں سلام کریں گے اَور دو روٹیاں پیش کریں گے جنہیں تُم قبُول کر لینا۔ \p \v 5 ”اَور اُس کے بعد تُم خُدا کے گِبعہؔ تک پہُنچ جاؤ گئے جہاں فلسطینیوں کی ایک چوکی ہے۔ جَب تُم اُس قصبہ میں داخل ہوگے تو تُمہیں نبیوں کا ایک جلوس اُونچے مقام سے نیچے آتا ہُوا ملے گا جِن کے آگے بربط، دف، بانسری اَور سِتار بجائے جا رہے ہوں گے اَور وہ نبُوّت کر رہے ہوں گے۔ \v 6 تَب یَاہوِہ کا رُوح تُم پر شِدّت سے نازل ہوگا اَور تُم بھی اُن کے ساتھ نبُوّت کرنے لگوگے اَور بالکُل نئی شخصیت بَن جاؤگے۔ \v 7 جَب ایک دفعہ یہ نِشانات پُورے ہو جایٔیں تَب جو کچھ تُمہیں پیش آئے اُسے اَنجام دینا کیونکہ خُدا تمہارے ساتھ ہے۔ \p \v 8 ”تُم مُجھ سے پیشتر گِلگالؔ کو چلے جانا اَور مَیں سوختنی نذریں اَور سلامتی کی نذر کی قُربانیاں گزراننے یقیناً تمہارے پاس آؤں گا۔ لیکن جَب تک مَیں تمہارے پاس آکر تُمہیں بتا نہ دُوں کہ تُمہیں کیا کرناہے تُم سات دِن تک ضروُر میرا اِنتظار کرنا۔“ \s1 شاؤل کا بادشاہ بنایا جانا \p \v 9 اَور جوں ہی شاؤل نے شموایلؔ سے رخصت ہونے کے لیٔے پیٹھ پھیری خُدا نے شاؤل کا دِل تبدیل کر دیا۔ اَور یہ تمام نِشانیاں اُس دِن پُوری ہو گئیں۔ \v 10 اَور پھر وہ گِبعہؔ یعنی خُدا کے پہاڑ تک پہُنچ گیا۔ وہاں اُسے نبیوں کا ایک جلوس مِلا اَور خُدا کی رُوح بڑی شِدّت سے اُن پر نازل ہُوا اَور وہ بھی اُن کے ہمراہ نبُوّت کرنے لگے۔ \v 11 اَور جَب اُن کے پہلے سے جاننے والے والوں نے اُنہیں نبیوں کے ہمراہ نبُوّت کرتے دیکھا تو، ”وہ ایک دُوسرے سے پُوچھنے لگے کہ قیشؔ کے بیٹے کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا شاؤل بھی نبیوں میں شامل ہے؟“ \p \v 12 اَور وہاں کے ایک آدمی نے جَواب دیا: ”اُن کا باپ\f + \fr 10‏:12 \fr*\fq باپ \fq*\ft یعنی نبیوں کے گِروہ کا رہنما\ft*\f* کون ہے؟“ تَب ہی سے یہ ضرب المثل چلی: ”کیا شاؤل بھی نبیوں میں سے ایک ہیں؟“ \v 13 اَور جَب شاؤل نبُوّت کرچکے تو وہ اُونچے مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔ \p \v 14 وہاں شاؤل کے چچا نے شاؤل سے اَور اُن کے خدمت گار سے پُوچھا، ”تُم کہاں تھے؟“ \p شاؤل نے جَواب دیا، ”گدھوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ لیکن جَب ہم نے دیکھا کہ وہ نہیں ملتے تو ہم شموایلؔ کے پاس گیٔے۔“ \p \v 15 شاؤل کے چچا نے کہا، ”مُجھے بتاؤ کہ شموایلؔ نے کیا کچھ کہا۔“ \p \v 16 شاؤل نے جَواب دیا، ”شموایلؔ نے ہمیں یقین دِلایا کہ گدھے مِل گیٔے ہیں۔“ لیکن اَپنے چچا کو یہ نہیں بتایا، شموایلؔ نے اُن کے بادشاہ بنائے جانے کے بارے میں کیا کہاتھا۔ \p \v 17 اَور شموایلؔ نے اِسرائیل کے لوگوں کو مِصفاہؔ میں یَاہوِہ کے حُضُور میں طلب کیا۔ \v 18 اَور اُنہُوں نے کہا، ”یَاہوِہ، بنی اِسرائیل کے خُدا کا یہ فرمان ہے: ’میں بنی اِسرائیل کو مِصر سے نکال کر لایا اَور مَیں نے تُمہیں مِصریوں اَور دُوسرے تمام ممالک کے ظُلم و سِتم سے رِہائی بخشی۔‘ \v 19 لیکن تُم نے اَب اَپنے خُدا کو جو تُمہیں تمام آفتوں اَور تکلیفوں سے بچاتے ہیں ردّ کر دیا اَور اُن سے اِصرار کیا، ’ہم پر بادشاہ مُقرّر کریں۔‘ لہٰذا اَب تُم اَپنے اَپنے قبیلوں اَور برادریوں کے مُطابق گِروہ بناؤ اَور اَپنے آپ کو یَاہوِہ کے حُضُور میں پیش کرو۔“ \p \v 20 جَب شموایلؔ اِسرائیل کے سَب قبیلوں کو نزدیک لائے تو قُرعہ بِنیامین کے برادری کے نام کا نِکلا۔ \v 21 پھر وہ بِنیامین کے قبیلہ کو اُن کے برادریوں کے لحاظ سے آگے لایا اَور قُرعہ مَطریؔ کے برادری کے نام کا نِکلا اَور پھر آخِر میں شاؤل بِن قیشؔ کا نام نِکلا۔ لیکن جَب اُنہُوں نے اُنہیں ڈھونڈا تو وہ نہ مِلا۔ \v 22 لہٰذا اُنہُوں نے یَاہوِہ سے پھر پُوچھا کہ کیا، ”وہ آدمی اِس وقت یہاں مَوجُود ہے کہ نہیں؟“ \p اَور یَاہوِہ نے کہا، ”ہاں، وہ سامان کے درمیان چھُپا ہُواہے۔“ \p \v 23 تَب وہ دَوڑے اَور اُسے وہاں سے باہر لایٔے۔ اُس کا قد اِتنا لمبا تھا کہ جَب وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہُوا تو وہ اُس کے کندھے تک آتے تھے۔ \v 24 تَب شموایلؔ نے سارے لوگوں سے کہا، ”کیا تُم اُس آدمی کو دیکھتے ہو جسے یَاہوِہ نے چُناہے؟ سارے آدمیوں میں کویٔی بھی اُس کی مانند نہیں ہے۔“ \p تَب لوگ نعرے مارنے لگے، ”ہمارا بادشاہ زندہ باد۔“ \p \v 25 پھر شموایلؔ نے لوگوں کو بادشاہ کے ضوابط بتائے اَور اُس نے اُنہیں طُومار پر لِکھ کر یَاہوِہ کے حُضُور میں حِفاظت سے رکھ دیا۔ اُس کے بعد شموایلؔ نے اُن لوگوں کو اِجازت دی کہ سَب اَپنے اَپنے گھر چلے جایٔیں۔ \p \v 26 اَور شاؤل بھی اُن سُورما مَردوں کے ہمراہ جِن کے دِلوں پر خُدا نے اثر کیا تھا گِبعہؔ میں اَپنے گھر چلا گیا۔ \v 27 لیکن بعض شر پسندوں نے کہا، ”یہ شخص ہمیں کیسے بچا سَکتا ہے؟“ اُنہُوں نے شاؤل کو حقیر جانا اَور اُن کے لیٔے کویٔی نذرانہ نہ لایٔے لیکن شاؤل نے خاموشی اِختیار کی۔ \c 11 \s1 شاؤل نے یبیسؔ شہر کو بچایا \p \v 1 تَب ناحسؔ عمُّونی نے چڑھائی کرکے یبیسؔ گِلعادؔ کا محاصرہ کر لیا، اَور یبیسؔ کے تمام لوگوں نے اُس سے کہا، ”ہمارے ساتھ عہد کر لو اَور ہم آپ کی خدمت کریں گے۔“ \p \v 2 لیکن ناحسؔ عمُّونی نے جَواب دیا، ”میری ایک شرط ہے کہ تُم میں سے ہر ایک کی داہنی آنکھ نکال ڈالی جائے۔ اِس طرح سارے اِسرائیل کو ذلیل کرنے کے بعد ہی میں تُم سے عہد کروں گا۔“ \p \v 3 تَب یبیسؔ کے بُزرگوں نے نحس سے کہا، ”ہمیں سات دِن کی مہلت دے تاکہ ہم اِسرائیل کے طُول و عرض میں قاصِد بھیج سکیں۔ اگر ہمیں کویٔی بچانے نہ آیا تو ہم اَپنے آپ کو تمہارے حوالہ کر دیں گے۔“ \p \v 4 جَب وہ قاصِد شاؤل کے گِبعہؔ میں آئے اَور لوگوں کو اُن شرائط کی اِطّلاع دی تو وہ سَب چِلّا چِلّاکر رونے لگے۔ \v 5 عَین اُس وقت شاؤل اَپنے بَیلوں کے پیچھے کھیتوں سے واپس آ رہے تھے۔ اُنہُوں نے پُوچھا، ”اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ وہ کیوں رو رہے ہیں؟“ تَب اُنہُوں نے یبیسؔ کے لوگوں کی باتیں اُن کے سامنے دہرائیں۔ \p \v 6 جَب شاؤل نے اُن کی باتیں سُنیں تو خُدا کی رُوح اُن پر بڑی شِدّت سے نازل ہُوا اَور وہ غُصّہ سے آگ بگُولا ہو گئے۔ \v 7 شاؤل نے ایک جوڑی بَیل لیٔے اُن کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اَور پھر اُن ٹُکڑوں کو قاصِدوں کے ہاتھ اِس اعلان کے ساتھ اِسرائیل کے سَب حِصّوں میں بھیج دیا، ”کہ جو کویٔی شاؤل اَور شموایلؔ کی پیروی نہیں کرےگا اُس کے بَیلوں کے ساتھ بھی اَیسا ہی کیا جائے گا۔“ تَب لوگوں پر یَاہوِہ کا خوف چھا گیا اَور وہ ایک تن ہوکر آئے۔ \v 8 جَب شاؤل نے بزق میں اُنہیں جمع کرکے گِنا تو اِسرائیل کے مَرد تعداد میں تین لاکھ اَور یہُوداہؔ کے مَرد تعداد میں تیس ہزار تھے۔ \p \v 9 اَور اُنہُوں نے اُن قاصِدوں کو جو آئےتھے بتایا، ”یبیسؔ گِلعادؔ کے لوگوں کو کہنا، ’کل دھوپ تیز ہونے تک تُمہیں بچا لیا جائے گا۔‘ “ جَب قاصِدوں نے جا کر یبیسؔ کے لوگوں کو یہ اِطّلاع دی تو وہ مارے خُوشی کے پھُول گیٔے \v 10 اَور اہلِ یبیسؔ نے عمُّونیوں سے کہا، ”کل ہم اَپنے آپ کو تمہارے حوالہ کر دیں گے، تَب جو کچھ تُمہیں اَچھّا لگے ہمارے ساتھ کرنا۔“ \p \v 11 اگلے دِن صُبح کو شاؤل نے اَپنے آدمیوں کو تین گِروہوں میں تقسیم کیا اَور وہ رات کے آخِری پہر کے دَوران عمُّونیوں کی چھاؤنی میں گھُس گیٔے اَور دھوپ چڑھنے تک اُن کو قتل کرتے رہے اَورجو بچ نکلے وہ اَیسے تِتّر بِتّر ہُوئے کہ دو آدمی بھی کہیں ایک ساتھ نہ رہے۔ \s1 شاؤل کی بادشاہ کے طور پر تصدیق \p \v 12 تَب لوگوں نے شموایلؔ سے کہا، ”وہ کون تھے جنہوں نے کہاتھا، ’کیا شاؤل ہم پر حُکمرانی کرےگا؟‘ اُن آدمیوں کو ہمارے پاس لاؤ ہم اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیں گے۔“ \p \v 13 لیکن شاؤل نے کہا، ”آج، کویٔی ہرگز نہیں ماراجائے گا، کیونکہ آج کے دِن یَاہوِہ نے اِسرائیل کو بچایا ہے۔“ \p \v 14 تَب شموایلؔ نے لوگوں سے کہا، ”آؤ، ہم گِلگالؔ چلیں اَور وہاں بادشاہی کی نئے سِرے سے توثیق کریں۔“ \v 15 لہٰذا تمام لوگ گِلگالؔ کو گیٔے اَور وہاں یَاہوِہ کی حُضُوری میں اُنہُوں نے شاؤل کے مُستقِل طور پر بادشاہ بنائے جانے کا اعلان کیا۔ پھر اُنہُوں نے وہاں یَاہوِہ کے آگے سلامتی کی نذر کی قُربانی گزرانی اَور شاؤل اَور تمام بنی اِسرائیلیوں نے بڑا جَشن منایا۔ \c 12 \s1 شموایلؔ کی الوداعی تقریر \p \v 1 تَب شموایلؔ نے سَب اِسرائیلیوں سے کہا، ”دیکھو، مَیں نے تمہاری بات مان لی اَور اَب ایک بادشاہ تُم پر مُقرّر کر دیا ہے۔ \v 2 اَور اَب رہنمائی کے لیٔے تمہارے پاس ایک بادشاہ ہے۔ رہی میری بات سو، مَیں تو بُوڑھا ہو گیا اَور میرے سَر کے بال سفید ہو گئے ہیں اَور میرے بیٹے یہاں تمہارے ساتھ ہیں۔ میں اَپنی جَوانی سے لے کر اِس دِن تک تمہارا قائد رہا ہُوں۔ \v 3 میں یہاں تمہارے سامنے کھڑا ہُوں۔ اِس لئے تُم یَاہوِہ اَور اُس کے ممسوح کے آگے میرے مُنہ پر بتاؤ کہ مَیں نے کسی کا بَیل یا کسی کا گدھا لیا ہے؟ مَیں نے کِس کو رشوت لے کر دھوکا دیا؟ کِس پر ظُلم کیا؟ اَپنی آنکھیں بند کرنے کے لیٔے کِس کے ہاتھ سے مَیں نے رشوت لی؟ اگر مَیں نے کویٔی اَیسی بات کی ہے تو بتاؤ میں اُس کی تلافی کروں گا۔“ \p \v 4 اُنہُوں نے جَواب دیا، ”تُم نے نہ تو ہم سے دغابازی کی اَور نہ ہی ہم پر ظُلم کیا۔ نہ ہی تُم نے کسی کے ہاتھ سے ناحق کویٔی چیز لی۔“ \p \v 5 تَب شموایلؔ نے اُن سے کہا، ”یَاہوِہ تمہارا گواہ ہیں اَور شاؤل اُس کا ممسوح بھی آج کے دِن گواہ ہے کہ میرے پاس تمہارا کچھ نہیں نِکلا۔“ \p اُنہُوں نے کہا، ”یَاہوِہ گواہ ہیں۔“ \p \v 6 پھر شموایلؔ نے لوگوں سے کہا، ”یہ یَاہوِہ ہی ہیں جنہوں نے مَوشہ اَور اَہرونؔ کو مُقرّر کیا اَورجو تمہارے آباؤاَجداد کو مُلک مِصر سے نکال کر لے آئے۔ \v 7 لہٰذا اَب یہیں کھڑے رہو تاکہ مَیں تمہارے رُوبرو اُن تمام راستی کے کاموں کی شہادت دُوں جو یَاہوِہ نے تمہارے اَور تمہارے آباؤاَجداد کے لیٔے اَنجام دئیے۔ \p \v 8 ”یعقوب کے مِصر میں داخل ہونے کے بعد تمہارے آباؤاَجداد یَاہوِہ کے سامنے مدد کے لیٔے چِلّائے اَور یَاہوِہ نے مَوشہ اَور اَہرونؔ کو بھیجا جو تمہارے آباؤاَجداد کو مِصر سے نکال کر لے آئے اَور اُنہیں اِس جگہ بسایا۔ \p \v 9 ”لیکن وہ یَاہوِہ اَپنے خُدا کو بھُول گیٔے۔ لہٰذا اُنہُوں نے اُنہیں حَصورؔ کی فَوج کے سپہ سالار سیسؔرا کے ہاتھ اَور فلسطینیوں کے ہاتھ اَور شاہِ مُوآب کے ہاتھ جو اُن کے خِلاف لڑا بیچ ڈالا۔ \v 10 تَب اُنہُوں نے یَاہوِہ سے فریاد کی اَور کہا، ’ہم نے گُناہ کیا ہے کیونکہ ہم نے یَاہوِہ کو چھوڑ دیا اَور ہم بَعل معبُودوں اَور عستوریتؔ کی پرستش کرنے لگے۔ لیکن اَب ہمیں ہمارے دُشمنوں کے ہاتھ سے چھُڑاؤ اَور ہم پھر سے آپ کی پرستش کرنے لگیں گے۔‘ \v 11 تَب یَاہوِہ نے گدعونؔ (یرُبّعلؔ)، بَراقؔ،\f + \fr 12‏:11 \fr*\fq بَراقؔ، \fq*\ft دُوسرا بدانؔ بھی نام ہے۔\ft*\f* یِفتاحؔ (شِمشُونؔ) اَور شموایلؔ کو بھیجا اَور تُمہیں تمہارے دُشمنوں کے ہاتھ سے جو تُمہیں گھیرے ہُوئے تھے چھُڑایا اَور تُم سکون سے رہنے لگے۔ \p \v 12 ”لیکن جَب تُم نے دیکھا کہ بنی عمُّون کا بادشاہ ناحسؔ تُم پر چڑھائی کر رہاہے تو تُم نے مُجھ سے کہا، ’ہم اَپنے اُوپر حُکومت کرنے کے لیٔے کویٔی بادشاہ چاہتے ہیں،‘ حالانکہ یَاہوِہ تمہارا خُدا تمہارا بادشاہ تھا۔ \v 13 لہٰذا اَب اُس بادشاہ کو دیکھو جسے تُم نے چُن لیا ہے اَور جِس کے لیٔے تُم نے درخواست کی تھی۔ دیکھو یَاہوِہ نے تُم پر بادشاہ مُقرّر کر دیا ہے۔ \v 14 اگر تُم یَاہوِہ سے ڈرتے اُن کی پرستش کرتے رہو اَور اُن کی فرماں برداری کرو اُن کے حُکموں سے سرکشی نہ کرو اَور تُم اَور وہ بادشاہ جو تُم پر حُکمرانی کرے یَاہوِہ اَپنے خُدا کی پیروی کرتے رہو تو ٹھیک! \v 15 لیکن اگر تُم یَاہوِہ کی فرماں برداری نہ کرو بَلکہ اُن کے حُکموں سے سرکشی کرو تو یَاہوِہ کا ہاتھ تمہارے خِلاف ہوگا جَیسا کہ تمہارے آباؤاَجداد کے خِلاف تھا۔ \p \v 16 ”لہٰذا اَب خاموش کھڑے رہو اَور اُس عظیم کام کو دیکھو جسے یَاہوِہ تمہاری آنکھوں کے سامنے کرنے والے ہیں۔ \v 17 کیا اَب گیہُوں کی فصل کی کٹائی کے دِن نہیں؟ میں یَاہوِہ سے عرض کروں گا کہ بادل گرجے اَور مینہ برسے اَور تُم جان لوگے اَور دیکھ بھی لوگے کہ یَاہوِہ کے ہوتے ہُوئے تُم نے اَپنے لیٔے ایک بادشاہ مانگ کر کتنی بڑی غلطی کی۔“ \p \v 18 پھر شموایلؔ نے یَاہوِہ سے دعا کی اَور اُسی دِن یَاہوِہ کے حُکم سے بادل گرجے اَور مینہ برسنے لگا۔ اَور یَاہوِہ اَور شموایلؔ کی عظمت دیکھ کر سَب لوگوں پر دہشت طاری ہو گئی۔ \p \v 19 تَب سَب لوگوں نے شموایلؔ سے کہا، ”یَاہوِہ اَپنے خُدا سے اَپنے بندوں کے لیٔے دعا کرو تاکہ ہم ہلاک نہ ہوں کیونکہ ہم نے اَپنے لیٔے ایک بادشاہ مانگ کر اَپنے تمام گُناہوں میں ایک اَور گُناہ کا اِضافہ کیا ہے۔“ \p \v 20 شموایلؔ نے جَواب دیا، ”خوف نہ کرو۔ یہ گُناہ تو تُم کر ہی چُکے ہو۔ اَب یَاہوِہ کی پیروی سے کنارہ کشی نہ کرو بَلکہ اَپنے سارے دِل سے اُن کی پرستش کرو۔ \v 21 باطِل بُتوں کی طرف مائل نہ ہو۔ وہ تمہارا کویٔی بھلا نہیں کر سکتے اَور نہ ہی تُمہیں بچا سکتے ہیں کیونکہ وہ بیکار ہیں۔ \v 22 اَور یَاہوِہ اَپنے عظیم نام کی خاطِر اَپنے لوگوں کو ترک نہیں کریں گے کیونکہ اُنہیں یہی پسند آیا کہ تُمہیں اَپنی قوم بنائیں۔ \v 23 جہاں تک میرا تعلّق ہے یَاہوِہ نہ کرے کہ میں بھی تمہارے لیٔے دعا کرنے سے باز رہُوں خُدا کا گُنہگار ٹھہروں۔ میں تو تُمہیں وُہی راستہ بتاؤں گا جو دُرست اَور راست ہے۔ \v 24 اَور چاہتا ہُوں کہ تُم یَاہوِہ سے ڈرو اَور اَپنے سارے دِل سے اَور سچّائی سے اُن کی عبادت کرتے رہو۔ ذرا سوچو کہ اُنہُوں نے تمہارے لیٔے کتنے بڑے کام کئے ہیں۔ \v 25 لیکن اگر تُم بدی کرتے رہوگے تو تُم اَور تمہارا بادشاہ دونوں نابود کر دئیے جاؤگے۔“ \c 13 \s1 شموایلؔ کا شاؤل کو ڈانٹنا \p \v 1 شاؤل کی عمر تیس سال کی تھی جَب وہ بادشاہ بنے اَور اُنہُوں نے بنی اِسرائیل پر بِیالیس سال تک حُکمرانی کی۔ \p \v 2 ابھی اُنہیں بادشاہ بنے دو سال ہی ہُوئے تھے؛ اُنہُوں نے بنی اِسرائیل میں سے تین ہزار مَرد چُن لیٔے۔ اُن میں سے دو ہزار اُن کے ساتھ مِکماشؔ میں اَور بیت ایل کے پہاڑی علاقہ میں تھے اَور ایک ہزار یُوناتانؔ کے ساتھ گِبعہؔ میں بِنیامین کے علاقہ میں تھے۔ باقی لوگوں کو شاؤل نے اَپنے اَپنے گھر بھیج دیا۔ \p \v 3 اَور یُوناتانؔ نے گِبعؔ میں فلسطینیوں کی سرحدی چوکی پر حملہ کر دیا اَور فلسطینیوں کو اِس کی خبر ہو گئی۔ اَور شاؤل نے مُلک کے ہر حِصّہ میں نرسنگا پھنکوا کر مُنادی کرادی، ”تاکہ عِبرانی لوگ بھی سُن لیں!“ \v 4 پس تمام بنی اِسرائیل نے اُس خبر کو سُنا: ”شاؤل نے فلسطینیوں کی سرحدی چوکی پر حملہ کر دیا ہے۔ اَور بنی اِسرائیل فلسطینیوں کے لیٔے دردِ سَر بَن گیا ہے۔“ لہٰذا سَب لوگ شاؤل کے ساتھ شامل ہونے کے لیٔے گِلگالؔ میں جمع ہو گئے۔ \p \v 5 اَور فلسطینی تین ہزار رتھوں، چھ ہزار رتھ بانوں اَور سمُندر کے کنارے کی ریت کی مانند کثیر فَوجی سپاہیوں کے ہمراہ اِسرائیل کے ساتھ لڑنے کے لیٔے جمع ہُوئے۔ اُنہُوں نے پیش قدمی کرکے بیت آوِنؔ کے مشرق میں مِکماشؔ میں پڑاؤ کیا۔ \v 6 جَب اِسرائیل کے آدمیوں نے دیکھا کہ صورت حال تشویشناک ہے اَور اُن کی فَوج پر دباؤ بڑھ رہاہے تو وہ غاروں، گنُجان جھاڑیوں، چٹّانوں، گڑھوں اَور حوضوں میں جا چھُپے۔ \v 7 اَور بعض عِبرانی دریائے یردنؔ پار کرکے گادؔ اَور گِلعادؔ کے علاقہ میں داخل ہو گئے۔ \p لیکن شاؤل گِلگالؔ ہی میں رہے اَور اُن کے ساتھ سارے فَوجی ڈر کے مارے کانپ رہے تھے۔ \v 8 شاؤل نے سات دِن شموایلؔ کے مُقرّرہ وقت کے مُطابق اِنتظار کیا، لیکن جَب شموایلؔ گِلگالؔ نہ آئے تو شاؤل کے آدمی مُنتشر ہونے لگے۔ \v 9 لہٰذا شاؤل نے کہا، ”سوختنی نذر اَور سلامتی کی نذریں میرے پاس لاؤ۔“ \v 10 جَب وہ اُن سوختنی نذروں کو گزران چُکے تو شموایلؔ آ پہُنچے اَور شاؤل آداب بجا لانے کے لیٔے اُن کے اِستِقبال کو نکلے۔ \p \v 11 شموایلؔ نے پُوچھا، ”کہ تُم نے کیا کیا ہے؟“ \p شاؤل نے جَواب دیا، ”جَب مَیں نے دیکھا کہ فَوجی جَوان مُجھے چھوڑکر جا رہے ہیں اَور آپ مُقرّرہ وقت پر نہیں آئے اَور فلسطینی مِکماشؔ میں اِکٹھّے ہو رہے ہیں، \v 12 مَیں نے سوچا، ’اَب فلسطینی گِلگالؔ میں مُجھ پر آ پڑیں گے، اَور مَیں نے یَاہوِہ کی کرم فرمائی کے لیٔے دعا بھی نہیں کی ہے۔‘ لہٰذا میں سوختنی نذر کرنے پر مجبُور ہو گیا۔“ \p \v 13 شموایلؔ نے شاؤل سے کہا، ”تُم نے احمقی سے کام لیا ہے اَور اُس حُکم کو جو یَاہوِہ تمہارے خُدا نے تُمہیں دیا تھا نہیں مانا۔ اگر مانا ہوتا تو وہ تمہاری بادشاہی اِسرائیل پر ہمیشہ قائِم رکھتے۔ \v 14 لیکن اَب تمہاری بادشاہی قائِم نہ رہے گی۔ یَاہوِہ نے اَپنا دِل پسند آدمی ڈھونڈ کر اُسے اَپنے لوگوں کا رہنما مُقرّر کر دیا ہے کیونکہ تُم نے یَاہوِہ کی حُکم عُدولی کی ہے۔“ \p \v 15 پھر شموایلؔ گِلگالؔ سے روانہ ہوکر بِنیامین کے علاقہ میں گِبعہؔ چلےگئے۔ شاؤل نے اُن آدمیوں کا جو اُن کے ساتھ تھے شُمار کیا۔ وہ تعداد میں تقریباً چھ سَو تھے۔ \s1 غَیر مُسلّح اِسرائیل \p \v 16 اَور شاؤل، اُن کا بیٹا یُوناتانؔ اَور اُن کے ساتھ سارے مَرد بِنیامین کے گِبعؔ میں مُقیم تھے۔ فلسطینی جو مِکماشؔ میں چھاؤنیاں ڈالے ہُوئے تھے \v 17 فلسطینی چھاؤنی سے چھاپہ ماروں کے تین دستے نکلے۔ ایک دستہ شُعالؔ کے گِردونواح میں عُفرہؔ کی طرف مُڑ گیا۔ \v 18 دُوسرا بیت حَورُونؔ کی طرف اَور تیسرا اُس سرحدی علاقہ کی طرف جہاں سے بیابان کے سامنے وادیِ ضبوئیمؔ اُوپر سے دِکھائی دیتی ہے مُڑ گیا۔ \p \v 19 فلسطینیوں نے اِسرائیل کے سارے مُلک میں ایک بھی لوہار باقی نہ رہنے دیا، ”کیونکہ فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ عِبرانی لوگ لوہاروں سے تلواریں اَور نیزے بنوا لیں گے!“ \v 20 پس تمام اِسرائیلی اَپنی پھالی، اَپنی کُدال، اَپنی کُلہاڑیاں اَور درانتیاں تیز کروانے کے لیٔے فلسطینیوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ \v 21 اَور پھالی اَور کُدال کو تیز کرنے کی اُجرت دو تہائی ثاقل۔\f + \fr 13‏:21 \fr*\fq دو تہائی ثاقل \fq*\ft یعنی تقریباً آٹھ گرام\ft*\f* اَور کانٹوں اَور کُلہاڑیوں کو تیز کرنے اَور آنکس کو جوڑنے کی اُجرت ایک تہائی ثاقل\f + \fr 13‏:21 \fr*\fq ایک تہائی ثاقل \fq*\ft یعنی تقریباً چار گرام\ft*\f* تھی۔ \p \v 22 لہٰذا لڑائی کے اُس دِن شاؤل اَور یُوناتانؔ کے ساتھ کسی بھی مَرد کے ہاتھ میں تلوار یا بھالا نہ تھا۔ یہ ہتھیار صِرف شاؤل اَور اُس کے بیٹے یُوناتانؔ کے ہاتھ میں تھے۔ \s1 یُوناتانؔ کا فلسطینیوں پر حملہ کرنا \p \v 23 اَور فلسطینیوں کی فَوج کا ایک دستہ اَپنی چوکی سے نِکلا اَور مِکماشؔ کے درّہ کی طرف جا نِکلا۔ \c 14 \nb \v 1 ایک دِن یُوناتانؔ بِن شاؤل نے اَپنے سلاح بردار جَوان سے کہا، ”آؤ، ہم فلسطینیوں کی چوکی کی طرف جو اُس پار ہے چلیں۔“ لیکن اُس نے اَپنے باپ کو نہ بتایا۔ \p \v 2 شاؤل گِبعہؔ کے سرحدی علاقہ مِگرُونؔ میں انار کے ایک درخت کے نیچے ٹھہرا ہُوئے تھے اَور تقریباً چھ سَو جنگی مَرد شاؤل کے ساتھ تھے \v 3 جِن میں اخیاہؔ بھی تھا جو افُود پہنے ہُوئے تھا۔ وہ ایکبودؔ کے بھایٔی احِیطوبؔ بِن فِنحاسؔ بِن عیلیؔ کا بیٹا تھا جو شیلوہؔ میں یَاہوِہ کا کاہِنؔ تھا اَور کسی کو خبر نہ تھی کہ یُوناتانؔ وہ جگہ چھوڑکر چلا گیا ہے۔ \p \v 4 یُوناتانؔ کو فلسطینیوں کی چوکی تک پہُنچنے کے لیٔے جِس درّہ کو پار کرنا تھا اُس کے دونوں طرف ایک ایک نکیلی چٹّان تھی۔ ایک چٹّان کا نام بُوصیصؔ تھا اَور دُوسری کا سِنہؔ۔ \v 5 ایک چٹّان مِکماشؔ کے شمال میں تھی اَور دُوسری گِبعؔ کے جُنوب میں۔ \p \v 6 اَور یُوناتانؔ نے اَپنے سلاح بردار سے کہا، ”آؤ، ہم اُدھر اُن نامختونوں کی چوکی تک پہُنچنے کی کوشش کریں۔ شاید یَاہوِہ ہمارے خاطِر سرگرم ہو جائیں۔ کیونکہ یَاہوِہ بہُتوں یا تھوڑوں کے ذریعہ بھی فتح دِلا سکتے ہیں اَور اُنہیں کویٔی نہیں روک سَکتا ہے۔“ \p \v 7 اُن کے سلاح بردار نے اُن سے کہا، ”جو کچھ تمہارے دِل میں ہے سو کرو۔ آگے بڑھو میں دِل و جان سے تمہارے ساتھ ہُوں۔“ \p \v 8 یُوناتانؔ نے کہا، ”اَچھّا آؤ، ہم پار کرکے اُن کی طرف جایٔیں تاکہ وہ ہمیں دیکھ سکیں۔ \v 9 اگر وہ ہمیں کہیں، ’ہمارے آنے تک وہیں ٹھہرو،‘ تو ہم جہاں ہوں گے وہیں رُک جایٔیں گے اَور اُن کے پاس آگے نہیں جایٔیں گے۔ \v 10 لیکن اگر وہ کہیں گے، ’ہمارے پاس آؤ،‘ تو ہم اُوپر چڑھیں گے۔ یہی ہمارے لیٔے نِشان ہوگا کہ یَاہوِہ نے اُنہیں ہمارے ہاتھ میں کر دیا ہے۔“ \p \v 11 پس اُن دونوں نے فلسطینی چوکی کے سپاہیوں کو اَپنی جھلک دِکھائی۔ فلسطینیوں نے کہا، دیکھو! عِبرانی اُن سوراخوں سے جِن میں وہ چھُپے ہُوئے تھے رینگتے ہُوئے باہر نکل رہے ہیں \v 12 اَور چوکی کے سپاہیوں نے یُوناتانؔ اَور اُس کے سلاح بردار کو چِلّاکر کہا، ”ہمارے پاس اُوپر تو آؤ، ہم تُمہیں سبق سںکھائیں گے۔“ \p لہٰذا یُوناتانؔ نے اَپنے سلاح بردار سے کہا، ”زور لگاؤ اَور میرے پیچھے پیچھے چڑھتے آؤ کیونکہ یَاہوِہ نے اُنہیں اِسرائیل کے ہاتھ میں کر دیا ہے۔“ \p \v 13 اَور یُوناتانؔ اَپنے ہاتھوں اَور پاؤں کے سہارے اُوپر چڑھ گیا اَور اُس کا سلاح بردار اُس کے عَین پیچھے تھا۔ فلسطینی یُوناتانؔ کے سامنے گرتے گیٔے اَور اُس کا سلاح بردار اُس کے پیچھے پیچھے اُنہیں قتل کرتا گیا۔ \v 14 اُس پہلے ہی حملہ میں یُوناتانؔ اَور اُس کے سلاح بردار نے تقریباً ایک بیگھہ زمین میں جِن آدمیوں کو مار گرایا اُن کی تعداد بیس کے قریب تھی۔ \s1 بنی اِسرائیل کا فلسطینیوں کو شِکست دینا \p \v 15 تَب فلسطینیوں کے لشکر کے سارے سپاہیوں میں خوف و ہِراس پھیل گیا خواہ وہ چھاؤنی میں تھے یا میدان میں۔ جو چوکیوں پر تعینات تھے اُن میں اَور چھاپہ مار دستوں میں بھی دہشت کی لہر دَوڑ گئی اَور زمین دہل گئی۔ یہ خوف و ہِراس یَاہوِہ نے نازل کیا تھا۔ \p \v 16 اَور شاؤل کے نگہبانوں نے جو بِنیامین کے گِبعہؔ میں تھے دیکھا کہ وہ فَوج تمام اطراف میں آہستہ آہستہ نظروں سے غائب ہوتی جا رہی ہے \v 17 تَب شاؤل نے اُن آدمیوں سے جو اُن کے ساتھ تھے کہا، ”فَوج کا شُمار کرو اَور دیکھو کہ کون ہمیں چھوڑ گیا ہے۔“ اَور جَب اُنہُوں نے شُمار کیا تو یُوناتانؔ اَور اُس کا سلاح بردار دونوں غائب تھے۔ \p \v 18 اَور شاؤل نے اخیاہؔ سے کہا، ”خُدا کا صندُوق یہاں لے آؤ۔“ (کیونکہ اُس وقت یہ اِسرائیلیوں کے پاس تھا)۔ \v 19 اَور جَب شاؤل اُس کاہِنؔ سے باتیں کر رہے تھے تو اُن فلسطینیوں کی چھاؤنی میں جو کہرام مچا ہُوا تھا وہ اَور بھی بڑھ گیا۔ لہٰذا شاؤل نے اُس کاہِنؔ سے کہا، ”اَپنا ہاتھ کھینچ لیں۔“ \p \v 20 تَب شاؤل اَور اُن کے سارے آدمی جمع ہوکر لڑنے کو آئے۔ اُنہُوں نے دیکھا کہ فلسطینیوں میں یہاں تک ابتری پھیلی ہُوئی ہے کہ وہ ایک دُوسرے پر تلوار سے وار کر رہے ہیں۔ \v 21 اَور وہ عِبرانی جو پہلے فلسطینیوں کے ساتھ تھے اَور اُن کے ساتھ اُن کی چھاؤنی میں گیٔے تھے وہ بھی اُن کو چھوڑکر اُن اِسرائیلیوں کے ساتھ جا ملے جو شاؤل اَور یُوناتانؔ کے ساتھ تھے۔ \v 22 اَور جَب اُن تمام بنی اِسرائیلیوں نے جو اِفرائیمؔ کے کوہستانی علاقہ میں چھُپے ہُوئے تھے سُنا کہ فلسطینی بھاگ رہے ہیں تو وہ بھی اُن کے تعاقب کے وقت لڑائی میں شامل ہو گئے۔ \v 23 اِس طرح یَاہوِہ نے اُس دِن اِسرائیل کو بچایا اَور جنگ بیت آوِنؔ سے آگے تک پھیل گئی۔ \s1 یُوناتانؔ کا شہد کھانا \p \v 24 اِسرائیلی مَرد اُس دِن بڑے پریشان تھے کیونکہ شاؤل نے لوگوں کو قَسم دے کر کہاتھا، ”کہ جَب تک شام نہ ہو اَور مَیں اَپنے دُشمنوں سے بدلہ نہ لے لُوں اُس وقت تک اگر کویٔی کچھ کھائے تو وہ ملعُون ہو!“ لہٰذا لشکر کے کسی آدمی نے کھانا چکھا تک نہ تھا۔ \p \v 25 لہٰذا جَب وہ فَوجی جنگل میں پہُنچے تو دیکھا کہ وہاں زمین پر شہد پڑا ہُواہے۔ \v 26 اَور جَب وہ جنگل میں داخل ہو گئے تو اُنہُوں نے دیکھا کہ شہد ٹپک رہاہے لیکن کسی نے اُسے ہاتھ لگا کر اَپنے مُنہ تک لے جانے کی کوشش نہ کی کیونکہ اُنہیں اُس قَسم کا خوف تھا۔ \v 27 لیکن یُوناتانؔ نے یہ بات نہ سُنی تھی کہ اُس کے باپ نے لوگوں کو قَسم دے کر پابند کیا ہُواہے۔ لہٰذا اُس نے اُس عصا کے سِرے کو جو اُس کے ہاتھ میں تھا شہد کے چھتّے میں بھونک دیا اَور اُسے شہد میں تر کرکے اَپنے مُنہ سے لگا لیا جِس سے اُس کی آنکھوں میں تازگی پیدا ہو گئی۔ \v 28 تَب اُن آدمیوں میں سے ایک نے اُسے بتایا، ”تیرے باپ نے ایک سخت قَسم دے کر لوگوں کو آگاہ کر دیا تھا، ’جو کویٔی آج کچھ کھائے گا ملعُون ہوگا!‘ یہی وجہ ہے کہ لوگ بھُوک کی وجہ سے بے ہوش ہونے کو ہیں۔“ \p \v 29 یُوناتانؔ نے کہا، ”میرے باپ نے لوگوں کو بڑی پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ دیکھو! ذرا سا شہد چَکھنے سے ہی میری آنکھوں میں تازگی آ گئی۔ \v 30 کتنا اَچھّا ہوتا اگر سارے لوگ اَپنے دُشمن کے مالِ غنیمت میں سے لے لے کر کھا سکتے۔ پھر تو فلسطینیوں کے قتلِ عام میں کویٔی کسر باقی نہ رہتی؟“ \p \v 31 اُس دِن اِسرائیلی فلسطینیوں کو مِکماشؔ سے ایّالونؔ تک ڈھیر کرتے چلے گیٔے۔ اَور وہ تھک چُکے تھے۔ \v 32 لہٰذا وہ اُس لُوٹ کے مال پر بُری طرح ٹوٹ پڑے اَور بھیڑیں، گائے بَیل اَور بچھڑے لے کر اُنہیں زمین پر ذبح کرکے خُون سمیت کھاگئے۔ \v 33 تَب کسی نے شاؤل سے کہا، ”دیکھو! خُون سمیت گوشت کھا کر لوگ یَاہوِہ کا گُناہ کر رہے ہیں۔“ \p شاؤل نے کہا، ”تُم نے وعدہ پُورا نہیں کیا۔ فوراً یہاں پر ایک بڑا پتّھر لاکر نصب کر دو۔“ \v 34 پھر شاؤل نے کہا، ”باہر لوگوں کے درمیان پھیل جاؤ اَور اُنہیں کہو، ’ہر ایک اَپنا بَیل یا بھیڑ یہاں میرے پاس لائے اَور یہاں ذبح کرکے کھائے۔ لیکن خُون سمیت گوشت کھا کر یَاہوِہ کا گُنہگار نہ بنے۔‘ “ \p لہٰذا اُس رات ہر ایک نے اَپنا بَیل وہاں لاکر اُسے وہاں ذبح کیا۔ \v 35 تَب شاؤل نے یَاہوِہ کے لیٔے ایک مذبح بنایا۔ یہ پہلا مذبح تھا جو شاؤل نے یَاہوِہ کے لیٔے بنایا تھا۔ \p \v 36 پھر شاؤل نے کہا، ”آؤ رات کے وقت فلسطینیوں کا تعاقب کریں اَور پَو پھٹنے تک اُنہیں لُوٹیں اَور اُن میں سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑیں۔“ \p اُنہُوں نے جَواب دیا، ”تُم جو کچھ بہتر سمجھتے ہو وُہی کرو۔“ \p لیکن کاہِنؔ نے کہا، ”آؤ ہم یہاں یَاہوِہ کے حُضُور میں جمع ہُوں۔“ \p \v 37 اَور شاؤل نے یَاہوِہ سے پُوچھا، ”کیا میں فلسطینیوں کے تعاقب میں جاؤں؟ کیا آپ اُنہیں اِسرائیلیوں کے ہاتھ میں کر دیں گے؟“ لیکن اُس دِن یَاہوِہ نے اُنہیں جَواب نہ دیا۔ \p \v 38 اِس لیٔے شاؤل نے کہا، ”تُم سَب جو فَوج کے سردار ہو یہاں نزدیک آؤ تاکہ ہم مَعلُوم کریں کہ آج کس کے گُناہ کی وجہ سے اَیسا ہُواہے؟ \v 39 اِسرائیل کو بچانے والے یَاہوِہ کی حیات کی قَسم اگر میرے ہی بیٹے یُوناتانؔ نے گُناہ کیا ہے تو وہ ضروُر ماراجائے گا۔“ لیکن اُن لوگوں میں سے کسی نے بھی جَواب نہ دیا۔ \p \v 40 تَب شاؤل نے تمام بنی اِسرائیلیوں سے کہا، ”تُم ایک طرف کھڑے ہو جاؤ اَور مَیں اَور میرا بیٹا یُوناتانؔ دُوسری طرف کھڑے ہوں گے۔“ \p لوگوں نے جَواب دیا، ”جو آپ کو بہتر مَعلُوم ہو سو کرو۔“ \p \v 41 تَب شاؤل نے یَاہوِہ اِسرائیل کے خُدا سے دعا کی اَور پُوچھا، ”آج آپ نے اَپنے خادِم کو جَواب کیوں نہیں دیا؟ اگر قُصُور مُجھ میں ہے یا میرے بیٹے یُوناتانؔ میں ہے تو اُوریمؔ سے جَواب دیں اَور اگر بنی اِسرائیل غلطی پر ہیں تو تُمّیمؔ سے جَواب دیں۔“ تَب قُرعہ ڈالا گیا اَور وہ یُوناتانؔ اَور شاؤل کے نام نِکلا لہٰذا لوگوں پر شُبہ نہ رہا۔ \v 42 تَب شاؤل نے کہا، ”اَب میرے اَور میرے بیٹے یُوناتانؔ کے نام پر قُرعہ ڈالو۔“ اَور یُوناتانؔ پکڑا گیا۔ \p \v 43 تَب شاؤل نے یُوناتانؔ سے کہا، ”مُجھے بتاؤ کہ تُم نے کیا کیا ہے؟“ \p یُوناتانؔ نے بتایا، ”مَیں نے تو اَپنے عصا کے سِرے سے بس ذرا سا شہد چکھا تھا۔ کیا میں سچ مُچ مار ڈالا جاؤں گا!“ \p \v 44 شاؤل نے کہا، ”یُوناتانؔ اگر تُم نہیں مارے جاتے تو خُدا میرے ساتھ بھی یہی بَلکہ اِس سے بھی زِیادہ بُرا کرے۔“ \p \v 45 لیکن لوگوں نے شاؤل سے کہا، ”کیا یُوناتانؔ کو جو اِسرائیل کے لیٔے اُتنی بڑی فتح کا باعث ہُوا مار ڈالنا ضروُری ہے؟ ہرگز نہیں! یَاہوِہ کی حیات کی قَسم اُس کے سَر کا ایک بال بھی بیکا نہ ہوگا کیونکہ اُس نے آج خُدا کی مدد سے یہ کام کیا ہے۔“ اِس طرح اُن لوگوں نے یُوناتانؔ کو بچا لیا اَور وہ مارا نہ گیا۔ \p \v 46 پھر شاؤل نے فلسطینیوں کا تعاقب کرنا چھوڑ دیا اَور وہ اَپنے مُلک کو روانہ ہو گئے۔ \p \v 47 اَور جَب شاؤل نے اِسرائیل پر بادشاہی کرنے کی ذمّہ داری قبُول کرلی تو وہ چاروں طرف اَپنے دُشمنوں، مُوآب، بنی عمُّون، اِدُوم، شاہ ضوباہؔ اَور فلسطینیوں سے لڑے۔ اُس نے جدھر کا رُخ کیا اُسے فتح نصیب ہُوئی۔ \v 48 اُنہُوں نے بڑی بہادری سے لڑ کر عمالیقیوں کو شِکست دی اَور اِسرائیلیوں کو اِن لُٹیروں کے ہاتھ سے چھُڑایا۔ \s1 شاؤل کا کُنبہ \p \v 49 شاؤل کے بیٹے یُوناتانؔ، اِشویؔ اَور ملکِیشوعؔ تھے۔ اُس کی بڑی بیٹی کا نام میربؔ اَور چُھوٹی کا نام میکلؔ تھا۔ \v 50 اَور اُس کی بیوی کا نام احِینوعمؔ تھا جو اخِیمعضؔ کی بیٹی تھی اَور شاؤل کی فَوج کے سپہ سالار کا نام ابنیرؔ بِن نیرؔ تھا جو شاؤل کے چچا نیرؔ کا بیٹا تھا۔ \v 51 شاؤل کا باپ قیشؔ اَور ابنیرؔ بِن نیرؔ اَبی ایل کے بیٹے تھے۔ \p \v 52 شاؤل کی زندگی بھر فلسطینیوں سے سخت جنگ جاری رہی اَور جَب کبھی وہ کسی شہزور یا جنگجو آدمی کو دیکھتے تو اُسے مُلازم رکھ لیتے تھے۔ \c 15 \s1 یَاہوِہ کا شاؤل کا بطور بادشاہ ردّ کرنا \p \v 1 شموایلؔ نے شاؤل سے کہا، ”مَیں وُہی شخص ہُوں جسے یَاہوِہ نے بھیجا ہے کہ وہ اَپنی اِسرائیلی قوم کے اُوپر تُمہیں بطور بادشاہ مَسح کرے۔ لہٰذا اَب توجّہ سے یَاہوِہ کا پیغام سُنو۔ \v 2 قادرمُطلق یَاہوِہ خُدا یُوں فرماتے ہیں، ’جَب اِسرائیلی مِصر سے نکل کر آئے تو اُن کا راستہ روک کر عمالیقیوں نے اُن کے ساتھ جو کچھ کیا اُس کے لیٔے میں اُنہیں سزا دُوں گا۔ \v 3 اِس لیٔے اَب تُم جاؤ اَور عمالیقیوں پر حملہ کرو اَورجو کچھ اُن کا ہے اُسے پُوری طرح تباہ کر دو۔ اَور اُن پر رحم نہ کرنا بَلکہ مَردوں اَور عورتوں، بچّوں اَور شیر خوار بچّوں، گائے بَیلوں، بھیڑوں، اُونٹوں اَور گدھوں، سَب کو قتل کردینا۔‘ “ \p \v 4 لہٰذا شاؤل نے لوگوں کو طلب کیا اَور طلائمؔ میں اُنہیں جمع کرکے گِنا۔ وہ دو لاکھ پیادے اَور یہُوداہؔ کے دس ہزار مَرد تھے۔ \v 5 اَور شاؤل عمالیقؔ کے شہر کو گیا اَور ایک گہری گھاٹی میں گھات لگا کر بیٹھ گیا \v 6 تَب شاؤل نے قینیوں سے کہا، ”تُم عمالیقیوں کو چھوڑکر چلے جاؤ تاکہ میں اُن کے ساتھ تُمہیں ہلاک نہ کروں کیونکہ تُم تمام بنی اِسرائیلیوں سے جَب وہ مِصر سے نکل کر آئے مہربانی سے پیش آئےتھے۔“ لہٰذا قینیؔ عمالیقیوں سے پرے ہٹ گیٔے۔ \p \v 7 تَب شاؤل نے مِصر کے مشرق میں حَویلہؔ سے لے کر شُورؔ تک عمالیقیوں پر حملہ کیا۔ \v 8 اَور عمالیقیوں کے بادشاہ اَگاگؔ کو زندہ پکڑ لیا اَور اُس کے تمام لوگوں کو تلوار سے قتل کر دیا۔ \v 9 لیکن شاؤل اَور اُس کی فَوج نے اَگاگؔ کو اَور بہترین بھیڑوں، گائے بَیلوں، موٹے تازے بچھڑوں اَور برّوں کو الغرض تمام اَچھّی چیزوں کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ اُنہیں تباہ کرنے کے لیٔے آمادہ نہ ہُوئے۔ لیکن اُنہُوں نے ہر ایک چیز کو جو ناقص اَور نکمّی تھی بالکُل تباہ کر دیا۔ \p \v 10 تَب یَاہوِہ کا کلام شموایلؔ کو پہُنچا کہ: \v 11 ”مُجھے افسوس ہے کہ مَیں نے شاؤل کو بادشاہ بنایا ہے کیونکہ وہ مُجھ سے برگشتہ ہو گیا ہے اَور اُس نے میری ہدایات پر عَمل نہیں کیا۔“ یہ سُن کر شموایلؔ کا غُصّہ بھڑک اُٹھا اَور وہ ساری رات یَاہوِہ سے فریاد کرتے رہے۔ \p \v 12 شموایلؔ صُبح سویرے اُٹھے اَور شاؤل کو ملنے گیا۔ لیکن اُنہیں بتایا گیا، ”شاؤل کرمِلؔ چلا گیا اَور وہاں اُس نے اَپنے اِعزاز میں ایک یادگار کھڑی کی اَور پھر مُڑ کر گِلگالؔ کو چلا گیا ہے۔“ \p \v 13 اَور جَب شموایلؔ اُس کے پاس پہُنچے تو شاؤل نے کہا، ”یَاہوِہ آپ کو برکت بخشیں! مَیں نے یَاہوِہ کی ہدایات پر عَمل کیا ہے۔“ \p \v 14 لیکن شموایلؔ نے کہا، ”پھر میرے کانوں میں بھیڑوں کے ممیانے کی یہ آواز کیسی ہے؟ اَور گائے بَیلوں کے ڈکرانے کی آواز جو میں سُنتا ہُوں کیسی ہے؟“ \p \v 15 شاؤل نے جَواب دیا، ”فَوجی سپاہی اُن کو عمالیقیوں کے یہاں سے لے آئے ہیں؛ اُنہُوں نے بہترین بھیڑوں اَور گائے بَیلوں کو زندہ رکھا تاکہ اُنہیں یَاہوِہ تمہارے خُدا کے لیٔے قُربان کریں اَور باقی سَب کو ہم نے نِیست و نابود کر دیا۔“ \p \v 16 شموایلؔ نے شاؤل سے کہا چُپ رہ کہ گذشتہ رات یَاہوِہ نے جو کچھ مُجھ سے کہا ذرا اُسے بھی سُن لے۔ \p شاؤل نے جَواب دیا کہ یہ، ضروُر بتائیے۔ \p \v 17 شموایلؔ نے کہا، ”اگرچہ ایک وقت تُو خُود اَپنی نظر میں حقیر تھا، پھر بھی کیا تُو اِسرائیل کے قبیلوں کا سردار نہ بنا؟ اَور یَاہوِہ نے تُجھے مَسح کیا تاکہ تُو اِسرائیل کا بادشاہ ہو۔ \v 18 اَور یَاہوِہ نے تُجھے ایک مقصد کے لیٔے بھیجا اَور کہا، ’جا اَور اُن بدکار لوگوں یعنی عمالیقیوں کو پُوری طرح تباہ کر؛ اَور جَب تک تُو اُنہیں تباہ نہ کر دے اُن سے جنگ کرتا رہ۔‘ \v 19 تُونے یَاہوِہ کا حُکم کیوں نہ مانا؟ تُو لُوٹ کے مال پر کیوں ٹوٹ پڑا اَور یَاہوِہ کی نظر میں بدی کیوں کی؟“ \p \v 20 شاؤل نے شموایلؔ سے کہا، ”مَیں نے تو یَاہوِہ کا حُکم مانا اَورجو کام خُدا نے مُجھے سونپا تھا میں اُسے اَنجام دینے کے لیٔے گیا۔ مَیں نے عمالیقیوں کو پُوری طرح تباہ کر دیا ہے اَور اُن کے بادشاہ اَگاگؔ کو لے آیا ہُوں۔ \v 21 اَور فَوجیوں نے لُوٹ کے مال سے بھیڑیں اَور گائے بَیل لے لیٔے چونکہ لُوٹ کے مال کا بہترین حِصّہ یَاہوِہ کے لیٔے مخصُوص تھا، اِس لیٔے وہ چاہتے ہیں کہ گِلگالؔ میں یَاہوِہ تمہارے خُدا کے حُضُور میں اُسے قُربان کریں۔“ \p \v 22 مگر شموایلؔ نے جَواب دیا: \q1 ”کیا یَاہوِہ سوختنی نذروں اَور ذبیحوں سے اِتنا ہی خُوش ہوتے ہیں \q2 جِتنا اُس بات سے کہ یَاہوِہ کا حُکم مانا جائے؟ \q1 دیکھ حُکم ماَننا، قُربانی چڑھانے سے، \q2 اَور کہنے کے مُطابق عَمل کرنا مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے۔ \q1 \v 23 کیونکہ بغاوت جادُوگری کے گُناہ کی مانند ہے، \q2 اَور تکبُّر بُت پرستی کی بُرائی کی مانند ہے۔ \q1 اَور چونکہ تُم نے یَاہوِہ کے کلام کو نہیں مانا، \q2 اِس لیٔے اُس نے بھی بطور بادشاہ تُجھے ردّ کر دیا ہے۔“ \p \v 24 تَب شاؤل نے شموایلؔ سے کہا، ”مَیں نے گُناہ کیا ہے۔ مَیں نے یَاہوِہ کے حُکم کی اَور آپ کی ہدایات کی خِلاف ورزی کی ہے۔ کیونکہ مَیں لوگوں سے ڈرتا تھا، اِس لیٔے مَیں نے اُن کی بات مان لی۔ \v 25 اِس لئے اَب مَیں آپ کی مَنّت کرتا ہُوں کہ میرا گُناہ مُعاف کر دیں اَور میرے ساتھ واپس چلیں تاکہ میں یَاہوِہ کو سَجدہ کروں۔“ \p \v 26 لیکن شموایلؔ نے شاؤل سے کہا، ”مَیں تیرے ساتھ واپس نہیں جاؤں گا کیونکہ تُونے یَاہوِہ کے کلام کو ردّ کر دیا ہے اَور یَاہوِہ نے تُجھے بطور اِسرائیل کا بادشاہ ردّ کر دیا ہے۔“ \p \v 27 اَور جَیسے ہی شموایلؔ جانے کے لیٔے مُڑے شاؤل نے اُن کے جُبّہ کا دامن پکڑ لیا اَور وہ چاک ہو گیا۔ \v 28 شموایلؔ نے اُن سے کہا، ”یَاہوِہ نے اِسرائیل کی بادشاہی تُجھ سے آج ہی چاک کرکے چھین لی اَور تیرے ایک پڑوسی کو جو تُجھ سے بہتر ہے دے دی ہے۔ \v 29 وہ جو اِسرائیل کا جلال ہے وہ نہ تو جھُوٹ بولتا ہے اَور نہ اَپنا اِرادہ بدلتا ہے کیونکہ وہ کویٔی اِنسان نہیں ہے کہ اَپنا اِرادہ بدل دے۔“ \p \v 30 شاؤل نے جَواب دیا، ”مَیں نے گُناہ کیا ہے تو بھی مہربانی کرکے میرے لوگوں کے رہنماؤں کے سامنے اَور اِسرائیل کے سامنے میری عزّت رکھ لیں اَور میرے ساتھ واپس چلیں تاکہ میں یَاہوِہ آپ کے خُدا کو سَجدہ کر سکوں۔“ \v 31 پس شموایلؔ شاؤل کے ساتھ واپس گئے اَور شاؤل نے یَاہوِہ کو سَجدہ کیا۔ \p \v 32 شموایلؔ نے کہا، ”عمالیقیوں کے بادشاہ اَگاگؔ کو میرے پاس لاؤ۔“ \p اَگاگؔ بڑی خُوشی کے ساتھ یہ سوچتا ہُوا آیا، ”یقیناً موت کی تلخی اَب گزر چُکی ہے۔“ \p \v 33 لیکن شموایلؔ نے کہا، \q1 ”جَیسے تیری تلوار نے عورتوں کو بے اَولاد کیا ہے، \q2 وَیسے ہی تیری ماں بھی عورتوں میں بے اَولاد ہوگی۔“ \m اَور شموایلؔ نے گِلگالؔ میں یَاہوِہ کے حُضُور میں اَگاگؔ کو قتل کروا دیا۔ \p \v 34 تَب شموایلؔ رامہؔ چلےگئے لیکن شاؤل اَپنے گھر یعنی شاؤل کے گِبعہؔ کو چلا گیا۔ \v 35 شموایلؔ مَرتے دَم تک شاؤل کو مِلنے نہ گیا حالانکہ شموایلؔ اُس کے لیٔے افسوس کرتا رہا اَور یَاہوِہ شاؤل کو اِسرائیل کا بادشاہ بنانے سے رنجیدہ ہُوا۔ \c 16 \s1 شموایلؔ کا داویؔد کو مَسح کرنا \p \v 1 یَاہوِہ نے شموایلؔ سے کہا، ”چونکہ مَیں نے شاؤل کو بطور اِسرائیل کے بادشاہ کے ردّ کر دیا ہے، تُو کب تک اُس کے لیٔے افسوس کرتا رہے گا؟ تُو اَپنے سینگ میں تیل بھر اَور اَپنی راہ لے۔ مَیں تُجھے بیت لحمؔ کے یِشائی کے پاس بھیج رہا ہُوں کیونکہ مَیں نے اُس کے بیٹوں میں سے ایک کو بادشاہ ہونے کے لیٔے چُن لیا ہے۔“ \p \v 2 لیکن شموایلؔ نے کہا، ”میں کیسے جا سَکتا ہُوں؟ کیونکہ شاؤل یہ بات سُنے گا تو مُجھے مار ڈالے گا۔“ \p یَاہوِہ نے فرمایا، ”اَپنے ساتھ ایک جَوان بچھیا لے جا اَور کہنا، ’میں یَاہوِہ کے لیٔے قُربانی کرنے کے لیٔے آیا ہُوں۔‘ \v 3 اَور یِشائی کو قُربانی کی دعوت دینا۔ پھر مَیں تُجھے بتاؤں گا کہ تُجھے کیا کرناہے اَور اُسی کو جِس کی طرف میں اِشارہ کروں میرے لیٔے مَسح کرنا۔“ \p \v 4 اَور یَاہوِہ نے جو فرمایا تھا شموایلؔ نے و ہی کیا۔ اَور جَب وہ شہر بیت لحمؔ میں پہُنچے تو اُس قصبہ کے بُزرگ اُن سے ملتے وقت کانپنے لگے اَور اُنہُوں نے پُوچھا، ”کیا آپ سلامتی کے لیٔے آئے ہیں؟“ \p \v 5 شموایلؔ نے جَواب دیا، ”یہاں، میں سلامتی کے لیٔے ہی آیا ہُوں۔ میں یَاہوِہ کے لیٔے قُربانی چڑھانے آیا ہُوں۔ اَپنے آپ کو پاک صَاف کرو اَور میرے ساتھ قُربانی کے لیٔے آؤ۔“ تَب شموایلؔ نے یِشائی اَور اُس کے بیٹوں کی تقدیس کی اَور اُنہیں قُربانی پر آنے کے لیٔے دعوت دی۔ \p \v 6 اَور جَب وہ آئے تو شموایلؔ نے اِلیابؔ کو دیکھ کر سوچا، ”کہ یقیناً یَاہوِہ کا ممسوح یہاں یَاہوِہ کے آگے کھڑا ہے۔“ \p \v 7 لیکن یَاہوِہ نے شموایلؔ سے کہا، ”اُس کی ظاہری شکل و صورت اَور اُس کے دراز قد ہونے کا خیال نہ کر کیونکہ مَیں نے اُسے ردّ کر دیا ہے۔ اِس لیٔے کہ یَاہوِہ اُن باتوں کو اَیسے نہیں دیکھتے جَیسے اِنسان دیکھتا ہے۔ اِنسان ظاہری شکل و صورت کو دیکھتا ہے لیکن یَاہوِہ دِل کو دیکھتے ہیں۔“ \p \v 8 تَب یِشائی نے ابینادابؔ کو بُلایا اَور اُسے شموایلؔ کے سامنے سے گزارا۔ لیکن شموایلؔ نے کہا، ”یَاہوِہ نے اِسے بھی نہیں چُنا۔“ \v 9 پھر یِشائی نے شمّہ کو قریب سے گزارا لیکن شموایلؔ نے کہا، ”یَاہوِہ نے اُسے بھی نہیں چُنا۔“ \v 10 اَور یِشائی نے اَپنے سات بیٹوں کو شموایلؔ کے آگے چلوایا لیکن شموایلؔ نے اُس سے کہا، ”یَاہوِہ نے اُنہیں نہیں چُناہے۔“ \v 11 پھر اُس نے یِشائی سے پُوچھا، ”تیرے سَب بیٹے یہی ہیں؟“ \p ”سَب سے چھوٹا ایک اَور بھی ہے لیکن وہ بھیڑوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔“ یِشائی نے جَواب دیا۔ \p شموایلؔ نے کہا، ”اُسے بُلوا اَور جَب تک وہ نہ آ جائے ہم نہیں بیٹھیں گے۔“ \p \v 12 سو وہ اُسے بُلوا کر اَندر لایا۔ وہ سُرخ رو، خُوبصورت اَور حسین تھا۔ \p تَب یَاہوِہ نے فرمایا، ”اُٹھ اَور اُسے مَسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔“ \p \v 13 پس شموایلؔ نے تیل کا سینگ لیا اَور اُسے اُس کے بھائیوں کی مَوجُودگی میں مَسح کیا۔ اَور اُس دِن سے یَاہوِہ کا رُوح داویؔد پر شِدّت سے نازل ہونے لگا۔ پھر شموایلؔ رامہؔ کو چلےگئے۔ \s1 داویؔد کا شاؤل کی مُلازمت میں جانا \p \v 14 یَاہوِہ کا رُوح شاؤل سے جُدا ہو گیا اَور یَاہوِہ کی طرف سے ایک بُری رُوح اُسے ستانے لگی۔ \p \v 15 اَور شاؤل کے خادِموں نے اُن سے کہا، ”دیکھو یَاہوِہ کی طرف سے ایک بُری رُوح آپ کو ستاتی ہے۔ \v 16 اِس لیٔے ہمارے آقا اَپنے خادِموں کو جو یہاں حاضِر ہیں حُکم دیں کہ وہ ایک اَیسا شخص تلاش کرکے لائیں جو بربط بجانے میں اُستاد ہو۔ اَور جَب بھی خُدا کی طرف سے یہ بُری رُوح آپ پر چڑھے تو وہ بربط بجائے اَور آپ راحت محسُوس کریں۔“ \p \v 17 لہٰذا شاؤل نے اَپنے خادِموں سے کہا، ”ایک اَچھّا بربط بجانے والا ڈھونڈو اَور اُسے میرے پاس لاؤ۔“ \p \v 18 اُن خادِموں میں سے ایک نے جَواب دیا، ”مَیں نے بیت لحمؔ کے یِشائی کے ایک بیٹے کو دیکھاہے۔ وہ بربط بجانے میں ماہر ہے۔ وہ ایک بہادر اَور سُورما آدمی ہے۔ وہ خُوش گفتار اَور خُوبصورت مَرد ہے اَور یَاہوِہ اُس کے ساتھ ہیں۔“ \p \v 19 تَب شاؤل نے یِشائی کے پاس قاصِد بھیجے اَور کہا، ”اَپنے بیٹے داویؔد کو جو بھیڑوں کی نِگرانی کرتا ہے میرے پاس بھیج دے۔“ \v 20 لہٰذا یِشائی نے ایک گدھا لیا جِس پر روٹیاں اَور مَے کا ایک مشکیزہ لدا تھا اَور ایک بکری کا بچّہ لے کر اُنہیں اَپنے بیٹے داویؔد کے ساتھ شاؤل کے پاس بھیج دیا۔ \p \v 21 داویؔد نے شاؤل کے پاس جا کر اُن کی مُلازمت اِختیار کرلی اَور شاؤل نے اُسے بہت ہی پسند کیا اَور وہ اُس کے سلاح برداروں میں شامل ہو گیا۔ \v 22 تَب شاؤل نے یِشائی کو کہلا بھیجا، ”داویؔد کو میری مُلازمت میں رہنے دے کیونکہ مَیں اُس سے بہت خُوش ہُوں۔“ \p \v 23 جَب کبھی یَاہوِہ کی طرف سے وہ بُری رُوح شاؤل پر چڑھتی تھی تو داویؔد اَپنی بربط لے کر اُسے بجاتا تھا۔ تَب شاؤل کو راحت ملتی تھی اَور اُس کی حالت بہتر ہو جاتی تھی اَور بُری رُوح اُس میں سے اُتر جاتی تھی۔ \c 17 \s1 داویؔد اَور گولیتؔ \p \v 1 پھر فلسطینیوں نے جنگ کے لیٔے اَپنی فَوجیں جمع کیں اَور وہ بنی یہُوداہؔ یہُودیؔہ کے شہر شوکوہؔ میں جمع ہُوئے۔ اَور اُنہُوں نے شوکوہؔ اَور عزیقاہؔ کے درمیان اِفس دَمّیمؔ میں بنائی۔ \v 2 اَور شاؤل اَور اِسرائیلیوں نے جمع ہوکر اَیلہ کی وادی میں پڑاؤ کیا۔ اَور فلسطینیوں کا سامنا کرنے کے لیٔے صف آرا ہو گئے۔ \v 3 ایک پہاڑی پر فلسطینی کھڑے تھے اَور دُوسری پہاڑی پر اِسرائیلی اَور اُن کے درمیان وادی تھی۔ \p \v 4 فلسطینیوں کے پڑاؤ میں سے ایک پہلوان نکل کر آیا جِس کا نام گولیتؔ تھا اَورجو گاتؔھ کا باشِندہ تھا۔ وہ تین مِیٹر سے بھی زِیادہ بُلند قامت تھا۔ \v 5 اُس کے سَر پر کانسے کا خُود تھا اَور وہ کانسے کا ہی زرہ بکتر پہنے ہُوئے تھا جو میخوں سے جُڑا تھا اَورجو پانچ ہزار ثاقل\f + \fr 17‏:5 \fr*\fq پانچ ہزار ثاقل \fq*\ft تقریباً اٹّھاون کِلوگرام\ft*\f* وزنی تھا۔ \v 6 وہ اَپنی ٹانگوں پر بھی کانسے کا بکتر پہنے ہُوئے تھا اَور اُس کے شانہ پر کانسے کا بھالا لٹکا ہُوا تھا۔ \v 7 اُس کے نیزے کی چھڑ اَیسی تھی جَیسے جُلاہے کا شہتیر، اَور اُس کے نیزے کا لوہے کا پھل چھ سَو ثاقل\f + \fr 17‏:7 \fr*\fq چھ سَو ثاقل \fq*\ft چھ کِلو نَو سَو گرام\ft*\f* وزنی تھا۔ اَور اُس کا سِپر بردار اُس کے آگے آگے چلتا تھا۔ \p \v 8 گولیتؔ نے کھڑے ہوکر اِسرائیل کے فَوجیوں کو للکارا، ”تُم کیوں آکر جنگ کے لیٔے صف آرائی کرتے ہو؟ کیا میں فلسطینی نہیں ہُوں اَور کیا تُم شاؤل کے خادِم نہیں ہو؟ اَپنے کسی مَرد کو چُن لو اَور اُسے نیچے میرے پاس بھیجو۔ \v 9 اگر وہ میرے ساتھ لڑ سکے اَور مُجھے قتل کر ڈالے تو ہم تمہارے غُلام بَن جایٔیں گے۔ لیکن اگر مَیں اُس پر غالب آؤں اَور اُسے قتل کر ڈالوں تو تُم ہمارے غُلام بَن جانا اَور ہماری خدمت کرنا۔“ \v 10 پھر اُس فلسطینی نے کہا، ”آج کے دِن میں اِسرائیل کے فَوجیوں کو مُقابلہ کے لیٔے للکارتا ہُوں! کویٔی مَرد ہے تو نکالو تاکہ ہم ایک دُوسرے کے ساتھ لڑیں۔“ \v 11 اُس فلسطینی کی باتیں سُن کر شاؤل اَور تمام بنی اِسرائیلی ہِراساں اَور دہشت زدہ ہو گئے۔ \p \v 12 اَور داویؔد بنی یہُوداہؔ کے یہُودیؔہ میں بیت لحمؔ کے اُس اِفراتی مَرد کا بیٹا تھا جِس کا نام یِشائی تھا۔ یِشائی کے آٹھ بیٹے تھے اَور شاؤل کے زمانہ میں وہ بُوڑھا اَور کافی عمر رسیدہ تھا۔ \v 13 اَور یِشائی کے تین بڑے بیٹے جو شاؤل کے پیچھے پیچھے جنگ میں گیٔے تھے یہ تھے: اِلیابؔ جو پہلوٹھا تھا۔ دُوسرا ابینادابؔ اَور تیسرا شمّہ۔ \v 14 اَور داویؔد سَب سے چھوٹا تھا۔ اَور وہ تینوں بڑے شاؤل کے پیچھے پیچھے تھے \v 15 لیکن داویؔد شاؤل کے پاس سے اَپنے باپ کی بھیڑوں کی دیکھ بھال کرنے بیت لحمؔ میں آیا جایا کرتا تھا۔ \p \v 16 چالیس دِن صُبح اَور شام وہ فلسطینی سامنے آکر اِسرائیلیوں کو مُقابلہ کے لیٔے للکارتا رہا۔ \p \v 17 اَور یِشائی نے اَپنے بیٹے داویؔد سے کہا، ”بھُنے ہُوئے اناج کا یہ ایفہ\f + \fr 17‏:17 \fr*\fq ایفہ \fq*\ft تقریباً سولہ کِلوگرام\ft*\f* اَور یہ دس روٹیاں اَپنے بھائیوں کے لیٔے لے کر جلد اُن کی چھاؤنی میں جا۔ \v 18 اَور اُن کی پلٹن کے سردار کے لیٔے پنیر کی دس ٹکیاں بھی ساتھ لیتا جا اَور دیکھنا تیرے بھائیوں کا کیا حال ہے اَور اُن کی طرف سے کویٔی نِشانی لے کر واپس آنا۔ \v 19 وہ شاؤل اَور تمام اِسرائیلیوں کے ہمراہ اَیلہ کی وادی میں فلسطینیوں کے خِلاف صف آرا ہیں۔“ \p \v 20 اَور داویؔد صُبح سویرے بھیڑوں کو ایک نگہبان کے پاس چھوڑکر یِشائی کے حُکم کے مُطابق ساری چیزیں لاد کر روانہ ہُوا اَور وہ چھاؤنی میں اُس وقت پہُنچا جَب فَوج نعرے مارتی ہُوئی مورچوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ \v 21 اِسرائیلی اَور فلسطینی ایک دُوسرے کا مُقابلہ کرنے کے لیٔے صف آرائی کر رہے تھے۔ \v 22 اَور داویؔد اَپنا سامان رسد کے مُحافظ کے پاس چھوڑکر میدانِ جنگ کی صفوں کی طرف دَوڑ گیا اَور وہاں پہُنچ کر اَپنے بھائیوں سے اُن کی خیریت دریافت کرنے لگا۔ \v 23 جَب وہ اُن سے باتیں کر رہاتھا تو گاتؔھ کے فلسطینی پہلوان گولیتؔ نے اَپنی صفوں سے باہر نکل کر حسبِ معمول مُقابلہ کے لیٔے نعرہ مارا اَور داویؔد نے اُسے سُنا۔ \v 24 جَب اِسرائیلیوں نے اُس آدمی کو دیکھا تو وہ سَب بہت خوفزدہ ہوکر اُس کے سامنے سے بھاگ گیٔے۔ \p \v 25 اِسرائیلی کہہ رہے تھے، ”دیکھو، یہ آدمی کیسے باہر نکل کر آتا رہتاہے؟ وہ اِسرائیلیوں کو مُقابلہ کے لیٔے للکارنے آتا ہے اَور ڈُوب مرنے کے لیٔے کہتاہے۔ جو آدمی اُسے قتل کرےگا بادشاہ اُسے بہت سِی دولت دے گا اَور اَپنی بیٹی بھی اُس سے بیاہ دے گا اَور اِسرائیل میں اُس کے باپ کے گھرانے کو محصُول سے مُستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔“ \p \v 26 داویؔد نے پاس کھڑے ہُوئے لوگوں سے پُوچھا، ”اُس آدمی کے لیٔے کیا کیا جائے گا جو اِس فلسطینی کو مار کر اِسرائیل سے اِس رُسوائی کو دُور کرےگا؟ یہ نامختون فلسطینی کون ہے جو زندہ خُدا کی افواج کو مُقابلہ کے لیٔے للکارتا ہے؟“ \p \v 27 اَورجو کچھ وہ کہا کرتے تھے اُنہُوں نے اُس کے سامنے دہرایا اَور اُسے بتایا، ”جو آدمی اُسے قتل کرے اُس کے ساتھ یہ سلُوک کیا جائے گا۔“ \p \v 28 جَب داویؔد کے سَب سے بڑے بھایٔی اِلیابؔ نے اُسے اُن آدمیوں کے ساتھ گُفتگو کرتے سُنا تو وہ غُصّہ سے آگ بگُولہ ہو گیا اَور پُوچھا، ”تُم یہاں کیوں آئے ہو؟ اَور وہ تھوڑی سِی بھیڑیں بیابان میں تُم نے کس کے پاس چھوڑیں؟ میں جانتا ہُوں کہ تُم کتنے مغروُر ہو اَور تمہارا دِل کتنا شرارت سے بھرا ہے۔ تُم محض لڑائی دیکھنے آئے ہو۔“ \p \v 29 داویؔد نے کہا، ”مَیں نے کیا کیا ہے؟ کیا میں کسی سے بات بھی نہیں کر سَکتا؟“ \v 30 پھر وہ کسی دُوسرے کی طرف مُڑ گیا اَور اُسی مُعاملہ کے متعلّق پُوچھنے لگا اَور اُن آدمیوں نے اُسے پہلے کی طرح جَواب دیا۔ \v 31 جو کچھ داویؔد نے کہا اَچانک اُسے سُن کر شاؤل کو اِطّلاع دی گئی اَور شاؤل نے اُسے بُلوایا۔ \p \v 32 اَور داویؔد نے شاؤل سے کہا، ”اِس فلسطینی آدمی کی وجہ سے کویٔی بھی دِل شکستہ نہ ہو۔ آپ کا خادِم جائے گا اَور اُس کے ساتھ لڑے گا۔“ \p \v 33 شاؤل نے داویؔد کو جَواب دیا، ”تُم اِس فلسطینی کے سامنے جانے کے لیٔے اَور اُس کے ساتھ لڑائی کرنے کے قابل نہیں کیونکہ تُم محض ایک لڑکے ہو اَور وہ اَپنی جَوانی سے ہی ایک جنگجو مَرد ہے۔“ \p \v 34 لیکن داویؔد نے شاؤل سے کہا، ”آپ کا خادِم اَپنے باپ کی بھیڑیں چَراتا ہے۔ اگر کویٔی شیر یا ریچھ آکر گلّہ میں سے کسی بھیڑ کو اُٹھاکر لے جاتا ہے \v 35 تو میں اُس کے پیچھے پیچھے جا کر اُسے مار کر بھیڑ کو اُس کے مُنہ سے چھُڑا لاتا ہُوں اَور جَب وہ مُجھ پر جھپٹتا ہے تو میں اُسے اُس کے بالوں سے پکڑکر مارتا ہُوں اَور اُسے ہلاک کر دیتا ہُوں۔ \v 36 آپ کے خادِم نے شیر اَور ریچھ دونوں کو جان سے مارا ہے۔ یہ نامختون فلسطینی بھی اُن میں سے ایک کی مانند ہوگا کیونکہ اُس نے زندہ خُدا کے لشکر کو مُقابلہ کے لیٔے للکارا ہے۔ \v 37 وہ یَاہوِہ جِس نے مُجھے شیر کے پنجہ سے اَور ریچھ کے پنجہ سے محفوظ رکھا، وُہی مُجھے اِس فلسطینی کے ہاتھ سے بھی بچائیں گے۔“ \p شاؤل نے داویؔد سے کہا، ”اَچھّا جا، یَاہوِہ تمہارے ساتھ ہو۔“ \p \v 38 تَب شاؤل نے اَپنا فَوجی کوٹ داویؔد کو پہنایا۔ اُسے زرہ بکتر پہنایا اَور کانسے کا ایک خُود اُس کے سَر پر رکھا۔ \v 39 داویؔد نے فَوجی کوٹ پر اُس کی تلوار بھی کس لی اَور اِدھر اُدھر چلنے کی کوشش کی کیونکہ وہ اُن کا عادی نہ تھا۔ \p تَب اُس نے شاؤل سے کہا، ”میں اِنہیں پہن کر چل بھی نہیں سَکتا کیونکہ مَیں اِن کا عادی نہیں ہُوں۔“ لہٰذا اُس نے اُنہیں اُتار دیا۔ \v 40 تَب اُس نے اَپنی لاٹھی اَپنے ہاتھ میں لی اَور اُس ندی سے پانچ چِکنے چِکنے پتّھر چُن کر اَپنے چرواہے کے تھیلے کی جیب میں رکھ لیٔے، اَپنا فلاخن اَپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اَور اُس فلسطینی کے قریب جانے لگا۔ \p \v 41 اِس دَوران وہ فلسطینی بھی جِس کا سِپر بردار اُس کے آگے تھا داویؔد کے نزدیک آنے لگا۔ \v 42 جب اُس فلسطینی نے داویؔد پر نگاہ ڈالی اَور جَب دیکھا کہ وہ محض ایک سُرخ رو اَور خُوبصورت لڑکا ہے تو اُس نے اُسے حقیر جانا \v 43 اَور داویؔد سے کہا، ”کیا میں کویٔی کُتّا ہُوں کہ تُم عصا لے کر میری طرف آئے ہو؟“ اَور اُس فلسطینی نے اَپنے معبُودوں کے نام سے داویؔد پر لعنت بھیجی۔ \v 44 اَور فلسطینی نے داویؔد سے کہا، ”یہاں آؤ، میں تیرا گوشت ہَوا کے پرندوں اَور جنگلی جانوروں کو دُوں گا!“ \p \v 45 داویؔد نے اُس فلسطینی سے کہا، ”تُم تلوار، بھالا اَور برچھی لیٔے ہُوئے میرے خِلاف آتے ہو لیکن مَیں تیرے خِلاف قادرمُطلق یَاہوِہ کے نام سے آتا ہُوں جو اِسرائیل کے لشکروں کا خُدا ہے اَور جِس کو تُم نے مُقابلہ کے لیٔے للکارا ہے۔ \v 46 آج کے دِن یَاہوِہ تُجھے میرے حوالہ کر دے گا اَور مَیں تُجھے مار گراؤں گا اَور تیرا سَر کاٹ ڈالوں گا۔ آج مَیں فلسطینی لشکر کی لاشیں ہَوا کے پرندوں اَور زمین کے جنگلی جانوروں کو دُوں گا اَور تمام دُنیا جان لے گی کہ اِسرائیل میں ایک خُدا ہے۔ \v 47 اَور وہ تمام جو یہاں جمع ہیں جان لیں گے کہ یَاہوِہ تلوار اَور نیزے کے ذریعہ سے نہیں بچاتے۔ کیونکہ لڑائی تو یَاہوِہ کی ہے اَور وُہی تُم سَب کو ہمارے ہاتھ میں کر دیں گے۔“ \p \v 48 اَور جوں ہی وہ فلسطینی حملہ کرنے کے لیٔے آگے بڑھا داویؔد اُس کا مُقابلہ کرنے کے لیٔے جلدی سے لڑائی کے مورچہ کی طرف دَوڑا۔ \v 49 داویؔد نے اَپنے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک پتّھر نکالا اَور فلاخن میں رکھ کر اُس فلسطینی کے ماتھے پر مارا۔ پتّھر اُس کے ماتھے کے اَندر گھُس گیا اَور وہ مُنہ کے بَل زمین پر گِر پڑا۔ \p \v 50 داویؔد نے اُس فلسطینی پر محض ایک فلاخن اَور ایک پتّھر سے فتح پائی اَور اَپنے ہاتھ میں تلوار لیٔے بغیر اُس نے فلسطینی کو مار گرایا اَور اُسے ہلاک کر دیا۔ \p \v 51 اَور داویؔد دَوڑکر اُس فلسطینی کے اُوپر کھڑا ہو گیا اَور اُس کی تلوار پکڑکر مِیان سے کھینچی اَور اُسے قتل کرنے کے بعد اُسی تلوار سے اُس کا سَر تن سے جُدا کر دیا۔ \p جَب فلسطینیوں نے دیکھا کہ اُن کا پہلوان مَر چُکاہے تو وہ پلٹ کر بھاگے۔ \v 52 تَب اِسرائیل اَور یہُودیؔہ کے باشِندے نعرے مارتے ہُوئے طُوفان کی لہروں کی طرح آگے بڑھے اَور گاتؔھ کے مدخل اَور عقرونؔ کے پھاٹکوں تک اُن کا تعاقب کرکے اُنہیں مارتے چلے گیٔے یہاں تک کہ فلسطینی شعریمؔ سے گاتؔھ اَور عقرونؔ کو جانے والے راستہ کے ساتھ ساتھ لاشیں ہی لاشیں بِکھری پڑی تھیں۔ \v 53 جَب اِسرائیلی فلسطینیوں کے تعاقب سے واپس لَوٹے تو اُنہُوں نے اُن کی کو لُوٹ لیا۔ \p \v 54 اَور داویؔد اُس فلسطینی کا سَر لے کر اُسے یروشلیمؔ میں لایا اَور اُس کے ہتھیاروں کو اُس نے اَپنے خیمہ میں رکھ لیا۔ \p \v 55 جَب شاؤل نے داویؔد کو اُس فلسطینی کا مُقابلہ کرنے کے لیٔے جاتے دیکھا تو اُس نے فَوج کے سپہ سالار ابنیرؔ سے کہا، ”ابنیرؔ وہ نوجوان کس کا بیٹا ہے؟“ \p ابنیرؔ نے جَواب دیا، ”اَے بادشاہ! آپ کی حیات کی قَسم، میں نہیں جانتا۔“ \p \v 56 تَب بادشاہ نے کہا، ”مَعلُوم کرو کہ یہ نوجوان کس کا بیٹا ہے۔“ \p \v 57 جوں ہی داویؔد اُس فلسطینی کو قتل کرکے لَوٹا ابنیرؔ اُسے ساتھ لے کر شاؤل کے حُضُور میں پہُنچا۔ اُس وقت فلسطینی کا سَر داویؔد کے ہاتھ میں تھا۔ \p \v 58 تَب شاؤل نے اُس سے پُوچھا، ”اَے نوجوان تُم کس کے بیٹے ہو؟“ \p داویؔد نے کہا، ”مَیں آپ کے خادِم یِشائی بیت لحمؔ کا بیٹا ہُوں۔“ \c 18 \s1 شاؤل میں داویؔد کا خوف پیدا ہو گیا۔ \p \v 1 جَب داویؔد شاؤل سے باتیں کرچکے تو یُوناتانؔ کا دِل داویؔد کے دِل سے اِتنا قریب ہو گیا کہ یُوناتانؔ اُس سے اَپنی جان کے برابر مَحَبّت کرنے لگے۔ \v 2 اَور شاؤل نے اُس دِن سے اُنہیں اَپنے ساتھ رکھا اَور پھر اُنہیں اَپنے باپ کے گھر واپس نہ جانے دیا۔ \v 3 اَور یُوناتانؔ نے داویؔد کے ساتھ عہد باندھا کیونکہ وہ اُن سے اَپنی جان کے برابر مَحَبّت رکھتے تھے۔ \v 4 اَور یُوناتانؔ نے وہ لباس جو وہ پہنے ہُوئے تھے اُتار کر داویؔد کو دیا اَور اَپنی پوشاک بَلکہ اَپنی تلوار اَور کمان اَور اَپنا کمربند تک اُنہیں دے دی۔ \p \v 5 اَور شاؤل نے اُسے جِس بھی مُہم پر بھیجا داویؔد نے اُسے اَیسی کامیابی سے سَر اَنجام دیا کہ شاؤل نے داویؔد کو فَوج میں ایک اعلیٰ عہدہ دے دیا۔ اِس بات سے سَب لوگ اَور داویؔد کے اہلکار بھی بڑے خُوش ہُوئے۔ \p \v 6 اُس فلسطینی کے داویؔد کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد جَب لوگ گھر لَوٹ رہے تھے تو اِسرائیل کے سَب شہروں کی عورتیں دف اَور بربط کے ساتھ خُوشی کے نغمہ گاتی اَور رقص کرتی ہُوئی شاؤل بادشاہ کا اِستِقبال کرنے باہر نکلیں۔ \v 7 وہ ناچتی ہُوئی یہ نغمہ گا رہی تھیں: \q1 ”شاؤل نے ہزاروں کو مارا ہے، \q2 اَور داویؔد نے دس ہزار کو مارا ہے۔“ \p \v 8 شاؤل کو بہت غُصّہ آیا کیونکہ نغمہ کے الفاظ اُسے پسند نہ تھے۔ ”اُنہُوں نے داویؔد کو تو دس ہزار کا مارنے والا کہا،“ اُس نے سوچا، ”لیکن مُجھے صِرف ہزاروں کا۔ لہٰذا اَب تو اُن کی نظر بادشاہی حاصل کرنے پر لگی رہے گی؟“ \v 9 پس اُس دِن سے شاؤل کا دِل داویؔد کی طرف سے بدگُمانی میں مُبتلا ہو گیا۔ \p \v 10 اگلے دِن خُدا کی طرف سے ایک بُری رُوح بڑے زور سے شاؤل پر نازل ہُوئی اَور وہ گھر کے اَندر نبُوّت کرنے لگے۔ اُس وقت داویؔد معمول کے مُطابق بربط بجا رہے تھے۔ شاؤل کے ہاتھ میں بھالا تھا۔ \v 11 شاؤل نے نیزے کو داویؔد کی طرف زور سے پھینکا کیونکہ اُس کا خیال تھا، ”میں داویؔد کو دیوار کے ساتھ چھید دُوں گا۔“ لیکن داویؔد دو دفعہ اُس سے بچ نکلے۔ \p \v 12 اَور شاؤل داویؔد سے ڈرتے تھے کیونکہ یَاہوِہ داویؔد کے ساتھ تھے۔ لیکن یَاہوِہ نے شاؤل سے مُنہ پھیر لیا تھا۔ \v 13 پس شاؤل نے داویؔد کو اَپنے سے دُور بھیج دیا اَور اُنہیں ایک ہزار جَوانوں کا سردار بنا دیا اَور داویؔد فَوجی مہموں میں اُن کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ \v 14 اَورجو کچھ بھی اُس نے کیا اُس میں اُسے بڑی کامیابی مِلی کیونکہ یَاہوِہ داویؔد کے ساتھ تھے۔ \v 15 جَب شاؤل نے دیکھا کہ وہ کس قدر کامیاب ثابت ہُوئے ہیں تو وہ اُن سے خوف کھانے لگے۔ \v 16 لیکن تمام اِسرائیل اَور یہُوداہؔ کے باشِندے داویؔد کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ ہر مُہم میں اُن کی رہنمائی کرتے تھے۔ \p \v 17 اَور شاؤل نے داویؔد سے کہا، ”یہ میری بڑی بیٹی میربؔ ہے۔ مَیں اُسے تُم سے بیاہ دُوں گا۔ بس بہادری سے میری خدمات سَر اَنجام دیتے رہو اَور یَاہوِہ کی جنگیں لڑو۔“ شاؤل نے اَپنے دِل میں سوچا تھا، ”میں داویؔد کے خِلاف ہاتھ نہیں اُٹھاؤں گا بَلکہ یہ کام تو فلسطینیوں کی ذمّہ داری ہے!“ \p \v 18 لیکن داویؔد نے شاؤل سے کہا، ”میں کیا ہُوں اَور میرا گھرانا یا میرے باپ کی برادری اِسرائیل میں کیا ہے جو میں بادشاہ کا داماد بنُوں؟“ \v 19 پس جَب شاؤل کی بیٹی میربؔ کا داویؔد سے بیاہ دینے کا وقت آیا تو وہ عدری ایل مِحولاتی سے بیاہ دی گئی۔ \p \v 20 اَور شاؤل کی بیٹی میکلؔ داویؔد سے مَحَبّت کرتی ہے اَور جَب اُس کی خبر شاؤل کو ہُوئی تو وہ خُوش ہُوا \v 21 اُس نے سوچا، ”میں اُسے داویؔد ہی کو دُوں گا تاکہ وہ اُس کے لیٔے پھندا ہو اَور فلسطینیوں کا ہاتھ اُس کے خِلاف ہو۔“ لہٰذا شاؤل نے داویؔد سے کہا، ”اَب تمہارے لیٔے میرا داماد بننے کا دُوسرا موقع ہے۔“ \p \v 22 تَب شاؤل نے اَپنے مُلازمین کو حُکم دیا: ”علیحدگی میں داویؔد سے کہو، ’دیکھو! بادشاہ تُم کو پسند کرتے ہیں اَور اُن کے مُلازمین بھی تُم سے خُوش ہیں۔ لہٰذا اَب بادشاہ کا داماد بَن جاؤ۔‘ “ \p \v 23 شاؤل کے خادِموں نے یہ تمام باتیں داویؔد کے پاس جا کر دہرائیں۔ لیکن داویؔد نے کہا، ”بادشاہ کا داماد بننے کو کیا تُم کویٔی چُھوٹی سِی بات سمجھتے ہو؟ میں تو محض ایک مسکین اَور غَیر معروف آدمی ہُوں۔“ \p \v 24 جَب شاؤل کے مُلازمین نے اُسے داویؔد کی کہی ہُوئی باتیں بتائیں \v 25 تو شاؤل نے جَواب دیا، ”کہ داویؔد سے کہو، ’بادشاہ اَپنے دُشمنوں سے بدلہ لینے کی خاطِر فلسطینیوں کے ختنہ کی سَو کھلڑیوں کے سِوا دُلہن کے لیٔے مَہر کی اَور کویٔی رقم نہیں چاہتا۔‘ “ شاؤل کا منصُوبہ تھا کہ داویؔد کو فلسطینیوں کے ہاتھ سے مروا ڈالے۔ \p \v 26 جَب اُن مُلازمین نے داویؔد کو یہ باتیں بتائیں تو وہ بادشاہ کا داماد بننے کے لیٔے راضی ہو گیا۔ لہٰذا مُقرّرہ مُدّت گزرنے سے پیشتر \v 27 داویؔد اَور اُن کے آدمیوں نے باہر جا کر دو سَو فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔ وہ اُن کے ختنہ کی کھلڑیاں لے کر آئے اَور پُوری تعداد بادشاہ کو پیش کر دی تاکہ وہ بادشاہ کا داماد بَن جائے۔ تَب شاؤل نے اَپنی بیٹی میکلؔ اُنہیں بیاہ دی۔ \p \v 28 جَب شاؤل کو احساس ہُوا کہ یَاہوِہ داویؔد کے ساتھ ہیں اَور اُس کی بیٹی میکلؔ داویؔد سے مَحَبّت کرتی ہے \v 29 تو شاؤل داویؔد سے اَور بھی زِیادہ خوفزدہ ہو گیا اَور زندگی بھر اُس کا دُشمن بنا رہا۔ \p \v 30 فلسطینی سرداروں نے جنگ کے لیٔے حملے کرنا جاری رکھا اَور جَب بھی اُنہُوں نے حملے کئے تو شاؤل کے دیگر سرداروں کی بہ نِسبت داویؔد نے بہتر عقلمندی کا مظاہرہ کیا اَور اُن کا نام مشہُور ہو گیا۔ \c 19 \s1 شاؤل کا داویؔد کو قتل کرنے کی کوشش کرنا \p \v 1 شاؤل نے اَپنے بیٹے یُوناتانؔ اَور سَب مُلازمین سے کہا کہ داویؔد کو مار ڈالو۔ لیکن یُوناتانؔ داویؔد کو بہت چاہتے تھے۔ \v 2 اِس لیٔے یُوناتانؔ نے داویؔد کو خبردار کر دیا، ”میرا باپ شاؤل تُمہیں قتل کرنے کے لیٔے موقع کی تلاش میں ہے۔ لہٰذا کل صُبح ہوشیار رہنا اَور جا کر کہیں چھُپ جانا اَور وہیں رہنا۔ \v 3 اَور مَیں باہر جا کر اُس میدان میں جہاں تُم ہوگے اَپنے باپ کے پاس کھڑا ہُوں گا۔ اَور مَیں اَپنے باپ سے تمہاری بابت گُفتگو کروں گا اَورجو کچھ مُجھے مَعلُوم ہوگا تُمہیں بتاؤں گا۔“ \p \v 4 اَور یُوناتانؔ نے اَپنے باپ شاؤل سے داویؔد کی تعریف کی اَور اُن سے کہا، ”بادشاہ اَپنے خادِم داویؔد پر ظُلم نہ کریں۔ اُس نے بھی آپ کے خِلاف کوئی ظُلم نہیں کیا بَلکہ جو کچھ داویؔد نے کیا ہے اُس سے آپ کا بہت فائدہ ہُواہے۔ \v 5 اُس نے اَپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اُس فلسطینی کو مارا اَور یَاہوِہ نے سارے اِسرائیل کے لیٔے ایک بڑی فتح حاصل کی اَور آپ اِسے دیکھ کر خُوش ہُوئے۔ پھر آپ داویؔد جَیسے معصُوم آدمی کو بلاوجہ قتل کرکے کیوں مُجرم بننا چاہتے ہیں؟“ \p \v 6 شاؤل نے یُوناتانؔ کی بات سُنی اَور قَسم کھائی: ”یَاہوِہ کی حیات کی قَسم داویؔد قتل نہیں کیا جائے گا۔“ \p \v 7 پس یُوناتانؔ نے داویؔد کو بُلاکر ساری بات چیت کی بابت بتایا اَور وہ اُسے شاؤل کے پاس لایا اَور داویؔد پہلے کی طرح شاؤل کے پاس رہنے لگا۔ \p \v 8 ایک دفعہ پھر جنگ چھِڑ گئی اَور داویؔد جا کر فلسطینیوں سے لڑے اَور اُنہیں اِتنی شِدّت سے مارا کہ وہ اُن کے سامنے سے فرار ہو گیٔے۔ \p \v 9 لیکن یَاہوِہ کی طرف سے ایک بُری رُوح شاؤل پر اُس وقت چڑھی جَب وہ ہاتھ میں بھالا لیٔے ہُوئے اَپنے گھر میں بیٹھا ہُوا تھا اَور جَب داویؔد بربط بجا رہے تھے۔ \v 10 شاؤل نے اَپنے نیزے کے ساتھ اُنہیں دیوار کے ساتھ چھید دینے کی کوشش کی۔ لیکن جَب شاؤل نے اَپنا بھالا دیوار کی طرف پھینکا تو داویؔد کسی طرح اُس کے وار سے بچ گئے اَور اُس رات داویؔد نے بھاگ کر اَپنی جان بچائی۔ \p \v 11 شاؤل نے داویؔد کے گھر قاصِد بھیجے کہ اُس کی تاک میں رہیں اَور صُبح کو اُسے مار ڈالیں۔ مگر داویؔد کی بیوی میکلؔ نے اُنہیں خبردار کر دیا، ”اگر تُم جان بچانے کے لیٔے آج رات بھاگے نہیں تو کل تُم مار ڈالے جاؤ گئے۔“ \v 12 پس میکلؔ نے ایک کھڑکی سے داویؔد کو نیچے اُتار دیا اَور وہ بھاگ کر بچ گئے۔ \v 13 تَب میکلؔ نے ایک بُت لے کر اُسے پلنگ پر لِٹا دیا اَور اُسے کپڑوں سے ڈھانک دیا اَور بکریوں کے کچھ بال سرہانے رکھ دئیے۔ \p \v 14 جَب شاؤل نے داویؔد کو پکڑنے کے لیٔے قاصِد بھیجے تو میکلؔ نے کہا، ”وہ بیمار ہے۔“ \p \v 15 تَب شاؤل نے اُن قاصِدوں کو داویؔد کو دیکھنے واپس بھیجا اَور کہا، ”اُسے پلنگ سمیت میرے پاس لے آؤ تاکہ میں اُسے قتل کروں۔“ \v 16 لیکن جَب وہ قاصِد اَندر گیٔے تو دیکھا کہ پلنگ پر ایک بُت پڑا ہُواہے اَور سرہانے بکریوں کے کچھ بال پڑے ہیں۔ \p \v 17 تَب شاؤل نے میکلؔ سے کہا، ”تُم نے مُجھے اِس طرح دھوکا کیوں دیا اَور میرے دُشمن کو بچ کر نکل جانے دیا؟“ \p میکلؔ نے شاؤل کو بتایا، ”داویؔد نے مُجھ سے کہا، ’مُجھے نکل جانے دو ورنہ مَیں تُمہیں مار ڈالوں گا؟‘ “ \p \v 18 جَب داویؔد فرار ہوکر بچ کر نکل گئے تو وہ رامہؔ میں شموایلؔ کے پاس گئے اَور وہ سَب کچھ جو شاؤل نے اُن کے ساتھ کیا تھا اُنہیں بتایا۔ تَب وہ اَور شموایلؔ نیوتؔ چلے گیٔے اَور وہاں رہنے لگے۔ \v 19 شاؤل کو خبر مِلی: ”داویؔد رامہؔ کے علاقہ میں نیوتؔ میں ہے“؛ \v 20 لہٰذا شاؤل نے داویؔد پکڑنے کے لیٔے قاصِد بھیجے۔ لیکن جَب اُنہُوں نے دیکھا کہ نبیوں کا ایک گِروہ نبُوّت کر رہاہے اَور شموایلؔ اُن کے پیشوا کے طور پر وہاں کھڑے ہیں تو یَاہوِہ کا رُوح شاؤل کے آدمیوں پر نازل ہُوا اَور وہ بھی نبُوّت کرنے لگے۔ \v 21 اَور جَب شاؤل کو یہ خبر مِلی تو اُس نے اَور قاصِد بھیجے اَور وہ بھی نبُوّت کرنے لگے۔ پھر شاؤل نے تیسری بار آدمی بھیجے اَور وہ بھی نبُوّت کرنے لگے۔ \v 22 آخِرکار وہ خُود رامہؔ کے لیٔے روانہ ہُوا اَور سیکوؔ میں اُس بڑے حوض پر پہُنچ کر پُوچھنے لگا، ”شموایلؔ اَور داویؔد کہاں ہیں؟“ \p تَب اُنہیں پتا چلا، ”وہ رامہؔ کے اَندر نیوتؔ میں ہیں۔“ \p \v 23 اِس پر شاؤل رامہؔ کے اَندر نیوتؔ کو گئے۔ مگر خُدا کی رُوح اُن پر بھی نازل ہُوا، اَور وہ راہ چلتے چلتے نبُوّت کرتے ہُوئے نیوتؔ آئے۔ \v 24 اَور وہ بھی اَپنے کپڑے اُتار کر شموایلؔ کی مَوجُودگی میں نبُوّت کرنے لگے اَور اُس دِن اَور رات اُسی حالت میں وہاں پڑے رہے۔ اِس لیٔے یہ کہاوت چلی، ”کیا شاؤل بھی نبیوں میں سے ایک ہے؟“ \c 20 \s1 داویؔد اَور یُوناتانؔ \p \v 1 تَب داویؔد رامہؔ کے نیوتؔ سے بھاگا اَور یُوناتانؔ کے پاس جا کر پُوچھنے لگا، ”مَیں نے کیا کیا ہے؟ میرا کیا جُرم ہے؟ مَیں نے تمہارے باپ کا کیا بگاڑا ہے جو مُجھے جان سے مار ڈالنا چاہتے ہیں؟“ \p \v 2 یُوناتانؔ نے جَواب دیا ”ہرگز نہیں، تُم نہیں مارے جاؤگے! دیکھ میرا باپ مُجھے بتائے بغیر چھوٹا یا بڑا کویٔی کام نہیں کرتا۔ بھلا پھر اِس بات کو وہ کیوں چھُپاتا؟ اَیسی بات نہیں ہے۔“ \p \v 3 لیکن داویؔد نے قَسم کھا کر کہا، ”تمہارے باپ کو بخُوبی مَعلُوم ہے کہ مُجھ پر تمہاری نظرِکرم ہے اَور وہ یہ سوچ رکھتا ہے، ’یُوناتانؔ کو یہ بات مَعلُوم نہ ہو ورنہ وہ رنجیدہ ہوگا۔‘ پھر بھی زندہ یَاہوِہ کی قَسم اَور تمہاری جان کی قَسم مُجھ میں اَور موت میں صِرف ایک قدم کا فاصلہ ہے۔“ \p \v 4 تَب یُوناتانؔ نے داویؔد سے کہا، ”جو کچھ تُم چاہتے ہو کہ مَیں تمہارے لیٔے کروں میں وُہی کروں گا۔“ \p \v 5 پس داویؔد نے یُوناتانؔ سے کہا، ”دیکھ، کل نئے چاند کا تہوار ہے اَور میرا بادشاہ کے ساتھ کھانا کھانا متوقع ہے۔ لیکن مُجھے اِجازت دو کہ میں پرسوں شام تک میدان میں چھُپا رہُوں۔ \v 6 اگر اُسے میری عدم مَوجُودگی کا احساس ہونے لگے تو اُسے کہہ دینا، ’داویؔد نے جلدی سے اَپنے قصبہ بیت لحمؔ جانے کے لیٔے مُجھ سے بڑی عاجزی سے اِجازت مانگی تھی کیونکہ وہاں اُس کی ساری برادری کے لیٔے ایک سالانہ قُربانی ہو رہی ہے۔‘ \v 7 اگر وہ کہے، ’اَچھّا، ٹھیک ہے،‘ تَب تیرا خادِم محفوظ ہے لیکن اگر وہ غُصّہ سے لال پیلا ہونے لگے تو تُم یقین کرنا کہ اُس نے مُجھے نُقصان پہُنچانے کا مصمّم اِرادہ کیا ہُواہے۔ \v 8 اَور تُم اَپنے خادِم پر مہربانی کرنا کیونکہ تُم نے یَاہوِہ کے حُضُور میں اُس کے ساتھ ایک عہد کیا ہُواہے۔ اَور اگر مَیں قُصُوروار ہُوں تو تُم خُود مُجھے قتل کردینا۔ مُجھے اَپنے باپ کے حوالہ مت کرنا؟“ \p \v 9 یُوناتانؔ نے کہا، ”ہرگز نہیں! اگر مُجھے ذرا سا بھی شُبہ ہو تاکہ میرے باپ نے تُجھے نُقصان پہُنچانے کا پکّا اِرادہ کیا ہُواہے تو کیا مَیں تُجھے آگاہ نہ کر دیتا؟“ \p \v 10 داویؔد نے یُوناتانؔ سے پُوچھا، ”اگر تمہارا باپ تُجھے سخت جَواب دے تو کون مُجھے بتائے گا؟“ \p \v 11 یُوناتانؔ نے داویؔد سے کہا، ”آؤ، ہم باہر میدان کو چلیں۔“ پس وہ اِکٹھّے وہاں سے چلے گیٔے۔ \p \v 12 تَب یُوناتانؔ نے داویؔد سے کہا، ”یَاہوِہ اِسرائیل کے خُدا کی قَسم پرسوں اِسی وقت تک میں اَپنے باپ کے خیالات مَعلُوم کرلُوں گا۔ اگر وہ تمہارے مُوافق ہُوئے تو کیا مَیں تُجھے کویٔی خبر نہ بھیجوں گا اَور تُجھے آگاہ نہ کروں گا؟ \v 13 لیکن اگر میرا باپ تُجھے نُقصان پہُنچانے پر مائل نظر آئے اَور مَیں نے تُجھے خبر نہ دی اَور سلامتی سے رخصت نہ کیا تو یَاہوِہ یُوناتانؔ کے ساتھ اَیسا ہی بَلکہ اِس سے بھی زِیادہ کرے۔ یَاہوِہ تیرے ساتھ رہیں جَیسا کہ وہ میرے باپ کے ساتھ ہیں۔ \v 14 لیکن جَب تک میں زندہ ہُوں تُم بھی یَاہوِہ کی طرح مُجھ پر مسلسل مہربانی کرتے رہنا تاکہ میں مارا نہ جاؤں۔ اَور میرے گھرانے سے بھی اَپنے دستِ کرم کو باز مت رکھنا۔ \v 15 جَب یَاہوِہ داویؔد کے ایک ایک دُشمن کو رُوئے زمین پر سے مٹا دیں اُس وقت بھی تمہاری مہربانی ہم پر جاری رہے۔“ \p \v 16 لہٰذا یُوناتانؔ نے داویؔد کے گھرانے کے ساتھ یہ کہتے ہُوئے عہد باندھا، ”یَاہوِہ داویؔد کے دُشمنوں سے اِنتقام لیں۔“ \v 17 اَور یُوناتانؔ نے اُس مَحَبّت کے باعث جو اُسے داویؔد سے تھی اُسے دوبارہ قَسم کھانے کو کہا کیونکہ وہ اُس سے اَپنی جان کے برابر مَحَبّت رکھتا تھا۔ \p \v 18 اُس کے بعد یُوناتانؔ نے داویؔد سے کہا، ”کل نئے چاند کا تہوار ہے اَور تیری کمی بہت محسُوس ہوگی کیونکہ تمہاری نشست خالی رہے گی۔ \v 19 پرسوں شام کے قریب تُم اُس جگہ پہُنچ جانا جہاں تُم اِس مُصیبت کے شروع ہونے کے وقت چھُپے تھے اَور اُس پتّھر کے پاس جِس کا نام ازلؔ ہے اِنتظار کرنا۔ \v 20 میں اُس طرف تین تیر اِس طرح چلاؤں گا گویا میں کسی نِشانہ پر تیر مار رہا ہُوں۔ \v 21 پھر مَیں ایک لڑکے کو بھیجوں گا اَور کہُوں گا، ’جا اَور تیروں کا پتا لگا۔‘ اگر مَیں اُسے کہُوں، ’دیکھو، وہ تیر تمہاری اِس طرف ہیں، اُنہیں یہاں لے آ،‘ تَب تُم بِلا خوف آجانا کیونکہ یَاہوِہ کی حیات کی قَسم تُم محفوظ رہوگے اَور تُجھے کویٔی خطرہ نہ ہوگا۔ \v 22 لیکن اگر مَیں اُس لڑکے سے کہُوں، ’دیکھ، وہ تیر اُس طرف ہیں،‘ تَب تُم وہاں سے چل دینا کیونکہ یَاہوِہ نے تُجھے رخصت کیا ہے۔ \v 23 اَور وہ وعدے جو ہم نے ایک دُوسرے کے ساتھ کئے ہیں تُم اُنہیں یاد رکھنا کیونکہ یَاہوِہ اَبد تک اُن کے گواہ ہیں۔“ \p \v 24 لہٰذا داویؔد اُس میدان میں چھُپ گیا اَور جَب نئے چاند کا تہوار آیا تو بادشاہ کھانا کھانے بیٹھا۔ \v 25 اَور بادشاہ اَپنے دستور کے مُطابق دیوار کے پاس اَپنی مسند پر یُوناتانؔ کے بالمقابل بیٹھا اَور ابنیرؔ شاؤل کے پہلو میں بیٹھا۔ لیکن داویؔد کی جگہ خالی تھی۔ \v 26 اُس روز شاؤل نے کچھ نہ کہا کیونکہ اُس نے سوچا، ”داویؔد کے ساتھ ضروُر اَیسی کویٔی بات ہو گئی ہوگی جِس کے باعث وہ ناپاک ہو گیا ہے۔ یقیناً وہ ضروُر ناپاک ہی ہوگا۔“ \v 27 لیکن اگلے دِن بھی جو کہ نئے چاند کے مہینے کا دُوسرا دِن تھا داویؔد کی جگہ خالی رہی۔ تَب شاؤل نے اَپنے بیٹے یُوناتانؔ سے کہا، ”کیا بات ہے کہ یِشائی کا بیٹا کھانے پر نہ تو کل آیا اَور نہ ہی آج؟“ \p \v 28 یُوناتانؔ نے شاؤل کو جَواب دیا، ”داویؔد نے بڑی عاجزی سے مُجھ سے بیت لحمؔ جانے کے لیٔے اِجازت مانگی تھی۔ \v 29 اُس نے کہاتھا، ’مُجھے جانے دے کیونکہ اُس شہر میں میرا گھرانا قُربانی کر رہاہے اَور میرے بھایٔی نے مُجھے حُکم دیا ہے کہ میں وہاں مَوجُود رہُوں۔ اَور اگر تمہاری مُجھ پر نظرِکرم ہے تو مُجھے اِجازت فرما کہ اَپنے بھائیوں کو دیکھنے چلا جاؤں۔‘ اُسی وجہ سے وہ بادشاہ کے دسترخوان پر حاضِر نہیں ہُوا۔“ \p \v 30 شاؤل کا غُصّہ یُوناتانؔ پر بھڑکا اَور اُس نے اُس سے کہا، ”اَے کجرو اَور باغی عورت کے بیٹے، مُجھے مَعلُوم ہے کہ تُم نے اَپنی شرم اَور اَپنی ماں کی برہنگی کی شرم کی بہ نِسبت جِس نے تُجھے پیدا کیا، یِشائی کے بیٹے کی زِیادہ طرفداری کی ہے۔ \v 31 جَب تک رُوئے زمین پر یِشائی کا بیٹا زندہ ہے نہ تو تُجھے اَور نہ تیری بادشاہی کو قِیام حاصل ہوگا۔ اَب اُسے بُلوا اَور میرے پاس لا کیونکہ اُس کا مَرنا ضروُر ہے!“ \p \v 32 تَب یُوناتانؔ نے اَپنے باپ شاؤل سے پُوچھا، ”وہ کیوں ماراجائے؟ اُس نے کیا کیا ہے؟“ \v 33 لیکن شاؤل نے اُسے مارنے کے لیٔے اَپنا بھالا پھینکا۔ تَب یُوناتانؔ جان گیا کہ اُس کا باپ داویؔد کو قتل کرنے کا اِرادہ رکھتا ہے۔ \p \v 34 یُوناتانؔ سخت غُصّہ میں دسترخوان سے اُٹھ گیا اَور مہینے کے نئے چاند کے اُس دُوسرے دِن اُس نے کھانا نہ کھایا کیونکہ وہ اَپنے باپ کے داویؔد کے ساتھ شرمناک برتاؤ کے باعث سخت رنجیدہ تھا۔ \p \v 35 صُبح کو یُوناتانؔ داویؔد سے اَپنی مُلاقات کے لیٔے باہر اُس میدان کو گیا اَور اُس کے ساتھ ایک چھوٹا لڑکا بھی تھا۔ \v 36 اُس نے اُس لڑکے سے کہا، ”دَوڑ اَورجو تیر میں چلاؤں اُنہیں ڈھونڈو۔“ جَب وہ لڑکا دَوڑا جا رہاتھا تو اُس نے اَیسا تیر چھوڑا جو اُس کے آگے جا کر گرا۔ \v 37 جَب وہ لڑکا اُس جگہ پہُنچا جہاں یُوناتانؔ کا تیر گرا تھا تو یُوناتانؔ نے اُس کے پیچھے پُکار کر کہا، ”کیا تیر تُجھ سے دُور اُس طرف نہیں گرا؟“ \v 38 اَور پھر یُوناتانؔ نے چِلّاکر یہ کہا، ”جلدی کر، جلدی جا! ٹھہر مت!“ اَور وہ لڑکا اُس تیر کو اُٹھاکر اَپنے آقا کے پاس لَوٹ آیا۔ \v 39 (اِس میں کیا بھید تھا، وہ لڑکا کچھ بھی نہ جانتا تھا۔ صِرف داویؔد اَور یُوناتانؔ ہی جانتے تھے)۔ \v 40 پھر یُوناتانؔ نے اَپنے ہتھیار لڑکے کو دئیے اَور کہا، ”جا اُنہیں واپس شہر میں لے جا۔“ \p \v 41 جَب وہ لڑکا چلا گیا تو داویؔد اُس پتّھر کے جُنوب کی طرف سے نِکلا اَور تین دفعہ مُنہ کے بَل زمین پر یُوناتانؔ کے سامنے جھُکا۔ تَب اُنہُوں نے ایک دُوسرے کو چُوما اَور خُوب رُوئے۔ لیکن داویؔد بہت ہی زِیادہ رُویا۔ \p \v 42 یُوناتانؔ نے داویؔد سے کہا، ”سلامتی سے چلا جا کیونکہ ہم دونوں نے یَاہوِہ کے نام سے قَسم کھا کر کہا ہے، ’تمہارے اَور میرے درمیان اَور تیری نَسل اَور میری نَسل کے درمیان یَاہوِہ اَبد تک گواہ ہیں!‘ “ تَب داویؔد رخصت ہُوا اَور یُوناتانؔ واپس شہر کو چلا گیا۔ \c 21 \s1 داویؔد کی نوبؔ کو روانگی \p \v 1 اَور داویؔد نوبؔ میں احِیملکؔ کاہِنؔ کے پاس آئے اَور جَب احِیملکؔ داویؔد سے مِلے تو وہ کانپ اُٹھے اَور اُنہُوں نے پُوچھا، ”آپ اکیلے کیوں؟ آپ کے ساتھ کویٔی اَور کیوں نہیں؟“ \p \v 2 داویؔد نے احِیملکؔ کاہِنؔ کو جَواب دیا، ”بادشاہ نے ایک خاص کام میرے سُپرد کیا ہے اَور مُجھ سے کہا ہے، ’آپ کے خاص مقصد اَور آپ کی ہدایات کے متعلّق کسی کو کویٔی علم نہ ہو۔‘ میرے آدمیوں کی بات تو مَیں نے اُنہیں بتا دی ہے کہ وہ مُجھے ایک مقام پر ملیں۔ \v 3 اِس وقت آپ کے پاس کیا دستیاب ہے؟ مُجھے پانچ چپاتیاں یا جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے دے دیں۔“ \p \v 4 لیکن اُس کاہِنؔ نے داویؔد کو جَواب دیا، ”میرے پاس عام روٹیاں نہیں ہیں۔ البتّہ کچھ مُقدّس روٹیاں مَوجُود ہیں، آدمی اُنہیں کھا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ عورتوں سے الگ رہے ہُوں۔“ \p \v 5 داویؔد نے کاہِنؔ کو جَواب دیا، ”درحقیقت چند روز سے عورتیں ہم سے الگ رہی ہیں۔ چاہے سفر مَعمولی ہی کیوں نہ ہو، جَب کبھی میں روانہ ہوتا ہُوں میرے آدمیوں کے بَدن پاک ہوتے ہیں۔ اَور آج تو وہ مُقدّس کھانے کے لیٔے ضروُر ہی پاک ہوں گے۔“ \v 6 لہٰذا اُس کاہِنؔ نے اُسے نذر کی روٹی دے دی کیونکہ اَور روٹی وہاں نہیں تھی فقط نذر کی روٹی تھی جو یَاہوِہ کے آگے سے اُٹھائی گئی تھی اَور اُس دِن جَب وہ اُٹھائی گئی تو اُس کے عوض گرم روٹی رکھی گئی تھی۔ \p \v 7 اَور اُس دِن شاؤل کے خادِموں میں سے ایک وہاں یَاہوِہ کے حُضُور میں رُکا ہُوا تھا۔ وہ دوئیگؔ اِدُومی تھا جو شاؤل کے چرواہوں کا سردار تھا۔ \p \v 8 اَور داویؔد نے احِیملکؔ سے پُوچھا، ”کیا آپ کے پاس یہاں کویٔی بھالا یا تلوار نہیں ہے؟ میں اَپنے ساتھ تلوار یا کویٔی دُوسرا ہتھیار نہیں لا سَکا کیونکہ بادشاہ کا کام فَوری تعمیل طلب تھا۔“ \p \v 9 اُس کاہِنؔ نے جَواب دیا، ”فلسطینی گولیتؔ کی تلوار جسے تُونے اَیلہ کی وادی میں قتل کیا تھا کپڑے میں لپٹی ہُوئی افُود کے پیچھے رکھی ہے اگر تُم اُسے لینا چاہتاہے تو لے لو۔ اِس ایک کے سِوا یہاں اَور کویٔی تلوار نہیں ہے۔“ \p داویؔد نے کہا، ”میرے لیٔے اُس جَیسی تلوار کویٔی ہے ہی نہیں۔ وُہی مُجھے دے دیں۔“ \s1 داویؔد کا گاتؔھ چلے جانا \p \v 10 اُسی دِن داویؔد شاؤل کے ڈر سے بھاگ کر گاتؔھ کے بادشاہ اکِیشؔ کے پاس چلا گیا۔ \v 11 لیکن اکِیشؔ کے خادِموں نے اُس سے کہا، ”کیا یہ مُلک کا بادشاہ داویؔد نہیں؟ کیا یہ وُہی نہیں جِس کے متعلّق وہ رقص کرتے ہُوئے گاتے ہیں: \q1 ” ’شاؤل نے تو ہزاروں کو مارا ہے \q2 پر داویؔد نے دس ہزار کو مارا ہے‘؟“ \p \v 12 داویؔد یہ الفاظ سُن کر پریشان ہو گیا اَور اُس کے دِل میں اکِیشؔ شاہِ گاتؔھ کی طرف سے خوف بیٹھ گیا۔ \v 13 لہٰذا اُس نے اُن کی مَوجُودگی میں پاگل پن کا ڈھونگ رچایا اَور جَب وہ اُن کے ہاتھوں میں تھا تو اُس نے دیوانوں کی سِی حرکتیں شروع کر دیں۔ مثلاً وہ پھاٹک کے کواڑوں کو نوچنے لگا اَور تھُوک سے اَپنی داڑھی کو تر کر لیا۔ \p \v 14 تَب اکِیشؔ نے اَپنے خادِموں سے کہا، ”اِس آدمی کی طرف دیکھو! یہ تو پاگل ہے! اِسے میرے پاس کیوں لایٔے ہو؟ \v 15 کیا میرے پاس پاگلوں کی کمی ہے جو تُم اِس شخص کو یہاں لے آئے ہو کہ میرے سامنے اَیسی حرکتیں کرے؟ کیا یہ آدمی میرے گھر میں قدم رکھنے کے لائق تھا؟“ \c 22 \s1 داویؔد کا عدُلّامؔ اَور مِصفاہؔ میں چلے جانا \p \v 1 اَور داویؔد گاتؔھ سے روانہ ہُوا اَور بچ کر عدُلّامؔ کے غار کی طرف نکل گیا۔ جَب اُس کے بھائیوں اَور اُس کے باپ کے گھرانے نے اِس کی بابت سُنا تو وہ وہاں اُس کے پاس پہُنچے۔ \v 2 تمام لوگ جو مُصیبت میں تھے یا مقروض تھے یا غَیر مطمئن تھے اُس کے گرد جمع ہو گئے اَور داویؔد اُن کا سردار بَن گیا۔ اَور تقریباً چار سَو آدمی اُس کے ساتھ تھے۔ \p \v 3 وہاں سے داویؔد مُوآب میں مِصفاہؔ کو گیا اَور شاہِ مُوآب سے کہا، ”کیا اِجازت ہے کہ میرے باپ اَور ماں آپ کے یہاں آکر اُس وقت تک رہیں جَب تک مُجھے مَعلُوم نہ ہو جائے کہ خُدا میرے لیٔے کیا کریں گے؟“ \v 4 پس وہ اُنہیں شاہِ مُوآب کے پاس لے آیا اَور جَب تک داویؔد قلعہ میں رہا وہ اُن کے پاس رہے۔ \p \v 5 لیکن گادؔ نبی نے داویؔد سے کہا، ”قلعہ میں مت رہو بَلکہ یہُودیؔہ کے مُلک میں چلے جاؤ۔“ پس داویؔد روانہ ہُوا اَور حِریتؔ کے جنگل کو چلا گیا۔ \s1 شاؤل کا نوبؔ کے کاہِنوں کو قتل کرنا \p \v 6 شاؤل نے سُنا کہ داویؔد اَور اُن کے آدمیوں کا سُراغ مِل گیا ہے۔ اُس وقت شاؤل بھالا ہاتھ میں لیٔے گِبعہؔ میں پہاڑی پر جھاؤ کے درخت کے نیچے بیٹھا ہُوا تھا اَور اُن کے تمام اہلکار اُس کے چَوگرد کھڑے تھے۔ \v 7 شاؤل نے اُن سے کہا، ”سُنو اَے بنی بِنیامین کے مَردو! کیا یِشائی کا بیٹا تُم سَب کو کھیت اَور تاکستان دے گا؟ کیا وہ تُم سَب کو ہزاروں کا سالار اَور سینکڑوں کا سردار بنائے گا؟ \v 8 کیا اُسی وجہ سے تُم سَب نے میرے خِلاف سازش کی ہے؟ جَب میرا ہی بیٹا یِشائی کے بیٹے سے عہدوپیمان کرتا ہے تو کویٔی بھی مُجھے نہیں بتاتا۔ تُم میں سے کسی کو بھی میری پروا نہیں اَور نہ ہی تُم میں سے کویٔی مُجھے بتاتا ہے کہ میرے بیٹے نے میرے خادِم کو میرے خِلاف گھات لگا کر بیٹھنے کے لیٔے اُکسایا ہے اَور وہ آج بھی یہی کر رہاہے۔“ \p \v 9 لیکن دوئیگؔ اِدُومی نے جو شاؤل کے اہلکاروں کے ساتھ کھڑا تھا کہا، ”مَیں نے یِشائی کے بیٹے کو نوبؔ میں احِیملکؔ بَن احِیطوبؔ کاہِنؔ کے پاس آتے دیکھا۔ \v 10 اَور احِیملکؔ نے اُس کے لیٔے یَاہوِہ سے دریافت کیا اَور اُسے توشہ سفر اَور گولیتؔ فلسطینی کی تلوار بھی دی۔“ \p \v 11 تَب بادشاہ نے احِیملکؔ بَن احِیطوبؔ کاہِنؔ کو اَور اُس کے باپ کے سارے گھرانے کو جو نوبؔ میں کاہِنؔ تھے بُلوا بھیجا اَور وہ سَب بادشاہ کے پاس حاضِر ہُوئے۔ \v 12 تَب شاؤل نے کہا، ”اَے احِیطوبؔ کے بیٹے سُن!“ \p اُس نے جَواب دیا، ”اَے میرے آقا، فرمائیں۔“ \p \v 13 پھر شاؤل نے اُن سے کہا، ”تُم نے یعنی تُو اَور یِشائی کے بیٹے نے میرے خِلاف سازش کیوں کی ہے کہ اُسے روٹی اَور تلوار دے کر اُس کے لیٔے خُدا سے سوال کیا، اُسی کا نتیجہ ہے کہ اُس نے میرے خِلاف بغاوت کر دی اَور میری گھات میں بیٹھا ہُواہے۔ وہ آج بھی یہی کر رہاہے؟“ \p \v 14 احِیملکؔ نے بادشاہ کو جَواب دیا، ”آپ کے تمام خادِموں میں سے داویؔد جَیسا وفادار کون ہے؟ وہ بادشاہ کا داماد ہے اَور آپ کے مُحافظ دستے کا سردار ہے۔ وہ آپ کے گھرانے میں بڑا قابل اِحترام سمجھا جاتا ہے۔ \v 15 کیا اُس دِن پہلا موقع تھا کہ مَیں نے خُدا سے اُس کے لیٔے سوال کیا؟ ہرگز نہیں! لہٰذا بادشاہ اَپنے خادِم پر یا اُس کے باپ کے گھرانے میں سے کسی پر اِلزام نہ لگائیں کیونکہ آپ کا خادِم اِس سارے مُعاملہ کے متعلّق کچھ بھی نہیں جانتا۔“ \p \v 16 لیکن بادشاہ نے کہا، ”اَے احِیملکؔ، تُو اَور تیرا سارا خاندان یقیناً موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے گا۔“ \p \v 17 بادشاہ نے اَپنے مُحافظ دستے کے سپاہیوں کو جو پاس ہی کھڑے تھے حُکم دیا: ”جاؤ اَور یَاہوِہ کے کاہِنوں کو مار ڈالو کیونکہ اُنہُوں نے بھی داویؔد کی حمایت کی ہے۔ اُنہیں مَعلُوم تھا کہ وہ مفرور ہے پھر بھی اُنہُوں نے مُجھے نہیں بتایا۔“ \p لیکن بادشاہ کے اہلکار یَاہوِہ کے کاہِنوں پر ہاتھ اُٹھانے اَور اُنہیں مار ڈالنے پر رضامند نہ تھے۔ \p \v 18 تَب بادشاہ نے دوئیگؔ سے کہا، ”تُو جا اَور کاہِنوں کو مار گرا۔“ لہٰذا اِدُومی دوئیگؔ گیا اَور اُنہیں مار گرایا۔ اُس دِن اُس نے پچاسی آدمیوں کو جو کتان کا افُود پہنے ہُوئے تھے قتل کیا۔ \v 19 اُس نے کاہِنوں کے شہر نوبؔ کو بھی اُس کے مَردوں اَور عورتوں، بچّوں اَور شیرخواروں بَلکہ اُس کے گائے بَیلوں، گدھوں اَور بھیڑوں کو بھی تلوار سے تہِ تیغ کر ڈالا۔ \p \v 20 لیکن ابیاترؔ جو احِیطوبؔ بِن احِیملکؔ کے بیٹوں میں سے ایک تھا بچ نِکلا اَور داویؔد کے ساتھ شامل ہونے کے لیٔے بھاگ گیا۔ \v 21 ابیاترؔ نے داویؔد کو بتایا، شاؤل نے یَاہوِہ کے کاہِنوں کو قتل کر دیا ہے۔ \v 22 تَب داویؔد نے ابیاترؔ سے کہا، ”اُس دِن جَب دوئیگؔ اِدُومی وہاں تھا تو مُجھے مَعلُوم تھا کہ وہ یقیناً شاؤل کو بتائے گا۔ سو مَیں ہی تیرے سارے خاندان کی موت کا ذمّہ وار ہُوں۔ \v 23 میرے پاس رہ اَور خوف نہ کر۔ جو تیری جان کا خواہاں ہے وہ مُجھے بھی جان سے مار ڈالنا چاہتے ہیں۔ تُو میرے پاس محفوظ رہے گا۔“ \c 23 \s1 داویؔد کا قعیلہؔ کو بچانا \p \v 1 جَب داویؔد کو خبر مِلی، ”فلسطینی قعیلہؔ کے خِلاف لڑ رہے ہیں اَور کھلیانوں کو لُوٹ رہے ہیں،“ \v 2 تو داویؔد نے یہ کہتے ہُوئے یَاہوِہ سے سوال کیا، ”کیا میں فلسطینیوں پر حملہ کرنے کے لیٔے جاؤں؟“ \p اَور یَاہوِہ نے داویؔد کو جَواب دیا، ”جاؤ، فلسطینیوں پر حملہ کرو اَور قعیلہؔ کو بچاؤ۔“ \p \v 3 لیکن داویؔد کے آدمیوں نے اُن سے کہا، ”ہم تو یہاں یہُودیؔہ میں ہی خوفزدہ ہیں، اگر ہم فلسطینی فَوجوں کے خِلاف قعیلہؔ کو جایٔیں گے تو کس قدر زِیادہ خوفزدہ ہوں گے!“ \p \v 4 تَب داویؔد نے ایک دفعہ پھر یَاہوِہ سے سوال کیا، ”اَور یَاہوِہ نے داویؔد کو جَواب دیا کہ، قعیلہؔ کو جاؤ کیونکہ مَیں فلسطینیوں کو تمہارے ہاتھ میں کر دُوں گا۔“ \v 5 لہٰذا داویؔد اَور اُن کے آدمی قعیلہؔ جا کر فلسطینیوں سے لڑے اَور اُن کے مویشی لے آئے۔ داویؔد نے فلسطینیوں کو سخت جانی نُقصان پہُنچایا اَور قعیلہؔ کے لوگوں کو بچا لیا۔ \v 6 (اَور ابیاترؔ بِن احِیملکؔ جَب داویؔد کے پاس قعیلہؔ میں فرار ہوکر آئےتھے تو وہ اَپنے ساتھ افُود بھی لے آئےتھے)۔ \s1 شاؤل کا داویؔد کے تعاقب میں جانا \p \v 7 جَب شاؤل کو خبر مِلی کہ داویؔد قعیلہؔ کو گئے ہیں تو شاؤل نے کہا، ”خُدا نے اُسے میرے ہاتھ میں کر دیا ہے کیونکہ داویؔد اَیسے شہر میں داخل ہُواہے جِس میں پھاٹک اَور اڑبنگے ہیں۔ اَب وہ وہاں سے نکل نہیں سَکتا۔“ \v 8 شاؤل نے اَپنی تمام فَوجوں کو لڑنے کے لیٔے بُلا لیا اَور حُکم دیا کہ وہ قعیلہؔ جا کر داویؔد اَور اُن کے آدمیوں کا محاصرہ کر لیں۔ \p \v 9 جَب داویؔد کو مَعلُوم ہُوا کہ شاؤل اُس کے خِلاف سازش کر رہاہے تو داویؔد نے ابیاترؔ کاہِنؔ سے کہا، ”افُود لاؤ۔“ \v 10 اَور داویؔد نے کہا، ”اَے یَاہوِہ اِسرائیل کے خُدا! آپ کے خادِم نے صَاف صَاف سُنا ہے کہ شاؤل نے قعیلہؔ آنے اَور میری وجہ سے اِس شہر کو تباہ کرنے کا منصُوبہ بنایا ہے۔ \v 11 کیا قعیلہؔ کے باشِندے مُجھے اُن کے حوالہ کر دیں گے؟ کیا شاؤل یہاں آئیں گے جَیسا کہ آپ کے خادِم نے سُنا ہے؟ اَے یَاہوِہ، اِسرائیل کے خُدا اَپنے خادِم کو بتا دیں!“ \p یَاہوِہ نے فرمایا، ”وہ ضروُر آئے گا۔“ \p \v 12 پھر داویؔد نے دوبارہ پُوچھا، ”کیا قعیلہؔ کے باشِندے مُجھے اَور میرے لوگوں کو شاؤل کے حوالہ کر دیں گے؟“ \p اَور یَاہوِہ نے جَواب دیا، ”ضروُر کریں گے۔ وہ تُجھے حوالہ کر دیں گے۔“ \p \v 13 لہٰذا داویؔد اَور اُن کے آدمی جو کہ تعداد میں تقریباً چھ سَو تھے قعیلہؔ سے نکل گیٔے اَور جگہ بہ جگہ گھُومتے رہے۔ جَب شاؤل کو خبر مِلی کہ داویؔد قعیلہؔ سے بچ کر نکل گیا ہے تو وہ شاؤل کے تعاقب میں نہ گیا۔ \p \v 14 اَور داویؔد نے بیابان کے قلعوں میں اَور زِیفؔ کے بیابان کی پہاڑیوں میں قِیام کیا۔ شاؤل مُتواتر داویؔد کی تلاش میں رہا لیکن خُدا نے داویؔد کو شاؤل کے ہاتھ نہ آنے دیا۔ \p \v 15 جَب داویؔد زِیفؔ کے بیابان میں حورِشؔ میں تھے تو اُنہیں مَعلُوم ہُوا کہ شاؤل اُن کی جان لینے کو نکلے ہیں \v 16 اَور شاؤل کا بیٹا یُوناتانؔ حورِشؔ میں داویؔد کے پاس گیا اَور خُدا پر پُورا بھروسا رکھنے میں اُس کی مدد کی۔ \v 17 اَور کہا، ”خوف نہ کر، میرا باپ شاؤل تُجھ پر ہاتھ نہ ڈالیں گے۔ تُو اِسرائیل پر بادشاہ ہوگا اَور مَیں تُجھ سے دُوسرے درجہ پر ہُوں گا۔ میرے باپ شاؤل بھی یہ جانتے ہیں۔“ \v 18 اَور اُن دونوں نے یَاہوِہ کے آگے عہدوپیمان کیا۔ پھر یُوناتانؔ اَپنے گھر چلا گیا لیکن داویؔد حورِشؔ میں ہی رہے۔ \p \v 19 اَور زِیفؔ کے لوگوں نے گِبعہؔ میں شاؤل کے پاس جا کر کہا، ”کیا داویؔد ہمارے درمیان حکِیلہؔ کی پہاڑی پر یشعمونؔ کے جُنوب میں حورِشؔ کے قلعہ میں چھُپا ہُوا نہیں ہے؟ \v 20 اَب اَے بادشاہ جَب بھی آپ آنا چاہیں آجائیے اَور ہم داویؔد کو بادشاہ کے حوالہ کرنے کا ذمّہ لیتے ہیں۔“ \p \v 21 شاؤل نے جَواب دیا کہ، ”میری فکر کرنے کے لیٔے یَاہوِہ تُمہیں برکت بخشے۔ \v 22 جاؤ اَور مزید تیّاری کرو اَور مَعلُوم کرو کہ داویؔد عموماً کہاں جاتا ہے اَور وہاں اُسے کس نے دیکھاہے؟ مُجھے مَعلُوم ہُواہے کہ وہ بڑی مکّاری سے کام لیتا ہے۔ \v 23 تُم چھُپنے کی اُن تمام جگہوں کو جنہیں وہ اِستعمال کرتا ہے دریافت کرو اَور پُختہ اِطّلاع کے ساتھ میرے پاس واپس آؤ۔ اگر وہ اُس علاقہ میں ہُوا تو مَیں تمہارے ساتھ جاؤں گا اَور اُسے یہُوداہؔ کے تمام برادریوں میں تلاش کروں گا۔“ \p \v 24 لہٰذا وہ روانہ ہُوئے اَور شاؤل سے پیشتر زِیفؔ کے بیابان پہُنچ گیٔے۔ داویؔد اَور اُن کے آدمی یشعمونؔ کے جُنوب میں عراباہؔ میں معونؔ کے بیابان میں تھے۔ \v 25 اَور شاؤل اَور اُس کے آدمیوں نے اُس کی تلاش شروع کی۔ جَب داویؔد کو اِس کے بارے میں خبر مِلی تو وہ نیچے چٹّان کو چلا گیا اَور معونؔ کے بیابان میں جا اُترا۔ جَب شاؤل نے یہ سُنا تو وہ بھی داویؔد کے تعاقب میں معونؔ کے بیابان میں گیا۔ \p \v 26 شاؤل پہاڑ کے ساتھ ساتھ ایک طرف جا رہاتھا اَور داویؔد اَور اُس کے آدمی پہاڑ کی دُوسری طرف تاکہ جِتنی جلدی ہو شاؤل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جایٔیں۔ جَب شاؤل اَور اُس کی فَوجیں داویؔد اَور اُس کے آدمیوں کو پکڑنے کے لیٔے اَپنا گھیرا تنگ کر رہی تھیں۔ \v 27 تو ایک قاصِد یہ کہنے کے لیٔے شاؤل کے پاس آیا کہ، ”فوراً آئیے کیونکہ فلسطینیوں نے مُلک پر اَچانک حملہ کر دیا ہے۔“ \v 28 تَب شاؤل نے داویؔد کا تعاقب کرنا چھوڑ دیا اَور فلسطینیوں کا مُقابلہ کرنے کے لیٔے روانہ ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اِس جگہ کو سیلاؔ ہمّخلقوتؔ یا فراری چٹّان کہتے ہیں۔ \v 29 اَور داویؔد وہاں سے نکل گیا اَور عینؔ گیدیؔ کے قلعوں میں رہنے لگا۔ \c 24 \s1 داویؔد کا شاؤل کی جان بخشنا \p \v 1 جَب شاؤل فلسطینیوں کے تعاقب سے لَوٹا تو اُسے خبر مِلی، ”داویؔد عینؔ گیدیؔ کے بیابان میں ہے۔“ \v 2 لہٰذا شاؤل تمام اِسرائیل میں سے تین ہزار آدمیوں کو لے کر جنگلی بکروں کی چٹّانوں کے قریب داویؔد اَور اُس کے آدمیوں کو تلاش کرنے کے لیٔے روانہ ہُوا۔ \p \v 3 اَور راستہ میں بھیڑوں کے باڑوں کے پاس پہُنچا۔ وہاں ایک غار تھا۔ شاؤل رفع حاجت کے لیٔے اُس کے اَندر گیا۔ اُسی غار کے پچھلے حِصّہ میں داویؔد اَور اُس کے آدمی بیٹھے تھے۔ \v 4 اُن آدمیوں نے داویؔد سے کہا، ”یہی وہ دِن ہے جِس کی بابت یَاہوِہ نے آپ سے کہاتھا، ’مَیں تیرے دُشمن کو تیرے ہاتھ میں کر دُوں گا اَور تُو جَیسا چاہے اُس کے ساتھ سلُوک کرنا۔‘ “ تَب داویؔد نے دبے پاؤں باہر کی طرف جا کر شاؤل کے جُبّہ کے دامن کا ایک ٹکڑا اَیسے کاٹا کہ شاؤل کو پتا نہ چلا۔ \p \v 5 بعدازاں شاؤل کے جُبّہ کا دامن کاٹنے کی وجہ سے داویؔد کے ضمیر نے اُسے ملامت کی \v 6 اَور اُس نے اَپنے آدمیوں سے کہا، ”یَاہوِہ نہ کریں کہ میں اَپنے مالک سے جو یَاہوِہ کا ممسوح ہے اَیسا سلُوک کروں یا اُس کے خِلاف اَپنا ہاتھ اُٹھاؤں کیونکہ وہ یَاہوِہ کا ممسوح ہے۔“ \v 7 اِن الفاظ کے ساتھ داویؔد نے اَپنے آدمیوں کو ڈانٹا اَور اُنہیں شاؤل پر حملہ کرنے سے روک دیا۔ جَب شاؤل غار سے نکل کر اَپنی راہ جا رہاتھا۔ \p \v 8 تو داویؔد نے غار سے باہر جا کر شاؤل کو آواز دی کہ، ”میرے آقا بادشاہ!“ جَب شاؤل نے پیچھے مُڑ کر دیکھا، تو داویؔد نیچے جھُکا اَور اُن کے سامنے مُنہ کے بَل زمین پر گِر کر اُنہیں سَجدہ کیا۔ \v 9 اُس نے شاؤل سے کہا، ”جَب لوگ کہتے، ’داویؔد آپ کو نُقصان پہُنچانے پر تُلا ہُواہے تو آپ اُن کی باتیں کیوں سُنتے ہیں؟‘ \v 10 اِس دِن آپ نے خُود اَپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح یَاہوِہ نے غار میں آپ کو میرے ہاتھوں میں کر دیا اَور بعض نے مُجھے ترغِیب بھی دی کہ مَیں آپ کو قتل کر دُوں لیکن مَیں نے آپ کو قتل نہیں کیا، کیونکہ مَیں نے اَپنے دِل میں اِرادہ کر لیا تھا، ’میں اَپنا ہاتھ اَپنے آقا کے خِلاف ہرگز نہیں اُٹھاؤں گا کیونکہ میرے آقا یَاہوِہ کا ممسوح ہیں۔‘ \v 11 اَبّا، اَپنے جُبّہ کے اِس ٹکڑے کو جو میرے ہاتھ میں ہے دیکھئے! مَیں نے آپ کے جُبّہ کے دامن کو کاٹ لیا لیکن آپ کو قتل نہیں کیا۔ لہٰذا اَب آپ دیکھ لیں اَور سمجھ لیں کہ مَیں نے کویٔی گُناہ نہیں کیا اَور نہ میں بغاوت کا مُجرم ہُوں۔ مَیں نے آپ کو کویٔی نُقصان نہیں پہُنچایا لیکن آپ ہیں کہ میری جان لینے کے لیٔے میرے پیچھے پڑے ہُوئے ہیں۔ \v 12 کاش یَاہوِہ آپ کے اَور میرے درمیان اِنصاف کریں اَورجو بھی ظُلم آپ نے مُجھ پر کیا ہے یَاہوِہ اُس کا اِنتقام لیں گے لیکن مَیں آپ کو ہاتھ تک نہ لگاؤں گا۔ \v 13 حالانکہ پرانی ضرب المثل چلی، ’بدکاروں سے بدی ہوتی ہے،‘ لیکن مَیں آپ کو ہاتھ تک نہ لگاؤں گا۔ \p \v 14 ”شاہِ اِسرائیل کس کے پیچھے نِکلا ہے؟ آپ کس کے پیچھے پڑے ہیں؟ ایک مَرے ہُوئے کُتّے کے پیچھے؟ ایک پِسُّو کے پیچھے؟ \v 15 پس یَاہوِہ ہی ہمارے مُنصِف ہوں اَور ہمارے درمیان فیصلہ کریں۔ وہ ہی میری وکالت فرمائیں، یہاں تک کہ مُجھے آپ کے ہاتھ سے بچا کر میری بےگُناہی ثابت کریں۔“ \p \v 16 جَب داویؔد نے یہ کہنا ختم کیا تو شاؤل نے پُوچھا، ”داویؔد میرے بیٹے! کیا یہ تیری ہی آواز ہے؟“ اَور وہ چِلّا چِلّاکر رونے لگا۔ \v 17 اَور اُس نے داویؔد سے کہا، ”تُم مُجھ سے زِیادہ راستباز ہو۔ تُم نے میرے ساتھ اَچھّا برتاؤ کیا ہے لیکن مَیں نے تمہارے ساتھ بُرا سلُوک کیا۔ \v 18 تُم نے ابھی جو بھلائی میرے ساتھ کی ہے اُس سے ظاہر ہے کہ یَاہوِہ نے مُجھے آپ کے ہاتھ میں دے دیا تھا لیکن آپ نے مُجھے قتل نہ کیا۔ \v 19 بھلا کویٔی آدمی اَپنے دُشمن کو پا کر اُسے بغیر نُقصان پہُنچائے جانے دیتاہے؟ یَاہوِہ اُس نیکی کے عوض جو آپ نے مُجھ سے آج کے دِن کی آپ کو نیک اجر دے۔ \v 20 میں خُوب جانتا ہُوں کہ تُم یقیناً بادشاہ بنوگے اَور اِسرائیل کی بادشاہی تمہارے ہاتھ میں آکر اُستوار ہوگی۔ \v 21 اِس لئے اَب مُجھ سے یَاہوِہ کی قَسم کھا کہ تُم میری نَسل کو ہلاک نہیں کروگے اَور میرے باپ کے گھرانے سے میرا نام مٹا نہیں دوگے۔“ \p \v 22 اِس پر داویؔد نے شاؤل سے قَسم کھائی اَور شاؤل گھر لَوٹ گیا لیکن داویؔد اَور اُس کے آدمی قلعہ میں چلے گیٔے۔ \c 25 \s1 داویؔد، نابالؔ اَور ابیگیلؔ \p \v 1 اَور اَیسا ہُوا کہ شموایلؔ وفات کی ہو گئی اَور سَب اِسرائیلیوں نے جمع ہوکر اُن کا ماتم کیا اَور اُنہُوں نے اُنہیں رامہؔ میں اُن کے گھر میں دفن کیا۔ تَب داویؔد پارانؔ کے بیابان میں چلےگئے۔ \p \v 2 اَور معونؔ میں ایک آدمی تھا جِس کی کرمِلؔ میں جائداد تھی۔ وہ بڑا رئیس تھا۔ اُس کی ایک ہزار بکریاں اَور تین ہزار بھیڑیں تھیں۔ وہ کرمِلؔ میں اَپنی بھیڑوں کے بال کتر رہاتھا۔ \v 3 اُس کا نام نابالؔ تھا اَور اُس کی بیوی کا نام ابیگیلؔ تھا۔ وہ بڑی ہوشیار اَور خُوبصورت عورت تھی لیکن اُس کا خَاوند بنی کالبؔ سے تھا اَور وہ بڑا بد مِزاج اَور بدکار تھا۔ \p \v 4 جَب داویؔد بیابان میں تھے تو اُنہُوں نے سُنا کہ نابالؔ اَپنی بھیڑوں کے بال کاٹ رہاہے۔ \v 5 لہٰذا داویؔد نے دس جَوان آدمیوں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ، ”کرمِلؔ میں نابالؔ کے پاس جاؤ اَور میری طرف سے اُسے سلام کرو \v 6 اَور اُسے کہنا کہ آپ کی عمر دراز ہو، آپ کے اَور آپ کے گھرانے کی سلامتی ہو، آپ کے تمام مال و متاع کی سلامتی ہو! \p \v 7 ” ’مُجھے مَعلُوم ہے کہ یہ بھیڑوں کے بال کترنے کا وقت ہے۔ جَب آپ کے چرواہے ہمارے ساتھ تھے تو ہم نے اُن سے کویٔی بدسلُوکی نہ کی اَور جَب تک وہ کرمِلؔ میں تھے اُن کا کچھ بھی گُم نہ ہُوا۔ \v 8 آپ اَپنے خادِموں سے پُوچھیں اَور وہ آپ کو بتائیں گے۔ اِس لیٔے میرے نوجوانوں پر کرم فرمائیں کیونکہ ہم خُوشی کے موقع پر آئے ہیں۔ مہربانی کرکے اَپنے خادِموں کو اَور اَپنے بیٹے داویؔد کو جو کچھ بھی آپ کے پاس اُنہیں دینے کے لیٔے ہے عطا فرمائیں۔‘ “ \p \v 9 جَب داویؔد کے آدمی وہاں پہُنچے تو اُنہُوں نے داویؔد کے نام سے یہ پیغام نابالؔ کو دیا اَور جَواب کا اِنتظار کرنے لگے۔ \p \v 10 نابالؔ نے داویؔد کے خادِموں کو جَواب دیا، ”یہ داویؔد کون ہے؟ یہ یِشائی کا بیٹا کون ہے؟ آج کل بہت سے خادِم اَپنے مالکوں کو چھوڑکر چلے جاتے ہیں۔ \v 11 میں اَپنی روٹی اَور پانی اَور ذبح کئے ہُوئے جانوروں کا گوشت جو میرے بال کترنے والوں کے لیٔے ہے لے کر اُن آدمیوں کو کیوں دُوں جو پتا نہیں کہاں سے آئے ہیں؟“ \p \v 12 یہ سُن کر داویؔد کے آدمی اُلٹے پاؤں پھرے اَور لَوٹ گیٔے۔ اَور جَب وہ واپس پہُنچے تو اُنہُوں نے ساری باتیں بتائیں۔ \v 13 داویؔد نے اَپنے آدمیوں سے کہا، ”اَپنی اَپنی تلوار کمر سے باندھ لو!“ لہٰذا اُنہُوں نے اَپنی تلواریں باندھ لیں۔ اَور داویؔد نے بھی اَپنی تلوار حمائِل کرلی۔ تقریباً چار سَو آدمی داویؔد کے ساتھ گیٔے جَب کہ دو سَو رسد کے پاس ٹھہرے رہے۔ \p \v 14 نابالؔ کے خادِموں میں سے ایک نے نابالؔ کی بیوی ابیگیلؔ کو بتایا، ”ہمارے آقا کو مُبارکباد دینے کے لیٔے داویؔد نے بیابان سے قاصِد بھیجے تھے، لیکن اُس نے اُن کی بے عزّتی کی۔ \v 15 حالانکہ وہ آدمی ہمارے لیٔے بڑے مفید ثابت ہُوئے تھے۔ اُنہُوں نے ہم سے کبھی بھی بُرا برتاؤ نہ کیا اَور جَب تک ہم اُن کے ساتھ باہر میدانوں میں تھے ہمارا کچھ بھی گُم نہ ہُوا۔ \v 16 بَلکہ جَب تک ہم اَپنی بھیڑیں اُن کے نزدیک چراتے رہے وہ رات اَور دِن ہمارے چاروں طرف دیوار بنے رہے۔ \v 17 اَب تُم خُوب سوچ لو اَور دیکھ لو کہ تُم کیا کر سکتی ہو کیونکہ ہمارے آقا پر اَور اُس کے تمام گھرانے کے اُوپر مُصیبت منڈلا رہی ہے۔ وہ اِس قدر تُند مِزاج آدمی ہے کہ کویٔی اُس سے بات ہی نہیں کر سَکتا۔“ \p \v 18 تَب ابیگیلؔ نے دیر کئے بغیر دو سَو روٹیاں، دو مشکیزے مَے، پانچ بھیڑوں کے گوشت کا سالن، پانچ پیمانے\f + \fr 25‏:18 \fr*\fq پانچ پیمانے \fq*\ft تقریباً ستّائیس کِلوگرام\ft*\f* بھُنا ہُوا اناج، کشمش کی ایک سَو ٹکیاں اَور اَنجیر کی دو سَو ٹکیاں لے کر اُنہیں گدھوں پر لادا۔ \v 19 اَور اُس نے اَپنے خادِموں سے کہا، ”تُم مُجھ سے پہلے چل دو اَور مَیں تمہارے پیچھے پیچھے آتی ہُوں۔“ اُس نے اِن باتوں کو اَپنے خَاوند نابالؔ سے چُھپائے رکھا۔ \p \v 20 اَور جَب وہ گدھے پر سوار ہوکر پہاڑ کی ایک گہری گھاٹی میں آئی تو وہاں داویؔد اَور اُس کے آدمی پہاڑ سے نیچے اُسی کی طرف آ رہے تھے۔ وہ اُنہیں مِلی۔ \v 21 داویؔد نے تھوڑی دیر پہلے کہاتھا، ”ہم نے جو کچھ کیا بے فائدہ ثابت ہُواہے۔ مَیں نے تو اِس شخص کی جائداد کی بیابان میں پُوری طرح نگہبانی کی جِس کے باعث اُس کا کچھ بھی گُم نہ ہُوا لیکن اُس نے بھلائی کے بدلے مُجھ سے بُرائی کی ہے۔ \v 22 سو اگر مَیں صُبح تک اُس کے سارے لوگوں میں سے ایک مَرد بھی زندہ باقی رہنے دُوں تو خُدا داویؔد کے ساتھ اَیسا ہی بَلکہ اُس سے بھی زِیادہ کریں!“ \p \v 23 جَب ابیگیلؔ نے داویؔد کو دیکھا تو جلدی سے اَپنے گدھے سے نیچے اُتری اَور مُنہ کے بَل زمین پر داویؔد کے سامنے جُھکی۔ \v 24 اَور اُن کے قدموں میں گِر کر کہا: ”میرے آقا! اصلی قُصُوروار تو میں ہُوں۔ مہربانی سے اَپنی خادِمہ کو بولنے کی اِجازت دیں اَورجو کچھ آپ کی خادِمہ یہ کہنا چاہتی ہے اُسے سُنیں۔ \v 25 میرے آقا! آپ اُس بدکار آدمی نابالؔ کی طرف توجّہ نہ کریں کیونکہ جَیسا اُس کا نام ہے وہ خُود بھی وَیسا ہی ہے۔ اُس کا نام نابالؔ یعنی احمق ہے اَور حماقت اُس کے ساتھ رہتی ہے۔ لیکن مَیں آپ کی خادِمہ نے اُن آدمیوں کو نہیں دیکھا جنہیں میرے آقا نے بھیجا تھا۔ \v 26 اَب اَے میرے آقا! یَاہوِہ کی حیات کی قَسم اَور آپ کی جان کی قَسم چونکہ یَاہوِہ نے آپ کو خُونریزی سے اَور اَپنے ہی ہاتھوں سے اِنتقام لینے سے باز رکھا ہے اِس لیٔے آپ کے دُشمن اَور وہ تمام جو میرے آقا کو نُقصان پہُنچانے کا اِرادہ رکھتے ہیں نابالؔ کی مانند ہُوں۔ \v 27 اَور یہ ہدیہ جو آپ کی خادِمہ اَپنے آقا کے پاس لائی ہے، اُن جَوانوں کو جو میرے آقا کی پیروی کرتے ہیں دیا جائے۔ \p \v 28 ”مہربانی کرکے اَپنی خادِمہ کا جُرم مُعاف کر دیں۔ یَاہوِہ آپ کے خُدا میرے آقا کے لیٔے ایک مُستقِل خاندان قائِم کریں گے کیونکہ وہ یَاہوِہ کی لڑائیاں لڑتے ہیں اَور جَب تک آپ زندہ ہیں آپ میں کویٔی بدی نہ پائی جائے۔ \v 29 اگرچہ کویٔی اِنسان آپ کی جان لینے کے لیٔے آپ کا تعاقب کر رہاہے لیکن یَاہوِہ میرے آقا کی جان کو سلامت رکھیں گے۔ مگر آپ کے دُشمنوں کی جان کو وہ فلاخن کے پتّھر کی طرح پھینک دیں گے۔ \v 30 جَب یَاہوِہ میرے آقا کے لیٔے وہ سَب نیکیاں جو اُنہُوں نے آپ کے حق میں فرمائی ہیں کر چُکے تو، اَور آپ کو اِسرائیل کا حُکمران مُقرّر کر دیں گے \v 31 تو میرے آقا کے دِل سے خُون ناحق کا اَور اِنتقام لینے کے احساس کا بوجھ دُورہو جائے گا۔ اَور جَب یَاہوِہ آپ کو کامرانی بخشیں گے تو آپ اَپنی خادِمہ کو یاد فرمانا۔“ \p \v 32 داویؔد نے ابیگیلؔ سے کہا، ”بنی اِسرائیل کے خُدا یَاہوِہ کی سِتائش ہو جِس نے آج تُمہیں مُجھ سے مِلنے کے لیٔے بھیجا۔ \v 33 اِس اَچھّے فیصلہ کے لیٔے اَور مُجھے اِس دِن خُونریزی سے اَور اَپنے ہاتھوں سے اَپنا اِنتقام لینے سے باز رکھنے کے لیٔے خُدا تُمہیں برکت بخشے! \v 34 ورنہ یَاہوِہ اِسرائیل کے خُدا کی قَسم جنہوں نے تُجھے میرے ہاتھ سے بچا لیا۔ اگر تُم مُجھے مِلنے کے لیٔے جلدی سے نہ آتی تو پَو پھٹنے تک نابالؔ سے نِسبت رکھنے والا کویٔی بھی مَرد زندہ نہ رہتا۔“ \p \v 35 تَب داویؔد نے اُس کے ہاتھ سے جو کچھ وہ اُس کے لیٔے لائی تھی قبُول کر لیا اَور کہا، ”سلامت گھر جا۔ مَیں نے تیری باتیں سُن لی ہیں اَور تیری درخواست قبُول کرلی ہے۔“ \p \v 36 جَب ابیگیلؔ نابالؔ کے پاس گئی اُس وقت وہ گھر میں ایک بادشاہ کی مانند شاہانہ ضیافت کر رہاتھا۔ وہ بہت مسرُور تھا کیونکہ وہ نشہ میں چُور تھا۔ لہٰذا ابیگیلؔ نے پَو پھٹنے تک اُسے کچھ نہ بتایا۔ \v 37 پھر صُبح کے وقت جَب نابالؔ کا نشہ اُتر چُکاتھا اُس کی بیوی نے یہ تمام باتیں اُسے بتائیں جنہیں سُن کر اُس کا دِل دھک سے رہ گیا اَور وہ پتّھر کی مانند سُن پڑ گیا۔ \v 38 اَور تقریباً دس دِن بعد یَاہوِہ نے نابالؔ کو مارا اَور وہ مَر گیا۔ \p \v 39 جَب داویؔد نے سُنا کہ نابالؔ مَر گیا ہے تو اُس نے کہا، ”یَاہوِہ کی سِتائش ہو جِس نے نابالؔ کے خِلاف میرے مُقدّمہ کی حمایت کی اَور میری رُسوائی کا بدلہ لیا۔ اُس نے اَپنے خادِم کو بدی سے بچایا اَور نابالؔ کی شرارت اُسی کے سَر پر ڈال دی۔“ \p تَب داویؔد نے ابیگیلؔ کو پیغام بھیج کر شادی کی درخواست کی اَور \v 40 اُس کے خادِموں نے کرمِلؔ میں جا کر ابیگیلؔ سے کہا، ”داویؔد نے ہمیں تمہارے پاس شادی کے پیغام کے ساتھ بھیجا ہے اَور ہم تُجھے لینے آئے ہیں۔“ \p \v 41 وہ مُنہ کے بَل زمین پر سرنِگوں ہُوئی اَور کہنے لگی کہ میرے آقا، ”آپ کی خادِمہ آپ کی خدمت کرنے کے لیٔے اَور اَپنے آقا کے خادِموں کے پاؤں دھونے کے لیٔے تیّار ہے۔“ \v 42 اَور ابیگیلؔ جلدی سے ایک گدھے پر سوار ہُوئی اَور اَپنی پانچ خادِماؤں کے ہمراہ داویؔد کے قاصِدوں کے ساتھ گئی اَور داویؔد سے بیاہ کر لیا۔ \v 43 داویؔد نے یزرعیلؔ کی احِینوعمؔ سے بھی شادی کرلی اَور وہ دونوں اُس کی بیویاں بَن گئیں۔ \v 44 لیکن شاؤل نے اَپنی لڑکی میکلؔ جو داویؔد کی بیوی تھی پَلطیؔ ايلؔ بِن لائش ساکن گلّیمؔ کو دے دی تھی۔ \c 26 \s1 داویؔد کا پھر شاؤل کا جان بخشی کرنا \p \v 1 اَور اہلِ زِیفؔ نے گِبعہؔ میں شاؤل کے پاس جا کر کہا، ”داویؔد یشعمونؔ کے سامنے حکِیلہؔ کی پہاڑی پر چھُپا ہُواہے۔“ \p \v 2 لہٰذا شاؤل داویؔد کو تلاش کرنے کے لیٔے اِسرائیل کے چیدہ چیدہ تین ہزار آدمیوں کو ساتھ لے کر زِیفؔ کے بیابان کو گیا۔ \v 3 اَور شاؤل نے یشعمونؔ کے سامنے حکِیلہؔ کی پہاڑی کے اُوپر راہ کے کنارے پڑاؤ کیا۔ لیکن داویؔد بیابان میں رہا۔ جَب اُس نے دیکھا کہ شاؤل وہاں بھی اُس کے تعاقب میں آ پہُنچا ہے \v 4 تب داویؔد نے جاسُوس بھیج کر مَعلُوم کیا کہ کیا شاؤل واقعی آ گیا ہے۔ \p \v 5 تَب داویؔد روانہ ہُوا اَور اُس جگہ گیا جہاں شاؤل نے پڑاؤ کیا ہُوا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ شاؤل اَور فَوج کا سپہ سالار ابنیرؔ بِن نیرؔ لیٹے ہیں۔ شاؤل چھاؤنی کے اَندر لیٹا ہُوا تھا اَور اُس کے چاروں طرف فَوج خیمہ زن تھی۔ \p \v 6 تَب داویؔد نے حِتّی احِیملکؔ اَور ضرویاہؔ کے بیٹے ابیشائی سے جو یُوآبؔ کا بھایٔی تھا پُوچھا، ”کون میرے ساتھ چھاؤنی میں شاؤل کے پاس چلے گا؟“ \p ابیشائی نے کہا، ”مَیں آپ کے ساتھ چلُوں گا۔“ \p \v 7 لہٰذا داویؔد اَور ابیشائی رات کے وقت چھاؤنی میں جا گھُسے۔ شاؤل وہاں خیمہ میں پڑا سو رہاتھا اَور اُس کا نیزہ اُس کے سرہانے زمین میں گڑا ہُوا تھا اَور ابنیرؔ اَور لشکر کے لوگ اُس کے اِردگرد سوئے ہُوئے تھے۔ \p \v 8 تَب ابیشائی نے داویؔد سے کہا، ”آج خُدا نے تمہارے دُشمن کو تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ مُجھے اِجازت دیں کہ اَپنے نیزہ کے ایک ہی وار سے اُسے زمین سے پیوند کر دُوں۔ دُوسرے وار کی نَوبَت ہی نہیں آئے گی۔“ \p \v 9 لیکن داویؔد نے ابیشائی سے کہا، ”نہیں اُسے قتل نہ کرنا کیونکہ کون ہے جو یَاہوِہ کے ممسوح پر ہاتھ اُٹھائے اَور بےگُناہ رہے؟“ \v 10 داویؔد نے کہا، ”یَاہوِہ کی حیات کی قَسم، یَاہوِہ خُود ہی اُسے ماریں گے یا اُس کے اِنتقال کا وقت آئے گا اَور وہ مَر جائے گا، یا وہ جنگ میں جائے گا اَور فنا ہو جائے گا۔ \v 11 لیکن یَاہوِہ نہ کریں کہ میں یَاہوِہ کے ممسوح پر ہاتھ اُٹھاؤں۔ تُم اُس کے سرہانے کے قریب سے اُس کا نیزہ اَور پانی کی صُراحی لے آؤ، اُس کے بعد ہم چل دیں گے۔“ \p \v 12 لہٰذا داویؔد نے شاؤل کے سرہانے کے قریب سے وہ نیزہ اَور پانی کی صُراحی اُٹھا لی اَور وہ چل دیئے۔ اَور نہ کسی نے دیکھا اَور نہ کسی کو اِس کی خبر ہُوئی اَور نہ ہی کویٔی جاگا۔ وہ تمام سو رہے تھے کیونکہ یَاہوِہ نے اُنہیں گہری نیند سُلا دیا تھا۔ \p \v 13 تَب داویؔد وہاں سے نکل کر دُوسری طرف چلا گیا اَور کچھ دُور پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہو گیا اَور اُن کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔ \v 14 داویؔد نے فَوج کو اَور ابنیرؔ بِن نیرؔ کو پُکار کر کہا، ”اَے ابنیرؔ! تُم مُجھے جَواب کیوں نہیں دیتے؟“ \p ابنیرؔ نے جَواب دیا، ”تُم کون ہو اَور بادشاہ کو کیوں پُکار رہے ہو؟“ \p \v 15 داویؔد نے ابنیرؔ سے کہا، ”تُم بڑے بہادر شخص ہو نا؟ اَور اِسرائیل میں تمہاری مانند کون ہے؟ پھر تُم نے اَپنے مالک بادشاہ کی نگہبانی کیوں نہیں کی؟ تُمہیں پتا ہے کہ کویٔی تمہارے مالک بادشاہ کو ہلاک کرنے آیاتھا۔ \v 16 اَیسی لاپروائی اَچھّی نہیں۔ یَاہوِہ کی حیات کی قَسم تُم اَور تمہارے آدمی سزائے موت کے لائق ہیں کیونکہ تُم نے اَپنے مالک یَاہوِہ کے ممسوح کی نگہبانی نہیں کی۔ ذرا دیکھو کہ بادشاہ کا نیزہ اَور پانی کی صُراحی جو اُن کے سرہانے کے نزدیک تھی کہاں ہیں؟“ \p \v 17 تَب شاؤل نے داویؔد کی آواز پہچان کر کہا، ”اَے بیٹے داویؔد! کیا یہ تمہاری آواز ہے؟“ داویؔد نے جَواب دیا، ”اَے میرے آقا بادشاہ! ہاں یہ میری ہی آواز ہے۔“ \p \v 18 اَور اُس نے مزید کہا، ”میرے آقا اَپنے خادِم کا تعاقب کیوں کر رہے ہیں؟ مَیں نے کیا کیا ہے اَور میرا جُرم کیا ہے؟ \v 19 اَب میرے آقا بادشاہ ذرا اَپنے خادِم کی باتوں کو بھی سُن لیں! اگر یَاہوِہ نے آپ کو میرے خِلاف اُبھارا ہے تو وہ کویٔی ہدیہ قبُول کریں۔ اگر آدمیوں نے آپ کو بھڑکایا ہے تو وہ یَاہوِہ کے آگے ملعُون ہو! کیونکہ اُنہُوں نے مُجھے نکال دیا تاکہ میں یَاہوِہ کی دی ہُوئی مِیراث میں سے اَپنا حِصّہ پانے سے محروم کر دیا جاؤں اَور وہ کہتے ہیں جاؤ، ’دیگر معبُودوں کی پرستش کرو۔‘ \v 20 میری آرزُو تو یہ ہے کہ میرا خُون یَاہوِہ کی حُضُوری سے دُور زمین پر نہ گِرے کیونکہ شاہِ اِسرائیل ایک پِسُّو کی تلاش میں اِس طرح نِکلا ہے جَیسے وہ پہاڑوں میں تیتر پکڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔“ \p \v 21 شاؤل نے کہا، ”مَیں نے بڑی غلطی کی ہے۔ اَے میرے بیٹے داویؔد! لَوٹ آ کیونکہ آج تُونے میری جان کو قیمتی سمجھا۔ آئندہ مَیں تُجھے نُقصان پہُنچانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ مَیں نے یقیناً حماقت سے کام لیا۔ مُجھ سے واقعی بڑی خطا ہو گئی۔“ \p \v 22 داویؔد نے کہا، ”دیکھو، یہ ہے بادشاہ کا نیزہ۔ اَپنے جَوانوں میں سے کسی کو بھیج کہ وہ اُسے لے جائے۔ \v 23 یَاہوِہ ہر ایک کو اُس کی راستی اَور ایمانداری کا نیک اجر دیتے ہیں۔ یَاہوِہ نے آج آپ کو میرے ہاتھ میں دے دیا تھا لیکن مَیں نے یَاہوِہ کے ممسوح پر ہاتھ اُٹھانا مُناسب نہ سمجھا۔ \v 24 مُجھے پُوری اُمّید ہے کہ جِس طرح مَیں نے آج آپ کی زندگی کی قدر کی ہے، اُسی طرح یَاہوِہ میری زندگی کی قدر کریں اَور مُجھے تمام تکلیفوں سے نَجات بخشیں۔“ \p \v 25 تَب شاؤل نے داویؔد سے کہا، ”اَے میرے بیٹے داویؔد! تُم مُبارک ہو۔ تُم بڑے بڑے کام کروگے اَور یقیناً فتح پاؤگے۔“ \p لہٰذا داویؔد اَپنی راہ چلا گیا اَور شاؤل اَپنے گھر لَوٹ گیا۔ \c 27 \s1 داویؔد فلسطینیوں کے درمیان \p \v 1 لیکن داویؔد نے اَپنے دِل میں سوچا کہ، ”کسی نہ کسی دِن میں شاؤل کے ہاتھوں مارا جاؤں گا۔ لہٰذا میرے لیٔے یہی بہتر ہوگا کہ میں بچ کر فلسطینیوں کی سرزمین کو نکل جاؤں۔ تَب شاؤل نا اُمّید ہوکر اِسرائیل میں ہر جگہ میری جُستُجو کرنا چھوڑ دے گا اَور مَیں اُس کے ہاتھ سے بچ جاؤں گا۔“ \p \v 2 پس داویؔد اَور اُس کے ہمراہ وہ چھ سَو آدمی روانہ ہُوئے اَور وہ شاہِ گاتؔھ اکِیشؔ بِن معوُکؔ کے پاس چلے گیٔے۔ \v 3 اَور گاتؔھ میں اکِیشؔ کے پاس رہنے لگے۔ ہر آدمی کا خاندان اُس کے ساتھ تھا اَور داویؔد کی دو بیویاں یزرعیلؔ کی احِینوعمؔ اَور نابالؔ کی بِیوہ کرمِلی ابیگیلؔ اُس کے ساتھ تھیں۔ \v 4 جَب شاؤل کو خبر مِلی کہ داویؔد گاتؔھ کو فرار ہو گیا ہے تو اُس نے پھر کبھی کوشش نہ کی کہ اُسے تلاش کرے۔ \p \v 5 بعدازاں داویؔد نے اکِیشؔ سے کہا، ”اگر تمہاری مُجھ پر نظرِکرم ہے تو مُلک کے کسی شہر میں مُجھے جگہ دیدیں تاکہ میں وہاں رہُوں۔ اَور آپ کا خادِم آپ کے ساتھ دارُالحکومت میں کیوں رہے؟“ \p \v 6 لہٰذا اُس دِن اکِیشؔ نے اُسے صِقلاگ کا شہر دے دیا اَور تَب سے آج تک یہ شہر یہُوداہؔ کے بادشاہوں کا ہے۔ \v 7 اَور داویؔد فلسطینیوں کے علاقہ میں ایک سال اَور چار مہینے مُقیم رہا۔ \p \v 8 اَور اَیسا ہُوا کہ داویؔد اَور اُس کے آدمیوں نے جا کر گیشُوریوں، گِرزیوں اَور عمالیقیوں پر حملہ کیا۔ (قدیم زمانہ سے یہ لوگ اِس سرزمین میں جو شُورؔ اَور مِصر تک پھیلی ہُوئی ہے رہتے تھے)۔ \v 9 جَب کبھی داویؔد کسی علاقہ پر حملہ کرتا وہ کسی بھی مَرد یا عورت کو زندہ نہ چھوڑتا۔ لیکن بھیڑیں اَور مویشی، گدھے اَور اُونٹ اَور کپڑے لے لیتا اَور پھر وہ اکِیشؔ کے پاس لَوٹ آتا۔ \p \v 10 جَب اکِیشؔ پُوچھتا، ”آج تُم حملہ کرنے کہاں گئے؟“ تو داویؔد کہتا، ”یہُوداہؔ کے جُنوب میں یا یرحمئیلیوں کے جُنوب میں یا قینیوں کے جُنوب میں۔“ \v 11 اَور وہ کسی مَرد یا عورت کو گاتؔھ میں لانے کے لیٔے زندہ نہ چھوڑتا تھا کیونکہ اُس کا خیال تھا، ”وہ ہمارا پردہ فاش کر دیں گے اَور کہہ دیں گے، ’داویؔد نے یہ کچھ کیا ہے۔‘ “ اَور جَب تک وہ فلسطینی علاقہ میں رہا اُس کا اَیسا ہی دستور رہا۔ \v 12 اَور اکِیشؔ نے داویؔد کا یقین کرکے اَپنے دِل میں کہا، ”اَب وہ اَپنے لوگوں یعنی اِسرائیلیوں کے لیٔے اِس قدر نفرت کا باعث ہو گیا ہے کہ وہ ہمیشہ تک میرا ہی خادِم بنا رہے گا۔“ \c 28 \p \v 1 اُن ہی دِنوں میں اَیسا ہُوا کہ فلسطینیوں نے اِسرائیلیوں سے جنگ کے لیٔے اَپنی فَوجیں جمع کیں اَور اکِیشؔ نے داویؔد سے کہا، ”تُمہیں خُوب سمجھ لینا چاہئے کہ تُمہیں اَور تمہارے آدمیوں کو میرے لشکر کے ساتھ چلنا ہوگا۔“ \p \v 2 داویؔد نے کہا، ”تَب تو تُم خُود ہی دیکھ لوگے کہ تمہارا خادِم کیا کر سَکتا ہے۔“ \p اکِیشؔ نے جَواب دیا، ”بہت خُوب، پھر تو میں زندگی بھرکے لیٔے تُمہیں اَپنا ذاتی مُحافظ بنا لُوں گا۔“ \s1 شاؤل اَور عینؔ دورؔ کی جادُوگرنی \p \v 3 اَور شموایلؔ کی وفات ہو چُکی تھی اَور تمام اِسرائیلیوں نے اُن کا ماتم کرکے اُنہیں اُن کے اَپنے شہر رامہؔ میں دفن کر دیا تھا۔ اَور شاؤل نے اَرواح پرستوں کے آشناؤں اَور جادُوگروں کو مُلک سے نکال دیا تھا۔ \p \v 4 اَور فلسطینی جمع ہوکر نکلے اَور اُنہُوں نے شُونیمؔ میں ڈالی۔ اُدھر شاؤل نے بھی تمام اِسرائیلیوں کو جمع کرکے گِلبوعہؔ میں ڈالی۔ \v 5 اَور جَب شاؤل نے فلسطینیوں کی فَوج دیکھی تو وہ ڈر گیا اَور اُس کا دِل کانپنے لگا۔ \v 6 شاؤل نے یَاہوِہ سے دریافت کیا مگر یَاہوِہ نے اُسے نہ تو خوابوں، نہ اُوریمؔ اَور نہ نبیوں کے وسیلہ سے کویٔی جَواب دیا۔ \v 7 تَب شاؤل نے اَپنے خادِموں سے کہا، ”میرے لیٔے کویٔی اَیسی عورت تلاش کرو جِس کا آشنا کویٔی جنّ ہو تاکہ میں جا کر اُس سے پُوچھوں۔“ \p اُنہُوں نے کہا، ”عینؔ دورؔ میں ایک عورت رہتی ہے جِس کا آشنا جنّ ہے۔“ \p \v 8 لہٰذا شاؤل نے دُوسرے کپڑے پہن کر اَپنا بھیس بدل لیا اَور رات کو وہ اَور دو آدمی اُس عورت کے پاس گیٔے اَور کہا، ”میری خاطِر کسی جنّ کے ساتھ رابطہ قائِم کر،“ شاؤل نے اُس عورت سے کہا، ”اَور جِس کا میں نام لُوں اُسے میری خاطِر اُوپر لے آ۔“ \p \v 9 لیکن اُس عورت نے اُس سے کہا، ”تُم اَچھّی طرح جانتے ہو کہ شاؤل نے کیا کیا ہے۔ اُس نے اَرواح پرستوں کے آشناؤں اَور جادُوگروں کو مُلک میں ختم کر دیا ہے۔ تُم کیوں میری جان کے لیٔے پھندا لگا کر مُجھے مروانا چاہتے ہو؟“ \p \v 10 شاؤل نے اُس سے یَاہوِہ کی قَسم کھائی، ”یَاہوِہ کی حیات کی قَسم، اِس کے لیٔے تُمہیں کویٔی سزا نہ دی جائے گی۔“ \p \v 11 اُس عورت نے پُوچھا، ”مَیں تمہاری خاطِر کسے اُوپر لاؤں؟“ \p اُس نے کہا، ”شموایلؔ کو بُلا دے۔“ \p \v 12 جَب اُس عورت نے شموایلؔ کو دیکھا تو زور سے چِلّائی اَور شاؤل سے کہا، ”تُم نے مُجھے دھوکا کیوں دیا ہے؟ تُم شاؤل ہو نا؟“ \p \v 13 بادشاہ نے شاؤل سے کہا، ”تُم ڈرو مت۔ تُم کیا دیکھتی ہو؟“ \p اُس عورت نے کہا، ”میں ایک معبُود جَیسا کوئی زمین میں سے اُوپر آتے دیکھ رہی ہُوں۔“ \p \v 14 اُس نے پُوچھا، ”وہ کیسا دِکھائی دیتاہے؟“ \p اُس نے کہا، ”ایک بُوڑھا آدمی جُبّہ پہنے ہُوئے اُوپر آ رہاہے۔“ \p تَب شاؤل جان گیا کہ یہ شموایلؔ ہے۔ لہٰذا وہ نیچے جھُکا اَور مُنہ کے بَل زمین پر گِر کر سَجدہ کیا۔ \p \v 15 شموایلؔ نے شاؤل سے کہا، ”تُم نے مُجھے اُوپر لاکر پریشان کیوں کیا ہے؟“ \p شاؤل نے کہا، ”میں نہایت ہی پریشان ہُوں کیونکہ فلسطینی مُجھ سے لڑ رہے ہیں اَور خُدا مُجھ سے الگ ہو گیا ہے اَور اَب وہ نبیوں کے وسیلہ اَور نہ ہی خوابوں کے وسیلہ سے مُجھے جَواب دیتاہے۔ اِس لیٔے مَیں نے آپ سے مُلاقات کی کہ آپ مُجھے بتائیں کہ میں کیا کروں۔“ \p \v 16 شموایلؔ نے کہا، ”اَب جَب کہ یَاہوِہ تُجھ سے الگ ہو گیا ہے اَور تیرا دُشمن بَن گیا ہے تو مُجھ سے کیوں پُوچھتا ہے؟ \v 17 یَاہوِہ نے وُہی کیا ہے جِس کی اُنہُوں نے میری مَعرفت پیشین گوئی کی تھی۔ یَاہوِہ نے بادشاہی تیرے ہاتھوں سے چھین لی ہے اَور تیرے پڑوسی داویؔد کو دے دی ہے۔ \v 18 کیونکہ تُم نے یَاہوِہ کی بات نہ مانی اَور عمالیقیوں سے اُن کے قہر شدید کے مُوافق پیش نہیں آیا۔ اِسی سبب سے یَاہوِہ نے آج کے دِن تُجھ سے یہ برتاؤ کیا۔ \v 19 اَور یَاہوِہ تُجھے اَور اِسرائیل دونوں کو فلسطینیوں کے حوالہ کر دے گا اَور کل تُو اَور تیرے بیٹے میرے ساتھ ہوں گے۔ یَاہوِہ اِسرائیل کے لشکر کو بھی فلسطینیوں کے حوالہ کر دیں گے۔“ \p \v 20 تَب شاؤل شموایلؔ کی باتوں کے باعث خوفزدہ ہوکر فوراً زمین پر لمبا ہوکر گرا اَور اُس کی قُوّت جاتی رہی کیونکہ اُس نے اُس سارے دِن اَور ساری رات کچھ نہیں کھایا تھا۔ \p \v 21 وہ عورت شاؤل کے پاس آئی اَور اُس نے دیکھا کہ وہ بڑا پریشان ہے تو اُس نے کہا، ”دیکھیں، آپ کی لونڈی نے آپ کا حُکم مانا اَور اَپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وُہی کیا جو آپ نے مجھ سے کرنے کے لیٔے کہا۔ \v 22 اَب براہِ مہربانی اَپنی لونڈی کی بات سُنیں اَور اِجازت فرمائیں کہ مَیں آپ کے لیٔے کچھ کھانا لاؤں تاکہ آپ کھائیں اَور اَپنی راہ جانے کے لیٔے طاقت پائیں۔“ \p \v 23 اُس نے اِنکار کیا اَور کہا، ”میں نہیں کھاؤں گا۔“ \p لیکن جَب اُس کے آدمی بھی اُس عورت کے ساتھ مِل کر بضِد ہُوئے تو اُس نے اُن کی بات مان لی اَور زمین سے اُٹھ کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔ \p \v 24 اُس عورت کے پاس گھر میں ایک فربہ بچھڑا تھا جسے اُس نے فوراً ذبح کیا اَور پھر کچھ آٹا لے کر اُسے گوندھا اَور بے خمیری روٹیاں پکائیں \v 25 اَور اُنہیں شاؤل اَور اُس کے آدمیوں کے آگے رکھا اَور اُنہُوں نے کھایا اَور اُسی رات اُٹھ کر چلے گیٔے۔ \c 29 \s1 اکِیشؔ کا داویؔد کو صِقلاگ بھیجنا \p \v 1 اَور فلسطینیوں نے اَپنی تمام فَوجوں کو افیقؔ میں جمع کیا اَور اِسرائیلیوں نے یزرعیلؔ میں چشمہ کے پاس ڈالی۔ \v 2 جَب فلسطینی سردار سپاہیوں کے سَو کے اَور ہزار کے دستے بنا کر کُوچ کرنے لگے تو داویؔد اَور اُس کے آدمی بھی اُن کے عقب میں اکِیشؔ کے پیچھے پیچھے ہو لئے۔ \v 3 تَب فلسطینی سرداروں نے پُوچھا، ”اِن عِبرانیوں کا یہاں کیا کام ہے؟“ اکِیشؔ نے جَواب دیا، ”کیا یہ داویؔد نہیں جو شاہِ اِسرائیل شاؤل کا مُلازم تھا؟ وہ ایک سال سے زائد عرصہ سے میرے ساتھ ہے اَور جِس دِن سے اُس نے شاؤل کو چھوڑا آج تک مَیں نے اُس میں کویٔی بُرائی نہیں پائی۔“ \p \v 4 لیکن فلسطینی سردار اُس سے ناراض تھے اَور کہنے لگے، ”اُس آدمی کو واپس بھیج دو تاکہ، وہ اُس جگہ لَوٹ جائے جو اُس کے لیٔے مُقرّر کی گئی ہے۔ وہ جنگ میں ہمارے ساتھ ہرگز نہ جائے۔ کہیں اَیسا نہ ہو کہ وہ ہمارے ہی خِلاف جنگ کرنے لگے۔ اُس کے لیٔے اَپنے آقا کی خُوشنودی دوبارہ حاصل کرنے کے لیٔے ہمارے آدمیوں کے سَروں کو کاٹ دینے سے بہتر کیا ہو سَکتا ہے؟ \v 5 کیا یہ داویؔد وُہی نہیں ہے جِس کے متعلّق اُنہُوں نے ناچتے ہُوئے گا گا کر کہاتھا: \q1 ” ’شاؤل نے تو ہزاروں کو قتل کیا ہے، \q2 لیکن داویؔد نے دس ہزاروں کو مارا ہے‘؟“ \p \v 6 لہٰذا اکِیشؔ نے داویؔد کو بُلاکر کہا، ”یَاہوِہ کی حیات کی قَسم تُم حق پرست آدمی ہو اَور تُمہیں اَپنی فَوج میں آتا جاتا دیکھ کر مُجھے بڑی خُوشی ہوتی ہے اَور جِس دِن سے تُم آئے ہو تَب سے آج تک مَیں نے تُم میں کویٔی بدی نہیں پائی۔ لیکن میرے سردار تُمہیں پسند نہیں کرتے۔ \v 7 لہٰذا لَوٹ کر سلامت چلے جاؤ اَور کویٔی اَیسا قدم نہ اُٹھنا کہ فلسطینی سرداروں کو ناراض ہونے کا موقع ملے۔“ \p \v 8 داویؔد نے اکِیشؔ سے پُوچھا، ”مَیں نے کیا کیا ہے؟ جِس دِن سے مَیں آپ کے پاس آیا ہُوں تَب سے آج تک آپ نے اَپنے خادِم کے خِلاف کون سِی بات پائی ہے کہ میں اَپنے آقا بادشاہ کے دُشمنوں کے خِلاف جا کر لڑ نہیں سَکتا؟“ \p \v 9 اکِیشؔ نے داویؔد کو جَواب دیا، ”میں جانتا ہوں کہ تُم میری نظروں میں اِتنا ہی نیک ہو جِتنا خُدا کا فرشتہ؛ تاہم فلسطینی سرداروں نے کہا ہے، ’وہ جنگ میں ہمارے ساتھ ہرگز نہ جائے۔‘ \v 10 لہٰذا اَب تُم صُبح سویرے رَوشنی ہوتے ہی اَپنے آقا کے خادِموں کے ہمراہ جو تمہارے ساتھ آئے ہیں روانہ ہو جانا۔“ \p \v 11 لہٰذا داویؔد اَور اُس کے آدمی صُبح سویرے اُٹھ بیٹھے تاکہ فلسطینیوں کے مُلک کو لَوٹ جایٔیں اَور فلسطینی یزرعیلؔ کو لَوٹ گیٔے۔ \c 30 \s1 داویؔد کا عمالیقیوں کو ہلاک کرنا \p \v 1 داویؔد اَور اُس کے آدمی تیسرے دِن صِقلاگ جا پہُنچے۔ عمالیقی جُنوبی علاقہ اَور صِقلاگ پر اَچانک چڑھ آئے اَور اُنہُوں نے حملہ کرکے صِقلاگ کو جَلا دیا۔ \v 2 اَور عورتوں کو اَور اُن سَب کو جو اُس میں تھے کیا جَوان کیا ضعیف اسیر کر لیا۔ اُنہُوں نے اُن میں سے کسی کو جان سے نہ مارا لیکن جَب گیٔے تو اُنہیں اُٹھالے گیٔے۔ \p \v 3 جَب داویؔد اَور اُس کے آدمی صِقلاگ شہر میں آئے تو اُنہُوں نے دیکھا کہ اِسے آگ سے تباہ کر دیا گیا ہے اَور اُن کی بیویوں اَور بیٹے اَور بیٹیوں کو اسیر کر لیا گیا ہے۔ \v 4 لہٰذا داویؔد اَور اُس کے آدمی چِلّا چِلّاکر رونے لگے حتّیٰ کہ اُن میں رونے کی طاقت باقی نہ رہی۔ \v 5 داویؔد کی دونوں بیویاں یزرعیلؔ کی احِینوعمؔ اَور کرمِلؔ کے نابالؔ کی بِیوہ ابیگیلؔ اسیر کرلی گئی تھیں۔ \v 6 داویؔد بڑا پریشان تھا کیونکہ وہ لوگ اُسے سنگسار کرنے کی باتیں کرنے لگے تھے۔ اِس لیٔے کہ ہر ایک کا دِل اَپنے بیٹوں اَور بیٹیوں کے لیٔے بڑا رنجیدہ تھا لیکن داویؔد نے یَاہوِہ اَپنے خُدا میں قُوّت پائی۔ \p \v 7 تَب داویؔد نے احِیملکؔ کے بیٹے ابیاترؔ کاہِنؔ سے کہا، ”میرے پاس افُود لاؤ۔“ اَور ابیاترؔ اُسے اُس کے پاس لے آیا۔ \v 8 اَور داویؔد نے یَاہوِہ سے پُوچھا، ”کیا میں اُن چھاپہ ماروں کا پیچھا کروں؟ کیا میں اُنہیں جا لُوں گا؟“ \p یَاہوِہ نے فرمایا، ”اُن کا تعاقب کر۔ یقیناً تُو اُنہیں جا لے گا اَور اسیروں کو چھُڑانے میں کامیاب ہوگا۔“ \p \v 9 لہٰذا داویؔد اَور وہ چھ سَو آدمی جو اُس کے ساتھ تھے گہری وادی بسورؔ میں پہُنچے۔ وہاں کچھ آدمی پیچھے چھوڑ دئیے گیٔے۔ \v 10 کیونکہ دو سَو آدمی اِس قدر تھکے ماندے تھے کہ وہ بسورؔ ندی کو پار کرنے کے قابل نہ تھے۔ لیکن داویؔد اَور چار سَو آدمیوں نے تعاقب جاری رکھا۔ \p \v 11 اُنہیں میدان میں ایک مِصری مِلا جسے وہ داویؔد کے پاس لایٔے۔ اُنہُوں نے اُسے پینے کے لیٔے پانی اَور کھانے کے لیٔے روٹی دی \v 12 اَور اَنجیر کی ٹکیا کا ایک ٹکڑا اَور کشمش کی دو ٹکیاں دیں جنہیں کھا کر وہ تازہ دَم ہو گیا کیونکہ تین دِن اَور تین رات تک نہ تو اُس نے کھانا کھایا تھا، نہ پانی پیا تھا۔ \p \v 13 تَب داویؔد نے اُس سے پُوچھا، ”تُم کس کے آدمی ہو اَور کہاں سے آئے ہو؟“ \p اُس نے کہا، ”میں ایک مِصری ہُوں اَور ایک عمالیقی کا غُلام ہُوں۔ تین دِن پیشتر جَب مَیں بیمار ہو گیا تو میرا مالک مُجھے چھوڑ گیا۔ \v 14 ہم نے کریتیوں کے جُنوب میں اَور یہُوداہؔ کے علاقہ اَور کالبؔ کے جُنوب میں لُوٹ مار کی اَور صِقلاگ کو آگ سے پھُونک دیا۔“ \p \v 15 داویؔد نے اُس سے پُوچھا، ”کیا تُم مُجھے اُس چھاپہ مار دستہ تک لے جا سکتے ہو؟“ \p اُس نے جَواب دیا کہ اگر آپ مُجھ سے خُدا کی قَسم کھائیں کہ آپ مُجھے قتل نہیں کریں گے اَور نہ ہی مُجھے میرے مالک کے حوالہ کریں گے تو مَیں آپ کو اُن تک لے جاؤں گا۔ \p \v 16 اَور وہ داویؔد کو لے گیا۔ داویؔد نے دیکھا کہ وہاں وہ ہر طرف پھیلے ہُوئے ہیں اَور کھانے پینے اَور رنگ رلیاں منانے میں مشغُول ہیں کیونکہ اُنہُوں نے فلسطینیوں کے مُلک سے اَور یہُوداہؔ کے مُلک سے بڑی مقدار میں مال لُوٹا تھا۔ \v 17 اَور داویؔد شام کے وقت سے لے کر دُوسرے دِن کی شام تک اُن سے لڑتا رہا اَور اُن میں سے کویٔی بھی بچ کر نہ جا سَکا سِوائے اُن چار سَو جَوانوں کے جو اُونٹوں پر سوار ہوکر بھاگ نکلے تھے۔ \v 18 داویؔد نے وہ سَب کچھ جو عمالیقی لُوٹ کر لے گیٔے تھے واپس لے لیا جِن میں اُس کی دو بیویاں بھی شامل تھیں۔ \v 19 اُن کا کچھ بھی گُم نہ ہُوا۔ نہ کویٔی جَوان یا بُوڑھا۔ نہ کویٔی لڑکا یا لڑکی۔ نہ لُوٹ کا مال یا کویٔی اَور چیز جو وہ اُٹھالے گیٔے تھے۔ ”داویؔد نے ایک ایک چیز واپس لے لی۔“ \v 20 اُس نے تمام بھیڑ بکریاں اَور گائے بَیل لے لیٔے، جنہیں اُس کے آدمی دیگر مویشیوں کے آگے آگے ہانکتے ہُوئے لے آئے اَور اعلان کر دیا کہ، ”یہ داویؔد کا مالِ غنیمت ہے۔“ \p \v 21 تَب داویؔد اُن دو سَو آدمیوں کے پاس آیا جو بہت زِیادہ تھکے ماندہ ہونے کے باعث داویؔد کے پیچھے نہ جا سکے تھے اَور وادی بسورؔ میں پیچھے چھوڑ دئیے گیٔے تھے۔ وہ داویؔد اَور اُس کے ساتھ کے آدمیوں سے مِلنے کو نکلے۔ جَب داویؔد اَور اُس کے آدمی نزدیک پہُنچے تو اُس نے اُن کی خیروعافیت دریافت کی۔ \v 22 لیکن داویؔد کے ساتھ آنے والے پیروکاروں میں سے اُن تمام بد ذات اَور فتنہ پرداز آدمیوں نے کہا، ”چونکہ وہ ہمارے ساتھ نہیں گیٔے تھے اِس لیٔے ہم اُنہیں لُوٹ کے اِس مال میں سے جو ہم نے واپس لیا ہے کویٔی حِصّہ نہ دیں گے۔ تاہم ہر ایک آدمی اَپنی بیوی بچّے لے کر جا سَکتا ہے۔“ \p \v 23 داویؔد نے کہا، ”نہیں بھائیو! تُمہیں اُس مال کے ساتھ جو یَاہوِہ نے ہمیں دیا ہے اَیسا نہیں کرنا چاہئے۔ اُنہُوں نے ہمیں بچایا اَور اُس فَوج کو جِس نے ہم پر چڑھائی کی ہمارے ہاتھ میں کر دیا۔ \v 24 جو تُم کہتے ہو اُسے کون مانے گا؟ اُس آدمی کا حِصّہ جو پیچھے رسد کے پاس رہا اُتنا ہی ہے جِتنا اُس کا جو جنگ کے لیٔے گیا۔ سَب کو برابر حِصّہ ملے گا۔“ \v 25 پس داویؔد نے اُس دِن یہی قانُون اَور آئین نافذ کر دیا جو آج تک اِسرائیل میں جاری ہے۔ \p \v 26 جَب داویؔد صِقلاگ میں آیا تو اُس نے لُوٹ کے مال سے کچھ یہُوداہؔ کے بُزرگوں کو جو اُس کے دوست تھے یہ کہہ کر بھیجا، ”یَاہوِہ کے دُشمنوں سے لُوٹے ہُوئے مال میں سے یہ ہدیہ تمہارے لیٔے ہے۔“ \p \v 27 اُس نے اُسے اُن کے پاس بھیجا جو بیت ایل، جُنوبی رامات یا رامات کے نِیگیوؔ اَور یتّیرؔ میں تھے۔ \v 28 اَور اُن کے پاس جو عروعؔر، سِفموتؔھ، اِشتموُعؔ میں تھے \v 29 اَور اُن کے پاس جو رَکلؔ میں تھے اَور اُن کے پاس جو یرحمئیلیوں اَور قینیوں کے شہروں میں تھے \v 30 اَور اُن کے پاس جو حُرمہؔ، بور عشٰنؔ، عتھاکؔ میں تھے \v 31 اَور اُن کے پاس جو حِبرونؔ میں تھے اَور سَب جگہ جہاں جہاں داویؔد اَور اُس کے آدمی گھُومے پھرے تھے۔ \c 31 \s1 شاؤل کی خُودکُشی \p \v 1 اَور فلسطینی اِسرائیل سے لڑے اَور اِسرائیلی اُن کے سامنے سے بھاگے اَور بہت سے قتل ہوکر گِلبوعہؔ پہاڑی پر گِرے۔ \v 2 اَور فلسطینیوں نے شاؤل اَور اُس کے بیٹوں کا بڑی سرگرمی سے تعاقب کیا اَور اُس کے بیٹوں یُوناتانؔ، ابینادابؔ اَور ملکِیشوعؔ کو مار ڈالا۔ \v 3 جَب شاؤل کے اِردگرد جنگ بہت شدید ہو گئی اَور تیر اَندازوں نے اُسے جا لیا اَور تیروں سے اُسے زخمی کر دیا۔ \p \v 4 تَب شاؤل نے اَپنے سلاح بردار سے کہا، ”اَپنی تلوار کھینچ اَور میرے جِسم میں گھونپ دے ورنہ وہ نامختون آکر مُجھے چھید کر بے عزّت کر دیں گے۔“ \p لیکن اُس کا سلاح بردار خوف اَور دہشت کے باعث اَیسا نہ کر سَکا۔ لہٰذا شاؤل نے اَپنی تلوار لی اَور اُس پر جا گرا۔ \v 5 جَب اُس کے سلاح بردار نے دیکھا کہ شاؤل مَر گیا تو وہ بھی اَپنی تلوار پر گرا اَور اُس کے ساتھ مَر گیا۔ \v 6 پس شاؤل، اُس کے تینوں بیٹے، اُس کا سلاح بردار اَور اُس کے تمام آدمی اُسی دِن ایک ساتھ مَر گیٔے۔ \p \v 7 جَب وادی اَور یردنؔ کے دُوسری طرف تمام اِسرائیلیوں نے دیکھا کہ اِسرائیلی فَوج بھاگ گئی ہے اَور شاؤل اَور اُس کے بیٹے مَر گیٔے ہیں تو وہ بھی اَپنے شہروں کو چھوڑکر بھاگ نکلے اَور فلسطینی آئے اَور وہاں رہنے لگے۔ \p \v 8 اگلے دِن جَب فلسطینی لاشوں کے کپڑے وغیرہ اُتارنے آئے تو اُنہُوں نے دیکھا کہ شاؤل اَور اُس کے تینوں بیٹوں کی لاشیں گِلبوعہؔ پہاڑ پر پڑی ہُوئی ہیں۔ \v 9 اُنہُوں نے شاؤل کا سَر کاٹ لیا اَور اُس کا زرہ بکتر اُتار لیا۔ اُنہُوں نے فلسطینیوں کے تمام مُلک میں، اَپنے بُت خانوں میں اَور تمام لوگوں کے درمیان اِس خُوشخبری کا اعلان کرنے کے لیٔے قاصِد بھیجے۔ \v 10 اُنہُوں نے اُس کے زرہ بکتر کو عستوریتؔ کے مَندِر میں رکھا اَور اُس کی لاش کو بیت شانؔ کی دیوار پر لٹکا دیا۔ \p \v 11 جَب یبیسؔ گِلعادؔ کے باشِندوں تک یہ خبر پہُنچی جو فلسطینیوں نے شاؤل سے کیا تھا سُنا \v 12 تو اُن کے تمام سُورما مَردوں نے رات کو بیت شانؔ تک سفر کیا اَور شاؤل اَور اُس کے بیٹوں کی لاشوں کو بیت شانؔ کی دیوار سے اُتار کر یبیسؔ کو چلے گیٔے اَور وہاں اُن کو جَلا دیا۔ \v 13 اَور اُن کی ہڈّیاں لے کر یبیسؔ میں جھاؤ کے درخت کے نیچے دفن کر دیں اَور سات دِن تک روزہ رکھا۔